تازہ تر ین

امریکہ کی ترجیحات

سجادوریا
افغانستان سے امریکہ کے اچانک انخلاء نے افغان حکومت سمیت دیگر طاقتوں کو بھی حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔بھارت خاص طور پر پریشان دکھائی دیا۔بھارتی میڈیا کی تو گویا دُم پر پاوٗں آگیا۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولتے کئی بھارتی تجزیہ کار، میڈیا کی سکرینوں پر جلوہ گر ہوئے۔کئی امریکہ کو طعنے دیتے رہے اور کوستے رہے کہ بُزدل ہو،بھاگ گئے ہو۔ بھارت کی پریشانیاں اور بدحواسیاں سمجھ میں آتی ہیں کہ انہوں نے اربوں ڈالرز خرچ کر کے اشرف غنی حکومت کو اپنے قابو میں کیا تھا،پاکستان کے پڑوس میں کئی قونصل خانے کھول رکھے تھے،جن کے ذریعے پاکستان کے اندرونی حالات خراب کیے جا رہے تھے۔اشرف غنی کی حکومت کے پاکستان مخالف بیانات دراصل بھارتی جذبات کی تسکین کا سبب بنتے تھے۔امریکہ نے بھی کوشش کی کہ بھارت کو خطے کا تھانیدار بنایا جائے،پاکستان کو گھیرا جائے،لیکن صد شُکر کہ پاکستان کے ریاستی اداروں نے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور دُشمنوں کی چالوں کو ناکام بنا کے رکھ دیا اور اپنے وطن کو محفوظ بنا لیا۔
۲۰ سال قبل امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ امریکہ افغانستان کے پہاڑوں سے ٹکرا کے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس وقت دُور اندیش اور صاحب بصیرت سیاسی،علاقائی اور عالمی اُمورکے ماہرین ”کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ“کے مصداق اس خدشے کا اظہار کرتے تھے کہ امریکہ دراصل افغانستان میں بیٹھ کر چین اور پاکستان کے حالات خراب کرنا چاہتا ہے۔امریکہ نے بھارت کی مدد سے ایسا کیا بھی،پاکستان پر ڈرون حملے کئے گئے،ٹی ٹی پی کو فنڈنگ کی گئی،افغانستان سے دہشت گردی کو پاکستان میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی لیکن شاباش ہے پاک فوج کے لئے کہ انہوں نے کمال منصوبہ بندی سے دشمنوں کو بے بس کردیا۔تمام حالات و واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو میں یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ پاکستان نے بہت عمدہ کھیلا،پاکستانی میڈیا،سیاسی قیادت اور سِول و عسکری اداروں نے اپنے محدود وسائل اور عالمی مجبوریوں کے باوجود ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔امریکہ اب افغانستان طالبان کے حوالے کر کے نکل چکا ہے۔اب اس پر ایک حد تک اطمینان کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ شمال،مغربی بارڈر افغانستان کی طرف سے محفوظ ہو گیا ہے،بھارت بھی نکل چکا ہے اور اشرف غنی نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ”بھاگ غنی بھاگ“ کا نعرہ لگانے میں ہی عا فیت سمجھی۔
سقوطِ کابل نے ایک طرف عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن کے بدلنے کا اشارہ دے دیا ہے،امریکہ محسوس کر رہا ہے کہ دنیا میں اس کا وہ دبدبہ قائم نہیں رہا۔جس بدمعاشی اور دھونس سے اس نے عراق،شام،لیبیا اور افغانستان پر حملے کیے،اب ایسا نہیں چلے گا۔امریکہ کو یقین ہو چلا ہے کہ اس کی فوجی بدمعاشی نے اس کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ان تمام احساسات اور معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے اپنی ترجیحات کو نئی سمت دی ہے۔اپنی نئی ترجیحات کے مطابق خود کو جنگ سے دور کرنا ہو گا۔امریکہ سمجھتا ہے کہ اس کا اصل حریف چین ہے،جو خاموشی سے اپنی معاشی اور فوجی طاقت بڑھا رہا ہے،دنیا میں معاشی تعلقات کے ذریعے خود کو مضبوط بنا رہا ہے،چین نے خود کو جنگوں سے دور رکھا ہے،معیشت و کاروبار کے ذریعے خود کو مضبوط کیا ہے۔چین کے توسیع پسندانہ عزائم نہیں ہیں،خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کر چکا ہے،پڑوسیوں سے دوستانہ اور شراکت داری کی بنیاد پر تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔یعنی کہ عالمی سطح پر مثبت اور صلح جُو ہو نے کا تاثر دیا ہے۔اس طرح اپنی دھاک بٹھانے میں کامیا ب ہو چکا ہے۔چین نے اب طالبان کی طرف بھی ہاتھ بڑھا دیا ہے۔طالبان کا وفد بیجنگ کا دورہ کر چکا ہے۔میرا ”گمان“ ہے اب چین کھیلے گا اور دنیا دیکھے گی۔
میں نے ذکر کیا ہے کہ امریکہ نے ترجیحات بدل لی ہیں،پہلی ترجیح تو جنگ بندی ہے اور دوسری ترجیح معیشت پر توجہ ہو گی۔میں سمجھتا ہوں امریکہ نے سوچ سمجھ کر جنگوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے،انہوں نے عزت کو داوٗ پر لگا دیا ہے لیکن اپنی بقا اور معیشت کو محفوظ کر لیا ہے۔امریکہ کو اس لحاظ سے دانشمند کہہ سکتے ہیں کہ سوویت یونین کی طرح ٹوٹنے کا انتظار کرنے سے پہلے ہی نکل جاتا ہے۔ویت نام میں بھی ایسا ہی کیا اور اب افغانستان سے بھی بھاگ کھڑا ہوا۔مجھے ایسا لگا کہ امریکا نے بہتر فیصلہ کیا،امریکہ اب سانس لے گا،سستائے گا اور دنیا کے ساتھ بہتر سفارتکاری کے ذریعے اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کرے گا۔اقوام ِ متحدہ،فیٹف اور آئی ایم ایف جیسے ہتھیار استعمال کرے گا۔ان کا اثر”کھسیانی بلی کھمبا نوچے“جیسا ہی ہو گا۔کیونکہ دنیا نے امریکہ کی اخلاقی اقدار،دوستی اور طوطا چشمی کو دیکھ لیا ہے،صرف مفادات کا تعلق،کوئی اخلاقیات نہیں،کوئی دوستی نہیں۔اپنے مفادات کو یقینی بنانا ہے چاہے اقوامِ متحدہ کی چھتری کا سہارا لینا پڑے،کسی کا بازو مروڑنا پڑے یا عراق میں کیمیائی ہتھیاروں جیسا جھوٹ بولنا پڑے۔امریکا سے آنے والی خبروں سے تو ایسا لگتا ہے امریکہ بہت محتاط ہو گابلکہ چین کی ترقی اور طاقت سے خوف زدہ نظر آتا ہے۔اسی خوف نے امریکہ کو اپنی ترجیحات بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔امریکہ اور یورپ کے تھنک ٹینکس جان گئے ہیں کہ دنیا میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے،اس کا مرکز چین اور روس ہونگے۔
طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ابھی کوئی معتبر خبریں نہیں آ رہیں،لیکن میرا”گمان“ ہے امریکہ و یورپ کئی شرائط اور پابندیوں اور مطالبات کے ساتھ کچھ دیر کے بعد بالآخر تسلیم کرنے پر تیار ہو جائیں گے،کیونکہ وہ خود کو ان مسائل سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ایسی شرارتیں،الجھنیں اور سازشیں ہی ان کی امیدوں کو پورا کر سکتی ہیں جن کے ذریعے چین،طالبان اور بھارت کے ساتھ جنگ میں اُلجھ جائے۔امریکہ نے بھارت پر بھروسہ کیا تھا کہ چین کے خلاف کھڑا ہو گا لیکن چین نے لداخ میں بھارتی علاقے پر قبضہ کرلیا اور بھارت تلملاتا رہ گیا۔بھارتی فوج بے بس اور شکست خوردہ نظر آئی۔بھارت کے ایکسپوز ہو جانے کے بعد امریکہ کی امیدیں مزید دم توڑ گئیں۔
امریکی تھنک ٹینکس اور حکومت،بھارت کی فضائی طاقت،عسکری طاقت سے اس وقت انتہائی حد تک مایوس ہو گئے جب پاکستان نے ان کے جھوٹے ائیر اسٹرائیکس کے جواب میں دن کی روشنی میں گھُس کر مارا،ان کے جہاز گرائے اور ابھی نندن کو چائے بھی پلائی۔امریکہ کو پتہ چلا کہ ”جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے“۔
امریکہ میں یہ احسا س شدت اختیار کرتا گیا کہ چین اور پاکستان کی فوجی طاقت مضبوط ترین ہو چکی ہے ان کے اتحاد اور شراکت داری نے خطے میں ان کی دھاک بٹھا چکی ہے۔امریکہ بیس سال اگر مزید بیٹھا رہے توبھی کچھ نہیں کر پائے گا۔اس لئے امریکہ نے مناسب فیصلہ کیا ہے،بھارت جانے اسکی سیاست جانے،بھارت کے لئے مشکلات بڑھ جائیں گی۔اس سے امریکہ کو سروکار نہیں۔امریکہ اپنے مفادات اور ترجیحات کو یقینی بنائے گا۔اسلامی دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوستانہ بنانے کی کوشش کرے گا۔امریکہ عالمی سُپر پاور ہونے کا تاثر اور بھرم قائم رکھنے کی کوشش کرے گا۔لیکن اس میں بہت دیر ہو چکی ہے،امریکہ پر کوئی اعتماد نہیں کرتا۔جوبائیڈن نے سعودی عرب اور پاکستان کے ساتھ سرد مہری اختیار کر کے امریکہ کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔اسلامی دنیا کے دونوں اہم ممالک اس وقت امریکہ کے دوستوں میں شامل نہیں ہیں۔امریکہ کو اپنی نئی ترجیحات میں اس محرک پر بھی سوچنا ہو گا۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain