ماں بیٹی سے زیادتی کا واقعہ، رکشہ ڈرائیور کی شناخت ، ایک ملزم گرفتار

لاہور : چوہنگ میں ماں بیٹی سے زیادتی کے واقعے میں ملوث رکشہ ڈرائیورکی شناخت ہوگئی جبکہ اس کے ساتھی عمر کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ رکشہ ڈرائیور کی گرفتاری کیلئے چھاپے جاری ہے.

تفصیلات کے مطابق چوہنگ میں ماں بیٹی سےزیادتی کے واقعےمیں ملوث دوسرےملزم رکشہ ڈرائیورکی شناخت ہوگئی ، رکشہ ڈرائیورکی شناخت منصب کےنام سےہوئی، پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کاتعلق پاکپتن اور ساہیوال سے ہے۔

پولیس نے چوہنگ کےعلاقےمیں ماں بیٹی سے رکشہ ڈرائیور اور ساتھی کی زیادتی کے واقعے میں ملوث ایک ملزم عمر کو گرفتار کر لیا ہے ، گرفتارملزم عمر کو کل عدالت میں پیش کیاجائےگا، جہاں ملزم کوشناخت پریڈکیلئےجیل بھجوانےکی استدعاکی جائے گی۔

آئی جی پنجاب کا کہنا ہے کہ دوسرےملزم کی گرفتاری کیلئےٹیمزمتعددعلاقوں میں چھاپےمار رہی ہے، مقدمےمیں گینگ ریپ،دہشتگردی سمیت دیگرسنگین دفعات شامل کی گئیں ہیں۔

انعام غنی نے بتایا کہ گذشتہ شب 15پراطلاع ملتےہی پولیس جائے وقوعہ پر پہنچیں اور فوری کارروائی عمل میں لائی ، فارنزک ٹیم نےشواہداکٹھے کرلیے ہیں جبکہ متاثرہ خواتین کا میڈیکل بھی کروالیا گیا ہے۔

آئی جی پنجاب نے کہا ملوث ملزمان کوسزا دلوانےمیں پولیس کوئی کسر نہیں اٹھا رکھےگی،آئی جی پنجاب

دوسری جانب چائلڈپروٹیکشن بیورو نے چوہنگ میں وہاڑی کی رہائشی ماں بیٹی سےمبینہ زیادتی کانوٹس لے لیا ہے، چیئرپرسن سارہ احمد کا کہنا ہے کہ ماں اور 15سالہ بیٹی سےمبینہ زیادتی افسوسناک ہے، چائلڈ پروٹیکشن ٹیم متاثرہ فیملی سے رابطہ کرے گی اور پولیس کی جانب سےتمام ملزمان کوجلدگرفتارکرلیاجائےگا۔

بھارت افغان سر زمین پاکستان کیخلاف استعمال سے باز رہے : گلبدین حکمت یار

کابل، اسلام آباد (صباح نیوز) افغانستان کے سابق وزیراعظم اورحزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کا کہنا ہے کہ  افغانستان میں امن کے لیے بھارت مثبت کردار ادا کرے، بھارت کو افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بیانات جاری کرنےکے بجائے اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دینی چاہیے ۔

ریڈیوپاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے گلبدین حکمت یار نے امید ظاہر کی کہ نئی حکومت کی تشکیل کے لیے افغان دھڑوں کے درمیان باضابطہ مذاکرات آئندہ چند روز میں شروع ہوں گے۔

گلبدین حکمت یار کا کہنا تھاکہ کوشش کریں گےکہ افغان دشمن قوتیں امن عمل کو متاثر نہ کریں، افغانستان درست سمت میں گامزن ہے، یہاں ایسی حکومت ہونی چاہیےجو عالمی برادری کوبھی قبول ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ امن دشمن افغانستان میں ایک مستحکم اور مضبوط مرکزی حکومت نہیں چاہتے، بعض غیرملکی خفیہ ادارے افغان عوام کو بغاوت پر اکسا رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں سربراہ حزب اسلامی نےکہا کہ بھارت کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد کا بدلہ لینے کے لیے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے باز رہنا چاہیے اور بھارت کو افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بیانات جاری کرنے کے بجائے اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دینی چاہیے ۔

مریم نواز کے بیٹے کا لندن میں نکاح ، خاندان کے قریبی افراد شریک

لندن (ماینٹرنگ ڈیسک) پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے بیٹے کے نکاح کے موقع پر دولہا جنید صفدر اور والد سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تصاویر سامنے آگئیں۔

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے بیٹے جنید صفدر کے نکاح کی تصاویر ٹوئٹر پر شیئر کردیں۔

ٹوئٹر پر مریم نواز کی جانب سے لندن میں جنید صفدر اور عائشہ سیف کے نکاح کی تصاویر شیئر کی گئی ہیں، تصاویر میں جنید کو نکاح کے فارم پر دستخط کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

تصاویر شیئرکرنےکے ساتھ مریم نے دعا دیتے ہوئے لکھا ہے کہ’ اللّہ ہمیشہ خوش اور آباد رکھے’۔

خیال رہے کہ جنید صفدر کے نکاح کی تقریب لندن کے مقامی ہوٹل میں ہوئی جہاں دلہا اور دلہن نے نکاح نامے پر دستخط کردیے اور رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔

نکاح کی تقریب میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت خاندان کے قریبی افراد نے شرکت کی۔

پاکستان سے مریم نواز بیٹے کی نکاح کی تقریب میں بذریعہ ویڈیو لنک شریک ہوئیں۔

افغانستان کی نئی قیادت ملک کو دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دے ، او آئی سی

جدہ : (مانیٹرنگ ڈیسک ) او آئی سی کا کہنا ہے کہ افغانستان کی مستقبل کی قیادت جنگ زدہ ملک کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں نہ بننے دے۔

اسلام ممالک کی تنظیم (او آئی سی) نے طالبان کے قبضے کے بعد دہشت گردی سے پاک افغانستان اور تنازع کے حل کے لیے بات چیت کا مطالبہ کیا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے اپنے بیان میں او آئی سی نے کہا کہ ‘افغانستان کو دوبارہ کبھی دہشت گرد تنظیموں کو پناہ دینے کی اجازت نہیں دینی چاہیے’۔

بیان میں ملک میں موجودہ تنازع کے حل کے لیے جامع مذاکرات کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

تنظیم نے کہا کہ وہ ‘امن، استحکام اور قومی مفاہمت’ کی اہمیت پر زور دینے کے لیے نمائندے افغانستان بھیجے گی۔

جی سیون سمیت دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ اس بات پر غور کریں گے افغانستان میں صورتحال کو کیسے قابو میں لایا جائے۔

اپنے بیان میں اسلامی تعاون تنظیم نے افغانستان کی مستقبل کی قیادت اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان دوبارہ کبھی دہشت گردوں کے پلیٹ فارم یا پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہ ہو اور نہ وہاں دہشت گرد تنظیموں کو قدم جمانے کی اجازت دی جائے’۔

تنظیم نے افغانستان میں انسانی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا جہاں بے گھر افراد اور مہاجرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

او آئی سی نے رکن ممالک، اسلامی مالیاتی اداروں اور پارٹنرز سے مطالبہ کیا کہ وہ ان علاقوں میں امداد فراہم کریں جہاں امداد کی ہنگامی ضرورت ہے۔

کہاں آ گئے ہم چمن سے نکل کر

عبدالباسط خان
پاکستان کو آزاد ہوئے 74 سال بیت گئے اور ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے زندگی کی 67 بہاریں دیکھ لیں۔ کئی نشیب و فراز دیکھے۔ پاکستان کو دو لخت ہوتے دیکھا۔ مارشل لاء کے سیاہ تاریک دن دیکھے اور اپنے پسندیدہ لیڈر بھٹو صاحب کو اسلامی دُنیا کا لیڈر بنتے دیکھا ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھتے ہوئے دشمنوں سے لڑائی مول لیتے دیکھا۔ اقوام متحدہ میں دُنیا کو بھارت کا سیاہ چہرہ ببانگِ دہل دکھاتے ہوئے دیکھا۔ امریکہ کو للکارتے ہوئے دیکھا۔ بالآخر اُس عظیم لیڈر کو تختہ دار پر چڑھتے دیکھا۔ اسلام کا جھوٹا ڈھونگ رچاتے ضیاء الحق کو دیکھا پاکستان میں کلاشنکوف، ہیروئن اور کراچی جیسے روشنیوں کے شہر کو لسانی جھگڑوں کی آماہ جگاہ بنتے دیکھا۔ سلطان راہی کا گنڈاسا اور کلاشنکوف کلچر فلموں میں دیکھا۔ انتہا پسندی دیکھی۔ روسی فوجوں کی یلغار افغانستان پر ہوتے دیکھی اور امریکہ کی جھوٹی دورنگی پالیسی اور پاکستان کو گرداب میں چھوڑ کر افغانستان سے راہ فرار دیکھی اور پھر بھٹو کی بیٹی کو لاہور میں داخل ہوتے دیکھا کیا منظر تھا اور کیا ہجوم تھا بے نظیر کی حکومت، زرداری سے شادی اور مرتضیٰ بھٹو کا قتل دیکھا۔ نواز شریف جانشین ضیاء الحق کے روپ میں دیکھا اور پھر دو سیاسی پارٹیوں کی ایک دوسرے کے خلاف غلیظ مہم دیکھی۔ خاتون لیڈر کے خلاف گندی الیکشن مہم اور جاگ پنجابی جاگ دیکھا۔ اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو حکومتی معاملات درپردہ چلاتے دیکھا۔ سیاسی لیڈروں کی کرپشن سے محل بنتے، بکتے دیکھا۔ جنرل مشرف کے دور میں طیارے کا اغواء دیکھا اور پھر میاں صاحب کی خود ساختہ جلاوطنی دیکھی پاکستان کی ایک بار پھر امریکہ کا حلیف بن کر ملک میں خون ریز دہشت گردی کا لمبا سفر دیکھا اور پھر جنرل صاحب کی رخصتی کا منظر دیکھا۔ بینظیر اور نوازشریف کی واپسی اور پھر محترمہ کا قتل اور پیپلز پارٹی کی تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت دیکھی۔ نواز لیگ کی پیپلز پارٹی کی قیادت کو گلیوں میں گھسیٹنے کی طوطا کہانی سنی اور پھر پاکستان کی تاریخ کا پہلا سیاسی لیڈر نواز شریف کو تیسری بار مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز دیکھا۔ پھر پانامہ دیکھا اور دونوں پارٹیوں کے لیڈرز راجہ پرویز اشرف اور خاقان عباسی کو وزارت عظمیٰ پر فائز ہوتے دیکھا۔ عمران خان کا تاریخی دھرنا اور اُن کی دونوں پارٹیوں کے خلاف جدوجہد کا اختتام دیکھا اور اب جناب عمران خان صاحب کو قوم کو یہ تلقین کرتے ہوئے دیکھا کہ گھبرانا نہیں۔ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی مہنگائی اور نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی جیل یاترا دیکھی اور میاں نواز شریف کی لندن روانگی کا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا اہم قانونی سقم دیکھا۔ پلیٹ لیٹس کی کمی اور میاں صاحب کی ایک بار پھر لندن جلاوطنی اور موجودہ حکومت اور پاکستان کی موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جارحانہ تقریریں اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے سنے۔ موروثی سیاست کے وارث بلاول اور مریم کو مزاحمتی سیاست کرتے دیکھا۔ پیپلز پارٹی کے لیڈران کو پابند سلاسل دیکھا اور تمام لیڈروں کو پھر آزاد دیکھا۔ یہ ہے پاکستان کے 74 سال کا خلاصہ تو جناب من کیا کھویا کیا پایا وہ پاکستان جو قائد اعظم نے بنایا جس کا ویژن تخیل اور خواب پاکستان کے عوام نے 1947ء میں دیکھا۔ کیا وہ پاکستان آج ہے؟ بالکل نہیں۔
74 سالوں میں پاکستان کا کلچر شناخت، تمدن تہذیب اور اسلام ایک عجیب و غریب شکل اختیار کر چکا ہے۔ نوجوان کیا اور عمر رسیدہ بوڑھے کیا، جنسی بے راہ روی اور بچوں اور بچیوں کے ریپ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ انصاف کوسوں دور نظر آتا ہے لوگ جوانی میں کیس کرتے ہیں اور عدالتیں اُن کی موت کے بعد فیصلے کرتی ہیں ہر آنے والا دن خوفناک صورتحال پیش کررہا ہے ہم دنیا کے مقروض ہیں مگر ہمارے سیاسی لیڈر علیشان محلوں کے مقیم نظر آتے ہیں ہمارے سیاسی لیڈروں کے کھاؤ اور کھانے دو پر عمل کیا سیاسی رشوتیں ووٹ حاصل کرنے کے لئے دیں۔
طویل المدتی پلان بنانے کی بچائے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی پالیسیاں بنائیں نہ پانی کے بحران کی فکر نہ غذائی بحران کا خیال نہ معاشرے کی بگڑتی صورتحال پر نظر نہ لوگوں کو دو وقت کی روٹی، نہ روزگار مہیا کیا۔ نہ سونے کیلئے چھت فراہم کی اور خود بادشاہوں کی طرح زندگی گزاری اگر یہ ہی حالات رہے تو پھر طالبان پاکستان میں بھی قدم جما لیں گے کیونکہ وہ انصاف کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ خدارا انصاف کی فراہمی اور جلد فراہمی کیلئے عدالتی اصلاحات کی جائیں لوگوں کو انصاف 1947ء سے لے کر آج تک نہیں ملتا اور تگڑے اور طاقتور طبقے کو راتوں رات ضمانتیں دے دی جاتی ہیں۔ 24 گھنٹے سے پہلے ان کے کیس سن لئے جاتے ہیں۔ مگر غریب خاندان کے زیور، گھر اور عزتیں لٹ جاتی ہیں۔
خدارا پاکستان میں وی آئی پی کلچر کو ختم کریں۔ قرار داد معیشت پارلیمنٹ میں لے کر آئیں ایک دوسرے کا مذاق اڑانے کی بجائے آگے کی سوچیں جو لوٹ مار کر لی بس اُس پر اکتفا کریں اور پاکستان کو مستحکم بنائیں آج پاکستان کو ہندوستان اور طالبان سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا اپنے ملک کی سیاسی قیادت اور لیڈر شپ سے ہے یہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جدوجہد میں مصروف نظر آتے ہیں اور پاکستان کی بدنامی اور بے عزتی کا باعث بن رہے ہیں جس قوم کے نوجوان اور بوڑھے لوگ عورتوں کو قبروں سے نکال کر ریپ کریں۔ جانوروں کے ساتھ جنسی پیاس بجھائی تو جوان لڑکیوں کے سر تن سے جدا کریں اس کا کیا مقام ہوگا۔ آج کا میڈیا اپنی سرعت اور تیزی سے خبروں کو پوری دنیا میں نشر کر دیتا ہے اور پاکستان جو ایک اسلامی ملک ہے پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بن جاتا ہے۔
پاکستان میں دن بدن خواتین کی تذلیل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ واقعہ جس میں ایک خاتون ٹک ٹاکر کو سینکڑوں لوگوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ اس کے جسم کے ہر حصے کو اس طرح نوچا جس طرح گدھیں مردہ جانور کے گوشت کو نوچتی اور کھسوٹتی ہیں۔ 21ویں صدی میں جب ہم اپنے آ پکو بہت خوش نصیب سمجھتے ہیں لین ایسی ایسی ایجادات جس میں موبائل فون پر سٹوریاں بنا کر عوام کو تفریح فراہم کی جاتی ہے نہ تو اخلاقی اقدار کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور نہ اپنی ثقافت کلچر کی حرمت کا خیال کیا جاتا ہے۔ ہمارے بڑے بڑے سیاستدان لیڈروں کے بیانات اس واقعہ کی مذمت میں اخبارات اور ٹی وی پر نشر ہو رہے ہیں لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ جو آج ہم فصل کاٹ رہے ہیں یہ انہی سیاستدانوں اور ڈکٹیٹروں کی مرہون منت ہے۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

افغانستان کی موجودہ صورتحال اور امکانات

جاوید ملک
افغانستان میں امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کی ذلت آمیز شکست کے بعد صورتحال یہ ہے اب تک چار لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو کر کابل میں پناہ گزین ہوئے تھے انکی تعداد میں مزید اضافہ ہورہا ہے بھوک، بیماری اور غربت میں زندگی گزارنے والے افغانستان کے لاکھوں افراد سامراجی طاقتوں کے خونی پنجوں میں گزشتہ چار دہائیوں سے جکڑے ہوئے ہیں اور اب پھر ایک نئی خانہ جنگی کا آغاز ہونے جا رہا ہے جس کے گہرے اثرات پاکستان کے محنت کش طبقے پر بھی مرتب ہوں گے۔
بائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دودہائیوں کی امریکی سامراج کی مسلط کردہ جنگ کی ناکامی نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس خونریزی اور بربادی سے نجات ممکن نہیں۔ دو ہزار ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کرنے اور لاکھوں کی تعداد میں فوج تعینات کرنے کے باوجود امریکی سامراج اور اس کے تمام تر اتحادی افغانستان کو ایک جدید ریاست بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ سامراجی طاقتوں کی مسلط کردہ کابل حکومت امریکی فوجوں کے مکمل انخلا سے پہلے ہی گرنا شروع ہو گئی تھی۔ تین لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل فوج امریکہ کے فراہم کردہ اسلحے سے لیس ہونے کے باوجود تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکی ہے۔ افغانستان پر سامراجی طاقتوں کی جانب سے مسلط کردہ اس حکومت کو کبھی بھی عوامی حمایت نہیں مل سکی تھی اور یہ اپنے آقاؤں کی بیساکھیوں پر ہی قائم تھی۔ جیسے ہی وہ بیساکھیاں سرکنے لگی تو یہ دھڑام سے زمین بوس ہوگئی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں فراڈ الیکشنوں اور دیگر طریقوں سے اس حکومت کو مسلط کر کے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان میں جمہوریت قائم ہو گئی ہے۔ لیکن خطے کے لوگ بخوبی جانتے تھے کہ اس عمل میں سامراجی طاقتیں اپنی کٹھ پتلیوں کو فوجی طاقت کے بل بوتے پر مسلط کر رہی ہے جبکہ عوام میں ان کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصہ موجود ہے۔ ان کٹھ پتلیوں کی کرپشن، بے دریغ لوٹ ماراور عوام دشمن کارروائیوں کے باعث اس نفرت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور آج اس کا نتیجہ واضح ہے کہ شمال میں موجود اپنے محفوظ ترین علاقوں میں بھی یہ اپنے سے کئی گنا کم قوتوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہیں۔ شیرغان، کندوز اور دیگر ایسے شمالی علاقے جو اس کابل حکومت کے سب سے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے تھے وہاں بھی یہ ابتدائی مراحل میں ہی بدترین شکست سے دوچار ہو گئے۔
المیہ یہ ہے کہ اس سامراجی کٹھ پتلی کے خلاف خانہ جنگی برپا کرنے والی قوتیں بھی مختلف سامراجی طاقتوں کی ہی کٹھ پتلی ہے اور اس قوت سے بھی عوام کی شدید نفرت اور حقارت موجود ہے۔
یہ سطور تحریر کی جاچکی تھی کہ افغانستان سے حیران کن خبر سامنے آئی کہ جلال آباد سمیت دس دیگر شہروں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے افغانستان کے پرچم بلند کرتے ہوئے طالبان کے خلاف مظاہرے کیے اور ان مظاہروں پر طالبان کی طرف سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں تین افراد ہلاک اور بارہ شدید زخمی ہوگئے اسی طرح کا ایک حیران کن احتجاج خواتین کی طرف سے بھی کیا گیا جس میں انسانی بنیادی حقوق اور روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ خواتین نے اپنے مطالبات پیش کیے تاہم موجودہ افغان فورسز نے خواتین کے مظاہرے پر فائرنگ نہیں کی ایک ممتاز تجزیہ نگار کے مطابق یہ مظاہرے ثابت کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں افغانستان کے اندر مخلوط یا کسی بھی نوعیت کی جو بھی حکومت بنائی جائے گی اسے بھرپورعوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اگر طالبان نے پچھلے بیس سال میں کچھ سبق حاصل کیا ہے تو افغانستان میں بسنے والے چار کروڑ عوام نے بھی بہت سے تلخ اسباق پڑھے ہیں جس کا غیر متوقع اظہار جلال آباد سمیت دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو دیکھ کر بآسانی کیاجاسکتا ہے۔
(کالم نگار سیاسی و سماجی ایشوز پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

بلندی کے سائے میں پستی کا کھیل

ندیم اُپل
14اگست یوم آزادی،تجدید عہد کا دن مگرکوئی ابھی تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ اس روز مینار پاکستان کے سائے میں چار سو افراد کے ہجوم نے کس عہد کی تجدید کی۔چار سو افراد کی آٹھ سو آنکھوں میں کیا ایسی کوئی ایک آنکھ بھی نہ تھی جس میں تھوڑا بہت ہی شرم کا پانی نظر آیا ہو۔کیا سب کے ہی دیدوں کا پانی مر گیا تھا۔سب ہی کے ضمیر سو گئے تھے اگر جاگ رہی تھی تو صرف وحشت و بربریت اور اگر ناچ رہی تھی تو صرف شیطانیت۔چار سو افراد کے ہجوم میں پھنسی ایک لڑکی کو دیکھ کر ایک بار پھر یہی کہنے کو جی چاہا رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی۔رضیہ جو بھی تھی جیسی بھی تھی اور جس کام کی غرض سے وہ14اگست کو مینار پاکستان آئی تھی اس کو اگر زیر بحث نہ بھی لایا جائے لیکن اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتاکہ وہ جیسی بھی تھی اس کا ٹک ٹاکر کی حیثیت سے جیسا بھی اچھا برا کام تھا اسے اگر ایک طرف رکھ دیا جائے پھر بھی اس سے توکوئی بھی انکاری نہیں کہ وہ حوا کی بیٹی اور پاکستانی تھی۔ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے ٹک ٹاک پروگرام کے لیے ذہن میں کیا تھیم لیکر آئی تھی اور جشن آزادی کے دن کو اس نے کیسے پینٹ کرنا تھا مگر مینار پاکستان کے سائے میں میں کھڑے چار سوافراد نے اپنے اندر کی شیطانیت اور اور غلاظتوں کو خود ہی سامنے لاکر اس ٹک ٹاکر لڑکی کی مشکل آسان کر دی بلکہ میں تو اس بہادر لڑکی کو شاباش دوں گاکہ جس نے جشن آزادی کے موقع پر اپنی جان اور عزت کوداؤ پر لگا کر آزادی کے موقع پر ایک ایسا لائیو پروگرام پیش کردیا جس پر پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا۔عدل و انصاف اور سیکیورٹی اداروں کے لیے بھی ایک ایسا نشان چھوڑدیا جس کا جواب شاید وہ بھی اتنی آسانی سے نہ دے پائیں گے۔اس سے تو یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ اگر چار سو افراد کے ہجوم میں ایک ہاتھ بھی اسے بچانے کیلئے آگے نہیں بڑھا تو پھر ایسے ہاتھوں سے خود ہی چار سو افراد کو شرم کے مارے اپنے چہرے چھپا لینے چاہئیں۔
اگرچہ تازہ ترین ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ قصور وار لڑکی تھی جس نے خود اپنے فالورز سے ایک روز پہلے کہا تھا کہ وہ گریٹراقبال پارک آئیں اور ان کی موجودگی میں ہی جشن آزادی پر ٹک ٹاک بنائی جائے گی۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ٹک ٹاکر لڑکی نے سب کچھ اپنے فالورز بڑھانے کیلئے کیا اور وہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب رہی۔عینی شاہدین یہ بھی بتا رہے ہیں کہ لڑکی اکیلی آئی تھی اور پارک کے چوکیدار نے اسے اندر جانے سے روک دیا تھا اور کہا گیا تھا یہاں لوگ صرف فیملی کے ساتھ ہی اندر جا سکتے ہیں جس پر لڑکی پارک میں جانیوالی ایک فیملی کے ساتھ پارک میں داخل ہو گئی۔اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو سوال یہ ہے کہ جہاں سیکیورٹی گارڈ ایک اکیلی لڑکی کو پارک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہا تھا وہاں چار سو افراد اکٹھے پارک میں کس کی اجازت سے داخل ہوئے اور وہ بھی 14اگست کے دن جہاں گریٹر اقبال پارک میں پولیس کو ہائی الرٹ ہونا چاہیے تھا۔پولیس کی یہی وہ کمزوریاں اور خامیاں تھیں جس پر وزیر اعلیٰ کی طرف سے کچھ ذمہ دار افسران کو فارغ کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ہم ایک بار پھر اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا موضوع لڑکی نہیں ہے بلکہ وہ چار سو نوجوان ہیں جنہوں نے وطن عزیز کی آزادی کے مبارک دن مینار پاکستان کی بلندی کے سائے میں پستی کا بھیانک کھیل کھیلا۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ لڑکی غلط تھی تو اسی دن اسی پارک میں چند ایک گھریلو خواتین کے ساتھ بدتمیزی اور دست درازی کی جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے اس کے جواب پولیس یا کسی اور ذمہ دار کے پاس کیا جواز ہے؟
آج ایک بار پھر شدت سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کیا واقعی ہم ایک زندہ قوم ہیں یا محض ایک گروہ اور ایک ہجوم ہیں۔آج سیاستدان،فنکار اور انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف یہی سوال کر رہی ہیں کہ من حیث القوم ہم کدھر جا رہے ہیں۔اس تازہ ترین واقعہ پر بھی حسب روایت نوٹس لے لیے گئے ہیں۔رپورٹیں طلب کر لی گئی ہیں۔چار سو درندوں کے ہجوم میں سے دس بارہ مشکوک افراد کو حراست میں بھی لے لیا گیا ہے جن کے چہروں کی شناخت ہونا ابھی باقی ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ انصاف ہوتا نظر آئے گامگر ایسا کبھی ہوا نہیں۔سیالکوٹ میں کچھ عرصہ قبل دو سگے بھائیوں کو ایسے ہی ایک ہجوم میں ڈنڈے اور لاٹھیاں مار مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا تب بھی یہی کہا گیا تھا کہ جس جگہ ظلم ہوا ہے اسی جگہ انصاف ہوتا نظر آئے گامگر ہوا یہ کہ ایک ملزم کو ایک سیاسی جماعت اور دوسرے ملزم کو دوسری سیاسی جماعت کے رکن اسمبلی نے بچالیا تھا۔اب بھی جس طرح اعلی پولیس افسران کی سرپرستی میں کمیٹیاں بنائی گئی ہیں لگتا ہے یہ کمیٹیاں بھی اس وقت تک کام کرتی رہیں گی جب تک خدانخواستہ ایسا ہی کوئی دوسرا واقعہ رونما نہیں ہو جاتا مگر ہمیں پھر یہ کہنا پڑرہا ہے کہ چودہ اگست کو آزادی کے دن مینار پاکستان کی بلندی کے سائے میں چار سو افراد نے پستی کا جو بھیانک کھیل کھیلا وہ شرمناک ہے اور اس سے بھی شرمناک بات یہ ہوگی اگر انہیں بھی شک کافائدہ دے کر بری کر دیا گیا۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

پاک افغان کمیشن کا قیام ازحد ضروری

کنور محمد دلشاد
افغانستان میں حْریت پسندوں کے کابل پر قبضہ کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا خطرہ ٹل گیا ہے۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گذشتہ روز پہلی پریس کانفرنس کی تو کئی خدشات ختم ہو گئے۔یہ پریس کانفرنس ایک گھنٹہ تک جاری رہی اور وہاں پر موجود صحافیوں نے سوالات بھی کیے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا کہ افغانستان میں جاری جنگ ختم ہوچکی ہے۔مگر افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح کا ایک ویڈیو پیغام بھی منظر عام پر آیا جس میں اْس کا کہنا تھا کہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔لیکن اس وقت تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ طالبان ملک کے تمام اہم سرحدی راستوں اور مقامات کا کنٹرول اپنے قبضہ میں کرچکے ہیں،محض چند علاقے ایسے ہیں،جہاں طالبان کی جانب سے قبضے کا دعویٰ سامنے نہیں آیا ہے۔کابل کے صدارتی محل میں قبضہ کرکے حریت پسندوں نے پورے افغانستان اور سینٹرل ایشیا کے ممالک پر اپنی دھاک جمادی ہے اور پینٹاگون کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے کہ امریکی صدر،پینٹاگان،سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے ایک پالیسی پر گامزن نہیں تھے اور متضاد خیالات کے حامی حلقے ایک دوسرے کو نیچا دکھارہے تھے۔امریکا اپنی پسپائی اور افغانستان سے نکلنے کا یہ جوازدے رہا ہے کہ وہ جس مقصدکے لیے افغانستان میں آیا تھا،وہ مقصد حاصل کرلیا ہے،یعنی القاعدہ کو مکمل طورپر ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس زمینی حقائق یہ ہیں کہ بیس سال میں حامدکرزئی،اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سبھی قومی حکومت قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور امریکا تین کھرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی طاقت ور فوج بنانے میں ناکام رہا ہے۔امریکا نے معدنی وسائل پر قابض ہونے کے لیے عراق، افغانستان، شام اور لیبیا جیسے کئی ممالک تباہ کردئیے اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے طالبان نے امریکی اتحاد کے مقابلے میں بہتر حکمت عملی اختیار کی اور امریکی فوج کے انخلا تک اپنی حکمتِ عملی تک برقرار رکھی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی اربوں ڈالر سمیت ملک سے فرار ہوگئے۔اگرچہ پریس کانفرنس میں افغان طالبان کے ترجمان نے عام معافی کا اعلان کیا،مگر کابل میں مستحکم حکومت قائم کرنے کے بعد اشرف غنی اوراْس کے حامی گروپ کو سزائے موت دیئے جانے کا امکان ہے اور ان کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات بھی درج کیے جائیں گے۔ طالبان نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کی فوج سے مفاہمت کرلی جس کے نتیجہ میں پْرامن طریقے سے افغانستان کی سرکاری فوج نے ہتھیار پھینک دیے جس کی وجہ سے کابل اور ملک کے دیگر حصوں میں خانہ جنگی نہیں ہوئی۔
اب چونکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں طالبان پر پاکستان کا اثر رسوخ کم ہوگیا ہے اور حکومتی اداروں میں ایسے ماہرین شامل ہیں جن کے مفادات امریکا سے وابستہ ہیں،حساس نوعیت کی اہم پوسٹیں ایسے غیر منتخب افراد کو دی گئی ہیں،جو بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکی دْہری شہریت کے حامل ہیں،جن کی وجہ سے جب طالبان براہِ راست امریکیوں سے معاہدہ کررہے تھے تو طالبان نے پاکستان سے بظاہر سست روی اور لاتعلقی کا مظاہرہ کیا، لہٰذا وزیرِ اعظم عمران خان اور حساس اداروں کے سربراہان کو زمینی حقائق کے مطابق وزارتِ خارجہ میں اہم تبدیلیاں لانا ہوں گی اور ایسے معاونین فارغ کرنا ہوں گے جن کے بارے میں افغانستان کی نئی حکومت کو تحفظات ہوں کیونکہ ابھی دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کا طالبان پر اثررسوخ زیادہ ہے۔پاکستان،چین،روس اور ایران مل کر افغانستان کی نئی حکومت کے سامنے کوئی وسیع تر مفاد میں قابل عمل فارمولہ رکھیں تو یقینا طالبان کے لیے انکارکرنا ممکن نہیں ہوگا۔اس مقصد کے لیے میری تجویز ہے کہ اعلیٰ سطح کا پاکستان افغان کمیشن مقررکرتے ہوئے ہمایوں اختر کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں،جو جنرل عبدالرحمن اختر کی ماضی کی پالیسیوں کی بدولت طالبان سے مذاکرات کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہیں اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اعجاز الحق کے اثر رسوخ سے بھی فائدہ اْٹھایا جاسکتا ہے،اگر پاکستان افغان کمیشن بنانے میں تکنیکی رکاوٹ پائی جائے تو ہمایوں اختر خان کو وزیرِ اعظم کا مشیر برائے افغانستان امور مقررکیا جاسکتا ہے،جو وزارتِ خارجہ کے ساتھ ساتھ وزیرِ اعظم پاکستان کے بھی مشیر معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ہمایوں اخترتجربہ کار سیاست دان ہیں وہ بہتر طورپر پالیسی چلاسکتے ہیں۔
وزراتِ خارجہ اور حساس اداروں کو میڈیا ہاؤسز کے اْن اینکر پرسنز کے پروگراموں پر بھی دھیان رکھنا ہوگا جو عالمی طاقتوں کے مہرے بن کر ملک میں طالبان کے خلاف کنفیوژن پھیلائے ہوئے ہیں، کیری لوگر بل کے تحت میڈیا ہاؤسز کو اربوں روپے کی گرانٹ دی گئی تھیں، پاکستان میں اب میڈیا کے ذریعے افراتفری پھیلانے کامذموم کھیل کھیلا جاسکتا ہے۔ٍٍپاکستان کے میڈیا چینلزپر فرسودہ قسم کے تجزئیے پیش کیے جارہے ہیں جس سے پاکستان کے عوام میں اچھے تاثرات نہیں جارہے ہیں،جس سے ملک کی وحدت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے،امن و امان اور خطہ میں پْراَمن ماحول آنے کے بعد اٹھارویں ترمیم پر نظر ثانی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے حوالہ سے بین الاقوامی سطح پر سرگرمیاں تیز تر ہوتی جارہی ہیں اور اقوامِ متحدہ نے افغانستان کی صورتِ حال پر گہری نظریں لگائی ہوئی ہیں، چین، روس، سعودی عرب،ترکی کے سفارت کار افغانستان کے حوالہ سے اپنی اپنی سفارشات اپنے ممالک میں بھیج رہے ہیں۔افغانستان میں اندرونی کیفیت بھی غیر یقینی ہے۔لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کتنی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔پاکستان کو ان حالات میں بھی بھارت کی سازشی تھیوریوں پر کڑی نگاہ رکھنا ہوگی۔
وزیرِ اعظم عمران خان اپنی اندرونی سیاسی سرگرمیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوری طورپر ترکی،چین کا دورہ کریں اور عالمی برادری کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں۔عالمی برادری افغانستان کے زمین حقائق مدِ نظر رکھتے ہوئے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے،عبوری حکومت کو تسلیم کرکے افغانستان میں نئے سرے سے انتخابات کرانے کی راہ ہموار کرے تاکہ افغان امن کو یقینی بنایا جاسکے۔افغانستان خطے کا ایک اہم ملک ہے اس کا امن خاص طورپر پاکستان کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے اپوزیشن لیڈر سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لے کر قومی پالیسی مرتب کرنا چاہیے اور جن جن رہنماؤں پر احتساب بیورو میں مقدمے چل رہے ہیں ان کو چلنے دیں اور اپوزیشن کو افغانستان کی پالیسی بنانے میں ان کو اعتماد میں لیا جائے،کیونکہ طالبان کی حکومت پاکستان کے مفاد میں ہے۔ صدرجوبائیڈن اسی وقت دوراہے پر کھڑے ہیں، امریکی عوام اْن کے خلاف اْٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور میڈیا اْن پر شدید تنقید کررہا ہے۔ان حالات میں وزیرِ اعظم عمران خان اْمت مسلمہ کے رہنما بن کر سامنے آئیں اور متوازن پالیسی اختیار کریں۔ آئندہ انتخابات کے لیے اب اکتوبر 2023کا انتظار کرنا ہی اپوزیشن کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭

افغانستان میں انقلابی تبدیلیاں اور امن کی راہ؟

ملک منظور احمد
افغانستان کی صورتحال میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ڈرمائی تبدیلی آئی ہے اور ایسی تبدیلی جس کا اندازہ امریکہ سمیت کوئی بھی نہیں لگا سکا،طالبان نے 11روز میں افغانستان کے 27صوبائی دارالحکومتوں سمیت وفاقی دارالحکومت کابل پر بھی قبضہ کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے،افغان حکومت اور افغان مسلح افواج ایک سراب کی مانند منظر سے غائب ہو گئیں۔سابق افغان صدر تو اپنے نجی طیارے پر سوار ہو کربیرون ملک روانہ ہو گئے تو دوسری جانب افغان فوج کدھر غائب ہو گئی اس کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔خود امریکی صدر اور امریکی فوجی جرنیل اس بات کا اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں کہ طالبان نے ان کے اندازوں سے کہیں زیادہ جلدی کابل فتح کر لیا۔سقوط کابل کے بعد کابل ائر پورٹ پر جو صورتحال پیدا ہو ئی وہ مغربی دنیا اور خاص طور پر امریکہ کے لیے نہایت ہی شرمناک تھی،کابل ایئر پورٹ پر امریکی طیاروں سے گرتے ہوئے افغان شہریوں کے مناظر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا،اور ان مناظر کے باعث موجودہ امریکی حکومت بھی شدید تنقید کی زد میں آچکی ہے،امریکہ کے اندر سے صدر جو با ئیڈن پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے اور کچھ سیاست دانوں نے تو امریکی صدر کے استعفے کا بھی مطالبہ کر دیا ہے۔بہر حال جو با ئیڈن استعفیٰ دیں یا نہ دیں ان کی مقبولیت کو اس تمام صورتحال میں شدید دھچکا ضرور پہنچا ہے اور نہ صرف ان کو بلکہ امریکہ کی عالمی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
برطانوی وزراء اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل سمیت کئی مغربی رہنماؤں نے امریکہ پر اس حوالے سے شدید تنقید کی ہے اور مغربی ماہرین یہ کہتے ہو ئے بھی نظر آرہے ہیں کہ اس تمام صورتحال سے عالمی سطح پر چین اور روس فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔خاص طور پر چین کے لیے تو یہ نادر موقع ہے کہ وہ افغانستان میں امریکہ کے چھوڑے جانے والا خلا کو پر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔یہ بات مغرب کو پریشان کیے ہوئے ہے لیکن اب اس حوالے سے عملی طور پر کچھ زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔امریکہ صدر جو با ئیڈن افغان صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار اور افغان فوج جس کی تربیت امریکہ نے ہی کی تھی بغیر لڑائی کے ہی ہتھیار ڈالنے کو کوستے ہو ئے نظر آرہے ہیں۔سابق افغان صدر اشرف غنی کو کئی روز لا پتہ رہنے کے بعد دبئی سے ایک ویڈیو پیغا م سامنے آیا ہے جس میں وہ افغانستان سے اپنے فرار کی وضا حتیں پیش کرتے نظر آتے آرہے ہیں جبکہ افغانستان کے سابق نائب صدر امر اللہ صالح خود کو افغانستان کا نیا صدر سمجھ بیٹھے ہیں اور سیاسی رہنماؤں سے ساتھ دینے کی اپیلیں کسی نا معلوم مقام سے کر رہے ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ طالبان کی کابل میں حکومت ایک حقیقت کا روپ دھار چکی ہے اور امریکی اور یورپ سمیت جلد یا بدیر دنیا کو اسے کسی نہ کسی حد تک تسلیم کرنا پڑے گا۔
افغانستان میں اگلا مرحلہ ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جو کہ نہ صرف افغانستان میں تمام لسانی دھڑوں کی نمائندگی کرتی ہو بلکہ افغانستان میں امن اور استحکام کے قیام کے ساتھ ساتھ کسی حد تک بین الا اقوامی برادری کو بھی قابل قبول ہو،افغان طالبان نے بر سر اقتدار آنے کے بعد جتنے بھی بیانات دیے ہیں اور کابل میں اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بھی خطاب کرتے ہوئے جو باتیں طالبان رہنماؤں کی جانب سے کی گئی ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں،طالبان نہ صرف اپنے مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے بلکہ خواتین کو تمام شرعی حقوق دینے کا علان بھی کیا ہے،طالبان کے مطابق خواتین،اسلامی حدود میں رہتے ہوئے تعلیم بھی حاصل کر سکتی ہیں اور کام بھی جاری رکھ سکتی ہیں،افغان میڈیا پر اب بھی خواتین نظر آرہی ہیں،بلکہ ایک خاتون اینکر نے طالبان لیڈر سے ٹی وی پر انٹرو یو بھی لیا ہے،طالبان کی جانب سے ان اقدامات کو چین،روس،ترکی،ایران اور پاکستان کی جانب سے سراہا گیا ہے جبکہ امریکہ اور یو رپ ابھی طالبان کے کسی اقدام کی ستائش کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم طالبان حکومت کے حوالے سے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔لیکن میری نظر میں طالبان کا اصل امتحان اب شروع ہو ا ہے ہم نے دیکھا ہے کہ گزشتہ دو دن کے اندر اندر افغانستان میں کبھی جھنڈے کو بنیاد پر تو کبھی کسی اور مسئلہ کو لے کر طالبان کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔
سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح سمیت کئی ایسے عناصر موجود ہیں جو کہ طالبان کے لیے آنے والے دنوں میں اچھی خاصی مشکلا ت کھڑی کر سکتے ہیں، اور یہ اطلا عات بھی سامنے آرہی ہیں کہ افغان صوبے پنج شیر میں احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر امر اللہ صالح ایک فورس تشکیل دے رہے ہیں جو کہ طالبان کے خلاف جنگ کر سکے۔ اسی لیے یہ طالبان اور پاکستان کے لیے نہایت ہی ضروری ہے کہ ایسی افغان حکومت وجود میں آئے جو کہ تمام افغانوں کی نمائندہ حکومت کہلائی جاسکے اس سلسلے میں پاکستان کی کوششیں بھی جاری ہیں اور افغانستان کی اسمبلی کے سپیکر رحمان رحمانی کی قیادت میں شمالی اتحاد کے نمائندوں پر مشتمل وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس حوالے سے بات چیت کی گئی اور خود طالبان قیادت بھی اس سلسلے میں اقدامات لیتے ہو ئے دکھائی دے رہی ہے سابق افغان صدر حامد کرزئی اور سابق چیف ایگز یکٹو عبد اللہ عبد اللہ سے انس حقانی نے ملا قات کی ہے جس میں ایک وسیع البنیاد افغان حکومت کے قیام پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا ہے۔جتنی جلد ایک ایسی حکومت بر سر اقتدار آئے جو کہ پورے افغانستان کو ساتھ لے کر چل سکے وہی افغانستان کو پا ئیدار امن اور ترقی کے راستے پر لے جا سکتی ہے۔پاکستان کے لیے یہ امر خوش آئند ہے کہ ابھی تک امریکہ سمیت کسی بھی مغربی قوت نے پاکستان پر سقوط کابل کا الزام عائد نہیں کیا ہے،لیکن یہ صورتحال کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتی ہے،پاکستان کو چاہیے کہ وہ دیگر علاقائی طاقتوں کو ساتھ لے کر ایسی افغان حکومت کے قیام میں طالبان کی مدد کریں جو کہ صحیح معنوں میں افغانستان میں امن اور استحکام لا سکے اسی میں خطے اور دنیا کی بھلائی ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

طالبان کا ٹی ٹی پی کو پاکستان میں کارروائیاں روکنے کا حکم، کمشین قائم

کا لعدم تحریک طالبان کے ارکان عام معافی کے بدلے ہتھیار دلالیں اور پاکستان چلے جائیں اور پاکستان سے تمام معلومات حل کریں ،افغان طالبان کمیشن کی ٹی ٹی پی کووارننگ

کابل ایئرپورٹ کے قریب بھگدڑ ،7افراد متعدد زخمی امریکہ نے اپنے باشندوں کو کابل ایئرپورٹ پر جانے سے روک دیا داعش کے حملے کا خطرہ متبادل راستوں پر غور کر رہے ہیں امریکی حکام افراتفری کے زمہ دار نہیں :طالبان

خانہ جنگی کا خطرہ ٹل گیا احمد مسعود کا طالبان سے لڑائی کا ارادہ موخر ،امریکہ کا افغانستان سے انخلا احمکانہ فیصلہ ہے،ٹوبليئر، یورپی باشندوں کے محفوظ انخلا کلیئے طالبان سے رابطہ کیا طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا: یورپی یونین