تازہ تر ین

افغان حکومت اور درپیش چیلنجز

ملک منظور احمد
افغانستان میں آخری چند روز بہت ہی ہنگامہ خیز گزرے ہیں۔ بالآخر کابل پر قبضے کے تقریبا ً دو ہفتے بعد طالبان نے اپنی عبوری حکومت کا تو اعلان کر دیا ہے لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ابھی طالبان کے لیے چیلنجز کا صرف آغاز ہو ا ہے۔ طالبان کی جانب سے اعلان کردہ نئی عبوری افغان حکومت میں ملا حسن اخوند وزیر اعظم،ملا برادر اور ملا عبد اسلام نائب وزیر اعظم ہوں گے،ملا یعقوب وزیر دفاع اور سراج حقانی وزیر داخلہ ہوں گے ملا ہیبت اللہ امیر امومنین ہوں گے،ملا امیر متقی وزیر خا رجہ ہوں گے،ہدایت بدری وزیر خزانہ،ملا عبد الحق انٹیلی جنس چیف ہوں گے، جبکہ ملا خیر اللہ وزیر اطلا عات اور ذبیح اللہ مجاہد نائب وزیر اطلا عات ہوں گے۔ یہاں پر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی نام ابھی بھی امریکی اور اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں ہیں،جبکہ ان میں سے کئی بد نام زمانہ گوانتانا مو بے جیل کے سابق قیدی بھی رہ چکے ہیں۔ طالبان نے گزشتہ 20برس ایک سپر پاور سمیت دنیا کی بھر کی بڑی اور امیر ترین قوتوں کے خلاف جنگ و جدل میں گزارے ہیں اور ایک نا قابل یقین اور تاریخی کامیابی حاصل کی ہے لیکن جنگ لڑنے اور گورننس کرنے میں بہت فرق ہوا کرتا ہے۔اسی لیے اگر یہ کہا جائے کہ طالبان کی عبوری حکومت کا قیام طالبان کی نئی حکومت کا پہلا قدم ہے تو غلط نہیں ہو گا۔
اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے اس وقت افغانستان کے معاشی حالات نہایت ہی مخدوش ہیں اور امریکہ کی جانب سے افغان مرکزی بینک کے 10ارب ڈالر منجمد کیے جانے کے بعد افغانستان کے عوام کے لیے روز مرہ کی زندگی کے معاملات چلانا بھی آسان نہیں ہے۔اور شاید طالبان کو بھی اس حقیقت کا احساس ہے کہ ایک ملک اور ریاست کو چلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے انہوں نے امریکہ سے اپیل کی ہے کہ افغان مرکزی بینک کے منجمد کیے گئے اثاثے فوری طور پر بحال کیے جا ئیں۔طالبان نے اپنی عبوری حکومت کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اس کو عالمی سطح پر اتنی قبولیت نہیں مل سکی ہے،شاید اس بات کی توقع بھی کی جاسکتی تھی۔امریکہ اور یورپی یونین نے طالبان کی نئی تشکیل پانے والی عبوری حکومت کویکسر مسترد کر دیا ہے تو دوسری طرف ایران نے بھی اس حکومت کو مسترد کیا ہے جبکہ ترکی کی جانب سے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔چین نے کسی حد تک طالبان کی حکومت کو قبول کرنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ روس ابھی اس حوالے سے خاموش ہے،جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کی حکومت بھی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر ہی گامزن دکھائی دے رہی ہے اور اس سلسلے میں ابھی تک حکومت نے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے جو کہ درست پالیسی ہے،پاکستان کو کسی بھی صورت اتنے اہم فیصلے لیتے وقت جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ نہایت ہی سوچ سمجھ کر اور دانش مندی سے فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔طالبان کی عبوری حکومت میں جہاں پر تحریک طالبان سے وابستہ پرانے لیڈران کو فوقیت دی گئی ہے وہیں پر نا قدین کی جانب سے اس بات پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں کہ نہ تو طالبان ایک وسیع البنیاد حکومت بنانے میں کامیاب ہو ئے ہیں اور نہ ہی خواتین سمیت اقلیتوں کو اس حکومت میں کوئی نمائندگی دی گئی ہے۔
عالمی برادری شاید طالبان سے کچھ زیادہ ہی امیدیں لگائے بیٹھی تھی لیکن بہر حال اس بات کا قوی امکان ہے کہ جلد یا بدیر کئی ممالک طالبان کی حکومت کو تسلیم کر ہی لیں گے۔جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کرنا ہو گی اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔لیکن مجموعی طور پر مغربی ممالک افغانستان میں طالبان کی حکومت کے لیے کسی قسم کی کو ئی آسانی پیدا نہیں کریں گے اس بات میں کسی کو ئی شک نہیں ہو نا چاہیے،طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک سے افغان عوام سے امدادکی اپیل کر دی ہے اور اسی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے چین،پاکستان اور ترکی وہ پہلے تین ملک ہیں جنہوں نے افغان عوام کے لیے امداد بھجوانے کا اعلان کر دیا ہے۔
چین نے افغان عوام کی مدد کے لیے 200ملین ڈالر کا اعلان کیا ہے جبکہ پاکستان نے امدادی سامان سے بھرے ہوئے 3 سی 130 جہاز بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ترکی نے بھی اسی طرح کا اعلان کیا ہے۔جبکہ قطر کی جانب سے پہلے ہی کچھ طیارے امدادی سامان لے کر کابل پہنچ چکے ہیں۔امریکی صدر با ئیڈن نے طالبان کی حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بہت ہی معنی خیز بیان دیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ چین،روس،ایران اور پاکستان طالبان کی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ یہ مقصد کس طرح حاصل کریں گے یہ دیکھنے کی بات ہے۔اس بیان کا یہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ اب علاقائی ممالک مل کر افغانستان کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں لیکن شاید ان تمام ممالک کے لیے اس حوالے سے امریکہ اور مغرب کی جانب سے کو ئی آسانی پیدا نہ کی جائے۔طالبان حکومت کے خلا ف غیر اعلانیہ پابندیوں کا سلسلہ شروع تو ہو ہی چکا ہے اور آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے بھی افغانستان کے لیے اپنی امداد بند کر دی ہے۔
طالبان نے گزشتہ روز اس بات کا اعلان کیا کہ انہوں نے افغانستان کی ویمن کرکٹ ٹیم پر پابندی لگا دی ہے کیونکہ ان کے خیال میں خواتین کا کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینا ٹھیک نہیں ہے اور اس اعلان کے بعد آسٹریلیا جو کہ امریکہ کا قریبی اتحادی ہے کی جانب سے افغان کرکٹ ٹیم کے دورہ آسٹریلیا کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔یہ تو ابھی آغاز ہی ہے تمام مغربی ممالک کی جانب سے طالبان حکومت کو ایسی ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ سخت پابندیوں اور اقدامات کا سامنا ہو گا۔اس تمام صورتحال میں ایران کا ردعمل بھی بہت معنی خیز ہے کیونکہ ایران کی نئی قیادت نے کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد طالبان کی حکومت کے حوالے سے مثبت بیانات دیے تھے لیکن پھر اچانک پنج شیر کی لڑائی کے بعد طالبان کے حوالے سے ایران کے موقف میں بڑی تبدیلی آ گئی ہے اورتو اور ایران نے پنج شیر کے حوالے سے پاکستان مخالف بیان بھی داغے ہیں۔خطے کے ممالک کے درمیان اس حوالے سے کوئی دراڑ خطے کے کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہو گی۔ایران کو بھی اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ساتھ مل کر چلیں گے تو ہی اس خطے میں امن اور استحکام اور ترقی کو یقینی بنا یا جاسکے گا۔طالبان کیسی گورننس کرتے ہیں ان کی حکومت کس حد تک کامیاب ہو تی ہے،خواتین کو کس حد تک آزادی ملتی ہے یہ تمام سوالات دنیا کی توجہ کر مرکز ہیں اگر طالبان اپنے گزشتہ دور کی نسبت بہتر پالیساں اپنائیں تمام نسلی اور لسانی گروپوں کو ساتھ لے کر چلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ خطے میں امن کی صورتحال بہتر ہو،بیرونی مداخلت کا راستہ رکے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain