تازہ تر ین

مسٹر جو بائیڈن! اپنے گریبان میں بھی جھانکیں

سردارآصف احمدعلی
افغانستان میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ طالبان حکومت بنا چکے ہیں اور اب ان کا کنٹرول پورے افغانستان پر ہے اور امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہوئی ہے لیکن ابھی طالبان کے سامنے بہت بڑے چیلنجز ہیں جن کا انہیں سامنا ہے اور اس میں سرفہرست یہ ہے کہ ان کی معیشت کے حالات درست نہیں ہیں۔ لاکھوں سرکاری اہلکاروں کو تاحال تنخواہیں نہیں مل سکیں، بینکوں میں کرنسی قریب قریب ختم ہو چکی ہے۔ بازاروں میں ہر چیز کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے اور اناج اور ادویات کی قلت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اناج کے ذخائر بڑی مشکل سے صرف ایک ماہ تک مزید چل سکتے ہیں۔
دوسری طرف یہ کہ طالبان نے سابقہ شمالی اتحاد کے کسی رکن کو نئی حکومت میں شامل نہیں کیا اور نہ ہی خواتین کابینہ میں شامل کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کو ایک بہانہ مل گیا کہ افغانستان کی امداد یا اسے تسلیم نہ کرنے کا اور دوسری طرف امریکہ نے ساری دنیا پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے کہ اس حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے بلکہ پاکستان کو بطور خاص کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان کو تسلیم نہ کرے۔ اس سارے منظرنامے میں محسوس یہی ہو رہا ہے کہ وہ افغانستان کی معیشت کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے اور اس کے 9.5 ارب ڈالرز فریز کر دیئے گئے ہیں جبکہ اس ملک میں بے پناہ انسانی مسائل ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے ایک مثبت فیصلہ سامنے آیا ہے کہ وہ انسانی حوالے سے ایک ارب ڈالر اکٹھا کرے گی جو کہ گرانٹ کی شکل میں ہوگی اور وہ بنی نوع انسان کی امداد کے لئے ہوگی جس میں خوراک، ادویات اور اس قسم کے دیگر وسائل افغانستان کے عوام پر خرچ کئے جائیں گے۔ اس فیصلے کو یقینا سراہا جائے گا اور میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان بھی اس گرانٹ میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو ہر قسم کی مدد بھی افغانستان کو مہیا کرنی چاہئے۔ جس میں، مَیں یہ تجویز پیش کر رہا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان ایک افغان فنڈ قائم کرنے کا فوری اعلان کریں۔ اس میں پبلک اور مخیر حضرات کو دعوت دی جائے کہ وہ افغان بھائیوں کے لئے دل کھول کر مدد کریں۔ یہ مدد اناج کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے اور پارچہ جات کی شکل میں بھی دی جا سکتی ہے۔ ادویات اور خوراک اور انسانی استعمال کیلئے دیگر اشیاء بھی اس میں شامل ہونی چاہئیں اور نقد رقم بھی اس مد میں دی جانی چاہئے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو کم از کم 50 ہزار ٹن اناج کا عطیہ بھی افغانستان کو فوری دینا چاہئے۔ اس اناج میں گندم، چاول، مکئی اور باجرہ وغیرہ کا انتظام بھی فوری کرنا چاہئے۔ باقی رہا افغانستان کی بحالی کا مسئلہ جیسا کہ دنیا انہیں کہہ رہی ہے کہ اپنی حکومت کو آپ وسیع کریں جس میں تاجک، ترکمان، ہزارہ جات، اسماعیلی اور دیگر چھوٹے چھوٹے گروہوں کو بھی حکومت میں شامل کرنا چاہئے اور میں یہ ماننے کو بالکل تیار نہیں کہ افغانستان میں ایسی خواتین نہیں ہیں جو طالبان کے معیار کے مطابق کابینہ میں نہ آ سکیں۔ پھر انہیں کچھ مزید اقدامات کرنے کے حوالے سے مجھے کوئی مشکل نظر نہیں آ رہی۔ اب دنیا میں یہ تو کسی نے نہیں کہا کہ آپ فلاں فلاں پارٹی کے لوگوں کو حکومت میں شامل کریں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ افغان کابینہ میں تمام قومیتوں کی نمائندگی نظر آئے۔ اس صورت میں دنیا مجبور ہو گی کہ افغان حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ باقی یہ کہ افغانستان کی معیشت کا طویل البنیاد مستقبل کیا ہوگا۔ یہ بات عیاں ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ افغانستان کی سرزمین معدنیات سے بھری ہوئی ہے اس کی مالیت آج کے قیمتوں کے مطابق تین کھرب ڈالر ہے لہٰذا طالبان اس کے آئندہ معاہدے کر سکتے ہیں اور ان معاہدوں میں جو ڈاؤن پے منٹس فوری مل سکتی ہیں اور پھر افغانستان ایشیا کا تجارتی مرکز بھی ہے لہٰذا جب تجارت کھل جائے گی تو ان کے ریونیوز بڑھنے شروع ہو جائیں گے۔ خاص طور پر پاکستان کے ذریعے اور پاکستان کی اپنی تجارت وسطی ایشیا اور روس تک پہنچے گی۔ سی پیک کی افغانستان میں ایکسٹینشن بھی ممکن ہے اور مجھے یقین ہے کہ چین اس حوالے سے بڑی گہری دلچسپی رکھتا ہوگا لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کا مستقبل بڑا روشن ہے کیونکہ پہلی بار سارے افغانستان میں ایک ہی حکومت ہے جو کہ 1908ء کے بعد پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے۔ ان کی سنٹرل اتھارٹی یعنی مرکزی حیثیت پہلی بار پورے افغانستان میں موجود ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ سارے پہلو افغانستان کو ایک کامیاب ملک بنانے میں بڑے مفید ثابت ہوں گے۔
مغرب بالخصوص امریکہ کا مسئلہ لمحہ موجود میں یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ انہیں افغانستان میں بہت بڑا دھچکا لگا ہے اور اب واشنگٹن میں پاکستان کا نام لینا شروع کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک ڈبل گیم کھیل رہا تھا۔ ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ اگر پاکستان ڈبل گیم کھیل رہا تھا تو ہمارے اڈے آپ کیسے استعمال کر رہے تھے اور راہداری آپ کو کیسے ملی ہوئی تھی اور پاکستان کی 70 ہزار شہادتیں امریکہ کی افغانستان پر مسلط کردہ جنگ کے باعث ہی ہوئی تھیں اور تقریباً 200 ارب ڈالر کا نقصان اب تک پاکستان کا ہو چکا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) وہ افغانستان میں موجود تھی اور ہم پر حملے کر رہی تھی تو اس وقت ٹی ٹی پی پر وہاں تک تو امریکہ کا کوئی ڈرون نہیں پہنچا۔ نہ ہی بلوچ باغیوں کو پاکستان میں خانہ جنگی کرانے سے روکا گیا اور نہ ہی بھارت کو روکا گیا کہ وہ افغان سرزمین سے پاکستان سے دہشت گردی نہ کرے۔ یہ ہمارے جائز گلے ہیں جن کا جواب آج تک امریکہ نے نہیں دیا اور اب اس شکست کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی جا رہی ہے۔ اس مرحلے پر ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا پاکستان آپ کا ماتحت ملک ہے؟۔ کیا پاکستان ایک خودمختار ملک نہیں ہے؟جبکہ ہم دوستی کا ہاتھ بار بار بڑھا رہے ہیں اور ان کی مدد بھی انخلاکے سلسلے میں، افغانستان کے اندر کر رہے ہیں۔ اس موقع پر بھی آپ کا جواب بڑا غیر مناسب ہوتا ہے لہٰذا میں تو یہ مشورہ دوں گا کہ جناب جوبائیڈن صاحب! اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں۔ اس میں جب آپ کو اپنی عصبیت نظر آئے گی تو پھر آپ اپنی اصلاح بھی کر سکیں گے۔ طاقت کے بل بوتے پر ملکوں پر حکومت نہیں کی جا سکتی، تاریخ کا یہی فیصلہ ہے۔
(کالم نگار سابق وزیرخارجہ اورممتاز ماہرمعیشت ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain