نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی جانب سے سیکیورٹی خدشات پر وطن واپسی کے بعد کرس گیل کی ٹویٹ نے پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں
All posts by Daily Khabrain
افغانستان میں مخلوط حکومت کیلئے پاکستان متحرک
چالیس برس کی لڑائی کے بعد تمام دھڑوں کی اقتدار میں شمولیت پر امن اور مستحکم افغانستان کی ضامن ہو گئ جو افغانستان میں نہیں خطے کے بھی مفاد میں ہے، کشیدگی ختم کرائیں گے: وزیراعظم
افغانستان میں امن و امان کی واحد صورت مشترکہ حکومت ھے، طالبان نے گزشت 20برسوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اور تبدیل ہوے ہیں، افغانستان میں انسانی بحران سے سارے ہمسائے متاثر ہوں گے: بیان
اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان جامع حکومت کے قیام کے لیے انہوں نے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔
انہوں نے یہ بات ٹویٹر پر جاری ٹویٹس میں کہی ہے۔
پاکستان کا دورہ منسوخ کرنے پر بین الاقوامی کرکٹرز سمیت، شوبز کے ستاروں کی نیوزی لینڈ پر تنقید
نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کی جانب سے میچ شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل اچانک سیریز ملتوی کرنے کے اعلان پر ملکی و غیر ملکی کھلاڑیوں سمیت شوبز کے ستاروں کی جانب سے بھی تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز نیوزی لینڈ اور پاکستان کے درمیان راولپنڈی میں پہلا ون ڈے میچ شیڈول تھا تاہم میچ کے آغاز سے تھوڑی دیر قبل ہی نیوزی لینڈ کرکٹ نے سیکیورٹی خدشات کے باعث اپنا دورہ منسوخ کرتے ہوئے ٹیم کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم کی واپسی کے اعلان کی خبر سامنے آنے کے بعد سے اب تک ٹوئٹر پر #PakvsNZ ٹاپ ٹرینڈ ہے۔
‘پوری کہانی نہیں بتائی جارہی’
اس حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے سابق باؤلر وسیم اکرم نے مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ‘پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ بین الاقوامی کھیلوں کے لیے ہمارے سیکیورٹی اقدامات سب سے بہتر ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کرکٹ کھیلنے کے لیے محفوظ ترین مقامات میں سے ایک ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے لگتا ہے کہ ہمیں پوری کہانی نہیں بتائی جارہی ہے’۔
‘پاکستان میں کرکٹ کھیلنا پسند ہے’
نیوزی لینڈ ہی کے سابق کھلاڑی ڈینی موریسن نے بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘زیادہ معلومات نہیں کیا ہو رہا ہے مگر پاکستان کا سفر کرنا اور وہاں کرکٹ کھیلنا بہت پسند ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان کی عوام کے احساسات کو سمجھ سکتا ہوں’۔
‘پاکستان سب سے پر امن ملک ہے’
جنوبی افریقہ کے کھلاڑی فہیم رانا نے بھی کہا کہ ‘میں نے بہت سے ممالک کا دورہ کیا ہے مگر پاکستان کو سب سے خوبصورت اور پر امن ملک پایا ہے، اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کی فوج اور ایئرفورس دنیا کی بہترین میں سے ایک ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نیوزی لینڈ سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی گزارش کرتا ہوں’۔
‘نیوزی لینڈ کرکٹ کا یہ غیر پیشہ ورانہ رویہ تھا’
جنوبی افریقہ کے ہرشیل گبز نے کہا کہ کرکٹ کی دنیا اور کرکٹ کے چاہنے والوں کے لیے یوم سیاہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نیوزی لینڈ کرکٹ اور سیکیورٹی انتظامیہ کا یہ غیر پیشہ ورانہ رویہ اور نیوزی لینڈ کی حکومت کا جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ تھا۔
‘پی سی بی نے ہماری حفاظت یقینی بنائی تھی’
سری لنکا کے کھلاڑی دمُتھ کرونارتنے نے کہا کہ پی سی بی نے 2 سال قبل ہمارے دورے کے دوران یقینی بنایا تھا کہ ہم محفوظ محسوس کریں۔
‘اصل بات کچھ اور ہوگی’
گلوکار یاسر جسوال نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا اصل سیکورٹی خدشات کے مقابلے میں دورہ منسوخ کرنے کے فیصلے کے پیچھے اصل بات کچھ اور ہوگی، بلیک کیپس نے اپنا منہ بھی کالا کرلیا’۔
انہوں نے نے انسٹاگرام پر اپنے پیروکاروں سے سوال کیا کہ ‘آپ لوگ کیا سوچتے ہیں’۔
‘پاکستانی خطرے کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں’
پاکستانی گلوکار اور ٹی وی شو کے میزبان فخر عالم نے کہا کہ ‘ایک پاکستانی شہری ان قابل اعتماد خطرے کے بارے میں جاننا چاہتا ہے جو کہ بلیک کیپس کو موصول ہوے، حکومت پاکستان کے ساتھ اس انٹیلی جنس شیئر کرنا صرف مناسب ہے تاکہ اگر کوئی حقیقی خطرہ ہو تو اسے فوری طور پر ختم کیا جا سکے اور جانوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے’۔
‘دورہ منسوخ کرنے کا کوئی مطلب نہیں’
آسکر ایوارڈ یافتہ فلمساز شرمین عبید چنائے نے کہا کہ دورہ منسوخ کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
انہوں نے انسٹاگرام پر لکھا کہ ‘نیوزی لینڈ کی سیکیورٹی ٹیم نے کلیئرنس دے دی تھی اور انہوں نے تقریبا ایک ماہ یہاں گزارا تھا، پاکستان کی سیکورٹی بہترین ہے’۔
‘پاکستانیوں کے لیے بہت مایوس ہوں’
انوشے اشرف نے کرکٹ شائقین کو تسلی دینے والا پیغام جاری کیا۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں نیوزی لینڈ کی جانب سے اچانک کھیل چھوڑ کر جانے کے بعد دنیا بھر کے پاکستانیوں کے لیے بہت مایوس ہوں’۔
‘ٹی 20 ورلڈ کپ میں ملیں گے’
گلوکار عاصم اظہر نے اپنے پیروکاروں کو تسلی دی۔
انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ‘یہ افسوسناک ہے مگر ٹھیک ہے، ہم ایک ایسی قوم ہیں جو واپس اٹھنے کے عادی ہیں، پاکستان محفوظ ہے اور ہمیشہ رہے گا، ہم پھر بھی دل کھول کر نیوزی لینڈ یا کسی دوسری قوم کا خیرمقدم کریں گے جو اس کے برعکس سوچتے ہیں کیونکہ ہم ایسے ہی ہیں’۔
انہوں نے دنیا کو کنارہ کیے گئے پاکستان سے خبردار رہنے کا کہنا ہے اور کہ کہ کرکٹ ٹی 20 ورلڈ کپ میں ملیں گے’۔
کابل سمیت تین شہروں میں بم حملہ، متعدد افراد ہلاک
کابل : افغانستان کے تین شہر زور دار دھماکوں سے لرز اٹھے، بم دھماکوں کے باعث 21 شہری لقمہ اجل بنے۔
افغان خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق خانہ جنگی کے شکار ملک افغانستان کے دارالحکومت کابل سمیت تین شہریوں میں خوفناک دھماکے ہوئے ہیں۔
افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ افغان شہر ننگرہاد میں چار دھماکے ہوئے جس میں طالبان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جب کہ کابل میں بھی دو آئی ای ڈی دھماکے ہوئے جس سے متعدد گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دھماکوں کے نتیجے میں 21 افغان شہری ہلاک جبکہ متعدد شہریوں کے زخمی ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ افغانستان میں 29 اگست کو امریکا کے ڈرون حملوں میں بھی تین بچوں سمیت 12 شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔
ڈومیسٹک سطح تک محدود رہتے ہوئے عالمی سطح کی ٹیم تیار کر سکتے ہیں، رمیز راجا
چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) رمیز راجا نے کہا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ پھر دباؤ میں آ گئی ہے اور اگر ہم اس صورتحال سے باہر نہیں نکل پاتے تو ڈومیسٹک سطح تک محدود رہتے ہوئے عالمی سطح کی ٹیم تیار کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے گزشتہ روز ون ڈے سیریز کے آغاز سے چند گھنٹے قبل دورہ پاکستان منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا اور آج ان کی ٹیم خصوصی طیارے سے وطن واپس لوٹ گئی ہے۔
کیویز کے انکار کے ایک دن بعد پی سی بی کی جانب سے جاری خصوصی ویڈیو پیغام میں رمیز راجا نے کہا کہ آپ کا اور میرا درد ایک جیسا اور مشترک ہے، جو کچھ ہوا وہ پاکستان کرکٹ کے لیے ٹھیک نہیں تھا، آپ کا اندازہ ہے کہ ہم کیا توقع کررہے تھے اور جو ہوا وہ بدقسمت صورتحال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں لیکن ہم آگے بڑھے ہیں، ہم میں مشکل سے نکلنے کی صلاحیت ہے جو شائقین کرکٹ اور قومی ٹیم کی وجہ سے ہے اور ہم اپنی بقا کے لیے لڑنے کے جذبے کے تحت دنیا کو چیلنج کرتے ہیں۔
رمیز راجا نے کہا کہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ پھر دباؤ میں آ گئی ہے تو ہم دوبارہ چیلنج کریں گے، اگر بالفرض باہر نہیں نکلتے ہیں تو ہم میں اتنا دم، اعتماد اور طاقت ہے کہ ہم ڈومیسٹک سطح تک محدود رہتے ہوئے عالمی سطح کی ٹیم تیار کر سکتے ہیں اور کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔
انہوں نے شائقین کرکٹ سے پاکستان کرکٹ کو سپورٹ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آپ ورلڈ کپ میں ان کے بازو بن جائیں اور کرکٹ ٹیم کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنا غصہ پرفارمنس پر نکالیں کیونکہ دنیا کو اپنا کھیل دکھانے کا یہی طریقہ ہے۔
نومنتخب چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ جب آپ دنیا کی سب سے بہترین ٹیم بن جاتے ہیں تو پھر پاکستان میں ٹیموں کی قطاریں لگ سکتی ہیں، تو میں چاہوں گا کہ ہم اس سے سبق سیکھیں اور ہمت رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔
انہوں نے کہا کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کرکٹ پر بہت زیادہ دباؤ بڑھا ہے لیکن ہمارے بس میں جو بھی ہو گا وہ کریں گے، آپ کو آگے چل کر اچھی خبریں اور نتائج بھی ملیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنی پوری طاقت لگا رہے ہیں لیکن ہمیں شائقین کی سپورٹ کی ضرورت ہے، پاکستان کرکٹ کو دنیا کی بہترین ٹیم بن کر سامنے آنا ہے تاکہ وہ ایسے چیلنجز سے باآسانی نجات حاصل کر سکیں۔
واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم تین ون ڈے اور پانچ ٹی20 میچوں کی سیریز کھیلنے پاکستان کے دورے پر آئی تھی۔
جمعہ کو دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ون ڈے میچ شیڈول تھا لیکن میچ کے آغاز سے چند گھنٹے قبل نیوزی لینڈ نے سیکیورٹی خدشات کے باعث دورہ پاکستان منسوخ کردیا تھا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ نے آگاہ کیا ہے کہ انہیں سیکیورٹی کے حوالے سے الرٹ موصول ہوا ہے اس لیے یکطرفہ طور پر سیریز ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے’۔
دوسری جانب نیوزی لینڈ کرکٹ کے چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ وائٹ نے کہا تھا کہ جو تجاویز ہمیں موصول ہوئیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دورے کو جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں سمجھتا ہوں کہ یہ پی سی بی کے لیے ایک دھچکا ہوگا جو شاندار میزبان رہے ہیں تاہم کھلاڑیوں کی حفاظت سب سے اہم ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ واحد آپشن ہے’۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سیکیورٹی کی یقین دہانی کے باوجود نیوزی لینڈ نے یکطرفہ طور پر دورہ پاکستان منسوخ کردیا اور اس دورے کو ایک سازش کے تحت ختم کیا گیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نیوزی لینڈ کی جانب سے پاکستان کا دورہ منسوخ کیے جانے کے بعد اب انگلینڈ کی ٹیم کا دورہ پاکستان بھی خطرات سے دوچار ہو گیا ہے۔
انگلش کرکٹ بورڈ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ہم اپنے شیڈول دورہ پاکستان کے بارے میں آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں میں فیصلہ کریں گے کہ ہم منصوبے کے مطابق پاکستان کا دورہ کریں گے یا نہیں۔ ۔
حکومت کا گھی اور تیل کی قیمتوں میں کمی کیلئے ٹیکس میں ریلیف کا فیصلہ
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے غیر رجسٹرڈ صنعتی و کمرشل صارفین کے خلاف شکنجہ مزید سخت کردیا ہے جبکہ گھی و ککنگ آئل کے ساتھ ساتھ اسٹیل مصنوعات کی قیمتوں میں کمی لانے کیلئے ٹیکس میں ریلیف دیدیا ہے ۔
ایف بی آر نے سیلز ٹیکس میں غیر رجسٹرڈ اور ایف بی آر کی ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ میں شامل نہ ہونے والے صنعتی و کمرشل صارفین کے بجلی اور گیس کے استعمال پر پانچ فیصد سے سترہ فیصد اضافی سیلز ٹیکس عائد کردیا ہے ۔ جبکہ اس سے پہلے ان نان رجسٹرڈ صنعتی و کمرشل صارفین پر پانچ فیصد اضافی ٹیکس عائد تھا جسے اب بڑھا دیا گیا ہے ۔
دوسری جانب اسٹیل سیکٹر اور ککنگ آئل و کھانے کے تیل کی سپلائی پر عائد ایک فیصد اضافی ٹیکس کی چھوٹ دیدی ہے ۔ اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے دو نوٹیفکیشن جاری کردیئے ہیں۔
پہلے نوٹیفکیشن1222(I)/2021 میں بتایا گیا ہے کہ 12 جون 2013 کو جاری کئے جانیو الے ایس آر نمبری 509(I)/2013 کی جگہ اب اس نئے ایس آر او کے مطابق ٹیکس لاگو ہونگے ۔
اس حوالے سے ایف بی آر حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ دونوں نوٹیفکیشن کے بنیادی مقاصد ڈاکیومنٹیشن کو فروغ دے کر ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا ہے اور گھی و ککنگ آئل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ اسٹیل مصنوعات کی قیمتوں میں کمی لانا ہے ۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ پہلے نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ غیر رجسٹرڈ صنعتی صارفین کے بجلی و گیس کے استعمال پر سترہ فیصد اضافی سیلز ٹیکس لاگو ہوگا جبکہ کمرشل صارفین پر پانچ فیصد تا سترہ فیصد سیلز ٹیکس لاگو کیا گیا ہے ۔
نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ سیلز ٹیکس میں غیر رجسٹرڈ و ایف بی آر کی ایکٹو ٹیکس پییر لسٹ میں نہ شامل کمرشل صارفین کے دس ہزار روپے ماہانہ تک بجلی و گیس کے بلوں پر پانچ فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوگا،دس ہزار ایک روپے سے 20ہزار روپے ماہانہ بجلی و گیس کے بلوں پر7 فیصد،20 ہزار ایک روپے سے 30ہزار روپے ماہانہ بجلی و گیس کے بلوں پردس فیصد،30 ہزار ایک روپے سے 40ہزار روپے ماہانہ بجلی و گیس کے بلوں پر12 فیصد،40 ہزار ایک روپے سے 50ہزار روپے ماہانہ بجلی و گیس کے بلوں پر15 فیصد، پچاس ہزار ایک روپے ماہانہ سے زائد کے بجلی و گیس کے کمرشل بلوں پر17 فیصد اضافی ٹیکس لاگو ہوگا ۔
اس حوالے سے ایف بی آرحکام کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے صنعتی و کمرشل صارفین کی سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن بڑھے گی اور ایف بی آر کی ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ میں کمرشل و صنعتی صارفین کی تعداد میں اضافہ ہوگاجس سے ٹیکس ریونیو بڑھے گا ۔
ایف بی آر کی طرف سے جاری کردہ دوسرے نوٹیفکیشن نمبری 1223(I)/2013 میں بتایا گیا ہے کہ9 جولائی2013 کو جاری کردہ ایس آر او نمبری 648(I)/2013 میں ترمیم کرتے ہوئے مزید دو شعبوں کو شامل کرلیا گیا ہے جس کے ذریعے اسٹیل سیکٹر کی مصنوعات کی سپلائی پر عائد ایک فیصد ٹیکس کی چھوٹ دیدی گئی ہے ۔
اسی طرح ککنگ آئل اور گھی سمیت کھانے کے تیل کی سپلائیز پر بھی ایک فیصد اضافی ٹیکس کی چھوٹ دیدی گئی ہے ۔ ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے گھی ، کھانے کے تیل سمیت اسٹیل مصنوعات کی قیمتوں میں کمی واقع ہوگی جس سے عوام کو ریلیف ملے گا۔
ایک عظیم باپ کی معصوم سی خواہش
شفقت اللہ مشتاق
ستمبر کا مہینہ آتا ہے تو مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ زندگی میں غم اور خوشی ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور غم اور خوشی کی اس ہمنوائی کو انسانی کوششوں سے نہیں روکا جا سکتا ہے۔ 10ستمبر 1994 کے دن میری شادی ہوئی تھی اور یہ وہ دن تھا جس دن میرے والد محترم خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے وہ اس دن کو اپنی زندگی کا سب سے زیادہ خوشی والا دن سمجھتے تھے۔ ہمارے گھر میں ہر طرف رونقیں ہی رونقیں رقص کناں تھیں۔ مبارک بادوں کی آوازیں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ میرے سر سے ویلیں دے دے کر عزیزواقارب نے مغینان اورخواجہ سراؤں کو مالا مال کردیا تھا اور ان کے دل سے یہی دعائیں نکل رہی تھیں کہ شالا ایسے لمحے روز روز آئیں اور میں ان کی دعاوں سے خوفزدہ ہورہا تھا کہ اگر اللہ نے ان کی سن لی تو مجھے کئی شادیاں کرنا پڑ جائیں گی اور میں کثرت ازدواج کا نہ تو قائل ہوں اور نہ ہی متحمل ہوں۔ ویسے بھی دو بیویوں کے لئے بڑے ہی تحمل اوربرداشت کی ضرورت ہوتی ہے اور میں تو پہلے ہی اعصابی طور پر کمزور تھا پھر کمزور اور طاقتور کا کیا مقابلہ۔ خیر شادی تو پھر شادی ہوتی ہے۔ کوئی خوش ہو نہ ہو والدین کا تو یہ خواب ہوتا ہے اور پھر خواب کا پورا ہونا، توبہ توبہ۔آج ہمیشہ آج نہیں رہتا بالآخر کل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ آج کل میں بڑا فرق ہوتا ہے اور سال کا بیت جانا تو بہت ہی بڑا فرق ہوتا ہے۔ پھر وہ دن آیا جب خوشی غم میں تبدیل گئی خوشی کے گیت وینوں میں بدل گئے ہاسے ہنجوؤں میں تبدیل ہوگئے اور 19ستمبر 1994 کو میرے بارے میں خواب دیکھنے والا میرا باپ ابدی نیند سو گیا۔ خوشیوں کو عملی شکل دینے والا خوشیاں ساتھ لے کر ایسے دیس چلا گیا جہاں سے کوئی اپنے بچوں کو پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ یوں میں یتیم ہو گیا۔ مجھے کیا معلوم یتیمی کیا ہے۔ اس سے پہلے بیٹھے بٹھائے کھانا پینا اور موج مارنا۔ رات کے اندھیرے میں ڈر کے مارے باپ کے ساتھ چمٹ جانا۔ سفر اور حضر میں والدین کی دعاوں کے لحاف میں مکمل طور پر محفوظ ہونا۔ کسی کے ہونے کا احساس تک نہ ہونا اور اس بات کا بھی احساس تک نہ ہونا کہ آج کل میں بدل جائے گا اور سدا ماں پیو حسن جوانی نے نہیں رہنا۔ بابل کی گلیاں باپ کے دم قدم سے آباد ہوتی ہیں اور ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد ان گلیوں کا سُونا پن عذاب بن جائے گا۔ بہن بھائی گلے لگ کے روئیں گے،آہیں بھریں گے اور بالآخر ایک دوسرے کو دلاسہ دیتے ہوئے پھر رو پڑیں گے اور یوں آہوں اور سسکیوں میں ہم بھی بوڑھے ہوجائیں گے لیکن والدین کے ساتھ گذرے شب وروز بھلا نہ پائیں گے۔ یہ ویسے بھول بھی کیسے سکتے ہیں جس والد نے مجھے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا مجھے سیدھی سمت میں دیکھنا سکھایا اور کامیابی کے زینوں پر چڑھنا سکھایا اس کو بھول جانا اگر اتنا آسان ہوتا تو مجھ جیسا بھلکھڑ کب کا بھلا چکا ہوتا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ہمیشہ سے ہی اہم رہا ہے۔ اور ہر باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خود ڈپٹی کمشنر بن جائے اور اگر ایسا نہ ہو سکے تواس کا بیٹا ڈی سی بن جائے۔ اس کے لئے لوگ جب کسی پر بہت ہی خوش ہوتے ہیں تو دعا دیتے ہیں کہ اللہ آپ کو ڈپٹی کمشنر بنائے اور اگر کسی کے خلاف ہوجاتے ہیں تو اس کو اس کی اوقات یاد دلانے کے لئے بھی سہارا اسی عہدے کا لیا جاتا ہے اور یہ کہہ کر اپنا غصہ نکالا جاتا ہے کہ آپ تھوڑا ڈی سی لگے ہوئے ہیں۔ بہرحال ہر باپ اپنے بیٹے کو ڈی سی بنانا چاہتا ہے۔
یہی خواہش میرے والد محترم کی بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مجھے مقابلے کے امتحان کے عمل سے گذارا اور میری پوری رہنمائی کی۔ میرے سامنے کتابوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ اخباروں اور جرائد روزانہ مجھے خرید کر دینا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ خود اخبارات کا اس لئے عمیق مطالعہ کرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ سی ایس پی یا پی سی ایس کے امتحان کا اشتہار آجائے اور مجھے پتہ ہی نہ چلے۔ روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی تیاری کے بارے میں مجھ سے پوچھ گچھ کرکے جائزہ لیتے کہ آج میری تیاری کا معیار کیا رہا ہے۔ گاہے بگاہے ہلکی پھلکی سرزنش بھی کرتے اور اگلے ہی لمحے مورال اپ کردیتے۔ حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کرتے مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کا احاطہ کرتے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے پورا لائحہ عمل تجویز کرتے۔ عزت وقار سے جینے کا درس دیتے۔ اور پھر محنت سے ہر کام کے ہونے کی یقین دہانی کرواتے۔ عبادات سے رب کو منانے کے بارے میں بڑے پر امید ہوتے پچھلی رات کی عبادت کو اکسیر سمجھتے تھے اور جب بھی کسی بزرگ سے دعا کرواتے تو مقصد مجھے ڈی سی بنانا ہوتا۔ خیر امتحان پر امتحان اور پھر ہر تحریری امتحان میں کامیابی اور بالآخر انٹرویو میں ناکامی۔ کوئی بات نہیں ڈسٹرب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بننا ہم نے ڈی سی ہی ہے۔ ایک پی سی ایس امتحان میں ٹرائی مجسٹریٹ، سیکشن افسر، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افسر اور تحصیلدار کی پوسٹوں میں ہوئی۔فوقیت کے لئے رضامندی میں نے دینا تھی اول الّذکر تین سکیل 17 کی آسامیاں اور تحصیل دار سکیل 16 کی پوسٹ تھی۔ والد محترم نے مجسٹریٹ کے بعد اس لئے تحصیلدار کو فوقیت دلوائی کہ دونوں ترقی کرتے کرتے ڈی سی بنتے ہیں خیر مجسٹریٹ تو میں نہ بن سکا البتہ تحصیلدار کے طور پر میری تعیناتی ہوئی اور پھر ان کا سوچنا کہ میں کتنے سالوں بعد ڈی سی بنوں گا۔ ان کی اس سوچ نے مجھے تو بالآخر مورخہ 27 مارچ 2021 کو ڈپٹی کمشنر بہاولنگر بنا دیا اور ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا لیکن افسوس یہ سارا کچھ وہ بچشم خود نہ دیکھ سکے۔
لوگ سچ ہی کہتے ہیں کہ سارے خواب اول تو پورے نہیں ہوتے اور اگر ہو بھی جائیں تو بعینہ نہیں ہوتے۔ میں اکثر سوچوں میں کھو جاتا ہوں اور سوچتا ہوں والد اور بیٹے کا بھی کیا کمال کا رشتہ ہے کہ ایک بیٹے کو کامیاب بنانے کے لئے عمر بھر کی کمائی لگا دی جاتی ہے۔ شاید اولاد ہی والدین کی عمر بھر کی کمائی ہوتی ہے۔ دوران ملازمت جب کبھی کوئی والد اپنے بیٹے کے خلاف یا بیٹا والد کے خلاف میرے سامنے پاس پیش ہوا تو مجھے میرے والد کی عظمت یاد آئی جو اس وقت تک زندہ رہے جب تک میں کسی کام کا نہ بنا اور جب میں برسر روزگار ہوا تو وہ پریتوں اور محبتوں کے سارے وعدے پورے کرکے دُور بہت دُور چلے گئے۔ کاش آج ہوتے تو وہ یہ دیکھ کر بڑے خوش ہوتے کہ اللہ تعالی نے ان کی ہر خواہش پوری کردی ہے۔بقول راقم الحروف
تیرے بن مشتاقؔ مجھے تو
سونا سونا گھر لگتا ہے
(کالم نگار‘ممتاز شاعراورضلع بہاولنگر
میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں)
٭……٭……٭
غربت اور مہنگائی کا خاتمہ ضروری
لقمان اسد
آزاد کشمیر میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات میں ملنے والی بھرپور کامیابی اور پھر وہاں پر با آسانی اپنی حکومت قائم کر لینے کے بعد تحریک انصاف کی قیادت اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے خاصی مطمئن ہے۔بجا طور پر تحریک انصاف کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی ہے لیکن یہ سچ بھی اپنی جگہ واضح ہے کہ سیاسی میدان میں آئندہ کی کامیابیاں سمیٹنے کے لیے حکومت کو غربت اور مہنگائی جیسے عوام دشمن عوامل کے خلاف صف آرا ہونے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔
عام انتخابات 2018ء کی اپنی الیکشن کمپین میں تحریک انصاف نے عام آدمی کو جو سہانے خواب دکھائے تھے اب عوام انہیں ہر صورت شرمندۂ تعبیر ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے تحریک انصاف نے یوں تو بہت سے بڑے، بڑے دعوے کیے تھے مگر چند ایک چیزوں پر زیادہ زور دیا جن میں مہنگائی، غربت اور بے روز گاری کا خاتمہ شامل تھا۔ حکومت کی تین سالہ کارکردگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو مذکورہ چیزوں میں نمایاں کمی ہونے کی بجائے ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو یہ بات کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگی کہ وہ عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل اور دعووں کو سچ ثابت کرنے میں ابھی تک ناکام ہے جس کے باعث عوام کی بے چینی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاست میں رومانس زیادہ دیر نہیں چلتا جس قدر بھی مقبول سے مقبول اور ہر دل عزیز عوامی رہنما ہو جب وہ اقتدار سنبھال لیتا ہے تو تھوڑا سا عرصہ گزرنے کے بعد عوام اپنی توقعات اور امنگوں کے مطابق ہی کام کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔
دیگر حکومتی معاملات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہاں پر صرف گذشتہ تین برسوں میں مہنگائی میں ہونے والے غیر معمولی اضافے کا تذکرہ ہی اگر کیا جائے تو حکومتی دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات سے لیکر بجلی کے نرخوں کھاد اور لوہے کے علاوہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ عام طبقے کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ کم تنخواہ والے ملازمین اور خاص طور پر دیہاڑی دار اور مزدورطبقہ کے لیے تو دو وقت کی روٹی کمانا بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ بلاشبہ حکومت نے عوامی فلاح کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں جن میں صحت کارڈ کا اجراء، احساس پروگرام کے تحت غریب افراد کو ہر دو،تین ماہ بعد ملنے والی مالی امداد، کامیاب جوان کامیاب پاکستان ”لون اسکیم“، میرا پاکستان میرا گھر اسکیم اور کسان کارڈ جیسے احسن اقدامات شامل ہیں لیکن اس سب کے باوجود مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی برق رفتار شرح کا کنٹرول نہ ہونا حکومت کی بڑی ناکامی تصور ہوتا ہے۔
اسی طرح ترقیاتی کاموں کی رفتار اس حد تک سست روی کا شکار ہے کہ یہ امر سمجھ سے بالا تر ہے۔ گذشتہ دو سالوں سے میانوالی تا مظفر گڑھ دو رویہ شاہراہ کی تعمیر کی نوید حکومت سنا رہی ہے اور پچھلے سال پی سی ون کی تیاری اور منظوری کی خوشخبری بھی وزیر مواصلات نے دی تھی لیکن بدقسمتی سے اس منصوبے کا ابھی تک آغاز نہیں کیا جاسکا۔
ضلع لیہ میں بننے والا ”لیہ، تونسہ پُل“ جسے ملکی ترقی کے حوالے سے گیم چینجر منصوبے کا نام دیا گیا کی تعمیر 2019ء سے مکمل ہوچکی ہے لیکن رابطہ سڑک کی تعمیر کا کام دو سال بعد بھی شروع نہیں ہوسکا۔ سال 2021ء اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے اور حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے قریب ہے اگر حکومت نے اب بھی عوام سے کیے گئے وعدوں کو حقیقت کا رنگ نہ دیا تو 2023ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو عوامی سطح پر پذیرائی نہ ملنے کے سبب مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ زیرِ تعمیر ترقیاتی منصوبوں کی رفتار بڑھا کر انہیں جلد پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ غربت اور مہنگائی میں کمی لانے کے لیے عملی اور حتمی اقدامات بروئے کارلائے تاکہ عوامی سطح پر اپنی مقبولیت کے گراف اور سیاسی ساکھ کو بہتر بنا سکے۔
(کالم نگارسیاسی و قومی مسائل پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
نظریاتی سرحدوں کے پاسبان‘ڈاکٹر صفدر محمود
محمد فاروق عزمی
سابق وفاقی سیکرٹری، ممتاز اور نامور بیوروکریٹ ڈاکٹر صفدر محمو 13 ستمبر کی صبح لاہور میں انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
آپ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے مجاہدین کی جماعت میں صفِ اول کے مجاہد تھے، پاکستان کے ایسے عظیم سپوت تھے کہ جہاں کہیں کسی نے قائد اعظمؒ یا پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی آپ نے اپنے قلم کو بندوق کی طرح استعمال کیا۔ آپ تحقیق و جستجو کے میدچان میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ پاکستان کی تاریخ اور تحریک پاکستان سے وابستہ قائدین اور اکابر خصوصاً زندگی بھرقائدا عظمؒ آپ کا خاص موضوع رہے۔ آپ تحقیق کی مشکل گھاٹیاں عبور کرکے سچ کا کھوج لگاتے اور پھر بڑے مدلّل اور ٹھوس انداز میں مخالفین کی باتوں کا تاریخی شواہد کے ساتھ جواب دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے لکھے کو سند کا درجہ حاصل ہوتا اوراسے مستند سمجھا جاتا۔ قائد اعظمؒ سے بے مثال محبت کرتے تھے۔ سول سروس کے افسر ہونے کے باوجود انتہائی منکسر المزاج، سادہ، دیانتدار اور بااصول شخصیت کے مالک تھے۔ یہ ساری خوبیاں بھی شاید اُن کی زندگی میں قائد اعظم علیہ رحمہ سے لازوال محبت کی راہوں پر چلتے ہوئے در آئی تھیں۔ ایک لحاظ سے وہ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی فکر کے صحیح معنوں میں محافظ، ان کے روحانی فرزند اور پاکستان کے بیٹے تھے۔ ان کی ساری زندگی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر دو قومی نظریے کی حفاظت کرتے، بانیانِ پاکستان کے دفاع میں اور پاکستان کی محبت میں گذری۔ مرحوم نے ساری زندگی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر پہرہ دیتے گزار دی۔ انہوں نے پاکستان کے بد خواہوں اور نام نہاد دانشوروں کا اپنے قلم سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اُن کی رحلت سے تحقیق اور جستجو کا ایک عہد تمام ہوا، ان کا خلا مدتوں پُر نہ ہوسکے گا۔
ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی ادبی اور علمی حلقوں میں خاص پہچان ان کی پاکستان سے محبت کے حوالے سے بہت نمایاں رہی۔ پاکستان اور قائد اعظمؒ کے مخالفین اورنام نہاد دانشوروں کو ٹھوس شواہد اور تاریخ کے مستند حوالوں سے مدلل جواب دے کر ان کے منہ بند کرنا، ڈاکٹر صاحب کا خاص موضوع تھا۔ لیکن شاید بہت زیادہ لوگ نہیں جانتے کہ ڈاکٹر صفدرمحمود کو روحانیت اور تصوف سے بھی خاص شغف تھا، بظاہر سوٹ میں ملبوس ٹائی لگائے وہ ایسے کلین شیو صوفی تھے کہ روحانیت اور تصوف کے موضوع پر ان کی تحریریں قلب و نظر کے سکون کا ذریعہ بن جاتی تھیں۔ روحانیت کے موضوع پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ صفحہ قرطاس پر آگاہی اور بصیرت کے ایسے پھول کھلاتے اور ایسی خوشبو بکھیرتے کہ قلب و نگاہ میں نورِ الٰہی کی شمع روشن ہوتی چلی جاتی۔ ڈاکٹر صاحب نے ایسے نام نہاد دانشوروں کو ہمیشہ منہ توڑ جواب دیا جو قائد اعظمؒ پر پاکستان کوسیکولر اسٹیٹ بنانے کا الزام دھرتے اور اس بیان کی نفی کرتے جس میں قائد اعظمؒ نے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب مغرب کے اس مادر پدر آزاد معاشرے سے بیزار تھے۔ جس میں جسم فروشی، ناؤنوش اور نائٹ کلبوں نے نوجوان نسل کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ آپ پاکستان کی نوجوان نسل اور طلباء و طالبات کے معصوم ذہنوں اور اجلے دماغوں کو ”آزاد خیالی“ کے مغربی زہر سے بچا کر رکھنا چاہتے تھے۔
وہ ایسے مغربی معاشرے کی اندھی تقلید کے پُر زور مخالف تھے کہ جس معاشرے میں آزاد خیالی کے نام پر خاندانی نظام کے پرخچے اڑا دیئے جائیں اور جہاں رشتوں کے تقدس کو کوڑے دانوں میں پھینک دیا جائے۔ وہ اس ساری غلاظت سے اپنی نوجوان نسل کو بچا کر رکھنا چاہتے تھے وہ اپنی تحریروں میں قلب و نظر اور باطن کی صفائی کا درس دیتے تھے۔ان کی نظر میں ایک صوفی کے نزدیک بدن اور کپڑوں کی صفائی ہی کا فی نہیں بلکہ طہارت کا اصل مطلب قلب و نگاہ، فکر و نظر اور باطن کی پاکیزگی ہے۔ گو کہ ان کی علمی ادبی حلقوں میں پہچان اور شہرت پاکستان اور بانیانِ پاکستان سے محبت اور اُن کے دفاع کے حوالے سے ہے، لیکن روحانیت، تصوف، بزرگانِ دین اور اللہ کے بندوں سے محبت بھی ان کا موضوع تھا اور وہ گاہے گاہے اپنے قلم سے ایسی تحریریں بھی لکھتے تھے، جس سے ان کے اندر کے ”صوفی“ کا راز فاش ہوجاتا ہے۔ گو کہ وہ خود کو دنیا دار اور اغراض میں ڈوبا شخص ظاہر کرتے، لیکن ان کے باطن میں چھپا صوفی انہیں تصوف، فقر اور روحانیت کے موضوع پر لکھنے پر اکساتا رہتا۔ ان کی تحریروں میں ”غنیۃ الطالبین“ اور ”کشف المحجوب“ کے حوالے بہت کثرت سے ملتے۔ ان کی ایسی ہی تحریروں کے مجموعے ”امانت“، ”درد آگہی“، ”روشنی“، ”حکمت“ اور ”بصیرت“ کے نام سے قارئین میں بہت مقبول ہوئے۔ یہاں بیوروکریٹ ڈاکٹر صفدر محمود صوفی ڈاکٹر صفدر محمود کو پوشیدہ رکھنے میں ناکام ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ اُن کی تُربت پر اپنی کروڑ ہا رحمتیں نازل فرمائے۔
ڈاکٹر صفدر محمود 30 دسمبر 1944 کو گجرات کے ایک گاؤں ڈنگہ میں پیداہوئے، گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات کے مضمون میں ماسٹر کیا۔ 1974 میں آپ نے سیاسیات کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 1976 میں آپ اعلیٰ مرکزی سروسز کے لیے منتخب ہوئے۔ آپ قائد اعظم یونیورسٹی کے پاکستان سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں کئی برس تک وزٹنگ پروفیسر رہے۔ حکومت پنجاب کے علاوہ مرکزی حکومت میں بھی بہت سے اہم عہدوں پر خدمات سر انجام دیں۔ پنجاب اور وفاق کے بہت سے محکموں اور وزارتوں کے سیکرٹری رہے۔ 1997 میں وہ یونیسکوکے ایگزیکٹو بورڈ کے تین سال کے لیے رُکن منتخب ہوئے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم آئی سسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کے رکن بھی رہے۔ انہیں یونیسکو کے عالمی ایجوکیشن کمیشن کے نائب صدر منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ تاریخ کے شعبہ میں ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف کے طور پر 1997 میں آپ کو صدارتی تمغہئ برائے حُسن کارکردگی دیا گیا۔
گذشتہ ایک سال سے آپ شدید علیل تھے۔ علاج کی غرض سے کئی ماہ امریکہ کے ہسپتال میں داخل رہے۔ لیکن مکمل صحت یاب نہ ہوسکے۔
بہرحال ڈاکٹرصفدرمحمود اب اس دنیا میں نہیں رہے تاہم ان کی یادیں باقی رہیں گی۔ بلاشبہ وہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے ”پاسبان“ تھے۔
خدا رحمت کنند، ایں عاشقانِ پاک طینت را
(کالم نگار مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
مسٹر جو بائیڈن! اپنے گریبان میں بھی جھانکیں
سردارآصف احمدعلی
افغانستان میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ طالبان حکومت بنا چکے ہیں اور اب ان کا کنٹرول پورے افغانستان پر ہے اور امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہوئی ہے لیکن ابھی طالبان کے سامنے بہت بڑے چیلنجز ہیں جن کا انہیں سامنا ہے اور اس میں سرفہرست یہ ہے کہ ان کی معیشت کے حالات درست نہیں ہیں۔ لاکھوں سرکاری اہلکاروں کو تاحال تنخواہیں نہیں مل سکیں، بینکوں میں کرنسی قریب قریب ختم ہو چکی ہے۔ بازاروں میں ہر چیز کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے اور اناج اور ادویات کی قلت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اناج کے ذخائر بڑی مشکل سے صرف ایک ماہ تک مزید چل سکتے ہیں۔
دوسری طرف یہ کہ طالبان نے سابقہ شمالی اتحاد کے کسی رکن کو نئی حکومت میں شامل نہیں کیا اور نہ ہی خواتین کابینہ میں شامل کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کو ایک بہانہ مل گیا کہ افغانستان کی امداد یا اسے تسلیم نہ کرنے کا اور دوسری طرف امریکہ نے ساری دنیا پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے کہ اس حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے بلکہ پاکستان کو بطور خاص کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان کو تسلیم نہ کرے۔ اس سارے منظرنامے میں محسوس یہی ہو رہا ہے کہ وہ افغانستان کی معیشت کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے اور اس کے 9.5 ارب ڈالرز فریز کر دیئے گئے ہیں جبکہ اس ملک میں بے پناہ انسانی مسائل ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے ایک مثبت فیصلہ سامنے آیا ہے کہ وہ انسانی حوالے سے ایک ارب ڈالر اکٹھا کرے گی جو کہ گرانٹ کی شکل میں ہوگی اور وہ بنی نوع انسان کی امداد کے لئے ہوگی جس میں خوراک، ادویات اور اس قسم کے دیگر وسائل افغانستان کے عوام پر خرچ کئے جائیں گے۔ اس فیصلے کو یقینا سراہا جائے گا اور میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان بھی اس گرانٹ میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو ہر قسم کی مدد بھی افغانستان کو مہیا کرنی چاہئے۔ جس میں، مَیں یہ تجویز پیش کر رہا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان ایک افغان فنڈ قائم کرنے کا فوری اعلان کریں۔ اس میں پبلک اور مخیر حضرات کو دعوت دی جائے کہ وہ افغان بھائیوں کے لئے دل کھول کر مدد کریں۔ یہ مدد اناج کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے اور پارچہ جات کی شکل میں بھی دی جا سکتی ہے۔ ادویات اور خوراک اور انسانی استعمال کیلئے دیگر اشیاء بھی اس میں شامل ہونی چاہئیں اور نقد رقم بھی اس مد میں دی جانی چاہئے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو کم از کم 50 ہزار ٹن اناج کا عطیہ بھی افغانستان کو فوری دینا چاہئے۔ اس اناج میں گندم، چاول، مکئی اور باجرہ وغیرہ کا انتظام بھی فوری کرنا چاہئے۔ باقی رہا افغانستان کی بحالی کا مسئلہ جیسا کہ دنیا انہیں کہہ رہی ہے کہ اپنی حکومت کو آپ وسیع کریں جس میں تاجک، ترکمان، ہزارہ جات، اسماعیلی اور دیگر چھوٹے چھوٹے گروہوں کو بھی حکومت میں شامل کرنا چاہئے اور میں یہ ماننے کو بالکل تیار نہیں کہ افغانستان میں ایسی خواتین نہیں ہیں جو طالبان کے معیار کے مطابق کابینہ میں نہ آ سکیں۔ پھر انہیں کچھ مزید اقدامات کرنے کے حوالے سے مجھے کوئی مشکل نظر نہیں آ رہی۔ اب دنیا میں یہ تو کسی نے نہیں کہا کہ آپ فلاں فلاں پارٹی کے لوگوں کو حکومت میں شامل کریں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ افغان کابینہ میں تمام قومیتوں کی نمائندگی نظر آئے۔ اس صورت میں دنیا مجبور ہو گی کہ افغان حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ باقی یہ کہ افغانستان کی معیشت کا طویل البنیاد مستقبل کیا ہوگا۔ یہ بات عیاں ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ افغانستان کی سرزمین معدنیات سے بھری ہوئی ہے اس کی مالیت آج کے قیمتوں کے مطابق تین کھرب ڈالر ہے لہٰذا طالبان اس کے آئندہ معاہدے کر سکتے ہیں اور ان معاہدوں میں جو ڈاؤن پے منٹس فوری مل سکتی ہیں اور پھر افغانستان ایشیا کا تجارتی مرکز بھی ہے لہٰذا جب تجارت کھل جائے گی تو ان کے ریونیوز بڑھنے شروع ہو جائیں گے۔ خاص طور پر پاکستان کے ذریعے اور پاکستان کی اپنی تجارت وسطی ایشیا اور روس تک پہنچے گی۔ سی پیک کی افغانستان میں ایکسٹینشن بھی ممکن ہے اور مجھے یقین ہے کہ چین اس حوالے سے بڑی گہری دلچسپی رکھتا ہوگا لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کا مستقبل بڑا روشن ہے کیونکہ پہلی بار سارے افغانستان میں ایک ہی حکومت ہے جو کہ 1908ء کے بعد پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے۔ ان کی سنٹرل اتھارٹی یعنی مرکزی حیثیت پہلی بار پورے افغانستان میں موجود ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ سارے پہلو افغانستان کو ایک کامیاب ملک بنانے میں بڑے مفید ثابت ہوں گے۔
مغرب بالخصوص امریکہ کا مسئلہ لمحہ موجود میں یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ انہیں افغانستان میں بہت بڑا دھچکا لگا ہے اور اب واشنگٹن میں پاکستان کا نام لینا شروع کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک ڈبل گیم کھیل رہا تھا۔ ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ اگر پاکستان ڈبل گیم کھیل رہا تھا تو ہمارے اڈے آپ کیسے استعمال کر رہے تھے اور راہداری آپ کو کیسے ملی ہوئی تھی اور پاکستان کی 70 ہزار شہادتیں امریکہ کی افغانستان پر مسلط کردہ جنگ کے باعث ہی ہوئی تھیں اور تقریباً 200 ارب ڈالر کا نقصان اب تک پاکستان کا ہو چکا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) وہ افغانستان میں موجود تھی اور ہم پر حملے کر رہی تھی تو اس وقت ٹی ٹی پی پر وہاں تک تو امریکہ کا کوئی ڈرون نہیں پہنچا۔ نہ ہی بلوچ باغیوں کو پاکستان میں خانہ جنگی کرانے سے روکا گیا اور نہ ہی بھارت کو روکا گیا کہ وہ افغان سرزمین سے پاکستان سے دہشت گردی نہ کرے۔ یہ ہمارے جائز گلے ہیں جن کا جواب آج تک امریکہ نے نہیں دیا اور اب اس شکست کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی جا رہی ہے۔ اس مرحلے پر ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا پاکستان آپ کا ماتحت ملک ہے؟۔ کیا پاکستان ایک خودمختار ملک نہیں ہے؟جبکہ ہم دوستی کا ہاتھ بار بار بڑھا رہے ہیں اور ان کی مدد بھی انخلاکے سلسلے میں، افغانستان کے اندر کر رہے ہیں۔ اس موقع پر بھی آپ کا جواب بڑا غیر مناسب ہوتا ہے لہٰذا میں تو یہ مشورہ دوں گا کہ جناب جوبائیڈن صاحب! اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں۔ اس میں جب آپ کو اپنی عصبیت نظر آئے گی تو پھر آپ اپنی اصلاح بھی کر سکیں گے۔ طاقت کے بل بوتے پر ملکوں پر حکومت نہیں کی جا سکتی، تاریخ کا یہی فیصلہ ہے۔
(کالم نگار سابق وزیرخارجہ اورممتاز ماہرمعیشت ہیں)
٭……٭……٭