زندگی کے دو بنیادی اجزا ہیں پہلے نمبر پر خوشی اور دوسرے نمبر پر دکھ یا غم۔ اور ہم انسانوں کا جب ان سے آمنا سامنا ہوتا ہے تو ہمارا ردعمل دینا ایک فطری عمل ہے۔ جیسے خوشی کی خبر سن کر وہ جھوم اٹھتا ہے، ناچ اٹھتا ہے مگر جب غم کی کوئی خبر سنتا ہے تو اس کا ردعمل مختلف ہوتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں ثقافت کا جنم ہوتا ہے، کیونکہ کچھ ردعمل اگر ہمارے احساسات وضع کرتے ہیں تو قوائد و ضوابط معاشرتی اقدارمہیا کرتے ہیں۔ یہ ثقافت ہی ہے جو معاشروں میں تقسیم کو ختم کرتی ہے اور لوگوں کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے۔
کیونکہ اس رکن صوبائی اسمبلی کے مطابق کسی معاشرے میں اس کے تہوار اور خاندانی تقریبات، جیسا کہ شادی، بیاہ وغیرہ اس کی معاشرتی و ثقافتی روایات اور مذہبی تعلیمات کی آئینہ دار ہوتی ہیں اور ایسی محافل میں نہ صرف رقص کے نام پر انتہائی فحش اور بے حیائی سے بھرپور مجروں کا اہتمام کیا جاتا ہے بلکہ شراب کے نشے میں دھت شرکاء (ویسے اس کی جگہ شرفاء لکھنا چاہیے) انتہائی غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔
قرارداد پر بحث کے دوران کچھ ارکان نے اس کی مخالفت میں بہت مثبت دلائل بھی دیے تھے۔ مجموعی طور پر مجھے اور حاجی صاحب کو پنجاب اسمبلی کے اس سیشن میں جمہوریت کے رنگ حاوی دکھائی دیے جس سے یہ یقین بھی ہوا کہ ملک میں جہوریت نافذالعمل ہے اور ہمارے ارکان کچھ ایسی قانون سازی بھی کرسکتے ہیں۔ مگر دوسری طرف افسوس اس پر ہوا کہ کیا صوبے کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ شادی بیاہ میں ڈھول باجے، گانے، رقص اور شراب و شباب کی محافل ہیں؟ اور کیا ایسا پنجاب کی ہر شادی میں تسلسل کے ساتھ ہورہا ہے؟ ہر شادی کی تقریب میں رقاصاؤں یا خواجہ سراؤں کا جنسی استحصال پابندی کے ساتھ مجموعی طور پر کیا جاتا ہے؟
ہماری اس معزز رکن صوبائی اسمبلی کا تعلق یقیناً اسی صوبے سے ہوگا اور انہیں یہ علم بھی ہوگا کہ پنجاب جو کبھی میلوں اور تہواروں سے بھرپور ہوتا تھا، اب اس میں بچا ہی کیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا شہر لاہور اسموگ کی زد میں آکر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پر آچکا ہے۔ پنجاب جو کبھی پانچ دریاؤں کی سرزمین تھا اور جس میں جنگلات کی بہتات تھی، جس کا ایک قدیم اور تاریخی ثقافتی ورثہ ہے، جس نے نہ صرف اس پر بسنے والوں کو ایک دوسرے سے جوڑا بلکہ دور دور کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچا۔ اس سرزمین کا ہر تہوار ہر جلوس اور شادی بیاہ کی رسوم صاف ستھری تہذیب کو بیان کرتی ہیں اور انہی لوازمات سے بھرپور ہیں۔ یہ فیصلہ اگر لوگ طے کریں کہ انہوں نے اپنی خوشیاں، تہوار یا اپنے غم اپنی ثقافت کے مطابق اپنے آبا و اجداد کے طریقے سے منانے ہیں تو پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے کسی بھی صوبہ میں ایسی کوئی بداخلاق، بدتہذیب یا غیر اخلاقی رسم یا تہوار نہیں، جسے خاندان بھر کے افراد ایک ساتھ مناتے ہوئے یہ محسوس کریں کہ یہ اخلاقی، معاشرتی اور جرم کے زمرے میں آتا ہے اور اگر کوئی ایسی رسم یا تہوار ہے تو پھر یہ مجرمانہ سرگرمی ہوگی جسے ثقافتی آڑ میسر ہوگی۔
جب صوبہ بھر میں پتنگ اڑانے، بیچنے اور بنانے پر پابندی لگائی گئی تھی تو کیا آج پتنگ کی کیمیکل والی ڈور سے مرنے کا سلسلہ رک گیا ہے یا ڈور کے سرے پر لگی لوہے کی تاریں بجلی کے بریک ڈاؤن کا اور ٹرانسفارمرز کی تباہی کا باعث نہیں بن رہیں؟ ہم نے اس پر پابندی لگا کر نہ صرف ایک خوبصورت تہوار کو گم کردیا بلکہ پتنگ بازی کی ایک پوری صنعت کو تباہ کرتے ہوئے لاہور شہر سے اس کی شناخت ہی چھین لی۔
اب اگر کسی شادی کی تقریب میں فائرنگ، شراب و رقص کی محافلیں جاری و ساری رہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا جب یہی حل آسان لگے گا کہ گلی محلے، گھر یا میرج ہال میں دلہا دلہن، دو گواہان اور نکاح خواں کے علاوہ کسی بھی چھٹے شخص کا پایا جانا سنگین جرم سمجھا جائے گا اور نکاح و رخصتی ضلع انتظامیہ کے فلاں درجہ کے مجسٹریٹ کے روبرو ہی ممکن ہوگی۔ نہ باجا ہوگا اور نہ ہی باجا بجے گا۔
اگر کوئی ایسا واقعہ ہو بھی جاتا ہے جس میں بیک وقت اخلاقی و قانونی جرائم سرزد ہورہے ہوں تو ایسے میں بلاتفریق ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حرکت میں آکر میرٹ پر انصاف کرنا ہوگا اور قوانین تو پہلے سے موجود ہیں لیکن اگر انہیں ہم نے شادی بیاہ یا تہوار سے منسلک کردیا تو یہ بنیادی حقوق کی نہ صرف خلاف ورزی ہوگی بلکہ معاشرے کو گھٹن زدہ کرتے ہوئے متشدد رویوں کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہوگی۔