All posts by Daily Khabrain

گزشتہ20دنوں کے شوشے

سید سجاد حسین بخاری
گزشتہ20دنوں میں ملک بھر میں خطرناک حد تک قیاس آرائیاں ہوتی رہیں جس سے نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی طور پر بھی اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا معاملہ تھا جس کے لئے ایک مخصوص قسم کا طریقہ کار ہے جسے اپنانا ضروری ہوتا ہے اور اس کیلئے 20دن لگ گئے۔ ماضی میں پہلے فائل ورک مکمل کرکے وزیراعظم آفس کو بھیجا جاتا تھا پھر ملاقات میں اس پر اتفاق رائے قائم کرکے آئی ایس پی آر سے اعلان کروایاجاتا تھا مگر اس دفعہ فائل ورک بعد میں اور اعلان پہلے کیاگیا اور سوشل میڈیا پر ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا خط جاری نہ ہونے پر شوشہ چھوڑ دیا گیا اور یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور تبصرے شروع ہوگئے۔ حکومت مخالف میڈیا گروپ نے خوب تبصرے کئے اور حکومت کو خوب لتاڑا۔
کمال یہ ہے کہ جو فوج پر گزشتہ تین سالوں سے نام لیکر الزام تراشی کررہے تھے وہ بھی فوج کے ہمدرد بن گئے اور وہ بھی کہنے لگے کہ حکومت نے اپنی فوج کے ساتھ بُرا کیا ہے۔ دنیابھر میں ہماری فوج کی رسوائی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ نومبر میں حکومت کا دھڑن تختہ بھی ہونے کے دعوے کئے جارہے تھے اور اس کا نقشہ یار لوگوں نے اس طرح بنایا کہ فوج کا سربراہ اب حکومت مخالف ہوگیا ہے اب اگر وزیراعظم آرمی چیف کی مرضی کا ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو تعینات نہیں کرتے تو پھر فوجی قیادت حکومتی اتحاد میں شامل ایم کیو ایم‘ جی ڈی اے اور ق لیگ کو الگ کرکے پہلے پنجاب اسمبلی اور پھر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریکوں کے ذریعے حکومت کا خاتمہ کردے گی۔ کچھ عقل کے اندھے اور نام نہاد تجزیہ نگاروں نے اپنے حلقہئ یاراں میں یہاں تک بھی تبصرے کئے ”قبر ایک ہے اور مردے دو“۔ سوال کیاگیا کہ حضوروہ کیسے؟جواب ملا کہ وزیراعظم اگر جنرل ندیم احمد انجم کا خط جاری نہیں کرتے تو پھر مارشل لا بھی لگ سکتا ہے یا پھر وزیراعظم فوجی سربراہ کو ملازمت سے فارغ بھی کرسکتے ہیں استغفراللہ۔ یعنی ان 20دنوں میں جتنی بیہودہ اور واحیات تبصرہ نگاری ملک بھر میں کی گئی اس سے محب وطن لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی۔ ہر روز نیا شوشہ چھوڑا جاتا کہ حکومت یوں کرنے جارہی ہے اور آگے سے جواب یوں دینے کی تیاری ہوچکی ہے۔ ان 20دنوں میں افواہ ساز اور جھوٹ کی ان فیکٹریوں نے ڈالر کوپَر لگادیئے۔ سٹاک ایکسچینج میں گراوٹ‘ سونے اور اشیا خوردنی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کردیا جس سے غریب کی زندگی اجیرن ہوگئی۔
ان 20دنوں میں سنجیدہ صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کا ایک گروپ بھی موجود تھا حالانکہ اس میں چند حکومت مخالف لوگ بھی تھے جنہوں نے خاموشی اختیار کی اور بس ایک ہی جملہ کہا کہ ہمارے نزدیک فوج اور حکومت چونکہ گزشتہ تین سالوں سے ایک صفحے پر ہیں لہٰذا نوٹیفکیشن صرف جنرل ندیم احمدانجم کا ہی ہوگا اس کے علاوہ اس سنجیدہ گروپ نے نہ حکومت کی تبدیلی اورنہ خاتمے کی بات کی اور نہ ہی فوجی سربراہ کی نوکری کے بارے میں کوئی تبصرہ کیا۔ یہ سب چہ میگوئیاں فوج مخالف گروپ نے کیں جس سے ہماری جگ ہنسائی ہوئی اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ حکومتی وزیروں کی اکثریت بھی عقل کا استعمال کم کرتی ہے ورنہ میڈیا پر وہ اس مسئلے کو سنبھال سکتے تھے۔ بہرحال ان 20دنوں میں جو کچھ ہوا وہ بُرا ہوا اور اس میں حکومتی کمزوری اور نااہلی سرفہرست ہے۔ اب یار لوگ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ سعودی عرب کا دورہ کس نے کرایا؟امریکی اہلکار خصوصی طور پر سعودی عرب میں وزیراعظم کو کس پروگرام کے تحت ملنے کے لئے آئے؟ سعودی عرب نے 3ارب ڈالر اور ایک ارب 20کروڑ ڈالر کا تیل ادھار کس کی سفارش پر دیا؟ اورآئی ایم ایف نے بھی پاکستان کا قرضہ وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب سے پہلے کیوں منظور نہیں کیا؟ ان سب کرم فرماؤں کی محنت کس نے کی؟ عمران خان گزشتہ ماہ امریکی نائب وزیرخارجہ سے کیوں نہیں ملے تھے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے پیچھے ان 20دنوں کی کہانی چھپی ہے جس کی تفصیل پھر سہی۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

انجلا ایگلر،یہ ملاقات اِک بہانہ ہے

عارف بہار
آئی ایس آئی کی سربراہی کے سوال پر سول ملٹری کشمکش کے آثار کیا پیدا ہوئے کہ امریکی ناظم الامور انجلاایگلرنے اچانک حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ براہ راست رابطے شروع کر دئیے۔امریکی ناظم الامور نے لاہور میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف،مریم نواز کے ساتھ ساتھ چوہدری پرویز الٰہی سے بھی ملاقات کی اور بتایا گیا کہ امریکی ناظم الامور نے ان راہنماوں کے ساتھ خطے کے معاملات اور باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی۔امریکی سفارت کاروں کا پاکستانی سیاست میں سرگرم ہو کر کردار ادا کرنا یا اپنی موجودگی کا احساس دلانا کوئی نئی بات نہیں۔ماضی میں امریکی سفارت کار اعلانیہ اور دھڑلے سے پاکستان کی سیاست کا نین نقش تراشا کرتے تھے۔
ملکی سیاست میں سرگرم جاگیردار،گدی نشین اور سرمایہ دار امریکی سفار ت خانے کا چکر لگا کر سیاسی بادنما پر آنے والے موسموں کا اندازہ کرتے تھے اور اس کے بعد اپنا رخ اسی سمت میں کرتے تھے۔ان وڈیروں،سرمایہ داروں اور پیر صاحبان کو جدید اصطلاح میں الیکٹیبلز کہا جانے لگا ہے۔کبھی امریکی سفارت کا ر خود انہیں کسی مشترکہ شکار کے دوران،کسی شام کی محفل اور پارٹی میں آنے والے موسموں کی رتوں کا پتا دیتے تھے اور کبھی یہ خود امریکی سفار ت خانے کا طواف کرکے مستقبل شناسی کرلیتے تھے۔جب سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بگاڑ آیاہے اور امریکہ اور ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کے تار کمزو ر پڑتے چلے گئے امریکی سفارت کاروں کی سرگرمیوں کا یہ انداز بھی بدل کر رہ گیا۔اس کے بعد امریکہ خلیجی ملکوں کے سفارت کاروں اور خصوصی نمائندوں کے ذریعے پاکستانی سیاست کی الجھی ہوئی زلف کو سلجھانے لگا۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان میں ان برادر اسلامی ملکوں کی اس ادا کو مداخلت سمجھا گیا اور رائے عامہ میں شدید ردعمل سامنے آیا۔
امریکہ سے سو جوتوں او ر سو پیاز کا رشتہ تو تاریخ کے ایک جبر کے طور پر گوارا ہی تھا مگر برادر ملکوں کی یہ ادا برداران ِ یوسف کی سی شبیہہ بنانے کا باعث بنتی رہی۔جس کے بعد ان ملکوں نے بھی اپنی اس انداز سے موجودگی میں احتیاط برتنا شروع کی۔جنرل مشرف سے کمانڈ اینڈ کنٹرول سٹک حاصل کرنے کے بعد جنرل کیانی نے پاکستان کے طول عرض میں امریکی کنٹریکٹرز،این جی اوز سمیت پس پردہ کام کرنے والے افراد کو واپس بھیجنے کے مشکل ترین کام کا آغاز کیا تو یہ سلسلہ کم نہیں ہوا اور چند برس میں مکمل ہوگیا تو جواب میں امریکہ نے پاکستانی فوج کے ساتھ اپنے ماضی کے رشتوں اور تعلقات کا بوجھ اتارنا شروع کیا۔ اورسلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے کے انداز میں امریکہ کی فوجی اکیڈمیوں میں پاکستانی فوجی کی تربیت، مشترکہ مشقوں کا سلسلہ اور جدت لانے کے لئے فنڈز دینے کے تمام سلسلے ختم کردئیے۔ اب تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پچہتر سالہ تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔موجودہ حکومت کے دوران تو ان تعلقات کی حالت مزید پتلی ہو کر رہ گئی۔یہاں تک کہ امریکی صدر جوبائیڈن ہمارے وزیر اعظم سے ٹیلی فونک گفتگو سے بھی گریز کا راستہ اپنائے ہوئے ہیں اور جواباً وزیر اعظم عمران خان اس سے کمتر درجے کے کسی اہلکار کو منہ لگانے سے انکار کی راہ پر چل رہے ہیں۔کیسے کیسے طاقتور اہلکار ان کی دہلیز کے پاس سے گزر گئے مگر نہ حال احوال پوچھا گیا اور نہ چائے کی پیالی کی دعوت ملی بلکہ تعلقات کا بھرم رکھنے کو ایک تصویر بنانے کی نوبت بھی نہ آسکی۔
پہلے امریکہ پاکستان کے لئے اوپر والا ہاتھ تھا جو کچھ رعایتیں،چند سہولتیں اور مشکل لمحوں میں کچھ سہارا دیتا تھا اور لامحالہ نیچے والے ہاتھ بہت سی خواہشات کا احترام کرنے پر مجبور ہوتا تھا۔جب سے اوپر والے اور نیچے والا ہاتھ کا یہ رشتہ کلائی مروڑنے والے ہاتھ میں بدل گیا ہے تب سے پاکستان امریکہ کے دوستانہ اثر رسوخ سے آزاد ہو گیا ہے۔اب امریکہ کے پاس پاکستان کو کوئی بات کہنے لئے دباؤ اور دھمکی ہی باقی رہ گئی ہے۔دباؤ اور دھمکی کا کیا اثر ہوا تو ہوا نہ ہوا تو وقت کا دھارا اپنے ہی انداز سے بہتا چلا جاتا ہے۔ایسے میں سول ملٹری کشمکش کا تاثر ابھرتے ہی امریکی سفارت کا روں کا مسلم لیگ کی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں سے کوئی طوفان تو شاید ہی اٹھے مگر اس مرحلے پر یہ دونوں فریقوں کے لئے ایک جُوّا ہے۔یہ فریقین کے درمیان نظریہ ء ضرورت کا اطلاق تو ہے مگر اس کی حیثیت علامتی ہی سہی مگر اس نے فریقین کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچایا۔یہ ملاقات امریکی خواہش پر ہوئی یا مسلم لیگ کی دعوت پر مگراس کا کوئی نہ کوئی تعلق موجودہ سول ملٹری کشمکش کی خبروں سے ضرور ہے۔اس مرحلے پرمسلم لیگ ن نے ملکی اسٹیبلشمنٹ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ امریکہ ان کی پشت پر ہے اور اگر اسٹیبلشمنٹ ان پر اعتماد کرے تو وہ امریکہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پُل کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور امریکہ کو پاکستان کی کلائی مروڑنے کے عمل سے باز رکھ سکتے ہیں۔امریکہ اور پاکستان کے سٹریٹجک مفادات میں اتنی دوری پیدا ہو گئی ہے کہ اسے قربت میں بدلنا مسلم لیگ یا پیپلزپارٹی کے بس میں نہیں۔دونوں کے بس میں ہوتا تو اپنے ماضی قریب کے دو الگ ادوا ر میں وہ یہ کارنامہ انجام دی چکی ہوتیں۔دونوں کوشش بسیار کے باجود اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
دوسری طرف بظاہر دباؤ میں آئے ہوئے عمران خان کو امریکہ نے یہ پیغام دیا کہ ”ہرگز نہیں“ کا جواب ان کے پاس موجود ہے کہ وہ ان کے سخت گیر ناقدین کے ساتھ معاملات طے کرسکتا ہے۔وہ یہ بات بھول گئے کہ ہرگز نہیں سول حکمران کا تنہا فیصلہ نہیں بلکہ یہ سول ملٹری مشترکہ اعلامیہ ہے۔اس پارٹنر شپ کو توڑکر بھی اس فیصلے کو بدلا تو نہیں جا سکتا مگر اس میں کسی حد تک نقب لگائی جا سکتی ہے۔اس طرح پاکستان پر اثرو رسوخ کی صلاحیت سے محروم امریکہ نہ پاکستان کی اپوزیشن کو کچھ دے سکتا ہے اور نہ اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد سے محروم حزب مخالف کی کوئی جماعت امریکہ کو کوئی عملی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔یوں ان ملاقاتوں پر کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کاکا محاورہ ہی صادق آتا ہے۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

بحیرہ عرب میں موجودگی کیلئے بھارتی آبدوزوں کی کوشش

زیان تعمیر
16اکتوبر2021 کو تقریباً آدھی رات کے وقت پاکستان نیوی کے اینٹی سب میرین ہوائی جہازوں میں سے ایک نے پانی میں ایک مبہم سی شہ کا سراغ لگایا۔ پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق اس رات وہ ہوائی جہاز اپنی معمول کے گشت پر تھا۔ اس مہم سے نشان شہ کا تعاقب کیا گیا اور اسے ہوائی جہاز پر موجود مختلف سنسرز سے دیکھا گیا۔ ایکٹو،پیسوو اور بصری تلاش نے یہ بات واضح کر دی کہ یہ ایک بھارتی کلویری کلاس آبدوز ہے۔ بحری زبان میں آبدوز کو دیکھ کر پہچان لینے کو certain submarine contact یا عرف عام میں certsub کہا جاتا ہے۔ اس طرح کا واقعہ تیسری بار ہوا ہے، پہلی بار 14 نومبر2016 کو ایسا واقعہ ہوا تھا جب پاک بحریہ کے لانگ رینج میری ٹائم پٹرول ہوائی جہاز نے بھارتی 209کلاس (جرمنی کی تیار کردہ) آبدوز کا سراغ لگایا تھا۔ اس سراغ لگانے کو بھارت نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
4مارچ2019کو پلوامہ معاملے کے دوران، پاک بحریہ کے پی تھری سی اورین ائیرکرافٹ نے مکران کوسٹ کے قریب کراچی سے دور بھارت کی کلویری کلاس آبدوز کا سراغ لگایا تھا۔ اس کے خاکے، پیری اسکوپ اور دیگر حرکات سے یقین ہوگیا کہ وہ بھارتی آبدوز ہے۔ اگرچہ بھارت نے پاکستان کے اِن دعووں کو میڈیا کے ذریعے مسترد کر دیا لیکن جب وہ شکستہ آبدوز 2سے3میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھر واپس گئی اور جب ممبئی کی بندرگاہ میں داخل ہوئی تو بھارتی بحریہ کے سب میرین کمانڈر کو فارغ کر دیا گیا۔ اکتوبر16 کو سراغ لگائی جانے والی آبدوزکے دعوؤں کو بھی بھارتی میڈیا نے یہ کہتے ہوئے مسترد کیاکہ یہ دعوے غیر تصدیق شدہ ہیں جب کہ دفاعی ذرائع نے ابھی اس موضوع پر کوئی رائے نہیں دی ہے۔
آبدوز کا پکڑا جانا اس وقت ہوا ہے جب کہ بھارتی فوج اثرورسوخ قائم رکھنے کے لیے اپنے جنگی کمانڈاینڈ کنٹرول طریقہ کار کی تنظیمِ نو پر بحث کر رہی ہے۔ ایک میری ٹائم تھیٹر کمانڈ بنانے کی تیاری ہے جس کا بنیادی مقصد بحیرہ عرب کے معاملات خصوصا پاکستان پر نظر رکھنا سمجھا جا رہا ہے۔ حال ہی کی آپریشنل ریکانفیگریشن کے علاوہ، بھارتی فوج پچھلے بیس سالوں میں کئی دفاعی اور آپریشنل نظریوں پر عمل درآمد کر کے انھیں چھوڑ چکی ہے۔ مارچ 2020میں زمینی جنگ کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار میں بھارتی آرمی چیف ایم ایم نروا نہ کے خطاب کے مطابق اِن میں سندر جی کابیک وقت اور گہرے دھچکے سے کولڈ اسٹارٹ اورImprovised Proactive Ops سے لے کر متحرک ریسپانس کے نظریے شامل ہیں۔
بھارت کی تھیٹر کمانڈز، امریکی گولڈ واٹر نکولس اسکیم کی طرز پر جوائنٹ ملٹری کمانڈز ہوں گی جنھیں تھری اسٹار فوجی افسران کمانڈ کریں گے۔ اِن جغرافیائی جنگی کمانڈز کا مقصد تمام ذرائع کو استعمال کرنا ہے اور بھارت کی سلامتی اور دفاعی مفادات کو لاحق کثیر الجہتی خطرات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ بھارت کی دفاعی کمیونٹی یقین رکھتی ہے کہ چین اور پاکستان دونوں اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں لہٰذا یہ ہی جوائنٹ تھیٹر کمانڈز بنانے کا جواز بھی ہے۔ آبدوزوں کی تعیناتی میری ٹائم تھیٹر کمانڈ کے تحت ہو گی جسے بھارتی بحریہ کے ایک سینیئر رینک کے افسر کمانڈ کریں گے۔
بھارتی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت پچھلے کچھ سالوں میں سخت جانچ پڑتال میں رہی ہے۔ پلوامہ کے بعد ہونے والی سرجیکل اسٹرائیک کے جواب میں پاکستان ائیرفورس نے آپریشن سوئیفٹ ریٹورٹ کیا اور دو بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے، جس پر بھارت نے معاملہ نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ 2016میں اڑی کے واقع کے بعد بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک کی کوشش کا کوئی خاص فائدہ حاصل نہ ہو سکا حالاں کہ اس اسٹرائیک کے حوالے سے کافی جشن بھی منایا گیا۔ بھارت کا پاکستان کے ان علاقوں، جہاں اس کے حساب سے بھارت مخالف دہشت گرد پناہ لیے ہوتے ہیں، پر حملہ کرکے اسے نیونارمل کرنے کے مقاصد ناکام ہوئے کیونکہ پاکستان نے جارحانہ جواب دینے سے گریز نہیں کیا۔
پاکستانی پانیوں میں اور اس کے قریب بھارتی آبدوزوں کی تعیناتی کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ یہ چھپے پلیٹ فارمز دفاعی اور معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے اہم معلومات جمع کر سکتے ہیں جنھیں بعد میں ملٹری آپریشنز کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈیزل الیکٹرک آبدوز کا امن کے وقتوں کا بنیادی مشن معلومات حاصل کرنا ہی ہوتاہے۔ ان آبدوزوں کا ایک اور منفرد فائدہ ان کی کم گہرے پانی میں رہنے کی صلاحیت ہے کیوں کہ ساحل کے قریب کم گہرائی میں موجود رہ کر یہ کشیدہ صورتحال کے دوران مرچنٹ جہازوں کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
کسی بھی جدید بحری فوج کے لیے بھی پانی میں چھپی آبدوز کا سراغ لگانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بحیرہ عرب میں یہ کام اور مشکل ہو جاتا ہے جہاں گہرائی اورحرارت کا تناسب اور ساتھ ہی آواز کی لہروں کا بہا آبدوز کو چھپے رہنے میں معاونت فراہم کرتا ہے۔ البتہ قسمت سے کوئی موقع ہاتھ لگ سکتا ہے جب آبدوز کا سراغ لگانا اور اسکا پیچھا کرنا ممکن ہوتا ہے لیکن اس کے لیے مکمل فوکس، چوکنا رہنا اور بہترین پیشہ ورانہ مہارت درکار ہے۔ پیری اسکوپ گہرائی پر موجود آبدوز ریڈار کو ایک بہت ہی چھوٹا Cross Sectionalایریا دیتی ہے جس کے ذریعے اس کا سراغ لگایا جاتاہے۔
بھارتی بحریہ کی آبدوز آپریشنز کی تاریخ کئی حادثوں اور نقصانات سے بھری ہوئی ہے۔ ایک پاکستانی آن لائن میگزین، میری ٹائم اسٹڈی فورم کے مطابق بھارتی آبدوز سندھوگھوش 2008 میں حادثے کا شکار ہوئی، سندھودرکشک پر 2010میں آگ لگنے کا واقعہ ہوا اور 2013 میں اس میں پانی بھر گیا جس کے باعث وہ ڈوب گئی، شان کش پر 2010میں آگ لگنے کا واقعہ ہوا، سندھو رتنا پر 2014میں بڑے پیمانے پر آگ لگ گئی اور آریہانتھ میں بھی 2017 میں پانی بھر گیا جس کے باعث وہ 9مہینے تک کار آمد نہ رہ سکی۔ پیری اسکوپ گہرائی پر آبدوز پکڑے جانے کی وجہ آبدوز کے کچھ تکنیکی مسائل بھی ہو سکتے ہیں ورنہ ایک آبدوز کا کمانڈر دشمن کے پانیوں کے قریب کبھی بھی نظر نہیں آنا چاہے گا۔ ناکامیوں کا سلسلہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ایسے حادثے بھی رونما ہوئے ہوں گے جو رپورٹ ہی نہیں کیے گئے اور مجموعی طور پریہ بھارتی بحریہ کے ناکام آبدوز آپریشنز کے ریکارڈ کی نشاندہی ہے۔
بھارتی آبدوزوں کے آپریشنل حالات کے باعث یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی آبدوزوں کولے کر مستقبل میں ایسی کوئی صورتحال سامنے آئے تو پاکستان کو جارحایہ ردِ عمل کی ترغیب دے سکتی ہیں۔ بحیرہ عرب پر حکمرانی کرنے کی بھارتی خواہش آبدوزوں کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر تو ممکن نہیں ہے۔ آبدوزوں کا سراغ لگ جانا اور ساتھ ہی بھارت کے اندر یورینیم کی چوری کے مختلف واقعات بھارتی دفاعی منصوبہ سازوں کے لیے معاملات مشکل بنا رہے ہیں اور انھیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ تھیٹر کمانڈز کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے خلاف اپنے آپریشنل انتخابات پر نظرِ ثانی کریں۔ بھارتی بحریہ کے لیے یہ امر قابلِ غور ہونا چاہیے کہ جہاں ہو بیلیسٹک میزائل لے جانے والی نیوکلئیر آبدوزیں چلانے کا ارادہ کر رہے ہیں وہاں انھیں ایک ایسی بحری فوج نہیں بننا چاہیے جسے آئے دن certsubکا سامنا کرنا پڑتا ہو۔
(کالم نگار لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

اقتدار کا غرور

نجیب الدین اویسی
آج میں جو کالم لکھ رہا ہوں مجھے خدشہ ہے جب میں 2023ء میں اپنی پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے بورڈ کے سامنے انٹرویو دینے جاؤں گا تو بہت سے عمائدین مسلم لیگ اراکین بورڈ کے سامنے صدائے احتجاج بلند کریں گے۔ اس باغی کو ہر گز ٹکٹ نہ دیا جائے۔ اس کا قلم ہمیشہ زہر اگلتا رہتا ہے۔کوئی مرد مومن اس وقت یہ نہیں کہے گا یہ ہمیشہ سچ لکھتا تھا۔ اس کا مقصد پارٹی میں اصلاح احوال ہوتا تھا۔خیر مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ میں ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہوں میرا ایمانِ کامل ہے عزت ذلت میرے رب کے اختیار میں ہے۔ آج میں جن وزراء کا ذکر کر رہا ہوں وہ سابق وزراء ہیں۔
مجھے یاد ہے 95ء میں جب بینظیر بھٹو شہید کی حکومت تھی۔ مسلم لیگ مسجد شہداء(مال روڈ لاہور) سے پنجاب اسمبلی تک احتجاجی جلوس نکالا۔ پورے پنجاب سے کارکنوں کو کال دی گئی تھی۔ میں بھی اپنے دوستوں کیساتھ مال روڈ پہنچا۔جب ہمارا جلوس مسجد شہداء کے سامنے پہنچا تو کنٹینر پر مسلم لیگ کے لیڈران موجود تھے۔ مجھے میرے دوستوں نے کندھوں پر اٹھا کر کنٹینر پر پہنچایا۔
راجہ نادر پرویز نے نا صرف میرا پر تپا ک استقبال کیا بلکہ میری گردن پر پر جوش بوسہ بھی دیا۔97ء میں پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ کی حکومت بن گئی۔ راجہ نادر پرویز وفاقی وزیر مواصلات بن گئے۔ ہمیں ان سے ایک کام تھا، ہم پانچ ممبران پنجاب اسمبلی ان کے دفتر گئے۔ مگر وہ دفتر نہیں تھے۔ ان کے دفتر سے ہمیں ایک شریف آدمی نے بتایافلاں بلڈنگ میں وزیر موصوف نے اپنا خفیہ دفتر بنا رکھا ہے وہ وہیں بیٹھے ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے ان کے PAکے کمرے میں بیٹھے تھے ایک کارڈ پر اپنے نام لکھ کر صاحب موصوف کے پاس بھجوائے۔یہ اطلاع سنتے ہی راجہ صاحب غصے سے پھٹ پڑے: کس نے انہیں یہاں کا ایڈریس بتایا؟
وزیر بننے سے پہلے انکا رویہ کیا تھا، وزیر بننے کے بعد کیسے ہوگیا۔
98ء میں ممبر پنجاب اسمبلی کی حیثیت سے میں سلیم اقبال جو صوبائی وزیر جنگلات تھے کے پاس ایک درخواست لے کر گیاتو انہوں نے بڑے تحکمانہ انداز سے مجھ سے پوچھا میں تنظیمی امور کے لئے بہاولپور گیا تھا۔ آپ وہاں کیوں نہیں آئے؟میں نے انہیں جو جواب دیا ایسا جواب انہوں نے زندگی بھر کسی سے نہ سنا ہوگا۔
دوسرا واقعہ 98ء میں ذوالفقار کھوسہ جو صوبائی وزیر خزانہ تھے کے پاس ایک درخواست لے کر گیا۔وہ چیخنے چلانے لگے۔ ان کے الفاظ تھے ”کہیں ہمیں چین نہیں، کوئی کام بھی کرنے نہیں دیتے۔“میرا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ جہاندیدہ کھوسہ سردار کومیرے سخت ردعمل کا اندازہ ہوگیا۔ انہوں نے فوراََ درخواست پر احکامات لکھنے شروع کردئیے۔
2013ء کے ہمارے وزراء صاحبان کی اکثریت ہم غریب ایم این ایز کی لابی میں ہمارے ساتھ بیٹھ کر چائے پینا، گپ شپ لگانا اپنی توہین سمجھتی تھی۔2013ء میں ہمارے وزیر خزانہ اسحق ڈار تھے جن سے ملنا وزیراعظم سے ملاقات سے بھی زیادہ مشکل ہوتا تھا۔ میرے دوستوں نے بتایا ہم پانچ پانچ ممبران ان کے دفتر میں گھنٹوں ملاقات کے لئے بیٹھ بیٹھ کر یہ جواب لے کر واپس آتے صاحب مصروف ہیں آپ سے نہیں مل سکتے۔ چوہدری نثار کا بھی یہی حال تھا۔ میں فقیر سا آدمی ہوں۔ میں نے کبھی بحیثیت ممبر صوبائی و قومی اسمبلی، وزیر اعلیٰ وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ دو مرتبہ وزیر اعلیٰ (میاں شہباز شریف) بحیثیت ممبر صوبائی اسمبلی، دو مرتبہ وزیراعظم (میاں نواز شریف) سے ان کی طرف سے ملاقات کی خواہش پر ان سے ملاقات کی۔
میرا بتانے کا یہ مقصد ہے میں اسحق ڈار یا چوہدری نثار کے بارے میں اس لیے تنقید نہیں کر رہاکہ میرے ساتھ کچھ ایسا ویسا رویہ روا رکھا گیا۔
میں دو مرتبہ احسن اقبال کے دفتر میں گیا۔پہلی مرتبہ مجھے کہا گیا ان کے پاس ایئرفورس کے ایک آفیسر بیٹھے ہیں۔ مجھے دو گھنٹے انتظار کروایا۔ دوسری مرتبہ دو تین گھنٹے انتظار کروایا صاحب مصروف ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن میں اس پروفیسر سے سلام دعا لینا بھی اپنی توہین سمجھتا ہوں۔
خواجہ سعد رفیق کے پاس میں ریاض پیرزادہ، بلیغ الرحمن کو لے کر گیا۔ ایک خاتون جو سولہ سال تک ریلوے سکول پڑھا چکی تھیں انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ خواجہ سعد رفیق نے ہم سب کو ٹکا سا جواب دیا۔
میں 2015ء میں پارلیمانی سیکریٹری کامرس بنایا گیا۔ خرم دستگیر کامرس کے وزیر تھے ان کا رویہ مجھ سے دوستانہ تھا۔ شاہد خاقان عباسی جب وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے کابینہ میں ردو بدل کیا، نئے وزراء بھی بنائے گئے۔ خرم دستگیر وزیرِ دفاع بنا دیے گئے۔ پرویز ملک مرحوم وفاقی وزیر کامرس، حاجی محمد اکرم انصاری وزیر مملکت کامرس بنا ئے گئے۔ایک دن اجلاس سے باہر نکلتے ہوئے میرا حاجی اکرم انصاری سے آمنا سامنا ہوگیا۔ انہوں نے مجھے بڑے تحکمانہ انداز میں ارشاد فرمایا: فلاں دن فلاں جگہ ایک میٹنگ ہے آپ نے وہ میٹنگ attendکرنی ہے۔ میں نے برجستہ جواب دیا آپ دو وزیر ہیں، آپ جائیں میں نہیں جاؤں گا۔دوسرے دن انہوں نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے کہہ کر مجھے کامرس کے پارلیمانی سیکریٹری سے تبدیل کر کے اینٹی نارکوٹکس کا پارلیمانی سیکریٹری کا نوٹیفیکیشن کروا دیا۔میں خاموشی سے نارکوٹکس کے دفتر چلا گیا۔ میں نے اپنے دونوں وزراء صاحبان سے کوئی بات بھی نہ کی۔
اویس لغاری واپڈا کے وفاقی وزیر بنے، میں بڑی حُجت کیساتھ ان کے پاس گیا۔ ایک معمولی سا کام کہا، انہوں نے مجھے ایک لمبا چوڑا لیکچر دے ڈالا۔ مجھے اس وقت کے وزراء پر اس دوران بڑا غصہ آتا تھا۔ آج یہ سارے وزراء ہم غریب ایم این ایز کی لابی میں آکر بیٹھتے ہیں۔ ہر ایک سے زبردستی گلے ملتے ہیں، گفتگو کی کوشش کرتے ہیں۔ اب مجھے ان پر بڑا ترس آتا ہے۔ میں دل ہی دل میں انہیں بے چارے وزراء کہہ کر ہنس دیتا ہوں۔
افسوس ہم معمولی اقتدار کے وقت اپنی اوقات کیوں بھول جاتے ہیں۔ انسان خود فانی ہے۔ پانی کے بلبلہ کی مثل ہے۔مجھے امید ہے اگر ہمارے پارٹی برسر اقتدار آئی تو یہی لوگ دوبارہ کابینہ کا حصہ ہوں گے۔ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ اس لیے لکھ رہا ہوں، شاید اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
(کالم نگارمعروف پارلیمنٹیرین ہیں)
٭……٭……٭

ریاست مدینہ کا شاکر شجاع آبادی

ڈاکٹر محمدممتاز مونس
شاکر شجاع آبادی کو اس عہد کا اقبال کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ اس پائے کا الحامی شاعر اس عہد میں شاید کوئی اور نہ ہو جس نے غریب مفلس مزدور محنت کش مظلوم اور دکھوں کے ماروں کی اس انداز میں بے باکی سے ترجمانی کی ہواس کی مثال نہیں ملتی۔ شاکر شجاع آبادی کا ایک مشہور زمانہ سرائیکی قطع ہے کہ
میکوں میڈا ڈکھ میکوں تیڈا ڈکھ میکوں ھر مظلوم انسان داڈکھ
جتھاں ظلم دی بھاہ پئی بلدی ھے میکوں روھی چولستان دا ڈکھ
جتھاں کوئی انصاف دا ناں کائنی میکوں پورے پاکستان دا ڈکھ
جہڑے مر گئے ہن او مرگئے ہن میکوں جیندے قبرستان دا ڈکھ
جس میں موصوف اس معاشرے کو زندہ قبرستان کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے اس زندہ قبرستان کا بڑا دکھ ہے ہمیں ان کے ان اشعار کی سمجھ اب سمجھ آئی جب انہیں انتہائی بیماری کسمپرسی لاچاری کے عالم میں ایک طبیب کے پاس جاتے ہوئے موٹر سائیکل پر فریدی رومالوں کے ساتھ باندھا ہوا تھا چونکہ شاکر شجاع آبادی فالج کے مریض ہیں اوروہ خود کو کسی بھی صورت سنبھال نہیں سکتے اس لیے وہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ موٹر سائیکل سے اب گرے کہ اب۔ جس شخص کے پاس دوائی کے پیسے نہ ہوں اور وہ ڈسٹونیا جیسی انتہائی خطر ناک بیماری کا مریض ہو ہر آنے والا حکمران ان کے علاج کے لیے بڑے بڑے بلند بانگ دعوے کرے شاکر شجاع آبادی کو قومی سرمایہ اور اثاثہ قرار دے۔ دوسری طرف ان کی حالت یہ ہو کہ انہیں اپنے حکیم کے پاس جانے کے لیے موٹر سائیکل تک کرائے کی لینی پڑے اور دوائی کے پیسے نہ ہوں وہ موٹر سائیکل پر بیٹھ نہ سکتا ہو بلکہ انہیں فریدی رومالوں کے ساتھ باندھ کر بٹھایا گیا ہو تو پھر ان کا یہ نظریہ کہ اسے زندہ قبرستان کا دکھ ہے شاید اسی لیے ہی ہے۔
اس ملک میں آج ایسے حکمران ہیں جو اس ریاست کو مدینے کی ریاست کہتے ہیں میں پوچھتا ہوں مملکت خداداد کے ان حکمرانوں سے کہ کیا اس عہد میں شاکر شجاع آبادی سے بڑا کوئی فکر دینے والا شاعر ہے کسی نے شاکر شجاع آبادی سے بڑھ کر مظلوموں غریبوں مزدوروں بیماروں اور محنت کشوں کی ترجمانی کی۔ کیا ان کے یہ حالات اس بات کی غمازی نہیں کرتے کہ حکمران شاکرشجاع آبادی کے لیے کوئی خصوصی اقدامات کرتے ہوئے ان کا علاج کروائیں۔ مکان دینے کی بجائے صرف اور صرف اس کا باقاعدہ علاج ہی کروا دیا جائے۔ شاکر شجاع آبادی کی یہ نظم اسی درد کو عیاں کرتی ہے کہ
فکر دا سجھ ابھردا ائے سوچیندئیں شام تھی ویندی
خیالیں وچ سکون اجکل گولیندئیں شام تھی ویندی
انہاں دے بال ساری رات روندن بکھ توں سمدے نئیں
جنہاں دی کہیں دے بالاں کوں کھڈیندئیں شام تھی ویندی
غریباں دی دعایا رب خبر نی کن کرینداہیں
سدا ہنجواں دی تسبی کوں پھر یندئیں شام تھی ویندی
کڈاہیں تاں دکھ وی ٹل ویسن کڈاہیں تاں سکھ وی ول آسن
پلا خالی خیالاں دے پکیندئیں شام تھی ویندی
میڈا رازق رعائیت کرنمازاں رات دیاں کرڈے
جو روٹی رات دی پوری کریندیں شام تھی ویندی
میں شاکر بکھ دا ماریا ہاں مگر حاتم کو گھٹ کنئیں
قلم خیرات ہے میڈی چلیندیں شام تھی ویندی
شاکر شجاع آبادی کی زندگی ان کے اس شعر کے مطابق گزر گئی کہ وہ اپنی تقدیر کی لکیریں خود بدلنے کی کاوش کرتے رہے۔
نجومی نہ ڈراوے ڈے اساکوں بدنصیبی دے
جڈاں ہتھاں دے چھالے پئے لکیراں خود بدل ویسن
شاکر شجاع آبادی کی شاعری کا وہ وزن اور وہ فکر ہمیں کہیں اور سے نہ مل سکی جو کہ انہوں نے اپنی اس شدید بیماری کی حالت میں یوں کہہ دی کہ گویا وہ ایک قطعے کے اندر اس پورے عہد کی تاریخ لکھ رہے ہوں۔ جیسے موصوف لکھتے ہیں کہ
مجبور جوانی میڈی اے تو حسن دا شاہ تیکوں کیا پروا
تو خوش وسدیں وچ غیراں دے میڈی جھوک تباہ تیکوں کیا پروا
تیڈے رستے وچ پئے پھل کِردن میڈے اوکھے راہ تیکوں کیا پروا
بھانویں شاکر تیڈی مونجھ کنوں میڈے نکلن ساہ تیکوں کیا پروا
شاکر شجاع آبادی کے بارے میں آج مخیر حضرات کو خصوصی طورپرسوچنے کی ضرورت ہے بڑے بڑے دعوے کرنے والے نمودو نمائش کرنے والے حکمران آج کے اس عظیم شاعر کی اس بدحالی پر خاموش کیوں ہیں ریاست مدینہ کے مخیر حضرات ایسے نہیں ہو سکتے جو اپنے قومی ہیرو کو علاج تک کی سہولتیں میسر نہ کر سکیں اسی لیے تو موصوف لکھتے ہیں کہ
اے درد پرانے تھی گئے ھن کوئی نویں درد عطا کرونج
وت سکھ دا بوٹا پھپھڑیا ہے ایکوں پہلے وانگ سوا کرونج
میڈے روونڑدی سک پوری تھیوے کئی اینجھا ظلم جفا کرونج
میکوں راس نئیں آیا سکھ شاکر میڈا اوہو حال ولا کرونج
شاکر شجاع آبادی کے بارے میں جو بھی القابات جس نے بھی لکھے لیکن میری نظر میں موصوف کسی درویش سے کم نہیں اور ان کی اس درویشی میں ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ شاہد ہمارے اس معاشرے اور ہم پر بوجھ ہے اسی لیے تو موصوف کہتے تھے کہ
تیئں نال جو گزری شام ساڈی ہنڑ شام دے شام توں یاد آندیں
اتوں رات پوندی تنہائیاں دی ڈسے گھر ویران توں یاد آندیں
ادھ رات کوں اٹھ اٹھ روواں میں تھیوے فجر اذان توں یاد آندیں
ڈینہہ روندیاں شاکر لنگھ ویندے وت تھیندی اے شام توں یاد آندیں
انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ معاشرہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرنے جا رہا ہے اسی لیے انہوں نے خود لکھ دیا تھا کہ
تیکوں یاد ہوسی میں آکھیا ہم دلدار مٹھا تو چھوڑ ویسیں
کجھ سوچ سمجھ کے فیصلہ کر نہ جوش دکھا تو چھوڑ ویسیں
کر شاکر کوں برباد سجن بس لوک کھلا تو چھوڑ ویسیں
تیکوں کئیں آکھیے تیکوں بھل گئے ہیں دلدار بھلاونڑ سوکھی ہے
بھاویں یار دا جو کردار ھووے بندا آپ تاں توڑ نبھاوے
بھاویں سرتوں پانی تار ھووے بندا ادب توں سر نہ چاوے
نہ لیک لگے کدی یاری کوں بھاویں اوکھا وقت وی آوے
اویارنی شاکر یارھوندا جیڑھا سجناں کوں ازماوے
شاکر شجاع آبادی کی حالیہ بدحالی کی ویڈیو وائرل ہوتے ہی سب سے پہلے اس خطے کے عظیم فرزند چیف ایڈیٹر خبریں جناب امتنان شاہد صاحب نے سب سے پہلے ایکشن لیتے ہوئے اسے ٹی وی چینل پر بھر پور کوریج دینے اور خبریں ٹیم کو اس کی فوری مدد کرنے کے احکامات جاری کیے جنہیں جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔خبریں کی تحریک پر وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے شاکر شجاع آبادی کے علاج کا وعدہ کیا ہے اللہ کرے جیسے حق ہے ویسے ہی شاکر شجاع آبادی کا علاج ہو سکے۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭

پٹرولیم مصنوعات۔نیا بم گرانے کی تیاریاں

طارق ملک
قارئین کرام حکومت پاکستان، پاکستانی عوام پر یکم نومبر سے نیا پٹرولیم مصنوعات بم گرانے کی تیاریاں کر رہی ہے پٹرولیم مصنوعات پر9 روپے فی لٹر تک اضافہ متوقع ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جس سے سب سے زیادہ وہ دو کروڑ افراد جو سطح غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور وہ 50 لاکھ لوگ جو بے روزگار ہیں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی روز بروز مشکل ہو رہی ہے اور ان کے لئے روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے اور پاکستان میں مہنگائی دُنیا کے 30 ممالک سے کم ہے لیکن اُن ممالک میں لوگوں کی فی کس آمدنی اور قوت خرید زیادہ ہے اسی طرح ڈالر کی قیمت بھی روز بروز بڑھ رہی ہے اور اس کے اثرات بھی مہنگائی کی شکل میں رُونما ہوتے ہیں لیکن نہ تو حکومت مہنگائی کم کر سکی ہے اور نہ ہی ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں کنٹرول کر سکی۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسے انتظامات کرے جن سے کم از کم سطح غربت سے نیچے بسنے والے دو کروڑ افراد اور 50 لاکھ بے روزگار مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں اور اس کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں تا کہ ان کی روح اور جسم کا حصہ قائم رہ سکے۔ اس بابت بار بار اپنے کالموں میں ٹارگٹڈ سبسڈی کا ذکر کر چُکا ہوں حکومت کی طرف سے ٹارگٹڈ سبسڈی کی تجاویز جن میں موٹر سائیکل رکشا کو کم قیمت میں پٹرول مہیا کرنا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی فائنل لسٹوں کے مطابق لوگوں کو دو ہزار فی کس ماہانہ آٹا چینی گھی دالیں اور دیگر اشیا خوردونوش کی خریداری کے لئے سبسڈی دینا شامل ہے مگر اس بارے میں ابھی تک کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آئے۔
سابقہ حکومتوں نے پانی کی بجائے‘ انرجی کوئلہ گیس اور تیل سے حاصل کی ہے جس کی وجہ سے تیل گیس اور کوئلہ کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے بجلی کی قیمت بڑھانا ناگزیر ہو چکا ہے جس کی وجہ سے غریب عوام پر آئے دن بجلی بم گرایا جا رہا ہے۔ بجلی کی پیداوار کے کارخانوں کی بُنیاد میں سٹرکچرل ڈیفیکٹ ہے کیونکہ یہ کارخانے آئل گیس اور کوئلہ سے چلائے جا رہے ہیں۔ جب تک پاکستان میں ڈیم نہیں بنیں گے سستی بجلی بنانا اور عوام کو سستے نرخوں پر مہیا کرنا ناممکن ہے۔ حکومت وقت کی ہیلتھ کارڈ پالیسی ابھی تک پنجاب میں مکمل نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے غریب عوام صحت کی مفت سہولتوں سے محروم ہیں۔ فوری طور پر پنجاب میں صحت کارڈ تقسیم کئے جائیں اور اس کام کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ غریب لوگوں کو آٹا دالیں چینی اور دیگر اشیا ئے خورونوش کی ارزاں نرخوں پر فراہمی کے لئے یوٹیلیٹی سٹورز کو استعمال کیا جائے۔
کرونا کی صورتحال بہت بہتر ہو چکی ہے بروقت حکومتی اقدامات اور عوام کے حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پاکستان پر اپنا خصوصی رحم اور کرم فرمایا ہے لیکن یہ بات بڑے افسوس سے کہنی پڑ رہی ہے کہ محکمہ ہیلتھ کے بعض افسران کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ڈینگی پھیلا ہے اور قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔ ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسرز ہیلتھ اور انٹیمالوجسٹ جو کہ لاہور کے ہر ٹاؤن اور صوبے کی تمام تحصیلوں میں تعینات ہیں ان کو سرکاری گاڑیاں پٹرول وافر عملہ اور دفاتر مہیا کئے گئے ہیں ڈینگی کو کنٹرول کرانے کی اولین ذمہ داری ان کی ہے۔ ان کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے اس دفعہ ڈینگی کا بہت زیادہ پھیلاؤ ہوا ہے اور قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان جب ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر لاہور تھے تو اُنہوں نے ڈینگی کے بارے میں تفصیلی.S S.O.P مرتب کئے تھے اور جب وہ سیکرٹری صحت تھے اُس وقت بھی وہ بطور ڈی سی او اپنے تجربہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ڈینگی سے بھرپور طریقہ سے نبردآزما ہوئے تھے اس وقت بطور کمشنر لاہور ڈویژن کام کر رہے ہیں اور بالآخر اُن کو ہی ڈینگی ٹیموں کو چیک کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح ڈپٹی کمشنر لاہور عمر شیر چٹھہ بھی دن رات پرائس کنٹرول تجاوزات کے خاتمہ، صفائی کی چیکنگ قبضہ مافیا کے خلاف کارروائیوں کرونا ویکسی نیشن کی مانیٹرنگ پناہ گاہوں کی چیکنگ اور ڈینگی ٹیموں کی چیکنگ میں مصروف ہیں جب کہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسرز محکمہ صحت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے خلاف متعلقہ اسسٹنٹ کمشنرز کو ایمانداری اور غیر جانبداری سے ڈینگی S.O.P.S پر عملدرآمد نہ کرنے پر خصوصی رپورٹس متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو بھجوانی چاہئے اور متعلقہ ڈپٹی کمشنر یہ رپورٹس متعلقہ کمشنر کو بھجوائیں اور متعلقہ کمشنر یہ رپورٹیں چیف سیکرٹری پنجاب کو بھجوائیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب اس بارے میں ایک مانیٹرنگ/ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیں اور مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہیلتھ آفیسرزکے خلاف محکمانہ کارروائی کریں اور مقدمات درج کروائیں اور ان کو سرکاری نوکری سے برطرف کیا جائے۔
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭

حمزہ شہباز اور پنجاب کی سیاست

کامران گورائیہ
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر حمزہ شہباز کی پنجاب کی سیاست میں فیصلہ کن سیاست اور قربانیوں کی لازوال داستان کا احاطہ کرنا کم وبیش نا ممکن ہے۔ حمزہ شہباز نے پارٹی قائد میاں نوازشریف کی ہدایات پر ہمیشہ لبیک کہا اور قائد کی توقعات سے کہیں آگے بڑھ کر نتائج دیئے۔ چند روز قبل بھی جب مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف پارٹی کے ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ سطح کے اجلاسوں سے تسلسل کے ساتھ مخاطب رہے۔ حمزہ شہباز نے جنوبی پنجاب کے مشکل ترین محاذ پر کام کیا اور ان کے دورہ جنوبی پنجاب کے شاندار ناقابل تردید نتائج سامنے آئے۔ حمزہ شہباز کے دورہ جنوبی پنجاب کے موقع پر ناصرف دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں اور کارکنان نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی بلکہ متعدد سیاسی کارکنان کی واپسی کے راستے بھی کھل گئے جو مسلم لیگ ن سے فاصلہ رکھے ہوئے تھے۔ حمزہ شہباز نے ہمیشہ مسلم لیگ ن ہی کے لئے بلکہ اپنے خاندان کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کے دیگر پنجاب سے تعلق رکھنے والے اہم رہنماؤں کے دل ان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
حمزہ شہباز ماضی میں جب مشرف کے دور آمریت میں شریف خاندان کو جلا وطن کیا گیا تھا تو وہ تن تنہا ء یہاں رہ کر تمام سختیاں برداشت کرتے رہے۔ خاندان کے لئے دی گئی قربانیوں کے ساتھ حمزہ شہباز کی پاکستان میں موجودگی نے مسلم لیگ ن کو متحد رکھنے میں شاندار کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مشرف کا دور آمریت ہو یا عمران خان کے اقتدار کا دورانیہ آج بھی مسلم لیگ ن یکجا بھی ہے اور یکسو بھی ہے۔ حمزہ شہباز مسلم لیگ ن کی پنجاب میں جڑیں مضبوط رکھنے اور اوپر سے لیکر نیچے تک پارٹی کارکنان اور رہنماؤں سے رابطے رکھنے میں اپنا ایک خاص مقام اور کارکردگی رکھتے ہیں اور ان کی یہی خوبی انہیں مسلم لیگ ن کے لئے لازم و ملزوم بناتی ہے۔ موجودہ حکومت اپنے تمام تر وسائل استعمال کرنے کے باوجود بھی حمزہ شہباز پر کرپشن، بدعنوانی سمیت لگائے گئے دیگر تمام الزامات ثابت نہیں کر سکی۔ اگر حمزہ شہباز پر لگائے گئے الزامات میں ذرا بھی صداقت ہوتی تو انہیں ملک کی عدالتیں ضمانت کیوں دیتیں لیکن آج حمزہ شہباز ضمانت پر جیل کی طویل اور بلا جواز اسیری برداشت کرنے کے بعد باہر ہیں اور اپنی تمام تر خدمات پارٹی کے لئے ناصرف واقف کر دی ہیں بلکہ وہ مسلم لیگ ن کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
حمزہ شہباز نے ہمیشہ اپنے آپ کو تنازعات سے دور رکھ کر خدمت کی سیاست کو اپنا شعار بنایا جس کے نتائج ماضی میں بھی آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی دور رس نتائج کے امکانات واضح ہیں۔ حمزہ شہباز کی ایک کمال خوبی اور مقبولیت یہ بھی ہے کہ وہ پارٹی اور قائد کے لئے جو کچھ بھی کرتے ہیں غیر مشروط طور پر کرتے ہیں لیکن اب وہ وقت آچکا ہے جب مسلم لیگ ن کے رہنماء اور عام کارکنان انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں اور بجا طور پروہ اس کے حقدار بھی ہیں۔ ملک بھر میں موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی اور عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ تیزی سے تبدیل ہوتے اس سیاسی منظر نامہ میں حمزہ شہباز کے کردار کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے جس کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پارٹی قائد میاں نواز شریف نے انہیں جنوبی پنجاب کے محاذ پر ایک ایسا ٹاسک دیا جسے ان کے علاوہ پارٹی کا کوئی دوسرا رہنما انجام نہیں دے سکتا۔
حمزہ شہباز نے محض چند دنوں کے دورہئ جنوبی پنجاب کی سیاست کا رخ ہی تبدیل کر کے ہی رکھ دیا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنان نے مسلم لیگ ن سے عہد وفا کا اظہار کر دیا ہے اور اس کا تمام تر کریڈٹ حمزہ شہباز ہی کو جاتا ہے جو ہمیشہ اپنے خاندان اور پارٹی کے لئے آب حیات کی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے نائب صدر اور قائد حزب اختلاف پنجاب حمزہ شہباز شہباز شریف کے جنوبی پنجاب کے دورے کے دوران مختلف سیاسی رہنماں کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کااعلان،راجن پور سے تعلق رکھنے والے سابق ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی شیر علی گورچانی نے حمزہ شہباز سے ملاقات کی اور مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا ملتان پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر تین مرتبہ ایم پی اے منتخب ہونے والے اسحاق بُچہ نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اسحاق بُچہ1988, 1993 اور 2002 میں پیپلز پارٹی کے ایم پی اے رہے ہیں۔خانیوال پہنچنے پر شاندار استقبال کے بعد سابقہ ایم پی اے جمیل شاہ نے متعلقہ حلقے کے ایم این اے افتخار نذیر کی موجودگی میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ جمیل شاہ 2008 میں ایم پی اے رہے ہیں مظفر گڑھ کے حلقہ پی پی 271 سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر اور سرکردہ رہنما اختر علی گوپانگ کا بھی مسلم لیگ ن کی قیادت پر اعتماد کا اظہار ہے۔اس موقع پر انہوں نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا،اسی طرح ملتان سے برگیڈیئر (ر)قیصر نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔
حمزہ شہباز کے جنوبی پنجاب کے دورے پر راجن پور آمداور اس موقع پر مسلم لیگ ن میں راجن پور سے سابق ایم این اے ڈاکٹر حفیظ دریشک مسلم لیگ ن میں دوبارہ شامل ہوگئے۔ حفیظ دریشک 2013 میں مسلم لیگ ن کے ایم این اے رہے۔ شمولیت کے اس موقع پر انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخاب مسلم لیگ کا ہے اور مسلم لیگ ن ہی ملک کو دوبارہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ میاں حمزہ شہباز سے ملتان سے سکندر بوسن کی بھی ملاقات ہوئی۔ ڈی جی خان سے امجد فاروق کھوسہ اور محسن عطاکھوسہ بھی آئندہ چند دنوں میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں۔ اپنے دور جنوبی پنجاب کے دوران حمزہ شہباز نے ناصرف سیاسی رہنماؤں اور کارکنان سے ملاقاتیں کیں بلکہ کسانوں، تاجر پیشہ افراد سمیت بہت سے دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے بھی اہم ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی وجہ سے ناصرف مہنگائی اور بے روزگاری میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا ہے بلکہ کسانوں کی مشکلات بھی پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ بلوچستان کے بعد اب عوام پنجاب اور بالخصوص قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف سے امیدیں لگا چکے ہیں کہ وہ آگے بڑھیں اور انہیں مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی جیسے مسائل سے چھٹکارہ دلوائیں۔ روزانہ کی بنیاد پر پنجاب میں بھی اب تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں دیکھنا یہ ہوگا کہ حمزہ شہباز شریف آنے والے دنوں میں درپیش چیلنجز سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭

امن کابھاش

علی سخن ور
”بنگلہ دیش ایک جہادستان بن چکا ہے۔ وہاں کے مدرسے بنیاد پرستو ں کی تربیت گاہ ہیں اور وزیراعظم بنگلہ دیش حسینہ واجد مذہبی انتہا پسندی کو اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل میں استعمال کر رہی ہیں۔بدھ مت اور ہندومت کے پیروکار وہاں تیسرے درجے کے شہری شمار ہوتے ہیں۔اور گذرتے وقت کے ساتھ ہندوؤں کے خلاف تیزی سے بڑھتی ہوئی نفرت کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ دکھائی دیتی ہے۔“ ان زہریلے خیالات کا اظہار ابھی حال ہی میں ملعون زمانہ تسلیمہ نسرین نے اپنی ایک تحریر میں کیا جو بھارتی روزنامے ’دی ہندو‘ میں ۱۹، اکتوبر کو شائع ہوا۔ بلاشبہ تسلیمہ نسرین کی یہ تشویش اپنی جگہ جائز ہے کہ اس بد نصیب عورت نے ایک مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولنے کے باوجود لادینیت کو اپنا عقیدہ قرار دیا۔1962میں پیدا ہونے والی تسلیمہ نسرین کی ایک بد نصیبی یہ بھی ہے کہ اپنے مکروہ عقائد کے باعث اسے اپنے ہی ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، اس کی کتابوں کی اشاعت اور فروخت بھی بنگلہ دیش میں ایک ناقابل معافی جرم کے برابر ہے۔ ان ہی وجوہات پر وہ بھارت کے شہر دہلی میں پناہ گزین ہے۔ ہندو انتہا پسند اسے دیوی کا درجہ دیتے ہیں اور دنیا بھر میں وہ ہندوؤں کی ترجمان کے طور پر جانی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش میں ہندو انتہا پسند ایک مدت سے امن و امان خراب کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حالات اس قدر خراب ہوجائیں کہ بھارت کو براہ راست مداخلت کا موقعہ مل جائے اور جس طرح پاکستان پر اقلیتوں کی حق تلفی کے الزامات لگا کر اسے مختلف انٹر نیشنل فورمز پر بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، بنگلہ دیش کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کیا جاسکے۔ تاہم بنگلہ دیش کے لوگ ہر معاملے پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں، دین کے نام پر نہیں۔وہ اپنی سرزمین پر کسی بھی دین دشمن قوت کو کبھی بھی پنپنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی 170ملین آبادی میں 10فی صد کے لگ بھگ ہندو اقلیت کے لوگ ہیں۔
بنگلہ دیش میں گذشتہ کئی روز سے ہندو مسلم فسادات جاری ہیں۔ تفصیلات کے مطابق، ان فسادات کی ابتداء تب ہوئی جب کومیلا میں دورگا پوجا کے دوران کلام پاک کے صفحات مقدس کی بے حرمتی کی خبریں سوشل میڈیا پرآئیں۔یہ خبر بھی عام ہوگئی کہ کسی ہندو نے ایک مسجد کو بھی ناپاک کردیا۔ ساتھ ہی کسی نے اس سانحے کی ویڈیو بھی اپ لوڈ کردی۔ مسلمانوں تک یہ خبر پہنچی تو ایک کہرام برپا ہوگیا۔ فسادات کی آگ ایسی بھڑکی کہ بہت سے ہندوؤں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔مندر، مورتیاں کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ جواب میں ہندو انتہا پسندوں نے بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ مسلمانوں کی دکانیں اور گھر نذر آتش کردیے گئے۔ مختصر یہ کہ کومیلا سے شروع ہونے والے فسادات کی لہر نے پورے بنگلہ دیش کو لپیٹ میں لے لیا۔ ادھر ان واقعات کے بعد ہندو جگرانہ ویدک کے سیکریٹری جگدیش کرناتھ نے ایک بیان میں کہا کہ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کچھ نیا نہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان بھارت کو ایک مسلم ریاست بنانے کے لیے اپنا پورا زور لگارہے ہیں۔ ہم ہندو ابھی تک سمجھ نہیں پائے لیکن حقیقت میں مسلمان ہمارے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں مسلمانوں اور ہندو انتہا پسندوں کے بیچ فسادات کو دنیا بھر کا ہندو میڈیا ظلم اور زیادتی کی ایک خوفناک مثال بنا کر پیش کر رہا ہے۔ بے شک انسانی جان کسی کی بھی ہو اس کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری بنیادی معاشرتی رویوں کا حصہ ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ تمام قوائد و ضوابط صرف اور صرف مسلمانوں کے لیے کیوں ہیں۔ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ڈھایا جاتا ہے اس پر صدائے احتجاج کیوں بلند نہیں کی جاتی۔ابھی چند ہفتے پہلے کی بات ہے، اتر پردیش کے علاقے کان پور کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائیرل ہوئی جس میں ایک پینتالیس سالہ مسلمان رکشہ ڈرائیور کو ہندو انتہا پسندوں کا ہجوم بدترین تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا۔اس رکشے والے کی چھ سالہ بیٹی ہجوم سے ہاتھ جوڑ جوڑ کر التجا کرتی رہی کہ میرے بابا کو نہ مارو لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ ہجوم نے اسے جے شری رام اور ہندومت زندہ باد کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ وہ نعرے لگاتا رہا لیکن اس پر تشدد کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ بعد میں پولیس نے اسے نیم مردہ حالت میں ہجوم کے قبضے سے چھڑایا۔ظلم اور نا انصافی کی اس بدترین مثال پر نہ تو تسلیمہ نسرین کو کوئی تکلیف ہوئی نہ ہی جگدیش کرناتھ کو۔انٹرنیشنل میڈیا بھی چپ رہا۔ہمارے خیال میں بنگلہ دیش میں جو کچھ بھی ہوا وہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی مسلسل نا انصافی اور ظلم و ستم کا رد عمل تھا۔اصل میں ابھی تک وہ تالی دریافت نہیں ہوسکی ہے جو ایک ہاتھ سے بجتی ہو۔یہ کیونکر ممکن ہے کہ لوگ میرے گھر کو آگ لگا دیں اور میں امن سے رہنے کا بھاشن سنتا رہوں۔
(کالم نگار اردو اور انگریزی اخبارات میں
قومی اور بین الاقوامی امور پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

عمران خان پر اوچھے وار

حکمران سیاست کی زبان میں اپنے مخالفین کو Opposition کہتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ حکومت کی مخالف اور ناقد ہوتی ہے۔اگر مخالفت میں نرمی برتی جائے تو اسے فرینڈلی اپوزیشن کہتے ہیں۔پاکستان میں ماضی میں فرینڈلی اپوزیشن کی جاتی رہی۔گزشتہ دور حکومت میں وزیراعظم نواز شریف کے مقابل پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ کا اپوزیشن لیڈر بننا، اسی طرح سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں مولانا فضل الرحمان کا قائد حزب اختلاف رہنا فرینڈلی اپوزیشن کی مثالیں ہیں۔ تاہم گزشتہ دور حکومت میں ہی عمران خان نے اپوزیشن لیڈر نہ ہوتے بھی مسلم لیگ ن کی حکومت کو ناکوں چنے چبوائے۔ اسی طرح اب اپوزیشن لیڈر تو میاں شہباز شریف ہیں لیکن اسمبلی ممبر نا ہونے کے باوجود حقیقی اپوزیشن کا کردار مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز ادا کر رہے ہیں۔
جمہوریت میں مضبوط اپوزیشن کو ہمیشہ سراہا جاتا ہے کیونکہ اس سے حکمران بادشاہ بننے کے بجائے راہ راست پر رہتے ہوئے عوام کے خادم بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں محبت اور جنگ میں کوئی اصول نہیں ہوتے لیکن جمہوری سیاست میں کچھ اصول موجود ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ ن نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر انتہائی گھٹیا حملے کئے۔ ان کے پیلے لباس پر کسی چوک چوراہے نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں ایسے ایسے جملے کسے گئے کہ انہیں ضبط تحریر میں لانا بھی ممکن نہیں۔ بعد میں یہ رہنما اور اور ان کی اولادیں آپس میں مل بیٹھنے پر مجبور ہوئے تو ان جماعتوں کے حامی بھی ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملا پا رہے تھے۔
عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ خان برطانیہ میں اپنی عیش و آرام کی زندگی چھوڑ کر پاکستان میں رہنا چاہتی تھیں لیکن مسلم لیگ ن کے دور میں انہیں طرح طرح سے ہراساں کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان پر ٹائلیں چوری کرنے کا مقدمہ قائم کر کے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی جس پر وہ مایوس اور بددل ہوکر پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئیں اور آخر کار معاملات ان کی طلاق پر جا پہنچے۔ آج بھی وہ اس گھٹیا سیاست پر صرف مسلم لیگ ن ہی نہیں پاکستانی قوم سے بھی بجا طور پر شکوہ کناں ہیں کہ وہ پاکستان کی بہو تھیں لیکن انہیں اس وقت ڈیفنڈ نہیں کیا گیا۔ ماضی کی تمام تر شرمندگیوں کے باوجود بھی مسلم لیگ ن اپنی ” عادت” سے باز نہیں آ رہی۔ اپنے قائدین کی بیرون ملک اربوں روپے کی غیر قانونی جائیدادوں اور ماضی میں کی گئی لوٹ مار سے توجہ ہٹانے کے لئے وزیراعظم عمران خان پر نامناسب جملے کسے جا رہے ہیں جنہیں کسی صورت سیاست نہیں کہا جاسکتا۔ ان حرکتوں میں سر فہرست عمران خان کے مذہبی عقائد اور ان کی اہلیہ خاتون اول پر دشنام طرازی ہے۔ مسلم لیگ ن کے باقاعدہ پے رول پر موجود صحافی نا صرف عمران خان کی تسبیح پڑھنے، ان کی طرف سے عید میلاد النبیؐ پر گھر میں چراغاں کرنے اور سرزمین مدینہ منورہ میں عمران خان کے ننگے پاؤں چلنے کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ خاتون اول کے مسلکی نظریات پر بھی طعن و تشنیع کی جا رہی ہے حالانکہ یہ خالصتاً ان کے ذاتی معاملات ہیں جن پر ٹھٹھا مخول کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔
عمران خان آج انوکھی تسبیح پڑھتے ہیں کیا ماضی میں بے نظیر بھٹو ہاتھ میں تسبیح نہیں پکڑا کرتی تھیں؟ بلک ایک لطیفہ مشہور ہے کہ بے نظیر بھٹو سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ تسبیح پر کون سا وظیفہ، ورد کرتی ہیں۔ محترمہ نے جواب دیا کہ وہ آیت الکرسی پڑھتی ہیں۔ جس پر تبصرے کئے گئے کہ آیت الکرسی طویل آیت ہے۔ محترمہ جس طرح تسبیح کے دانے پر دانا پھینکتی ہیں اتنی جلدی کرسی، کرسی تو پڑھی جا سکتی ہے آیت الکرسی پڑھنا ممکن نہیں۔ کیا ماضی میں بے نظیر بھٹو کے بازو پر امام ضامن نہیں باندھا جاتا تھا اور کیا اب بھی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ایسا نہیں کرتے؟ خاتون اول کی پیر پرستی کو آج نشانہ بنایا جا رہا ہے کیا بے نظیر بھٹو کی ایک پیر صاحب کے قدموں میں بیٹھے تصاویر موجود نہیں ہیں۔ کیا آصف علی زرداری کے دور حکومت میں ایک پیر صاحب ان کے ساتھ مستقل موجود نہیں ہوتے تھے جو سیکیورٹی کلیرنس کے بعد بھی ان کی گاڑی پر پھونکیں مارا کرتے تھے۔ کیا نواز شریف اپنی عبادات کی تصاویر میڈیا میں بطور خاص جاری نہیں کیا کرتے تھے۔ کیا اب بھی مریم نواز تسبیح لیکر تصاویر نہیں بنواتیں؟۔ تو وہ سب کچھ جو مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے قائدین کے لئے جائز ہے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے لئے ناجائز کیسے ہو گیا۔ بقول جگر مراد آبادی
یہ جناب شیخ کا فلسفہ
ہے عجیب سارے جہان میں
جو وہاں پیو تو حلال ہے
جو یہاں پیو تو حرام ہے
اپوزیشن حکومت کی مخالفت کرے، ڈٹ کر کرے، کہ یہ اس کا حق ہے۔ مہنگائی ایسا ایشو ہے جس پر احتجاجی تحریک چلا کر حکومت کے چودہ طبق روشن کئے جا سکتے ہیں لیکن ذاتی حملے اور وہ بھی گھریلو خواتین پر مناسب نہیں۔ اپوزیشن کا ٹارگٹ ایک ایسا وزیراعظم ہے جو کرکٹر بھی رہا ہے۔ انگریزی میں غیر منصفانہ، بے ایمانی پر مشتمل حرکتوں پر کہتے ہیں cricket It is just not آپ سیاسی حملے کریں لیکن اوچھے وار نہیں… ورنہ مہنگائی کے خلاف تحریک کے نتائج بھی ضائع کر بیٹھیں گے۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

ہم کہاں کھڑے ہیں

کرنل (ر) عادل اختر
ایک عالمی تنظیم کا نام ہے ورلڈ جسٹس اینڈ رول آف لاء۔ اس تنظیم نے دنیا کے 139 ممالک میں ایک سروے کرایا ہے جس میں انصاف، امن و امان، کرپشن، بنیادی انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ ہم اس سروے کا خلاصہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ 139 ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 130 ہے۔ سیکورٹی کے معاملات پر پاکستان دنیا کے بدترین ممالک میں شامل ہے یعنی پاکستانی شہری بہت غیر محفوظ ہیں۔ کرپشن کے معاملات میں دیکھا جاتا ہے کہ سرکاری فنڈز میں کس قدر خوردبرد ہوتی ہے، وہاں کا اعلیٰ طبقہ یعنی اشرافیہ جس میں پارلیمینٹ کے ممبران، اعلیٰ افسران، جرنیل، عدلیہ کے جج صاحبان کا طرز رہائش اور معیار زندگی کیا ہے۔ ہمارے ہاں صورتحال کیا ہے۔کرپشن میں پاکستان کو ریڈ زون میں رکھا گیا ہے۔ حکومتی شفافیت جاننے کے لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ حکومت اپنے عوام کو کتنی معلومات فراہم کرتی ہے اور کتنی معلومات ان سے چھپاتی ہے۔ کوئی حکومت اپنے عوام کو کتنے بنیادی حقوق دیتی ہے اور کتنے حقوق سے محروم رکھتی ہے۔ بنیادی حقوق کے سلسلے میں پاکستان کا نمبر 126 ہے۔
ضابطوں کا نفاذ۔ اس سلسلے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ قانون پر کتنی سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ ان میں قانونی اور انتظامی ضابطے شامل ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کا نمبر 123 ہے۔
انصاف (سوشل جسٹس)۔ دیکھا جاتا ہے کہ شہریوں کو اپنی شکایات کے ازالے کے لئے کس قدر پرسکون ماحول میسر ہے۔ انصاف و سستا اور قابل رسائی امیدوار۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو۔ اس کا کم سے کم چودہ سال کی تعلیم اور سولہ سال کا علمی یا پروفیشنل تجربہ ہو۔ (پروفیسر۔ ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، وکیل، ریٹائرڈ اعلیٰ سرکاری افسرہو)امین صالح ہو۔
جس پارلیمینٹ کے موجودہ ممبران کی مالی، اخلاقی اور سیاسی حالت شرمناک ہو وہ عوام کی امنگوں کی ترجمان نہیں ہو سکتی…… اگر پارلیمینٹ کے ممبر صالح اور دانشور ہوں گے، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہوں گے تویقین ہے کہ وہ بہت سی خرابیوں پر کنٹرول کر لیں گے۔ عوام کی زندگی میں بہتری آئے گی، ذلت اور زوال کا سفر رک جائے گا۔
ملک میں لاکھوں یا کروڑوں، صالح اور سمجھ دار لوگ موجود ہیں۔ خدارا اتنا ظلم نہیں ہے کہ بائیس کروڑ میں سے بائیس لاکھ صالحین بھی نہ بستے ہوں۔ ہماری بقا امریکہ یا روس کے نہیں خود ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اگر ریاست مدینہ قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو نہ صرف پاکستان بلکہ غیر ممالک بھی اس کا خیرمقدم کریں گے۔
کیا جانتے بوجھتے ہم اپنے وطن کو تباہ کرتے رہیں گے۔ ہمارے پاس مثال موجود ہے۔ دس بارہ سال پہلے ہمارے ملک کے شہر کراچی میں ایک دیانتدار میئر نعمت اللہ خان آیا تھا۔ اس نے کراچی کانقشہ ہی بدل دیا۔ لوگ آج تک یاد کرتے ہیں۔ اگر ملک کی تقدیر پانچ سو صالح اور لائق افراد کے ہاتھوں میں دے دی جائے تو حالات کیوں نہیں بدل سکتے۔ کیا پاکستان میں عقل کا استعمال ممنوع ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اصلاحات کی غرض سے کمیشن بنے۔ بڑے بڑے عاقلوں اور تجربہ کار افسروں نے تجاویز دیں۔ اگر ان تجاویز پر عمل درآمد ہو جائے تو حالات بہت بہتر ہو جائیں لیکن سرکاری افسر خاص طور پر پولیس افسران اصلاحات پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتے۔ اس طرح ان کے اختیارات اور رشوت میں کمی آ جاتی ہے جو انہیں منظور نہیں۔ حکومت کی رٹ اتنی کمزور ہے کہ اس میں ان اصلاحات کو نافذ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔
پاکستان میں صادق اور صالح لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ یہ لوگ صدق دل سے نظام مصطفےٰؐ یا ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک اس میں مزاحم بھی نہیں ہے۔ اگر مزاہم ہیں تو ہمارے کرپٹ طبقات جو ظالمانہ طریقوں سے عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں اور بہت عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس کروڑوں روپے کے محلات، گاڑیاں، گھڑیاں، آرائش کا سامان، نوکر چاکر بے شمار ہیں۔ وہ نہ تو ریاست مدینہ کا نظام پسند کرتے ہیں۔ نہ ریاست ماسکو کا۔ نہ ریاست واشنگٹن…… انہیں پاکستان کا موجودہ نظام (انارکی) ہی پسند ہے۔
کیا اس لوٹ کھسوٹ اور انارکی کا کوئی حل ہے۔ جی ہاں ہے۔ پاکستان کے ذی شعور عوام، سول سوسائٹی، دانشور، وکیل، صحافی، اساتذہ، پاکستان کے طاقتور اور ذمہ دار اداروں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کریں کہ ہمارے ملک کو بچا لو۔ اس کے لئے آئین کی ایک مشق میں معمولی سا اضافہ کر دیا جائے۔ امیدوار پارلیمینٹ کی اہلیت کے خانے میں یہ اضافہ کر دیا جائے (1) امیدوار متوسط طبقہ سے تعلق رکھتا ہو۔ اس کے پاس صرف ایک مکان اور ایک بیوی ہو۔
سرکاری افسروں کا عمل دخل ہے یا نہیں۔ نظام غیر جانبدار ہے یا نہیں۔ پولیس، وکیل، جج، جیلر کے افسر اور پورا نظام انصاف کی فراہمی میں انصاف کی فراہمی میں کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس معاملے میں نمبر 108 ہے۔ یہ خبر پڑھ کر احساس ہوا کہ ایمان اور روشن ضمیر رکھنے والے افراد۔ دنیا کے ہر معاشرے اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ سروے پڑھ کر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہم کس قدر بدنصیب اور بے بس لوگ ہیں۔ یہ بے بسی اور مظلومیت موجودہ حکومت کا تحفہ ہے نہ پچھلی حکومتوں کا۔ یہ نصف صدی کا نہیں کئی صدیوں کا قصہ ہے۔ اس خرابیئ حال کی ذمہ داری پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے جو لوگ ایمان اور ضمیر کی دولت اپنے سینے میں رکھتے ہیں۔ بائیس کروڑ عوام میں سے کتنے لوگ ہوں گے…… ہر شخص خود اندازہ لگا سکتا ہے۔
جو ظالم اور بے حس حضرات ملک پر مسلط ہیں۔ ان کی تعداد چند ہزار یا چند لاکھ ہوگی۔ بائیس کروڑ عوام ان چند لاکھ افراد کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ ہمارے معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا۔ اگر ہو جائے تو بھی مجرموں کے دلوں سے سزا کا خوف ختم ہو چکا ہے۔ ایک دن کسی شاہراہ پر ایک عورت ریپ ہو جاتی ہے۔ فرض کریں ظالم پکڑا جائے۔ سزا ہو جائے۔ پھر بھی دوسرے دن دوسرا کیس اور تیسرے دن تیسرا کیس رپورٹ ہو جاتا ہے۔ حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭