تازہ تر ین

حکومت اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے

کنور محمد دلشاد
حکومتی وزرا کے سنگین الزامات کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیااور آئینی ماہرین سے آرٹیکل 204،163 (1) جی اور الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ 10کی روشنی میں اہم فیصلے کی توقع کی جارہی ہے۔ جس میں گذشتہ روز ایوانِ صدر میں ہونے والی میٹنگ کے دوران الیکشن کمیشن کے سینئرز حکام کے ساتھ بعض وزرا کے ناپسندیدہ ریمارکس کے بارے میں غوروخوض کیے جانے کی امید کی جارہی ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اہم اجلاس میں سینیٹر تاج حیدر چیئرمین قائمہ کمیٹی کی خصوصی دعوت پر مَیں نے بھی سا ت ستمبرکو چالیس منٹ کی بریفنگ دی تھی اور ان ہی نکات پر بات کی تھی جو اعتراضات الیکشن کمیشن نے بعدازاں لگائے ہیں۔میری بریفنگ پر حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر جو نکات اٹھائے تھے،اس کی تائید کی تھی۔میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ انڈیا کو 25سال کا عرصہ لگا، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے پائلٹ تجربات کرتے ہوئے۔لہٰذا الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں جن خرابیوں کی نشان دہی کی گئی ہے،اس کے ازالہ کے لیے اہم پیش رفت کی جانی چاہیے۔
وزیراعظم کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی سہولت کے بارے میں تکنیکی طورپر بریف نہیں کیا جارہا، حالانکہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ماہرین کی خدمات حاصل کی تھیں،ان کا بھی یہی مشورہ تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے شفاف الیکشن ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ فول پروف نہیں ہے اور الیکشن کمیشن اتنا بڑا انتخابی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔الیکشن کمیشن نے پارلیمانی روایات کے مطابق مجوزہ انتخابی ترامیم پر 34نکات پر مشتمل تحفظات سے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین تاج حیدر کو خط کے ذریعے آگاہ کیا۔ الیکشن کمیشن کا یہ آئینی و قانونی فیصلہ 34نکات پر محیط تھا۔اس خط کو آئین کے آرٹیکل 218اور 219کی روشنی میں ملاحظہ کرنا چاہیے تھا اور خط کے متن کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو سپریم کورٹ نے رازداری،شفافیت اور غیر جانبدارانہ طریقہ کار پر جو ماضی میں ریکارکس دیئے تھے،اسی کے پس منظر میں الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے قوم کو آگاہ کردیا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر عجلت میں کیے گئے فیصلے سے ملک میں انتخابی ووٹنگ تباہ کن ہوگی۔الیکٹرانک ووٹنگ منصوبے پر عمل درآمد ہمیشہ پیچیدہ،مشینوں کا استعمال قابل عمل نہیں،عوام کا انتخابی عمل سے اعتماد اُٹھ جائے گا۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے جلد نتائج کا امکان نہیں،انتخابی فراڈ روکنا مشکل ہوگا۔دنیا کے بہترین جمہوری ممالک بھی انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال نہیں کرتے۔اس میں زور آزمائی کے ذریعے ووٹ کے اندراج اور ووٹ کی خریداری کا امکان ہوتا ہے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین تیار کرتے ہوئے اس میں ایسی خفیہ چِپ لگائی جاسکتی ہے جو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے کارآمد ہو۔
حکومتی ارکان کو الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات لگانے کے بجائے الیکشن کمیشن کی جانب سے 34اعتراضات پر مبنی خط کے متن پر غور کرنے کے لیے ایک کمیٹی مقرر کردینی چاہیے تھی جو باریک بینی سے تمام خدشات پر غور و فکر کرنے کے بعد اپنی رائے پیش کرتی۔ترقی یافتہ ممالک جن میں جرمنی،نیدرلینڈ اور یورپی ممالک شامل ہیں،انہوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مسترد کرکے پرانے طریقہ کار کے مطابق ہی الیکشن کرانے کو ترجیح دی ہے۔مَیں اس سلسلہ میں ذاتی تجربہ پیش کررہا ہوں کیونکہ 2008کے امریکی صدارتی انتخابات میں مجھے اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) قاضی محمد فاروق کو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے مدعوکیا تھا۔ہم نے جب4نومبر 2008کو واشنگٹن میں بعض پولنگ سٹیشنوں کا معائنہ کیا تو ہمیں حیرانی ہوئی کہ ووٹرز کی اکثریت مینول طریقے سے ووٹر بیلٹ فارم حاصل کرکے ووٹ بیلٹ باکس میں ڈال رہے تھے اور بیلٹ پیپرز کے حصول کا وہی طریقہ دیکھنے میں آیا جو ہمارے ملک میں رائج ہے۔چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) قاضی میں محمد فاروق نے ایک خاتون ووٹر سے دریافت کیا کہ وہ بیلٹ پیپر بیلٹ بکس میں ڈالنے کی بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو استعمال کیوں نہیں کررہیں جو پولنگ اسٹیشن پر موجود تھیں،تو خاتون ووٹرز نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ سسٹم فراڈ ہے اور فلوریڈا میں گذشتہ صدارتی انتخاب میں اس کے فراڈ کوقوم دیکھ چکی ہے۔ہمارے تجسس کو نیپال کے چیف الیکشن کمشنر اور انڈیا،انڈونیشیا،افغانستان کے الیکشن حکام نے بھی محسوس کیا اور افغانستان کے چیف الیکشن کمشنر نے بھی اس کا بغور جائزہ لیا اور انڈین الیکشن کمشنر کو بھی بڑی حیرت ہوئی۔اسی دورے کے دوران انٹرنیشنل فار الیکٹورل سسٹم کے صدر جس کا تقر رامریکی صدور خود کرتے ہیں،ان سے بھی اس سسٹم کے بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی۔انہوں نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ہیرا پھیری کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔اسی دورے کے دوران ہماری یو ایس ایڈ کے چیف ایڈمنسٹریٹر سے بھی پاکستان کے انتخابی نظام کے بارے میں بات چیت ہوئی،اُنہو ں نے ہمیں بتایا کہ پاکستان میں مقیم امریکی سفیر ایچی پیٹرسن پاکستان کے حالیہ انتخابات سے مطمئن ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان،ملک میں شفاف الیکشن کرانے کے داعی ہیں تو انہیں زمینی حقائق کے مطابق فیصلہ کرنا ہوگا،امریکا میں جو طریقہ کار ہے،اس کی رپورٹ ہمارے پاس موجود ہے،اس کے علاوہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے متبادل طریقہ کار کی بھی رپورٹ موجود ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے بعض ساتھی آنے والے انتخابات سے قبل انتخابات کومتنازع بنارہے ہیں،یہ تاثرات پھیلائے جارہے ہیں کہ حکومت ملک کو سنگین انتخابی بحران کی طرف لے جارہی ہے۔وزیرِ اعظم کو ان کی آئینی ماہرین نے بریف نہیں کیا کہ انتخابی قوانین میں ترامیم سے الیکشن کمیشن کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی سہولت کے بارے میں الیکشن کمیشن اپنے انتظامی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ازخود روڈ میپ تیار کرے گا اور ٹیکنالوجی کا انتخاب اور الیکٹرا نک ووٹنگ مشین کی قسم کے تعین کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو مل جائے گا،جس کے لیے الیکشن کمیشن کو وسیع اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ ترامیم کے ذریعے سمندر پارپاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق اس ملک میں ہی وہیں دے جہاں وہ رہائش پذیر ہے،جس کے لیے نادرا یا کسی ادارے یا ایجنسی کی معاونت آئین کے آرٹیکل 220کے تحت حاصل کرسکتا ہے۔الیکشن ایکٹ میں ترامیم سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے لیے مدت کا تعین نہیں کیا گیا،الیکشن کمیشن مرحلہ وار یا تجرباتی طورپر اس کو آگے بڑھانے کے لیے ٹائم فریم مقررکرنے کا مجاز ہوگا۔اور ملک انتخابی بحران سے بھی نکل جائے گا۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain