سید سجاد حسین بخاری
گزشتہ چند دنوں میں پاک فوج اور وزیراعظم کے درمیان ایک خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی پاکستانی میڈیا اور دانشور گزشتہ ساڑھے تین سالوں سے فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں کے گیت گارہے تھے اور اپوزیشن عمران خان کو سلیکٹڈ کا طعنہ دے رہی تھی پھر یکایک ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کو متنازعہ کس نے اور کیوں بنایا؟ جبکہ تعیناتی سے قبل پاک فوج کے سربراہ اور وزیراعظم کے درمیان فوج میں کی جانے والی تعیناتیوں پر مکمل ہم آہنگی کے بعد آئی ایس پی آر نے تمام ناموں کا اعلان کیا جسے پورے ملک میں سراہاگیا۔ تعیناتیوں کے اعلان کے بعد دودن میں سوشل میڈیا پر ایک مہم کے ذریعے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے خط کے تاخیری اجرا پر مختلف باتیں ہونے لگیں اور پھر میڈیا پر ایک یلغار دیکھنے کو ملی جس سے دنیابھر میں یہ تاثر دیاگیا کہ فوج اور عمران خان میں دوریاں پیداہوگئی ہیں۔ عقل کے اندھوں کو شاید یہ احساس نہیں ہے کہ فوج ہی واحد ادارہ ہے جو ملکی بقا اور سالمیت کی ضمانت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں رتی برابر بھی پرواہ نہیں کہ اس وقت ہماری فوج پر جتنا بین الاقوامی پریشر ہے پہلے کبھی نہیں تھا اور گزشتہ دہائی میں دہشتگردی میں جتنے جانوں کے نذرانے پاک فوج نے دیئے ہیں اس کی مثال دنیابھر کی فوج میں نہیں ملتی اور آج بھی پاکستان فوج واحد ادارہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان متحد ہے اور آئی ایس آئی وہ ادارہ ہے جس کی وجہ سے ہمارانیوکلیئر پروگرام اور سرحدیں محفوظ ہیں۔ پاکستان کی آئی ایس آئی کو دنیا تسلیم کرتی ہے اور نامساعد حالات اور وسائل کی کمی کے باوجود اس وقت سی آئی اے‘ را‘کے جی بی‘ موساد اور ایم آئی سِکس تک کی ایجنسیاں کانپتی ہیں۔ ہم نے اسی کے سربراہ کی تعیناتی کو مسئلہ بنادیا کیوں؟
موجودہ حکومت شاید بھول چکی ہے کہ پاک فوج نے جتنی ان کی مدد کی ہے تاریخ میں آج تک کسی سیاسی جماعت کی نہیں کی گئی۔ پوری قوم کو یاد ہے معیشت اور تعلقات کی بحالی کا معاملہ آیا تو آرمی کے سربراہ کو مشرق وسطیٰ اور مڈل ایسٹ کے ملکوں کے دورے کرنے پڑے جس سے موجودہ حکومت کو3ارب ڈالر اور تیل ادھار پر ملنا شروع ہوا۔ ملکی تاجر ٹیکس نیٹ ورک میں نہیں آرہے تھے تو براہ راست آرمی چیف نے تاجروں کے نمائندوں سے مذاکرات کئے اور انہیں سمجھایا کہ آپ ٹیکس نیٹ میں آئیں تاکہ ملکی معیشت بہتر ہو۔ میں نام نہیں لیتا مگر متعدد اداروں کی حالت ٹھیک کرنے کیلئے پاک فوج سے مدد مانگی گئی اور پھر اپوزیشن نے پہلی مرتبہ فوج کے افسران کے نام لے کر انہیں کوسا۔ حتیٰ کہ اسلام آبادہائی کورٹ میں مسلم لیگ ن نے سابق سربراہ آئی ایس آئی کے نام کے ساتھ درخواست دے دی۔ نیب میں گرفتاریوں کو اپوزیشن نے فوج کا نام لیا یعنی حکومت کی کارکردگی پر فوج کو رگڑا ملا۔ اس حد تک جانے کے باوجود ایک تعیناتی پر حکومتی نابالغوں اور عقل کے اندھوں نے تنازع کھڑا کردیا نہ سوچا نہ سمجھا نہ دیکھا نہ بھالا جو منہ میں آیا کہتے گئے کہ وزیراعظم کا اختیار ہے فوج کو سول حکومت کے ماتحت ہونا چاہئے۔
وزیراعظم سمری منگوائیں تین یا پانچ نام ہونے چاہئیں پھر وزیراعظم ان میں سے ایک نام کا انتخاب کریں گے۔ اس عمل سے جمہوریت مضبوط اور پروان چڑھے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے کیاگیا ہے اور اس میں چند خوشامد پرست وزیرشامل ہیں جنہوں نے بظاہر وزیراعظم کے سامنے اپنے نمبر بنانے کی کوشش کی مگر وہ یہ بھول گئے کہ یہ خوشامد انہیں کتنی مہنگی پڑسکتی ہے۔ وزیراعظم کی بابت ایک کالم نگار صحیح کہتے ہیں کہ وہ کانوں کے کچے ہیں کس کے کہنے پر انہوں نے سیرتؐ کی محفل میں خالد بن ولید کی معطلی کی بات کردی اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کو متنازعہ کیا؟۔یاد رکھیں پاک آرمی واحد ادارہ ہے جس کی پشت پر ہمیشہ قوم کھڑی ہوتی ہے اور قوم حکومت کے بجائے فوج کے ساتھ ہے اور رہے گی۔ کمال یہ ہے کہ 14اکتوبر کو مولانا فضل الرحمن نے بھی فوج کے حق میں بیان دیا حالانکہ گزشتہ سال انہوں نے نام لیکر فوج پر الزام لگائے تھے مگر ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر فوج کے ساتھ ہیں کہ اسے متنازعہ نہ بنایا جائے۔ جس اپوزیشن نے ہمیشہ فوج پر عمران خان کی سرپرستی کا الزام لگایا آج وہی اپوزیشن بھی فوج میں تعیناتیوں پر فوج کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہے مگر حکومتی وزیروں اور مشیروں کی عقل گھاس چرنے گئی ہوئی ہے۔ کاش کہ حکومتی اہلکاروں کو اس خطے کی صورتحال کا اندازہ ہوتا کہ افغانستان کی وجہ سے پورے جنوبی ایشیاء میں کتنی صورتحال سنجیدہ اور حساس نوعیت کی ہو چکی ہے اور پاکستان کے مسائل میں کس قدر اضافہ ہو چکا ہے۔ امریکہ اس وقت زخمی شیر کی طرح بپھر چکا ہے کیونکہ اسے کہیں بھی منجی ڈالنے کی جگہ نہیں دی جارہی ہے۔ آزاد ریاستوں میں وہ کچھ امید لگا رہا تھا تو روس نے 13اکتوبر کو واضح اعلان کیا ہے کہ کوئی بھی آزاد ریاست امریکہ کو اڈے نہیں دے گی۔ خطے میں نیا اتحاد بن رہا ہے۔ تہران اور ماسکو میں افغانستان کی بابت کانفرنس ہو رہی ہے۔
ایرانی فوج کے سربراہ نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا ہے۔ بھارت بے بس اور ہارے ہوئے جواری کی طرح راستہ ڈھونڈ رہا ہے اور پاکستان کی صورتحال اس خطے میں نہ ہی اور نہ شی کی ہے کیونکہ پاکستان نہ امریکہ کو گڈ بائی کہہ سکتا ہے اور نہ ہی نئے بلاک میں شامل ہوتا ہے۔ ہم لوگ دو کشتیوں کے سوار ہیں جس کے انجام سب کو پتہ ہے۔ اتنی بڑی پریشانی کے عالم میں ایک ملتانی رکن اسمبلی نے ایک ٹی وی پروگرام میں فرمایا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی صرف وزیراعظم کا حق ہے۔ یہ کوئی بات ہے کہ بندہ یہ سوچے کہ میں کس ادارے کے خلاف بات کر رہا ہوں جس نے مجھے نااہلیت سے بچایا تھا اور انہیں خطے کی موجودہ صورتحال کا احساس نہیں ہے کہ پاک فوج کس قدر چومکھی جنگ لڑ رہی ہے۔ ہمارے وزیروں اور مشیروں نے اس ایسی توپ کا کام کیا ہے جو چلانے والے پر بیک فائر کرتی ہے۔ کاش کہ انہیں چار لفظ آتے ہوں جس سے یہ معاملے کی حسایت کو سمجھ سکیں۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
All posts by Daily Khabrain
شان رحمت اللعالمین ؐکے تقاضے
روہیل اکبر
مصطفی ؐجان رحمت پہ لاکھوں سلام۔شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام حکومت نے یکم ربیع الاول سے 12 ربیع الاول تک عشرہ شان رحمت اللعالمین ؐمنانے کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب کے 36 اضلاع میں عشرہ شان رحمت اللعالمینؐ کے تحت تقریبات ہوں گی۔ شان رحمت اللعالمین ؐبیان کرنے کا حق ادا کرنے کیلئے نہ کوئی قلم ہے اورنہ کوئی زبان۔ نبی آخرالزماں حضرت محمد کی تعریف وتوصیف بیان کرنابہت بڑا اعزاز اور انعام ہے انسان تو انسان، فرشتے بھی نبی کریمؐ پردرودوسلام بھیجتے ہیں اور تا ابد بھیجتے رہیں گے ہر مسلمان حضرت محمدؐکی شان بیان کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتا ہے۔شان رحمت اللعالمینؐ منانے کا مقصد دنیا کوپیغام دینا ہے کہ ہم دل و جان سے حضرت محمدؐ پر فدا ہیں اوران کی عظمت کسی بھی دنیاوی امر سے بالاتر ہے حضرت محمدؐکی عظمت انسانی سوچ اورخیال سے بالاتر ہے حضرت محمدؐ خاتم الالنبین ہیں اور آپ کی شان پر دنیا جہان قربان ہیں۔ اس بار اس طرح نہ صرف ہمیں اپنے نبیؐ کی سیرت کا علم ہوگا بلکہ بہت سی باتوں کو سیکھنے کا موقعہ بھی ملے گا جن پر عمل کرکے ہم اپنی زندگی کو اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گزار سکتے ہیں حکومت نے عشرہ شان رحمت اللعالمینؐ کو بھر پور طریقے سے منانے کا مکمل انتظام کرلیا ہے اسی سلسلہ میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اسٹاف کو اعلی کارکردگی پر رحمت اللعالمین سے منسوب میڈل اور جیلوں میں عشرہ شان رحمت اللعالمینؐ کے دوران قیدیوں اور ملازمین کیلئے پریزن پیکیج کے تحت انعامات بھی دیے جائیں گے یہ دونوں محکمے اگر ٹھیک ہوجائیں تو ہمارا ملک ٹھیک ہوسکتا ہے اس لیے یہاں پر سیرت النبی کی تعلیم پورا سال ہوتی رہنی چاہئیں۔ مرکزی رحمت اللعالمین ؐکانفرنس، عالمی مشائخ علما کانفرنس، انٹرنیشنل میلاد مصطفی کا انعقادبھی کیا جائے گا۔تحصیل، ضلع، ڈویژن اور صوبائی سطح پر شان رحمت اللعالمین کے حوالے سے نعتیہ مشاعرے، مقابلہ حسن نعت، خطاطی کی نمائشیں اور مقابلے منعقد ہوں گی حکومت اور مخیر حضرات کی طرف سے پناہ گاہوں، ہسپتالوں، یتیم خانوں اور اولڈ ہاسز میں خصوصی کھانے پیش کئے جائیں گے۔
عشرہ شان رحمت اللعالمینؐ کے دوران سیرت طیبہؐ کے حوالہ سے خصوصی ڈاکومینٹری بھی آن ائر ہوں گی۔ حکومت نے صوبہ بھر میں رحمت اللعالمینؐ اسکالرشپ اسکیم بھی جاری کی ہیں اور اب تک ذہین اورنادار طلبا کو 27 کروڑ38 لاکھ روپے کے 10574 رحمت اللعالمینؐ سکالر شپ دیئے جاچکے ہیں۔رواں برس مزید 83 کروڑ40لاکھ روپے کے 29142 رحمت اللعالمینؐ اسکالر شپ دے گی۔رحمت اللعالمینؐ اسکالرشپ کیلئے گزشتہ برس 50 کروڑرکھے گئے۔ روا ں برس رحمت اللعالمینؐ اسکالرشپ کو بڑھا کر ایک ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
بہاوالّدین زکریا یونیورسٹی ملتان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور،غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، یونیورسٹی آف چکوال اور اوکاڑہ یونیورسٹی میں سیرت چیئر قائم ہوچکی ہیں اور حکومت پنجاب کی طرف سے سیرت چیئر کے تحت محققین کو ریسرچ کے لئے معاونت فراہم کی جائے گی ان سب باتوں کا مقصد یہ ہے کہ ہم سیرت النبی کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اگر ایسا ہو جائے تو ہم دنیا کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں ہمارے اخلاق،پیار،محبت اور بھائی چارے کو دیکھ کر غیر مسلم بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں گے مگر اس کے لیے ہمیں اپنے پیارے نبیؐ کی پیاری پیاری باتوں پر عمل کرنا پڑے گا۔ ہمیں اس بات پر بھی ڈٹ جانا چاہیے کہ رازق اور الّرزاق صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات ہے جو سمندر کی تہہ،آسمانوں کی وسعتوں اور پتھر کے اندر جانداروں کو بلا تعطل رزق فراہم کررہا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنی اور بانٹنی چاہئیں کسی سے ہنس کر دو میٹھے بول بولنا بھی آسانی ہے اسکے علاوہ کسی اداس اور مایوس انسان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر اس کی لمبی اور بے مقصد بات سننا،صبح اپنے بچوں کے ساتھ کسی غریب کے بچے کو بھی سکول چھوڑدینا،غصے میں بپھرے ہوئے انسان کی کڑوی اور کسیلی باتوں کو برداشت کرنا،کسی ہوٹل میں کام کرنے والے یا دفتر،فیکٹری اور کم آمدن والے ملازم کو چھوٹا سمجھنے کی بجائے بھائی اور بیٹا سمجھنا،ہسپتال میں انجان مریض کے پاس بیٹھ کر اس کا حال پوچھنا اور تسلی دینا،ٹریفک کے اشارے پر رکنا اور ہارن نہ بجانا، ضرورت مند کی ضرورت اس کے تقاضہ کرنے سے پہلے پوری کردینا،سالن اچھا نہ لگے تو دستر خوان پر شکایت بلند نہ کرنابھی آسانیاں ہیں۔
بلا شبہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر ابتدا انہی سے ہے آج کل ہم ماں باپ کی عزت بھی نہیں کرتے حالانکہ ہمیں باپ کی ڈانٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہیں اور ماں کی پہلی آواز پر لبیک کہناچاہیے تاکہ دوسری آواز کی نوبت نہ آئے اس کے علاوہ ہمارے پیارے آقاؐ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے جس پر ہم نے بہت کم عمل کیا۔ ہم تو اپنے گھر کا کوڑاکرکٹ دوسرے کے دروازے پر پھینک دیتے ہیں پارکوں میں جوس کے ڈبے اور شاپر پھینکنا ہم نے اپنی عادت بنا لی ہے زندگی صرف ایک بار ملتی ہے آپکی جائیداداوردولت کو آپکے بعد مال غنیمت کی طرح تقسیم کرلیا جائیگا۔ دنیا میں مرنے کے بعد آپ زندہ رہ سکتے ہیں تو اپنے نیک اعمال کی وجہ سے ایک اور بات یاد رکھنے کی ہے کہ زندگی ہماری محتاج نہیں بلکہ ہم اس کے محتاج ہیں منزل کی فکر چھوڑ کر ہمیں اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بنانا چاہیے ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیداکریں یہی سیرت النبیؐ کا تقاضا ہے اور اسی سے ہماری نجات ہوگی۔
(کالم نگارسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
نئی بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ
ڈاکٹرناہید بانو
انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر اموات کی وجہ بھوک اور قحط ہے۔ مزید تفصیل میں جانے سے دنیا میں خوراک کی کمی یا لاکھوں افراد کی بھوک کا سبب پودوں یا فصلوں کی بیماریاں ہیں۔ سب سے زیادہ تباہی 1845ء کی دہائی میں آئرش آلو کا قحط تھا۔ اس قحط کے اختتام پر انسانی آبادی 8 بلین سے 5 بلین رہ گئی تھی۔ تقریباً 2 بلین کے قریب افراد بیماری یا قحط کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے اور باقی ایک بڑی تعداد شمالی امریکہ یا یورپ کی طرف ہجرت کر گئی۔ اسکے علاوہ چیسٹ نٹ بلائیٹ، گندم میں رسٹ، چاول میں براؤن سپاٹ اہم ہیں۔ 1943ء میں بنگال براؤن سپاٹ کی وجہ سے قحط دیکھ چکا ہے۔
پودوں کی بیماریاں ہی صرف خوراک کی کمی کی وجہ نہیں بنتیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی اس میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دنیا میں بھوک کافی پیچیدہ مسئلہ ہے مگر ماہرین خاص طور پر پودوں کی بیماریوں پر کام کرنے والے افراد، سائنسدان اور تحقیقی ماہرین مختلف طریقوں سے خوراک کی کمی سے بچنے اور فصلوں کو بیماری سے بچانے کے لیے اہم معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ ماہرین ناصرف گورنمنٹ اور پرائیویٹ اداروں کو اہم معلومات فراہم کرکے دنیا سے بھوک و افلاس ختم کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں بلکہ یہ علم تعلیمی اداروں سے نئی نسل تک منتقل کرسکتے ہیں۔ زرعی تحقیق کے ذریعے ماہرین ناصرف پیداوار بڑھانے میں کسانوں کو مدد فراہم کر سکتے ہیں بلکہ فصلوں کی ورائٹی کو بہتر بنانے، اخراجات کم کرنے کے ساتھ ساتھ بیماری کی تشخیص اور علاج میں بھی مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
کسانوں کو فصلوں کی پیداوار بڑھانے اور نئی بیماریاں جو خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ظاہر ہوچکی ہیں یا مستقبل میں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کے لیے عارضی نہیں بلکہ طویل المیعاد حل کی ضرورت ہے اور یہ طویل المیعاد حل سسٹین ایبل ایگریکلچر اور اینٹی گریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں فصلوں کی مختلف بیماریوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو کپاس کے پتوں کے کرل وائرس کی وجہ سے کپاس کی صنعت کافی نقصان دیکھ چکی ہے اسکے علاوہ شیشم، امرود کی بیماری، ٹماٹر کے پتوں کا سکڑاؤ، چاول میں بیکانائی، فائیٹوفتھورا کراؤن، مرچ کی جڑوں کے گلاؤ، کپاس کے پتوں میں مروڑ، کیلے کے گچھے کے سروں کی بیماری، مکئی کے تنے کے گلاؤ کی بیماری، ٹماٹر، آلو مرچ میں بیکٹیریا ولٹ، آم، چنے کی بیماری اور گندم میں رسٹ کی بیماری پاکستان میں ان فصلوں کے لیے نمایاں خطرہ ہیں۔ اسکے علاوہ آلو میں لیٹ بلائیٹ، ارلی بلائیٹ، کھیرے میں پاؤڈری ملڈیو، انگور میں سرمئی مولڈ، چیری میں کراؤن گال، خوبانی، بادام، آلوبخارے اور آڑو کے پودوں میں گموسس کی بیماری سے خطرہ ہے۔ پودوں کی بیماریوں سے زرعی پیداوار پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گندم پاکستان کی فصلوں میں نمایاں ہے اسکے پتوں کے رسٹ سے 1978ء میں 86 ملین ڈالر کا نقصان سامنے آیا جبکہ 1979ء میں چنے میں بلائیٹ کی وجہ سے 48 فیصد پیداوار میں کمی دیکھی گئی جس سے 90 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ 1992ء میں کیلے کی بیماری کی وجہ سے 915 ملین روپے کا نقصان سامنے آیا تھا۔
اہم اجناس اور فصلوں میں ہر سال خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت سی بیماریاں سامنے آتی ہیں ساتھ ہی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے حشرات ایک سے پانچ اضافی نسل پیدا کر سکتے ہیں جس سے نقصان دہ کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں کثیر اضافہ ممکن ہے۔ ایسی ہی حشرات کی ایک بڑی تعداد ٹڈی دل کے حملے کی صورت میں ابھی پچھلے سالوں میں پاکستان دیکھ چکا ہے۔ اس لئے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال خاص طور پر مالیکیولر بائیولوجیکل طریقوں جیسا کہ جین کی پہچان، کلوننگ اور بیماری کے خلاف مؤثر جین کے ساتھ بیماری کے خلاف بہترین مدافعت رکھنے والی فصلوں کا استعمال نہایت ضروری ہے۔ اسکے علاوہ سستی، سادہ اور آسان ٹیکنالوجی جیسا کہ سپیکٹروسکوپک، جی آئی ایس (تصویر/ایمیج کی بنیاد پر پہچان) اور وولیٹائل پروفائل کی بنیاد پر پودوں کی بیماریوں کی پہچان کی تیکنیک کھیتوں میں پودوں کی صحت، طفیلیے اور بیماریوں کو مانیٹر کرنے کے لئے استعمال میں لائی جا سکتی ہیں۔
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭
وبا کے دنوں میں انسان دوستی کا پیغام
سلیم قیصر
انسانی زندگی بے ثباتی اور بے یقینی کے کہر میں لپٹی ایک ایسے سفر کی داستان ہے جس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا کہ اگلے موڑ پر کون سا منظر یوں اچانک کہرے کی چادر سر سے ہٹاتے ہوئے آنکھوں کے آگے آپ کو حیران کردے، سفر کی سمت بدل دے منزل کی جانب جاتے وجود کو سُن کردے اور آس پاس کا سارا منظر ایک دم ساکت و جامد کردے۔
گزشتہ سے پیوستہ برس کرۂ ارض پر یوں ایک دم اور اچانک جنم لینے والے کرونا نام کے وائرس کا قصہ بھی کچھ یوں ہی ہے جس نے نہایت سرعت اور تیزی کے ساتھ دنیا بھر کی انسانی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے کر لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کو لقمۂ اجل بنایا اور اس کرونا وباء کو رواں صدی کا اہم ترین واقعہ بنادیا۔ یہی نہیں اس وباء سے ہونے والی مختلف ممالک میں لوگوں کی پے در پے اموات اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی خوف اور ڈر کی فضاء نے انسانوں کی روزمرہ زندگی کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا۔ مشینوں کے پہیے ایک دم خاموش ہوگئے، بازار، گلیاں اور سڑکیں سنسان نظر آنے لگیں۔ مزدور بے روزگار تو روزمرہ کے کاروبار سے منسلک افراد پریشان حال دکھائی دینے لگے۔ خدا کی قدرت ہے کہ ایک انتہائی چھوٹے اور انسانی آنکھ سے دکھائی بھی نہ دینے والے وائرس نے زمین پر بسنے والے سب مردوزن لوگوں کو گھروں میں محصور کردیا۔ انسانوں نے ایک دوسرے سے دور رہنے میں اپنی عافیت جانی، رابطوں کا فقدان شدت اختیار کرگیا اور اپنی ذات میں پہلے سے ہی تنہائی کاشکار آدمی اور بھی تنہائی کاشکار ہوگیا۔ کوویڈ 19 کے اس دور میں دنیا بھر کی معیشت متاثر ہوئی، طویل عرصے تک جاری رہنے والے مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن نے دنیا بھر کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔ کاروبار زندگی بند ہونے کے سبب گھروں میں محصور لوگوں کے لئے کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی حکومتوں کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ خاص طور پر ایسے غریب اور ترقی پذیر ممالک جہاں ملکی معیشت کے حالات پہلے بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہ تھے۔ کرونا وائرس کے باعث مزید ابتر ہوگئے۔
قوموں کی زندگی میں سخت اور مشکل حالات آزمائش بن کر آتے ہیں زندہ اور دلیر قومیں اتحاد و یکجہتی اور صبر و استقامت کے ساتھ ان کٹھن حالات سے کامیابی سے سرخرو ہو کر نکلتی ہیں۔ کوئی دو سال سے جاری کوویڈ 19 کے اس سخت ترین دور میں پاکستانی قوم نے وزیراعظم عمران خان کی رہنمائی میں جس ہمت اور بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا ہے وہ بلاشبہ اپنی مثال آپ ہے۔
لاک ڈاؤن کے عرصے میں وزیراعظم عمران خان کا بارباریہ بات دہراناکہ ہمیں پاکستان کے غریب اورنچلے طبقے کے افراد کا سب سے زیادہ احساس ہے کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں وہ بے روزگاری کی لپیٹ میں نہ آجائیں،اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ غریب اور پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے بارے میں اپنے سینے میں دردمند دل رکھتے ہیں کہ معاشی مسائل کاشکار نچلے طبقے کے لوگ لاک ڈاؤن کے باعث مزید معاشی پریشانیوں کاشکار نہ ہوں اوران کی زندگی کاپہیہ آسانی کے ساتھ آگے بڑھتارہے۔ کرونا لاک ڈاؤن کے د وران حکومت کی جانب سے شروع کیاگیا احساس پروگرام اس اعتبارسے واقعی قابل تعریف ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے غریب اورمستحق افراد کو مسلسل اور تواتر کے ساتھ امدادی رقوم کی ترسیل جاری رہی۔ ان سخت اور مشکل حالات میں حکومت کی جانب سے یہ مالی اعانت اس بات کااظہارتھی کہ ان کی حکومت نے مشکل کی اس گھڑی میں عوام کوتنہا نہیں چھوڑاور اپنے لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ سردارعثمان بزدارنے کرونالاک ڈاؤن میں اپنے صوبے کے مستحق افراد کی مالی امداد کیساتھ ساتھ فنکارکمیونٹی کوبھی فراموش نہیں کیااور آرٹسٹ سپورٹ فنڈ کے ذریعے پنجاب کے فنکاروں کومالی امداددینے کا سلسلہ جاری رکھاجوبلاشبہ قابل تحسین عمل ہے۔
کوویڈ19کے اس دورمیں مبارکباد کے مستحق ہیں دنیابھر کے وہ عظیم سائنسدان اورڈاکٹرجنہوں نے دن رات کی سخت جدوجہداور محنت کے بعداس موذی وائرس کا توڑدریافت کرتے ہوئے اس کی ویکسین تیارکرلی اور یوں ان کے اس صالح عمل سے دنیا بھر کے انسانوں کو اس موذی وائرس سے نجات ملی جس سے گزشتہ دو برس سے کرۂ ارض کے انسانوں کو سخت مشکل کاشکار کر رکھا ہے۔
وطن عزیزکے لوگوں کوہنگامی اورترجیحی بنیادوں پر کروناویکسین کی مفت فراہمی اور ویکسی نیشن انتظامات حکومت کی بہترین حکمت عملی کاثبوت ہے۔ سوشل میڈیا پراوائل میں کچھ منفی پروپیگنڈہ کیاگیا مگرہمارے باشعورعوام نے سمجھ داری کاثبوت دیتے ہوئے اس غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈے کوناکام بنادیااوراپنی اوراپنے پیاروں کی زندگی کے تحفظ کیلئے زیادہ سے زیادہ تعدادمیں ویکسی نیشن کروارہے ہیں جس کا واضح فرق یہ پڑاہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کروناسے متاثرہونے والے افراد کے اعدادوشمار میں واضح کمی دیکھنے کومل رہی ہے جوبلاشبہ بروقت ویکسی نیشن کا نتیجہ ہے۔حکومتی ذرائع اور میڈیا کے ذریعے بھرپور آگاہی مہم جاری ہے اوردیہاتوں اورشہروں میں لوگ اب ازخود کروناویکسی نیشن کرارہے ہیں جوبلاشبہ نہایت امیدافزابات ہے کہ عوام کے تعاون سے یہ سلسلہ یونہی جاری رہاتو بہت جلد ہماراپیاراوطن کرونا کی اس وباء سے بالکل پاک ہوجائے گا۔
تاریخ کے مختلف ادوارمیں ہمارایہ کرۂ ارض مختلف وباؤں کا شکاررہاہے اورانسان اپنے عزم وہمت سے ان وباؤں کو شکست دیتاآیاہے۔ کروناوائرس کی یہ وباء جس نے قریب قریب ساری دنیا کے انسانوں کو سخت پریشانی میں مبتلاکررکھا ہے، آدم کے بیٹوں کی ذہن رسااورخوب صورت حکمت عملی سے اب ختم ہونے کے قریب ہے اورپاکستان سمیت دنیابھر سے یہ وباء اس پیغام کیساتھ بہت جلد رخصت ہواچاہتی ہے کہ وسیع وعریض خلاء میں تیرتازمین کا یہ سیارہ کروڑہابرس سے انسانی نسل سے آباد ہے جس نے اپنے عقل ووجد ان کی جادوگری سے ہمیشہ ہرمشکل کوآسانی میں بدل دیاہے۔
(کالم نگار ڈیرہ غازیخان آرٹ
کونسل کے ڈائریکٹر ہیں)
٭……٭……٭
جنوبی ایشیا کا ایک اُدھورا خوا ب
اکرام سہگل
قارئین!میرے گزشتہ کالم جنوبی ایشیا کاایک ادھورا خواب کادوسرا حصہ ملاحظہ کیجئے۔
خلیجِ بنگال کے گرد جہاز رانی اور بحری سفر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1498میں پرتگالیوں نے برصغیر کے مغربی کنارے کو فتح کرلیا تھا۔ اس کے بعد 1511 میں میلاکا پر تسلط جمانے کے بعد انہوں نے کیپ آف کومرن میں سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ بنگال میں پرتگیزیوں کی نجی تجارت کا آغاز کئی اسباب سے تھا۔ اس میں جرائم کی صورت میں قانونی کارروائی سے استثنی، اپنے ممالک میں سخت گیر مذہبی عدالتوں سے فرار، دولت سمیٹنے اور ریاست کی جانب سے ملنے والی تنخواہ کی غیر یقینی صورتِ حال اس کے اسباب میں شامل تھے۔ لیکن سب سے اہم وجہ یہی تھی کہ وہ ایشیا کے اندر ہی بڑھتی ہوئی تجارت کی اہمیت کے باعث اس خطے کو کاروباری طور پر فعال کرنا چاہتے تھے۔
پرتگیزی اس خطے میں ہوگلی (موجودہ کلکتہ بندرگاہ) اور چٹا گانگ تک نہیں رکے بلکہ انہوں نے بکلا، سریپور، لوریکل، دیانگا اور سندوئیپ جیسے چھوٹی بندرگاہوں کو بھی استعمال کیا۔ یہ پورا علاقہ ان کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ پرتگیزی 16ویں صدی کے آغاز میں بنگال کی سب سے اہم بندرگاہ چٹاگانگ تک پہنچ چکے تھے۔ 1535تک انہوں نے چٹاگانگ پر کسٹم ہاؤس بنانے کا اختیار بھی حاصل کرلیا تھا۔
سترھویں صدی تک پرتگیزی جنوب مشرقی ڈیلٹا میں دو طرح کا بندوبست کر چکے تھے۔ چٹاگانگ ایک بڑی بندرگاہ تھا اور وہاں پرتگیزی مضبوطی سے پاؤں جما چکے تھے۔ دیانگا، چندیکن، سرپور، سندوئپ اور سریام بھی اسی زمرے میں آتی تھیں۔ جب کہ موسمی نوعیت کے استعمال کے لیے چارگن اور انگا جیسی بندرگاہیں تھیں۔ 1632 میں ہوگلی پر پرتگیزیوں کا تسلط ختم ہوا اور اس کا انتظام شاہ جہاں کی فوجوں نے حاصل کرلیا۔ اس کے بعد اٹھارہویں صدی میں ولندیزیوں اور انگریزوں نے اس خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوششیں شروع کردیں۔
پرتگیزیوں (اور ان کے علاوہ ولندیزیوں اور انگریزوں) کا دوسرا ’پیشہ‘ قزاقی تھا۔ جدید بنگال کے ابتدائی دور میں اس کی جنوب مشرقی ڈیلٹا میں پرتگیزیوں کے سوداگروں، مہم جو افراد اور سرکش افراد پرتگالی ریاست کی دست رس سے دور رہنے کے لیے بڑی تعداد میں جمع ہوچکے تھے۔ یہ نجی گروہ بنگال کے ساحلوں پر کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا رکھتے تھے لیکن خطے کی سیاسی اور معاشی تشکیل میں ان کا کردار اہم تھا۔ مختصر مدت ہی کے لیے سہی لیکن پرتگیزی اس علاقے میں طاقتور رہے۔ یہ علاقہ قزاقوں کے لیے بہت موزوں تھا۔ یہ ایک مصروف اور منافع بخش تجارتی بندرگاہ تھی لیکن اس کے تحفظ کے لیے مضبوط ریاست اور بحریہ نہیں تھی۔ اس کے لیے چھوٹے چھوٹے جزیرے، کھاڑیوں، تنگ آبی گزرگاہوں اور مینگروز کی کثرت سے جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ علاقہ محفوظ پناہ گاہ تھی۔ 1750سے 1860کے دوران یہاں قزاقوں کی چاندی رہی۔
غلاموں کی تجارت کرنے والے یا بردہ فروشوں کی بنگال پر تواتر سے چھاپہ مار کارروائیوں کے کئی اسباب تھے۔ ہوسِ زر میں مبتلا یہ سوداگر اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اپنے ملکوں میں لوگوں کو غلام بنانے سے زیادہ منافع غیر ملکی غلاموں کی تجارت میں ہے۔ اس کے علاوہ کئی علاقوں میں ہنرمند اور نیم ہنرمند افراد کی ضرورت تھی۔ ولندیزی سلطنت کو مسالوں کی کاشت اور کان کنی کے لیے بے شمار غلام درکار تھے۔ سماٹرا کی آچے سلطنت کو بھی کاشت کاری اور کانوں پر کام کرننے کے لیے غلام چاہیے تھے۔ بنگال میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی افرادی قوت موجود تھی۔ ہندوستانی غلام مختلف فنون اور دست کاری وغیرہ میں مہارت کی وجہ سے زیادہ قیمت میں فروخت ہورہے تھے اور انہیں افریقہ کی نئی نوآبادیات میں بھی پہنچایا جارہا تھا۔
چٹاگانگ کی بندرگاہ اور شہر پرتگیزیوں کی سرگرمیوں کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ خطہ جنوب مشرقی ایشیا میں ان کی نئی نوآبادیات کو مدد فراہم کرنے کے لیے بھی اہم تھا۔ شاہ جہاں نے جب سے پرتگیزیوں کو ہوگلی سے پسپا کیا تھا تو ان کے لیے اس علاقے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ لیکن ایک صدی کے دوران ولندیزیوں نے خطے میں پرتگال کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پرتگیزی ماضی کے تنازعات کے باجود راکھائن سلطنت جہاں آج میانمار قائم ہے کو مدد فراہم کرتے تھے۔ مغل اور برما کی سلطنت کے بیچ میں ماگھ جارحیت ہی کو بہترین دفاع سمجھتے تھے۔
1663میں بنگال صوبہ شدید مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔مغل سلطنت میں اسے شامل کرنے کے لیے ہونے والی جنگیں بے نتیجہ رہی تھیں اور ان چھاپہ مار کارروائیوں نے بھاری نقصان پہنچایا تھا۔ سابق گورنر جملہ خان اہوموؤں کے ساتھ تباہ کُن جنگ میں مارا گیا تھا۔ اہومو موجودہ بھارت کی ریاست آسام اور اروناچل پردیش کے علاقے میں بسنے والا نسلی گروہ تھا۔ نیا گورنر شائستہ خان شہنشاہ اورنگزیب کا چچا تھا۔ محاذِ جنگ میں اس کا ماضی تابناک رہا تھا لیکن شوا جی کے ہاتھوں شکست کی وجہ سے شہنشاہ اس سے خفا تھا۔ اسی لیے شہنشاہ نے شائستہ خان کو بنگال بھیج دیا تھا۔
شائستہ خان کو سمندر سے ہونے والی لوٹ مار کو روکنے کے لیے تو بھیجا ہی گیا تھا لیکن اس میں انتقام بھی پوشیدہ تھا۔ جانشینی پر اپنے بھائی اورنگزیب سے جنگ میں شکست کے بعد شہزادہ شجاع اور اس کا خاندان راکھائن سلطنت میں پناہ گزین تھا۔ تاریخی روایات میں یہ بات آتی ہے کہ راکھائن بادشاہ نے شجاع اورا س کے بیٹوں کو بے دردی سے قتل کردیا تھا اور اس کی بیٹی کی آبرو ریزی کی تھی جس کے بعد شہزادہ شجاع کی بیٹی نے خودکُشی کرلی تھی۔ شائستہ خان کو اس خون کا بدلہ لے کر شجاع کے خاندان کے باقی زندہ افراد کو واپس لانے کا ہدف دیا گیا تھا۔
شائستہ خان نے تیزی سے سلطنت کا ڈھانچا کھڑا کیا، قلعے تیار کروائے، سڑکیں اور پُل تعمیر کرائے۔ اس کے علاوہ زمینی اور بحری فوج کے بڑے دستے تیار کیے۔ اس کے لیے شائستہ خان نے ولندیزیوں سے بھی مدد لی۔ 1665میں مغلوں نے راکھائن سلطنت کے لیے تزویراتی اہمیت رکھنے والا سندویپ چھین لیا۔ چٹاگانگ پر قبضہ کرنا اہم ہدف تھا۔ اس کے لیے شائستہ خان نے پرتگیزیوں اور راکھائنیوں کے تنازعات کو استعمال کیا۔ شائستہ خان نے پرتگیزیوں کو اپنے آقاؤں سے غداری پر آمادہ کیا۔ انہیں یہ سمجھایا کہ تجارت دوست مغلوں سے ان کا اتحاد زیادہ منفعت بخش ہوگا۔ ظاہر ہے کہ انہیں اپنا حامی بنانے کے لیے بھاری رشوت بھی دینا پڑی۔ پرتگیزیوں نے راکھائن سے غداری کی اور ڈھاکا تک پہنچ گئے۔ راکھائن فوج تیزی سے چٹاگانگ میں جمع ہوگئی لیکن شائستہ خانہ نے زمین پر ایک فوج بھیجی اور متوازی طور پر مغلوں اور پرتگیزیوں کی بحریہ کو بھی چٹاگانگ روانہ کردیا۔ اس دوطرفہ حملے نے راکھائن فوج کو تباہ کردیا۔
مغل فوجوں کی اس فتح سے خلیجِ بنگال اور اس سے منسلک دریاؤں میں قزاقی کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اتفاق ہے کہ آج بنگلادیشیوں اور روہنگیاکے مچھیروں کو اس خطے میں پھر اسی مسئلے کا سامنا ہے۔ تاہم چٹاگانگ کا ہاتھ سے نکلنا ور پرتگیزیوں کی حمایت کا خاتمہ بڑا دھچکا تھا۔ ماگھ بڑے جنگی بیڑے بنانا نہیں جانتے تھے اور انہیں جنگ میں بڑا نقصان ہوچکا تھا۔ دوسری جانب شائستہ خان نے ایک باصلاحیت بحری فوج تیار کی تھی۔ راکھائن پہلے کی طرح سمندر اور بحری راستوں پر کارروائیاں کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ داخلی انتشار اور کرائے کے فوجیوں پر انحصار کی وجہ سے یہ سلطنت رفتہ رفتہ کمزور ہوتی چلی گئی اور 1784میں اس پر برما نے قبضہ کرلیا۔ البتہ بنگال ایک طویل عرصے تک شائستہ خان جیسے زیرک حکمران کے زیر نگیں آگیا۔
اٹھارہویں صدی کے بعد پرتگیزی اور ان کی اولاد بنگال کی پھیلتی ہوئی سلطنت کا حصہ بنتے چلے گئے۔ مغربی بنگال اور بنگلا دیش کے کلچر میں اس ورثے کا رنگ محسوس کیا جاسکتا ہے۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭
قوم کا ہیرو
عبدالباسط خان
ڈاکٹر عبدالقدیر خان چلے گئے، وہ ایک ہیرو تھے، ہیرو رہیں گے، قوم اُن کو محسنِ پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی اور پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ آج اگر پاکستان ہندوستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہے تو وہ صرف اور صرف ڈاکٹر اے کیو خان کی بدولت جب 1974ء میں ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو اس محب وطن پاکستانی کی نیندیں اُڑ گئیں اور اس نے پکا عہد کر لیا کہ وہ ہندوستان کو ایسا جواب دے گا کہ اس کی آئندہ نسلیں بھی پاکستان پر فوج کشی کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچیں گی۔ پاکستان میں اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسا لیڈر اس ملک کا سربراہ تھا جس نے وہ مشہور جملہ کہا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ شاید یہی وہ مقام تھا جہاں دشمنوں نے جن کو بھٹو صاحب سفید ہاتھی کہتے تھے انہوں نے بھٹو صاحب کو ٹارگٹ کیا یوں ایک ایسے لیڈر کو مفلوج اور بے بس کر دیا جن کے سامنے انسانوں کا سمندر موجود ہوتا تھا لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جب بھٹو صاحب کو خط لکھا اور پاکستان کے لئے اپنی خدمات پیش کیں تو بھٹو صاحب کی زیرک اور جہاندیدہ شخصیت نے اس عقاب کی بلندی اور عظمت کو پہچان لیا اور یوں بھٹو صاحب نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مکمل اختیار اور خود مختاری دی جس کی وجہ سے وہ منزل جو کوسوں دور تھی بہت کم عرصے میں قریب آ گئی اور ڈاکٹر اے کیو خان پاکستان کے بانی ایٹمی سائنسدان بن گئے۔ قوم ان کو نجات دہندہ سمجھتی تھی کیونکہ اس سے پہلے 1965ء کی جنگ میں ہندوستان نے بزدلانہ حملہ کیا تھا اور ان کے ارادے پاکستان کی ریاست(خدانخواستہ) کو ختم کرنے کے تھے اور اس جنگ کے پس منظر میں پاکستان ہندوستان کے نشانے پر تھا لہٰذا جو حالات بعد میں ان کے ٹیلی ویژن خطاب کا باعث بنے چاہے وہ کچھ بھی کیوں نہ ہوں، قوم ان کو بے گناہ سمجھتی تھی۔
امریکہ چونکہ پاکستان کو ایٹمی قوت کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتا تھا لہٰذا رونالڈ ریگن اور جارج ڈبلیو بش کے زمانے سے امریکی صدر ہر سال پاکستان کو نان ایٹمی طاقت کے طور پر سرٹیفکیٹ دیاکرتے تھے لیکن 1990ء کے بعد امریکی صدور نے یہ سرٹیفکیٹ دینا بند کر دیا۔ یہ بحث ایک طویل بحث ہے کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے چاہئیں تھے یا نہیں اور کیا دھماکے کرنے کا وقت موزوں تھا یا نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے دوسرے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیاء الحق جب کرکٹ کا میچ دیکھنے انڈیا گئے تھے اس وقت دونوں ممالک کے درمیان سردجنگ زوروں پر تھی اور ہندوستان پاکستان پر حملہ کرنے کے لئے تُلا ہوا تھا۔ ضیاء الحق کے بارے میں مشہور ہے کہ راجیو گاندھی سے ملاقات کے موقع پر انہوں نے اپنے ہم منصب کو آگاہ کر دیا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور ایٹم بم ہم نے کھیلنے کیلئے نہیں بلکہ استعمال کرنے کیلئے بنایا ہے لہٰذا ایک جنگ کا ماحول اور خطرہ جو پاکستان پر منڈلا رہا تھا وہ ٹل گیا۔
اگر یہ کہا جائے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان صاحب نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر ہمیشہ کیلئے ناقابلِ تسخیر بنا دیا اور ہندوستان کا پاکستان کو ختم کرنے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا تو مناسب ہوگا۔ اگر ہم سویڈن کے سٹاک ہوم بین الاقوامی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا دعویٰ تسلیم کریں تو اس وقت ہندوستان 80 اور 100 کے قریب وارہیڈز رکھتا ہے جبکہ پاکستان 90 سے 110 کے قریب وارہیڈز رکھتا ہے۔ اس دوران بین الاقوامی تھنک ٹینک یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ چائنا جو پاکستان کو ایٹمی پروگرام میں مدد کر رہا ہے، آئندہ پانچ سالوں میں پاکستان 200 وار ہیڈز کو کراس کر جائے گا۔ یہ سب کچھ اے کیو خان کی مرہون منت ہے جس کو 2004ء میں اسلام آباد کے قریب حراست میں رکھا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ ہندوستان کا وہ بے بنیاد پروپیگنڈہ تھا جس میں وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا دعویٰ کر رہا تھا جس سے امریکہ سمیت مغربی ممالک الرٹ ہو گئے اور اس محسنِ پاکستان کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑ گئیں تاہم انیاڈالو ایجنسی کے اس منفی دعوے کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 2017ء کے اپنے اس انٹرویو میں مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
ڈاکٹر اے کیو خان نے اس دعوے کی نفی بھی کی اور واضح طور پر اپنے انٹرویو میں اس اقدام کو بھارت کا پراپیگنڈہ کہہ دیا اور کہا کہ ایٹم بم کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کو سوٹ کیس میں بند کر دیا جائے اور کوئی دہشت گرد اس کو لے کر چلتا بنے۔ بقول ان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کو بنانے میں بے شمار مرحلے ہوتے ہیں اور صرف اور صرف ٹاپ لیول کے سائنس دان ہی اس کی تیاری کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے پاکستان کے ٹاپ سویلین ایوارڈ تین مرتبہ حاصل کئے۔ ان کی کرونا کے نتیجے میں وفات پر پاکستان کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، سپہ سالار پاکستان قمر جاوید باجوہ سے لے کر ہر سیاست دان اور فوج کی اعلیٰ کمان نے جناب اے کیو خان کو عظیم خراج تحسین پیش کیا۔ پاکستان کے میڈیا میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان مسلسل 48 گھنٹے تک چھایا رہا اور قوم نے اس پاکستانی مجاہد کے جنازے میں جس طرح شمولیت کی اور ان کو لحد میں اُتارا وہ قابلِ دید منظر تھا اور پاکستان کے بڑے بڑے جنازوں کے شرکا کے اعتبار سے اعداد و شمار کو پیچھے چھوڑ دیا۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
اگلے انتخابات میں مرکز‘ پنجاب کا راستہ ”شاہراہ جنوبی پنجاب“ سے گزر کر آئیگا
2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے مرکز‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا میں اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی‘ انتخابات کے 3 مہینے قبل ”جنوبی پنجاب محاذ“ کے کچھ اراکین جوکہ اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن میں شامل تھے‘ اسے چھوڑ کر ایک نیا اتحاد قائم کیا جس کا مقصد ”جنوبی پنجاب“ کے صوبے کی تحریک کو فعال کرنا‘ خانیوال سے لیکر صادق آباد تک مشتمل اس خطے کے پسماندہ علاقوں جہاں سے وہ جیتتے آئے ہیں‘ کی ترقی کے لئے ترقیاتی فنڈحاصل کرنا اور ایک پریشر گروپ بنانا جو آنے والی ہر حکومت پر جنوبی پنجاب کے صوبے اور نعرے کو اقتدار کے طاقتور ایوانوں تک پہنچا سکے۔ 2018ء کے الیکشن سے قبل یہ نیااتحاد ”جنوبی پنجاب محاذ“ اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہوجاتا ہے اور موجودہ وزیراعظم عمران خان پر اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ الیکشن ہوتا ہے‘ تحریک انصاف دو صوبوں اور مرکز میں اپنی حکومت تشکیل دیتی ہے اور اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ اس خطے سے منتخب ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین اگرعمران خان کا ساتھ نہ دیتے تو وزیراعظم عمران خان کا مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانا ناممکن تھا۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور سے ہی جنوبی پنجاب سے الگ صوبے کی آوازیں آنا شروع ہوگئی تھیں‘ پیپلز پارٹی کی حکومت نے یوسف رضا گیلانی کو ملتان سے تعلق ہونے کی وجہ سے وزیراعظم بنایا۔ انہوں نے بھی جنوبی پنجاب کے صوبے کا نعرہ لگایا لیکن اسمبلیوں میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے وہ نعرہ ہی رہ گیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت میں بھی جنوبی پنجاب کی الگ حیثیت کے لئے نعر ے لگتے رہے اور پاکستان تحریک انصاف نے اسی خطے کو 90 دن کے اندر صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ خیر صوبہ تو تاحال نہ بن سکا کیونکہ سیاسی جماعتوں کے اندر اس مسئلے پر کوئی ٹھوس اور سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی البتہ اس کا پورا پیپر ورک اور ڈرافٹنگ پیپلز پارٹی کے دور میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے وقت میں ہوئی اور پارلیمانی کمیٹیوں نے صوبے کے انتظامی اور دیگر لوازمات پر کام کیا جس کا پیپر ورک ابھی بھی قومی اسمبلی کی الماریوں اور درازوں میں موجود ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جب پنجاب جیتنے کے بعد صوبے کے وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا تو ان کا تعلق بھی جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے سے تھا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دور میں اس پسماندہ لیکن ثقافتی طور پر مضبوط خطے کے لئے ملتان اور بہاولپور میں الگ سیکرٹریٹ تو قائم ہوئے جو اس بات کی تصدیق تھی کہ جنوبی پنجاب کا الگ صوبہ بننا کتنا ضروری اور وقت کی ضرورت ہے۔ نہ صرف انتظامی معاملات کو تیز ترین بنانے بلکہ وفاق پاکستان کو مضبوط کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کرکے پیچھے رہ جانے والے علاقوں کو آگے لایا جائے۔ وزیراعظم عمران خان پہلے دن سے اپنی ہر تقریر میں یہی بات کہتے آئے ہیں کہ جوعلاقے پچھلے 20 سال میں پیچھے رہ گئے‘ ان میں ترقیاتی کاموں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے البتہ جنوبی پنجاب کے صوبے کے حوالے سے صرف دو شہروں میں سیکرٹریٹ بننے کے علاوہ تاحال کوئی عملی اقدام نہیں ہو پایا۔ جنوبی پنجاب محاذ کے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی جو 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور الگ صوبے کانعرہ لگایا‘ جس پر انہوں نے الیکشن لڑا اور جیتا‘ ا ن کی کاوشیں بھی ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں میں شامل ہونے کے بعد مدھم اور مخدوش ہوگئیں اور غالباً ان کے کرتا دھرتا وزراء اور مشیران جنوبی پنجاب کے عوام سے کیا گیا اپنا وعدہ وفا نہ کرسکے۔
اس صورتحال کے اندر جنوبی پنجاب کے خطے کے عوام اس کے منتظر ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس خطے کی محرومی اور پستی کو دیکھتے ہوئے اپنی پوری توجہ صوبے کے قیام پر مختص کریں لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہو پائی۔ صوبہ جنوبی پنجاب کے نعرے کے ایک اور چمپئن جہانگیر خان ترین بھی رہے ہیں لیکن وہ بھی اپنے کیسز اور شوگر سکینڈلز کی زد میں آکر منظر سے غائب ہیں۔ 2023ء میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ شنید ہے کہ شاید 2022ء کے آخر تک بھی ہو جائیں البتہ جنوبی پنجاب کے وہ منتخب نمائندے جنہوں نے ہر بار کبھی محاذ بناکر‘ کبھی ٹوپیاں بدل کر تو کبھی سیاسی قلابازیاں لگا کر وہاں کے رہنے والوں کو ایک آس اور سہارا دیا کہ وہ ان کے ووٹ سے اس صوبے کا نعرہ مزید بلند کریں گے‘ ان کو شاید اس بات کا ادراک نہیں کہ ان کے ووٹ سے اقتدار میں ایوانوں میں بیٹھے یہ وزراء‘ مشیران کے لئے عوام میں کتنا غصہ ہوگا جب وہ اگلے الیکشن سے پہلے ان سے ووٹ مانگنے جائیں گے۔ اگلے عام انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب میں بہت توڑ پھوڑ ہوگی‘ کئی سیاسی ہیوی ویٹ ٹوپیاں بھی بدلیں گے اور جماعتیں بھی اور لیڈر بھی۔ کیونکہ اس خطے سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے کسی بھی مرکزی یا صوبائی حکومت کی تشکیل میں اہم پوزیشن رکھتے ہیں۔ حال ہی میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پنجاب میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف نے بھی اس خطے کا رخ کیا۔ اتفاق سے میری دونوں سے ہی بہت اچھی سلام دعا اور بے تکلفی ہے لہٰذا میں کھل کر ان سے اس خطے میں موجود مسائل پر بات کرلیتا ہوں۔ پیپلز پارٹی 20 سے 22 قومی اسمبلی کی سیٹوں پر بہت متحرک ہوگی اور اس کی نظر بھی انہیں حلقوں میں ہے جہاں ان کے خیال میں پی ٹی آئی یا مسلم لیگ ن کو چت کیا جاسکتا ہے اور اس کا ثبوت بلاول بھٹو زرداری کے دورہ جنوبی پنجاب کے ان ضلعی صدر مقامات کے دوروں سے ملتا ہے۔ قائد حزب اختلاف پنجاب حمزہ شہباز ایک متحرک سیاسی ورکر رہے ہیں‘ اپنے تایا اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور اپنے والد اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی جلاوطنی کے دوران جس طرح انہوں نے مسلم لیگ ن کوخاص طور پر پنجاب میں ”Active & Alive“ رکھا اور پورا وقت سابق صدر مشرف کے دور میں پنجاب کے اندر متحرک رہے‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ میں نے ان سے اپنی آخری ملاقات میں بھی ان کے پنجاب بھر کے دوروں کا ذکر کیا اور اب شنید ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے دورے کے بعد وسطی/ سنٹرل پنجاب کے ضلع وار دوروں پر نکل رہے ہیں۔ میں ہمیشہ یہ کہتا آیا ہوں کہ اپنے والد کی طرح ان کی انتظامی صلاحیتیں وقت کے ساتھ ساتھ نکھر رہی ہیں لہٰذا ان کے لئے پنجاب بھر میں تیزی کے ساتھ متحرک ہونا‘ ان کی پارٹی کے اندرونی اختلافات کو بھی ختم کرسکتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ ان کو اس بات کا بہت اچھی طرح علم ہے۔ ان کے حالیہ دورے میں خانیوال‘ ملتان‘ لودھراں‘ راجن پور‘ مظفر گڑھ شامل تھے جہاں پر پارٹی سے کچھ ناراض اور کچھ خفاء ہوکر الگ ہونے والے دوبارہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے اور نواز شریف‘ شہباز شریف او ر حمزہ شہباز کی قیادت پر اعتماد کیا۔ حمزہ شہباز کے دورے میں میری ذاتی معلومات بھی یہی ہے کہ بہت محنت کی گئی اور شہباز شریف کے ترجمان ملک احمد خان اور عمران گورائیہ نے بہت بھاگ دوڑ کی البتہ یہ تمام کوششیں لوگوں کو اس وقت پسند آئیں گی جب ان کو کسی قسم کا ریلیف ملے گا۔ ان کے اس دورے میں کچھ مقامی لیڈران کی آپسی چپقلش بھی سامنے آئی لیکن مجموعی طور پر پنجاب اور خصوصاً اس خطے میں اسی سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعت کو ووٹ ملے گا جو ان کے زخموں پر مرہم رکھے گا اور ان کے ساتھ کئے گئے وعدے کی پاسداری کریگا۔ جیسے میں نے پہلے بھی لکھا کہ اس خطے سے آنے والی آواز ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں تک تو پہنچتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں کے اکثر منتخب نمائندے اقتدار کے طاقتور ایوانوں میں پہنچ کر اپنے وعدے اور نعرے‘ دونوں بھول جاتے ہیں۔ 2018ء کے الیکشن میں نام نہاد جنوبی پنجاب محاذ جو اب تحریک انصاف کا حصہ ہے‘ میری معلومات کے مطابق وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار دونوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ شاید ان کو اس خطے میں صرف دو سیکرٹریٹ کھولنے کے علاوہ خود ”کھل کر فرنٹ فٹ“ پر کھیلنا ہوگا اور اسی خطرے کو مسلم لیگ ن اور میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے بھانپ لیا ہے کیونکہ میرے خیال کے مطابق اگلے انتخابات میں مرکز اور پنجاب کی حکومتوں کا راستہ ”شاہراہ صوبہ جنوبی پنجاب“ سے گزر کر آئیگا۔
٭٭٭
Once again it’s smooth sailing for Betfair. You might think it doesn’t matter where you place your first goalscorer bets but after reading this article you’ll have changed your mind. Use Pinnacle’s arbitrage betting calculator to find arb opportunities Betting Online – How to Bet from Different Countries (2022). Last season, Tottenham’s Harry Kane finished top of the goalscoring charts with a superb 25 strikes to add to his 21 the season before.
بھوک کے بڑھتے سائے
پاکستان تحریک انصاف کے کارکن اپنے قائد اور وزیراعظم پاکستان عمران خان سے بجا شکوہ کرتے ہیں کہ خان صاحب!ہم مسلم لیگ ن کے متوالوں اور پیپلز پارٹی کے جیالوں سمیت اپوزیشن جماعتوں کے ہر طعنے اور ہر سیاسی و غیر سیاسی وار کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں لیکن جب ایک عام پاکستانی ریاست مدینہ کی دہائی دیتے ہوئے ہم سے بیروزگار اور بھوکا ہونے کی بات کرتا ہے تو ہمارے پاس اس کی مایوس آنکھوں میں موجود کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ پاکستان میں غربت اپنے نوکیلے دانت ہر دم تیز کئے رکھتی ہے اور آئے روز کوئی نا کوئی غریب خودکشی کر کے اس عفریت سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ خود عمران خان کو بھی اس صورت حال کا بخوبی احساس ہے۔یہی وجہ ہے کہ غربت کا ذکر کرتے ان کی آواز میں پیدا ہونے والا ارتعاش واضح محسوس کیا جاسکتا ہے۔ تاہم وہ حکومت کے سربراہ اور اپنی پارٹی کے قائد ہونے کے ناطے قوم اور خصوصاً اپنے حامیوں کی ڈھارس بھی بندھاتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم نے ملک میں مہنگائی بڑھنے کا اعتراف کیا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی عالمی سطح پر بڑھنے والی ہوش ربا شرح سے بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ پچھلے چند مہینوں میں پٹرول کی قیمت دنیا بھر میں 100 فیصد بڑھی ہے لیکن پاکستان میں پٹرولیم قیمتیں صرف 22 فیصد بڑھائی گئی ہیں۔ اسی طرح گندم دنیا میں 37 فیصد مہنگی ہوئی لیکن پاکستان میں یہ اضافہ 12 فیصد ہے۔چینی بھی دنیا میں 40 فیصد مہنگی ہوئی لیکن پاکستان میں یہ اضافہ 21 فیصد تک محدود رکھا گیا ہے۔ وزیراعظم موت دکھا کر قوم کو بخار پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بھوکے بچے کو سلانے کے لئے ماں کوئی اچھوتی کہانی سنانے کی کوشش کرے لیکن قوم اس بہلاوے میں آخر کہاں تک آئے۔ اخلاق ساغری نے کہا تھا
بھوک میں کوئی کیا بتلائے، کیسا لگتا ہے
سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی، تحفہ لگتا ہے
یارو اس کی قبر میں روٹی بھی رکھ دینا
مرنے والا جانے کب کا بھوکا لگتا ہے
2012 میں بان کی مون اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ انہوں نے اس وقت 2030 ZHC یعنی Zero Hunger Challenge 2030کے عنوان سے ایک پروگرام شروع کرتے ہوئے ایک زبردست امید ظاہر کی کہ سائنس اور مینجمنٹ کی مدد سے 2030 تک دنیا سے بھوک ختم کر دی جائے گی۔ یہ میرے لئے حیران کن اور ناقابل فراموش بات تھی کیونکہ اسی بھوک کے خاتمے، برابری و مساوات کے لئے ہی تو دنیا بھر کے مذاہب اور تہذیبیں ہزاروں سال تک کوشاں رہی ہیں۔ کوئی بھوکا نا سوئے کا پیغام لے کر کئی پیغمبر مبعوث ہوتے رہے، اب اگر سائنس اور مینجمنٹ کی مدد سے اس مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے تو اس سے بڑھ کر کیا بات ہو سکتی ہے۔ آج اس پروگرام کو شروع ہوئے 9 سال ہو چکے اور ٹارگٹ کے حصول کے لئے محض 11 سال باقی ہیں تو میں نے سوچا اس خوش کن امید کی موجودہ صورتحال دیکھی جائے۔ اس حوالے سے اعدادوشمار بڑے دلچسپ ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2000 میں دنیا کی 15 فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار تھی اور تقریبا 81 کروڑ افراد ایسے تھے جنہیں روٹی میسر نہیں تھی۔ بھوک مٹاو پروگرام کے بعد 2019 میں یہ تعداد کم ہو کر 69 کروڑ افراد رہ گئی۔ اگر ایسے ہی چلتا رہتا تو 2030 تک بھوک کا خاتمہ ہو بھی سکتا تھا لیکن درمیان میں کووڈ بحران آگیا جس نے 6 کروڑ مزید انسانوں کو اس دلدل میں دھکیل دیا۔ اب اکتوبر 2021 کے دوسرے ہفتے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو ورلڈو میٹر کے مطابق دنیا کی آبادی 7 ارب 89 کروڑ 81 لاکھ 51 ہزار 192 ہو چکی ہے اور گزشتہ رات وہ رات تھی جب دنیا کے 75 کروڑ افراد بھوکے سوئے ہیں۔
عالمی سطح پر کسی انسان کو اس وقت بھوک کا شکار مانا جاتا ہے جب کئی دن تک اسے روٹی نا ملے اور دیگر ذرائع سے بھی اسے 24 گھنٹوں میں حاصل ہونے والی کیلوریز کی تعداد 1800 سے کم ہو۔ کیلوریز کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ 100 گرام کی روٹی میں 297 کیلوریز ہوتی ہیں۔ ایک عام شخص جب دال کے ساتھ دو روٹی کھا لے تو اس کے جسم کو ایک ہزار کیلوریز حاصل ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے تحریک انصاف حکومت کی طرف سے بنائی گئی پناہ گاہوں میں جب ایک شخص کو دو ٹائم دال کے ساتھ ہی کم از کم دو روٹیاں کھانے کو مل جاتی ہیں تو اس کے جسم کو زندہ رہنے کے لئے کم از کم ایک دن کا ایندھن حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن عمران خان صاحب!میں کیا کروں میرے سامنے آپ کی اپوزیشن کی جانب سے پیش کئے گئے اعدادوشمار نہیں بلکہ اقوام متحدہ کا ڈیٹا پڑا ہوا ہے جو بتا رہا ہے کہ پاکستان کی اکتوبر کے پہلے ہفتے تک کل آبادی 22 کروڑ 65 لاکھ 16 ہزار 455 تھی اور آپ کی بنائی گئی پناہ گاہوں کے باوجود گزرنے والی کل کی رات بھی پاکستان کے 4 کروڑ لوگ ایسے تھے جنہیں دو روٹیاں بھی نہیں مل سکیں۔ دنیا میں انتہائی غریب ترین آبادی 9.9 فیصد لیکن پاکستان میں یہ شرح اب بھی کل آبادی کا 26 فیصد ہے۔ پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے 5 واں بڑا ملک ہے لیکن دنیا کے 107 غریب ملکوں میں یہ 88 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں خوراک کی کمی نہیں بلکہ پاکستان کے صرف کسان اتنی خوراک پیدا کرتے ہیں کہ 22 کروڑ کے بجائے 34 کروڑ آسانی سے کھا سکتے ہیں اور قدرتی طور پر پیدا ہونے والے پھل اور خوراک اس کے علاوہ ہے لیکن پھر بھی یہاں کے 4 کروڑ لوگ رات کو بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بہت پہلے بتا دی تھی کہ جب ایک بندہ رات کو بھوکا سوتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ نے اس کا رزق پیدا نہیں کیا بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اس کا حق کوئی اور کھا گیا ہے۔ اور آخر میں اپنے وزیر اعظم کیلئے بطور حکمران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول دہرانا چاہوں گا کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اے عمر!تجھ سے اس کی بازپرس ہوگی۔ خان صاحب آپ اپنی سیاسی لڑائی لڑتے رہیں لیکن ان 4 کروڑ خالی پیٹ لوگوں کے بارے بھی کوئی فوری لائحہ عمل بنائیں۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
سرائیکی وسیب کو خبریں بہاول پور مبارک ہو
خضر کلاسرا
بہاولپور مبارک ہو۔آپ صحافت کی دنیا میں ایک بڑے سیٹ اپ کا حصہ یوں بن گئے ہیں کہ آپ کی دھرتی کے فرزند ضیا شاہد صاحب کے بیٹے چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں،امتنا ن شاہد نے لاہور سے آکر اپنی دھرتی بہاولپور کو صحافت کی دنیا میں قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے روزنامہ خبریں کی بہاول پور سے اشاعت کا بڑا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پہ ہے کہ جناب ضیا شاہد،صحافت کی دنیا میں اعلیٰ مقام پر پہنچنے پر بہاول پور کی محبتوں اور اس کو درپیش مسائل کو کبھی نہیں بھولے تھے،اور نہ ان کے بیٹے امتنان شاہد بھولے ہیں۔ضیا شاہد صاحب نے بہاول پور کے عوام کی خوشیوں اور غم کو اپنا سمجھا۔ستلج کی کہانی سے لے کر عام آدمی کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے ہوئے جب ‘ جب بہاول پور کے ایشوز پر لکھتے تھے تو تخت لاہور کیایوان لرزتے تھے۔، ضیا شاہد صاحب نے بہاولپور کی محرومیوں کا مقدمہ قومی سطح پر یوں رکھا جیسے کہ حق تھا وگرنہ بہاولپور کے مقامی اخبارات تواپنے تئیں ‘بہاولپور صوبہ پر جنرل یحییٰ خان کے ڈاکہ پر آواز اٹھاتے لیکن بصد احترام دیگر قومی اخبارات میں بہاول پور کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کوریج نہیں دی جاتی تھی ‘ لیکن جیسے ضیا شاہد صاحب نے بہاول پور کے ایشوز کو روزنامہ خبریں میں اٹھایا اور روزنامہ خبریں کو عام آدمی کا اخبار بنایا تومجبوراً دیگر اخبارات کو اپنی گرتی ساکھ کو بچانے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے پڑے۔لیکن پھر بھی بھی خبریں کو جو اعزاز حاصل ہے۔وہاں سے کہیں دور کھڑے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں جناب امتنان شاہد نے ضیا شاہد صاحب کو روزنامہ خبریں کی بہاولپور سے اشاعت کا تحفہ دے کر ان کی روح کو خوش کردیا ہے۔یہ ضیا شاہد صاحب کا ِخواب پورا ہوا ہے۔وہ اس بہاول پور دھرتی کا فرزند ہونے ناطے اس سے بے لوث محبت اور پیار کرتے تھے۔جناب امتنان شاہد اپنے اس بڑے فیصلے پر مبارکباد قبول کریں۔
اب میں اس طرف آتا ہوں کہ راقم الحروف روزنامہ خبریں کی بہاول پور سے اشاعت پر اتنا خوش کیوں ہے؟ اس کی ایک تو بڑی وجہ یہ ہے کہ بہاولپور کے ایشوز جوکہ اس سے پہلے دبے رہے ہیں ‘ وہ اب سامنے آئینگے۔بیشک روزنامہ خبریں ملتان میں بہاول پور کے ایشوز کو کوریج ملتی تھی لیکن اگر مجھے اختلاف کرنے کی اجازت دیں تو اتنی نہیں ملتی تھی۔جتنے کا وہ حقدار تھا۔وجہ سادہ تھی کہ ملتان بڑا اسٹیشن تھا۔اس کے اپنے ایشوز اتنے تھے کہ بہاولپور کے مسائل کو جو کوریج ادارہ دینا چاہ رہا ہوتا تھاوہ نہیں ملتی تھی۔کچھ ملتان کے دوست بھی اپنی رائے ملتان کے خانہ میں ڈال دیتے تھے پھر بہاولپور والے اپنے صوبہ بہاولپور بحالی پر فوکس کرتے تھے جبکہ ملتانی سرائیکی صوبہ کے حامی تھے۔یوں اس بڑے اور حساس ایشو پر دونوں آمنے سامنے آجاتے تھے؟ اس بڑے اور حساس ایشو پر معاملات اور طرف چلے جاتے تھے؟ لیکن ضیا شاہد صاحب نے بہاول پور کیساتھ ملتان کی اس کہانی کا حل یہ نکالا تھا کہ وہ بہاول پور کیلئے کالم لکھتے تھے تاکہ بہاولپور کی حق تلفی نہ کی جاسکے۔ان کی میرے جیسے صحافت کے طالب علم پر بھی نظر پڑی کہ یہ بہاول پور کے ایشوز پر بولتا اور لکھتا ہے تو روزنامہ خبریں میں بحیثیت کالم نگار موقع دیا۔
میرے لیے یہ بات بڑے اعزاز سے کم نہیں تھی کہ میں جناب ضیا شاہد کی زیرسرپرستی میں لکھنے لگا۔میری بہاولپور سے محبتوں کی کہانی اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا کی بدولت تھی۔انہوں نے جہاں ایک طرف مجھے قلم پکڑنا سکھایاوہاں بہاولپور کے انقلابی،سیاسی اور صحافی دوستوں کی ایسی کھیپ دی جوکہ کتاب دوست کے علاوہ کمال لوگ تھے۔ادھر نعیم بھائی کی عباس منزل کے کمرہ نمبر (19) کی الماری لائبریری سے جہاں مختلف موضوعات پر اعلیٰ کولیکشن پر مشتمل کتابوں کی زیارت ہوئی۔وہاں عباس منزل کیساتھ جڑی سینٹرل لائبریری بہاول پور میں موجود بہاولپور کی تاریخ کی کتابیں میرے لیے خزانہ تھیں۔ادھر نعیم بھائی کی زندگی کی بڑی خوشی یہ ہوتی تھی کہ ہم کتابوں کی دنیا میں رہیں۔نواب آف بہاول پور بھی کیا علم دوست شخصیت تھے۔انہوں نے جہاں اپنی ریاست بہاولپور کے لوگوں کو اعلیٰ تعلیمی ادارے دئیے۔وہاں پر سینٹرل لائبریری کی شکل میں انمول بھی تحفہ دیا۔اعلیٰ بہت اعلیٰ۔پھر بہاول پور کے مقامی اخبارات کی قربت ملی بالخصوص روزنامہ کائنات بہاولپور تھا۔
میرے لیے روزنامہ کائنات بہاولپور میں بحیثیت رپورٹر کام کرنا اعزاز یوں تھا کہ بہاول پور کی صحافت میں ابتدائی ادوار کے اخبارات کی صف اول کے اخبارات میں شامل ہونے کے علاوہ عوام کے ایشوز پر فوکس رکھتا تھا۔ روزنامہ کائنات، بہاولپور میں رپورٹر اور پھر ایڈیٹر احمد علی بلوچ کی محبتوں کی بدولت کالم لکھنے کا بھی آغاز کیا۔اس دوران میری نظر روزنامہ کائنات بہاولپور کے ”گولی نمبر“پر پڑی جوکہ روزنامہ کائنات بہاولپور نے اشاعت خاص کے طور پر شائع کیا تھا ”گولی نمبر“شائع کرنے کی نوبت یوں آئی تھی، جب جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ کو ختم کیا تو بہاول پور صوبہ بحال کرنے کی بجائے اس کو پنجاب میں شامل کر دیا۔اس فیصلے کے ردعمل میں بہاولپور کے لوگ رنگ،نسل اور زبان سے بالاتر ہوکر احتجاج کیلئے نکلے تو ایوانوں کے در ودیوار ہل گئے۔ادھر یحییٰ خان نے بہاولپور صوبہ بحالی کے حامیوں پر گولی چلانے کا حکم دیا تو ستلج دریا کے پانی کا رنگ سرخ ہوگیا لیکن وہ دن اور آج کا دن بہاولپور کے عوام صوبہ بحالی کے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ بہاولپور کے عوام اور نواب صاحب پاکستان پر قیام پاکستان پر احسانات کی شکل میں یوں برسے جیسے روہی میں باکر وال برستا ہے مطلب جو پاکستان کیلئے ضرورت تھا۔نواب آف بہاولپور پیش کرتے گئے لیکن یہاں اس بات کا اعتراف کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے محسن نواب بہاولپور کی عوام کو محبتوں کی بدولت ککھ بھی حکمرانوں کی طرف سے واپس نہیں لوٹایا گیا ہے جوکہ زیادتی نہیں بلکہ بہت بڑی ناانصافی ہے۔ آجکل روزنامہ خبریں بہاولپور کے ویب ایڈیشن کی ترجیحی بنیادوں پر زیارت کرتا ہوں۔روزنامہ خبریں بہاولپور کی ٹیم کی اوپننگ کو سراہتا ہوں۔ اور بہاولپور سے روزنامہ خبریں نے جو سیکنڈل ابھی تک بریک کئے ہیں۔ان میں سے آپ کی اجازت سے دو ایک ٹواب کیلئے پیش بھی کرتا ہوں۔”عملہ کی نااہلی یا ملی بھگت۔بہاولپور کارپوریشن کی اربوں کی مالیتی اراضی پر مافیا قابض،پٹرول پمپس اور دکانیں تعمیر۔سالہال سال سے لیز ایگریمنٹ ختم ہونے کے باوجود مافیا کا قبضہ چھوڑنے سے انکار“اب اندازہ کریں کہ کس طرح حکومتوں نے مافیا کے آگے ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں۔اس بھی بڑا سیکنڈل جوکہ روزنامہ خبریں بہاولپور میں رپورٹ ہوا ہے۔وہ یہ ہے کہ چولستان اراضی کی بندر بانٹ 4 لاکھ ایکڑ بغیر معاوضہ لیز پر دینے کا انکشاف۔حیرت ہوتی ہے کہ حکومتی اداروں کی موجودگی کے باوجود اتنی بڑی سطح پر وارداتیں ہورہی ہیں، اب ایک پٹواری کی وارداتیں بھی چلتے چلتے سن لیں۔وہ یہ ہے کہ کرپٹ پٹواری کے پاس 3 مواضعات کا چارج اور کروڑوں کی بے نامی کی جائیدادیں بنالی ہیں۔ مطلب انی مچی ہوئی ہے۔ادھر ہیڈ راجکاں پونے چار کروڑ کا مدینہ پارک کا منصوبہ کرپشن کی نذر ہوچکا ہے۔رہے نام اللہ کا۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭
الیکٹرونک ووٹنگ
طارق ملک
قارئین کرام! میں اپنے پچھلے کالموں میں تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں کہ کس طرح پاکستان میں 1970ء سے لے کر آج تک اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا رزلٹ قبول نہیں کیا اور اس دوران میں پاکستان حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان میدان جنگ بنا رہا ہے ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ ہمارے ساتھ اور ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ملک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ الیکشنوں میں پری پول رگنگ کی وجہ سے عوام الناس کی الیکشن میں دلچسپی کم سے کم ہو رہی ہے جس سے ایک بڑا طبقہ ووٹ ڈالنے سے محروم ہے۔ جس کی وجہ سے 22 کروڑ عوام کی حقیقی نمائندگی نہیں ہو رہی اور زیادہ تر جو لوگ ووٹ ڈالتے ہیں وہ بھی یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ اُنہوں نے ووٹ تو کسی اور کو ڈالا تھا مگر نکلا کسی اور کے کھاتے میں اس طرح لوگوں کا الیکشن کی شفافیت سے اعتماد اُٹھ چکا ہے۔ ایک ایم این اے کے حلقے میں تقریباً تین سو پولنگ اسٹیشن ہوتے ہیں اگر وہ ہر پولنگ اسٹیشن پر سو جعلی ووٹ ڈلوانے میں کامیاب ہو جائیں تو ان کو 30 ہزار کے قریب جعلی ووٹ مل جائیں گے اسی طرح اگر وہ اپنے مخالف فریق کے دس ووٹ ہر پولنگ اسٹیشن سے منسوخ کروانے میں کامیاب ہو جائیں تو ان کو تین ہزار ووٹوں کی برتری حاصل ہو سکتی ہے اس طرح کل 33 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل ہو سکتی ہے جو لوگ متواتر الیکشن لڑتے ہیں اُنہوں نے اپنے حلقوں میں ہزاروں جعلی ووٹ بنوائے ہوتے ہیں اور وہ پریزائیڈنگ آفیسر اور عملہ پولنگ اسٹیشن سے مل کر یہ دھاندلی کرتے ہیں اسی طرح یہ بااثر لوگ ریٹرننگ آفیسر پر اثر انداز ہو کر اپنے من پسند پولنگ اسٹیشن بنواتے ہیں اور اپنے من پسند سٹاف کی ڈیوٹیاں بطور پریزائیڈنگ آفیسر اور پولنگ آفیسر لگواتے ہیں تا کہ وہ آزادی سے دھاندلی کر سکیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ووٹنگ کا ٹرن اُور بہت کم ہوتا ہے۔ 1985ء کے الیکشن میں ٹرن اوور 53 تھا 1988ء میں ٹرن اُوور 43 فیصد تھا 1990ء میں ٹرن اوور 45 فیصد تھا 1993ء میں ٹرن اوور 40 فیصد تھا 1997ء میں ٹرن اُوور 36 فیصد تھا 2002ء میں ٹرن اُوور 42 فیصد تھا۔ 2008ء میں ٹرن اوور 44 فیصد تھا 2013ء میں ٹرن اوور 55 فیصد تھا جبکہ 2018ء میں ٹرن اوور 52 فیصد تھا اگر ہم اوسط دیکھیں تو 50 فیصد سے زیادہ ووٹر ووٹ ڈالنے نہیں آتے کیونکہ اُن کا الیکشن کی شفافیت پر یقین نہ ہے۔
موجودہ حکومت نے نادرا کو ہدایت کی ہے کہ انکوائری کر کے 90 لاکھ جعلی ووٹوں کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ اسی طرح الیکٹرونگ ووٹنگ مشین متعارف کروائی گئی ہے جس کے ذریعے نہ تو جعلی ووٹ ڈال سکیں گے اور نہ ہی پولنگ عملہ کی ملی بھگت سے کسی کے ووٹ منسوخ ہو سکیں گے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پولنگ سکیم بھی جیو ٹیکنگ کے ذریعے شفاف طریقہ سے کرائی جائے تا کہ ووٹرز آسانی سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں اس طرح ایک تو اخراجات کم ہوں گے جن میں بیلٹ پیپر کی چھپائی الیکشن میٹریل کا خرچہ الیکشن سٹاف کی کنوینس اور ان کے ٹی اے ڈی اے کے اخراجات بچ جائیں گے اگر حساب لگایا جائے تو الیکٹرونک ووٹ مشین کا خرچہ ان اخراجات سے کم ہے اور یہ مشین آئندہ الیکشن اور بلدیاتی الیکشن میں بھی کام آئے گی۔ اور اس طرح آنے والے تمام الیکشن بہت کم خرچے میں ہو سکیں گے۔
حکومت اور اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ مل بیٹھ کر الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے استعمال کو آئندہ بلدیاتی اور جنرل الیکشن میں یقینی بنائیں اس طرح عوام کا منصفانہ الیکشن پر اعتماد بڑھے گا اور وہ آزادی سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے جس سے ٹرن اوور زیادہ ہو گا اور عوام کے حقیقی نمائندے سامنے آ سکیں گے جو ملک اور قوم کی خواہشات کے مطابق خدمت کر سکیں گے۔
دوستوں کا کہنا ہے کہ اس وقت مسلم لیگ ن کے دو دھڑے بن چکے ہیں ایک دھڑے میں شیخ روحیل اصغر، خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق اور رانا تنویر حسین شامل ہیں جب کہ دوسرے دھڑے میں خواجہ آصف، احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں۔ دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چودھری نثار علی خان کو پی ٹی آئی پنجاب کی صدارت کی پیش کش کی گئی ہے اور انہیں یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ پنجاب کے آئندہ وزیراعلیٰ وہی ہوں گے لیکن چودھری نثار علی خان نے سردست یہ پیش کش یہ کہہ کر قبول کرنے سے معذرت کی ہے کہ انہوں نے ساری زندگی مسلم لیگ ن میں بھی کوئی پارٹی عہدہ قبول نہیں کیا تھا۔ الیکشن قریب آنے پر پارٹی میں شامل ہو سکتا ہوں۔ دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل الیکشن سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف بھی نااہل ہو جائیں گے۔
آئندہ الیکشن میں عمران خان، بلاول بھٹو زرداری، ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن الیکشن لڑیں گے۔ مستقبل میں مسلم لیگ ن کی قیادت کون کرتا ہے یہ ابھی کوئی پتہ نہیں ہے۔ دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم لیگ کے سینئر رہنما رانا تنویر حسین نے میاں محمد نوازشریف کو ملک واپس آنے کا مشورہ دیا ہے جس کی دیگر سینئر رہنماؤں نے بھی تائید کی ہے۔
طارق ثناء باجوہ داتا گنج بخش ٹاؤن لاہور کے ناظم رہ چکے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے دور میں تجاوزات کے خاتمے کے لئے دبنگ اقدامات کئے جن کے نتیجے میں کسٹم ہاؤس کے سامنے ایک معروف پرائز بانڈ کی تین منزلہ بلڈنگ جو کہ سرکاری جگہ پر بنی تھی کو گرا دیا اور یہاں پر ہائی کورٹ کے ججز کے لئے گیٹ لگوا کر راستہ بنوایا۔
ثناء باجوہ کاآج کل تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کو طارق ثناء باجوہ کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭