تازہ تر ین

آٹھ ممالک کے انٹیلی جنس چیفس کا غیرمعمولی اجلاس

ملک منظور احمد
افغانستان کی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے،افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں سٹریٹیجک تبدیلیاں بھی رونما ہو رہی ہیں۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کے بعد طالبان کی حکومت تو وجود میں آچکی ہے لیکن یہ حکومت چلنے کے قابل ہے یا نہیں یہ بات دیکھنے کی ہے،امریکہ نے افغان ا سٹیٹ بینک کے تمام اثاثے جو کہ 9.5ارب امریکی ڈالر کے تھے منجمند کر دیے ہیں اور اس کے ساتھ ہی افغانستان کے اندر معاشی صورتحال دگر گوں ہو چکی ہے،افغان بینکوں کے آگے لمبی قطاریں لگی ہیں اور اطلا عات ہیں کہ افغان عوام اپنی راتیں بھی بینکوں کے آگے ہی گزار رہے ہیں،بینکوں میں اول تو پیسے ہیں ہی نہیں اور اگر کسی بینک میں موجود ہیں تو نہایت ہی کم مالیت کا کیش نکلوانے کی اجازت ہے اگر یہ کہا جائے کہ افغانستان اس وقت ایک معاشی آتش فشاں کے دہانے پر موجود ہے تو غلط نہیں ہو گا۔
اس صورتحال میں پاکستان سمیت دیگر چند ممالک نے عالمی برادری اور مغربی دنیا سے اپیل کی ہے کہ ایسے حالات میں افغان عوام کو تنہا نہ چھوڑا جائے کیونکہ اگر افغان عوام کو تنہا چھوڑا گیا تو پورا خطہ غیر مستحکم ہو سکتا ہے لیکن محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ مغربی دنیا مستقبل قریب میں افغانستان کی مدد کرنے یا ان پر سے مالی پا بندیاں ہٹانے پر تیار نہیں ہوگی،اور ایسے حالات میں کسی بھی ملک میں انارکی پھیل سکتی ہے اور انارکی کی صورتحال میں انتہا پسندی اور دہشت گردی جنم لیتی ہے اس بات میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے،چاہے ہم شام کی مثال لیں یا پھر لیبیا کی یا عراق کو ہی دیکھ لیں تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ جب تک ان ممالک میں مستحکم حکومتیں کام کرر ہیں تھیں تب تک ان ممالک میں دہشت گرد اور انتہا پسند قابو میں تھے لیکن جیسے ہی بیرونی قوتوں کی جانب سے ان ممالک کی حکومتوں کو سیاسی اور معاشی طور پر غیر مستحکم کیا گیا،یہ ممالک دہشت گردی اور انتہا پسندی کا گڑھ بن گئے۔اور اسی خطرے کے باعث اس خطے کے ممالک کا کرداد نہایت ہی اہم ہو جاتا ہے۔
چین،روس پاکستان اور ایران کسی صورت اس چیز کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں کہ ایک بار پھر افغان سر زمین سے دہشت گردی اور انتہا پسندی ان ممالک کو متاثر کرے اور مسائل کا باعث بنے۔اور شاید اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی میزبانی میں خطے کے آٹھ ممالک کے انٹیلیجنس سربراہان کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا،اور اس اجلاس میں افغانستان میں استحکام اور سیکورٹی کی صورتحال پر غور کیا گیا۔اس اجلاس کے انعقاد کے کئی اہم پہلوہیں سب سے اہم پہلوں پاکستان کے لیے تو یہ ہے کہ یہ اجلاس پاکستان میں منعقد کیا گیا،اس سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ نہ صرف خطے کے تمام اہم ممالک نہ صرف افغانستان کے مسئلہ پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کے معترف بھی ہیں۔اس اجلاس کے پاکستان میں انعقاد سے ایک بات اور بھی اخذ کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بہترین کوششیں کی ہیں اور کررہی ہے اور ملٹری ڈپلومیسی کا استعمال بہترین طریقے سے کیا جا رہا ہے۔
ہمارا ہمسایہ ملک بھارت جس نے چند سال قبل پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کا اعلان کیا تھا یہ پیشرفت اس کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں ہے۔جس نے پاکستان کو پوری دنیا کا مرکز نگاہ ثابت کیا ہے ایک کے بعد ایک یورپی ممالک کے وزرا ء خارجہ یا تو پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں یا پھر فون پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ان کے رابطے ہورہے ہیں۔پاکستان کی اس خطے میں اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور دنیا نے پاکستان کی اس اہمیت کو تسلیم کر لیا ہے۔ بہر حال خطے کے تمام اہم ممالک جن میں چین،روس ایران،تاجکستان،ازبکستان اور قازقستان شامل ہیں ان کے سربراہوں کے اجلاس میں یقینا افغانستان کی سیکورٹی کی صورتحال کے ساتھ ساتھ معاشی اور داخلی سیاسی صورتحال بھی زیر غور آئی ہوگی ااگر خطے کے تمام اہم ممالک نے افغانستان کی مدد کا فیصلہ کر لیا تو کوئی وجہ نہیں کہ نئی افغان حکومت چل نہ سکے اور ایک دفعہ افغان حکومت چل پڑی تو ما ہرین کی رائے کے مطابق امریکہ اور مغرب کو بھی افغان حکومت کے ساتھ تعلقات رکھنے پڑیں گے۔ بلکہ شاید اچھی سطح پر تعلقات رکھے پڑیں۔
خطے کے تمام ممالک کا اس بات پر اتفاق کرنا کہ افغان سر زمین کسی صورت کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے معنی خیز بیان ہے اور اس کامطلب یہی لیا جاسکتا ہے کہ خطے کے ممالک بھارت کو یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ افغان سرزمین کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا بند کرو۔گزشتہ ہفتے کے دوران جنرل فیض حمید کے دورہ کابل کے بعد بھارتی میڈیا پر مچنے والا واویلا اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ بھارت کے مفادات افغانستان میں کس حد تک مجروح ہو گئے ہیں اور بھارت اپنی خفت مٹانے کے لیے ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔
بہر حال پاکستان کو یہ یقین حاصل کرنا ہو گا کہ افغان سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نہ کی جائے۔یہ اجلاس اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکی سی آئی اے کے ڈائر یکٹر ولیم برنز نے پاکستان کا دورہ کیا اور باوثوق ذرائع کے مطابق جہاں پر انہوں نے امریکہ کے ساتھ تعاون کی صورت میں پاکستان کو مراعات دینے کا اشارہ دیا وہیں پاکستان کے خلاف سخت پالیسی اپنانے کی دھمکی بھی دی گئی،اس اجلاس کے ذریعے امریکہ کو بھی واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اگر امریکہ پاکستان سے رخ موڑتا ہے تو پاکستان کے پاس اپنے معاملات چلانے کے لیے دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔خطے کے ممالک کے لیے افغانستان کی موجودہ صورتحال ایک طرح کا امتحان ہے لہٰذا خطے کے ممالک کو چاہیے کہ افغان عوام کو اس صورتحال میں تنہا نہ چھوڑا جائے اسی میں پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کے مفادات پنہاں ہیں۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain