آئندہ انتخابات میں ملک بھر کی طرح بلوچستان میں حکومت بنائیں گے ، بلاول بھٹو

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں ملک بھر کی طرح بلوچستان میں حکومت بنائیں گے۔

تفصیلات کے مطابق چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کوئٹہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواب زہری ، جنرل (ر)قادر ، نواب شاہوانی سمیت دیگر افراد کو پی پی شمولیت پر خوش آمدید کہتا ہوں ، ہم ایک دوسرے کو طاقت  دینگے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جیالے کو وزیراعلیٰ بنا کر دکھائیں گے ، پی پی اور بلوچستان کا تین نسلوں سے تعلق ہے ، بلوچستان کے لوگوں نے شہید بے نظیر بھٹو کا ساتھ دیا تھا ، ہم نے این ایف سی ایوارڈ دے کر صوبوں کو حقوق دلوائے ،  سابق صدر زرداری نے بلوچستان کی عوام کو حقوق دلوائے ، صدر زرداری نے ملازمین کی تنخواوں میں اضافہ کیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی عمران کی حکومت عوام کے حقوق سلف کررہے ہیں ، دونوں جماعتوں کی نظریں عوام کے حقوق سلف کرنےپر ہے ، پی پی غریبوں کی جماعت ہے عوام کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے ، آج کےروز وکلاء برادری کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے ، آج نااہل حکومت کی وجہ سے ناانصافیاں ہورہی ہیں۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ میں بلوچستان ، پنجاب ، کے پی کے اورسندھ کے نوجوانوں کے ساتھ نئی  تاریخ رقم کرنا چاہتا ہوں ، ہم چاہتے ہیں کہ ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو ، بے نظیر بھٹو کا خواب تھا کہ پاکستان کے بچہ بچہ کو بولنے کی آزادی ہو ، عوام جان چکی ہے کہ تبدیلی کا اصل چہرہ مہنگائی ، تباہی ، بربادری ، بھوک افلاس اور مایوسی ہے ، کارکن تیاریاں کرلیں آنے والی حکومت پاکستان پیپلزپارٹی کی ہوگی۔

امید ہے بلاول ہمارے ساتھ وہ نہیں کریں گے جو نواز شریف نے کیا، ثنااللہ زہری

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی صدور، جن میں سابق وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری اور سابق وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ شامل ہیں، نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔

خیال رہے کہ انہوں نے یہ اعلان پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرادری کے دورہ کوئٹہ کے دوران منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ثنا اللہ زہری نے کہا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے، ہمیں عزت دیں۔

ثنااللہ زہری نے کہا کہ میں 1988 سے سیاست کر رہا ہوں، پہلے ہم نے نواز شریف کو آگے کیا پھر ہم نے غلام اسحٰق خان کے ذریعے سازش کرکے بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی۔

مزید پڑھیں: عبدالقادر بلوچ، ثنااللہ زہری کا مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی کا باضابطہ اعلان

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے نواز شریف کو پھر آگے کیا اور وزیراعظم بنایا تو ان کا پہلا شکار غلام اسحٰق خان بنے، نواز شریف کی سرشت میں وفا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2013 میں الیکشن ہم نے جیتا اور باتیں سنیں کہ وہ قوم پرستوں کوحکومت دے رہے ہیں تو جنرل عبدالقادر بلوچ کو رائیونڈ بھیجا تو انہوں نے کہا کہ میری پارٹی جیتے گی اور میں کسی اور کو حکومت دوں گا پھر میں نے خود بات کی تو وہی جواب دیا۔

ثنااللہ زہری نے کہا کہ بلوچستان کے عوام گواہ ہیں کہ نواز شریف نے جس پارٹی کی اکثریت نہیں تھی، تیسرے نمبر کی جماعت، جس کے 8 سے 9 ارکان تھے،کو مسلم لیگ (ن) کے 22 سے 23 اراکین تھے، ان پر ترجیح دی اور انہیں وزیراعلیٰ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ میں نواز شریف کا شکریہ ادا نہیں کروں گا کیونکہ اتحادی جماعتوں پختونخوا میپ کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور ڈاکٹر عبدالمالک سے حکومت نہیں چلی تو ڈھائی سالہ معاہدے پر عمل درآمد کیا۔

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے بلاول بھٹو کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر نواز شریف کا بس چلتا تو اس پر بھی عمل درآمد نہیں کرتا، ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے، ہمیں عزت چاہیے، ہم آپ سے توقع رکھیں گے جو نواز شریف نے ہمارے ساتھ کیا وہ آپ نہیں کریں گے۔

ثنااللہ زہری نے کہا کہ میں بھی شہیدوں کا وارث ہوں اور بلاول بھی شہیدوں کا وارث ہے، اسی لیے میں نے بلوچستان کے اپنے تمام عوام کے ساتھ اس پارٹی میں شمولیت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج سے ہم پیپلزپارٹی کا باقاعدہ حصہ ہیں اور میں ایک ورکر کی حیثیت سے پیپلزپارٹی کے لیے کام کروں گا، مسلم لیگ کے لیے جتنا کام کیا اور قربانیاں دی ہیں، اسے بڑھ کر کروں گا کیونکہ یہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی جماعت ہے، جن کو میں بہن کہتا تھا۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) میں اختلافات، عبدالقادر بلوچ اور ثنااللہ زہری کا پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ یہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری کی پارٹی ہے، میں اپنا خون پسینے کو ایک کرکے اس پارٹی کو آگے لے کر جاؤں گا۔

اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے سابق صوبائی صدر اور وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے بھی پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہر علاقے کا سیاسی مزاج مختلف ہے۔

عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پیپلزپارٹی کا نظریاتی ووٹ موجود ہے اور یہاں سے علاقائی جماعتوں کے علاوہ مرکزی جماعتوں نے بھی کامیابی حاصل کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو خیرباد کہہ دیا اور آج بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی کوئی قدآور شخصیت نہیں ہے، پیپلزپارٹی نے اپنی قابلیت پر بلوچستان میں اپنی پوزیشن بنائی ، اگر صحیح کام کیا تو یہاں ہماری اکثریتی حکومت بنے گی۔

امیتابھ بچن کے بنگلے پر بم کی جھوٹی خبر دینے والے 3 افراد گرفتار

بولی وڈ کے لیجنڈری اداکار امیتابھ بچن کے بنگلے سمیت ممبئی کے 3 ریلوے اسٹیشنز پر بم کی موجودگی کی جھوٹی اطلاع دینے والے 3 افراد کو گرفتار کرلیا۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایک عہدیدار نے بتایا کہ اداکار امیتابھ بچن کی رہائش گاہ سمیت ممبئی کے 3 ریلوے اسٹیشنز پر بم نصب کرنے کے دعوے پر مبنی جعلی کال کرنے والے 3 افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔

بھارتی پولیس کے مطابق فون کال موصول ہونے کے بعد بم ڈھونڈنے کے لیے کئی گھنٹے تک سرچ آپریشن جاری رہا۔

ترجمان پولیس کے مطابق چاروں مقامات میں سے کہیں پر بھی کوئی مشتبہ مواد نہیں پایا گیا۔

پولیس عہدیدار کے مطابق جمعہ (6 اگست) کی رات کو 9 بج کر 45 منٹ پر ہمارے کنٹرول روم کو ایک کال موصول ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ کالر نے دعویٰ کیا تھا کہ ممبئی کے بائیکولا، چھترپتی شیواجی مہاراج (سی ایس ایم ٹی) اور دادر ریلوے اسٹیشنز سمیت جوہو میں واقع امیتابھ بچن کے بنگلے میں بم نصب کیے گئے ہیں۔

عہدیدار کے مطابق مشکوک فون کال کے بعد ریلوے پولیس، ریلوے پروٹیکشن فورس اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیمز نے تلاش شروع کی تھی اور مقامی پولیس اہلکار سراغ رساں کتوں کے ساتھ ان مقامات پر پہنچے تھے تاہم کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی تلاش کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اطلاع جھوٹی تھی۔

پولیس نے اداکار امیتابھ بچن کے بنگلے کے اطراف کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا اور غلط خبر دینے والے شخص کی تلاش شروع کر دی۔

نمبر ٹریس کرنے پر معلوم ہوا کہ فون کال کرنے والا شخص ایک ٹرک ڈارئیور تھا اور اس کے ساتھ دیگر 2 آدمی بھی موجود تھے۔

یہ شبہ ہے کہ جب یہ جعلی کال کی گئی تو وہ تینوں افراد شراب پی رہے تھے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق سینئر انسپکٹر ششی کانت مانے نے کہا کہ ‘ہم نے باہر سے امیتابھ بچن کے چاروں بنگلوں کی تلاشی لی تھی کہ وہاں کچھ گڑبڑ تو نہیں’۔

پولیس کے مطابق کوئی مشکوک چیز نہ ملنے کے بعد پولیس نے اسے جعلی فون کال قرار دے دیا۔

بعدازاں پولیس نے فون کال میں ملوث تینوں افراد کو گرفتار کیا جنہوں نے انکوائری کے دوران اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے شراب کے نشے میں ایسا کیا تھا۔

دنیا میں بیانیے کی جنگ جاری، ڈیجیٹل میڈیا سے ہماری بات سنی جائے گی: فواد چوہدری

اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ دنیا میں آج بیانیہ کی جنگ لڑی جا رہی ہے ، بیانیہ مضبوط ہوگا تو ہماری اہمیت ہوگی،ماضی میں وزارت اطلاعات ریاست کے بیانیہ کے بجائے حکمران پارٹی کی ترجمان تھی، ہم نے اس کلچر کو تبدیل کیا، ماضی میں ہم اپنا موقف دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکے ، ماضی میں میڈیا اداروں کی ترقی کے لئے جو سرمایہ کاری کرنی چاہئے تھی وہ نہیں کی جا سکی، افغان جنگ میں ہم نے ستر ہزار جانوں کی قربانیاں دیں لیکن ہم دنیا کو بتا ہی نہیں سکے کہ یہ جنگ کیوں ہوئی اور ہم نے کیا قربانیاں دیں۔

وزیراعظم نے ہمیشہ بیانیے کو مضبوط بنانے پر زور دیا ہے، افغان جنگ میں اپنی قربانیاں دنیا کو بہتر طور پر نہیں بتا سکتے۔

1964 کے بعد سب سے بڑی ٹرانسفرمیشن ہورہی ہے، نیشنل ڈیجیٹل انفارمیشن پلیت فارم کی افتتاحی تقریب سے خطاب

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو یہاں وزارت اطلاعات و نشریات کے زیر اہتمام نیشنل ڈیجیٹل انفارمیشن پلیٹ فارم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ فوادچودھری نے کہا کہ پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے میڈیا اداروں کو ڈیجیٹل نہیں کر سکے ۔ انہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات کے زیر اہتمام اداروں میں ڈیجیٹلائزیشن کے اس عمل سے پاکستان کے بیانیہ کو تقویت ملے گی اور ریاست کا بیانیہ مضبوط ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی، ایچ ڈی ہونے جا رہا ہے ، ریڈیو کی نشریات انٹرنیٹ پر منتقل کر دی ہیں اشتہارات کا پورا عمل سو فیصد کمپیوٹرائزڈ اور پیپر لیس ہے ، ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم نے اشتہارات کے ضمن میں تمام ادائیگیاں مکمل کرلی ہیں، آج ایک روپیہ بھی واجب الادا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر حکومت کی اتنی بڑی موجودگی اس سے پہلے کبھی نہ تھی، جتنی آج ہے ۔

سعودی عرب کا غیر ملکی ویکسینیٹڈ عازمین کو عمرے کی اجازت دینے کا فیصلہ

عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث عائد پابندیوں کے بعد اب سعودی عرب نے بیرونِ ملک
سے بتدریج ویکسینیٹڈ عمرہ عازمین کی درخواستیں وصول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

پابندی فہرست میں شامل ممالک سے ویکسینیٹڈ عازمین کو آمد کے بعد قرنطینہ کرنا ہوگا

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ میں سعودی پریس ایجنسی کے حوالے سے کہا گیا کہ مکہ اور مدینہ کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بیرونِ ملک سے عازمین کو خوش آمدید کہیں گے، اس گنجائش کے ساتھ جو ہر ماہ 60 ہزار سے 20 لاکھ عازمین تک بڑھ جائے گی۔

وزارت حج و عمرہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ مقامی اور غیر ملکی عازمین کو عمرے کی درخواست کے ساتھ کووِڈ ویکسینیشن کا مصدقہ سرٹیفکیٹ منسلک کرنا ہوگا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سعودی عرب کی پابندی فہرست میں شامل ممالک سے ویکسینیٹڈ عازمین کو آمد کے بعد قرنطینہ کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ سعودی عرب نے سائنو فارم یا سائنو ویک ویکسین کی دونوں خوراک لگوانے والے غیر ملکیوں کو منظورہ شدہ چاروں میں سے کسی ایک ویکسین کا بوسٹر شاٹ لگوانے کے بعد ملک میں داخلے کی اجازت دے دی تھی۔

عمرہ اسلام میں ایسی عبادت ہے جو سال میں کسی بھی وقت ادا کی جاسکتی ہے، اسے گزشتہ برس اکتوبر میں مقامی افراد کے لیے کھول دیا گیا تھا۔

قبل ازیں جولائی میں سعودی عرب نے ملک میں مقیم مکمل ویکسینیٹڈ 60 ہزار عازمین کو حج ادا کرنے کی اجازت دی تھی۔

ستمبر 2019 سے مارچ 2020 کے دوران سعودی عرب نے 4 لاکھ ویزے جاری کیے لیکن عالمی وبا نے یہ رفتار ختم کردی اور سرحدیں بند کردی گئیں۔

کورونا وائرس کے باعث عمرہ اور حج کا فریضہ بھی بری طرح سے متاثر ہوا جس سے عام حالات میں سعودی عرب کو سالانہ تقریباً 12 ارب ڈالر کا ریونیو حاصل ہوتا ہے۔

فی الحال صرف سعودی عرب کے شہریوں اور مقیم افراد کو عمرے کی اجازت ہے جنہوں نے ویکسین کی مکمل خوراکیں لگوالی ہوں۔

حکومت نے سیاحت کی بحالی، کھیلوں اور تفریحی ایونٹس کی میزبانی کے لیے ملک بھر میں ویکسی نیشن مہم تیز کردی ہے، عالمی وبا کے باعث یہ تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں۔

عالمی امور و معاملات سے الگ تھلگ رہنے والی سلطنت نے 2019 میں پہلی مرتبہ سیاحت کے لیے ویزے جاری کیے تھے، جس کا مقصد دنیا میں اس کا بہترین تصور پیدا کرنا اور سیاحوں کو راغب کرنا تھا۔

لاہور میں سی ٹی ڈی کا آپریشن، 3 افغان دہشت گرد ہلاک

لاہور: کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے آپریشن کرتے ہوئے 3 افغان دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔

ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق دہشت گردوں کی موجودگی کی خفیہ اطلاع پر لاہور کے علاقے فیروز والا میں چھاپہ مارا گیا جہاں دہشت گرد کرائے کے ایک مکان میں رہائش پزیر تھے۔

سی ٹی ڈی ترجمان کے مطابق دہشت گرد حساس اداروں، سکیورٹی فورسز اور اہم شخصیات کو ٹارگٹ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

ترجمان سی ٹی ڈی نے بتایا کہ خفیہ اطلاح پر چھاپہ مارا تو دہشت گردوں نے فائرنگ کر دی، دہشت گردوں اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں 3 دہشت گرد مارے گئے۔

سی ٹی ڈی ترجمان کے مطابق ہلاک ہونے والے تینوں دہشت گردوں کا تعلق افغانستان سے ہے، دہشت گردوں کے قبضے سے خودکش جیکٹس، 3 ہینڈ گرینیڈ، 2 کلاشنکوف اور دیگر بارودی مواد بھی برآمد ہوا۔

طالبان 31 صوبوں پرقابض ، امریکہ برطانیہ کا اپنے شہریوں کو افغانستان چھوڑنے کا حکم

امریکی شہری فوری افغانستان چھڑدیں: امریکی سفارتخانہ ، سخت جانچ پڑتال کے بعد افغان صحافیوں کو پناہ دیں گے : برطانیہ

طالبان ٹھکانوں پر امریکی طیاروں کی بمباری، ہرات ، قندھار ، لشکر گاہ کی صورتھال انتہائی۔ بڑی جنگ ہوئی تو ہمسایہ ممالک بھی متاثر ہونگے۔ امن کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا: اقوام متحدہ

برطانیہ کے بعد امریکا نے بھی اپنے شہریوں کو فوری طور پر افغانستان چھوڑنے کی ہدایت کردی۔

افغانستان میں امریکی سفارتخانے نے افغانستان میں مقیم امریکی شہریوں کو افغانستان فوری طور نکلنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

افغانستان کی بگڑتی صورتحال کے سبب برطانوی حکومت نے بھی گذشتہ دنوں اپنے شہریوں کو افغانستان چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔

افغانستان میں امریکی سفارتخانے نے سکیورٹی الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہےکہ افغانستان میں مقیم امریکی شہری فوری دستیاب کمرشل پروازوں سےجلد ازجلد افغانستان سے نکل جائیں۔

سفارتخانے نے کہا ہے کہ کمرشل پروازوں کےٹکٹ نہ خرید سکنے والوں کو قرضہ بھی فراہم کیاجائےگا۔

سفارتخانے نے کہا ہےکہ امریکی شہری سیف ٹریولر انرولمنٹ پروگرام (STEP) میں اندراج کرائیں تاکہ سکیورٹی اپ ڈیٹس اور ایمرجنسی میں سفارتخانےسے رابطہ ممکن بنایاجاسکے، مستقبل میں سرکاری انخلا کی پرواز کی صورت میں امریکی شہریوں کو مطلع کردیا جائےگا۔

خیال رہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد سے ہی طالبان کی پیش قدمی جاری ہے اور انہوں نے متعدد اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے۔

وعدے، خواب اور غریب

عصمت شوکت
اپنی شہرہ آفاق قلبی واردات ”تلخیاں“ کی طویل نظم پر چھائیاں میں ”مادام“ سے خطاب کرتے ہوئے ساحر لدھیانوی مرحوم نے ایک کائناتی حقیقت کچھ یوں بیان کی ہے کہ:
آپ کہتی ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتی ہوں گی
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میرے ماحول میں انسان نہ بستے ہوں گے
بھوک آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بے شک یہ بھوک ہی ہے جس کی زیادتی عصمت کو کانچ کی چوڑی سے بھی ارزاں کر دیتی ہے اور بھوک کے ”مذہب“ میں جہنم کاکوئی کھٹکا بھی نہیں ہوتا اور حدیث مبارکہ بھی تو یاد کریں کہ ”بھوک کی انتہا انسان کو کفر تک لے جاتی ہے“۔ اپنے فر د فرد معاشرے کو دیکھ لیں، یہ عوامل صاف دکھائی دیں، شرط یہ ہے کہ آنکھوں پر اقتدار و اختیار کی عینک نہ لگی ہو۔ وہ جو دوسروں کی نظر سے دیکھنے اور دوسروں کی زبانوں سے سننے کے عادی ہیں، اگر انہیں ”سب اچھا“ ہی دکھائی دیتا ہے تو تاریخ میں زیادہ پیچھے جا کر انقلاب فرانس کی وجوہات جاننے کی مغز ماری کرنے کی بجائے اس ”بندوبست“ کا 2008ء کے انتخابات میں ہونے والا حشر ملاحظہ کر لینا چاہیے جو اپنے تیئں حکمران بن چکے اور حلف برادری کی تقریب میں زیب تن کرنے کے لیے شیروانیوں تک کے آرڈر دے چکے تھے۔
حکمرانوں کے نزدیک اگر”سب اچھا“ ہے تو کیا ان سے یہ پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ روپے کی لاش پر ڈالر کا رقص ابلیس کیوں تھمنے میں نہیں آرہا، پٹرول تو ایک طرف، ہماری زرخیز دھرتی پر وافر مقدار میں پیدا ہونے والا آلو فی کلو کے اعتبار سے ڈالر تک کیوں جا پہنچا۔ آلو دہ ہوامیں سانس لینے اور آلودہ پانی پینے سے اپنے جسم کو موذی امراض میں مبتلا ہو جانے والوں کی دسترس سے زندگی بچانے والی ادویات کیوں باہر ہو گئی ہیں۔ غریب عوام کے بچوں کے فیڈر میں دودھ کیوں ختم ہوتا جارہا ہے۔ کیا کوئی حکمران خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ دعوٰی کر سکتا ہے کہ عوام کو معیاری اور سستی اشیائے خورد و نوش واقع میسر ہیں؟
خاتمے کے نمائشی نہیں حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان مسائل کو ختم کرنا ہوگا۔ جو ہمارے وسائل کو ہڑپ کرتے جا رہے ہیں۔
وطن عزیز دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جسے قدرت نے جی کھول کر نعمتیں عطا کی ہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی اتنا کچھ موجود ہے کہ ہم نہ صرف ترقی یافتہ ملکوں کے ہم پلہ ہو سکتے ہیں بلکہ امداد دینے والے بن سکتے ہیں۔ مسئلہ صرف نیتوں کے کھوٹ کا ہے اور جب حاکم طبقات کی نیتوں میں کھوٹ آجائے تو برکت اٹھ جایا کرتی ہے۔ دنیا کی زرخیز ترین زمینوں پر بھوک اگنے کا آغاز تب ہوا جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے معاہدہ سندھ طاس کر کے تین دریا بھارت کے حوالے کر دیئے اس ملکی معیشت جس کا دارومدار ہی زراعت پر ہے۔ ہ پہلی ضرب تھی اس کے بعد آج تک ہر کسی نے اس کو لوٹا اور سرمایہ بیرون ملک منتقل کر دیا۔ یہ طبقہ کون ہے جس کے یورپ، عرب میں محلات ہیں اور سوئس بینکوں میں دولت کے انبار، سبھی جانتے ہیں۔ اکانومی کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب کسی معاشرے میں معیار زندگی لڑکھڑا جائے تو وہاں اخلاقی جرائم بڑھ جاتے ہیں وہی بات جو عرصہ قبل سلطان صلاح الدین ایوبی نے بھی کہی تھی کہ ”جس معاشرے میں روٹی مہنگی ہو جائے وہاں مرد کی غیرت اور عورت کی عزت سستی ہو جاتی ہے۔ کیا آج یہ باتیں ہمیں ہمارے معاشرے میں دکھائی نہیں دیتیں؟ اگر کسی کو نہیں دکھائی دیتیں تو اس کے بارے میں مکرم الٰہی کچھ یوں فرماتے ہیں کہ ”آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں“ ہمیں اپنی معاشی حالت سدھارنی ہے تو بدامنی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کا کاسہ لیسی کی بجائے اپنے دستیاب وسائل کو استعمال میں لانا ہو گا۔ یہ بد امنی ہی ہے کہ جس کے باعث غیر ملکی سرمایہ کاری منجمند ہو کر رہ گئی اور ملکی سرمایہ دار بھی مغربی، خلیجی اور مشرقی بعید کے ممالک کی طرف چلا گیا۔ توانائی کے بحران کے حل کے لیے پچھلے کئی سالوں سے سن رہے ہیں کہ ”کوڑے سے بجلی بنے گی، منصوبہ بن گیا“ ترکی سے توانائی کے بحران کے حل کے لیے معاملات طے، اور یہ ہو گیا وہ ہو گیا،لیکن ایسا کوئی بھی منصوبہ ہمیں سر زمین پاکستان پر تکمیل کے مراحل طے کرتا تو دور کی بات اپنی بنیادیں استوار کرتا بھی نظر نہ آیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہزاروں صنعتی یونٹ بند پڑے ہیں اور لاکھوں مزدور بیکار۔
خیر بات چلی تھی غربت و افلاس کی۔ اس کا خاتمہ صرف خلوص نیت سے ہی ممکن ہے۔ معیشت کو مضبوط بنیادیں فراہم کیے بغیر اس کے استحکام کی توقع عبث ہے۔ بدامنی کا خاتمہ خواہ کسی بھی طور پر ہو، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی اولین شرط ہے۔ تاجر برادری کے لیے مراعاتی پیکج ایک بہتر اقدام ہے۔
توانائی کا بحران حل نہیں ہو تا تو کسی بھی درجے کے ملنے سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں۔ ایک بات اور، غریب غریب کی رٹ لگانے والی پارلیمنٹ کے گوشواروں کے مطابق امیر ترین جماعت کے مذکورہ بالا تمام منصوبوں میں غریب کے لئے کچھ نہیں ، سوائے تسلیوں، دلاسوں اور خوابوں کے۔ عمران خان سے التجا ہے کہ اپنے وزیروں سے کہیں کہ اپنے دفاتر کے درروازے کھولیں تاکہ غریب عوام کے مسائل حل ہو سکیں۔
(کالم نگارمختلف امورپرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭

آئیں اپنی پولیس کی خود اصلاح کریں

تحسین بخاری
میری ماں گاؤں میں بڑے بھائی کے پاس ہے،میرا گاؤں رحیم یار خان سے چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے،دریائے سندھ میرے گاؤں حویلی غوث شاہ سے نصف کلو میٹر پر ہے،صبح عید تھی،دل بوجھل سا تھا، سوچا ماں سے جا کر مل آؤں،لہٰذا میں رات کے دس بجے جیسے ہی ایک اکٹھ سے فارغ ہوا توفورا رحیم یار خان سے روانہ ہو گیا،میں گیارہ بجے گاؤں پہنچا۔سب فیملی ماں کے گرد جمع ہو کر بیٹھ گئی،دو گھنٹے تک خوب گپ شپ چلتی رہی اور پھر بارہ بجے وہاں سے اجازت لیکرمیں واپسی کیلیے روانہ ہو گیا،ایک بجے کے قریب میں اقبال آباد پہنچا اور جیسے ہی میں نے انٹری گیٹ کراس کیا تو رحیم یار خان روڈ پر کھڑے پولیس کے جوانوں کو دیکھ کر میں نے گاڑی کو بریک لگائی اور سائیڈ پر کھڑی کردی،صبح عید تھی مگر رات کے ایک بجے پنجاب پولیس کے یہ جوان اپنا گھر بار،اپنا پریوار،معصوم بچوں کو چھوڑ کرسڑکوں پر ڈیوٹی کر رہے تھے ڈیوٹی پر موجود تقریباً تمام ملازمین مجھے ذاتی طور پر جانتے تھے میں جا کر ان جوانوں سے گلے ملا،ڈیوٹی پر موجود آفیسر سے رسمی خیر خیریت پوچھ کر میں نے سوال کیا کہ صبح عید ہے اور آپ اس وقت یہاں ڈیوٹی پر موجود ہیں آپ کیا محسوس کر رہے ہیں،میرا سوال پوچھنا تھا کہ اس پولیس مین کی آنکھوں میں ایک دم آنسو امڈ آئے جیسے وہ کب سے اس انتظار میں تھا کہ کوئی اس کا دکھ بانٹنے والا اسے ملے اور وہ دل کھول کر اپنا بوجھ ہلکا کرے، اس کی آواز بھرا گئی،اس نے ہاتھ میں پکڑا رومال اپنے آنسو جذب کرنے کے لئے اپنی آنکھوں پر رکھا،میں نے اسے اپنے گلے سے لگایا،اس نے تھوڑے فاصلے پر پڑی بنچ کیطرف اشارا کرتے ہو ئے کہا کہ آئیں ذرا دو منٹ وہاں بیٹھتے ہیں۔میں نے محسوس کیا کہ اس نوجوان کو ایک عرصے بعد کسی سویلین سے ہمدر دی مل رہی تھی۔اس لیے وہ بھی دل کھول کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا تھا،ہم بنچ پر بیٹھ گئے،اس نوجوان نے اپنے ماتحت نوجوان کو بلایا اور چائے لانے کا کہا سامنے والا ہوٹل کھلا تھا مگر میں نے چائے پینے کی حامی اس شرط پر بھری کہ یہ چائے ڈیوٹی پر موجودتمام ملازمین کیلیے میری طرف سے ہو گی،نوجوان نے ٹھنڈی آہ بھری،دکھ اور شکوے کی آمیزش کے ساتھ مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا سر جی ہم آپ لوگوں کی چائے کے حقدار کہاں ہیں ہم تو تنقید کے حقدار ہیں،ہم تو گالیاں سننے کے لئے ہیں،ہمارا سینہ یا تو دشمن کی گولی کھانے کے لئے ہے یا اپنوں کی تنقید کے پتھر سہنے کے لئے ہے۔ہم لاکھ اچھا کر لیں مگر ہم پولیس والے پبلک کی نظر میں برے ہی ہیں،ایک سویلین سے محبت اور ہمدردی کا اظہار دیکھ کر عجیب سا فیل ہو رہا ہے،جیسے یہ کوئی خواب ہو۔
نوجوان کا فون مسلسل بج رہا تھا م،وہ سکرین پر دیکھتا اور کال کاٹ رہا تھا۔میں نے پوچھا کس کا فون ہے اور آپ بار بار نظرانداز کیوں کر رہے ہیں؟
اس نے ایک لمبی سرد آہ بھری اپنی کیپ اتار کر اپنی گود میں رکھی اور سرد آہ بھرکر بولا یہ میری چھوٹی بیٹی عروسہ کا فون ہے، میں پیار سے اسے بلبل کہتا ہوں،یہ بالکل چھوٹی سی ہے،ابھی بولنا سیکھ رہی ہے اور تین دن سے مجھے فون کر کے یہی پوچھتی ہے
بابا!دھل تب آؤ دے (بابا گھر کب آؤ گے)
نوجوان نے کہا تیسرا روز ہے روزانہ گھر سے فون آ تا ہے مگر میں انھیں جھوٹی تسلی دے دیتا ہوں کہ بس آج شام کو آجاؤں گا۔
ذرا تصو ر کیجیے کہ عید کی خوشیوں بھرا تہوار ہو،آپ گزشتہ کئی ماہ سے گھر سے دور ڈیوٹی پر موجود ہوں،آپ کی ماں عید کے روز آپ کو سینے سے لگانے کے لئے بیقرار ہو،،چھوٹی بہن کو اسکی سہیلیاں اپنا اپنا عید کا سوٹ دکھا دکھا کر اس کا منہ چڑا رہی ہوں اور وہ بڑے مان سے انہیں کہ رہی ہو کہ بھیا کل تک آ جائے گا اور پھر دیکھنا میرے لیے ایسا سوٹ لائے گا کہ تمھارے سوٹ کی ایسی کی تیسی پھیر دے گا،آپ کی بیوی آپ کی آمد کے انتظار میں گھرکی صفائی کر کے ہر چیز سلیقے سے سجا نے میں لگی ہو کہ سرتاج آنے والا ہے،آپکی چھوٹی بیٹی آپ کو بار بار فون کر کے اپنی توتلی زبان میں جلدی آنے پر مجبو رکررہی ہو اور آپ کے لئے اسے اگنور کرنا مشکل ہو،ذرا تصور کیجیے آپ بھی اپنی آنکھوں میں عید اپنی فیملی میں منانے کے سپنے سجائے تیاری میں مصروف ہو۔عید کو محض ایک دن باقی رہ گیا ہو،آپ سامان پیک کر رہے ہوں اور آپ کو اچانک احکامات ملیں کہ آپ کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں ہیں لہٰذا آپ گھر نہیں جا سکتے تو زراد دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ آپ کے دل پر کیا گزرے گی،اور آپ کا عید کا روز کس حالت میں گزرے گا۔اس کا تصور بھی تکلیف دہ ہے۔مگر ہماری پولیس کے ساتھ ایسا ہر عید پر ہوتا ہے،وہ ہمارے تحفظ کے لئے ہر عیدپر اپنی فیملی سے دور ہوتے ہیں۔
پولیس ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتی ہے،ہم تنقید کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے مگر کبھی ہم نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے،عید کی رات اپنوں سے دوری کا دکھ سینے میں لیے ہماری حفاظت کے لئے روڈ پرکھڑے ان جوانوں کے سینے کے اندر ہم نے کبھی جھانکنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔
قارئین محترم ہم زندگی کے ہر پہلو میں ہمیشہ دوسروں پر الزام دیتے ہیں مگر کبھی اپنے اوپر چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا، جو لوگ ہم سے فاصلے پر چلے جاتے ہیں۔ ہم نے کبھی اس کی وجہ جاننے کی کوشش ہی کی کہ کہیں ان فاصلوں کی وجہ ہمار ارویہ تو نہیں،کسی کے ساتھ اختیار کیا گیا اچھا یا برا رویہ اس کی راہ کا تعین کرتا ہے۔پولیس کے ساتھ بھی اجتماعی طور پرہمارا رویہ یہی ہے کہ بس پولیس بری ہے۔مگر میرا خیال ہے کہ اگر ہم چاہیں تو پولیس میں پائی جانیوالی خامیاں دور ہو سکتی ہیں اور اس کے لئے ہمیں پولیس سے متعلق اپنا یہ رویہ تبدیل کر نا ہوگا ا،اس کیلیے ہمیں باقاعدہ طور پر مہم شروع کرنی پڑے گی، ہم روزانہ اپنی جیب میں یا اپنی گاڑی میں دو چار پھول رکھ لیں اور راستے میں روڈ پر کھڑا جہاں بھی کوئی پولیس کا جوان ملیں ہم اپنی گاڑی روک کر اسے جا کر سلام کریں اور اسے اچھی مسکراہٹ کے ساتھ یہ ایک پھول پیش کردیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پولیس ہمارے اس رویے سے متاثر ہو کراپنے اندر کی خامیاں دور کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔آئیے آج سے پولیس کو پھول پیش کر کے ان کے اندر کی خامیاں دور کرنے کی مہم شروع کرتے ہیں۔
(کالم نگارسیاسی و سماجی ایشوز پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

امریکہ کی پسپائی میں طالبان کے لیے سبق

عاقل ندیم
تقریبا بیتالیس سالوں کے قلیل دورانیے میں افغانستان میں دو عالمی سپر طاقتوں کو انتہائی مہنگی جنگوں کے بعد شکست کی دھول چاٹنی پڑی ہے۔ سوویت یونین نے افغانستان پر اپنا قبضہ قائم رکھنے کے لیے ایک سو پچاس ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے اور تقریبا بیس ہزار سے زیادہ فوجیوں کی قربانی دی۔ افغان جنگ نے سوویت یونین کو معاشی طور پر اتنا کمزور کیا کہ ایک انتہائی طاقتور ریاست اس جنگ کے فورا ًبعد دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئی۔
اس جنگ نے افغانستان کو بھی ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ ایک اندازے کے مطابق سوویت قبضے کے دوران پندرہ سے بیس لاکھ کے درمیان افغان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس طرح پورے افغانستان کی آبادی میں چھ سے 11 فیصد عوام لقمہ اجل بن گئے۔ اس ہولناک جنگ سے جان بچاتے ہوئے تقریباً پچاس لاکھ سے زیادہ افغان عوام بیرون ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔
سوویت قبضے کی آفت کے تقریبا دس سال بعد افغانستان ایک بار پھر ایک بڑی اُفتاد کا نشانہ بنا جب امریکہ نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا۔ سوویت اور امریکی قبضے کے درمیان کے دس سالوں میں مختلف افغان گروہ کابل پر تسلط کی خواہش میں آپس میں برسرپیکار رہے جس کی وجہ سے مزید افغان ہلاک ہوئے اور ایک بڑی تعداد دوبارہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی۔
بیس سالہ امریکی قبضے کے دوران تقریباً 48 ہزار مزید افغانی شہری ہلاک ہوئے اور جاری خانہ جنگی میں تقریبا ً66 ہزار افغان فوجی مارے گئے۔ امریکی قبضے کے دوران تقریباً 27 لاکھ افغان دوبارہ بیرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہوئے جبکہ 40 لاکھ کے قریب افغانستان میں ہی دربدر ہوئے۔ اس مہنگی ترین جنگ میں تقریباً 2500 امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور 20 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ 4 ہزار کے قریب نجی امریکی کنٹریکٹر بھی مارے گئے۔ نیٹو افواج کے ساتھ شامل فوجی اور دیگر اشخاص کی ہلاکتیں 1200 کے قریب رہیں۔
امریکہ اپنی اس مہنگی ترین مہم جوئی میں امریکی وزارت خارجہ کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک دو کھرب اور 26 ارب ڈالر جھونک چکا ہے۔ یہ سرمایہ بے تحاشہ قرضے لیکر حاصل کیا گیا۔ اب تک صرف سود کی مد میں امریکہ نے اس مہم جوئی کے لیے 530 ارب ڈالر ادا کیے ہیں۔ اسی طرح اس جنگ میں شامل سابق فوجیوں اور اور دیگر اہلکاروں کے علاج اور دیگر سہولیات کے لیے 296 ارب ڈالرز خرچ کیے جا چکے ہیں اور ان اہلکاروں پر یہ اخراجات آنے والے کئی سالوں تک ادا کئے جائیں گے۔
اب جبکہ امریکہ نے افغانستان میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے واپسی کا فیصلہ کیا ہے تو طالبان کی نظریں اب کابل کی طرف ہیں اور وہ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ جلد کابل ان کے قدموں کے نیچے ہو گا۔
گو طالبان کسی حد تک یہ امید کرنے میں حق بجانب ہیں کیونکہ امریکی انخلا سے بظاہر مرکزی حکومت کمزور دکھائی دیتی ہے۔ طالبان کی حالیہ مضافاتی علاقوں کی فتوحات سے ان کے کچھ حمایتی عناصر طالبان کا افغانستان پر جلد ہی مکمل قبضہ یقینی سمجھ رہے ہیں لیکن طالبان کی مکمل فتح ابھی کافی دور ہے اور اس میں بہت سارے عناصر آڑے آ سکتے ہیں۔ اگر طالبان نے اپنے طرز عمل اور طرز حکومت کے بارے میں افغانیوں کی ایک بڑی تعداد میں موجود سنجیدہ خدشات کو رفع کرنے کی کوشش نہ کی تو بہت ممکن ہے کہ انہیں کابل اور دیگر بڑے شہروں پر قبضہ کرنے میں شدید مشکلات اور طالبان مخالف قوتوں کا سخت مقابلہ کرنا پڑے۔
مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر طالبان کو افغانستان پر مکمل قبضہ کرنے اور ملک پر امن کے ساتھ حکومت کرنا تقریباً ناممکن ہوگا اگر وہ اپنی حکمت عملی اور سخت گیر نظریات میں تبدیلی نہ لائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کچھ نرمی کا اشارہ تو دیا ہے مگر یہ طالبان مخالف قوتوں کے خدشات ختم کرنے کے لیے کافی نہیں۔ سوویت یونین اور امریکہ جیسی سپر طاقتوں کی افغانستان میں پسپائی میں طالبان کے لیے کافی سبق پوشیدہ ہیں اور انھیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف طاقت کے بل بوتے پر افغان عوام کو زیرنگیں نہیں رکھا جا سکتا۔
طالبان کی پچھلی حکومت کے خاتمے کو 20 سال ہوا چاہتے ہیں اور اس عرصے کے دوران ایک نئے افغانستان نے جنم لیا ہے۔ افغانستان کے شہری علاقوں میں ایک واضح تبدیلی اور معاشی ترقی کے صاف نشانات نظر آتے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں کابل میں نئی بلند و بالا عمارتیں نظر آتی ہیں۔ نئی اور بہتر سڑکوں کا ایک جال بچھا دیا گیا ہے اور ماضی کے برعکس کابل ایک صاف ستھرا شہر دکھائی دیتا ہے۔ کابل میں کئی جگہ آپ کو بڑے بڑے شاپنگ سنٹر بھی نظر آتے ہیں۔ اسی طرح دوسری شہری سہولتوں میں بھی قابل توجہ اضافہ ہوا ہے۔ صحت کے شعبے میں کثیر سرمایہ کاری کی گئی ہے جس کی وجہ سے عام شہریوں کو صحت کی بہتر سہولتیں میسر ہوئی ہیں۔ اسی طرح تعلیم کے شعبے میں قابل رشک بہتری آئی ہے اور ہزاروں افغان طالب علم اپنے ہی ملک میں اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریبا دو کروڑ بیس لاکھ افغانیوں کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے۔ نائن الیون کے بعد بعد ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے جو ان سب سہولتوں کی عادی ہو چکی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 60 سے 65 فیصد کے درمیان افغان آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
افغان آبادی کے اس بڑے حصے کے لیے طالبان کا سخت قسم کی پابندیوں پر مبنی اقتدار بظاہر ناقابل قبول ہوگا۔ ان نوجوانوں نے طالبان کے اقتدار کے دوران ایک جابرانہ نظام حکومت کے بارے میں سنا ہوا ہے اور یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی موجودہ سماجی سہولتوں پر مبنی طرز زندگی کے دفاع کے لیے ایک خود رو تحریک کی صورت میں طالبان کی واپسی کا مقابلہ کریں۔ یہ مزاحمت افغانستان کو مزید بدامنی کی طرف لے جا سکتی ہے اور طالبان کے مکمل قبضہ میں ایک بڑی رکاوٹ بھی بن سکتی ہے۔
اس سارے سیاسی کھیل میں نوجوان افغان فوج کی طاقت کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کچھ دہی علاقوں میں افغان فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کو افغان فوج کی کمزوری اور اسے جلد ہی اس کے خاتمے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ افغان فوج کی یہ پسپائی عارضی ہے کیونکہ انہوں نے کافی علاقے حال ہی میں طالبان سے واپس بھی لیے ہیں۔ افغان فوج کی اس عارضی پسپائی کو فوجی ماہرین امریکہ کے اچانک انخلا کے فیصلے سے فوجی سپلائی لائنوں میں تعطل یا خلل پیدا ہونے سے جوڑ رہے ہیں۔ جونہی یہ سپلائی لائن بحال ہو گئیں تو یقینا طالبان کو تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے لیس افغان فوج کی طرف سے مزید سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
طالبان کا افغانستان پر مکمل قبضہ پاکستان میں کچھ حلقوں کے لیے تو اطمینان کا باعث ہوسکتا ہے مگر اس فتح سے پاکستان میں متشدد مذہبی عناصر کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ ریاست پاکستان کے لیے سنجیدہ سلامتی کے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت ان متشدد گروہوں میں سرایت کرکے ہمارے لیے سلامتی کے گھمبیر مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اس لئے ہماری کوشش کابل میں طالبان کی مکمل فتح کی امید کرنے کی بجائے ایک ایسی وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کی کوشش ہونی چاہیے جس میں ساری سیاسی اور نسلی قوتیں شامل ہوں۔
(کالم نگار پاکستان کے سابق سفیر ہیں)
٭……٭……٭