تازہ تر ین

آزادی ئ صحافت مگر ذمہ داری کے ساتھ

انجینئر افتخار چودھری
خبر کی صداقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ اگر کوئی فاسق آپ کے پاس خبر لے کر آئے تو اس کی تصدیق کر لیا کرو۔یہ سورہ حجرات کی آیت کریمہ ہے۔ اس موضوع پر بات کرنا اشد ضروری ہے کہ آج ڈی چوک میں صحافی آ کر بیٹھ گئے ہیں وہ کسی مجوزہ بل کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں وہ بل جو ابھی آیا ہی نہیں اس پر بلبلا اٹھنا عجب تماشہ ہے ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل پاس ہو کر قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو آزادی ء صحافت پر کاری ضرب لگے گی اور بھاری جرمانے کے علاوہ قید کی سزا بھی سنائی جائے گی۔ویسے مجھے حیرانگی اس بات کی ہے کہ جھوٹ الزام تراشی کسی کی کردار کشی کے متعدد قوانین بنے ہوئے ہیں یہ لوگ ایسے شور مچا رہے ہیں جیسے ملک خدادداد میں قوانین کی پابندی ہو رہی ہے۔یہاں پورا ملک کھا کے لندن جا بیٹھے ہیں اور ڈکار بھی نہیں مارتے ویسے مظہر شاہ بھی گوالمنڈی کے تھے پنجابی فلموں کے نامور ولن۔
آزادی ء صحافت کی بڑی تنظیم جس کا تعلق منہاج برنا سے ہے ان کے نائب صدر افتخار مشوانی کا کہنا ہے اس قسم کا کوئی بل اگر آ بھی جائے اور وہ قانون بھی بن جائے تو سپریم کورٹ ایسی کسی بھی سزا کو معطل کر سکتی ہے۔
دیکھئے اگر اللہ تعالیٰ نے کتاب مقدس میں واضح احکامات دئے ہیں توہمیں اسی سے روشنی لینی چاہئے۔لگتاایسا ہے کہ ہم نے نام تو اسلام کا لینا ہے لیکن کام اسلامی نہیں کرنا۔آزادی اظہاررائے ذمہ داری کے ساتھ وقت کا تقاضہ ہے۔حیرانگی اس بات کی ہوتی ہے کہ سارے سیاست دان موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان بلاول صاحب کوہی دیکھ لیجئے ان کے دور میں سندھ میں کیا ہو رہا ہے ان کی وہ بات تو آپ نے سن رکھی ہو گی کہ کس کی جرأت ہے مجھ سے کوئی سوال کر سکے۔ اس صحافی کی لاش کو تو ہم نے دیکھا ہے جس بے چارے نے یہ خبر بریک کی تھی کہ بلاول جب ٹرین مارچ پر نکلے تو ان کے حواریوں نے کرائے پر لائے گئے لوگوں کو طے شدہ رقوم نہیں دیں۔میں حیران ہوں یہ بھی ڈی چوک میں بیٹھے ہوئے صحافیوں کے ساتھ گلے لگ کر آزادی ء صحافت کا رونا رو رہے ہیں۔ن لیگ کے دور میں سب سے زیادہ صحافی قتل ہوئے۔یہ پارٹی تو میڈیا پر خرچہ کرنا جانتی ہے۔کہتے ہیں پاکستان میں لفافہ سیاست کی بنیاد ہی نواز شریف نے رکھی ہے۔
آپ صحافیوں کے سفر کی داستانیں سن لیں یہ سب وہ ہیں جو نواز شریف دور میں مزے کرتے تھے۔لیکن میری اپنی مرضی اور خواہش ہے کہ ہم اس مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کریں۔ ہمیں بھی علم ہے کہ دھرنوں سے حکومتیں نہیں بدلتیں اگر بدلتیں تو ہم نے جو دھرنہ ۲۰۱۴ میں دیا تھا کم از کم ۲۰۱۵ میں تو حکومت بدل جانی چاہئے تھی لیکن حکومت بدلی تو ۲۰۱۸ میں۔ لہٰذا مریم بی بی یا بلاول بھٹواور مولانافضل الرحمن اگر اپنی خواہشات کی تکمیل ہمارے صحافی بھائیوں کے ذریعے کرانا چاہتے تو یہ ان کی بھول ہے۔
پاکستان تحریک انصاف صحافی بھائیوں کی قدر کرتی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے جب ان مطالبات کے پیچھے وہ لوگ نظر آتے ہیں جنہوں نے حکومت کے خاتمے کے لئے پہلے دن سے ہی تحریک چلا رکھی ہے۔میرے صحافی دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ میں نے ہمیشہ آزادی صحافت کے لئے جدوجہد کی ہے۔ افضل بٹ سے پوچھ لیں میں مشرف دور میں جناب احمد فراز کو بھی ان مظاہروں میں لے کر گیا۔ میں نے کالی پٹیاں بینر پوسٹر اپنے گھر میں تیار کئے اس لئے کہ میں ایک ڈکٹیٹر اور جابر کی وجہ سے ۷۱ دن جدہ جیل میں رہا میں نے جدہ میں مقیم پاکستانیوں کے حق میں آواز اٹھائی تھی جس کا جرمانہ والدہ کی موت دیکھنے کی صورت میں ملا۔اپنے دکھ اور اپنی کہانی سنانا اچھا لگتا ہے لیکن کسی کی سننا مشکل ہوتا ہے جنرل اسد درانی ان دنوں سعودی عرب میں سفیر تھے۔ یہ ۲۰۰۲ کا زمانہ تھا اس وقت مشرف کا طوطی بولتا تھا لہٰذہ مجھ سے بڑھ کر صحافی کے دکھ کو کوئی نہیں سمجھ سکتا میں ”خبریں“ کا بیورو چیف تھا میں نے جدہ کی ڈائری میں ان نون لیگیوں اور غیر نون لیگیوں کی گرفتاری پر لکھا تھا جن میں کچھ اب اس دنیا میں نہیں رہے اور جو ہیں اللہ سلامت رکھے۔پھر ہوا کیا کہ مجھے ہی دھر لیا لہٰذا میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ مجوزہ بل کے بارے میں گزشتہ رات میرے پروگرام میں پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر نبیل چوہدری نے کھلے لفظوں میں کہا کہ ابھی کوئی بل آیا ہی نہیں اور نہ اس قسم کی باتیں ہوئی ہیں ان کا کہنا تھا کہ میڈم شیریں مزاری جو انسانی حقوق کی وزارت چلا رہی ہیں انہوں نے بھی انکار کیا ہے۔آپ کو علم ہے محترمہ دبنگ خاتون ہیں بغیر لگی لپٹی بات کرنا ان کا خاصہ ہے۔
پاکستان واحد ایسا ملک ہے جہاں صحافت کو بھی مادر پدر آزادی ملی ہوئی ہے۔عمران خان اور بلاول کا گو کوئی تقابل نہیں بنتا لیکن دیکھ لیجئے ایک صحافی عمران خان کو کہہ رہا ہے مجھے بتائیں میں آپ کا گلہ پکڑوں یا کسی فوجی کا تو اس قدر جرائت بلاول کے سندھ میں کسی کو حاصل ہے۔ادھر اس صحافی کو قتل کر دیا جاتا ہے ادھر اسے برداشت کیا جاتا ہے میاں نواز شریف تو کسی صحافی کو سوال دیکھے بغیر انٹرویو نہیں دیتے تھے جو شخص پرچیاں پڑھ کر بات کرتا ہوں اس نے ان بے باک لوگوں کا کیسے سامنا کرنا تھا۔
میرے اس کالم کا لب لباب بھی یہی ہے کہ کہ فیک خبر کو لگام دینا ہو گی مجھے یہ بتائیں ہم نے کل ہی دیکھا کہ محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کی موت کی خبر سوشل میڈیا پر آ گئی آپ سب باتوں کو چھوڑیں ہم محسن کش لوگ ہیں لیکن یہ بتائیے ان کی فیملی پر کیا گزری ہو گی۔سید علی گیلانی کو ہم نے مار دیا۔ڈاکٹر نبی نے بتایا کہ ٹویٹر پر سید علی گیلانی کا ایک اکاؤنٹ تھا وہ ان کے مرنے کے بعد بھی جاری رہا موت کے تیسرے دن اسی اکاؤنٹ سے مودی کی مذمت جاری ہو رہی تھی انہیں یاد دلایا گیا کہ سر آپ مر چکے ہیں اور اس کے بعد اب وہ مسلمان سے سکھ نجوت سنگھ سدھو بن گئے ہیں۔
کیا صحافتی تنظیمیں ان جھوٹوں کے بارے میں کچھ کہیں گی۔
ہم کب کہتے ہیں کہ صحافی زندہ نہیں ہے لیکن صحافی کو اگر زندہ رہنا ہے تو خدا کے لئے ریاست کو بھی زندہ رہنے دے اس ملک خداداد کو زندہ رہنے دے جس کے لئے لاکھوں جانیں قربان ہوئیں۔ ضیا شاہد کو اللہ جنت بخشے ان کو پڑھیں اور دیکھیں کہ یہ آزادی کیسے ملی۔
ڈی چوک آپ کا ہے پورا ملک آپ کا ہے آپ جہاں چاہیں بیٹھیں مطالبہ کریں آپ اللہ کے کرم سے زندہ بیٹھے ہیں زندہ اٹھیں گے یہ سندھ نہیں اسلام آباد ہے یہاں صحافی وزیر اعظم کو گلے سے پکڑیں یہاں کوئی حرکت میں نہیں آئے گا
جیتے رہیں لیکن ایک بات یاد رکھیں جھوٹ مکر اور فریب کا ساتھ نہ دیں آج ایک بڑے دین دار صحافی نے،،اگر،،کی بنیاد پر پورا کالم لکھ ڈالا اور لکھا کہ اسلام قبول کرنے پر پابندی لگ رہی ہے تو دل میں سوچا یہ پاپی پیٹ کس قدر گھٹیا ہے کہ اس بندے پر الزام دھر رہا ہے جس نے خود گوروں کو مسلمان کیا ہے دراصل یہ لوگ ریاست مدینہ نہیں بلکہ ایسا ملک چاہتے ہیں جہاں پلاٹ حج نوکریاں سفر عیاشیاں مفت ہوں اور سن لیں عمران خان میرے شیر لیڈر نے کیا خوب کہا تھا ”چھوڑوں گا نہیں رلاؤں گا،،
ہاں میں لڑائی جھگڑے کے سخت خلاف ہوں۔فواد چوہدری جیسا زیرک شخص اور وزیر جس کی گفتار سے مخالفین کی صفوں میں کھل بھلی مچ جاتی ہے انہیں چاہئے ان سے مکالمہ کرے اور ان سے کہے کہ آزادی ء صحافت ضرور ہو گی مگر ذمہ داری کے ساتھ۔
(کالم نگار پاکستان تحریک انصاف کے سینٹرل ایڈوائزر ٹریننگ اور ایجوکیشن ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain