تازہ تر ین

افغانستان میں مغرب کی مخالفت اور منافقت

سردارآصف احمدعلی
افغانستان میں طالبان کی حکومت اب بن چکی ہے اور یہ حکومت کا ہونا ناگزیر اور لازمی تھا کیونکہ ایک آئینی اور قانونی خلا موجود تھا اس لئے طالبان نے ایک عبوری حکومت بنائی ہے جس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ایک قانونی خلا ختم ہو اور حکومت کے معاملات کو چلایا جا سکے۔ اب جو حکومت بنی ہے اس میں طالبان نے اپنے اندرونی معاملات طے کر لئے ہیں۔ نظریہ آ رہا ہے کہ اصل اقتدار ان قائدین کے ہاتھ میں رہے گا جو کہ تحریک طالبان کے بانیوں میں سے تھے اور جنہوں نے پچھلے 20سال تک امریکہ کی جارحیت کا مقابلہ کیا۔ اس حکومت کے ایک راہبر مقرر کئے گئے جو کہ ہیبت اللہ اخوندزادہ صاحب ہیں۔ یہ اس وقت تحریک طالبان کے سینئر موسٹ قائد ہیں اور انہی کی مرضی کے مطابق حکومت چلائی جائے گی اور قندھار میں اس کا ہیڈ کوارٹر ہوگا۔ اس طرح جو عبوری وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں جناب محمد حسن اخوند، یہ وزیراعظم ہوں گے اور ان کی وابستگی بھی قندھار سے ہے، اسی طرح ایک اور سینئر تحریک طالبان کے قائد جناب ملا عبدالغنی برادر ہیں، یہ وزیراعظم کی کونسل کے ممبر ہوں گے۔ ایک اور ایسی تعیناتی ہے جو قابل ذکر ہے کہ مرحوم ملا عمر کے صاحبزادے یعقوب عمر وزیر دفاع ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان نے اپنے اندر ایک توازن بھی پیدا کیا ہے جس میں حقانی نیٹ ورک کے قائد سراج دین حقانی کو وزیر داخلہ بنایا ہے لہٰذا اس طرح حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ کے قائدین نے آپس میں ایک توازن پیدا کر لیا ہے۔ اب رہا معاملہ دوسرے گروپوں کو اقتدار میں شامل کرنے کا۔ میرا اندازہ ہے کہ آج تک مذاکرات نامکمل رہے اور ناکام رہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ سابقہ نائب صدر صالح وہ ہیں جنہوں نے پنجشیر وادی میں جنگ شروع کروا دی اور یہ جنگ انہوں نے بڑے غلط اندازوں پر شروع کروائی کہ انہیں وہاں کوئی فتح نہیں کر سکتا اور انہوں نے نوجوان احمد مسعود جو کہ مرحوم احمد شاہ مسعود کے بیٹے ہیں ان کی ناتجربہ کاری کو استعمال کرتے ہوئے یہ جنگ چھیڑ دی۔ اب ان کو شکست کا سامنا ہے لہٰذا وہ کس منہ سے آئندہ حکومت میں شرکت کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔
مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سبوتاژ کیا گیا ہے اور یہ بھی ایک بین الاقوامی سطح پر کروایا گیا ہے اور اس میں یقینا بہت سی بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ضرور ہوگا اور انہیں یقین دلایا گیا کہ بین الاقوامی امداد انہیں ضرور ملے گی تاکہ وہ طالبان کے خلاف محاذ آرائی جاری رکھیں۔ یہ ان سے ایک بہت بڑی حماقت ہوئی ہے۔ اب اگلا معاملہ بین الاقوامی ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ جس طرح یہ طاقتیں افغانستان سے بدلہ لینا چاہتی ہیں اور وہ کہہ رہی ہیں کہ وسیع البنیاد حکومت بنائیں پھر ہم افغانستان کی حکومت کو تسلیم کریں گے اور جو پیسے ہم نے آپ کے دبائے ہوئے ہیں وقتاً فوقتاً فیصلہ کریں گے کہ وہ کس قدر دینے ہیں اور کن شرائط پر دینے ہیں۔
شرائط سخت ہوتی جا رہی ہیں اور اس میں اور بھی بہت سی چیزیں شامل کر دی گئی ہیں۔ جیسا کہ انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق، بیرونی اور کچھ افغانیوں کا انخلا بھی اس میں شامل کر دیا گیا اور آج اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی شرائط عائد کر دی ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے بڑا تعجب ہوتا ہے کہ امریکن 20 سال تک یہاں رہے ہیں تو کیا انہوں نے کوئی وسیع النبیادحکومت یہاں پر بنائی تھی۔ بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ یونائیٹڈ نیشنز کا یہ کون سا چارٹر ہے جس کی پیروی کی جا رہی ہے۔ ان سے یہ بھی پوچھا جائے کہ جب مصر کے ایک منتخب صدر محمد مرسی کو نکالا گیا تھا تو اس وقت آپ نے مصر پر کون سی شرطیں لگائی تھیں۔ ان سے یہ بھی پوچھا جائے کہ جب آپ نے دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کو شکست دی تو کیا اس کی پارٹی کو اقتدار میں آنے دیا یا مسولینی کی پارٹی جنگ ہار گئی تو اس کی پارٹی کو اٹلی میں رکھا گیا اور اب ہندوستان جو کچھ کر رہا ہے کہ وہاں 22 کروڑ مسلمانوں کے شہری حقوق ایک نئے قانون کے تحت چھین لیے تو یونائیٹڈ نیشنز یا امریکہ نے کتنے احتجاج کئے اور اب کشمیر میں ساڑھے سات لاکھ فوج گزشتہ تین سال سے کرفیو لگا کر اور لاک ڈاؤن کرکے بیٹھی ہوئی ہے کیا کسی نے اس کی مذمت کی۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک صرف اپنے ہی مفادات کے حوالے سے بات کرتے ہیں اور ان کی منافقت بڑی واضح ہو چکی ہے۔ اب یہ سب کچھ اس لئے کر رہے ہیں کہ افغانستان میں قحط پڑے اور دوسرے انسانی مسائل بڑھ جائیں تاکہ طالبان کی حکومت ناکام ہو جائے اور پھر دوبارہ وہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے لہٰذا یہ تو چاہتے ہی ہیں کہ مستقل خانہ جنگی برقرار رہے مگرایسا نہیں ہوگا کیونکہ خطے میں اور ایشیا میں ایک نئی صورتحال جنم لے چکی ہے۔
اب امریکہ کی فوجیں کسی دوسرے ملک پر چڑھائی کرنے سے تو رہیں اور نہ ہی اب اس کی ڈکٹیشن یہاں چل سکتی ہے اور اب دنیا بھی ہل گئی ہے کہ امریکہ کسی کا ساتھی نہیں ہے بلکہ بھارت یہ کہہ رہا ہے کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ بلنکن دلی میں پندرہ اگست سے دس دن پہلے وہاں گیا اور بھارت کو یقین دلایا کہ فی الحال ہم افغانستان سے نہیں نکل رہے اور اس بل بوتے پر بھارت میں وہ دو بہت بڑے ہوائی جہاز اسلحہ سے بھر کر افغانستان فوج کو بھیج دیئے اور دس دن بعد امریکن وہاں سے نکلنے شروع ہو گئے اور بھارت کو بتایا تک نہیں۔ اب اس قسم کی چہ میگوئیاں پوری دنیا میں ہونا شروع ہو گئی ہیں، امریکہ کسی کا ساتھ دے سکتا ہے یا نہیں یا پھر بھاگ جائے گا۔ اس سے امریکہ کی ساکھ کو بے پناہ دھچکا لگا ہے اور اس خطے میں بھارت کو بھی بہت بڑا شاک لگا ہے۔
اب رہا معاملہ افغانستان کا۔ میں پہلے بھی انہی کالموں میں یہ کہہ چکا ہوں کہ افغانستان کے لئے ایک وسیع کانفرنس کا ہمارے ہاں اسلام آباد میں بلائی جائے جس میں افغانستان کی تعمیر نو اور اس کی ترقی کے لئے اور جو انسانی مسائل کھڑے ہو رہے ہیں ان کے حل کے لئے سوچ بچار کی جائے اور فنڈز کا انتظام کیا جائے۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ چین کو دعوت دینی چاہئے۔ روس، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، قطر، ایران اور ترکی کے علاوہ او آئی سی کی صدارت سعودی عرب کے پاس ہے لہٰذا سعودی عرب کے بادشاہ اور ولی عہد کو بھی دعوت دینی چاہئے۔ اس کانفرنس سے پہلے ہی پاکستان کو افغانستان کی کچھ امداد پہلے ہی کر دینی چاہئے۔ اس میں، میں سمجھتا ہوں کہ ادویات اور خوراک کی امداد فوری دینی چاہئے، دوسری ضروریات کانفرنس کے بعد پوری کی جا سکتی ہیں۔
(کالم نگار سابق وزیرخارجہ اورممتاز ماہرمعیشت ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain