ملک بھر میں تمام تعلیمی ادارے 16 ستمبر سے کھولنے کا اعلان

ملک بھر میں تمام تعلیمی ادارے 16 ستمبر سے کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں کہا کہ مجھے یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہے کہ تمام تعلیمی ادارے 16 ستمبر سے  کھول دیے جائیں گے۔

امریکا کا پاکستان کیلئے فائزر ویکسین کی 3 لاکھ سے زائد خوراکوں کا عطیہ

مریکا نے پاکستان کو فائزر ویکسین کی مزید 3لاکھ سے زائد خوراکیں عطیہ کی ہیں۔

 تفصیلات کے مطابق لاہور ایکسپو سینٹر میں فائزر ویکسین کی خوراکیں محکمہ صحت کے حوالے کرنے کی تقریب سے وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے خطاب کر تے ہوئے کہاکہ  15 سال سے 18سال تک کے افراد کو فائزر ویکسین لگ رہی ہے۔

اس مو قع پر انہوں نے بتایاکہ لاہور میں فائزر کی 3لاکھ 20ہزار580خوراکیں وصول کی جارہی ہیں، امریکا کی جانب سے ملتان، فیصل آباد کےبعد لاہورکوویکسین عطیہ کی گئی ہے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ کورونا ویکسین مہم میں سپلائی کا مسلسل ہونا بہت ضروری ہے ، اب تک 3 کروڑ ویکسین لگ چکی ہے، 15 سال سے 18سال تک کے افرادکو فائزر ویکسین لگ رہی ہے۔

وزیر صحت پنجاب نے مزید کہا کہ اسپتالوں میں 87 فیصد کیس ویکسین نہ لگنے کی وجہ سے آئے، آئی سی یو میں بھی وہ ہی لوگ ہیں جنہیں ویکسین نہیں لگی۔

واضح رہےکہ گذشتہ روز امریکا نے سندھ کے لیے بھی  فائزر ویکسین کی مزید 3لاکھ20ہزار سے زائد خوراکوں کا عطیہ دیا تھا ، امریکی قونصل جنرل مارک آسٹرو نے ویکسین وزیرصحت سندھ کے حوالے کیں۔

خوراکیں امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے 66 لاکھ فائزر ویکسین کا حصہ ہیں ، کوویڈ ویکسین کی چوتھی قسط سے پاکستان کو ملی ویکسین کی تعداد ایک کروڑ 6 لاکھ ہوچکی ہے۔

اس موقع پر امریکی قونصل جنرل مارک آسٹرو کا کہنا تھا کہ کوویڈ کےخلاف پاکستانی عوام کےساتھ مل کرکام کرنے پر فخر ہے، عطیہ پاکستانی عوام کی زندگیاں بچانے اور وبا کے خاتمے کے لیے ہے۔

دوسری جانب اسلام آباد میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہاکہ ویکسین نہ لگوانے والے شہریوں کے لیے آہستہ آہستہ پابندیاں بڑھاتے چلے جائیں گے، ایسے کام جس سے وہ دوسروں کےلیے خطرہ بن سکتے ہیں ان سے روکنا شروع کردیں گے، 30 ستمبر تک دونوں ڈوز نہ لگوانے والوں پر سخت پابندیاں لگائی جائیں گی۔

انہوں نے ویکسین نہ لگوانے والے شہریوں پر پابندیوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ فضائی سفر پر پابندی ہوگی، شاپنگ مالز میں دکانداروں اور گاہکوں دونوں کے داخلے پر پابندی ہوگی، ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز میں بکنگ بند کردی جائے گی، انڈور آؤٹ ڈور ڈائننگ اور شادیوں میں شرکت نہیں کرسکیں گے، تعلیمی اداروں میں ویکسین نہ لگوانے والا تدریسی اور غیر تدریسی تمام عملہ 30 ستمبر کے بعد اپنا کام جاری نہیں رکھ سکے گا۔

 اسد عمر نے مزید کہا کہ 20 لاکھ کی آبادی والے شہر اسلام آباد میں 52 فیصد آبادی کی مکمل ویکسی نیشن ہوچکی ہے۔

چین کا طالبان حکومت کیلیے ڈیڑھ کروڑ ڈالر امداد کا اعلان

کابل: طالبان حکومت کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے چین کے ایلچی وانگ یو نے ملاقات کی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔ 

امارت اسلامیہ افغانستان کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی ٹوئٹ میں بتایا کہ عبوری حکومت کے وزیر خارجہ مولوی امیر اللہ متقی سے افغانستان کے لیے چین کے خصوصی ایلچی وانگ یو نے اہم ملاقات کی۔

اس موقع پر چین کے ایلچی نے کورونا ویکسین کی 30 لاکھ خوراکیں اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی مالی امداد کی فراہمی سے آگاہ کیا۔

ترجمان طالبان کے مطابق ملاقات کے دوران چین کے خصوصی ایلچی نے افغانستان کے ساتھ انسانی، معاشی، سیاسی تعاون اور تعلقات قائم رکھنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔

 

امارت اسلامیہ افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے چین کی مالی امداد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ چین اور افغانستان ہمسائیہ ممالک ہیں اور دوطرفہ تعلقات کی ترقی دونوں فریقوں کے مفاد میں ہے۔

واضح رہے کہ 8 ستمبر کو چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے پاکستان، ایران اور تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے ہم منصبوں کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کے دوران افغان شہریوں کے لیے 3 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی مالی امداد کی پیشکش کی تھی جو غذائی قلت اور کورونا وبا پر خرچ کی جائے گی۔

پی ڈی ایم کابیانیہ اور ملک گیر تحریک

محمدنعیم قریشی
اس میں اب کوئی شک باقی نہیں رہاہے کہ مسلم لیگ ن دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے معاملہ اس وقت ووٹ کو عزت وو سے نکل کر کام کو عزت دوتک جاپہنچا ہے۔ شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ وہ خلائی مخلوق سے ٹکر اکر کچھ حاصل نہ کرسکیں گے بڑے بھائی کے عبرت ناک انجام سے باخبر چھوٹا بھائی اب پنجاب کے عوام کو اپنے دور کے ترقیاتی منصوبوں کی افادیت سمجھانے کی کوششوں میں مصروف ہے، ان کے ساتھ پنجاب میں خواجہ سعد رفیق سمیت بہت سے اہم رہنما بھی اس بات کے حق میں ہیں کہ وہ اب زیادہ دیر تک اداروں کی ہرزہ سرائی نہیں کرسکتے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ اب زیادہ دیر اقتدار کے بغیر رہتے ہوئے اکتا گئے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ شریف خاندان میں اب بیانیے کے ساتھ وراثت کی جنگ کا کھلم کھلا آغاز ہوچکاہے۔مریم اورنگزیب جو اپنی ہر تقریر میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگواکر اپنی آواز لندن تک پہچانے کی کوشش کیا کرتی تھی اور یہ حکم مریم نواز کا بھی تھا کہ والد محترم میاں نوازشریف کی جارحانہ انداز سیاست کا دامن کسی بھی حال میں نہیں چھوڑنا یہ ہی وجہ ہے کہ مریم اورنگزیب کی تھکا دینے والی اور خلائی مخلوق کو ناراض کرنے والی تقریروں سے تنگ آکر شہباز شریف نے اپنا ترجمان پنجاب کے اہم لیگی رہنما ملک احمد خان کو مقرر کردیاہے جو کہ مریم نواز کے برعکس نپے تلے الفاظ میں سوچ سوچ کر بولنے والے آدمی ہیں، اور اس کے ساتھ ہی شہباز کی پرواز کوطول دینے کے لیے خواجہ سعد رفیق نے کنٹومنٹ بورڈ کے انتخابات میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ہٹواکر کام کو عزت دو کا نعرہ درج کروادیاہے گو کہ میاں نوازشریف کی بے جان تصویر تو نعرے کے پاس لگی ہوئی ہے مگر ان کا بیانیہ ختم کردیا گیا۔
اسی طرح آئے روز ہم خواجہ آصف، شاہدخاقان عباسی اور احسن اقبال اور چودھری نثار جیسے اہم لیگی رہنماؤں کی گفتگو نیوز چینلوں میں دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں جو فی الحال آپس میں ہی ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہباز شریف کا رویہ ہی نہیں بدلہ بلکہ ان کی ٹیم بھی بدل چکی ہے اور ویسے دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ نواز کی نسبت شہباز کے لیے زیادہ نرم گوشہ رکھتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ شہباز شریف آج کل اپنے مفاہمتی بیانیے کی بدولت اسٹیبلشمنٹ میں اپنی پارٹی اور آنے والے انتخابی منظر نامے میں بطور وزیراعظم اپنی قبولیت کے راستے تلاش کرتے پھررہے ہیں۔اس موقع پر شہباز شریف کی مفاہمت اور قومی حکومت کے بیانیے سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ انہیں آئندہ کا سیاسی نقشہ کچھ ایسے نظر آرہا ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کے نقشے قدم پر چلنے کی بجائے اپناکام بنتا‘ بھاڑ میں جائے جنتا کے فارمولے کو اپنائے ہوئے ہیں۔دوسری جانب پیپلز پارٹی کی یہ طرز سیاست رہی ہے کہ حالات جتنے بھی برے ہوں وہ پارلیمانی سیاست سے دستبرداری کرنے سے دور رہتی ہے اور گزشتہ سالوں سے تو وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مفاہمت کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمان سمیت مریم نواز کا رویہ سب کے سامنے ہے مریم اپنے والد کا انداز سیاست اپنا کر خالی ہاتھ آج کل الگ تھلگ ہیں۔
بلاول اور مریم کے بیانات سے دونوں جماعتوں کے اختلاف بڑھے تو ہیں مگر شہباز شریف بلاول کو ساتھ لے کر چلنے کے خواہشمند ہیں۔اگرہم اپوزیشن کے اتحاد کی بات کریں توسندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے پی ڈی ایم سے علیحدہ ہوجانے کے باوجود جمیعت علماء اسلام(ف) کراچی شہر میں پی ڈ ی ایم کا ایک متاثر کن جلسہ منعقد کرانے میں کامیاب تو ہو گئی ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اب اسلام آباد میں بھی عوام کا لاؤ لشکرلے کر پہنچ جائیں گے۔
پی ڈی ایم کے اس گٹھ جوڑ نے اتحاد کے قیام سے لیکر اب تک پاکستان کے مختلف شہروں میں لگ بھگ سترہ جلسے کیے جبکہ اتوار کو کراچی میں ہونے والا جلسہ اتحاد اکا اٹھارواں جلسہ تھا۔کراچی میں پی ڈی ایم کی جانب سے اسلام آباد کی جانب اعلان کردہ لانگ مارچ حکومت کے لیئے کوئی خطرہ نہیں بنے گا کیونکہ جہاں ن لیگ قیادت کے جھگڑوں میں گھری ہوئی ہے وہاں پیپلزپارٹی کے بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں کیونکہ نہ تو حالات اس کے لیئے سازگار ہیں اور نہ ہی پی ڈی ایم اس کے لیئے سنجیدہ ہے، یہ اعلان محض سیاسی شعبدہ بازی ہے اس سے حکومت کے لیئے کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا۔ پی ڈی ایم کی قیادت اندرون خانہ کسی نہ کسی لحاظ سے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں ہے اور وہ اپنے معمولی ذاتی مفادات کسی اہم قومی مقصد کے لیئے قربان کرنے پر آمادہ نہیں، ایسے میں کوئی اسلام آباد مارچ کیسے نتیجہ خیز ہو سکتا ہے؟ اس طرح پی ڈی ایم میں موجود سیاسی جماعتوں کے آپس میں سیاسی اختلافات بھی ہیں پیپلز پارٹی سندھ کا اقتدار چھوڑنے پر تیار نہیں اور وہ اسی لیئے پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان کر چکی ہے جبکہ دیگر جماعتوں کے قائدین میں بھی اتحاد اور اتفاق کا شدید فقدان ہے۔
اِدھر چھوٹے بھائی کی نافرمانیوں سے بے خبر بڑے بھائی میاں نواز شریف لندن سے بیٹھ کر کبھی کبھار من پسند مقامی قائدین سے بات کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سیاسی مشاورت کر لی ہے جبکہ مسلسل ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے ان کے ووٹر بھی اب ان سے اکتا گئے ہیں۔دوسری جانب ن لیگ اور پی پی میں الزام تراشی کی بوچھاڑ نے ایسا رخ اختیار کیا ہے کہ عمران خان کو سیلیکٹڈ کہنے والے ایک دوسرے کو ہی سیلیکٹڈ کے طعنے دینے لگے ہیں، اسمبلیوں سے استعفے دینے کی بات کی تو پیپلز پارٹی کو اپنی سندھ میں حکومت نظر آنے لگی جس سے اس نے اپنی راہیں جد ا کر لیں یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں انہیں ایک صوبے کی حکومت سے بھی نہ ہاتھ دھونے پڑ جائیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے پاس کھونے کے لیئے صوبہ سندھ ہے جبکہ ن لیگ کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

برادر ملک میں برادرز کی حکومت

ندیم اُپل
معروف ادیب،ڈرامہ نگار اور دانشور اشفاق احمد(مرحوم) نے ایک بار اپنے کسی پروگرام میں کہا تھا کہ جو مولوی پتلون کوٹ پہن کر اور ٹائی لگا کر انگریزی بولے وہ بڑا خطرناک ہوتاہے۔اشفاق احمد نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب ابھی پاکستان اور دنیا میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا تصور بھی نہ تھااور اشفاق احمد کی اس بات کو محض مزاح کے طور پر لیا گیا تھا مگر آج جب ہم افغانستان میں 20سال تک جنگ لڑنے اور امریکہ کو شکست دینے والے طالبان کو انکے ترجمان کو بڑے شستہ لب و لہجہ میں فرفر انگریزی بولتا دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے دانشور کوئی بھی بات بے مقصد اور بلاجواز نہیں کرتے بلکہ ان کا اشارہ ماضی،حا ل اور مستقبل سے کسی نہ کسی حوالے سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ طالبان چونکہ انگریزی بولتے ہیں اور بقول اشفاق احمد(مرحوم) اس لیے خطرناک ہیں مگر یہ بات تو تسلیم کرنا پڑے گی کہ انہوں نے امریکہ بہادر کو جس مستقل اور بہادری سے شکست دے کر دنیا میں اپنی بہادری کے جھنڈے گاڑے ہیں اس پر وہ تعریف کے قابل ہیں بلکہ اب تو طالبان کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو بھی آزاد کروائیں گے جس پر بھارتی حکومت کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے اور راتوں کی نیند حرام ہو چکی ہے۔
آج یہ کہا جا رہا ہے کہ طالبان نے امریکہ کو شکست دی مگر اس میں یہ اضافہ کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہ ہوگا کہ طالبان نے امریکہ کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی شکست دی ہے۔مودی سرکار تو شاید یہ خواب دیکھ رہی تھی کہ امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی طرح افغانستان کو بھی اپنی طفیلی ریاست بنا لے گی جس کے لیے اس نے افغانستان میں پہلے ہی اربوں کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے حتی کہ بھارتی صنعت کاروں نے بھی افغانستان کا صنعتی کنڑول اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھامگر اشرف غنی کے ملک سے چلے جانے کے بعد تواس کی لٹیا ہی ڈوب گئی۔اشرف غنی کے آخری دنوں میں بھارت نے کابل سے اپنے لوگوں کو نکالنے کے بہانے جہازوں میں اشرف غنی کو بم اور دوسرا اسلحہ بھی بھجوایا تھا تاکہ طالبان کو شکست دی جا سکے اور کامیابی کی صورت میں وہ خود کابل کا کنٹرول سنبھال سکے مگراشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے اور طالبان کے کابل پر قبضے سے بھارت کے سارے خواب ادھورے رہ گئے افغانستان بھی ہاتھ سے گیا اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی ڈوب گئی۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو جب سے طالبان نے افغانستان کا نظم و نسق سنبھالا ہے انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایاکہ جس سے ان کی انتہاپسندی کی جھلک نظرآتی ہو بلکہ انہوں نے آتے ہی اپنے تمام مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا اور دنیا کے لیے خیر سگالی کا پیغام بھجوایا جو اس امر کی دلیل ہے کہ طالبان کی سوچ بدل چکی ہے خا ص طور پر اشرف غنی جس طرح سے افغانستان کے حالات خراب کرکے گئے ہیں ایسے میں اگر طالبان دنیا سے کٹ جائیں گے تو ان کو جس معاشی بدحالی کا سامنا ہے کرناپڑسکتا۔اس سے ان کی فتح شکست میں بھی بدل سکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا کے تمام ممالک کو محبت کا پیغا م بھجوا رہے ہیں اور ساتھ ہی وہ بیرونی دنیا سے امداد کی اپیلیں بھی کر رہے ہیں۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ ایسے میں پاکستان بھی اپنے برادر اسلامی ملک کے برادران سے دور نہیں رہا اور اس نے دو بار طالبان حکومت کو امدادی سامان کے جہاز بھجوائے ہیں اور پاکستان کی یہ وہ حکمت عملی ہے جس سے طالبان کے دلوں میں اگر کوئی کدورت تھی بھی تو وہ بھی ختم ہو جائے گی۔اس کے ساتھ ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمیدکا حالیہ دورہ افغانستان اور وہاں گلبدین سمیت طالبا ن کے سرکردہ لیڈروں کی ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقاتیں اس امر کی طرف واضح اشارہ ہیں کہ ان ملاقاتوں کے نتیجہ میں آنیوالے دنوں میں پاکستان اور طالبان حکومت کے تعلقات کا ایک نیا اور خوشگوار دور شروع ہوگا۔ان ملاقاتوں سے بھارت اور اس کا میڈیا جس قدر خوف زدہ ہوا اور بھارتی نیوز چینلزکے اینکرز سے پاکستان کے خلاف جس طرح کا زہر اگلنے لگے اس سے ان کے ذہنی دیوالیہ پن کا اندازہ ہوتا ہے۔کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ طالبان نائن الیون کے موقع پر ہی حلف برداری کی تقریب رکھیں گے تاکہ امریکہ کو نیچا دکھا سکیں اور دنیا میں اپنی تاریخ سازعسکری کامیابی کا ڈنکا بجا سکیں مگر طالبان قیادت نے ایسا نہ کرکے اپنی سیاسی فہم و فراست کا ثبوت دیا ہے۔لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ طالبان آنیوالے دنوں میں اپنی سیاسی بصیرت سے دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

سیکھنے کی بات

اسرار ایوب
کوئی کتنا ہی بڑاترقی پسند کیوں نہ ہو لیکن جاپانیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ ایک وقت وہ تھا جب جاپانی فوج میں نہ صرف خود کش بمباروں کو ریکروٹ کیا جاتا تھا بلکہ ان کے لئے بطورِ خصوصی سازوسامان بھی تیار کیا جاتا تھا۔ مثلاً”اوھکا“(OHKA) جاپان کا تیار کردہ خودکش جہاز تھا جس میں تین راکٹ لگے ہوتے تھے اور جو 2646پاؤنڈ وزنی تیز دھماکہ خیز مواد اپنی ناک میں اٹھا کر اڑ سکتا تھا،اس چھوٹے سے جہاز کو(جس میں بمشکل ایک آدمی بیٹھتا تھا) ایک بڑا بمبار جہاز اٹھا کر ہدف کے قریب لے جاتا اور چھوڑ دیتا،اوھکا 220میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتا ہوا جب ہدف کے اور بھی قریب پہنچتا تو اس کا پائلٹ اس کی راکٹ موٹرز کو آن کر دیتا جس کے بعد یہ 600میل فی گھنٹہ کی طوفانی رفتار سے(اپنے پائلٹ سمیت) امریکی بحری جہازوں سے ٹکرا کر انہیں پاش پاش کر دیتا۔ دوسرے خودکش جہاز کو ”کیٹن“ (KAITEN) کہتے تھے جس کی لمبائی 48فٹ تھی اور جو 3400پاؤنڈ دھماکہ خیز مواد اٹھا کر اڑنے کی استطاعت رکھتا تھا،اسے اڑانے والا بھی اس کے ساتھ ہی ”شہید“ ہو جاتا تھا۔یہ تو تھے فضائیہ کے خود کش حملہ آور، اب آیئے نیوی اور آرمی کی طرف، ”شینیو“(SHINYO)اس خود کش موٹر بوٹ کا نام تھا جو اتنی تیزی کے ساتھ اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھتی تھی کہ اسے نشانہ بنانا تقریباً تقریباًناممکن ہوتا تھا،اس پر بھی ایک ہی شخص بیٹھتا تھا جو اسے امریکی بحری جہازوں کے ساتھ ٹکرا کران کے ساتھ خود کو بھی نیست و نابود کر دیتا تھا،”کیریو“(KAIRYU)ایک خودکش آب دوز ہوا کرتی تھی اور اس کا کام بھی اپنے سوار سمیت ہدف سے ٹکرانا تھا،”فکیوریو“ (FUKURYU) اس جاپانی تیراک کو کہا جاتا تھا جو اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر ٹارگٹ سے ٹکرا جاتا تھا اور”نیکاکو“(NIKAKU)اس خود کش بمبار (سپاہی) کو کہتے تھے جو دھماکہ خیز مواد کے ساتھ رینگتے رینگتے امریکی ٹینکوں یا دوسری فوجی گاڑیوں کے نیچے پھٹتا تھا۔
دوسری جنگِ عظیم میں جاپانیوں نے خود کش حملوں کے لیے کل ملا کر750 اوھکا جہاز،9200 شینیوموٹر بوٹ(جن میں سے 6200نیوی اور3000آرمی کے لیے تھیں)،300کیریو آب دوزیں اور بے شمار’فکیوریو‘اور ’نیکاکو‘ (خود کش بمبار)تیار کیے اور جب انہیں استعمال کرنا شروع کیا تو امریکہ کے اوسان خطا ہوگئے،اسی لیے تو ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرے اور جاپان کو وہ چوٹ لگی جس کی ٹیس قیامت تک ختم نہیں ہو گی۔یہی وہ مقام تھاجس سے جاپانیوں کی تاریخ کاوہ نیا باب شروع ہوا جس نے جاپان کوسائنسی،معاشی اور معاشرتی تعمیر و ترقی کی اس سطح پر لاکھڑا کیا کہ اس کے پاس اسلحہ بارود ہے نہ خود کش بمبار لیکن کوئی اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرتا،جس امریکہ کو سینکڑوں بلکہ ہزاروں خود کش جہازوں،موٹر بوٹوں، آبدوزوں اور حملہ آوروں پر مشتمل ایک بڑی ہی مضبوط اور فعال آرمی بھی حساب کتاب میں نہ لاسکی،وہی امریکہ جی ڈی پی،جی این پی، فی کس آمدن اور انسانی ترقی کے اعدادوشمار سے”ہنڈز اپ“ ہو گیا۔اس سنہرے دورتک پہنچنے کے لیے جاپانیوں نے تین کام کیے،پہلا یہ کہ اپنی شکست تسلیم کی،دوسرا یہ کہ اپنے لیے ایک نئی منزل کا تعین کیا اور تیسرا یہ کہ اپنے ملک میں وہ ثقافتی انقلاب برپا کیا جو نئی منزل تک پہنچنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔
جاپانیوں نے یہ جان لیا کہ جب تک سائنس و ٹیکنالوجی کی راہ نہیں اپنائی جائے گی،تحقیق و تخلیق کا دامن نہیں تھاما جائے گا، اندھی تقلید و بھیڑ چال سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی جائے گی،تب تک ایک خود مختار وباوقارقوم کی شکل میں نہیں ابھرا جا سکتا۔اور یہ مان لیا کہ جس منزل کا خواب وہ دیکھ رہے ہیں وہاں پہنچانے میں کلیدی کردار سائنسدان اور مفکرین ہی ادا کر سکتے ہیں۔چناچہ انہوں نے ان ”اربابِ عقل و فکر“کوکچھ اس طرح اپنا ہیروقرار دے دیا کہ تقاریب میں انہیں مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا جاتا۔
یومِ آزادی پر انہی کے پیغامات نشر کیے جاتے، میڈیا انہی کی خبروں سے بھرا ہوتا،سب سے زیادہ تنخواہیں بھی انہی کو دی جاتیں،ڈراموں اور فلموں میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا۔الغرض پورے کاپورا معاشرہ سائنس و ٹیکنالوجی کے گیت گانے لگا۔اس ثقافتی انقلاب سے ہوا یہ کہ جاپانی بچوں میں خودبخود تحقیق و تخلیق کا ایک بڑا ہی زبردست قسم کا رجحان پیدا ہوگیا(اور وہ وقت بھی آیا کہ پرائمری سکولوں کے بچے ڈیجیٹل گھڑیاں بنانے لگے) جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 50سال میں ہی جاپانی دنیا پر چھا گئے اور انہوں نے اپنے خوابوں کاآفتاب اپنے ہاتھوں سے حقیقت کی دنیا میں اچھال دیاجس کی کرنوں سے ان کی تقدیر کے اندھیرے یکدم اجالوں میں تبدیل ہوگئے۔
جاپانیوں کی کہانی اس لئے سنائی کہ ایک زمانے میں جو نفسیات ان کی تھی کم و بیش وہی آج کل ہماری ہے۔کون نہیں جانتا کہ ہمارا ہر راستہ اسلحہ و بارود اور جنگ وجدل کی طرف جاتا ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارا رول ماڈل بھی بالعموم ایک جنگجو ہوتاہے۔ کاش ہم جاپانیوں کی تاریخ سے سبق سیکھ سکیں لیکن اس کے لئے ظاہر ہے کہ سب سے پہلے اپنی غلطی تسلیم کرنی پڑے گی جس کی عادت ہمیں ہے ہی نہیں، اس کے بعدتعلیمی اصلاحات کرنی پڑیں گی جیسے جاپان نے کیں جہاں ابتدائی آٹھ سالوں میں صرف اور صرف بچوں کی اخلاقیات پر دھیان دیا جاتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں اور مفکرین کو رول ماڈل تسلیم کرنا پڑے گا تاکہ ان جیسا بننے کی خواہش خود بخود بچوں میں پیدا ہو سکے۔ جبکہ ہمارے یہاں جو عزت و توقیر سائنس کودی جاتی ہے اس کا اندازہ اسی ایک بات سے بخوبی کیا جا سکتاہے کہ بیالوجی میں پی ایچ ڈی کر کے یونیورسٹی میں پڑھانے والے لوگ بھی کووڈ19کی ویکسین کو یہود و ہنودکی سازش قرار دیتے ہیں اور پیسے دے کر ویکسینیشن کاجعلی سرٹیفکیٹ بنوا لیتے ہیں۔ ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری جانب کئی ایسے لوگ بھی ہمارے یہاں باقاعدہ طور پر”عالم“ تصور کئے جاتے ہیں جو آج کے زمانے میں بھی یہ کہتے ہیں کہ زمین ساکن ہے جبکہ اسے حرکت کرتے ہوئے کوئی بھی موبائل کے ذریعے اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے؟کاش ہم ایٹم بم کھائے بغیر ویسے بن سکیں جیسا بننے کے لئے جاپانیوں کو ایٹم بم کھانا پڑا۔
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭

تاریخ کے اسباق کو دھوکا دینا

اکرام سہگل
چھ ستمبر کو برطانوی سکیورٹی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سکیورٹی انسٹیٹیوٹ (RUSI) میں سابق برطانوی سربراہ، ٹونی بلیئر نے جوگفتگو کی، اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ (1) انہوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ (2) ثابت شدہ حقائق سے انکار کی اپنی پرانی پالیسی پر قائم رہتے ہوئے انھیں مسلسل اس چیز سے بدلتے رہے، جس کے لیے وہ پوری دنیا میں مشہور یا بدنام ہیں، یعنی مکمل جھوٹ کے ساتھ آدھی سچائیوں کو آمیز کرنا۔ ذراان جھوٹے دعووں کو یاد کریں، جن کے ذریعے انہوں نے برطانیہ کو عراق جنگ کے لیے للچایاتھا۔
برطانیہ کے جنگ عظیم دوم کے بعد کے کردار کو ‘واشنگٹن کے وفادارکتے’ کے طور پر ذہن میں رکھیں۔ خود بلیئر کو بھی برطانیہ میں کھل کر ‘بش کا کتا’ کہا گیا۔ بلیئر نے بش انتظامیہ کی پالیسی کی بالکل غلامانہ طور سے حمایت کی، برطانوی مسلح افواج کی افغان جنگ میں شمولیت کو یقینی بنایا اور اس سے بھی زیادہ متنازعہ 2003 میں عراق پر حملے میں شمولیت کو۔ غیر مبہم انٹیلی جینس رپورٹس پر مبنی واضح معلومات کے باوجود بلیئر نے بے ایمانی سے دلیل دی کہ صدام حسین حکومت کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے، اور اس بات کو عراق جنگ میں شامل ہونے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے وہ برطانوی عوام میں بہت زیادہ غیر مقبول ہو گئے۔ اگرچہ کسی بھی ملک کے چیف ایگزیکٹو کو بعض اوقات قومی مفادات کی وجہ سے جھوٹ یا غلط معلومات میں بھی ملوث ہونا پڑتا ہے، تاہم فوجیوں کو کسی کی ذاتی ترغیب اور لالچ کی وجہ سے جنگ میں مرنے کے لیے بھیجنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ دونوں جنگوں سے ہونے والا جانی نقصان بہت بڑھ گیا ہے، کیوں کہ بلیئر نے برطانوی عوام سے صریح جھوٹ بولا تھا، اور یہ جھوٹ عراق جنگ میں برطانیہ کی شمولیت پر منتج ہونے والے ان حالات کی جامع انکوائری (2009-2016) میں کسی شک سے بالاتر ہو کر ثابت ہو گیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ انٹیلی جنس سروس نے اطلاع دی کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا کوئی ذخیرہ نہیں ملا، انہوں نے برطانوی پارلیمنٹ اور عوام کو اس کے برعکس بتایا۔ پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کے الزام میں آخر کار بلیئر کو 2007 میں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔
بلیئر نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور اپنی مرضی سے جھوٹ بولنے کی اپنی معروف پالیسی پر عمل جاری رکھا ہے۔ انہوں نے طالبان تحریک کو بنیاد پرست اسلام کی عالمی تحریک کا حصہ قرار دیا، کہ اگرچہ یہ بہت سے مختلف گروہوں پر مشتمل ہے، لیکن ان کا بنیادی نظریہ ایک ہی ہے۔ لیکن طالبان اور دیگر اسلامی تحریکوں میں بنیادی فرق ہے۔ افغان طالبان ایک سخت گیر قومی نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ وہ صرف اس لیے لڑ رہے تھے کہ اپنے جنگ زدہ ملک کو غیر ملکی فوجیوں سے چھٹکارا دلا کر امن قائم کریں۔ حتیٰ کہ اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران بھی انہوں نے کوئی ایسا ارادہ نہیں کیا کہ وہ افغانستان سے باہر کے علاقوں کو اپنے ملک میں شامل کر لیں۔ اگرچہ ڈیورنڈ لائن کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔ برطانوی نوآبادیاتی پالیسی سے پیدا ہونے والا یہ سرحدی تنازع پڑوسیوں کے درمیان حل ہو سکتا ہے۔ امریکا کے ساتھ ایک ایسے امن معاہدے پر بات چیت کے لیے راضی ہونا جو امریکیوں کو افغانستان سے ‘باوقار’ پسپائی کو ممکن بناتا، دراصل طالبان کی مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنے اور اس پر کھڑے ہونے کی تیاری کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے فوجیوں کا کابل کے دروازوں پر رکنا ان کے نظم و ضبط، اپنے فیلڈ کمانڈرز پر کمانڈ اینڈ کنٹرول کی کافی گواہی فراہم کرتا ہے، اور اسی کے ذریعے وہ بغیر خون خرابے اور شہر کو تباہ کیے پُر امن طور پر اندر داخل ہوئے۔
پنجشیر میں بھی مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن مذاکرات کی ناکامی پر طالبان نے سرعت اور مضبوطی سے قدم اٹھاتے ہوئے معاملات کو خراب ہونے سے بچایا۔ ولی مسعود آخر کار کچھ افہام و تفہیم پر آ سکتا ہے، تاہم امراللہ صالح کو بھارت کی طرف سے بھڑکایا جانا متوقع ہے۔ یہ دو دہائیوں پہلے بھی ہوا تاکہ کشیدگی کو ہوا دی جائے، ایسے افراد پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
بلیئر نے مزید کہا کہ نظریے اور تشدد دونوں ہی طور سے اسلامیت سیکیورٹی کے لیے فوری خطرہ ہے، اور اگر روک تھام نہ کی گئی تو یہ خطرہ ہم تک پہنچ جائے گا، چاہے اس کا مرکز ہم سے دور ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ نائن الیون نے ظاہر کیا۔
اس موقف کو دوسری اسلامی تحریکوں پر لاگو کیا جا سکتا ہے،لیکن طالبان پر نہیں۔ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے عدم استحکام کی وجہ اسلام پسندی کو قرار دے کر ٹونی بلیئر آسانی سے یہ بھلا دیتے ہیں کہ القاعدہ اور دیگر پُرتشدد اسلام پسند تحریکیں، بشمول خود اسامہ بن لادن، ابتدائی طور پر مغربی خفیہ ایجنسیوں ہی کی تخلیق تھے اور ہیں۔ بلیئر نے کہا کہ ”افغانستان کے زوال کے بعد خاص طور سے اہم طاقتوں کو متفقہ حکمت عملی تیار کرنے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ اگرچہ ابتدائی طور پر زیر بحث مغربی ممالک ہیں، تاہم چین اور روس بھی اس نظریے کو روکنے میں دل چسپی رکھتے ہیں، اور مشرق وسطیٰ سمیت بہت سے مسلم ممالک میں ہمیں بہترین اتحادی مل سکتے ہیں، جو اپنے مذہب کو انتہا پسندی سے نکالنے کے لیے بے چین ہیں۔
روس اور چین کو اپنے منظرنامے میں شامل کرکے بلیئر نے اپنے ملک کی روس اور چین مخالف پالیسی اور ہائبرڈ جنگ کو معتدل کرنے کی کوشش کی، اور ایک بار پھر یوریشیائی حقیقت کی موجودگی کا انکار کیا۔ اگرچہ یہ احمقانہ ہے اور جو بھی اسے دیکھنا چاہتا ہے،دیکھ سکتا ہے، تاہم بلیئر کے بیان کا دوسرا حصہ زیادہ خطرناک ہے۔ سابق برطانوی سربراہ مسلم ممالک کو ملوث کرکے، بالخصوص یو اے ای، سعودی عرب اور قطر کی بادشاہتوں کو (یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ سلطنتیں انہیں بطور ‘کنسلٹنٹ’ ادائیگی کرتی ہیں)، وہ مسلمانوں کے درمیان ممکنہ تقسیم کو بڑھانے کے لیے ایک اور پنڈورا باکس کھول رہا ہے، اور مغربی مفادات کے آگے مزید مسلم جانیں قربان کرنا چاہتا ہے۔ بلیئر نے کہا ‘ہمیں میدان میں سپاہیوں کی ضرورت ہے، اور فطری طور پر ہماری ترجیح یہ ہوگی کہ یہ سپاہی مقامی ہوں۔’ اگر اسے صریح احمقانہ نہ سمجھا جائے تو آنجہانی امریکی جنرل پیٹن کا یہ قول یاد کیا جا سکتا ہے، جب اس نے کہا تھا کہ ‘کسی نے اپنے ملک کے لیے مر کر کبھی کوئی جنگ نہیں جیتی، بلکہ وہ دوسرے کو (چاہے وہ کوئی بھی ہو) اپنے ملک کے لیے مرنے کے لیے تیار کرکے جنگ جیتتا ہے۔’ یہ مسلم دنیا کے لیے بہت اہم ہے کہ اس خطرے کو سمجھیں جس کی طرف بلیئر کا سیاسی منصوبہ اشارہ کررہا ہے۔
تیسری دنیا کے جنگجوؤں کو استعمال کرکے پراکسی جنگیں لڑنا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا، صدر بائیڈن کا حالیہ اعلان بھی مدنظر رہے، کہ امریکا اب مستقبل میں اپنی افواج کو جنگوں میں مصروف رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، انہوں اس بات پر اختتام کیا کہ اب یہاں سے آگے یورپ اور ناٹو کو سنبھالنا چاہیے۔ انھوں نے تجویز دی کہ لبرل جمہوریت اور آزادی کے مغربی تصورات کو برآمد کیا جا سکتا ہے، یا یہ کبھی مغربی معاشرے کے تہذیبی طور پر قدرے پستی کی طرف مائل علاقے کے علاوہ بھی کہیں جڑ پکڑیں گے۔ اپنی اقدار پر اعتماد کی بحالی اور ان کا آفاقی اطلاق اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اشد ضروری ہے کہ ہم ان پر مضبوطی سے کھڑے ہیں اور ان کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔’
اس بات سے بالکل قطع نظر کہ ناٹو اور یورپی یونین بحالی اور منظم ہونے کی پھر کوشش کررہے ہیں، وہ جو تاریخی پیش رفت تھی، ان سے بہت دور جا چکی، اور وہ آج یوریشیا میں مقیم ہو چکی ہے، جس کی باگیں چین، روس اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے ارکان کے ہاتھوں میں ہیں۔ دنیا کو اس تبدیلی کو سمجھنا ہوگا، اور زمینی حقائق کے ساتھ مطابقت پیدا کرنی ہوگی۔ پرانے وقتوں میں سر باسل زہاروف ‘طے کردہ’ جنگوں کے بارے میں کہا کرتے تھے،جو ہتھیاروں کے مینوفیکچررز (جیسا کہ Kruup) کے فائدے کے لیے لڑی جاتی تھیں۔
ذاتی طور پر یہ کہوں گا کہ جب ہم (بطور پرائیویٹ سکیورٹی کمپنی) جی فورز کے ساتھ حصہ دار کمپنی میں ایک ادارے کے طور پر شامل تھے، وہ بلیئر کے کنسلٹنگ ادارے کے ساتھ کام کے حوالے سے جھجکتے تھے اور کام کے لیے انہیں بالواسطہ اشارہ کیا گیا تھا (16 اپریل 2011 کی ای میل)۔ یہ ایک ڈھکی چھپی دھمکی تھی کہ ‘راستے پر آؤ ورنہ۔۔۔!’ پاکستان میں ملنے والے بھرپور تعاون کے لیے شکریہ، ہم نے دوستانہ طور پر کمپنی کو مکمل طور پر سو فی صد خرید لیا، اور G4S سے پاکستان کو نجات دلائی۔ بلیئر ‘دی کنسلٹنٹ’ ذاتی مفاد رکھنے والے ممالک کے لیے جنگیں ‘تخلیق’ کرکے پیسہ کماتا ہے۔ یہ امید ہی کی جا سکتی ہے کہ برطانوی عوام ایک دن بلیئر کے جنگ بھڑکا کر اپنے لیے پیسہ کمانے کی افلاس زدہ اور خطرناک کوشش کو یک سر مسترد کر دیں گے۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭

بلاول بھٹو اور یوسف رضا گیلانی سے ملاقات

نعیم ثاقب
بروز منگل سہ پہر ساڑھے تین بجے کال آئی لالہ!تیار رہیں ملتان جانا ہے۔ بلاول بھٹو سے ملاقات ہے۔ایک رات ٹھہریں گے شاید بہاولپور کا بھی پروگرام بن جائے کل واپس آجائیں گے۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح بغیر کچھ سنے سارا پروگرام بتا دیا۔کیونکہ برادرعزیز ہمدم دیرینہ، رفیق قدیم امتنان شاہد کو معلوم تھا کہ میں کہیں جانے اور سفر کرنے کے معاملے میں انتہائی سست ہوں۔میری کوشش ہوتی ہے کہ کہیں جانا جھوٹ ہی ہو جائے۔ اس لیے مجھے بولنے کا موقع دیے اور کوئی عذر سنے بغیر شیڈول سے آگاہ کر دیا۔ خیر اس مرتبہ کوئی ترکیب کام نہ آئی اور ملتان جانا ہی پڑا۔
دو بجے بلاول بھٹو سے ملاقات طے تھی۔سجاد بخاری کے ہمراہ بلاول ہاؤس پہنچے۔ جہاں یوسف رضا گیلانی خاندان کا امتنان شاہد سے قریبی تعلق دیکھنے میں آیا۔بلاول بھٹو پریس کانفرنس کی وجہ سے تھوڑالیٹ ہو گئے تو یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی اور علی قاسم گیلانی بار بار پوچھنے آتے رہے۔پھر تھوڑی دیر بعد مخدوم یوسف رضا گیلانی پریس کانفرنس چھوڑ کر ہمارے پاس آ کر بیٹھ گئے اور ثابت کیا کہ وہ مہمان نواز اور وضع دار انسان ہیں۔ذاتی اور سیاسی دونوں تعلق نبھانا جانتے ہیں۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی پاکستانی سیاست کی جیتی جاگتی تاریخ ہیں۔ ان کے والد مخدوم سید علمدار گیلانی قومی و صوبائی اسمبلی کے وزیر رہے اور دادا سید غلام مصطفے شاہ چئیرمین ملتان میونسپل کارپوریشن رہنے کے بعد۔ کے جنرل الیکشن میں قانون ساز اسمبلی کے ممبر بنے۔ خود یوسف رضا گیلانی پنجاب یونیورسٹی سے 1976 میں ایم اے جرنلزم کرنے کے بعد 1978 میں سیاست کا آغاز کرتے ہوئے،مسلم لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن بنے۔ اس کے بعد 1982 میں وہ وفاقی کونسل کے رکن بن گئے۔ 1983 میں ضلع کونسل کے انتخابات میں حصہ لیا اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید فخر امام کو شکست دے کر چیئرمین ضلع کونسل ملتان منتخب ہوگئے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں 1985میں ہونیوالے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لینے کے بعد وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اور بعد ازاں وزیرِ ریلوے منتخب ہوئے۔1988 میں مسلم لیگ سے علیحدہ ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے چونتیس سالہ مخدوم یوسف رضا گیلانی نے تقریباً اپنی ہم عمر قائد محترمہ بینظیر بھٹو سے وفاداری اور اکھٹے لمبی سیاسی اننگز کھیلنے کا عہد کیا۔ محترمہ کی زندگی نے تو وفا نہ کی مگر یوسف رضا گیلانی دوسری نسل تک وفا نبھا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی ان کی خدمات کو ہمیشہ سراہا ہے۔انہوں نے پارٹی کے لیے خدمات سر انجام دیں تو پارٹی نے انہیں اسپیکر قومی اسمبلی بنایا۔ یوسف رضا گیلانی نے ساڑھے پانچ سال جیل کاٹی تو پارٹی نے وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دیا۔ وفاداری نبھاتے ہوئے سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں نااہل ہوئے تو پارٹی نے پھر قربانی کا اعتراف کرتے ہوئے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا وائس چئیرمین بنا دیا۔ اب جب گیلانی صاحب کو سینٹ کاالیکشن لڑنے کا کہا گیا تو انہوں نے ہچکچاہٹ کامظاہرہ کیا جس پر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا گیلانی صاحب آپ ہمارے امیدوار ہی نہیں امید بھی ہیں اور پھر اس بار بھی گیلانی صاحب اپنے چیئرمین کی امیدوں پر پورا اترے اور حکومتی حمایت یافتہ امیدوار عبدالحفیظ شیخ کو شکست دی۔ یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کی دوسری نسل سے وفاداری نبھا کر اس تاثر کو بھی غلط ثابت کر نے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے زیادہ تر سیاستدان مستقل بنیادوں پر اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔سادات گھرانے سے نسبت کی بنا پر وہ یقینا اس حدیث پر عمل کررہے ہونگے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا: ایک تو وہ شخص جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ مسافر کو دینے سے انکار کر دے، دوسرا وہ شخص جو اپنا سامان بیچنے کے لیے عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائے، تیسرا وہ شخص جو کسی امام و سربراہ سے وفاداری کی بیعت کرے پھر اگر امام ا سے دنیاوی مال و جاہ سے نوازے تو اس کا وفادار رہے، اور اگر اسے کچھ نہ دے تو وہ بھی عہد کی پاسداری نہ کرے۔
سنن ابوداؤد(3474)
اس لحاظ سے پیپلز پارٹی اور گیلانی صاحب دونوں ہی خوش قسمت ہیں کہ اگر ایک نے وفا کی ہے تو دوسرے نے اس کا عملی اعتراف کیا ورنہ بقول شاعر
اب کہاں دوست ملیں ساتھ نبھانے والے
سب نے سیکھے ہیں اب آداب زمانے والے
اور ویسے بھی احسان اور وفا کی قدر نسلی اور اعلیٰ ظرف لوگ ہی کرتے ہیں چھوٹے اور کم ظرف لوگوں سے توقع رکھنا نادانی اور بے وقوفی ہوتی ہے بقول صوفی شاعر میاں محمد بخش۔
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا
کِکر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا
خیر بات چلی تھی بلاول بھٹو زرداری سے امتنان شاہد کے ہمراہ ملاقات کی۔ گیلانی صاحب کے بعد بلاول بھٹو سے ملاقات کرنے ان کی رہائش گاہ پہنچے تو بلاول بھٹو نے بڑے تپاک سے استقبال کیا اور امتنان صاحب کو بتایا کہ مجھے یاد ہے آپ نے ہمارے دوبئی والے گھر میں بی بی شہید کا آخری انٹرویو کیا تھا۔ ملاقات میں پی ڈی ایم سے اختلافات،اس کے مستقبل اور دیگر سیاسی موضوعات پر لمبی گفتگو ہوئی جس کی تفصیل روز نامہ ”خبریں“کے ستمبر 2007ء کے شمارے میں پڑھی جا سکتی ہے۔ بلاول بھٹو بڑے اعتماد سے دعوی کررہے تھے کہ اگلی حکومت وہ بنائیں گے۔ مگر زمینی حقائق اور کنٹونمنٹ الیکشن کے نتائج سے یہ چیز واضح ہے کہ اب کسی پارٹی کا مانگے تانگے سے کام نہیں چلے گا۔ گیلانی صاحب کی طرح کے وفادار کارکن رکھنے والی اور ان کی قربانیوں کا اعتراف کرنیوالی پارٹیاں ہی آئندہ حکومت بنا پائیں گی۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

پاک امریکہ تعلقات میں نیا موڑ

خیر محمد بدھ
قیام پاکستان کے وقت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے خارجہ پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان کی سب ممالک سے دوستی ہوگی اور کسی سے دشمنی نہیں ہوگی Friendship with all and enmity with none تمام ہمسایہ ممالک اور اسلامی ممالک سے بہترین تعلقات قائم ہوں گے۔ جب پاکستان نے اقوام متحدہ کی ممبر شپ کے لیے درخواست دی تو اس وقت برادر اسلامی ملک افغانستان نے پاکستان کی ممبر شپ کی مخالفت کی۔ پاکستان نے ہمیشہ اپنے ہمسایوں افغانستان، ایران کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ لیاقت علی خان کے زمانے میں روس اور امریکہ کی طرف سے پاکستانی وزیراعظم کو دورے کی دعوت موصول ہوئی۔ انہوں نے روس کے بجائے امریکہ کا دورہ کیا جس سے روس ناراض بھی ہوا اور دنیا نے یہ جان لیا کہ پاکستان اپنے سفارتی اور خارجی تعلقات میں امریکہ کا حلیف ہے۔
1950 ء میں پاکستان سیٹو اور سینٹو CENTO کی ممبرشپ اختیار کر کے امریکہ کا مکمل اتحادی بن گیا اور اسے امریکہ نواز ملک کہا گیا۔ 1980ء کی دہائی میں جب روس نے افغانستان پر یلغار کی تو پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے روس کی مخالفت کی اور 2001ء میں جب امریکہ نے افغانستان میں مداخلت کی تو صدر پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا جس کی قیمت ہمیں ادا کرنی پڑی۔ خودکش حملوں نے ہمارے ملک کو لہولہان کردیا۔ ہماری فوج نے جوانمردی کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں 86 ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے، چالیس ہزار مربع کلومیٹر بارودی سرنگیں صاف کی گئیں،القاعدہ کے 1100 دہشت گرد ہلاک ہوئے، ہمارے معصوم بچے بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے اور APS سانحہ آج بھی ہمیں یاد ہے۔ 2001ء سے 2021ء تک ہمارے ملک میں امریکہ کی حمایت کی وجہ سے دہشت گردی رہی۔ اس دور میں سندھو دیش اور گریٹر بلوچستان کے لوگ کابل کے مہمان رہے وہاں پر ٹریننگ کیمپ بن گئے۔ ہماری بہادر فوج نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردی پر کنٹرول کیا۔ پاکستان کی ان تمام قربانیوں اور حمایت کے باوجود امریکہ ہمیں ڈومور Do More کہتا رہا۔ غلط فہمی کا شکار رہا۔ اس 20 سالہ جنگ میں امریکہ کے چار حکمران اقتدار میں آئے ان میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں شامل ہیں۔ جارج بش، بارک اوباما، ٹرمپ اور جوبائیڈن ان سب کے ساتھ پاکستان نے اپنے تعلقات دوستانہ بنانے کی کوشش کی۔ بش کے زمانے میں افغانستان پر حملہ ہوا۔ اوباما کے زمانے میں اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی ہوئی۔ ٹرمپ کے زمانے میں پاکستان نے طالبان کو مذاکرات پر راضی کیا اور معاہدے کے لیے فریقین کے درمیان مصالحتی کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں دوحا میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا بالآخر صدر ٹرمپ نے اپنی فوج کے انخلاء کا ٹائم ٹیبل دیا۔
پاکستان کے تمام حکمران خواہ وہ زرداری ہو یا اس کے بعد کی حکومت سبھی نے امریکہ سے دوستی قائم رکھی۔ پاکستان نے دو دفعہ روس کو ناراض کیا۔ دوسروں کی لڑائی میں امریکہ کی خاطر حصہ لیا لیکن امریکہ پھر بھی ناراض ہوا اور روس کا جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ رہا۔ ہماری تمام تر قربانیوں، وضاحتوں اور کوششوں کے باوجود امریکہ شاکی رہا۔ بقول پروین شاکر کے
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اورلاجواب کر دے گا
21ویں صدی تبدیلی کی صدی ہے۔ آج وہ افغانستان جو بدامنی اور دہشت گردی کا مرکز تھا، بیرونی مداخلت کی آماجگاہ تھا، آج وہ آزاد ہے۔ طالبان نے پرامن طریقے سے کابل پر قبضہ کیا ہے اور اپنی حکمت عملی تدبر اور فراست کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔ پہلی دفعہ کابل سے اچھی خبریں آرہی ہیں اور طالبان نے برملا کہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے وہ سپر پاور جس کی خوشنودی کے لئے ہم نے معصوم بن کر سب کچھ کیا ہے۔ اس نے ہم پر الزام لگا کر ہمیں ملزم بنادیا جبکہ طالبان نے پاکستان کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کیا ہے جو خوش آئند ہیں۔ خارجی تعلقات ہمیشہ تبدیلی کا شکار رہتے ہیں اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی میں زبردست موڑ آیا ہے۔
ماضی کی حکومت دفاعی پوزیشن میں رہ کر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتی تھی جبکہ عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکومت نے جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ پہلی دفعہ بڑی بلند اور واضح آواز میں امریکہ کو بتایا کہ پاکستان اپنی سالمیت اور اقتدار اعلیٰ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا، اس کے بعد ہماری خارجہ پالیسی ایک آزاد اور خود مختار ملک کی پالیسی بن چکی ہے۔ عمران خان نے کشمیر، افغانستان، فلسطین پر واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔ سپر پاورز کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کے بجائے اپنی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ خارجہ پالیسی بنائی ہے۔یہی وجہ ہے ملک میں پہلی دفعہ سول ملٹری تعلقات مثالی ہیں۔ امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کے علاوہ چین اور روس کے ساتھ بھی بہترین تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ سی پیک کے بارے میں پاکستان کی پالیسی سے خطے میں نہ صرف معاشی ترقی ممکن بن چکی ہے بلکہ طاقت کا توازن بھی پیدا ہوا ہے اور خطے میں پاکستان کی پوزیشن جغرافیائی اور سیاسی حوالے سے بہت اہم بن چکی ہے۔ طالبان کا معاملہ ہو یا کشمیر و فلسطین، سی پیک ہو یا پاک امریکہ تعلقات حکومت نے اپنی واضح اور مکمل پالیسی دی ہے۔ پاکستان کا نقطہ نظر ہر جگہ اور ہر فورم پر وضاحت سے پیش کیا گیا ہے اور اب پاکستان صرف امریکن بلاک کا حصہ نہیں ہے بلکہ عالمی برادری میں سفارتی سطح پر ایک آزادانہ غیر جانبدارانہ پالیسی پر گامزن ہے جس کا محور قائداعظمؒ کا فرمان ہے کہ سب سے برابری کی سطح پر تعلقات قائم ہوں گے، کسی کی ڈکٹیشن Dictation نہیں لی جائے گی۔
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

مجلس ترقی اردو ادب اور منصور آفاق کے عزائم

سلمیٰ اعوان
شہر کی مرکزی شاہراہ پربلندوبالا درختوں سے گھری بوسیدگی کی طرف تیزی سے سفر کرتی کلاسیکل طرز کی عمارتوں کا چھوٹا سا جھنڈ آج بھی اسی انداز میں کھڑا تھاجیسا ہم اِسے اسّی نوّے کی دہائی میں دیکھتے آئے تھے۔ اک ذرا رکی تھی کہ اس ابرآلود سہ پہر نے بہت کچھ یاد دلایا تھا۔سامنے برآمدے سے آگے کمرے میں قاضی جاوید بیٹھتے تھے۔رُخ بدل کر تھوڑا آگے جانے پراحمد ندیم قاسمی کے کمرے تھے۔پشت کی سیڑھیاں چڑھ کر ڈاکٹر یونس جاوید سے ملاقات ہوتی تھی۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کی خدمات کا بھی ادارہ احسان مند ہے۔ ہریالیوں سے بھرے بھرے قطعوں سے آگے کچی مٹی کے کمپاؤنڈ سے گزرتے ہوئے علم و ادب کی معتبرترین شخصیتوں کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے رسیا اور نوآموز لکھاریوں کا بھی ایک تانتا بندھا رہتا تھا۔صبح سے شام تک علم کی خیرات بٹتی۔قہقے اُبلتے۔کھانے اور چائے کے دور چلتے۔
آنکھوں میں نمی اُتر آئی ہے۔وہ سب مشاہیر، علم و ادب کی روشن قندیلیں جن میں بہت ساری گُل ہوگئی ہیں۔بہت سی ابھی جگمگا رہی ہیں۔سلامت رہیں وہ اور جگمگاتی رہیں۔ایک قطار تھی جو خیالوں میں چلی آرہی تھی۔
ثمینہ سیّد اور نوشین نقوی برآمدے کی سیڑھیاں اُتر کر گلے ملی ہیں اور بتاتی ہیں کہ قرآن خوانی ہوگئی ہے۔تاسف ہوا۔تاخیر کی وجہ بارش تھی جو ہماری طرف دھواں دھار صورت میں برس رہی تھی اور یہاں ایک چھینٹا تک نہیں پڑا تھا۔
گزشتہ ہفتے ارشاد احمد عارف کے سالے سالی یاسر شمعون اور صوفیہ بیدار کے بہن بھائی کااوپر تلے انتقال ہوگیا تھا۔عمریں تو کچھ زیادہ نہ تھیں۔ مگر موت کب یہ سب دیکھتی ہے۔صوفیہ بیدار آج کل یہیں کام کررہی ہے تو قرآن خوانی کا اہتمام بھی یہیں کرلیا کہ مرکزی جگہ کی وجہ سے لوگوں کا آنا آسان تھا۔
اب جب آئی تو پرانی یادوں کے زخم کھل گئے تھے۔اندر گئی۔تعزیت کی۔یہ قاضی جاوید کا کمرہ تھا۔ان کی کرسی پر کوئی اور صاحب بیٹھے تھے۔بس یہی دنیا ہے۔معلوم ہوا تھا کہ حکومتی ایوانوں اور ادب کی دنیا کی بے حد فعال اور معتبر شخصیت شعیب بن عزیز تھوڑی سی دیر کے لیے آئے تھے۔ زیادہ رکے نہیں۔اپنے چھوٹے بھائی نعمان کی اچانک موت کا گہرا غم کھایا ہے انہوں نے۔منصور آفاق آگئے تھے۔مجلس ترقی اردو ادب کا محکمہ آج کل منصور آفاق کی زیر نگرانی ہے۔منصور صاحب علم شخصیت ہیں۔ اُن کی بے پناہ علمی اور فکری وسعت کا اظہاران کے دیوان میں بہت واضح انداز میں سامنے آیا ہے۔
چند دن پہلے کہیں ماضی میں اسی ادارے کی چھپی ہوئی ایک کتاب”حیات مجدد“ نظر سے گزری تھی۔مطالعے سے یہ افسوسناک بات سامنے آئی کہ یہ کتاب کِسی بھی معیار اور انداز سے ایک باقاعدہ تصنیف کہلانے کی ہر گز مستحق نہیں۔مختلف تاریخی کتب کے طویل منتخب شدہ اقتباسات کے حصوں کو دو دو چار چار جملوں سے جوڑ کر دو سو بائیس صفحات کی کتاب بنا دی گئی تھی۔کچھ دکھ اور افسوس اِس بات کا بھی تھاکہ ادارے نے کتب کے انتخاب کے لیے باقاعدہ اچھے اہل قلم کی خدمات حاصل کررکھی تھیں۔ اور ظاہر ہے معاوضے بھی اچھے دئیے گئے ہوں گے۔تو پھر کیا بات تھی کہ اس ادارے نے اِس کتاب اور یقینا اسی نوع کی کچھ اور کتابیں بھی اپنی مطبوعات میں شامل کیں۔ اپنے اس دُکھ کا اظہار منصور سے کرنے پر انہوں نے کہا کہ یہ بات ان کے علم میں آچکی ہے اور وہ اِ س ضمن میں ماہرین کی رائے سے کوئی لائحہ عمل ترتیب دینے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
ان کے پیش نظر یہ بات بھی ہے کہ ایسے تمام لوگ جو اس طرح کی کتابوں کے انتخاب اور اشاعت میں ماضی میں شامل رہے تھے اور ابھی بھی ادارے سے وابستہ ہیں انہیں احساس دلایا جائے کہ وہ آئندہ ایسی کوتاہی نہ کریں اور اپنے فرض کو احساس ذمہ داری سے نبھائیں۔
منصور روشن دل و دماغ کا انسان اپنے منصوبوں اور مقاصد بارے بہت واضح ہے۔دو باتیں ان کے پیش نظر ہیں۔ایک شاندار قسم کا میوزیم جس میں دنیا سے چلے جانے والے ادیبوں کی کوئی نہ کوئی چیز رکھی جائے گی۔ذاتی استعمال سے لے کر تخلیقات تک۔
دوسرے ادیبوں کے لیے ایک بہترین ٹی ہاؤس کی تعمیر ہے۔انہیں دکھ تھا کہ ادیبوں کے تو بیٹھنے کے لیے کوئی موزوں جگہ نہیں۔پاک ٹی ہاؤس تو کاروباری مرکز بنا ہوا ہے۔یہاں سستی کتابوں کے ساتھ سوونئیرز بھی دستیاب ہوں گے۔بہترین کھانے پینے کی چیزیں اور ادیبوں کی تقریبات اور اُن کے بیٹھنے کے لیے بہترین سہولتیں میسر ہوں گی۔
باتیں کرتے ہوئے وہ بہت پر عزم تھے۔اٹھتے ہوئے سیما اور میں نے انہیں دعا دی کہ خدا انہیں ان کے مقاصد میں کامیاب کرے۔(آمین)
(کالم نگار معروف سفرنگار اورناول نگار ہیں)
٭……٭……٭