تازہ تر ین

تیسری عالمی جنگ حقیقت یا قیاس آرائی

محمدنعیم قریشی
دس جولائی کے روز پاکستان کے معروف اخبار روزنامہ ”خبریں“ میں پینٹاگون کے بیان کی لگی شہ سرخی نے غالباً سب ہی کو چونکا دیا ہے جس میں امریکا عالمی قوتوں کو خبردار کررہا ہے کہ دنیا میں تیسری عالمی جنگ چھڑنے کاخدشہ ہے،اس بیان میں امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ چین ایک ایسا بمبار تیارکررہاہے جو چین کو زمینی،سمندری اور ہوا کہ ذریعے اسلحہ فائر کرنے کی صلاحیت دے گاجبکہ ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ روس اور چین دس سال سے جدید اسلحہ بنارہے ہیں،قارئین کرام! میں سمجھتا ہوں کہ امریکا کا یہ بیان دنیا بھر میں خوف پیدا کرنے کی ایک سازش توہوسکتاہے مگر اس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ امریکا خود اقرار کررہاہے کہ اب بڑی طاقتوں کے پاس ایسے ہتھیار موجود ہیں جو ایک نئی عالمی جنگ میں ایک دوسرے کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں،امریکا تو چند ایک ملکوں کی جانب اشارہ کررہاہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نیوکلیئر بم صرف ایک امریکا کے پاس ہی نہیں ہے بلکہ یہ روس،چین، اسرائیل، انڈیا، نارتھ کوریا سمیت پاکستان کے پاس بھی موجود ہے بلکہ ان ممالک میں تو اب اس سے بھی زیادہ خطرناک ہتھیاروں پر کام ہورہا ہے وقت کے ساتھ ساتھ ان خطرناک ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی میں بھی بے پناہ اضافہ ہورھاہے،میں سمجھتا ہوں کہ امریکا کو شاید اس بات کا دکھ ہے کہ دنیا اس قسم کا اسلحہ کیوں بنارہی ہے یعنی وہ خود بنالے تو ٹھیک ہے کوئی دوسرا اپنی حفاظت کے لیے ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے! بظاہر تو ایسا ہی لگتاہے کہ امریکا دنیابھر میں بڑھتی ہوئی ایٹمی قوتوں سے خوفزدہ ہوچکاہے اور ان قوتوں کے سامنے اپنی طاقت کو کم ہوتا ہوادیکھ رہاہے،لہذاہم ماضی کی جانب دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے ہمیں سوائے تباہی،خون خرابہ اور ہلاکتوں کے کچھ نہ ملا ہے کیونکہ دنیا اب یہ بھی جان چکی ہے کہ اس طرح کی بڑی جنگوں سے مسائل اور معاملات حل نہیں ہوتے لہٰذا امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے اس قسم کی بات کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔اس سے قبل بھی امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے نومبر2017میں ایک امریکی جریدے کو انٹریو دیتے ہوئے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کردیاتھا جس میں کہاگیا تھا کہ تیسری عالمی جنگ کا راستہ ہموار رہورہاہے،اور ایران سے اس نقطہ جنگ کا آغاز ہوگا اور اس جنگ میں اسرائیل بھی شامل ہوگا، اور امریکا کی جانب سے ماضی میں ہم نے دیکھا کہ عراق میں موجود ایران کی ایک پاور فل شخصیت جسے ایرانی بہت مانتے تھے قاسم سلیمانی کو ایک ڈرون حملے میں ماردیا گیا،جو کہ امریکی صدر کا براہ راست حکم تھا اس ڈرون نے ایک خو دمختار ریاست اور اس کی طاقت کو للکارا تھاجس پر ایران نے بھی امریکا سے کڑا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا،لہٰذا اس قسم کے بیانات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ امریکاخود ہی اس تیسری عالمی جنگ کی راہ ہموارکررہاہے جسے اسلحے کی دوڑ اور پوری دنیا میں اپنی طاقت کو منوانے کابخار لاحق ہے۔
دوسری جانب ماضی کی دو بڑی جنگوں کو چلانے میں بھی ایسے ہی طاقتور ممالک کا بنیادی کردار تھا جو ابھی تک تباہیوں کے اثرات محسوس کرتے ہیں اور یہ جان چکے ہیں اس میں کسی ایک ملک کی جیت ہوہی نہیں سکتی ماسوائے ہر سو تباہی کے ہر چند کہ دنیا ابھی دوسری جنگ عظیم کے زخم نہیں بھول پائی ہے خود امریکا کے عوام بھی نائن الیون کا خوف ابھی تک سر پر لیئے بیٹھے ہیں۔اس طرح امریکا سمیت جاپان جرمنی اور برطانیہ جیسے ممالک میں آج بھی ایسے لوگ مل جائیں گے جوجنگ کا نام سنتے ہی خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور محفوظ جگہوں پر چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے سوال تو امریکا سے ہی کیا جاسکتا ہے کہ اگر تیسری جنگ ہو بھی گئی تو کیا امریکا اس کو آگے بڑھائے گا۔؟ آج کے دور میں ایسے خوفناک ہتھیار وجود میں آچکے ہیں جو گزشتہ جنگوں میں بھی نہیں تھے اور جو ہتھیار آج ہیں اس کا استعمال اگر ہوتا ہے توکسی بھی چھوٹے یا بڑے ملک کا بخیریت رہنا ممکن ہی نہیں ہے اور یہ بات ان تمام طاقتور ممالک کو اچھی طرح معلوم ہے کہ تیسری عالمی جنگ کے حتمی نتائج صرف تباہی ہے جس میں مارنے والا اور دفاع کرنے والا کوئی بھی نہیں بچے گا، یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت سپر طاقتیں اپنے اپنے سیاسی انداز میں محدود جنگوں کا طریقہ اختیار کیئے ہوئے ہیں یعنی پراکسی واراور غیر ریاستی عناصر کے ذریعے اپنے مخالف ملکوں میں عدم استحکام پیدا کرنا سوشل میڈیا کا استعمال اور خفیہ کارروائیاں کرکے اپنے مقاصد کو حاصل کرنا ان طریقوں میں شامل ہے،اس کے لیے اپنے ناپسندیدہ ممالک پر اقتصادی پابندیاں لگانایا پھر کسی اور ملک کے سیاسی تنازعوں میں دخل اندازی دے کر اپنی مرضی کی حکومتیں بنانا اب طاقتور ممالک کا سیاسی حربہ یا طریق کار بن چکاہے ان طاقتور ممالک میں اس قسم کی حرکتیں کرنے میں امریکا سرفہرست رہاہے جو ماضی میں پاکستان کی حکومتیں بنانے اور بگاڑنے میں اپنا اہم کرداراداکرتارہاہے جو بیس سال سے افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول میں لگا رہا یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے لیے کوئی فائدے نہیں حاصل نہیں کرسکاہے لہٰذا اس ناکامی کے زمرے میں بھی امریکا کا یہ بیان دیکھا جاسکتاہے اور ممکن ہے کہ اس شکست کی وجہ سے ایشیاء کے ساتھ امریکا کے کچھ علاقوں میں سیاسی فسادات کا خطرہ ہو اور اس خدشے نے خود امریکا کو ہی خوفزدہ کیا ہو کیونکہ اس قسم کے جھگڑوں سے بڑی طاقتور قوتیں فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتی ہیں یعنی جو یہ چاہیے گی کہ متاثرہ علاقوں میں ان کی مرضی کی حکومتیں اور قوانین بن سکیں اور ان بڑی طاقتوں کا اقتصادی تحفظ ہو اور ان کے مخالفین کو وہاں جگہ نہ مل سکے،لہذا میری نظر میں اس قسم کی علاقائی جنگیں ہوسکتی ہیں جن کے اثرات بین الاقوامی ہونگے جس سے پوری دنیا عدم استحکام کا شکار ہوسکتی ہے،اوراس تحریر میں جن چھوٹی چھوٹی محدود جنگوں کا ذکر کیا گیا ان میں افغانستان کی جنگ سب کے سامنے ہے جب کہ دیگر علاقائی جنگوں میں سیریا،عراق،شام،یمن اور لیبیا میں سیاسی خلفشار موجود ہے اور ان ملکوں کو عدم استحکام اور نقصان پہچانے میں بھی امریکا سمیت دیگر بڑی طاقتوں کا اہم کردار ہے۔
آخر میں یہ ہی کہوں گا کہ اب دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے۔ ماضی کی جنگوں کی نسبت ہتھیار ہی نہیں بدلے دنیا کا نقشہ بھی تبدیل ہوچکاہے اس لیے اس نئے دور میں کسی بھی عالمی جنگ کا اندیشہ خاصہ مشکل دکھائی دیتاہے مگر جنگی جنون اور پوری دنیا میں ٹھیکیدار بننے کا شوق رکھنے والے ممالک کی وجہ سے یہ تیسری جنگ ناممکن بھی نہیں ہے کیونکہ ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ طاقت کا گھمنڈ آدمی کو اندھا کردیتاہے۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain