افغان مسئلے کا واحد حل مشترکہ حکومت ہے، وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغان مسئلے کا واحد حل مشترکہ حکومت ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیرونی طاقتوں کے خلاف جنگ کو افغان عوام جہاد سمجھتے ہیں، طالبان نے گزشتہ 20 سال میں بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ تبدیل ہوئے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان اس وقت ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے، افغانستان 40 سال کی جنگی صورت حال کے بعد استحکام کی طرف بڑھے گا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان غلط سمت گیا تو افراتفری، انسانی بحران، پناہ گزینوں کے بڑے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و استحکام کی واحد صورت ایک مشترکہ حکومت ہے، افغانستان میں افراتفری اور انسانی بحران سے سارے ہمسائے متاثر ہوں گے۔

عمران خان نے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے میں  سمجھتا ہوں جو کچھ صدر بائیڈن نے کیا وہ سمجھداری کا فیصلہ تھا، تاہم امریکا کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے سے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتے۔

وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ پاکستان کے نکتہ نظر سے افغان سرزمین سے دہشت گردی کا بھی خطرہ ہے،  پہلے سے ہی تین دہشت گرد گروہ افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کروارہے ہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم عمران خان شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے 2 روزہ دورے پر تاجکستان میں موجود تھے، دورے کے دوران وزیرِ اعظم کی ایران، قازقستان ، بیلاروس اور ازبکستان کے صدور سے ملاقاتیں بھی ہوئی تھی۔

وزیراعظم عمران خان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان عوام کوانسانی ہمدردی کی بنیاد پرامداد کی ضرورت ہے،افغانستان ایساملک ہےجس میں کوئی باہرسے حکمرانی نہیں کرسکتا۔

وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دنیا کا افغانستان کےساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے، پچھلی افغان حکومت 75 فیصدغیر ملکی امداد پر چل رہی تھی، افغانستان کی موجودہ صورتحال میں عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ طالبان کوسیاسی استحکام کےساتھ افغان عوام کا بھروسہ جیتنا ہوگا، افغانستان میں ایسا سیاسی ڈھانچہ ہو جس میں تمام افغان گروپوں کی نمائندگی ہو، پاکستان سمجھتا ہے افغان عوام اپنے فیصلے خود کریں، پاکستا ن پر امن افغانستان کا خواہاں ہے، پاکستان افغانستان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے،افغانستان کوتنہا چھوڑا تو مختلف بحران ایک ساتھ جنم لیں گے۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ افغانستان کی صورتحال پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے،افغانستان کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا جا سکتا،عالمی برادری کو افغانستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا، افغانستان کی حقیقت دنیا کو تسلیم کرنا ہوگی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ہم نے افغانستان کے حوالے سے ہمیشہ یکساں موقف رکھا ، افغانستان کا مسئلہ ہم سب کومل کرحل کرناہوگا، پاکستان نےدہشت گردی کےخلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا،دہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں 80 ہزارسےزائد جانوں کی قربانی دی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معیشت کونقصان پہنچا۔

ان کا کہنا تھا کہ تاجکستان کےساتھ دیرینہ اوربرادرانہ تعلقات ہیں،شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کی میزبانی پر تاجک صدر کے مشکور ہیں، تجارت، سرمایہ کاری، روابط کےفروغ کیلئے تنظیم اہم پلیٹ فارم ہے۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ کورونا سے پوری دنیا کی معیشتیں متاثرہوئیں ،خطےکوکئی چیلنجزکا سامنا ہے، ہمیں مل کرمسائل سے نمٹنا ہے، کورونا میں صحت کےساتھ معاشی صورتحال پر بھی نظر رکھنی ہے، دنیا کا ہیلتھ سیکٹر کورونا صورتحال میں مقابلہ نہیں کرسکتا۔

اجلاس میں خطاب کے دوران انہوں نے مزید کہا تھا کہ دنیا کودوسرا بڑا چیلنج ماحولیاتی آلودگی کا ہے، ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے ہم نے شجر کاری مہم شروع کی ، دنیا کے مختلف خطے پرعالمی حدت اور ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔

عمر شریف کے علاج کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دیدیا، وفاقی حکومت

گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وفاقی وزیر اطلاعات فواہد چوہدری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات کے مطابق لیجنڈری اداکار عمر شریف کے علاج کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا۔

سندھ کے دارالحکومت کراچی کے آغا خان ہسپتال میں عمر شریف کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعظم کی ہدایت پر ہی اداکار کی عیادت کرنے آئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ عمر شریف کا 11 ستمبر کو ہسپتال میں ڈائلاسز بھی ہوا ہے اور ان کے علاج کے لیے وزیر اعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کی سربراہی میں میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جو اداکار کے علاج سے متعلق فیصلہ کرے گا۔

انہوں نے واضح کیا کہ وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی حکومت عمر شریف کے علاج کے تمام اخراجات اور انتظامات کرے گی۔

انہوں نے عمر شریف کو ملک و قوم کا اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اداکار نے ماضی میں وزیر اعظم عمران خان کے شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

گورنر سندھ نے یہ بھی کہا کہ وہ وفاقی حکومت سے لیجنڈری اداکاروں کی فلاح و بہبود کے لیے فنڈز کو مختص کرکے لیجنڈری ٹرسٹ ادارے کو فعال کرنے کی بات بھی کریں گے۔

میڈیا سے بات کرتے وقت چوہدری فواد نے بتایا کہ وزیر اعظم کی ہدایات پر ہی ڈاکٹر فیصل سلطان اور عمر شریف کے معالج ڈاکٹر یاور کی سربراہی میں میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جو اداکار کے علاج سے متعلق فیصلہ کرے گا۔

انہوں نے واضح کیا کہ جو فیصلہ میڈیکل بورڈ کرے گا، حکومت اس پر عمل درآمد کرے گی اور عمر شریف کے علاج کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔

وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ دل کے عارضے کا علاج پاکستان میں بھی ممکن ہے مگر جو فیصلہ میڈیکل بورڈ کرے گا، اس پر ہی عمل کیا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بیرون ملک کا ویزا جاری کرنا یا ایئر ایمبولینس فراہم کرنا مسئلہ نہیں ہے لیکن میڈیکل بورڈ پہلے یہ دیکھے گا کہ عمر شریف بیرون ملک سفر کرنے کی حالت میں ہیں یا نہیں؟

چوہدری فواد حسین کے مطابق میڈیکل بورڈ عمر شریف کی صحت، حالت اور بیرون ملک سفر کرنے کی طاقت کو دیکھتے ہوئے جو بھی فیصلہ کرے گا، اس پر عمل کیا جائے گا۔

اسی دوران گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ایک بار پھر واضح کیا کہ حکومت میڈیکل بورڈ کی تجاویز پر عمر شریف کو ایئر ایمبولینس فراہم کرنے سمیت امریکا و جرمنی کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی علاج کے لیے بھیجے گی۔

خیال رہے کہ عمر شریف گزشتہ کچھ عرصے سے علیل ہیں اور ابتدائی طور پر ان کے اہل خانہ نے ان کی علالت کی خبروں کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

گزشتہ ماہ اگست کے اختتام پر عمر شریف کی سوشل میڈیا پر بیماری کی تصاویر وائرل ہوئی تھی، جس کے بعد ابتدائی طور پر ان کے اہل خانہ نے ان کے علیل ہونے کی خبروں کو غلط قرار دیا تھا۔

بعد ازاں ان کے اہل خانہ نے تسلیم کیا کہ عمر شریف علیل ہیں اور دل کے عارضے میں مبتلا ہیں، ساتھ ہی اداکار کے خاندان نے حکومت سے بیرون ملک علاج کے لیے مدد بھی مانگی تھی۔

دو دن قبل عمر شریف نے ایک ویڈیو بھی جاری کی تھی، جس میں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے بیرون ملک علاج کروانے سے متعلق مدد مانگی تھی۔

بعد ازاں اداکار کے اہل خانہ نے واضح کیا تھا کہ انہوں نے حکومت سے مالی مدد نہیں مانگی بلکہ انہوں نے حکومت سے جلد سے جلد بیرون ملک کا ویزہ جاری کرنے اور ایئر ایمبولینس کا بندوبست کرنے سے متعلق مدد مانگی ہے۔

اہل خانہ اور اداکار کی جانب سے اپیل کیے جانے کے بعد متعدد شوبز و اسپورٹس شخصیات سمیت بھارتی شوبز شخصیات نے بھی وزیر اعظم عمران خان سے عمر شریف کی مدد کرنے کی اپیل کی تھی۔

اداکار اور اہل خانہ سمیت دیگر شخصیات کی جانب سے اپیل کیے جانے کے بعد وزیر اعظم کی ہدایات پر ہی چوہدری فواد اور عمران اسماعیل نے 11 ستمبر کی شام کو عمر شریف کی عیادت کی، جس کے بعد انہوں نے اداکار کے علاج سے متعلق میڈیکل بورڈ کے قیام کی تصدیق کی۔

مائیکرو سافٹ کا نیا آفس سافٹ ویئر 5 اکتوبر کو متعارف کرانے کا اعلان

مائیکرو سافٹ نے اپنے مقبول سافٹ ویئر پروگرام آفس کے نئے ورژن کو 5 اکتوبر کو متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے، یعنی اسی دن جب ونڈوز 11 کی دستیابی کا سلسلہ شروع ہوگا۔

مائیکرو سافٹ نے اس سے قبل کہا تھا کہ اگرچہ سبسکرائپشن سروس مائیکرو سافٹ 365 پر زیادہ توجہ دی جائے گی، مگر ان افراد کے لیے آفس 2021 کو متعارف کرایا جائے گا جو ابھی کلاؤڈ پر منتقل ہونے کے لیے تیار نہیں۔

اب ایک بلاگ میں آفس 2021 کی دستیابی کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا۔

آفس 2021 کو 2 ورژنز میں پیش کیا جائے گا، ایک کمرشل صارفین کے لیے جسے آفس لانگ ٹرم سروسنگ چینل (ایل ٹی ایس سی) کا نام دیا گیا ہے۔

دوسرا ورژن گھریلو صارفین کے لیے ہوگا۔

بلاگ میں بتایا گیا کہ آفس ایل ٹی ایس سی ورژن 16 ستمبر سے ہی دستسیاب ہوگا اور اس میں accessibility فیچرز کو بڑھایا گیا ہے جبکہ ورڈ، ایکسل اور پاور پوائنٹ کی کارکردگی کو بھی بہتر بنایا گیا ہے۔

اسی طرح تمام ایپس کے لیے ڈارک موڈ سپورٹ بھی فراہم کی جارہی ہے۔

ذاتی استعمال کے لیے آفس 2021 صارفین کو 5 اکتوبر سے دستیاب ہوگی مگر فی الحال قیمت کا اعلان نہیں کیا گیا۔

آفس کے دونوں ورژنز ونڈوز اور میک ڈیوائسز پر کام کرسکیں گے اور ون نوٹ ایپ کے ساتھ فراہم کیے جائیں گے۔

یہ دونوں 32 اور 64bit ورژنز پر دستیاب ہوں گے اور مائیکرو سافٹ کی جانب سے سافٹ ویئر کو 5 سال تک سپورٹ فراہم کی جائے گی۔

امریکا سے جنگ کا باب ختم ہوگیا اب نئے تعلقات کی شروعات چاہتے ہیں، ترجمان طالبان

دوحہ: قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ جب امریکا سے جنگ تھی تو وہ ہمارا دشمن تھا لیکن اب حالات یکسر مختلف ہیں۔ 

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کی نمائندہ مونا شاہ کو خصوصی انٹرویو میں امریکا کے دوست یا دشمن ملک ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں ترجمان طالبان سہیل شاہین نے کہا کہ جب امریکا سے افغانستان میں جنگ تھی تب وہ ہمارا دشمن تھا تاہم اب جنگ کا چیپٹر ہی ختم ہوگیا اور امریکا کو بھی سمجھ آگیا کہ مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے۔

ترجمان طالبان سہیل شاہین نے مزید کہا کہ جنگ کا دور ختم ہوگیا اور اب نیا دور شروع ہو رہا ہے جس میں امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات کی شروعات چاہتے ہیں تاہم یہ امریکا پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کام کرکے افغانستان میں غربت کے خاتمے، تعلیم کے شعبے، اور افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں مدد کرتا ہے یا نہیں۔

ٹی ٹی پی پر پاکستان کے خدشات اور داعش کی روک تھام کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں ترجمان طالبان نے کہا کہ ہم کسی بھی گروہ کو افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ داعش کو کنڑ اور ننگرہار میں شکست دی تھی اور اب بھی داعش پر قابو پانے کی طاقت رکھتے ہیں۔

ترجمان طالبان سہیل شاہین نے عبوری حکومت میں افغانستان کی تمام اقوام اور طبقات کی نمائندگی نہ ہونے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت تمام نسلی گروپس کی حمایت سے بنائی گئی ہے جب کہ فوری الیکشن کا امکان کو بھی رد کرتے ہوئے کہا کہ ابھی آئینی مسودے پر کام جاری ہے۔

خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں سے متعلق سوال کے جواب میں ترجمان طالبان کا کہنا تھا کہ شریعت کے تحت خواتین کو تمام حقوق دیں گے لیکن اعلیٰ حکومتی عہدوں پر خواتین کی تعیناتی پرعلمائے دین سے مشوروں کے بعد ہی غور کیا جاسکتا ہے۔

یہ خصوصی انٹرویو وائس آف امریکا کی ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا۔

سرمائے اور غربت میں بڑھتی ہوئی خلیج

جاوید ملک
”کریڈٹ سوِیس“ کی ایک نئی انکشافاتی رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سال 2020ء کے اندر کروڑ پتی افراد کی تعداد میں ڈرامائی طورپر اضافہ ہوا ہے جبکہ دولت کی نابرابری بڑے پیمانے پر شدید ہونے کی طرف گئی ہے، اس کے باوجود کہ سرمایہ داری وینٹی لیٹر پر پڑی ہوئی ہے۔ (صرف سال 2020ء میں) امریکی ریاست کے اندر 17 لاکھ 30 ہزار نئے افراد کروڑ پتی بنے ہیں، جرمنی میں یہ تعداد 6 لاکھ 33 ہزار اور آسٹریلیا میں 3 لاکھ سے زائد ہے۔
اگر یہ کروڑ پتیوں کے لیے اچھا سال تھا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ارب پتیوں کے لیے اس سے بھی زیادہ بہتر ثابت ہوا۔ پچھلے 12 مہینوں میں، 650 امریکی ارب پتیوں کی مجموعی دولت میں 1.2 ٹریلین ڈالر اضافہ ہوا ہے۔ جیف بیزوس دنیا کا وہ پہلا شخص بن چکا ہے جو 200 ارب ڈالر سے زائد دولت کا مالک ہے۔
رپورٹ میں گہرے ہوتے سرمایہ دارانہ بحران کے ریگستان کے بیچ و بیچ ہریالی کا نقشہ کھینچا گیا ہے، جس میں درج ہے کہ ”نا موافق معاشی حالات کے تحت گھریلو دولت نے شدید ثابت قدمی دکھائی ہے“۔ در حقیقت، رپورٹ نشاندہی کرتی ہے کہ 2020ء کے دوران گھریلو دولت میں 7.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کروڑ پتیوں کا میگزین”فوربز“ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا: ”ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وبا محض امیر ترین افراد کے لیے ہی نہیں بلکہ کروڑ پتیوں کی اکثریت کے لیے بھی خوشخبری ثابت ہوئی“۔
مگر کیا ہم 300 سال کے بد ترین بحران اور جی ڈی پی کے دیوہیکل سکڑاؤ سے دوچار نہیں ہوئے ہیں؟ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ اگرچہ محنت کش طبقہ ایک دہائی سے اجرتوں کی کٹوتی، نجکاری اور آسٹیریٹی کا شکار ہے، مگر دیوہیکل معاشی سکڑاؤ کے باوجود ہمارے سماج کی دولت میں ایک سال پہلے کی نسبت بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔
قرض، گھروں کی قیمتوں میں اضافہ، اشیاء کی قلت اور روزگار کی مقابلہ بازی سمیت طویل اوقاتِ کار پر مبنی نوکریاں سب معمول کی باتیں بن چکی ہیں، اور مسلسل لاک ڈاؤنز کے باوجود محنت کشوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع نہیں ملتا۔
غریبوں کی غربت میں مزید اضافہ ہوا ہوگا اور پیداوار منہدم ہوئی ہوگی، مگر رپورٹ کے مطابق ان سب کا امیروں کی دولت سے کوئی سروکار نہیں۔ محنت کش طبقے اور اجرتوں پر گزر بسر کرنے والی انسانیت کی اکثریت کے بر عکس، امیروں نے سرمایہ کاری اور بچت کی شکل میں بے تحاشا دولت اکٹھی کی ہوئی ہے۔
جیسا کہ رپورٹ میں درج ہے، ”امیر ترین افراد تمام معاشی سرگرمیوں کے منفی اثرات سے نسبتاً محفوظ رہے ہیں اور، اہم بات یہ کہ، انہوں نے شیئرز کی قیمتوں اور گھروں کی قیمتوں پر کم شرحِ سود سے بھی منافعے کمائے ہیں“۔
مثال کے طور پر، پراپرٹی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والے معاشی خطرات سے قدرے محفوظ رہتے ہیں۔ امریکی ریاست کے اندر، فیڈرل ریزرو نے شرحِ سود کم رکھنے کی غرض سے تیزی کے ساتھ بانڈز خریدے، اور گھریلو قرضے کم کرنے کے لیے مداخلت کی۔ امیر ممالک کی ایک مخصوص پرت بچت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، خاص کر زیادہ تنخواہوں والے، اب اس بچت کا ایک حصہ پراپرٹی کی خریداری پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ان عناصر کے باعث دنیا کے اکثر علاقوں میں گھروں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بلاشبہ نئے ’کروڑ پتیوں‘ کی اکثریت محض برائے نام کروڑ پتی ہیں کیونکہ وہ جن گھروں میں رہ رہے ہیں، ان کی قیمت آسمانوں کو چھو رہی ہے۔
دیگر اثاثے بھی اسی طرز پر چل رہے ہیں، اور زیادہ تر اثاثوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ باالفاظِ دیگر، دولت رکھنے والوں کی دولت میں اس لیے مزید اضافہ ہوا ہے کیونکہ ان کے اثاثوں کی قیمت بڑھ چکی ہے۔ جن کے پاس وبا سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا، ان کے ہاتھ اب بھی خالی ہیں۔
پہلے سے دولت مند افراد کی گھریلو دولت میں اضافے کی وجہ سماج کے ذرائع پیداوار کی بڑھوتری نہیں ہے۔ امیروں کی اہلیت ہی یہی باقی بچی ہے کہ وہ سٹے بازی کے ذریعے پیسے کما رہے ہیں۔
سٹاک مارکیٹ اور سرمایہ کاری کے غبارے، ریاست اور حقیقی معیشت سے بڑے پیمانے پر لا تعلق ہیں، جس کا انحصار کار آمد اشیا بنانے والی انسانی محنت کے اوپر ہے۔ حکمران طبقہ جب معیشت میں پیسہ پھینکتا ہے تو اس سے بس یہی ہوتا ہے کہ دولت تقسیم ہو جاتی ہے۔ افراطِ زر کے باعث غریبوں کی اجرتوں کی کوئی قدر نہیں رہتی، جبکہ اثاثوں کے مالکان اپنے اثاثوں کی قیمتوں کو مزید بڑھتا ہوا پاتے ہیں۔
جیسا کہ رپورٹ وضاحت کرتی ہے: امیر ترین 10 فیصد افراد عالمی دولت کے 82 فیصد کے مالک ہیں، اور وہ اکیلے 45 فیصد گھریلو اثاثوں کے مالک بھی ہیں۔
جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی، ”سماج کے ایک حصے میں دولت کے ارتکاز کا مطلب یہ ہے کہ اسی وقت سماج کے دوسرے حصے میں اذیتیں، سخت محنت، غلامی، جہالت، ظلم اور اخلاقی پستی پروان چڑھ رہی ہے“۔
سرمایہ دارانہ نظام انہی بنیادوں پر چلتا ہے؛ امیروں کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے، جبکہ اس دولت کو بصورتِ دیگر سماجی ضروریات پورا کرنے اور سماجی بیماریوں کا خاتمہ کرنے کے لیے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اس کی بجائے، اس کو ان کی حیثیت مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؛ جبکہ انسانیت کی اکثریت کو مزید غربت میں دکھیل دیا جاتا ہے۔
امیر افراد محنت کش طبقے کی پیدا کی گئی دولت کا سہارا لے کر بحران کے اثرات سے خود کو محفوظ کر رہے ہیں، جبکہ بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ 2020ء کے دوران 4 کروڑ سے زائد امریکیوں نے خود کو بے روزگار رجسٹر کروایا، جبکہ عالمی سطح پر خواتین محنت کشوں کی 40 فیصد ان شعبوں میں کام کرتی ہیں جسے وباء سے شدید نقصان پہنچا، جیسا کہ ریستوران، پرچون کی دوکانیں اور ہوٹل۔
یہ حیرانگی کی بات نہیں کہ امیروں پر ٹیکس لگانے کے مطالبے کو مقبولیت ملی ہے۔ البتہ، اس طریقے سے اقلیتی طبقے کا دولت اکٹھا کرنے اور اس پر جوا کھیلنے کا بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو جاتا، وہ اپنی دولت سے چمٹے رہنے کے لیے کچھ بھی کر گزر سکتے ہیں، جیسا کہ ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنے اثاثے بیرونِ ملک منتقل کرنا۔
سوشلزم کی ضرورت اس سے قبل کبھی اتنی واضح ہوکر سامنے نہیں آئی۔ سرمایہ داری کا تختہ کرپٹ سمجھے جانے والے حکمران طبقے سمیت الٹنا پڑے گا۔ ایسا ذرائع پیداوار پر قبضہ کرتے ہوئے انہیں محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں دے کر کیا جا سکتا ہے، تاکہ سماج کی دولت، جسے محنت کشوں نے پیدا کیا، کو منافعوں کی بجائے جمہوری منصوبہ بند معیشت کے تحت انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہ عمل اس بات کو یقینی بنائے گا کہ انسانیت کی اکثریت، یعنی محنت کش طبقہ، خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کرے۔
(کالم نگار سیاسی و سماجی ایشوز پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

نریندر مودی بنام جوبائیڈن

سجادوریا
ہیلو،مسٹر بائیڈن،نمسکار،میں امید کرتا ہوں کہ مزاج بخیر ہوں گے کیونکہ افغانستان میں حا لیہ شکست کے بعد آپ خاصے گھائل ہو چکے ہیں،ان حالات میں مزاج کا بخیر ہونا،ممکن نہیں،لیکن اُمید کرنے میں کیا حرج ہے؟۔”شرارتی“ میڈیا ایسی ”افواہیں“ پھیلا رہا ہے کہ آپ نجی محفلوں میں روتے پائے گئے ہیں۔میں ان ”شرارتی“ میڈیا والوں کی افواہوں پر بالکل یقین نہیں کرتا،ان کا کام ہی ’جلتی پر تیل‘ ڈالنا ہوتا ہے۔یہ آپ کی شکست کے بعد کے جذبات کو کیا سمجھیں گے؟میں پوری طرح سمجھ سکتا ہوں کہ آپ کس اذیت سے گزر رہے ہیں۔
مسٹر بائیڈن،آپ پریشان نہ ہوں،ذلت و رُسوائی ہوتی رہتی ہے،انسان کو تھوڑا ڈھیٹ بن جانا چاہئے اور اپنے میڈیا کو کنٹرول میں رکھنا چاہئے،بھارتی میڈیا کو ایسے کنٹرول کر رکھا ہے کہ اتنی گھٹیا صحافت کر رہا ہے کہ ان کا اپنا تماشا بن گیا ہے،مسٹر بائیڈن آپ تو جانتے ہیں کہ چین نے لداخ میں بھارتی افواج کی پٹائی کی،چین نے کئی کلومیٹر بھارتی علاقے پر قبضہ کر لیا۔چینی فوج نے مُکوں اور گھونسوں سے کئی بھارتی فوجی بھی ہلاک کردیے،لیکن میری حکومت کو ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوئی،میرے وزیر انتہائی بے شرمی سے میڈیا کی ملی بھگت سے واقعات کو چھپاتے رہے۔شکست و شرمندگی تو گویا ہم نے محسوس ہی نہیں کی۔ہمیں معلوم ہے کہ چین ایک بڑی طاقت ہے،اس کی عسکری قوت بھی قابو سے باہر ہو چکی ہے،اس لئے بھارت نے مناسب سمجھا کہ شرمندگی برداشت کر لو چین سے پنگا نہیں لینا چاہئے۔
جنابِ صدر ِ امریکہ،یہ تو شرمندگی کا ایک واقعہ لکھا ہے،اس سے بھی بڑی رُسوائی تو پاکستان کے ہاتھوں برداشت کر چکا ہوں۔مسٹر بائیڈن، آپ تو جانتے ہیں اور آپ کی خفیہ ایجنسیوں نے بھی بتایا ہو گا کہ پاکستان نے بھارت کے ناک میں دم کر رکھا ہے،میں نے تو مذاق مذاق میں ”سرجیکل“ اسٹرائیک کے لئے جہاز پاکستان بھیجے تھے،وہ بھی رات کو چوری چھپے ان کے چند درخت شہید ہو گئے۔میں سمجھا وہ بھی اسے مذاق ہی سمجھیں گے،لیکن سر ایک بات بتانا پڑے گی کہ نوازشریف واقعی شریف انسان تھے،ایسا ہنسی مذاق بھی برداشت کر لیتے تھے بلکہ اپنی افواج کو ہی دباوٗ میں لاتے تھے،ہمیں ہمیشہ خوش رکھتے تھے۔جب سے عمران نیازی آیا ہے تب سے آپ تو پریشان ہیں ہی،ہمیں بھی ذلیل کر رہا ہے۔ہمارے دوست نواز شریف کو تو جیل میں ڈالا لیکن ہمارا دوست نوازشریف بھی کمال کا ایکٹر ہے،جیل میں ایسی پلیٹ لیٹس کی گیم ڈالی،میڈیا میں اپنے چہیتے صحافیوں سے ایسی فضا بنوائی کہ عمرانی حکومت تو کیا عدلیہ بھی پریشان ہو گئی کہ جیل سے رہا کرنا پڑا۔میں آپ کوبتا رہا تھاکہ پاکستان کی فضائیہ نے میرے ”ابھی نندن“ کو پکڑلیا۔کشمیریوں نے پٹائی بھی کی،لیکن پاک فوج موقعے پر پہنچ گئی،ابھینندن کو بچایا،پھر فنٹاسٹک چائے بھی پلائی۔ایسی بھارت کی دُرگت بنائی کہ جگ ہنسائی ہمارا مقدر بن گئی لیکن ہم نے ڈھٹائی اور شرمندگی سے اپنے بے شرم میڈیا کو ”فرضیکل اسٹرائیک“ کا ٹاسک دے دیا۔
مسٹر بائیڈن! میں ایمانداری کی بات کہوں،افغانستان میں امریکہ کی شکست کے پیچھے بھی مجھے پاکستان دکھائی دیتا ہے۔پاکستان نے افغانستان میں صرف امریکہ کی ہی نہیں انڈیا کی بھی ٹھکائی کی ہے۔جناب صدر،پاکستان نے کمال ذہانت سے پہلے سوویت یونین کے ٹُکڑے کر دیے،اب امریکہ اور بھارت کی لُٹیا ڈبو دی۔پاکستان کی فاتحانہ للکار،جنرل فیض حمید کا کابل میں چائے پینے کا انداز،سچ کہوں ناقابلِ برداشت ہو رہا ہے۔
مسٹر بائیڈن،بھارت کو کس کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے ہو؟ہم نے بھارتی عوام کو بھوگا،ننگا رکھ کر اربوں افغانستان میں لگا دئیے،وہاں سڑکیں بنائیں،بسیں فراہم کیں،افغان فوج کو تربیت دینے میں مدد دی،اشرف غنی،امرللہ صالح سمیت کئی افغان رہنماوٗں پر انویسٹمنٹ کی،لیکن سب ڈوب گیا۔آپ تو جانتے ہیں ایک’بنیا‘پائی پائی پر مر جاتا ہے۔اپنے عوام کو بے وقوف بنا ئے رکھا،افغانستان میں آپ کی آشیر باد سے اربوں اُڑا دیے۔اب ہمارے لئے تشویش کی بات یہ ہے کہ امریکہ بھاگ گیا ہے،انڈیا اس خطے میں تنہا ہو چکا ہے،چین،رُوس اور پاکستان خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں۔بھارت میں میری حکومت کی انتہا پسند پالیسیاں،اندرونی خلفشار پیدا کر چکی ہیں۔بظاہر ایسے لگتا ہے کہ امریکہ کا خوف بھی اب نہیں ہے،اگر مقبوضہ کشمیر میں کوئی تحریک دوبارہ جاگ گئی تو بھارت اس پر قابو نہیں پا سکے گا۔چین اور پاکستان تو پہلے ہی ہم پر دباوٗ بڑھانا چاہتے ہیں۔
جنابِ صدر! ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان نے اپنے لئے مشکل ترین حالات کے باوجود بہترین فیصلے کیے ہیں،عالمی سازشوں،عالمی میڈیا کی بد عنوان رپورٹس اورمقامی سیاسی و عسکری رہنماوٗں کی غفلتوں کے باوجود اپنی ترجیحات پر توجہ مرکوز رکھی۔پاکستان نے ایسے وقت کا انتظار کیا،جب امریکہ کو تھکا دیا جائے اور بھگا دیا جائے،پاکستان نے چین کے ساتھ ایسے مضبوط اسٹریٹیجک تعلقات قائم کر لئے ہیں کہ اب اس خطے میں بیرونی مداخلت کے امکانات کو ختم کر دیا ہے۔پاکستان،چین اور عرب ممالک افغانستان میں نظامِ دنیا کو بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔امریکہ اور بھارت انتہائی بے بسی سے دور بیٹھ کر دانت پیستے رہیں گے۔جناب صدر،ہمارے لئے چین بڑا دردِ سر بن چکا ہے،اسی طرح پاکستان بھی ہمیں خطے میں تنہا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔سری لنکا، مالدیپ، بنگلہ دیش اور نیپال ہمارے پڑوسی ممالک ہیں،وہ بھی آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ہم جان چکے ہیں کہ امریکہ ہماری مدد نہیں کر پائے گا۔
مسٹر بائیڈن،طالبان نے امریکہ اور نیٹو فورسز کے ساتھ جو کیا ہے،اس میں پاکستان کا دماغ شامل ہے،پاکستان نے طالبان کو ایسے تمام اطوار سکھا دیے ہیں جن سے دنیا کو ہینڈل کرنے میں مدد ملے گی۔میں گزارش کرتا ہوں کہ پاکستان پر دباوٗ کم نہ کیا جائے،پاکستان کو فیٹف کے شکنجے میں کسنا چاہئے،اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنی چاہئیں،آئی ایم ایف،ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں کو استعمال کر کے پاکستان میں عمرانی حکومت کو دباوٗ میں رکھنا چاہئے۔ورنہ ان عالمی اداروں کا کوئی کام نہیں، انکو بند کر دینا چاہئے۔
میں نے بطور وزیر اعظم ہندوستان آپکو خط اس لئے لکھا ہے کہ ہمارا ساتھ دیں،ہماری مشکلات سمجھیں،اگر بھارت کو تنہا چھوڑا گیا تو ہم بھی امریکہ کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور چین سے جا ملیں گے،اس خطے میں امریکہ پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔جنرل بخشی پہلے ہی امریکہ کو بُزدل اور خوف زدہ کہہ رہا ہے۔اگر ہماری مدد نہ کی گئی تو ہم بھی چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنا لیں گے،میرا خط ایک دھمکی سے کم نہ سمجھا جائے،کیونکہ ہمارے پاس وقت کم ہے،ہمیں اس خطے میں ایک راکھشش پاکستان کا سامنا تھا،اب افغانستان میں راکھششوں نے حکومت بنا لی ہے۔طالبان تو کشمیر کی باتیں کرنے لگے ہیں۔اس لئے ہمیں خطرات کا سامنا ہے۔امید ہے ہمیں تنہا نہیں چھوڑا جائے۔
آخر میں آپ سے ہمدردی کرتا ہوں،آپ کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتا ہوں۔امریکی شکست نے دنیا کا توازن بدل دیا ہے۔اب دنیا امریکہ کو نہیں،چین کو نئی سُپر پاور کے طور پر دیکھنا شروع ہو گئے ہیں۔میرا ”گمان“ ہے کہ امریکہ ان سب حالات کو سمجھتا ہے۔میرا مقصد صرف آپکو ’چتاونی‘ دینا ہے۔بائے!اپنا خیال رکھنا اور ہمارا بھی۔
آپکا خیر اندیش
نریندرا مودی،وزیر اعظم ہندوستان
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

آزادی ئ صحافت مگر ذمہ داری کے ساتھ

انجینئر افتخار چودھری
خبر کی صداقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ اگر کوئی فاسق آپ کے پاس خبر لے کر آئے تو اس کی تصدیق کر لیا کرو۔یہ سورہ حجرات کی آیت کریمہ ہے۔ اس موضوع پر بات کرنا اشد ضروری ہے کہ آج ڈی چوک میں صحافی آ کر بیٹھ گئے ہیں وہ کسی مجوزہ بل کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں وہ بل جو ابھی آیا ہی نہیں اس پر بلبلا اٹھنا عجب تماشہ ہے ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل پاس ہو کر قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو آزادی ء صحافت پر کاری ضرب لگے گی اور بھاری جرمانے کے علاوہ قید کی سزا بھی سنائی جائے گی۔ویسے مجھے حیرانگی اس بات کی ہے کہ جھوٹ الزام تراشی کسی کی کردار کشی کے متعدد قوانین بنے ہوئے ہیں یہ لوگ ایسے شور مچا رہے ہیں جیسے ملک خدادداد میں قوانین کی پابندی ہو رہی ہے۔یہاں پورا ملک کھا کے لندن جا بیٹھے ہیں اور ڈکار بھی نہیں مارتے ویسے مظہر شاہ بھی گوالمنڈی کے تھے پنجابی فلموں کے نامور ولن۔
آزادی ء صحافت کی بڑی تنظیم جس کا تعلق منہاج برنا سے ہے ان کے نائب صدر افتخار مشوانی کا کہنا ہے اس قسم کا کوئی بل اگر آ بھی جائے اور وہ قانون بھی بن جائے تو سپریم کورٹ ایسی کسی بھی سزا کو معطل کر سکتی ہے۔
دیکھئے اگر اللہ تعالیٰ نے کتاب مقدس میں واضح احکامات دئے ہیں توہمیں اسی سے روشنی لینی چاہئے۔لگتاایسا ہے کہ ہم نے نام تو اسلام کا لینا ہے لیکن کام اسلامی نہیں کرنا۔آزادی اظہاررائے ذمہ داری کے ساتھ وقت کا تقاضہ ہے۔حیرانگی اس بات کی ہوتی ہے کہ سارے سیاست دان موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان بلاول صاحب کوہی دیکھ لیجئے ان کے دور میں سندھ میں کیا ہو رہا ہے ان کی وہ بات تو آپ نے سن رکھی ہو گی کہ کس کی جرأت ہے مجھ سے کوئی سوال کر سکے۔ اس صحافی کی لاش کو تو ہم نے دیکھا ہے جس بے چارے نے یہ خبر بریک کی تھی کہ بلاول جب ٹرین مارچ پر نکلے تو ان کے حواریوں نے کرائے پر لائے گئے لوگوں کو طے شدہ رقوم نہیں دیں۔میں حیران ہوں یہ بھی ڈی چوک میں بیٹھے ہوئے صحافیوں کے ساتھ گلے لگ کر آزادی ء صحافت کا رونا رو رہے ہیں۔ن لیگ کے دور میں سب سے زیادہ صحافی قتل ہوئے۔یہ پارٹی تو میڈیا پر خرچہ کرنا جانتی ہے۔کہتے ہیں پاکستان میں لفافہ سیاست کی بنیاد ہی نواز شریف نے رکھی ہے۔
آپ صحافیوں کے سفر کی داستانیں سن لیں یہ سب وہ ہیں جو نواز شریف دور میں مزے کرتے تھے۔لیکن میری اپنی مرضی اور خواہش ہے کہ ہم اس مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کریں۔ ہمیں بھی علم ہے کہ دھرنوں سے حکومتیں نہیں بدلتیں اگر بدلتیں تو ہم نے جو دھرنہ ۲۰۱۴ میں دیا تھا کم از کم ۲۰۱۵ میں تو حکومت بدل جانی چاہئے تھی لیکن حکومت بدلی تو ۲۰۱۸ میں۔ لہٰذا مریم بی بی یا بلاول بھٹواور مولانافضل الرحمن اگر اپنی خواہشات کی تکمیل ہمارے صحافی بھائیوں کے ذریعے کرانا چاہتے تو یہ ان کی بھول ہے۔
پاکستان تحریک انصاف صحافی بھائیوں کی قدر کرتی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے جب ان مطالبات کے پیچھے وہ لوگ نظر آتے ہیں جنہوں نے حکومت کے خاتمے کے لئے پہلے دن سے ہی تحریک چلا رکھی ہے۔میرے صحافی دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ میں نے ہمیشہ آزادی صحافت کے لئے جدوجہد کی ہے۔ افضل بٹ سے پوچھ لیں میں مشرف دور میں جناب احمد فراز کو بھی ان مظاہروں میں لے کر گیا۔ میں نے کالی پٹیاں بینر پوسٹر اپنے گھر میں تیار کئے اس لئے کہ میں ایک ڈکٹیٹر اور جابر کی وجہ سے ۷۱ دن جدہ جیل میں رہا میں نے جدہ میں مقیم پاکستانیوں کے حق میں آواز اٹھائی تھی جس کا جرمانہ والدہ کی موت دیکھنے کی صورت میں ملا۔اپنے دکھ اور اپنی کہانی سنانا اچھا لگتا ہے لیکن کسی کی سننا مشکل ہوتا ہے جنرل اسد درانی ان دنوں سعودی عرب میں سفیر تھے۔ یہ ۲۰۰۲ کا زمانہ تھا اس وقت مشرف کا طوطی بولتا تھا لہٰذہ مجھ سے بڑھ کر صحافی کے دکھ کو کوئی نہیں سمجھ سکتا میں ”خبریں“ کا بیورو چیف تھا میں نے جدہ کی ڈائری میں ان نون لیگیوں اور غیر نون لیگیوں کی گرفتاری پر لکھا تھا جن میں کچھ اب اس دنیا میں نہیں رہے اور جو ہیں اللہ سلامت رکھے۔پھر ہوا کیا کہ مجھے ہی دھر لیا لہٰذا میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ مجوزہ بل کے بارے میں گزشتہ رات میرے پروگرام میں پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر نبیل چوہدری نے کھلے لفظوں میں کہا کہ ابھی کوئی بل آیا ہی نہیں اور نہ اس قسم کی باتیں ہوئی ہیں ان کا کہنا تھا کہ میڈم شیریں مزاری جو انسانی حقوق کی وزارت چلا رہی ہیں انہوں نے بھی انکار کیا ہے۔آپ کو علم ہے محترمہ دبنگ خاتون ہیں بغیر لگی لپٹی بات کرنا ان کا خاصہ ہے۔
پاکستان واحد ایسا ملک ہے جہاں صحافت کو بھی مادر پدر آزادی ملی ہوئی ہے۔عمران خان اور بلاول کا گو کوئی تقابل نہیں بنتا لیکن دیکھ لیجئے ایک صحافی عمران خان کو کہہ رہا ہے مجھے بتائیں میں آپ کا گلہ پکڑوں یا کسی فوجی کا تو اس قدر جرائت بلاول کے سندھ میں کسی کو حاصل ہے۔ادھر اس صحافی کو قتل کر دیا جاتا ہے ادھر اسے برداشت کیا جاتا ہے میاں نواز شریف تو کسی صحافی کو سوال دیکھے بغیر انٹرویو نہیں دیتے تھے جو شخص پرچیاں پڑھ کر بات کرتا ہوں اس نے ان بے باک لوگوں کا کیسے سامنا کرنا تھا۔
میرے اس کالم کا لب لباب بھی یہی ہے کہ کہ فیک خبر کو لگام دینا ہو گی مجھے یہ بتائیں ہم نے کل ہی دیکھا کہ محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کی موت کی خبر سوشل میڈیا پر آ گئی آپ سب باتوں کو چھوڑیں ہم محسن کش لوگ ہیں لیکن یہ بتائیے ان کی فیملی پر کیا گزری ہو گی۔سید علی گیلانی کو ہم نے مار دیا۔ڈاکٹر نبی نے بتایا کہ ٹویٹر پر سید علی گیلانی کا ایک اکاؤنٹ تھا وہ ان کے مرنے کے بعد بھی جاری رہا موت کے تیسرے دن اسی اکاؤنٹ سے مودی کی مذمت جاری ہو رہی تھی انہیں یاد دلایا گیا کہ سر آپ مر چکے ہیں اور اس کے بعد اب وہ مسلمان سے سکھ نجوت سنگھ سدھو بن گئے ہیں۔
کیا صحافتی تنظیمیں ان جھوٹوں کے بارے میں کچھ کہیں گی۔
ہم کب کہتے ہیں کہ صحافی زندہ نہیں ہے لیکن صحافی کو اگر زندہ رہنا ہے تو خدا کے لئے ریاست کو بھی زندہ رہنے دے اس ملک خداداد کو زندہ رہنے دے جس کے لئے لاکھوں جانیں قربان ہوئیں۔ ضیا شاہد کو اللہ جنت بخشے ان کو پڑھیں اور دیکھیں کہ یہ آزادی کیسے ملی۔
ڈی چوک آپ کا ہے پورا ملک آپ کا ہے آپ جہاں چاہیں بیٹھیں مطالبہ کریں آپ اللہ کے کرم سے زندہ بیٹھے ہیں زندہ اٹھیں گے یہ سندھ نہیں اسلام آباد ہے یہاں صحافی وزیر اعظم کو گلے سے پکڑیں یہاں کوئی حرکت میں نہیں آئے گا
جیتے رہیں لیکن ایک بات یاد رکھیں جھوٹ مکر اور فریب کا ساتھ نہ دیں آج ایک بڑے دین دار صحافی نے،،اگر،،کی بنیاد پر پورا کالم لکھ ڈالا اور لکھا کہ اسلام قبول کرنے پر پابندی لگ رہی ہے تو دل میں سوچا یہ پاپی پیٹ کس قدر گھٹیا ہے کہ اس بندے پر الزام دھر رہا ہے جس نے خود گوروں کو مسلمان کیا ہے دراصل یہ لوگ ریاست مدینہ نہیں بلکہ ایسا ملک چاہتے ہیں جہاں پلاٹ حج نوکریاں سفر عیاشیاں مفت ہوں اور سن لیں عمران خان میرے شیر لیڈر نے کیا خوب کہا تھا ”چھوڑوں گا نہیں رلاؤں گا،،
ہاں میں لڑائی جھگڑے کے سخت خلاف ہوں۔فواد چوہدری جیسا زیرک شخص اور وزیر جس کی گفتار سے مخالفین کی صفوں میں کھل بھلی مچ جاتی ہے انہیں چاہئے ان سے مکالمہ کرے اور ان سے کہے کہ آزادی ء صحافت ضرور ہو گی مگر ذمہ داری کے ساتھ۔
(کالم نگار پاکستان تحریک انصاف کے سینٹرل ایڈوائزر ٹریننگ اور ایجوکیشن ہیں)
٭……٭……٭

حکومت اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے

کنور محمد دلشاد
حکومتی وزرا کے سنگین الزامات کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیااور آئینی ماہرین سے آرٹیکل 204،163 (1) جی اور الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ 10کی روشنی میں اہم فیصلے کی توقع کی جارہی ہے۔ جس میں گذشتہ روز ایوانِ صدر میں ہونے والی میٹنگ کے دوران الیکشن کمیشن کے سینئرز حکام کے ساتھ بعض وزرا کے ناپسندیدہ ریمارکس کے بارے میں غوروخوض کیے جانے کی امید کی جارہی ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اہم اجلاس میں سینیٹر تاج حیدر چیئرمین قائمہ کمیٹی کی خصوصی دعوت پر مَیں نے بھی سا ت ستمبرکو چالیس منٹ کی بریفنگ دی تھی اور ان ہی نکات پر بات کی تھی جو اعتراضات الیکشن کمیشن نے بعدازاں لگائے ہیں۔میری بریفنگ پر حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر جو نکات اٹھائے تھے،اس کی تائید کی تھی۔میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ انڈیا کو 25سال کا عرصہ لگا، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے پائلٹ تجربات کرتے ہوئے۔لہٰذا الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں جن خرابیوں کی نشان دہی کی گئی ہے،اس کے ازالہ کے لیے اہم پیش رفت کی جانی چاہیے۔
وزیراعظم کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی سہولت کے بارے میں تکنیکی طورپر بریف نہیں کیا جارہا، حالانکہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ماہرین کی خدمات حاصل کی تھیں،ان کا بھی یہی مشورہ تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے شفاف الیکشن ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ فول پروف نہیں ہے اور الیکشن کمیشن اتنا بڑا انتخابی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔الیکشن کمیشن نے پارلیمانی روایات کے مطابق مجوزہ انتخابی ترامیم پر 34نکات پر مشتمل تحفظات سے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین تاج حیدر کو خط کے ذریعے آگاہ کیا۔ الیکشن کمیشن کا یہ آئینی و قانونی فیصلہ 34نکات پر محیط تھا۔اس خط کو آئین کے آرٹیکل 218اور 219کی روشنی میں ملاحظہ کرنا چاہیے تھا اور خط کے متن کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو سپریم کورٹ نے رازداری،شفافیت اور غیر جانبدارانہ طریقہ کار پر جو ماضی میں ریکارکس دیئے تھے،اسی کے پس منظر میں الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے قوم کو آگاہ کردیا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر عجلت میں کیے گئے فیصلے سے ملک میں انتخابی ووٹنگ تباہ کن ہوگی۔الیکٹرانک ووٹنگ منصوبے پر عمل درآمد ہمیشہ پیچیدہ،مشینوں کا استعمال قابل عمل نہیں،عوام کا انتخابی عمل سے اعتماد اُٹھ جائے گا۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے جلد نتائج کا امکان نہیں،انتخابی فراڈ روکنا مشکل ہوگا۔دنیا کے بہترین جمہوری ممالک بھی انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال نہیں کرتے۔اس میں زور آزمائی کے ذریعے ووٹ کے اندراج اور ووٹ کی خریداری کا امکان ہوتا ہے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین تیار کرتے ہوئے اس میں ایسی خفیہ چِپ لگائی جاسکتی ہے جو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے کارآمد ہو۔
حکومتی ارکان کو الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات لگانے کے بجائے الیکشن کمیشن کی جانب سے 34اعتراضات پر مبنی خط کے متن پر غور کرنے کے لیے ایک کمیٹی مقرر کردینی چاہیے تھی جو باریک بینی سے تمام خدشات پر غور و فکر کرنے کے بعد اپنی رائے پیش کرتی۔ترقی یافتہ ممالک جن میں جرمنی،نیدرلینڈ اور یورپی ممالک شامل ہیں،انہوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مسترد کرکے پرانے طریقہ کار کے مطابق ہی الیکشن کرانے کو ترجیح دی ہے۔مَیں اس سلسلہ میں ذاتی تجربہ پیش کررہا ہوں کیونکہ 2008کے امریکی صدارتی انتخابات میں مجھے اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) قاضی محمد فاروق کو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے مدعوکیا تھا۔ہم نے جب4نومبر 2008کو واشنگٹن میں بعض پولنگ سٹیشنوں کا معائنہ کیا تو ہمیں حیرانی ہوئی کہ ووٹرز کی اکثریت مینول طریقے سے ووٹر بیلٹ فارم حاصل کرکے ووٹ بیلٹ باکس میں ڈال رہے تھے اور بیلٹ پیپرز کے حصول کا وہی طریقہ دیکھنے میں آیا جو ہمارے ملک میں رائج ہے۔چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) قاضی میں محمد فاروق نے ایک خاتون ووٹر سے دریافت کیا کہ وہ بیلٹ پیپر بیلٹ بکس میں ڈالنے کی بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو استعمال کیوں نہیں کررہیں جو پولنگ اسٹیشن پر موجود تھیں،تو خاتون ووٹرز نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ سسٹم فراڈ ہے اور فلوریڈا میں گذشتہ صدارتی انتخاب میں اس کے فراڈ کوقوم دیکھ چکی ہے۔ہمارے تجسس کو نیپال کے چیف الیکشن کمشنر اور انڈیا،انڈونیشیا،افغانستان کے الیکشن حکام نے بھی محسوس کیا اور افغانستان کے چیف الیکشن کمشنر نے بھی اس کا بغور جائزہ لیا اور انڈین الیکشن کمشنر کو بھی بڑی حیرت ہوئی۔اسی دورے کے دوران انٹرنیشنل فار الیکٹورل سسٹم کے صدر جس کا تقر رامریکی صدور خود کرتے ہیں،ان سے بھی اس سسٹم کے بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی۔انہوں نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ہیرا پھیری کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔اسی دورے کے دوران ہماری یو ایس ایڈ کے چیف ایڈمنسٹریٹر سے بھی پاکستان کے انتخابی نظام کے بارے میں بات چیت ہوئی،اُنہو ں نے ہمیں بتایا کہ پاکستان میں مقیم امریکی سفیر ایچی پیٹرسن پاکستان کے حالیہ انتخابات سے مطمئن ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان،ملک میں شفاف الیکشن کرانے کے داعی ہیں تو انہیں زمینی حقائق کے مطابق فیصلہ کرنا ہوگا،امریکا میں جو طریقہ کار ہے،اس کی رپورٹ ہمارے پاس موجود ہے،اس کے علاوہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے متبادل طریقہ کار کی بھی رپورٹ موجود ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے بعض ساتھی آنے والے انتخابات سے قبل انتخابات کومتنازع بنارہے ہیں،یہ تاثرات پھیلائے جارہے ہیں کہ حکومت ملک کو سنگین انتخابی بحران کی طرف لے جارہی ہے۔وزیرِ اعظم کو ان کی آئینی ماہرین نے بریف نہیں کیا کہ انتخابی قوانین میں ترامیم سے الیکشن کمیشن کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی سہولت کے بارے میں الیکشن کمیشن اپنے انتظامی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ازخود روڈ میپ تیار کرے گا اور ٹیکنالوجی کا انتخاب اور الیکٹرا نک ووٹنگ مشین کی قسم کے تعین کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو مل جائے گا،جس کے لیے الیکشن کمیشن کو وسیع اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ ترامیم کے ذریعے سمندر پارپاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق اس ملک میں ہی وہیں دے جہاں وہ رہائش پذیر ہے،جس کے لیے نادرا یا کسی ادارے یا ایجنسی کی معاونت آئین کے آرٹیکل 220کے تحت حاصل کرسکتا ہے۔الیکشن ایکٹ میں ترامیم سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے لیے مدت کا تعین نہیں کیا گیا،الیکشن کمیشن مرحلہ وار یا تجرباتی طورپر اس کو آگے بڑھانے کے لیے ٹائم فریم مقررکرنے کا مجاز ہوگا۔اور ملک انتخابی بحران سے بھی نکل جائے گا۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭

آٹھ ممالک کے انٹیلی جنس چیفس کا غیرمعمولی اجلاس

ملک منظور احمد
افغانستان کی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے،افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں سٹریٹیجک تبدیلیاں بھی رونما ہو رہی ہیں۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کے بعد طالبان کی حکومت تو وجود میں آچکی ہے لیکن یہ حکومت چلنے کے قابل ہے یا نہیں یہ بات دیکھنے کی ہے،امریکہ نے افغان ا سٹیٹ بینک کے تمام اثاثے جو کہ 9.5ارب امریکی ڈالر کے تھے منجمند کر دیے ہیں اور اس کے ساتھ ہی افغانستان کے اندر معاشی صورتحال دگر گوں ہو چکی ہے،افغان بینکوں کے آگے لمبی قطاریں لگی ہیں اور اطلا عات ہیں کہ افغان عوام اپنی راتیں بھی بینکوں کے آگے ہی گزار رہے ہیں،بینکوں میں اول تو پیسے ہیں ہی نہیں اور اگر کسی بینک میں موجود ہیں تو نہایت ہی کم مالیت کا کیش نکلوانے کی اجازت ہے اگر یہ کہا جائے کہ افغانستان اس وقت ایک معاشی آتش فشاں کے دہانے پر موجود ہے تو غلط نہیں ہو گا۔
اس صورتحال میں پاکستان سمیت دیگر چند ممالک نے عالمی برادری اور مغربی دنیا سے اپیل کی ہے کہ ایسے حالات میں افغان عوام کو تنہا نہ چھوڑا جائے کیونکہ اگر افغان عوام کو تنہا چھوڑا گیا تو پورا خطہ غیر مستحکم ہو سکتا ہے لیکن محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ مغربی دنیا مستقبل قریب میں افغانستان کی مدد کرنے یا ان پر سے مالی پا بندیاں ہٹانے پر تیار نہیں ہوگی،اور ایسے حالات میں کسی بھی ملک میں انارکی پھیل سکتی ہے اور انارکی کی صورتحال میں انتہا پسندی اور دہشت گردی جنم لیتی ہے اس بات میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے،چاہے ہم شام کی مثال لیں یا پھر لیبیا کی یا عراق کو ہی دیکھ لیں تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ جب تک ان ممالک میں مستحکم حکومتیں کام کرر ہیں تھیں تب تک ان ممالک میں دہشت گرد اور انتہا پسند قابو میں تھے لیکن جیسے ہی بیرونی قوتوں کی جانب سے ان ممالک کی حکومتوں کو سیاسی اور معاشی طور پر غیر مستحکم کیا گیا،یہ ممالک دہشت گردی اور انتہا پسندی کا گڑھ بن گئے۔اور اسی خطرے کے باعث اس خطے کے ممالک کا کرداد نہایت ہی اہم ہو جاتا ہے۔
چین،روس پاکستان اور ایران کسی صورت اس چیز کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں کہ ایک بار پھر افغان سر زمین سے دہشت گردی اور انتہا پسندی ان ممالک کو متاثر کرے اور مسائل کا باعث بنے۔اور شاید اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی میزبانی میں خطے کے آٹھ ممالک کے انٹیلیجنس سربراہان کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا،اور اس اجلاس میں افغانستان میں استحکام اور سیکورٹی کی صورتحال پر غور کیا گیا۔اس اجلاس کے انعقاد کے کئی اہم پہلوہیں سب سے اہم پہلوں پاکستان کے لیے تو یہ ہے کہ یہ اجلاس پاکستان میں منعقد کیا گیا،اس سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ نہ صرف خطے کے تمام اہم ممالک نہ صرف افغانستان کے مسئلہ پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کے معترف بھی ہیں۔اس اجلاس کے پاکستان میں انعقاد سے ایک بات اور بھی اخذ کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بہترین کوششیں کی ہیں اور کررہی ہے اور ملٹری ڈپلومیسی کا استعمال بہترین طریقے سے کیا جا رہا ہے۔
ہمارا ہمسایہ ملک بھارت جس نے چند سال قبل پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کا اعلان کیا تھا یہ پیشرفت اس کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں ہے۔جس نے پاکستان کو پوری دنیا کا مرکز نگاہ ثابت کیا ہے ایک کے بعد ایک یورپی ممالک کے وزرا ء خارجہ یا تو پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں یا پھر فون پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ان کے رابطے ہورہے ہیں۔پاکستان کی اس خطے میں اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور دنیا نے پاکستان کی اس اہمیت کو تسلیم کر لیا ہے۔ بہر حال خطے کے تمام اہم ممالک جن میں چین،روس ایران،تاجکستان،ازبکستان اور قازقستان شامل ہیں ان کے سربراہوں کے اجلاس میں یقینا افغانستان کی سیکورٹی کی صورتحال کے ساتھ ساتھ معاشی اور داخلی سیاسی صورتحال بھی زیر غور آئی ہوگی ااگر خطے کے تمام اہم ممالک نے افغانستان کی مدد کا فیصلہ کر لیا تو کوئی وجہ نہیں کہ نئی افغان حکومت چل نہ سکے اور ایک دفعہ افغان حکومت چل پڑی تو ما ہرین کی رائے کے مطابق امریکہ اور مغرب کو بھی افغان حکومت کے ساتھ تعلقات رکھنے پڑیں گے۔ بلکہ شاید اچھی سطح پر تعلقات رکھے پڑیں۔
خطے کے تمام ممالک کا اس بات پر اتفاق کرنا کہ افغان سر زمین کسی صورت کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے معنی خیز بیان ہے اور اس کامطلب یہی لیا جاسکتا ہے کہ خطے کے ممالک بھارت کو یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ افغان سرزمین کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا بند کرو۔گزشتہ ہفتے کے دوران جنرل فیض حمید کے دورہ کابل کے بعد بھارتی میڈیا پر مچنے والا واویلا اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ بھارت کے مفادات افغانستان میں کس حد تک مجروح ہو گئے ہیں اور بھارت اپنی خفت مٹانے کے لیے ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔
بہر حال پاکستان کو یہ یقین حاصل کرنا ہو گا کہ افغان سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نہ کی جائے۔یہ اجلاس اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکی سی آئی اے کے ڈائر یکٹر ولیم برنز نے پاکستان کا دورہ کیا اور باوثوق ذرائع کے مطابق جہاں پر انہوں نے امریکہ کے ساتھ تعاون کی صورت میں پاکستان کو مراعات دینے کا اشارہ دیا وہیں پاکستان کے خلاف سخت پالیسی اپنانے کی دھمکی بھی دی گئی،اس اجلاس کے ذریعے امریکہ کو بھی واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اگر امریکہ پاکستان سے رخ موڑتا ہے تو پاکستان کے پاس اپنے معاملات چلانے کے لیے دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔خطے کے ممالک کے لیے افغانستان کی موجودہ صورتحال ایک طرح کا امتحان ہے لہٰذا خطے کے ممالک کو چاہیے کہ افغان عوام کو اس صورتحال میں تنہا نہ چھوڑا جائے اسی میں پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کے مفادات پنہاں ہیں۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

کوہلی نے ورلڈ کپ کے بعد ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی چھوڑنےکا اعلان کردیا

بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ  کے بعد مختصر فارمیٹ کی کپتانی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔

ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں ویرات کوہلی کا کہنا تھا کہ میں انتہائی خوش قسمت رہا ہوں کہ میں نے ناصرف بھارت کی نمائندگی کی ہے بلکہ میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق بھارتی کرکٹ ٹیم کی قیادت بھی کرتا ہوں۔

کوہلی کا کہنا تھا کہ میں ان تمام افراد کا مشکور ہوں جنہوں نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے میرا ساتھ دیا۔ میں ساتھی کھلاڑیوں ، سپورٹنگ اسٹاف، سلیکشن کمیٹی اور کوچ سمیت ہر وہ بھارتی شہری جس نے ہماری ٹیم کے لیے دعا کی ،کا شکر گزار ہوں، ان کی مدد اور سپورٹ کے بغیر میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

بھارتی کپتان کا کہنا تھا کہ کام کے بوجھ کو سمجھنا بہت اہم  ہے ۔ گذشتہ8 سے 9 سالوں میں تینوں فارمیٹ کھلیتے ہوئے اور 5 ،6 سالوں سے مسلسل کپتانی کرتے ہوئے بہت زیادہ ‘ورک لوڈ’ کو محسوس کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ  مجھے ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں بھارتی ٹیم کی قیادت بہتر طریقے سے کرنے کے لیے خود کو آرام دینے کی ضرورت ہے۔

ویرات کوہلی کا کہنا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی کے کپتان کی حیثیت سے میں نے ٹیم کے لیے ہرممکن کوشش کی ہے اور آئندہ بھی میں ٹی ٹوئنٹی میں ایک بیٹسمین کی حیثیت سے  اپنی کوشش جاری رکھوں گا۔

بھارتی کپتان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے تک پہنچنے میں مجھے کافی وقت لگا ، اپنے قریبی لوگوں، کوچ روی بھائی اور روہت کے ساتھ کافی غوروفکر اور بات چیت کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اکتوبر میں دبئی میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد ٹی 20 کی کپتانی سے مستعفی ہوجاؤں گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ(بی سی سی آئی) کے صدر ساروو گنگولی اور سیکرٹری جے شاہ سمیت سلیکٹرز کو بھی اعتماد میں لیا ہے، میں اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ بھارتی کرکٹ ٹیم کی خدمت جاری رکھوں گا۔