تازہ تر ین

بلندی کے سائے میں پستی کا کھیل

ندیم اُپل
14اگست یوم آزادی،تجدید عہد کا دن مگرکوئی ابھی تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ اس روز مینار پاکستان کے سائے میں چار سو افراد کے ہجوم نے کس عہد کی تجدید کی۔چار سو افراد کی آٹھ سو آنکھوں میں کیا ایسی کوئی ایک آنکھ بھی نہ تھی جس میں تھوڑا بہت ہی شرم کا پانی نظر آیا ہو۔کیا سب کے ہی دیدوں کا پانی مر گیا تھا۔سب ہی کے ضمیر سو گئے تھے اگر جاگ رہی تھی تو صرف وحشت و بربریت اور اگر ناچ رہی تھی تو صرف شیطانیت۔چار سو افراد کے ہجوم میں پھنسی ایک لڑکی کو دیکھ کر ایک بار پھر یہی کہنے کو جی چاہا رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی۔رضیہ جو بھی تھی جیسی بھی تھی اور جس کام کی غرض سے وہ14اگست کو مینار پاکستان آئی تھی اس کو اگر زیر بحث نہ بھی لایا جائے لیکن اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتاکہ وہ جیسی بھی تھی اس کا ٹک ٹاکر کی حیثیت سے جیسا بھی اچھا برا کام تھا اسے اگر ایک طرف رکھ دیا جائے پھر بھی اس سے توکوئی بھی انکاری نہیں کہ وہ حوا کی بیٹی اور پاکستانی تھی۔ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے ٹک ٹاک پروگرام کے لیے ذہن میں کیا تھیم لیکر آئی تھی اور جشن آزادی کے دن کو اس نے کیسے پینٹ کرنا تھا مگر مینار پاکستان کے سائے میں میں کھڑے چار سوافراد نے اپنے اندر کی شیطانیت اور اور غلاظتوں کو خود ہی سامنے لاکر اس ٹک ٹاکر لڑکی کی مشکل آسان کر دی بلکہ میں تو اس بہادر لڑکی کو شاباش دوں گاکہ جس نے جشن آزادی کے موقع پر اپنی جان اور عزت کوداؤ پر لگا کر آزادی کے موقع پر ایک ایسا لائیو پروگرام پیش کردیا جس پر پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا۔عدل و انصاف اور سیکیورٹی اداروں کے لیے بھی ایک ایسا نشان چھوڑدیا جس کا جواب شاید وہ بھی اتنی آسانی سے نہ دے پائیں گے۔اس سے تو یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ اگر چار سو افراد کے ہجوم میں ایک ہاتھ بھی اسے بچانے کیلئے آگے نہیں بڑھا تو پھر ایسے ہاتھوں سے خود ہی چار سو افراد کو شرم کے مارے اپنے چہرے چھپا لینے چاہئیں۔
اگرچہ تازہ ترین ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ قصور وار لڑکی تھی جس نے خود اپنے فالورز سے ایک روز پہلے کہا تھا کہ وہ گریٹراقبال پارک آئیں اور ان کی موجودگی میں ہی جشن آزادی پر ٹک ٹاک بنائی جائے گی۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ٹک ٹاکر لڑکی نے سب کچھ اپنے فالورز بڑھانے کیلئے کیا اور وہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب رہی۔عینی شاہدین یہ بھی بتا رہے ہیں کہ لڑکی اکیلی آئی تھی اور پارک کے چوکیدار نے اسے اندر جانے سے روک دیا تھا اور کہا گیا تھا یہاں لوگ صرف فیملی کے ساتھ ہی اندر جا سکتے ہیں جس پر لڑکی پارک میں جانیوالی ایک فیملی کے ساتھ پارک میں داخل ہو گئی۔اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو سوال یہ ہے کہ جہاں سیکیورٹی گارڈ ایک اکیلی لڑکی کو پارک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہا تھا وہاں چار سو افراد اکٹھے پارک میں کس کی اجازت سے داخل ہوئے اور وہ بھی 14اگست کے دن جہاں گریٹر اقبال پارک میں پولیس کو ہائی الرٹ ہونا چاہیے تھا۔پولیس کی یہی وہ کمزوریاں اور خامیاں تھیں جس پر وزیر اعلیٰ کی طرف سے کچھ ذمہ دار افسران کو فارغ کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ہم ایک بار پھر اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا موضوع لڑکی نہیں ہے بلکہ وہ چار سو نوجوان ہیں جنہوں نے وطن عزیز کی آزادی کے مبارک دن مینار پاکستان کی بلندی کے سائے میں پستی کا بھیانک کھیل کھیلا۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ لڑکی غلط تھی تو اسی دن اسی پارک میں چند ایک گھریلو خواتین کے ساتھ بدتمیزی اور دست درازی کی جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے اس کے جواب پولیس یا کسی اور ذمہ دار کے پاس کیا جواز ہے؟
آج ایک بار پھر شدت سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کیا واقعی ہم ایک زندہ قوم ہیں یا محض ایک گروہ اور ایک ہجوم ہیں۔آج سیاستدان،فنکار اور انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف یہی سوال کر رہی ہیں کہ من حیث القوم ہم کدھر جا رہے ہیں۔اس تازہ ترین واقعہ پر بھی حسب روایت نوٹس لے لیے گئے ہیں۔رپورٹیں طلب کر لی گئی ہیں۔چار سو درندوں کے ہجوم میں سے دس بارہ مشکوک افراد کو حراست میں بھی لے لیا گیا ہے جن کے چہروں کی شناخت ہونا ابھی باقی ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ انصاف ہوتا نظر آئے گامگر ایسا کبھی ہوا نہیں۔سیالکوٹ میں کچھ عرصہ قبل دو سگے بھائیوں کو ایسے ہی ایک ہجوم میں ڈنڈے اور لاٹھیاں مار مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا تب بھی یہی کہا گیا تھا کہ جس جگہ ظلم ہوا ہے اسی جگہ انصاف ہوتا نظر آئے گامگر ہوا یہ کہ ایک ملزم کو ایک سیاسی جماعت اور دوسرے ملزم کو دوسری سیاسی جماعت کے رکن اسمبلی نے بچالیا تھا۔اب بھی جس طرح اعلی پولیس افسران کی سرپرستی میں کمیٹیاں بنائی گئی ہیں لگتا ہے یہ کمیٹیاں بھی اس وقت تک کام کرتی رہیں گی جب تک خدانخواستہ ایسا ہی کوئی دوسرا واقعہ رونما نہیں ہو جاتا مگر ہمیں پھر یہ کہنا پڑرہا ہے کہ چودہ اگست کو آزادی کے دن مینار پاکستان کی بلندی کے سائے میں چار سو افراد نے پستی کا جو بھیانک کھیل کھیلا وہ شرمناک ہے اور اس سے بھی شرمناک بات یہ ہوگی اگر انہیں بھی شک کافائدہ دے کر بری کر دیا گیا۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain