تازہ تر ین

پاک امریکہ تعلقات میں نیا موڑ

خیر محمد بدھ
قیام پاکستان کے وقت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے خارجہ پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان کی سب ممالک سے دوستی ہوگی اور کسی سے دشمنی نہیں ہوگی Friendship with all and enmity with none تمام ہمسایہ ممالک اور اسلامی ممالک سے بہترین تعلقات قائم ہوں گے۔ جب پاکستان نے اقوام متحدہ کی ممبر شپ کے لیے درخواست دی تو اس وقت برادر اسلامی ملک افغانستان نے پاکستان کی ممبر شپ کی مخالفت کی۔ پاکستان نے ہمیشہ اپنے ہمسایوں افغانستان، ایران کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ لیاقت علی خان کے زمانے میں روس اور امریکہ کی طرف سے پاکستانی وزیراعظم کو دورے کی دعوت موصول ہوئی۔ انہوں نے روس کے بجائے امریکہ کا دورہ کیا جس سے روس ناراض بھی ہوا اور دنیا نے یہ جان لیا کہ پاکستان اپنے سفارتی اور خارجی تعلقات میں امریکہ کا حلیف ہے۔
1950 ء میں پاکستان سیٹو اور سینٹو CENTO کی ممبرشپ اختیار کر کے امریکہ کا مکمل اتحادی بن گیا اور اسے امریکہ نواز ملک کہا گیا۔ 1980ء کی دہائی میں جب روس نے افغانستان پر یلغار کی تو پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے روس کی مخالفت کی اور 2001ء میں جب امریکہ نے افغانستان میں مداخلت کی تو صدر پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا جس کی قیمت ہمیں ادا کرنی پڑی۔ خودکش حملوں نے ہمارے ملک کو لہولہان کردیا۔ ہماری فوج نے جوانمردی کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں 86 ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے، چالیس ہزار مربع کلومیٹر بارودی سرنگیں صاف کی گئیں،القاعدہ کے 1100 دہشت گرد ہلاک ہوئے، ہمارے معصوم بچے بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے اور APS سانحہ آج بھی ہمیں یاد ہے۔ 2001ء سے 2021ء تک ہمارے ملک میں امریکہ کی حمایت کی وجہ سے دہشت گردی رہی۔ اس دور میں سندھو دیش اور گریٹر بلوچستان کے لوگ کابل کے مہمان رہے وہاں پر ٹریننگ کیمپ بن گئے۔ ہماری بہادر فوج نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردی پر کنٹرول کیا۔ پاکستان کی ان تمام قربانیوں اور حمایت کے باوجود امریکہ ہمیں ڈومور Do More کہتا رہا۔ غلط فہمی کا شکار رہا۔ اس 20 سالہ جنگ میں امریکہ کے چار حکمران اقتدار میں آئے ان میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں شامل ہیں۔ جارج بش، بارک اوباما، ٹرمپ اور جوبائیڈن ان سب کے ساتھ پاکستان نے اپنے تعلقات دوستانہ بنانے کی کوشش کی۔ بش کے زمانے میں افغانستان پر حملہ ہوا۔ اوباما کے زمانے میں اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی ہوئی۔ ٹرمپ کے زمانے میں پاکستان نے طالبان کو مذاکرات پر راضی کیا اور معاہدے کے لیے فریقین کے درمیان مصالحتی کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں دوحا میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا بالآخر صدر ٹرمپ نے اپنی فوج کے انخلاء کا ٹائم ٹیبل دیا۔
پاکستان کے تمام حکمران خواہ وہ زرداری ہو یا اس کے بعد کی حکومت سبھی نے امریکہ سے دوستی قائم رکھی۔ پاکستان نے دو دفعہ روس کو ناراض کیا۔ دوسروں کی لڑائی میں امریکہ کی خاطر حصہ لیا لیکن امریکہ پھر بھی ناراض ہوا اور روس کا جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ رہا۔ ہماری تمام تر قربانیوں، وضاحتوں اور کوششوں کے باوجود امریکہ شاکی رہا۔ بقول پروین شاکر کے
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اورلاجواب کر دے گا
21ویں صدی تبدیلی کی صدی ہے۔ آج وہ افغانستان جو بدامنی اور دہشت گردی کا مرکز تھا، بیرونی مداخلت کی آماجگاہ تھا، آج وہ آزاد ہے۔ طالبان نے پرامن طریقے سے کابل پر قبضہ کیا ہے اور اپنی حکمت عملی تدبر اور فراست کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔ پہلی دفعہ کابل سے اچھی خبریں آرہی ہیں اور طالبان نے برملا کہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے وہ سپر پاور جس کی خوشنودی کے لئے ہم نے معصوم بن کر سب کچھ کیا ہے۔ اس نے ہم پر الزام لگا کر ہمیں ملزم بنادیا جبکہ طالبان نے پاکستان کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کیا ہے جو خوش آئند ہیں۔ خارجی تعلقات ہمیشہ تبدیلی کا شکار رہتے ہیں اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی میں زبردست موڑ آیا ہے۔
ماضی کی حکومت دفاعی پوزیشن میں رہ کر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتی تھی جبکہ عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکومت نے جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ پہلی دفعہ بڑی بلند اور واضح آواز میں امریکہ کو بتایا کہ پاکستان اپنی سالمیت اور اقتدار اعلیٰ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا، اس کے بعد ہماری خارجہ پالیسی ایک آزاد اور خود مختار ملک کی پالیسی بن چکی ہے۔ عمران خان نے کشمیر، افغانستان، فلسطین پر واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔ سپر پاورز کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کے بجائے اپنی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ خارجہ پالیسی بنائی ہے۔یہی وجہ ہے ملک میں پہلی دفعہ سول ملٹری تعلقات مثالی ہیں۔ امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کے علاوہ چین اور روس کے ساتھ بھی بہترین تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ سی پیک کے بارے میں پاکستان کی پالیسی سے خطے میں نہ صرف معاشی ترقی ممکن بن چکی ہے بلکہ طاقت کا توازن بھی پیدا ہوا ہے اور خطے میں پاکستان کی پوزیشن جغرافیائی اور سیاسی حوالے سے بہت اہم بن چکی ہے۔ طالبان کا معاملہ ہو یا کشمیر و فلسطین، سی پیک ہو یا پاک امریکہ تعلقات حکومت نے اپنی واضح اور مکمل پالیسی دی ہے۔ پاکستان کا نقطہ نظر ہر جگہ اور ہر فورم پر وضاحت سے پیش کیا گیا ہے اور اب پاکستان صرف امریکن بلاک کا حصہ نہیں ہے بلکہ عالمی برادری میں سفارتی سطح پر ایک آزادانہ غیر جانبدارانہ پالیسی پر گامزن ہے جس کا محور قائداعظمؒ کا فرمان ہے کہ سب سے برابری کی سطح پر تعلقات قائم ہوں گے، کسی کی ڈکٹیشن Dictation نہیں لی جائے گی۔
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain