وزیر افضل بھی چل بسے

افضل عاجز
والدین پٹیالہ سے ہجرت کر کے لاہور نکلے تو ہجرت کے اس سفرنے ان کے اندر ایک اداسی بھر دی جو راگ دیس کی شکل میں ان کے ساتھ ساتھ رہی پٹیالہ میں استاد امانت علی خان اور فتح علی خان پٹیالہ والے ان کے کلاس فیلو تھے موسیقار وزیر افضل بتایا کرتے تھے دونوں بھائیوں سے دوستی کی وجہ سے میں نے انہیں ریاضت کے طویل عرصے تک سنا ایسا بھی ہوتا تھا کہ دونوں بھائی گھنٹوں ریاض کر رہے ہیں اور میں اکیلاسامنے بیٹھا سن رہا ہوں۔ وزیر افضل موسیقی کے ربابی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ربابی گھرانے کے ایک بزرگ بھائی مردانہ سکھوں کے بانی گرو کے بھائی دوست اور ہمراز تھے اور ان کے اشلوک پڑھا کرتے تھے بتایا جاتا ہے گرو کے کیلئے انہوں نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا کہ جس کی وجہ سے پوری سکھ قوم ربابی گھرانے کا بہت احترام کرتی ہے اور انہیں بہت اونچا مقام دیتے تھے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ربابی گھرانے کے موسقاروں نے بہت اعلی کام کیا اور فلم موسیقی پر چھاپے رہے ماسٹر غلام حیدر سے لیکر رشیدعطرے وزیر افضل تک لاجواب کام کیا موسیقی سے وابستہ جن بڑی شخصیات کے ساتھ مجھے کام کرنے کا موقعہ ملا ان میں وزیر افضل بھی شامل تھے پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے میرے گیتوں کو سنگیت سے بھی نوازا۔ وزیر افضل صاحب اپنے انداز کے مختلف موسیقار تھے موسیقی کی دنیا میں انہوں نے ایک میوزیش کے طور پر قدم رکھا بہت اعلیٰ درجے کا میڈولین بجاتے تھے موسیقار ان کیلئے بہت سوچ سمجھ کر اعلیٰ قسم کا موسیقی کا ٹکڑا ترتیب دیتے جسے وہ ایسا بجاتے کہ پورے گانے میں نمایاں نظر آتے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے میڈولین بجائی پھر کسی نے کم ہی بجائی۔ وزیر صاحب بتاتے تھے خواجہ خورشید انور نے ایک گیت کیلئے میڈولین کا ایسا پیس بنایا کہ میرے جسم میں لوں کنڈے کھڑے ہو گئے اور میں حیران رہ گیا کہ خواجہ صاحب نے یہ کیا عجوبہ ترتیب دیا ہے خواجہ صاحب کا یہ پیس میرے اندر سما گیا کئی دنوں تک میری انگلیاں اس پیس کے ساتھ کھیلتی رہیں اور پھر دل نے کہااستاد ہو تو خواجہ خورشید انور جیسا۔ میں نے جب ان سے شاگرد بنانے کی درخواست کی تو انہوں مسکراتے ہوئے ٹال دیا مگر میں بھی مجنون کی طرح ان کے پیچھے پیچھے پھرنے لگا جب بھی موقع ملتا ان کے ساتھ رہتا ان کی گفتگو موسیقی کے رازو رموز راگوں کی بندش موسیقی کی مختلف اقسام پر ان کو کام کرتے دیکھتا میری لگن اور خدمت کو دیکھ کر انہوں نے بالآخر مجھے اپنا شاگرد بنا لیا۔
وزیر افضل صاحب نے جب بطور موسیقار فلمی دنیا میں قدم رکھا تو اس وقت پنجابی فلموں کی موسیقی پر بابا جی اے چشتی چھاپے ہوے تھے ہر طرف ان کا کام اور نام بج رہا تھا ایسے وقت میں جداگانہ موسیقی کے ساتھ اپنا نام اور کام بنانا مشکل تھا مگر ”دل دا جانی“ کیلئے بنائے میرے گیتوں نے مجھے بہت طاقت دی۔سیوں نی میرے دل دا جانی کی مقبولیت نے میرے راستے کھول دئیے اور پھر چل سو چل۔وزیر افضل صاحب کا میں ایک استاد کے طور احترام کرتا تھامگر وہ میرے ساتھ بہت بے تکلفی برتا کرتے موسیقی کے علاوہ فلم انڈسٹری کے بہت سے واقعات بھی سناتے جو ایک امانت کے طور پر میرے حافظے میں موجود ہیں پاکستان ٹیلی ویژن نے جب سرائیکی میوزک کا آغاز کیا تو پھر مجھے گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی موسیقی کا بھی موقع دیا اتفاق کی بات ہے ان دنوں وزیر افضل صاحب اور میں ایک ہی کمرے میں اپنا اپنا کام کرتے تھے پہلے دن وزیر صاحب کے سامنے گیت کی دھن بناتے ہوئے مجھے بہت پریشانی ہوئی۔ انہوں نے جب محسوس کیا کہ میں ان کے سامنے تھوڑا نروس ہوجاتا ہوں تو دوسرے دن وہ مجھ سے بھی پہلے آگئے سلام دعا کے بعد کہنے لگے افضل صاحب آپ نے کل بہت بہت اچھے گیت بنائے مگر ایک گیت تو مجھے بہت پسند آیا وہ ذرا سناؤ تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور پھر میں نے سنایا تو انہوں نے کہا آپ کو چائے پلانا بنتا ہے اور پھر چائے کا آڈر دے دیا وزیر صاحب نے یہ سب کچھ دراصل اپنی شخصیت کا مجھ پر طاری خوف ختم کرنے کیلئے تھا اور واقعی مجھے بہت حوصلہ ملا۔
سال مجھے یاد نہیں مگر اس سال شدید گرمی پڑی اور ملک میں بارشوں کیلئے دعائیں مانگنا کا سلسلہ شروع ہوا تو پاکستان ٹیلی ویژن نے بارش کیلئے ایک دعائیہ گیت ریکارڈ کرنے کا اہتمام کیا جس کی موسیقی وزیر افضل صاحب جبکہ لکھنے کی ذمہ داری مجھے دی گئی افضل صاحب نے میرے سامنے دھن بنائی اور مجھے گنگنانے کا حکم دیا میں کافی دیر گاتا رہا اور طے ہوا کہ کل ریکارڈنگ کریں گے مگر یہ نہیں بتایا کس نے گانا ہے دوسرے دن میں آیا تو کہا ذرا اس گیت کو گنگنائیں میں نے حکم کی تعمیل کی تو پروڈیوسراسلم خاور سیال سے کہا۔خاور صاحب شام کو ریکارڈنگ شیڈول کریں اور پھر حکم دیا یہ گیت آپ کی آواز میں ریکارڈ ہوگا میں نے کہا وزیر صاحب یہ آپ کیا کر رہے ہیں کہنے لگے کیا میں غلط کر رہا ہوں میں ہنس پڑا تو انہوں نے باقاعدہ ریہرسل شروع کروائی گیت کی دھن تو مجھے پہلے ہی یاد تھی شام کواس کی آڈیو ریکارڈنگ شروع کی تو پھر رات کے دوبجے جب ختم کر کے سٹوڈیو سے باہر نکلے تو طوفانی بارش ہو رہی تھی اور معلوم ہوا کہ چار پانچ بجے سے شروع ہوئی ہے ہمیں بہت خوشی ہوئی دوسرے دن ویڈیو شوٹ تھا مگر بارش کی وجہ سے نہ ہوسکا اور بارش رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی لاہور شہر میں سیلاب کی کیفیت بن گئی اور بارش کے رکنے کی دعائیں مانگنے لگے اس ماحول میں ظاہر ہے بارش کیلئے دعائیہ گیت کی ضرورت ختم ہوگئی جس پر وزیر افضل صاحب مسکراتے ہوئے کہتے کیوں افضل صاحب میرا فیصلہ غلط تھا یا ٹھیک……وزیر افضل صاحب فلم کے ساتھ ساتھ ٹی وی ریڈیو کے ساتھ بھی وابستہ تھے اور ادھر بھی انہوں نے سپر ہٹ کام کیا۔ناہید اختر کی آواز میں
یہ رنگینیئ اللہ اللہ نوبہار اللہ اللہ
اور پرویز مہدی کی آواز میں
سات سروں کا بہتا دریاتیرے نام
بھی خوب بنایا……
آڈیو کے حوالے سے بھی مسرت نذیر سے
پچھے پچھے آندآ میری چال ویدھاں آئیں‘چیرے والیا ویکھ دا آئیں وے میرا لونگ گواچابھی ان کا شاہکار تھا۔
ریڈیو کیلئے ’رکھ ڈولدے تے اکھ نیں لگدی‘تمی تمی وا وگ دی جیسا سپرہٹ گیت بھی بنایا۔
وزیر صاحب کے گیتوں کو انڈیا میں بھی کاپی کیا گیا پاکستانی گلوکارہ حدیقہ کیانی نے بھی اس گیت کو مختلف بولوں کے ساتھ ری مکس کیا۔بوہے باریاں تے نالے کندھاں ٹپ کے‘میں آواں گی ہوا بن کے۔
وزیر افضل صاحب کے بارے میں جتنا لکھا جائے کم ہے اور حقیقت ہے ان کی موت سے سُچی اورسریلی موسیقی کا ایک خوب صورت باب ختم ہو گیا ہے اللہ ان کے درجات بلند فرمائے آمین اس وقت جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو ایک خوبصورت لوک شاعر اختر حسین اختر کے گزر جانے کی اطلاع ملی ہے اختر صاحب نے بھی بہت اعلیٰ گیت لکھے بہت سے گلوکاروں نے ان کے گیت گا کے نام اور مقام بنایا مگر اختر صاحب چند سالوں سے اہل بیت کی شان لکھ رہے تھے ان کے لکھے نوحے قصیدے منقبت سلام دنیا بھر میں مومنین کے دلوں کو سکون دیتے تھے وہ بھی چل بسے ہیں۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
اب ایسے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے پروردگار صدقے محمدؐ و آل محمدؐ کے دونوں مرحومین کوجنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین۔
(کالم نگارمعروف شاعر اورادیب ہیں)
٭……٭……٭

افغانستان میں مغرب کی مخالفت اور منافقت

سردارآصف احمدعلی
افغانستان میں طالبان کی حکومت اب بن چکی ہے اور یہ حکومت کا ہونا ناگزیر اور لازمی تھا کیونکہ ایک آئینی اور قانونی خلا موجود تھا اس لئے طالبان نے ایک عبوری حکومت بنائی ہے جس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ایک قانونی خلا ختم ہو اور حکومت کے معاملات کو چلایا جا سکے۔ اب جو حکومت بنی ہے اس میں طالبان نے اپنے اندرونی معاملات طے کر لئے ہیں۔ نظریہ آ رہا ہے کہ اصل اقتدار ان قائدین کے ہاتھ میں رہے گا جو کہ تحریک طالبان کے بانیوں میں سے تھے اور جنہوں نے پچھلے 20سال تک امریکہ کی جارحیت کا مقابلہ کیا۔ اس حکومت کے ایک راہبر مقرر کئے گئے جو کہ ہیبت اللہ اخوندزادہ صاحب ہیں۔ یہ اس وقت تحریک طالبان کے سینئر موسٹ قائد ہیں اور انہی کی مرضی کے مطابق حکومت چلائی جائے گی اور قندھار میں اس کا ہیڈ کوارٹر ہوگا۔ اس طرح جو عبوری وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں جناب محمد حسن اخوند، یہ وزیراعظم ہوں گے اور ان کی وابستگی بھی قندھار سے ہے، اسی طرح ایک اور سینئر تحریک طالبان کے قائد جناب ملا عبدالغنی برادر ہیں، یہ وزیراعظم کی کونسل کے ممبر ہوں گے۔ ایک اور ایسی تعیناتی ہے جو قابل ذکر ہے کہ مرحوم ملا عمر کے صاحبزادے یعقوب عمر وزیر دفاع ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان نے اپنے اندر ایک توازن بھی پیدا کیا ہے جس میں حقانی نیٹ ورک کے قائد سراج دین حقانی کو وزیر داخلہ بنایا ہے لہٰذا اس طرح حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ کے قائدین نے آپس میں ایک توازن پیدا کر لیا ہے۔ اب رہا معاملہ دوسرے گروپوں کو اقتدار میں شامل کرنے کا۔ میرا اندازہ ہے کہ آج تک مذاکرات نامکمل رہے اور ناکام رہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ سابقہ نائب صدر صالح وہ ہیں جنہوں نے پنجشیر وادی میں جنگ شروع کروا دی اور یہ جنگ انہوں نے بڑے غلط اندازوں پر شروع کروائی کہ انہیں وہاں کوئی فتح نہیں کر سکتا اور انہوں نے نوجوان احمد مسعود جو کہ مرحوم احمد شاہ مسعود کے بیٹے ہیں ان کی ناتجربہ کاری کو استعمال کرتے ہوئے یہ جنگ چھیڑ دی۔ اب ان کو شکست کا سامنا ہے لہٰذا وہ کس منہ سے آئندہ حکومت میں شرکت کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔
مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سبوتاژ کیا گیا ہے اور یہ بھی ایک بین الاقوامی سطح پر کروایا گیا ہے اور اس میں یقینا بہت سی بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ضرور ہوگا اور انہیں یقین دلایا گیا کہ بین الاقوامی امداد انہیں ضرور ملے گی تاکہ وہ طالبان کے خلاف محاذ آرائی جاری رکھیں۔ یہ ان سے ایک بہت بڑی حماقت ہوئی ہے۔ اب اگلا معاملہ بین الاقوامی ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ جس طرح یہ طاقتیں افغانستان سے بدلہ لینا چاہتی ہیں اور وہ کہہ رہی ہیں کہ وسیع البنیاد حکومت بنائیں پھر ہم افغانستان کی حکومت کو تسلیم کریں گے اور جو پیسے ہم نے آپ کے دبائے ہوئے ہیں وقتاً فوقتاً فیصلہ کریں گے کہ وہ کس قدر دینے ہیں اور کن شرائط پر دینے ہیں۔
شرائط سخت ہوتی جا رہی ہیں اور اس میں اور بھی بہت سی چیزیں شامل کر دی گئی ہیں۔ جیسا کہ انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق، بیرونی اور کچھ افغانیوں کا انخلا بھی اس میں شامل کر دیا گیا اور آج اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی شرائط عائد کر دی ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے بڑا تعجب ہوتا ہے کہ امریکن 20 سال تک یہاں رہے ہیں تو کیا انہوں نے کوئی وسیع النبیادحکومت یہاں پر بنائی تھی۔ بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ یونائیٹڈ نیشنز کا یہ کون سا چارٹر ہے جس کی پیروی کی جا رہی ہے۔ ان سے یہ بھی پوچھا جائے کہ جب مصر کے ایک منتخب صدر محمد مرسی کو نکالا گیا تھا تو اس وقت آپ نے مصر پر کون سی شرطیں لگائی تھیں۔ ان سے یہ بھی پوچھا جائے کہ جب آپ نے دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کو شکست دی تو کیا اس کی پارٹی کو اقتدار میں آنے دیا یا مسولینی کی پارٹی جنگ ہار گئی تو اس کی پارٹی کو اٹلی میں رکھا گیا اور اب ہندوستان جو کچھ کر رہا ہے کہ وہاں 22 کروڑ مسلمانوں کے شہری حقوق ایک نئے قانون کے تحت چھین لیے تو یونائیٹڈ نیشنز یا امریکہ نے کتنے احتجاج کئے اور اب کشمیر میں ساڑھے سات لاکھ فوج گزشتہ تین سال سے کرفیو لگا کر اور لاک ڈاؤن کرکے بیٹھی ہوئی ہے کیا کسی نے اس کی مذمت کی۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک صرف اپنے ہی مفادات کے حوالے سے بات کرتے ہیں اور ان کی منافقت بڑی واضح ہو چکی ہے۔ اب یہ سب کچھ اس لئے کر رہے ہیں کہ افغانستان میں قحط پڑے اور دوسرے انسانی مسائل بڑھ جائیں تاکہ طالبان کی حکومت ناکام ہو جائے اور پھر دوبارہ وہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے لہٰذا یہ تو چاہتے ہی ہیں کہ مستقل خانہ جنگی برقرار رہے مگرایسا نہیں ہوگا کیونکہ خطے میں اور ایشیا میں ایک نئی صورتحال جنم لے چکی ہے۔
اب امریکہ کی فوجیں کسی دوسرے ملک پر چڑھائی کرنے سے تو رہیں اور نہ ہی اب اس کی ڈکٹیشن یہاں چل سکتی ہے اور اب دنیا بھی ہل گئی ہے کہ امریکہ کسی کا ساتھی نہیں ہے بلکہ بھارت یہ کہہ رہا ہے کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ بلنکن دلی میں پندرہ اگست سے دس دن پہلے وہاں گیا اور بھارت کو یقین دلایا کہ فی الحال ہم افغانستان سے نہیں نکل رہے اور اس بل بوتے پر بھارت میں وہ دو بہت بڑے ہوائی جہاز اسلحہ سے بھر کر افغانستان فوج کو بھیج دیئے اور دس دن بعد امریکن وہاں سے نکلنے شروع ہو گئے اور بھارت کو بتایا تک نہیں۔ اب اس قسم کی چہ میگوئیاں پوری دنیا میں ہونا شروع ہو گئی ہیں، امریکہ کسی کا ساتھ دے سکتا ہے یا نہیں یا پھر بھاگ جائے گا۔ اس سے امریکہ کی ساکھ کو بے پناہ دھچکا لگا ہے اور اس خطے میں بھارت کو بھی بہت بڑا شاک لگا ہے۔
اب رہا معاملہ افغانستان کا۔ میں پہلے بھی انہی کالموں میں یہ کہہ چکا ہوں کہ افغانستان کے لئے ایک وسیع کانفرنس کا ہمارے ہاں اسلام آباد میں بلائی جائے جس میں افغانستان کی تعمیر نو اور اس کی ترقی کے لئے اور جو انسانی مسائل کھڑے ہو رہے ہیں ان کے حل کے لئے سوچ بچار کی جائے اور فنڈز کا انتظام کیا جائے۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ چین کو دعوت دینی چاہئے۔ روس، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، قطر، ایران اور ترکی کے علاوہ او آئی سی کی صدارت سعودی عرب کے پاس ہے لہٰذا سعودی عرب کے بادشاہ اور ولی عہد کو بھی دعوت دینی چاہئے۔ اس کانفرنس سے پہلے ہی پاکستان کو افغانستان کی کچھ امداد پہلے ہی کر دینی چاہئے۔ اس میں، میں سمجھتا ہوں کہ ادویات اور خوراک کی امداد فوری دینی چاہئے، دوسری ضروریات کانفرنس کے بعد پوری کی جا سکتی ہیں۔
(کالم نگار سابق وزیرخارجہ اورممتاز ماہرمعیشت ہیں)
٭……٭……٭

بلاول کا دورہئ جنوبی پنجاب ناکام رہا؟

سید سجاد حسین بخاری
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری جنوبی پنجاب کا 2ہفتے کا دورہ مکمل کرکے واپس چلے گئے ہیں مگر اس وقت پورے جنوبی پنجاب کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مقامی قیادت سے یہ سوال کررہی ہیں کہ بلاول بھٹو کا دورہئ جنوبی پنجاب کیسا رہا اور ہماری جماعت سے کون اور کتنے لوگ گئے اور ان سب کا سیاسی قدکاٹھ کیا تھا؟ یہی سوال پاکستان مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی مرکزی قیادت جنوبی پنجاب کی مقامی قیادت سے کررہی ہے۔ 2دن قبل پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ایک پرانے رفیق اور میلسی کے بااثر خاندان کے فرد نور خان بھابھہ کو جنوبی پنجاب کی پارٹی صدارت سے اس لئے فارغ کیا تھاکہ ان کے داماد اور بھتیجے عمران ممتاز بھابھہ نے پاکستان پیپلزپارٹی جوائن کی تھی‘ یہ ایک بڑی نہیں تو اچھی وکٹ ضرور ہے کیونکہ ان کے والد ممتاز بھابھہ ایک مرتبہ ایم این اے رہ چکے ہیں۔ نور خان بھابھہ کو جماعت سے ان کے داماد کی پی پی میں شمولیت کے ساتھ ہی فارغ کرکے سینیٹر عون عباس بپی کو جنوبی پنجاب کا صدر بنایا گیا اور انہوں نے آتے ہی اخبار نویسوں سے پوچھنا شروع کردیا کہ جنوبی پنجاب سے کون کون لوگ تحریک انصاف کو چھوڑ کر پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔
اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی جنوبی پنجاب کی مقامی قیادت نے ایک رپورٹ تیار کرنی شروع کردی ہے کہ (ن) سے پی پی پی میں کون کون شامل ہوا ہے۔ شامل ہونے والوں کی فہرست اخبارات میں چھپ چکی ہے اور میں بھی دوبارہ دُہرا دیتا ہوں مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ دونوں جماعتیں کیوں پریشان ہورہی ہیں؟ مسلم لیگ (ن) چونکہ اقتدار میں نہیں لہٰذا جماعت کے ممبران کو بچانا ان کیلئے ضروری ہے مگر تحریک انصاف تو حکمران جماعت ہے‘ وہ کیوں پریشان ہے جبکہ ممبران اسمبلی بھی دونوں جماعتوں کے فی الحال ڈٹے ہوئے ہیں اور کچھ ناراضگیوں کے باوجود اپنی اپنی جماعتوں میں موجود ہیں کیونکہ (ن) لیگ کے ارکان اسمبلی اگلی باری کا انتظار کررہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی اقتدار کے مزے آخری دم تک لینے کے حق میں ہیں‘ اس لئے فی الحال دونوں جماعتوں کے ممبران اسمبلی آئندہ الیکشن کی صف بندی تک قائم ہیں۔ ہاں البتہ مسلم لیگ (ن) کے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی نے بلاول بھٹو کے دورہئ جنوبی پنجاب پر بڑی گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور خصوصاً وہ ممبران جن کا بیک گراؤنڈ دیہاتی ہے جہاں پر دھڑے بندی اور گروہی سیاست ہوتی ہے اور کچھ میرے جاننے والوں نے یہ سوال کیا ہے کہ مقتدر قوتیں کیا آئندہ بلاول بھٹو کو لارہی ہیں؟ بقول ان کے بلاول بھٹو کسی کے کہنے پر دورہئ جنوبی پنجاب کررہے ہیں اور شدید گرمی اور حبس میں ضرور کہیں سے بلاول بھٹو کو گرین سگنل ملا ہے۔
زمینی حقائق کو نہیں بھولنا چاہیے اور جنوبی پنجاب کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے وڈیرے اقتدار سے باہر ہیں اور پی ٹی آئی کے لوگوں کی دال نہیں گل رہی اور جنوبی پنجاب کے 95فیصد سیاستدان ہر آنے والے الیکشن میں چونکہ سیاسی جماعتیں بدلتے ہیں اور انہیں اقتدار میں آنے والی جماعت کا علم ہوجاتا ہے لہٰذا وہ اسی جماعت میں چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کا متاع حیات اقتدار ہے۔ اُصول‘ نظریات‘ سچائی سب گئے بھاڑ میں‘ صرف اور صرف اقتدار چاہیے اور یہ بات طے ہے کہ ہوسِ اقتدار جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں میں بدرجہ اتم موجود ہے‘ اسی لئے تینوں سیاسی جماعتوں کی مرکزی لیڈرشپ کی نظر میں جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کی قدرومنزلت وہ نہیں جو وسطی یا شمالی پنجاب کے سیاستدانوں کی ہے‘ بات دوسری طرف چلی گئی۔
اصل بات بلاول بھٹو کے دورہئ جنوبی پنجاب کامیاب یا ناکام کی ہورہی تھی۔ اب آیئے ان افراد کی فہرست پر بحث کرتے ہیں جنہوں نے موجودہ دورے کے موقع پر پی پی پی میں شمولیت اختیار کی۔ فہرست پڑھنے سے پہلے ایک بات ذہن نشیں کرلیں کہ پی پی پی قیادت اور کارکنان وپارٹی عہدیداران کے درمیان اس دورے سے قبل ایک بہت بڑا خلا موجود تھا جو اب جاکر ختم ہوا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ 26سال بعد پہلی مرتبہ ڈیرہ غازیخان جیسے اہم شہر میں پی پی پی قیادت اور بلاول بھٹو گئے ہیں۔ کارکن ہر جماعت کا اثاثہ ہوتا ہے اور جس کارکن کو اپنی مرکزی قیادت 26سال تک تعارف بھی نہ کرائے تو وہ کیسے جماعت میں رہے گا یا اس کیلئے کام کرے گا؟ اسی طرح ضلع لیہ میں بطور وزیراعظم بینظیر بھٹو شہید 1993ء میں سیہڑ ہاؤس آئی تھیں اور اس کے بعد گزشتہ سال بلاول بھٹو ایک مختصر دورے پر گئے یعنی 27سال بعد پی پی پی کی قیادت ضلع لیہ گئی ہے۔ تحصیل میلسی میں شہید بھٹو کے ساتھی ارشاد خان پٹھان کے بیٹے ٹوچی خان 1996ء میں بینظیر بھٹو شہید کو لائے تھے یہاں پر بھی 25سال بعد بلاول بھٹو گئے ہیں۔ تونسہ میں حضرت خواجہ سلیمان تونسوی کے خاندان میں سے خواجہ کمال دین انور مرحوم پاکستان پیپلزپارٹی میں تھے وہاں پر کبھی بھی شہید بی بی یا بلاول بھٹو نہیں گئے تھے‘ تاہم بی بی شہید ڈی جی خان میں بطور وزیراعظم سیمنٹ فیکٹری کا افتتاح کرنے کیلئے آئی تھیں۔ یعنی جس علاقے میں 25 سے 30سال تک پی پی پی قیادت نے ایک چکر بھی نہ لگایا وہاں پر بلاول کے جانے سے مثبت کے بجائے منفی اثرات کیسے ہوں گے؟ شامل ہونے والوں میں ڈیرہ غازیخان سے سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ‘ لیہ سے بہادر خان سیہڑ اور ان کے ساتھ آزاد منتخب ہونے والے ایم پی اے اشفاق اور میلسی سے عمران بھابھہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھروں میں متعدد مرتبہ قومی اسمبلی کی نشستیں رہی ہیں۔
اسی طرح رحیم یار خان میں 13سیاستدان ایسے ہیں جنہوں نے پی پی پی میں شمولیت کیلئے ہاں کرلی ہے۔ اس پوری کہانی کا اخذ یہ ہے کہ بلاول بھٹو ان علاقوں میں گئے جہاں پر گزشتہ 25سال سے پی پی پی قیادت نہیں گئی تھی۔ نوجوان بلاول بھٹو کو دیکھ کر متاثر بھی ہوئے ہیں اور جو لوگ اس وقت تک شامل ہوئے ہیں وہ یقینا 90فیصد سیٹیں نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں سوائے عمران بھابھہ کے‘ وہاں پر مقابلہ سخت ہوگا۔ بلاول بھٹو کے دورے سے پی پی پی کے سوئے ہوئے کارکن اور مردہ مقامی قیادت میں جان پڑی ہے۔ کارکنان میں اپنائیت کا احساس ہوا ہے۔ نوجوان نسل بلاول سے زیادہ متاثر ہوئی ہے اور وہ بلاول کی قربت چاہتے ہیں۔ اس وقت جنوبی پنجاب میں بہت بڑا سیاسی خلابھی موجود ہے۔ بلاول بھٹو کے دورے سے اس خلا سے کچھ فائدہ ضرور اُٹھایا گیا ہے لہٰذا یہ کہنا کہ بلاول بھٹو کا دورہ ناکام اور وہ خالی ہاتھ واپس گئے ہیں‘ غلط ہے۔ بلاول بھٹو کو اس دورے سے نقصان کے بجائے سیاسی فائدہ ضرور ہوا ہے۔ ناکام دورے کی باتیں پھر بھی مخالفین کرتے چاہے آدھا جنوبی پنجاب پی پی پی میں کیوں نہ شامل ہوجاتا۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

جونی لیور کیجانب سے عمر شریف کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار

ممبئی :  بین الاقوامی  شہرت یافتہ پاکستانی کامیڈین عمر شریف کی ناسازطبیعت پر بالی وڈ میں بھی  تشویش کی لہر دوڑ گئی۔  نامور کامیڈین جونی لیور کی جانب سے عمر شریف  کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا گیا ۔

تفصیلات کے مطابق بھارت کے معروف کامیڈین و اداکار جانی لیور جو مزاح میں  ثانی نہیں رکھتے ، اوراکثر پاکستانی فنکاروں کے بارے میں  اپنے خیالات کااظہار کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں   جونی لیور نے ایک ویڈیو پیغام میں کامیڈی کنگ  عمر شریف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی  صحت یابی  کیلئے دعا کی ہے

پی آئی اےکا کابل کیلئے فلائٹ آپریشن شروع کرنے کافیصلہ

قومی ایئر لائن (پی آئی اے) نے کابل کے لیے فلائٹ آپریشن دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا، آئندہ ہفتے اسلام آباد سے چارٹرڈ فلائٹ کابل روانہ ہوگی۔

ترجمان پی آئی اے عبداللہ کے مطابق پی آئی اے کی پہلی پرواز آئندہ ہفتے کابل روانہ ہوسکتی ہے۔ چارٹرڈ پروازوں کی بحالی کے حوالے سے افغان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پی آئی اے کو لینڈنگ کے لیے اجازت کی درخواست کی ہے۔

پی آئی اے کابل فلائٹ آپریشن کے لیے تیاریاں کر رہی ہے۔

عالمی میڈیا میں پی آئی اے فلائٹ آپریشن سے متعلق من گھڑت خبریں سامنے آنے پر پی آئی اے کی جانب سے وضاحتی بیان بھی سامنے آیا، جس میں ترجمان پی آئی اے نے بتایا کہ پی آئی اے کابل کے لیے پروازیں شروع کرے گا لیکن ابھی کچھ وقت درکار ہے، کابل سے چند اداروں نے پی آئی اے سے رابطہ کیا ہے۔

افغان حکام کی جانب سے اجازت نامہ جاری ہوتے ہی پروازوں کی روانگی کا شیڈول جاری کیا جائے گا۔

گزشتہ مہینے پی آئی اے نے افغانستان کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دی تھیں۔ پی آئی اے واحد کمرشل ایئر لائن تھی جو افغانستان میں پھنسے شہریوں کو پاکستان لا رہی تھی۔

صاف پانی ریفرنس؛ شہباز شریف کی بیٹی اور داماد کی جائیدادیں قرق کرلی گئیں

لاہور: صاف پانی ریفرنس میں شہباز شریف کی بیٹی اور داماد کی جائیدادیں قرق کرلی گئیں۔

صاف پانی ریفرنس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب  شہباز شریف کی بیٹی رابعہ عمران اور داماد کی جائیدادیں قرق کرلی گئیں جب کہ اس حوالے سے رپورٹ بھی عدالت میں جمع کرادی گئی ہے، عدالت نے دیگر شریک ملزمان کی بریت کی درخواستوں پر دلائل طلب کرنے کے بعد کارروائی 23 ستمبر تک ملتوی کردی۔

نیب تفتیشی ٹیم نے شہباز شریف کے داماد عمران علی یوسف اور بیٹی رابعہ عمران کی جائیداد قرقی کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں کہا گیا ہے کہ میسرز فاطیمہ ڈویلپرز میں عمران علی کے 65 لاکھ شئیرز اور رابعہ عمران 35 لاکھ شئیرز کی مالک ہیں، میسرز ایس ایم سی میں عمران علی یوسف کے 60 لاکھ مالیت کے شئیرز ہیں، حدیبیہ انجینئرنگ میں شہباز شریف کی بیٹی رابعہ عمران کے 7 ہزار مالیت کے شئیرز شامل ہیں۔

ں کہا گیا ہے کہ شریف پولٹری فارم میں رابعہ عمران کے 1 ہزار مالیت کے شئیرز بھی قرق کیے گیے ہیں، مدینہ فیڈ میں عمران علی کے شئیرز کی مالیت 1 کروڑ 25 لاکھ جبکہ رابعہ عمران 50 لاکھ مالیت کے شئیرز کی مالک ہیں، میسرز پروسیڈ فوڈ میں عمران علی اور رابعہ عمران کے 25 لاکھ مالیت کے شئیرز ہیں، اس کے علاوہ علی ٹریڈ سینٹر اور علی ٹاور میں عمران علی اور رابعہ عمران متعدد دوکانوں کے مالک ہیں۔

واضح رہے کہ احتساب عدالت نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی بیٹی رابعہ عمران اور داماد کے پیش نہ ہونے پر اشتہاری قرار دیتے ہوئے جائیدادوں کو قرق کرنے کا حکم دیا تھا۔

2023 کے الیکشن نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے، اسد عمر

کراچی: فاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ  2023 کے الیکشن نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے ۔

کراچی میں وفاقی وزیر علی زیدی اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران اسد عمر نے کہا کہ ماضی کی حکومت نے کراچی کے لئے کوئی بڑے منصوبے نہیں دیئے، 13 سال سے اس شہر کو بہتر کرنے کی ذمہ داری پیپلز پارٹی کی تھی، کراچی کو ترسایا جاتا ہے گلی سے صفائی نہیں ہوتی، اگر میرے حلقے میں پیپلز پارٹی اپنے جھنڈے لگا کر کام کرتی ہے تو میں انہیں خوش آمدید کہتا ہوں، وزیر اعظم عمران خان کراچی کے حقوق کے بڑے چیمپیئن ہیں، انہیں کراچی کے مسائل کا احساس ہے، کراچی کے زخموں پر مرہم وفاق رکھے گا، کراچی میں وفاق کے منصوبوں پر کام جاری ہے، وفاق کے کراچی کے لئے 5 منصوبے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ گرین لائن پروجیکٹ جدید ٹرانسپورٹ کا منصوبہ ہے، اس کے متعدد مراحل مکمل ہوچکے ہیں، اس منصوبے کے لیے 80 بسیں لائی جا رہی ہیں ، امید ہے کچھ بسیں 12 ستمبر کو آجائیں گی جب کہ اگلے ہفتے تک مزید 40 بسیں کراچی پہنچ جائیں گی، بسوں کے ڈرائیوروں کی بھرتی کرلی گئی ہے وہ بھی تیار ہیں، کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر بھی بنایا جاچکا ہے جب کہ آئی ٹی سسٹم بھی جلد مکمل ہوجائے گا، اکتوبر کے وسط میں گرین لائن منصوبے کا آغاز کریں گے۔

اسد عمر نے کہا کہ کراچی کے نالوں سے 11 لاکھ ٹن کچرا اٹھایا جائے گا، نالوں پر فٹ پاتھ، انڈر پاسز اور اوور ہیڈ برج بن رہے ہیں، ان نالوں کے اطراف 15 فٹ کی 60 کلومیٹر طویل سڑکیں بنائی جائیں گی، نالوں کے اطراف سڑکوں کا یہ کام 34.5 ارب کے فنڈ سے ہوگا، پہلے نالوں کی صفائی کا نظام نہیں تھا، نالوں میں ڈریجنگ 90 فیصد تک مکمل ہوچکی ہے، محمود آباد نالے پر آپریشن 100 فیصد مکمل ہوچکا، بلاول زرداری بھٹو نے ٹھیک کہا تھا کہ جب بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے لیکن جب حکومت موثر کام کرے گی تو زیادہ پانی بھی گزر جاتا ہے، حکومتیں اپنا کام ٹھیک سے کریں تو پانی کھڑا نہیں ہوتا، نالوں میں صفائی کی وجہ سے حالیہ بارشوں کے سبب کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔

وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ وفاق کی جانب سے تیسرا منصوبہ کراچی سرکلر ریلوے کا ہے، یہ اہم منصوبہ ہے، چیف جسٹس پاکستان نے سرکلر ریلوے کے منصوبے کیلئے ہماری مدد کی، سرکلر ریلوے کراچی سے پپری تک کا منصوبہ ہے جس پر 70ارب روپے لاگت آئے گی، یہ 43 کلومیٹر پر محیط ہو گا، جس میں سے 29 کلو میٹر ٹریک برجز پر بنے گا، بریجز پر ٹریک بننے سے خرچہ زیادہ ہوگا مگر زمین پر توڑ پھوڑ کم ہوگی، سرکلر ریلوے کے 22 اسٹیشنز بنیں گے، سرکلر ریلوے کو نجی شعبہ چلائے گا، وزیر اعظم 30 ستمبر سے پہلے کراچی کا دورہ کریں گے اور وہ کراچی سرکلر ریلوے کے انفراسٹرکچر کا افتتاح کریں گے۔

پانی کی فراہمی سے متعلق وفاقی وزیر نے کہا کہ 26 کروڑ گیلن کی اسکیم کے 4 کا منصوبہ 10سال سے التوا کا شکار ہے، 5 ماہ بعد کے 4 منصوبے پر کام دوبارہ شروع ہوجائے گا، ہم کوشش کررہے ہیں کے 4 منصوبہ 14 اگست 2023 تک مکمل کرلیا جائے۔ پانی کی فراہمی کی ذمہ داری سندھ حکومت کی ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ وفاق نے کراچی والوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، احساس ایمرجنسی کے تحت کراچی کو 7 اورسندھ میں 65 ارب روپے تقسیم کیے گئے، رواں سال شہر میں چھوٹی اسکیموں کے لئے 21ارب روپے مختص کیے گئے، شہر میں 55 سے 60 کلو میٹر سڑکیں بنائی جائیں گی۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ کراچی کی مردم شماری دیرینہ مسئلہ رہا ہے، پرویز مشرف نے کراچی کے لئے بہت کام کئے لیکن وہ مردم شماری نہیں کراسکے، 19 سال بعد دوبارہ 2017 میں مردم شماری کی گئی، ہم مردم شماری سے متعلق حقیقت چاہتے ہیں، جو نتائج ہیں وہ سامنے آجائیں، اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کررہے ہیں، کابینہ کی منظوری کے بعد سمری مشترکہ مفادات کو نسل کو ارسال کی جائے گی، 2023 کے اوائل میں مردم شماری مکمل کرنے کا ہدف ہے اور اس کے بعد حلقہ بندیاں کی جائیں گی، 2023 کے الیکشن نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے ۔

اسد عمر نے کہا کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار نہیں، وہ بلدیاتی انتخابات میں جتنی تاخیر کرے گی ہمیں اتنے ہی زیادہ ووٹ ملیں گے کیونکہ بلدیاتی انتخابات میں تاخیر ہوگی تو پی ٹی آئی کے منصوبے مکمل ہوں گے اور کراچی کے شہریوں کو پی ٹی آئی کے منصوبے نظر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی 6 دفعہ صوبے اور 4 بار وفاق میں حکومت رہی ہے، عمران خان ملک کے پہلے شخص ہوں گے جومسلسل دوسری بار ویراعظم بنیں گے۔

محفوظ افغانستان

شمع باسط
کل اقتدار میں آئے طالبان اور آج انہوں نے حکومت کا اعلان بھی کرڈالا افغانستان میں طالبان کی حکومت اور راج ایک حقیقت ہے اور طالبان کا کہنا ہے کہ تمام ہمسایوں کے ساتھ اچ ہے تعلقات کی خواہش ہے اور ہماری حکومت کی بھی کوشش ہے کہ طالبان کی حکومت اور اقتدار سے متعلق جلد کوئی واضح بیان اور پالیسی مرتب کرے۔۔مگر
ہماری حکومت سے ابھی تک مہنگائی ہی کنٹرول نہیں ہو رہی ہے وہی پرانے رونے وہ ملک کو کھا گیا یہ ملک کو کہیں باھر أٹھا کے لے گیا خزانے خالی ملے بنک کرپٹ ملے اور وہی بے وقت کی راگنی۔۔ اور ادھر طالبان نے چند ایک دنوں میں حکومت سازی کر کے تمام دنیا کو حیران کر دیا ہے اور حکومت کے آغاز پر کوئی آہ وبکا نہیں کی کہ ہمیں لٹا پٹا ملک ملا۔دنیا فوری مدد کرے مر گئے ہم مٹ گئے ہم۔ ہاں مدد کی ضرورت ہے افغانستان کو مگر بغیر کسی شرط پہ وہ مدد قبول کرینگے یہ ہوتی ہے ریاست مدینہ کی سی مثالیں حکومت میں آتے ساتھ ہی عام معافی کا اعلان اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کا عزم برابری کے قوانین اور امیر غریب میں مساوی انصاف اور مکمل اسلامی طرز حکومت کی بنیاد۔ میرے لکھنے کا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ طالبان کے حق میں لکھا جائے یا ان کے خلاف۔۔مقصد اس بات کو اجاگر کرنا ہے کہ عزم کس بلا کا نام ہے اور تہیہ کر لیا جائے تو ہر شے ممکن ہے۔طالبان نے اپنی عوام کو کوئی سبز باغ نہیں دکھایا تھا کہ اقتدار میں آکر یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے بلکہ اپنے ملک و قوم کی خاطر اور امریکی غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت جاری رکھی اور ثابت قدمی سے ڈٹے ر ہے جسکا نتیجہ سب کے سامنے ہے اب طالبان نے حکومت کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے اور اس بات کا یقین دلایا ہے کہ ہر شہری کی حفاظت ان کے ذمے ہے۔
بات ساری پختہ عزم اور سچے جذبے کی ہے یہ جذبہ اور یہ حب الوطنی نہ جانے ہمارے سیاستدانوں سے دور کیوں ہیں ہم عوام کے حصے میں ایسے سیاسی لوگ کیوں آئے ہیں جن کے دعوے کچھ ہیں اور اعمال اور ہیں۔کسی چیز کی کمی نہیں ہمارے ملک میں مگرنہ جانے کیوں ہم آج بھی امریکہ کے ذریعے خوشحالی چاہتے ہیں ہماری حکومت کے وعدے تو بہت تھے مگر موجودہ حکومت آئی تو سبھی لوگ سیاستدان ہی ثابت ہوئے وہی مہنگائی‘ ہر پوسٹ پر رشوت ہر کام کروانے کے لیے پیسے کا استعمال یہ سب اگر کنٹرول نہیں ہوتا تووعدے نہ کیے جاتے تو بہتر ہوتا۔
ہمارے حکمران سیکھیں کچھ ہمسایہ ملک سے کہ کسی بھی مدد امداد کے بغیر طالبان حکومت بنا گئے ہیں کمال نہیں کر دیا طالبان نے۔عوام کو اس قدر مہنگائی کا سامنا ہے کہاں گئی وہ خوشحالیاں وہ ترقیاں اور کامیابیاں وہ ایک کروڑ نوکریاں جن کے عوض ہم نے خوشحال ہونا تھا۔ساری دنیا کی نظریں افغانستان پر لگی ہیں کس کی جرأت ہوگی کہ طالبان کی حکومت کوئی نہ مانے۔فی الحال تو افغان طالبان کا طرز عمل دیکھا جا رہا ہے اور بغور مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ وہ کیا قانون سازی کرتے ہیں بچوں کو خواتین کو کیا حقوق ملیں گے کیسے ریاست افغانستان چلے گی۔۔بہرحال اب چونکہ طالبان کو بھی دنیا نئے انداز سے دیکھ رھی ہے اب پڑ ہے لک ہے طالبان حکومت میں ہیں اور یہ رویہ پہلے کی نسبت کافی بدلا ہوا ہے اور طالبان کا کہنا ہے کہ ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے ان بیس سالوں کے دوران اور اب ہم بہتر حکمت عملی کے ساتھ دنیا کے ساتھ چلنے کی کوشش کرینگے۔
دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کے کون کون سے ممالک کب اور کس مناسب وقت پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرینگے۔طالبان نے واضح طور پر کہا ہے کہ افغان سر زمین کبھی کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور خاص طور پر پاکستان کے خلاف بالکل بھی نہیں۔طالبان کے حوالے سے زلمے خلیل ذاد نے کہا ہے کہ یہ طالبان قدرے بدلے طالبان ہیں اور پڑ ہے لک ہے ہیں اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک امریکی معاہدہ طالبان کو بھیجا اور طالبان کی طرف سے جب جواب ملا تو اس درستگی کے ساتھ ملا اور کہا گیاکہ انگلش کے درست سپیلنگ یہ ہیں۔ اب ہمیں اور ہماری حکومتوں کو چاہیے کہ ترقی کا نیا سفر افغانستان کے ساتھ ہی شروع کر لیں کیونکہ بقول تحریک انصاف ملک تباہ شدہ حالت میں انہیں ملا ہے تو چلیں شائد اسی مسابقے کی فضا میں ہمارا ملک بھی بہتری کی طرف گامزن ہو پائے ورنہ اب خطے کے دوسرے تمام ممالک تو ترقی میں ہم سے کافی آگے دیکھائی دیتے ہیں۔اب عوام بیچارے بھی تنگ آچکے ہیں نت نئے وعدے نہیں بلکہ عوام ذہنی سکون چاہتے ہیں۔ حکومت آپ اگر اپنے وعدوں میں سے صرف اور صرف آدھے ہی پورے کر دیتی تو عوام اگلے پانچ کیا دس سال بھی عمران خان کوہی وزیر اعظم چنتے۔
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭

9/11‘انسانی تاریخ کے اذیت ناک 20 سال

آج 11 ستمبر 2021 کو ایک طرف تو امریکہ میں سانحہ نائن الیون کی 20 ویں برسی منائی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے بھاگنے اور20 سالہ جنگ کے بعد طالبان کی نئی تشکیل کردہ حکومتی کابینہ حلف اٹھا رہی ہے۔ آج سے ٹھیک 20 سال پہلے دہشت گردی کا اپنی نوعیت کا ہوشربا واقعہ پیش آیا۔ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور رہ جانے والے امریکہ میں صبح 8 بجے 4 مسافر بردار طیارے اغوا ہوئے اور انہیں خود کش حملوں کے انداز میں مختلف عمارتوں سے ٹکرانا شروع کیا گیا۔ آدھے گھنٹے کے وقفے کے ساتھ 2 طیارے امریکی سرمایہ دارانہ برتری کی علامت 110 منزلہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت سے ٹکرائے گئے۔ اس وقت 10 ہزار افراد عمارت کے اندر موجود تھے۔ پوری عمارت چند لمحوں میں راکھ کا ڈھیر بن گئی۔ دنیا کے تمام ٹی وی چینلز کا رخ امریکہ کی طرف ہو گیا۔ پوری دنیا حیرت میں گم جبکہ امریکی سکتے کی کیفیت میں تھے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔مزید ایک گھنٹے کے اندر تیسرا طیارہ امریکی وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹر پینٹاگان پر گرا دیا گیا۔ اس کے بعد کے چند گھنٹے انسانی تجسس و تشویش کے حوالے سے ہیجان خیز تھے کہ اب کیا ہو گا؟ اگلا طیارہ کہاں ٹکرائے گا؟ دہشت گردوں کا اگلا نشانہ کیا ہوگا۔ امریکہ میں قیامت کا سماں اور نفسانفسی کا عالم تھا۔ امریکہ کے تمام سرکاری دفاتر، وائٹ ہاؤس سمیت اہم عمارتیں خالی کرا لی گئیں۔ جنگی طیارے فضا میں آ گئے۔تمام ائیر پورٹ بند کر دئیے گئے، سکول کالج یونیورسٹیاں غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دی گئیں۔ امریکہ میں زندگی تقریباً جام ہوگئی۔
کچھ دیر بعد اطلاع دی گئی کہ دہشت گردوں کی طرف سے اغوا کیا گیا چوتھا جہاز جس نے امریکی صدارتی محل کو ہٹ کرنا تھا اسے پنسلوانیا کی سرحد کے قریب فضا میں ہی تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس سانحہ میں 2996 افراد ہلاک ہوئے جن میں 19 ہائی جیکر بھی شامل تھے۔ 6 ہزار افراد زخمی ہوئے۔ امریکہ نے اسامہ بن لادن کو اس دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا اور افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ امریکہ نے بدلے کی آگ میں وہ کام کئے جن کا انسانی جنگی تاریخ میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ڈیزی کٹر اور Mother of the all bombs کے انسانوں پر تجربات تورا بورا کے افغان پہاڑوں اور غاروں میں کئے گئے۔ امریکہ کی بران اور بوسٹن یونیورسٹی کے مشترکہ ” منصوبہ برائے جنگی تخمینہ” (Cost of War Project) کے مطابق 20 سال کی اس جنگ کے دوران مجموعی طور پر 2 لاکھ 41 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 71344 عام شہری،3 ہزار امریکی فوجی، 78314 افغان سیکیورٹی اہلکار، 84191 دیگر امریکی مخالفین شامل ہیں۔
1930 میں پیش کئے جانے والے اب تک کے معتبر ترین “بگ بینگ” نظریہ (Big bang theory) کے تحت اس کائنات کی عمر 20 ارب سال بنتی ہے۔ اس طویل عرصے میں انسانیت کو بے پناہ تکالیف اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان میں سے زیادہ تر آفات آسمانی و فطرتی تھیں۔ لیکن 21 ویں صدی کے آغاز کے 2 عشرے وہ ہیں جب انسانوں نے جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال انسانوں پر کیا۔ بد ترین بربریت کا شکار افغان عوام بنے۔ افغانوں کی 3 نسلیں گزشتہ 50 سالوں سے حالت جنگ میں ہیں۔ افغانیوں کے بعد کسی نے اس بڑی جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ہے تو وہ پاکستان ہے۔ ہم نے اس پرائی جنگ میں 78 ہزار شہریوں کی قربانی دی۔ان میں 5800 فوجی افسر اور جوان بھی شامل ہیں۔ 19 ہزار جوان زخمی ہوئے۔ تقریبا ً130 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان کیا۔
آج نائن الیون کی برسی اس حالت میں منائی جا رہی ہے کہ نہ صرف امریکہ بلکہ افغان جنگجو بھی جنگ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید بموں سے انسانی اعضا کے چیتھڑے اڑانے والا امریکہ ہی نہیں بلکہ طالبان دونوں اس قتل و غارت گری سے تنگ آ چکے ہیں۔ خاص طور پر افغان عوام اب زندگی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی جنگ کیلئے ”Absolutely no’“کہہ چکا ہے۔ طالبان سب کے لئے عام معافی کا اعلان کر چکے ہیں۔ اب تک اپنے افعال اور خیالات سے طالبان نے ایسا کچھ ظاہر نہیں کیا کہ دنیا ایک بار پھر انہیں جنگ کی طرف لے جائے۔اب دنیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس جنگ بندی کو خطے کے حقیقی امن میں تبدیل کرنے کے لئے کردار ادا کرے… توقع کی جانی چاہئے کہ اب آنے والا ہر دن امن کی طرف جائے گا اور دنیا کو کسی نئے نائن الیون کا سامنا نہیں ہوگا۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

ہمارے قائد اور ہم

اعجاز الحق
قدرت کے فیصلوں کے سامنے انسان بے بس ہوتا ہے، اور ایمان کا تقاضہ یہی ہے کہ قدرت کے فیصلوں کو تسلیم کیا جائے، لیکن جب کسی انسان کے رویے سے نقصان ہورہا ہو تو پھر قدرت سے ہی دعا کی جاتی ہے کہ وہ رحم بھی کرے اور انصاف بھی مہیا کرے۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح جیسا انسان، رہنما، کھرا اور سچا مخلص لیڈر برصغیر کے مسلمانوں کو اب کم ہی نصیب ہوگا، ان کی قیادت میں مختصر مدت میں بر صغیر کے مسلمان اپنے لیے ایک الگ مملکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، ہم جب بھی ان کی زندگی اور ان کی سیاسی جدو جہد کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں ان کی لیڈر شپ اور ان کی محنت، دیانت اور مخلصانہ کوششوں پر رشک آتا ہے کہ ہمیں اللہ تعالی نے ان جیسا رہنما عطا کیا، مگر جب ہم یہ پڑھتے اور سنتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے اخری ایام میں کس طرح کے لمحات گزارتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ہمیں یقیناً افسوس بھی ہوتا ہے۔
بانی پاکستان، قیام پاکستان کے بعد کم و بیش ایک سال ہی زندہ رہے، مگر ہمیں وہ مملکت کے رموز بھی سمجھا گئے کہ بطور پاکستانی ہماری کیا ذمہ داریاں کیا ہیں، ہماری بیورو کریسی کی خصوصیت جو انہوں نے بیان کی وہ ہمارے لیے رہنما اصول ہے، آج اپنے قائد کی یوم وفات پر لکھتے ہوئے خود بھی تاریخ میں کھو گیا ہوں، اور تلاش کر رہا ہوں کہ قائد کے فرمان کی روشنی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ان کی زندگی کے آخری تین چار ماہ کچھ ایسے گزرے کہ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ وہ یکم جولائی1948ء کو کراچی میں سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرنا منظور کرچکے تھے لیکن کوئٹہ سے کراچی تک ہوائی سفر کرتے ہوئے ان کی طبیعت خراب ہوگئی سٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں موجود ہر شخص نے محسوس کیا کہ قائداعظم کی صحت خراب ہوچکی ہے ان کی آواز بمشکل سنی جاسکتی تھی۔ اپنی تقریر کے دوران میں وہ رکتے رہے اور کھانستے رہے۔ جب تقریب سے فارغ ہوکر وہ واپس گورنر جنرل ہاؤس پہنچے تو کپڑوں اور جوتوں سمیت بستر پر گر گئے مگر بستر پر پڑے اس ناتواں جسم میں نظروں کو چندھیا دینے والی ذہانت کا شعلہ اسی طرح روشن تھا۔کراچی میں پانچ روز قیام کے بعد، کوئٹہ واپسی کے اگلے ہی روز ان کی طبیعت میں تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہونے لگے چنانچہ وہ کوئٹہ سے چند میل کے فاصلے پر واقع زیارت چلے گئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے اپنی بہن کی اس بات سے اتفاق کیا کہ اب انہیں مناسب طبی مشورے اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ ان کی زبانی یہ سن کر فاطمہ جناح نے بغیر کسی تاخیر کے لاہور کے ممتاز فزیشن کرنل الٰہی بخش کو فوری طورپر بذریعہ ہوائی جہاز زیارت طلب کرلیا۔
24جولائی1948ء کو کرنل الٰہی بخش نے قائداعظم کا طبی معائنہ کیا ڈاکٹر کے استفسار پر قائداعظم نے 1934ء سے لے کر اب تک اپنی بیماری کی تفصیل ٹھیک ٹھیک انہیں بتادی۔اگلے روز قائداعظم کے خون اور تھوک کے نمونوں کے کلینیکل معائنے سے ڈاکٹر الٰہی بخش کے اس شک کی تصدیق ہوگئی کہ انہیں ٹی بی (تپ دق) ہے۔ ان کے استفسار پر ڈاکٹر نے بتایا کہ میرے خیال میں یہ مرض کم ازکم دو برس پرانا ہے۔ قائداعظم نے پوچھا:”کیا آپ نے مس جناح کو میری بیماری سے آگاہ کردیا ہے“۔ ڈاکٹر الٰہی بخش کہنے لگے: ”جی ہاں، میں نے انہیں بتا دیاہے“ قائداعظم نے کہا:”میراخیال ہے آپ نے ایسا کرکے غلطی کی۔ بہرحال وہ ایک خاتون ہیں“ آپ نے دیکھا کہ اس حالت میں بھی ان کی اپنی بہن کے جذبات کا کتنا خیال تھا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد وہ اپنی بہن کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور رک رک کر کہنے لگے،”فاطمی، تم درست ہی کہا کرتی تھیں۔مجھے کسی ماہر ڈاکٹر سے بہت پہلے مشورہ کرلینا چاہتے تھا مگر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ آدمی صرف جدوجہد کرسکتا ہے۔ تم جانتی ہو میرا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ میں کبھی آنکھیں بند کرکے دوسروں کے مشورے قبول نہیں کرتا“۔جولائی 1948ء کے اواخر میں وزیراعظم لیاقت علی خاں کسی پیشگی اطلاع کے بغیر زیارت آئے۔ چودھری محمد علی(سابق وزیر قانون خالد انور کے والد گرامی) ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے کرنل الہی سے قائداعظم کی صحت کے بارے میں پوچھا لیکن کرنل صاحب نے انہیں بتایا کہ میں اپنے مریض کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں بتا سکتا۔ وہ قائداعظم سے ملے تو آدھ گھنٹے تک ان سے باتیں کرتے رہے۔ اس کے بعد چودھری محمد علی نے پندرہ منٹ تک قائداعظم سے ملاقات کی۔
اگست1948ء کے دوسرے ہفتے میں قائداعظم کا بلڈ پریشر بہت کم ہوگیا اور ان کے پاؤں پر ورم آگیا۔ چنانچہ ڈاکٹروں کی ہدایت پر وہ 13اگست کو زیارت سے کوئٹہ چلے آئے۔ کوئٹہ پہنچ کر ان کی صحت بہتر ہونے لگی۔ اس پر ڈاکٹر الٰہی بخش نے مشورہ دیا کہ وہ روزانہ تقریباً ایک گھنٹہ فائلوں کو مطالعہ کرسکتے ہیں۔ ان کا خیال تھاکہ ہر وقت اپنی صحت کے متعلق سوچتے رہنے کی بجائے یہ بہتر ہوگا کہ قائداعظم کے مستعد ذہن کو کام کی جانب مبذول کردیا جائے۔ قائداعظم بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اس آزادی سے بہت لطف اٹھایا۔ ایک دن انہوں نے ڈاکٹر الٰہی بخش سے کہا:”ڈاکٹر میں سگریٹ پینا چاہتا ہوں“۔ڈاکٹر نے کہا:“ سر۔ صرف ایک سگریٹ روزانہ، مگر دیکھئے اس کا دھواں نہ نگلئے گا“۔شام کو ڈاکٹر آیا تو اس نے ایش ٹرے میں سگریٹ کے پانچ جلے ہوئے ٹکڑے دیکھے۔ اس پرقائداعظم نے مسکراتے ہوئے کہا: ”ہاں ڈاکٹر، میں نے پانچ سگریٹ ضرور پئے ہیں مگر میں نے ان کا دھواں نہیں نگلا“۔ اوروہ ہنس دیئے۔ ایک بچے کی طرح خوش، اگست کے آخری دنوں میں قائداعظم اچانک ہرچیز سے بے نیاز نظر آنے لگے۔ ایک روز انہوں نے فاطمہ جناح سے کہا۔ ”فاطمی مجھے اب مزید زندہ رہنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں جتنی جلدی چلا جاؤں اتنا ہی بہتر ہوگا“۔
فاطمہ جناح لکھتی ہیں: ”یہ بدشگونی کے الفاظ تھے۔ میں لرز اٹھی جیسے میں نے بجلی کے ننگے تاروں کو چھولیا ہو مگر میں نے خود کو پر سکون رکھتے ہوئے کہا: جن! آپ جلد ہی اچھے ہوجائیں گے۔ ڈاکٹر پر امید ہیں“۔انہوں نے ایک مردہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: نہیں۔ میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتا“۔یکم ستمبر کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح سے مایوس لہجے میں کہا: قائداعظم پر ہیمرج کا حملہ ہوا ہے۔ میں پریشان ہوں۔ انہیں کراچی لے جانا چاہیے۔ کوئٹہ شہر کی بلندی ان کے لئے موزوں نہیں ہے۔ 8ستمبر کو ڈاکٹروں نے فاطمہ جناح کو بادل نخواستہ آگاہ کیاکہ اب امید کی کوئی کرن باقی نہیں اور صرف کوئی معجزہ ہی قائداعظم کی زندگی بچا سکتا ہے۔ جب فاطمہ جناح نے قائداعظم کو بتایا کہ کوئٹہ کی بلندی سے بچنے کیلئے ہم انہیں کراچی لے جانا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا۔ ”ہاں، میں وہیں پیدا ہوا تھا اور وہیں دفن ہونا چاہتاہوں“۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کی آنکھیں بند ہوگئیں۔فاطمہ جناح ان کے بستر کے پاس کھڑی رہیں۔ وہ نیند میں رک رک کر سرگوشی کررہے تھے۔
ڈاکٹروں نے 11ستمبر کو فیصلہ کیا کہ انہیں اسی دن دو بچے بعد دوپہر کراچی روانگی کے لئے کوئٹہ کے ہوائی اڈہ پر پہنچ جانا چاہیے۔ جب قائداعظم کو ایک سٹریچر پر لٹاکر گورنر جنرل کے وائی کنگ طیارے کے کیبن میں لے جایا جارہا تھاتو اس وقت بھی انتہائی کمزوری کے باوجود انہوں نے اپنا کمزور ہاتھ اٹھا کر طیارے کے عملے کے سیلوٹ کاجواب دیا۔ کوئٹہ سے تقریباً دو گھنٹے کی پرواز کے بعد جہاز سہ پہرسوا چار بجے کراچی کے ماڑی پور ائیر پورٹ پر اترا۔ اس روز جیسا کہ فاطمہ جناح کی طرف سے پہلے ہی ہدایت دی جاچکی تھی کوئی بھی ائیر پورٹ نہیں آیا تھا۔ قائداعظم کو سٹریچر پر لٹا کر ایک ملٹری ایمبولینس تک لے جایا گیا جو انہیں گورنر جنرل ہاؤس لے جانے کیلئے ہوائی اڈے پر پہلے ہی سے تیار کھڑی تھی،ایمبولینس انتہائی آہستگی سے چل رہی تھی۔ ڈاکٹر الٰہی بخش، ڈاکٹر مستری اور گورنر جنرل کے انگریز ملٹری سیکرٹری ایمبولینس کے پیچھے گورنر جنرل کی کیڈلک کار میں آرہے تھے۔ تقریباً چار میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایمبولینس کے انجن نے ہچکی لی اور اس کے بعد وہ اچانک بند ہوگیا۔ فاطمہ جناح کو بتایا گیا کہ ایمبولینس میں پٹرول ختم ہوگیا۔ ڈرائیور نے بے چینی کے عالم میں انجن کو دیکھنا بھالنا شروع کیا مگروہ سٹارٹ نہ ہوسکا۔ اس روز سمندری ہوائیں بھی نہیں چل رہی تھیں اور گرمی ناقابل برداشت تھی۔ وہاں ایک گھنٹے سے بھی زیادہ دیر تک انتظار کرناپڑا۔ ایک طویل اور کرب ناک وقفہ۔ پھر ایک دوسری ایمبولینس آئی،اور قائداعظم کو اس میں لٹا کر گورنر جنرل ہاوس لایا گیا۔ ڈاکٹروں نے ان کا معائنہ کیا اور کہا…… کہ ہوائی سفر اور ایمبولینس کے تکلیف دہ واقعہ کے باوجود ان کی صحت پر کوئی برے اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ وہ جلد ہی گہری نیند سوگئے۔ فاطمہ جناح تنہا ان کے پاس بیٹھی رہیں۔ وہ کسی خلل کے بغیر دو گھنٹے تک سوئے رہے۔ پھر انہوں نے آنکھیں کھولیں۔ اپنی بہن کو دیکھا اور سر اور آنکھوں کے اشارے سے انہیں اپنے پاس بلایا۔ انہوں نے بات کرنے کی آخری کوشش کی اور سرگوشی کے انداز میں کہنے لگے۔”فاطمی، خدا حافظ“۔ ان کا سر آہستگی سے قدرے دائیں جانب کو ڈھلک گیا اور اور ان کی آنکھیں بند ہوگئیں انااللہ وانا الیہ راجعون۔ان کی سیاسی زندگی 42برسوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ جہد مسلسل، غیر متزلزل عزم، شاندار نظم و ضبط، بے مثال دیانت غیر معمولی ذہانت اور خداداد قائدانہ صلاحیتوں کی ایک فقید المثال تصویر ہے۔12ستمبر 1948ء کو کراچی میں بانی پاکستان کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی نے قائداعظم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ”شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان پیدا نہیں کیا جس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے دس کروڑ افراد کی مایوسیوں کو کامرانیوں میں بدل دیا ہو“
(مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اورسابق وفاقی وزیر ہیں)
٭……٭……٭