تازہ تر ین

محفوظ افغانستان

شمع باسط
کل اقتدار میں آئے طالبان اور آج انہوں نے حکومت کا اعلان بھی کرڈالا افغانستان میں طالبان کی حکومت اور راج ایک حقیقت ہے اور طالبان کا کہنا ہے کہ تمام ہمسایوں کے ساتھ اچ ہے تعلقات کی خواہش ہے اور ہماری حکومت کی بھی کوشش ہے کہ طالبان کی حکومت اور اقتدار سے متعلق جلد کوئی واضح بیان اور پالیسی مرتب کرے۔۔مگر
ہماری حکومت سے ابھی تک مہنگائی ہی کنٹرول نہیں ہو رہی ہے وہی پرانے رونے وہ ملک کو کھا گیا یہ ملک کو کہیں باھر أٹھا کے لے گیا خزانے خالی ملے بنک کرپٹ ملے اور وہی بے وقت کی راگنی۔۔ اور ادھر طالبان نے چند ایک دنوں میں حکومت سازی کر کے تمام دنیا کو حیران کر دیا ہے اور حکومت کے آغاز پر کوئی آہ وبکا نہیں کی کہ ہمیں لٹا پٹا ملک ملا۔دنیا فوری مدد کرے مر گئے ہم مٹ گئے ہم۔ ہاں مدد کی ضرورت ہے افغانستان کو مگر بغیر کسی شرط پہ وہ مدد قبول کرینگے یہ ہوتی ہے ریاست مدینہ کی سی مثالیں حکومت میں آتے ساتھ ہی عام معافی کا اعلان اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کا عزم برابری کے قوانین اور امیر غریب میں مساوی انصاف اور مکمل اسلامی طرز حکومت کی بنیاد۔ میرے لکھنے کا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ طالبان کے حق میں لکھا جائے یا ان کے خلاف۔۔مقصد اس بات کو اجاگر کرنا ہے کہ عزم کس بلا کا نام ہے اور تہیہ کر لیا جائے تو ہر شے ممکن ہے۔طالبان نے اپنی عوام کو کوئی سبز باغ نہیں دکھایا تھا کہ اقتدار میں آکر یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے بلکہ اپنے ملک و قوم کی خاطر اور امریکی غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت جاری رکھی اور ثابت قدمی سے ڈٹے ر ہے جسکا نتیجہ سب کے سامنے ہے اب طالبان نے حکومت کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے اور اس بات کا یقین دلایا ہے کہ ہر شہری کی حفاظت ان کے ذمے ہے۔
بات ساری پختہ عزم اور سچے جذبے کی ہے یہ جذبہ اور یہ حب الوطنی نہ جانے ہمارے سیاستدانوں سے دور کیوں ہیں ہم عوام کے حصے میں ایسے سیاسی لوگ کیوں آئے ہیں جن کے دعوے کچھ ہیں اور اعمال اور ہیں۔کسی چیز کی کمی نہیں ہمارے ملک میں مگرنہ جانے کیوں ہم آج بھی امریکہ کے ذریعے خوشحالی چاہتے ہیں ہماری حکومت کے وعدے تو بہت تھے مگر موجودہ حکومت آئی تو سبھی لوگ سیاستدان ہی ثابت ہوئے وہی مہنگائی‘ ہر پوسٹ پر رشوت ہر کام کروانے کے لیے پیسے کا استعمال یہ سب اگر کنٹرول نہیں ہوتا تووعدے نہ کیے جاتے تو بہتر ہوتا۔
ہمارے حکمران سیکھیں کچھ ہمسایہ ملک سے کہ کسی بھی مدد امداد کے بغیر طالبان حکومت بنا گئے ہیں کمال نہیں کر دیا طالبان نے۔عوام کو اس قدر مہنگائی کا سامنا ہے کہاں گئی وہ خوشحالیاں وہ ترقیاں اور کامیابیاں وہ ایک کروڑ نوکریاں جن کے عوض ہم نے خوشحال ہونا تھا۔ساری دنیا کی نظریں افغانستان پر لگی ہیں کس کی جرأت ہوگی کہ طالبان کی حکومت کوئی نہ مانے۔فی الحال تو افغان طالبان کا طرز عمل دیکھا جا رہا ہے اور بغور مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ وہ کیا قانون سازی کرتے ہیں بچوں کو خواتین کو کیا حقوق ملیں گے کیسے ریاست افغانستان چلے گی۔۔بہرحال اب چونکہ طالبان کو بھی دنیا نئے انداز سے دیکھ رھی ہے اب پڑ ہے لک ہے طالبان حکومت میں ہیں اور یہ رویہ پہلے کی نسبت کافی بدلا ہوا ہے اور طالبان کا کہنا ہے کہ ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے ان بیس سالوں کے دوران اور اب ہم بہتر حکمت عملی کے ساتھ دنیا کے ساتھ چلنے کی کوشش کرینگے۔
دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کے کون کون سے ممالک کب اور کس مناسب وقت پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرینگے۔طالبان نے واضح طور پر کہا ہے کہ افغان سر زمین کبھی کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور خاص طور پر پاکستان کے خلاف بالکل بھی نہیں۔طالبان کے حوالے سے زلمے خلیل ذاد نے کہا ہے کہ یہ طالبان قدرے بدلے طالبان ہیں اور پڑ ہے لک ہے ہیں اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک امریکی معاہدہ طالبان کو بھیجا اور طالبان کی طرف سے جب جواب ملا تو اس درستگی کے ساتھ ملا اور کہا گیاکہ انگلش کے درست سپیلنگ یہ ہیں۔ اب ہمیں اور ہماری حکومتوں کو چاہیے کہ ترقی کا نیا سفر افغانستان کے ساتھ ہی شروع کر لیں کیونکہ بقول تحریک انصاف ملک تباہ شدہ حالت میں انہیں ملا ہے تو چلیں شائد اسی مسابقے کی فضا میں ہمارا ملک بھی بہتری کی طرف گامزن ہو پائے ورنہ اب خطے کے دوسرے تمام ممالک تو ترقی میں ہم سے کافی آگے دیکھائی دیتے ہیں۔اب عوام بیچارے بھی تنگ آچکے ہیں نت نئے وعدے نہیں بلکہ عوام ذہنی سکون چاہتے ہیں۔ حکومت آپ اگر اپنے وعدوں میں سے صرف اور صرف آدھے ہی پورے کر دیتی تو عوام اگلے پانچ کیا دس سال بھی عمران خان کوہی وزیر اعظم چنتے۔
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain