افغان حکومت اور درپیش چیلنجز

ملک منظور احمد
افغانستان میں آخری چند روز بہت ہی ہنگامہ خیز گزرے ہیں۔ بالآخر کابل پر قبضے کے تقریبا ً دو ہفتے بعد طالبان نے اپنی عبوری حکومت کا تو اعلان کر دیا ہے لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ابھی طالبان کے لیے چیلنجز کا صرف آغاز ہو ا ہے۔ طالبان کی جانب سے اعلان کردہ نئی عبوری افغان حکومت میں ملا حسن اخوند وزیر اعظم،ملا برادر اور ملا عبد اسلام نائب وزیر اعظم ہوں گے،ملا یعقوب وزیر دفاع اور سراج حقانی وزیر داخلہ ہوں گے ملا ہیبت اللہ امیر امومنین ہوں گے،ملا امیر متقی وزیر خا رجہ ہوں گے،ہدایت بدری وزیر خزانہ،ملا عبد الحق انٹیلی جنس چیف ہوں گے، جبکہ ملا خیر اللہ وزیر اطلا عات اور ذبیح اللہ مجاہد نائب وزیر اطلا عات ہوں گے۔ یہاں پر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی نام ابھی بھی امریکی اور اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں ہیں،جبکہ ان میں سے کئی بد نام زمانہ گوانتانا مو بے جیل کے سابق قیدی بھی رہ چکے ہیں۔ طالبان نے گزشتہ 20برس ایک سپر پاور سمیت دنیا کی بھر کی بڑی اور امیر ترین قوتوں کے خلاف جنگ و جدل میں گزارے ہیں اور ایک نا قابل یقین اور تاریخی کامیابی حاصل کی ہے لیکن جنگ لڑنے اور گورننس کرنے میں بہت فرق ہوا کرتا ہے۔اسی لیے اگر یہ کہا جائے کہ طالبان کی عبوری حکومت کا قیام طالبان کی نئی حکومت کا پہلا قدم ہے تو غلط نہیں ہو گا۔
اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے اس وقت افغانستان کے معاشی حالات نہایت ہی مخدوش ہیں اور امریکہ کی جانب سے افغان مرکزی بینک کے 10ارب ڈالر منجمد کیے جانے کے بعد افغانستان کے عوام کے لیے روز مرہ کی زندگی کے معاملات چلانا بھی آسان نہیں ہے۔اور شاید طالبان کو بھی اس حقیقت کا احساس ہے کہ ایک ملک اور ریاست کو چلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے انہوں نے امریکہ سے اپیل کی ہے کہ افغان مرکزی بینک کے منجمد کیے گئے اثاثے فوری طور پر بحال کیے جا ئیں۔طالبان نے اپنی عبوری حکومت کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اس کو عالمی سطح پر اتنی قبولیت نہیں مل سکی ہے،شاید اس بات کی توقع بھی کی جاسکتی تھی۔امریکہ اور یورپی یونین نے طالبان کی نئی تشکیل پانے والی عبوری حکومت کویکسر مسترد کر دیا ہے تو دوسری طرف ایران نے بھی اس حکومت کو مسترد کیا ہے جبکہ ترکی کی جانب سے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔چین نے کسی حد تک طالبان کی حکومت کو قبول کرنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ روس ابھی اس حوالے سے خاموش ہے،جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کی حکومت بھی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر ہی گامزن دکھائی دے رہی ہے اور اس سلسلے میں ابھی تک حکومت نے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے جو کہ درست پالیسی ہے،پاکستان کو کسی بھی صورت اتنے اہم فیصلے لیتے وقت جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ نہایت ہی سوچ سمجھ کر اور دانش مندی سے فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔طالبان کی عبوری حکومت میں جہاں پر تحریک طالبان سے وابستہ پرانے لیڈران کو فوقیت دی گئی ہے وہیں پر نا قدین کی جانب سے اس بات پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں کہ نہ تو طالبان ایک وسیع البنیاد حکومت بنانے میں کامیاب ہو ئے ہیں اور نہ ہی خواتین سمیت اقلیتوں کو اس حکومت میں کوئی نمائندگی دی گئی ہے۔
عالمی برادری شاید طالبان سے کچھ زیادہ ہی امیدیں لگائے بیٹھی تھی لیکن بہر حال اس بات کا قوی امکان ہے کہ جلد یا بدیر کئی ممالک طالبان کی حکومت کو تسلیم کر ہی لیں گے۔جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کرنا ہو گی اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔لیکن مجموعی طور پر مغربی ممالک افغانستان میں طالبان کی حکومت کے لیے کسی قسم کی کو ئی آسانی پیدا نہیں کریں گے اس بات میں کسی کو ئی شک نہیں ہو نا چاہیے،طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک سے افغان عوام سے امدادکی اپیل کر دی ہے اور اسی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے چین،پاکستان اور ترکی وہ پہلے تین ملک ہیں جنہوں نے افغان عوام کے لیے امداد بھجوانے کا اعلان کر دیا ہے۔
چین نے افغان عوام کی مدد کے لیے 200ملین ڈالر کا اعلان کیا ہے جبکہ پاکستان نے امدادی سامان سے بھرے ہوئے 3 سی 130 جہاز بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ترکی نے بھی اسی طرح کا اعلان کیا ہے۔جبکہ قطر کی جانب سے پہلے ہی کچھ طیارے امدادی سامان لے کر کابل پہنچ چکے ہیں۔امریکی صدر با ئیڈن نے طالبان کی حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بہت ہی معنی خیز بیان دیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ چین،روس،ایران اور پاکستان طالبان کی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ یہ مقصد کس طرح حاصل کریں گے یہ دیکھنے کی بات ہے۔اس بیان کا یہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ اب علاقائی ممالک مل کر افغانستان کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں لیکن شاید ان تمام ممالک کے لیے اس حوالے سے امریکہ اور مغرب کی جانب سے کو ئی آسانی پیدا نہ کی جائے۔طالبان حکومت کے خلا ف غیر اعلانیہ پابندیوں کا سلسلہ شروع تو ہو ہی چکا ہے اور آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے بھی افغانستان کے لیے اپنی امداد بند کر دی ہے۔
طالبان نے گزشتہ روز اس بات کا اعلان کیا کہ انہوں نے افغانستان کی ویمن کرکٹ ٹیم پر پابندی لگا دی ہے کیونکہ ان کے خیال میں خواتین کا کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینا ٹھیک نہیں ہے اور اس اعلان کے بعد آسٹریلیا جو کہ امریکہ کا قریبی اتحادی ہے کی جانب سے افغان کرکٹ ٹیم کے دورہ آسٹریلیا کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔یہ تو ابھی آغاز ہی ہے تمام مغربی ممالک کی جانب سے طالبان حکومت کو ایسی ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ سخت پابندیوں اور اقدامات کا سامنا ہو گا۔اس تمام صورتحال میں ایران کا ردعمل بھی بہت معنی خیز ہے کیونکہ ایران کی نئی قیادت نے کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد طالبان کی حکومت کے حوالے سے مثبت بیانات دیے تھے لیکن پھر اچانک پنج شیر کی لڑائی کے بعد طالبان کے حوالے سے ایران کے موقف میں بڑی تبدیلی آ گئی ہے اورتو اور ایران نے پنج شیر کے حوالے سے پاکستان مخالف بیان بھی داغے ہیں۔خطے کے ممالک کے درمیان اس حوالے سے کوئی دراڑ خطے کے کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہو گی۔ایران کو بھی اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ساتھ مل کر چلیں گے تو ہی اس خطے میں امن اور استحکام اور ترقی کو یقینی بنا یا جاسکے گا۔طالبان کیسی گورننس کرتے ہیں ان کی حکومت کس حد تک کامیاب ہو تی ہے،خواتین کو کس حد تک آزادی ملتی ہے یہ تمام سوالات دنیا کی توجہ کر مرکز ہیں اگر طالبان اپنے گزشتہ دور کی نسبت بہتر پالیساں اپنائیں تمام نسلی اور لسانی گروپوں کو ساتھ لے کر چلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ خطے میں امن کی صورتحال بہتر ہو،بیرونی مداخلت کا راستہ رکے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

حکومت کا آئندہ انتخابات ہرصورت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا عندیہ

اسلام آباد: حکومت نے آئندہ عام انتخابات میں ہر صورت سمندر پارپاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا عندیہ دیدیا۔

وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے میڈیا کے مخصوص نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور ای وی ایم سے حکومت پیچھے ہٹ سکتی ہے، آئی ووٹنگ و ای وی ایم سے نہ وزیراعظم عمران خان پیچھے ہٹے گا نہ اس کی حکومت ہٹے گی۔

بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ سمندرپار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ ہے، حکومت سمجھتی ہے کہ سمندرپار پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق نہ دینا توہین عدالت ہے، الیکشن کمیشن انتخابات کرانے کیلئے آئینی ریگولیٹر ہے، الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے کہ وہ قانون کے مطابق الیکشن کرائے۔

وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ قانون بنانا نہ تو الیکشن کمیشن کا کام ہے نہ ہی اختیار، قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے اور اگر قانون بن جائے تو الیکشن کمیشن کا موقف ہی ختم ہوجاتا ہے، حکومت نے الیکشن کمیشن سمیت سب کو گھنٹوں سنا ہے، بتایا جائے کہ کیا سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراضات کرنے والوں نے دھاندلی روکنے کا کوئی طریقہ بتایا ہے، اگر جواب ناں میں ہے تو اس کا مطلب ہے دال میں کچھ کالا ہے، انہوں نے ہر حلقے میں 20 سے 25 ہزار جعلی ووٹ بنائے ہوئے ہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ اپوزیشن کو دعوت دیتا ہوں کہ کھلے دل سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو قبول کرے، ای وی ایم مشین الیکشن کمیشن خریدے گا حکومت نہیں، ہم حکومت کی تیار شدہ یا خریدی گئی الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اصرار نہیں کر رہے، حکومت فنڈز فراہم کرے گی، مشین الیکشن کمیشن خریدے گا

لیفٹ آرم اسپنر محمد نواز کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا

 راولپنڈی: قومی ٹیم کے لیفٹ آرم اسپنر محمد نواز کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا۔

اسپنر محمد نواز کو کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر پی سی بی کے کوویڈ 19 پروٹوکولز کے مطابق قرنطینہ میں بھیج دیا گیا ہے۔

محمد نواز کا کا کورونا ٹیسٹ گزشتہ روز اسلام پہنچنے پر کی جانے والی آرائیول کوویڈ 19 ٹیسٹنگ کے دوران مثبت آیا۔

سری جانب قومی اسکواڈ میں شامل دیگر تمام ارکان کے کورونا ٹیسٹ کے نتائج منفی آئے ہیں لہٰذا انہیں 10 ستمبر بروز جمعہ سے پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم راولپنڈی میں ٹریننگ کی اجازت ہوگی۔

واضح رہے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم تین ون ڈے اور پانچ ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز پر مشتمل سیریز کے لیے 11 ستمبر کو اسلام آباد پہنچے گی۔ دونوں ممالک کے مابین کرکٹ سیریز 17 ستمبر سے 3 اکتوبر تک جاری رہے گی۔

افغان حکومت کا 11 ستمبر کو حلف اٹھانے کا اعلان

کابل: نئی افغان حکومت نے 11 ستمبر کو حلف اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نئی افغان حکومت نے 11 ستمبر کو حلف اٹھانے کا اعلان کیا ہے، سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر پوسٹ میں طالبان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نئی حکومت کی حلف برداری تقریب 11 ستمبر کو ہوگی۔

9/11 حملوں کو رواں سال 11 ستمبر کو 20 سال مکمل ہوجائیں گے، 2001 میں امریکی حکومت نے اتحادی ممالک کے ہمراہ افغانستان پر حملہ کیا تھا جس کے بعد طالبان کی حکومت ختم ہوگئی تھی تاہم طالبان نے ٹھیک اسی دن حلف بردراری کی تقریب کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل طالبان نے افغانستان میں عبوری حکومت تشکیل دیتے ہوئے کابینہ کے ناموں کا اعلان کیا تھا، اسلامی حکومت کے قائم مقام وزیراعظم محمد حسن اخوند جب کہ ملا عبدالغنی برادر اور ملا عبدالسلام نائب وزرائے اعظم ہوں گے۔

آرمی چیف سے ڈائریکٹر سی آئی اے کی ملاقات ، افغان صورتحال پر پاکستانی کردار کی تعریف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ سے ملاقات میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے افغان صورتحال پر پاکستانی کردار سمیت غیرملکی عملے کے انخلا اور دیگر معاملات میں تعاون کی تعریف کی۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ سے ڈائریکٹرسی آئی اے ولیم جوزف برنز کی ملاقات ہوئی ، سی آئی اےڈائریکٹر نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سےبھی ملاقات کی۔

آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ملاقات میں باہمی دلچسپی امور سمیت ،علاقائی سیکیورٹی اور افغانستان صورتحال پرتبادلہ خیال کیا گیا۔

ترجمان کے مطابق اس دوران پاکستانی حکام کی جانب سے خطےمیں امن کیلئے تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ااور افغانستان میں دیرپاامن کیلئےکوششیں جاری رکھنے کےعزم کا اظہار کیا۔

سی آئی اے ڈائریکٹر نے خطے میں استحکام کے لیے پاکستان کی کاوشوں کو بھی سراہا اور افغان صورتحال پر پاکستانی کردار سمیت غیرملکی عملے کے انخلااوردیگرمعاملات میں تعاون کی تعریف بھی کی۔

ن لیگ اپوزیشن کا کردار ادا کرے یا حکومتی سہولت کار ہونے کا اعلان کرے، بلاول

رحیم یار خان: چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ (ن) کو ساتھ مل کر پنجاب حکومت گرانے کا چیلنج دے دیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے رحیم یار خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) پر بھی خوب وار کیے۔

بلاول کہا کہ ہم نے ایک طرف نالائق اور نااہل حکومت کو للکارنا ہے ، وہیں اپنے دوستوں کو بھی مجبور کرنا ہے، اب یہ دوغلی پالیسی نہیں چلے گی، یا تو اپوزیشن کا کردار ادا کریں یا پھر اعلان کردیں کہ آپ حکومت کے سہولت کار ہیں۔

چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ ہم نے یوسف رضا گیلانی کو منتخب کراکر حکومت کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا اور لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا، لیکن آپ اس وقت بھی پیچھے ہٹے، پہلے ہم نے آپ کو بیٹھ کر سمجھایا، اب ہم آپ کو مجبور کریں گے کہ آپ اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے عثمان بزدار اور عمران خان کو گھر بھیجیں، الیکشن کرواکر نئی حکومت بنوائیں، کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ووٹ کی عزت کی بات ہو لیکن جب ووٹ کے استعمال کا وقت آئے تو بھاگ جائیں اور الیکشن میں بائیکاٹ کردیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آپ کی وجہ سے عوام ہم سے بھی ناراض ہورہے ہیں، اگر ووٹ کی عزت کرتے ہیں تو اسے استعمال بھی کریں اور بزدار اور عمران کو بھگائیں، اگر مل کر مقابلہ کریں گے تو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی حکومت گرجائے گی کیونکہ یہ کٹھ پتلی کا پٹھ پتلی ہے، عثمان بزدار گرے گا تو عمران خان خودبخود گرجائے گا۔

بلاول نے مزید کہا کہ آپ ہمت پکڑیں اور کسی کی انا و ذاتی مفاد کو ترجیح نہ دیں، اگر آپ تیار نہیں ہوئے اور اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے بزدار کو چلاتے رہے تو عوام آپ کو معاف نہیں کریں گے، جب ہم ساتھ تھے تو آپ کہتے تھے استعفے کے بغیر کام نہیں چلے گا، اب آپ کو چیلنج ہے کہ مل کر ووٹ استعمال کریں اور وار کریں، ورنہ استعفے ہی دے دیں، ان میں سے کوئی ایک کام تو کریں ورنہ پنجاب کے عوام جان لیں گے کہ یہ مفاہمت ہے نہ مخالفت، بلکہ منافقت ہے، جسے پنجاب کے عوام رد کردیں گے، آج نہیں کل ہم اس حکومت سے حساب لیں گے اور جب حساب کا وقت ہوگا تو عمران خان اکیلا ہی رہ جائے گا۔

انسانوں کو وقت سے پہلے قبروں میں اتارنے والا نظام

جاوید ملک
WHO کی 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں خودکشی سے مرنے والوں کی تعداد ملیریا، ایڈز، چھاتی کے کینسر یا جنگ وغیرہ سے ہونے والی اموات سے زیادہ ہے۔ WHO کی رپورٹ کے مطابق ہی سال 2019ء میں سات لاکھ سے زائد لوگوں نے خودکشی کی۔ یعنی ہر 100 میں سے 1 موت کی وجہ خودکشی تھی!
ممتاز تجزیہ نگار اسد رائے کی ایک ریسرچ کے مطابق خودکشیوں کے حوالے سے سرِ فہرست ممالک میں جنوبی کوریا پانچویں نمبر پر ہے۔ جنوبی کوریا میں خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد بوڑھے افراد کی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بڑھاپے میں کسی سہارے کی عدم موجودگی ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا میں طالب علموں میں بھی خودکشی کی شرح اوسط سے زیادہ ہے۔ چین میں اموات کی پانچویں بڑی وجہ خودکشی ہے۔ دنیا کے برعکس چین میں خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔ امریکہ میں خودکشیوں کی شرح 16.1 فیصد ہے۔ پچھلے دو سالوں میں خودکشیوں کی شرح میں سب سے زیادہ اضافہ امریکہ میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں خودکشیوں کی شرح 9.49 فیصد ہے۔ یعنی ایک لاکھ اموات میں 9.49 کی وجہ خودکشی ہوتی ہے۔
یہ اعداد و شمار بھی دراصل نا کافی ہیں۔ پوری دنیا میں رپورٹ ہونے والی خودکشیوں کی تعداد حقیقی تعداد سے بہت کم ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں ذہنی امراض اور خودکشیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک تو سرمایہ داری تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ ہر طرف بے روزگاری کی لہر نظر آتی ہے۔ صرف امریکہ میں وبا کے دوران 4 کروڑ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ پچھلے عرصے میں تعلیم اور علاج جیسی سہولیات لوگوں کی پہنچ سے دور ہوئی ہیں۔حالیہ وباء میں ہونے والی اموات بھی کسی صدمے سے کم نہیں تھیں۔ لاک ڈاؤن کا عرصہ بھی عوام کی اکثریت کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔ معاشی بد حالی اور اس پر سماجی دوری سے ذہنی دباؤ بڑھا ہے۔ اس عرصے میں گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
مٹھی بھر زر والوں کو چھوڑ کر باقی عوام مختلف قسم کی پریشانیوں میں گھرے ہیں۔ کئی ممالک ایسے ہیں جہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ جہاں بچوں کی اکثریت غذائی قلت کا شکار ہے۔ دنیا میں انسانوں کی اکثریت کو جسم و ذہن تھکا دینے والی محنت کے بدلے میں بنیادی سہولیات بھی نہیں ملتیں۔ لوگ اپنی زندگی بھر کی محنت کو اپنی آنکھوں کے سامنے رائیگاں جاتے دیکھتے ہیں۔ ایک نسل اگلی نسل کے لیے ورثے میں پریشانیاں اور تکلیفیں چھوڑ کر جاتی ہے۔ ایسی دنیا جس میں انسان چاند پہ قدم رکھ چکا ہے، اس میں لوگ ایک شہر سے دوسرے شہر میں جاتے ہوئے پہلے پیسوں کا سوچتے ہیں۔ وہ دنیا جس میں ہارٹ ٹرانسپلانٹ کی تکنیک ایجاد ہو چکی ہے، اس میں لوگ چھوٹی موٹی بیماریوں سے دم توڑ جاتے ہیں۔ اس جدید دنیا میں ایک وائرس کتنے لوگوں کی جانیں نگل گیا۔ ہزاروں ٹن گندم ہر سال دریاؤں میں بہا دی جاتی ہے۔ بڑے بڑے ریستورانوں میں روز اتنا کھانا ضائع کیا جاتا ہے جس سے نہ جانے کتنے بھوکوں کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔ لاکھوں بے گھر لوگ کھلے آسمان کے نیچے سوتے ہیں اور آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتوں کو تکتے رہتے ہیں۔ اس دنیا میں لوگوں کا پریشان ہونا، ذہنی دباؤ کا شکار ہونا یا اپنی زندگی سے تنگ آ جانا کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔
اسی طرح کی ایک رپورٹ کے مطابق 15 سے 29 سال کے افراد میں اموات کی دوسری بڑی وجہ خودکشی ہے۔ اس پہ بات کرنے سے پہلے ہم ذہنی امراض کے حوالے سے بات کر لیتے ہیں جو زیادہ تر خودکشی کی وجہ بنتی ہیں۔ دنیا میں بسنے والے لوگوں کی بہت بڑی تعداد کم و بیش کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔ ان میں سب سے عام ڈپریشن ہے۔ دنیا میں لگ بھگ 26 کروڑ 40 لاکھ لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ڈپریشن کے شکار افراد میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے پاس تازہ ترین اعدادو شمار نہیں ہیں
درحقیقت یہ اعداد و شمار بھی حقیقت کی درست عکاسی نہیں کرتے، حقیقت اس سے بھی کئی درجے زیادہ خوفناک ہے۔ ڈپریشن اپنی انتہا پہ جا کے خودکشی کے خیالات کو جنم دیتا ہے۔ ذہنی امراض کی ایک اور بڑی قسم ’بائی پولر ڈس آرڈر‘ ہے۔ دنیا میں 4 کروڑ 50 لاکھ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ ایک اور قسم Schizophrenia (شقاق دماغی) ہے۔ یہ ایک شدید ذہنی مرض ہے اور دنیا میں دو کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ ذہنی امراض کی ایک اور قسم Dementia ہے اور دنیا میں لگ بھگ 5 کروڑ لوگوں کو یہ مرض لاحق ہے۔ Anxienty Disorder کے شکار افراد کی تعداد 28 کروڑ سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ 7 کروڑ سے زائد لوگ منشیات (شراب کے علاوہ کیونکہ بہت سارے ممالک میں شراب کا شمار منشیات میں نہیں ہوتا) کے عادی ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں 76 فیصد سے 85 فیصد لوگوں کو ذہنی امراض کا علاج میسر نہیں ہے جبکہ”ترقی یافتہ“ ممالک میں یہ شرح 35 فیصد سے 50 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار بھی حقیقت کا درست اظہار نہیں کرتے کیونکہ بہت سے ممالک میں ذہنی مرض میں مبتلا شخص خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے اور بہت سارے لوگ اس بیماری کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اور اہم پہلو صحت کے شعبے کا ناکارہ پن ہے۔ صرف پاکستان کی بات کریں تو یہاں صحت کا شعبہ مجموعی طور پہ ناقص ہے۔ پاکستان میں ہر 1000 میں سے 66 بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے وفات پا جاتے ہیں۔ ہر 1 لاکھ میں سے 170 عورتیں بچے کی پیدائش کے دوران مر جاتی ہیں۔ پاکستان میں جی ڈی پی کا کم ترین حصہ صحت کے شعبے کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں 1200 مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ دوسری طرف بے شمار لوگ میڈیکل کی ڈگریاں لیے گھوم رہے ہیں۔ میڈیکل کے طلبہ میں خودکشیوں کا رجحان بھی زیادہ پایا جاتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ خود بھی ہر ماہ جائیں اور بچوں کو بھی لے جائیں۔ خاکسار نے سوال پوچھ لیا کہ ایک بڑی تعداد مشکل سے اتنا کماتی ہے کہ دو وقت کی روٹی پوری ہو سکے، ایسے میں گھر کے سب افراد تو دور ایک بھی فرد ماہرینِ نفسیات کی فیس برداشت نہیں کر سکتا۔ کیا ان کے ڈپریشن کا علاج ان کی بنیادی ضروریات پوری کر کے نہیں کیا جا سکتا؟ اس کے بعد پتہ نہیں کیوں وہ لوگ کچھ دیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ انقلاب نہیں آ سکتا۔ ہم بالکل یہ نہیں کہتے کہ امیر لوگ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے یا خودکشی نہیں کرتے۔ بہت سے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بہت سے مشہور فنکاروں نے خودکشی کی ہے۔ لیکن اس کی بنیادیں بھی مجموعی طور پر سماج میں پیوست ہیں۔ خوشی ایک اجتماعی جذبہ ہے۔ یعنی باقی انسانوں کو نکال لیا جائے تو ایک انسان کی خوشی کیا ہے؟ ایک ایسی دنیا جس میں انسانوں کی اکثریت دکھ، تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہے، اس میں کوئی بھی دردِ دل رکھنے والا انسان کیسے خوش رہ سکتا ہے؟
(کالم نگار سیاسی و سماجی ایشوز پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

امریکہ کی ترجیحات

سجادوریا
افغانستان سے امریکہ کے اچانک انخلاء نے افغان حکومت سمیت دیگر طاقتوں کو بھی حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔بھارت خاص طور پر پریشان دکھائی دیا۔بھارتی میڈیا کی تو گویا دُم پر پاوٗں آگیا۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولتے کئی بھارتی تجزیہ کار، میڈیا کی سکرینوں پر جلوہ گر ہوئے۔کئی امریکہ کو طعنے دیتے رہے اور کوستے رہے کہ بُزدل ہو،بھاگ گئے ہو۔ بھارت کی پریشانیاں اور بدحواسیاں سمجھ میں آتی ہیں کہ انہوں نے اربوں ڈالرز خرچ کر کے اشرف غنی حکومت کو اپنے قابو میں کیا تھا،پاکستان کے پڑوس میں کئی قونصل خانے کھول رکھے تھے،جن کے ذریعے پاکستان کے اندرونی حالات خراب کیے جا رہے تھے۔اشرف غنی کی حکومت کے پاکستان مخالف بیانات دراصل بھارتی جذبات کی تسکین کا سبب بنتے تھے۔امریکہ نے بھی کوشش کی کہ بھارت کو خطے کا تھانیدار بنایا جائے،پاکستان کو گھیرا جائے،لیکن صد شُکر کہ پاکستان کے ریاستی اداروں نے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور دُشمنوں کی چالوں کو ناکام بنا کے رکھ دیا اور اپنے وطن کو محفوظ بنا لیا۔
۲۰ سال قبل امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ امریکہ افغانستان کے پہاڑوں سے ٹکرا کے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس وقت دُور اندیش اور صاحب بصیرت سیاسی،علاقائی اور عالمی اُمورکے ماہرین ”کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ“کے مصداق اس خدشے کا اظہار کرتے تھے کہ امریکہ دراصل افغانستان میں بیٹھ کر چین اور پاکستان کے حالات خراب کرنا چاہتا ہے۔امریکہ نے بھارت کی مدد سے ایسا کیا بھی،پاکستان پر ڈرون حملے کئے گئے،ٹی ٹی پی کو فنڈنگ کی گئی،افغانستان سے دہشت گردی کو پاکستان میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی لیکن شاباش ہے پاک فوج کے لئے کہ انہوں نے کمال منصوبہ بندی سے دشمنوں کو بے بس کردیا۔تمام حالات و واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو میں یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ پاکستان نے بہت عمدہ کھیلا،پاکستانی میڈیا،سیاسی قیادت اور سِول و عسکری اداروں نے اپنے محدود وسائل اور عالمی مجبوریوں کے باوجود ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔امریکہ اب افغانستان طالبان کے حوالے کر کے نکل چکا ہے۔اب اس پر ایک حد تک اطمینان کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ شمال،مغربی بارڈر افغانستان کی طرف سے محفوظ ہو گیا ہے،بھارت بھی نکل چکا ہے اور اشرف غنی نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ”بھاگ غنی بھاگ“ کا نعرہ لگانے میں ہی عا فیت سمجھی۔
سقوطِ کابل نے ایک طرف عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن کے بدلنے کا اشارہ دے دیا ہے،امریکہ محسوس کر رہا ہے کہ دنیا میں اس کا وہ دبدبہ قائم نہیں رہا۔جس بدمعاشی اور دھونس سے اس نے عراق،شام،لیبیا اور افغانستان پر حملے کیے،اب ایسا نہیں چلے گا۔امریکہ کو یقین ہو چلا ہے کہ اس کی فوجی بدمعاشی نے اس کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ان تمام احساسات اور معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے اپنی ترجیحات کو نئی سمت دی ہے۔اپنی نئی ترجیحات کے مطابق خود کو جنگ سے دور کرنا ہو گا۔امریکہ سمجھتا ہے کہ اس کا اصل حریف چین ہے،جو خاموشی سے اپنی معاشی اور فوجی طاقت بڑھا رہا ہے،دنیا میں معاشی تعلقات کے ذریعے خود کو مضبوط بنا رہا ہے،چین نے خود کو جنگوں سے دور رکھا ہے،معیشت و کاروبار کے ذریعے خود کو مضبوط کیا ہے۔چین کے توسیع پسندانہ عزائم نہیں ہیں،خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کر چکا ہے،پڑوسیوں سے دوستانہ اور شراکت داری کی بنیاد پر تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔یعنی کہ عالمی سطح پر مثبت اور صلح جُو ہو نے کا تاثر دیا ہے۔اس طرح اپنی دھاک بٹھانے میں کامیا ب ہو چکا ہے۔چین نے اب طالبان کی طرف بھی ہاتھ بڑھا دیا ہے۔طالبان کا وفد بیجنگ کا دورہ کر چکا ہے۔میرا ”گمان“ ہے اب چین کھیلے گا اور دنیا دیکھے گی۔
میں نے ذکر کیا ہے کہ امریکہ نے ترجیحات بدل لی ہیں،پہلی ترجیح تو جنگ بندی ہے اور دوسری ترجیح معیشت پر توجہ ہو گی۔میں سمجھتا ہوں امریکہ نے سوچ سمجھ کر جنگوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے،انہوں نے عزت کو داوٗ پر لگا دیا ہے لیکن اپنی بقا اور معیشت کو محفوظ کر لیا ہے۔امریکہ کو اس لحاظ سے دانشمند کہہ سکتے ہیں کہ سوویت یونین کی طرح ٹوٹنے کا انتظار کرنے سے پہلے ہی نکل جاتا ہے۔ویت نام میں بھی ایسا ہی کیا اور اب افغانستان سے بھی بھاگ کھڑا ہوا۔مجھے ایسا لگا کہ امریکا نے بہتر فیصلہ کیا،امریکہ اب سانس لے گا،سستائے گا اور دنیا کے ساتھ بہتر سفارتکاری کے ذریعے اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کرے گا۔اقوام ِ متحدہ،فیٹف اور آئی ایم ایف جیسے ہتھیار استعمال کرے گا۔ان کا اثر”کھسیانی بلی کھمبا نوچے“جیسا ہی ہو گا۔کیونکہ دنیا نے امریکہ کی اخلاقی اقدار،دوستی اور طوطا چشمی کو دیکھ لیا ہے،صرف مفادات کا تعلق،کوئی اخلاقیات نہیں،کوئی دوستی نہیں۔اپنے مفادات کو یقینی بنانا ہے چاہے اقوامِ متحدہ کی چھتری کا سہارا لینا پڑے،کسی کا بازو مروڑنا پڑے یا عراق میں کیمیائی ہتھیاروں جیسا جھوٹ بولنا پڑے۔امریکا سے آنے والی خبروں سے تو ایسا لگتا ہے امریکہ بہت محتاط ہو گابلکہ چین کی ترقی اور طاقت سے خوف زدہ نظر آتا ہے۔اسی خوف نے امریکہ کو اپنی ترجیحات بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔امریکہ اور یورپ کے تھنک ٹینکس جان گئے ہیں کہ دنیا میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے،اس کا مرکز چین اور روس ہونگے۔
طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ابھی کوئی معتبر خبریں نہیں آ رہیں،لیکن میرا”گمان“ ہے امریکہ و یورپ کئی شرائط اور پابندیوں اور مطالبات کے ساتھ کچھ دیر کے بعد بالآخر تسلیم کرنے پر تیار ہو جائیں گے،کیونکہ وہ خود کو ان مسائل سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ایسی شرارتیں،الجھنیں اور سازشیں ہی ان کی امیدوں کو پورا کر سکتی ہیں جن کے ذریعے چین،طالبان اور بھارت کے ساتھ جنگ میں اُلجھ جائے۔امریکہ نے بھارت پر بھروسہ کیا تھا کہ چین کے خلاف کھڑا ہو گا لیکن چین نے لداخ میں بھارتی علاقے پر قبضہ کرلیا اور بھارت تلملاتا رہ گیا۔بھارتی فوج بے بس اور شکست خوردہ نظر آئی۔بھارت کے ایکسپوز ہو جانے کے بعد امریکہ کی امیدیں مزید دم توڑ گئیں۔
امریکی تھنک ٹینکس اور حکومت،بھارت کی فضائی طاقت،عسکری طاقت سے اس وقت انتہائی حد تک مایوس ہو گئے جب پاکستان نے ان کے جھوٹے ائیر اسٹرائیکس کے جواب میں دن کی روشنی میں گھُس کر مارا،ان کے جہاز گرائے اور ابھی نندن کو چائے بھی پلائی۔امریکہ کو پتہ چلا کہ ”جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے“۔
امریکہ میں یہ احسا س شدت اختیار کرتا گیا کہ چین اور پاکستان کی فوجی طاقت مضبوط ترین ہو چکی ہے ان کے اتحاد اور شراکت داری نے خطے میں ان کی دھاک بٹھا چکی ہے۔امریکہ بیس سال اگر مزید بیٹھا رہے توبھی کچھ نہیں کر پائے گا۔اس لئے امریکہ نے مناسب فیصلہ کیا ہے،بھارت جانے اسکی سیاست جانے،بھارت کے لئے مشکلات بڑھ جائیں گی۔اس سے امریکہ کو سروکار نہیں۔امریکہ اپنے مفادات اور ترجیحات کو یقینی بنائے گا۔اسلامی دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوستانہ بنانے کی کوشش کرے گا۔امریکہ عالمی سُپر پاور ہونے کا تاثر اور بھرم قائم رکھنے کی کوشش کرے گا۔لیکن اس میں بہت دیر ہو چکی ہے،امریکہ پر کوئی اعتماد نہیں کرتا۔جوبائیڈن نے سعودی عرب اور پاکستان کے ساتھ سرد مہری اختیار کر کے امریکہ کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔اسلامی دنیا کے دونوں اہم ممالک اس وقت امریکہ کے دوستوں میں شامل نہیں ہیں۔امریکہ کو اپنی نئی ترجیحات میں اس محرک پر بھی سوچنا ہو گا۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

بڑا دشمن بنا پھرتا ہے

عثمان احمد کسانہ
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔74 سالوں میں ان گنت کشمیریوں کا خون بہایا جا چکا، کشمیریوں کی آزادی کی خواہش اور جدو جہد انکا جرم بن گئی، اقوام متحدہ سے لیکر مقامی سطح کی این جی اوز تک ہر کوئی بھارت کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے،بہت کچھ ہوا، کشمیریوں نے بہت کچھ سہالیکن بعض اوقات اس قدر نیچی حرکات اور اوچھے ہتھکنڈے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ حیرانی کیساتھ پریشانی بھی لاحق ہوتی ہے کہ خدا کسی کو اتنا گرا ہوا دشمن بھی نہ دے۔چند دن قبل جموں کشمیر کے بزرگ اور معمر ترین سیاسی و ملی رہنما، حریت کا نشان، عاشق پاکستان سید علی گیلانی دار فانی سے کوچ کر گئے انکی عمر تقریباً92 برس تھی۔ انکی وفات کے بعد غم و اندوہ کے مارے انکے اہل خانہ تجہیز و تکفین کی بابت سوچ ہی رہے تھے کہ بھارت جوبزعم خود اپنے آپ کو دنیا کابہت بڑاسیکولر سمجھتا ہے اور ایڑیاں اٹھا اٹھا کے اپنے قد کی پستی چھپانے کی ناکام کوششیں کرتا رہتا ہے۔ ہم نے دیکھ لیا وہ کشمیری نوجوانوں کے جواں جذبوں سے کتنا خائف اور سہما ہوا ہو گا جو ایک بوڑھے بزرگ کی میت سے بھی ڈررہا تھا۔ اپنے سورماؤں کے ذریعے نہتے کشمیریوں پر غاصبانہ زورآزمائی کر کے اپنی جھوٹی انا کی تسکین کا بھونڈا سامان کرنے کا کوئی موقع نہ گنوانے والی نام نہادبڑی جمہوریت کے بزدل حکمران اس 92 سالہ بوڑھے کی میت سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ رات کے اندھیرے میں میت چھین کر زبردستی اپنی زیر نگرانی فوری تدفین کروا دی۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ پوری مقبوضہ وادی میں کرفیولگا کر لوگوں کو گھروں میں قید کر دیا گیا۔اور پھر اس سے ایک قدم اور آگے انتہائی سفاکیت پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سید علی گیلانی کے ورثا پر ناجائز مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ بھارت اور اس کے کم ظرف نیتا اپنے تئیں تسلی اور اطمینان محسوس کر رہے ہونگے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور آزادی کیلئے بلند ہونے والی سب سے توانا آواز انہوں نے منوں مٹی تلے دبا دی۔ ان کا یہ خیالِ باطل اسی وقت خاک میں مل گیا جب دنیا کے ہر کونے سے اس قبیح حرکت کی مذمت سامنے آنے لگی۔پاکستان نے سفارتی سطح پر باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کروانے کیلئے بھارتی ناظم الامور کو طلب کر لیا۔عالمی میڈیا میں بھارت کی اس بزدلانہ کارروائی کو شرمناک قرار دیا جانے لگا۔ یہ تو بیرونی عوامل ہیں مقبوضہ وادی کے اندر کی صورتحال یہ ہے کہ کشمیر کا ہر بچہ، بوڑھا اور جوان سید علی گیلانی کے چلے جانے کے غم کو اپنی طاقت بنا کر پہلے سے زیادہ پُرجوش نظر آنے لگا۔ اور یہ رد عمل غیرمتوقع نہیں بلکہ بالکل فطری اور لازمی تھا کیونکہ سید علی گیلانی نے پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ تک مسلسل اپنی قوم کی ترجمانی کی اور اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے اپنے فولادی عزم اور غیر متزلزل ولولے کی حدت سے کشمیری نوجوانوں کا لہو گرماتے رہے۔ سید علی گیلانی ایک مدبر رہنما کے طور پر تقریباً پچاس سال تک بھارت کے ناجائز تسلط کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہے۔
آپ نے مقبوضہ کشمیر کی تمام قیادت کو آل پارٹیزحریت کانفرنس کے پلیٹ فارم پر جمع کیا اور طویل عرصہ تک اس مشترکہ محاذ کی قیادت کا فریضہ بھی ادا کیا۔ کتنے ہی ایسے مواقع آئے جب بھارت نے آپ کے جسمانی ضعف کے مغالطے کا شکار ہو کر کبھی پابند سلاسل کیا تو کبھی جسمانی تشدد کے ذریعے آپ کی آواز دبانے کی کوشش کی لیکن دنیا نے کئی بار یہ منظر دیکھا کہ علی گیلانی عزم و ہمت کے پہاڑ کی مانندسر اٹھا کے جئے اور انکی کی ایک کال پر پورا کشمیر لبیک کہتے ہوئے سر بکف ہو جاتا۔ جمعہ کے اجتماعات ہوتے یا ویسے احتجاجی جلے و جلوس سید علی گیلانی کا ہاتھ گویا اہل کشمیر کی نبض پر ہوتا۔ آپ کو قبول عام کا درجہ حاصل تھا تمام جماعتیں اور گروہ آپ کو اپنا بزرگ اور رہنما قرار دے کر آپ کے موقف کو مزید مضبوط کرنے میں فخر محسوس کرتے۔ سید علی گیلانی کی کرشماتی شخصیت کا ایک خوبصورت اور شفاف پہلو یہ تھا کہ آپ سرزمین ِپاکستان سے وارفتگی کی حد تک عشق کرتے تھے۔ پاکستان کو اپنی امیدوں اور اپنی جدوجہد آزادی کی منزل قرار دیتے۔ اکثر کہتے ہم پاکستان ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔گزشتہ ڈیڑھ سال سے بستر علالت پر ہونے کے باعث سید علی گیلانی کا جسم تو کمزور ہو گیا لیکن ان کا موقف اسی طرح جاندار رہا۔ آزادی کی تڑپ اسی طرح تندرست و توانا رہی۔ آخری سانس تک جب کبھی ان کو موقع ملتا وہ کشمیری نوجوانوں سے اسی طرح مخاطب ہوتے جیسے وہ جوانی میں ہوا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر حوصلے، امید اور لگن کے باوجود یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ سید علی گیلانی کی وفات سے کشمیر اور کشمیری عوام بے آسرا ہو گئے۔اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند فرمائے اور اہل کشمیر کو علی گیلانی جیسا بااثر جرات مند اور مخلص رہنما نصیب ہو۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

2022ء بلدیاتی انتخابات کا سال

کنور محمد دلشاد
وزیرِ اعظم 2023ء کے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کروانے کے لیے پُرعزم ہیں اور قانون سازی کے لیے اسی سال پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا پڑا تو وہ قانونی اور آئینی حق کو بروائے کار لائیں گے اورقانون سازی کا عمل اسی سال مکمل کیا جائے گا۔الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ 103کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں،پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے اس ابہام کو دور کیا جاسکتا ہے،ممکن ہے کہ حکومت بیک ڈور پالیسی کے تحت پاکستان پیپلزپارٹی کے ارکان سینٹ سے استفادہ کرتے ہوئے سینیٹ سے ہی الیکشن ایکٹ 2017میں بعض اہم انتخابی اصلاحات کا بل منظور کرانے میں کامیاب ہوجائے۔اسی طرح شہباز شریف جو مفاہمت کی پالیسی کا باربار ذکر کررہے ہیں،اس کی آڑ میں سینیٹ کے انتخابی اصلاحات بل کی منظوری میں ان کی نیم رضامندی سے حکومت آسانی سے قانون سازی کراکے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے اجرا کے لیے الیکشن کمیشن کو قانونی دائرہ کاار تک محدود کردے۔ لیکن زمینی حقائق کے مطابق پارلیمنٹ ایکٹ منظور ہوجائے گا۔ اسی پر عمل درآمد کرانا الیکشن کمین کی قانونی اور آئینی مجبوری ہو گا۔پارلیمنٹ کی کسی سیاسی جماعت کی جانب سے،سپریم کورٹ میں پارلیمنٹ ایکٹ کو چیلنج کر دیا جائے۔میرا تجربہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی پارلیمنٹ ایکٹ کی منظوری کے بعد کسی قسم کی آئینی پٹیشن کوشاید قبول نہ کرے اور پارلیمنٹ مجموعی طور پر بالادستی کا دعویٰ کرتی ہے۔ لہٰذا حکومت 2023کے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہی انتخابات کا انعقاد کردے گی،جبکہ اس سسٹم میں نقائص پر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں چھ ماہ سے بحث چل رہی ہے اور صدرِمملکت بھی اسی بارے میں حکومت پاکستان کے ہم نوا ہیں اور کئی اجلاس کی صدارت بھی کرچکے ہیں۔
حکومت شہباز شریف کے کراچی کے دورہ کے دوران ان کی پریس کانفرنس سے مطمئن ہے۔دراصل شہبازشریف کے دورہ کراچی کے دوران بزنس کمیونٹی نے بھی باورکرایا ہے کہ حکومت مضبوط معاشی پالیسی کی شاہراہ پر کھڑی ہے اور پاکستان کے تمام صنعت کار،سرمایہ کار،سٹاک ایکسچینج،اتھارٹی کے اہم صنعت کار حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں،لہٰذا مفاہمت کی پالیسی اپنا کر آئندہ انتخابات کی تیاری کریں۔ہماری اطلاع کے مطابق شہباز شریف کراچی کے بااثر بزنس گھرانوں کے دباؤ میں آچکے ہیں اور انھوں نے کراچی میں جو پریس کانفرنس کی ہے اس کے بعد نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ ن میں حیثیت مغل دربار میں بہادر شاہ ظفر کے جیسے رہ جاتی ہے کہ جن کی حکومت محض دربار تک ہی محدود تھی۔وجہ یہ ہے کہ نواز شریف سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار پاچکے ہیں،وہ الیکشن نہیں لڑسکتے،اب جب معاملات کو شہباز شریف مکمل کنٹرول کرلیں تو نوازشریف کے پاس فیصلہ سازی بھی نہیں رہے گی۔زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں تلاطم فی الحال نہیں ہے اور نوازشریف لندن کے رہائشی علاقے تک مقید ہو کر رہ گئے ہیں،ان کے صاحبزادگان،بین الاقوامی طورپر رئیل اسٹیٹ کا بزنس کررہے ہیں اور اسحاق ڈار کی سینٹ کی نشست صدارتی آرڈی نینس کی نذرہوجائے گی،شہباز شریف کے اردگرد کاروباری مفاد پرست گروہ کا حصار ہے اور حکومت مخالف کس قسم کی تحریک کا جواز نہیں بنتا۔
الیکٹرانک ووٹنگ شفاف انتخابات میں کلیدی کردار اداکرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اورلیکشن کمیشن کی مجاز اتھارٹی اس اہم ٹاسک پر کام کررہی ہے اور الیکشن کمیشن اپنی تجاویز حکومت کو پیش کریگاکیونکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تعداد کا بھی تعین کرنا ہے،الیکشن کمیشن کو جو بریفنگ دی گئی تھی،اس کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے علیحدہ علیحدہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ہونا ہے اور ایک لاکھ پولنگ سٹیشنوں پر چار لاکھ پولنگ بوتھ قائم کیے جائیں گے،جس کے مطابق آٹھ لاکھ کے لگ بھگ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی خریداری ہونی ہے،جس کا تخمینہ ایک اندازے کے مطابق 50ارب روپے کے اخراجات اٹھانے پڑیں گے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سائنس و ٹیکنالوجی کے بعض ارکان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے اسے مسترد کردیا ہے۔جن لوگوں کو اپنا نام لکھنا نہیں آتا وہ مشین کیسے استعمال کریں گے اور الیکٹرانک وٹنگ مشین کو اپنے خصوصی پروگرام سے رزلٹ تبدیل نہ ہونے کی گارنٹی نادرا اور سائنس و ٹیکنالوجی منسٹری سے حاصل کرنا ہوگی۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ایک ماہر کی رائے کے مطابق آپریٹنگ سسٹم نہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کم سے کم چار ماہرین ہر پولنگ اسٹیشن پر موجود ہوں گے، اسی طرح الیکشن عملہ کی تعداد میں چار لاکھ اضافی افراد کا تقرر کرنا ہوگا،اتنی بڑی تعداد کو ٹریننگ دلانا اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو آپریٹ کرانا،الیکشن کمیشن کی استعدادسے بالاتر ہے کیونکہ الیکشن رولز کے مطابق ایک لاکھ پولنگ سٹیشن کا قیام پر تیرہ لاکھ عملہ درکار ہوتا ہے اور الیکٹرانک ماہرین کی تعداد کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد سترہ لاکھ تک پہنچنے کا احتمال ہے لہٰذا سیاسی جماعتوں کو تمام امور پر سیر حاصل مہارت حاصل کرنا ہوگی اور مشینوں کی خریداری کے لیے انٹرنیشنل سٹینڈرڈدیا جائے گا جس کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے اور قومی احتساب بیورو نے بھی پس پردہ اسی انٹرنیشنل سٹینڈر کے معیار پر نظر رکھنا ہوگی۔الیکشن کمیشن ممکن ہے کہ اس آلودگی سے باہر رہے اور حکومت ہی ایسے سودے کرتی رہے جبکہ بھارت میں الیکشن کمیشن کے ماہرین کی موجودگی میں یہ مشین تیار کی جاتی ہے۔ایک اہم و عجیب بات یہ سامنے آتی ہے کہ پچاس ارب روپے سے زائد اخراجات ادا کرکے جو مشین تیار کی جاری ہے کیا وہ ایک الیکشن تک ہی استعمال میں رہے گی یا پھر تین یا چار انتخابات بھی اسی مشینوں سے کروائے جائیں گے۔منسٹری سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین اس سوال کا جواب تحریری صورت میں الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا چاہیے،چونکہ حکومت اٹھارہ اگست کو برخاست ہو کر نگران سیٹ اپ کے حوالہ کردی جائے گی،کیا نگران حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے شفافیت لانے میں کامیاب ہوجائے گی،لہٰذا موجودہ حکومت کو بھی دیکھناہوگا کہ اگر پارلیمنٹ ایکٹ 2017کے ذریعے الیکٹرانک ووٹنگ مشین زیرِ استعمال لائی جائے گی تو نگران حکومت آرڈی نینس کے ذریعے اس ایکٹ کو موخر یا مسترد بھی کرسکتی ہے،لہٰذا اسی سسٹم کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 226اور 218میں مناسب ترامیم کی جائے تاکہ اسی سسٹم کو آئینی تحفظ حاصل ہوجائے۔
2022اصولی طورپر بلدیاتی انتخابات کا سال ہی قراردیا جائے گا کیونکہ قوی امکان ہے کہ مارچ 2022میں پنجاب کے بعد بلوچستان اور خیبرپختونخوا اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہونے ہیں اور یہ سلسلہ جون 2022تک پھیلتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اسی عرصے میں ترقیاتی کام رک جائیں گے اور معاشی طورپر جو حکومت آگے جارہی ہے وہ اس سسٹم کے تحت مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔مئی جون 2022میں بجٹ اجلاس ہونے ہیں اور اگست تک پاکستان میں ترقیاتی کام رک جائیں گے،اسی دوران جبکہ الیکشن کمیشن بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں مصروف ہوگا تو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں حساس نوعیت کے فیصلے کیسے ممکن ہوں گے؟اور اس طرح حکومت کے پاس جون 2023تک کا وقت رہ جائے گا اور نگران حکومت کے قیام کے لیے سیاسی طورپر جوڑ توڑ شروع ہوجائے گی۔
ان معروضی حالات میں الیکشن دوہزار تئیس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کروانے کا منصوبہ مکمل ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہا۔الیکشن کمیشن نے دسمبر 2022تک حلقہ بندیاں ہی مکمل کرنی ہیں اور مردم شماری بھی اسی دوران ہونے والی ہے،جس پر صوبہ سندھ میں مردم شماری کے خلاف طبل جنگ بج جائے گا لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وزیراعظم عمران خان کو درست حالات سے باخبر رکھیں،وزیرِ اعظم کو الیکشن کے ماہرین کی ٹیم سے مکمل بریفنگ لینی چاہیے اور یہی طریقہ وزیرِ اعظم بھٹو نے اپنا یاتھا،اس کے باوجود وہ شفاف انتخابات کرانے میں ناکام ہوگئے اور قوم کو 5جولائی 1977کا سانحہ دیکھنا پڑاتھا۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭