تازہ تر ین

افغانستان میں انقلابی تبدیلیاں اور امن کی راہ؟

ملک منظور احمد
افغانستان کی صورتحال میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ڈرمائی تبدیلی آئی ہے اور ایسی تبدیلی جس کا اندازہ امریکہ سمیت کوئی بھی نہیں لگا سکا،طالبان نے 11روز میں افغانستان کے 27صوبائی دارالحکومتوں سمیت وفاقی دارالحکومت کابل پر بھی قبضہ کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے،افغان حکومت اور افغان مسلح افواج ایک سراب کی مانند منظر سے غائب ہو گئیں۔سابق افغان صدر تو اپنے نجی طیارے پر سوار ہو کربیرون ملک روانہ ہو گئے تو دوسری جانب افغان فوج کدھر غائب ہو گئی اس کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔خود امریکی صدر اور امریکی فوجی جرنیل اس بات کا اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں کہ طالبان نے ان کے اندازوں سے کہیں زیادہ جلدی کابل فتح کر لیا۔سقوط کابل کے بعد کابل ائر پورٹ پر جو صورتحال پیدا ہو ئی وہ مغربی دنیا اور خاص طور پر امریکہ کے لیے نہایت ہی شرمناک تھی،کابل ایئر پورٹ پر امریکی طیاروں سے گرتے ہوئے افغان شہریوں کے مناظر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا،اور ان مناظر کے باعث موجودہ امریکی حکومت بھی شدید تنقید کی زد میں آچکی ہے،امریکہ کے اندر سے صدر جو با ئیڈن پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے اور کچھ سیاست دانوں نے تو امریکی صدر کے استعفے کا بھی مطالبہ کر دیا ہے۔بہر حال جو با ئیڈن استعفیٰ دیں یا نہ دیں ان کی مقبولیت کو اس تمام صورتحال میں شدید دھچکا ضرور پہنچا ہے اور نہ صرف ان کو بلکہ امریکہ کی عالمی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
برطانوی وزراء اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل سمیت کئی مغربی رہنماؤں نے امریکہ پر اس حوالے سے شدید تنقید کی ہے اور مغربی ماہرین یہ کہتے ہو ئے بھی نظر آرہے ہیں کہ اس تمام صورتحال سے عالمی سطح پر چین اور روس فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔خاص طور پر چین کے لیے تو یہ نادر موقع ہے کہ وہ افغانستان میں امریکہ کے چھوڑے جانے والا خلا کو پر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔یہ بات مغرب کو پریشان کیے ہوئے ہے لیکن اب اس حوالے سے عملی طور پر کچھ زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔امریکہ صدر جو با ئیڈن افغان صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار اور افغان فوج جس کی تربیت امریکہ نے ہی کی تھی بغیر لڑائی کے ہی ہتھیار ڈالنے کو کوستے ہو ئے نظر آرہے ہیں۔سابق افغان صدر اشرف غنی کو کئی روز لا پتہ رہنے کے بعد دبئی سے ایک ویڈیو پیغا م سامنے آیا ہے جس میں وہ افغانستان سے اپنے فرار کی وضا حتیں پیش کرتے نظر آتے آرہے ہیں جبکہ افغانستان کے سابق نائب صدر امر اللہ صالح خود کو افغانستان کا نیا صدر سمجھ بیٹھے ہیں اور سیاسی رہنماؤں سے ساتھ دینے کی اپیلیں کسی نا معلوم مقام سے کر رہے ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ طالبان کی کابل میں حکومت ایک حقیقت کا روپ دھار چکی ہے اور امریکی اور یورپ سمیت جلد یا بدیر دنیا کو اسے کسی نہ کسی حد تک تسلیم کرنا پڑے گا۔
افغانستان میں اگلا مرحلہ ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جو کہ نہ صرف افغانستان میں تمام لسانی دھڑوں کی نمائندگی کرتی ہو بلکہ افغانستان میں امن اور استحکام کے قیام کے ساتھ ساتھ کسی حد تک بین الا اقوامی برادری کو بھی قابل قبول ہو،افغان طالبان نے بر سر اقتدار آنے کے بعد جتنے بھی بیانات دیے ہیں اور کابل میں اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بھی خطاب کرتے ہوئے جو باتیں طالبان رہنماؤں کی جانب سے کی گئی ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں،طالبان نہ صرف اپنے مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے بلکہ خواتین کو تمام شرعی حقوق دینے کا علان بھی کیا ہے،طالبان کے مطابق خواتین،اسلامی حدود میں رہتے ہوئے تعلیم بھی حاصل کر سکتی ہیں اور کام بھی جاری رکھ سکتی ہیں،افغان میڈیا پر اب بھی خواتین نظر آرہی ہیں،بلکہ ایک خاتون اینکر نے طالبان لیڈر سے ٹی وی پر انٹرو یو بھی لیا ہے،طالبان کی جانب سے ان اقدامات کو چین،روس،ترکی،ایران اور پاکستان کی جانب سے سراہا گیا ہے جبکہ امریکہ اور یو رپ ابھی طالبان کے کسی اقدام کی ستائش کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم طالبان حکومت کے حوالے سے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔لیکن میری نظر میں طالبان کا اصل امتحان اب شروع ہو ا ہے ہم نے دیکھا ہے کہ گزشتہ دو دن کے اندر اندر افغانستان میں کبھی جھنڈے کو بنیاد پر تو کبھی کسی اور مسئلہ کو لے کر طالبان کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔
سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح سمیت کئی ایسے عناصر موجود ہیں جو کہ طالبان کے لیے آنے والے دنوں میں اچھی خاصی مشکلا ت کھڑی کر سکتے ہیں، اور یہ اطلا عات بھی سامنے آرہی ہیں کہ افغان صوبے پنج شیر میں احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر امر اللہ صالح ایک فورس تشکیل دے رہے ہیں جو کہ طالبان کے خلاف جنگ کر سکے۔ اسی لیے یہ طالبان اور پاکستان کے لیے نہایت ہی ضروری ہے کہ ایسی افغان حکومت وجود میں آئے جو کہ تمام افغانوں کی نمائندہ حکومت کہلائی جاسکے اس سلسلے میں پاکستان کی کوششیں بھی جاری ہیں اور افغانستان کی اسمبلی کے سپیکر رحمان رحمانی کی قیادت میں شمالی اتحاد کے نمائندوں پر مشتمل وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس حوالے سے بات چیت کی گئی اور خود طالبان قیادت بھی اس سلسلے میں اقدامات لیتے ہو ئے دکھائی دے رہی ہے سابق افغان صدر حامد کرزئی اور سابق چیف ایگز یکٹو عبد اللہ عبد اللہ سے انس حقانی نے ملا قات کی ہے جس میں ایک وسیع البنیاد افغان حکومت کے قیام پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا ہے۔جتنی جلد ایک ایسی حکومت بر سر اقتدار آئے جو کہ پورے افغانستان کو ساتھ لے کر چل سکے وہی افغانستان کو پا ئیدار امن اور ترقی کے راستے پر لے جا سکتی ہے۔پاکستان کے لیے یہ امر خوش آئند ہے کہ ابھی تک امریکہ سمیت کسی بھی مغربی قوت نے پاکستان پر سقوط کابل کا الزام عائد نہیں کیا ہے،لیکن یہ صورتحال کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتی ہے،پاکستان کو چاہیے کہ وہ دیگر علاقائی طاقتوں کو ساتھ لے کر ایسی افغان حکومت کے قیام میں طالبان کی مدد کریں جو کہ صحیح معنوں میں افغانستان میں امن اور استحکام لا سکے اسی میں خطے اور دنیا کی بھلائی ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain