تازہ تر ین

نظریاتی سرحدوں کے پاسبان‘ڈاکٹر صفدر محمود

محمد فاروق عزمی
سابق وفاقی سیکرٹری، ممتاز اور نامور بیوروکریٹ ڈاکٹر صفدر محمو 13 ستمبر کی صبح لاہور میں انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
آپ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے مجاہدین کی جماعت میں صفِ اول کے مجاہد تھے، پاکستان کے ایسے عظیم سپوت تھے کہ جہاں کہیں کسی نے قائد اعظمؒ یا پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی آپ نے اپنے قلم کو بندوق کی طرح استعمال کیا۔ آپ تحقیق و جستجو کے میدچان میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ پاکستان کی تاریخ اور تحریک پاکستان سے وابستہ قائدین اور اکابر خصوصاً زندگی بھرقائدا عظمؒ آپ کا خاص موضوع رہے۔ آپ تحقیق کی مشکل گھاٹیاں عبور کرکے سچ کا کھوج لگاتے اور پھر بڑے مدلّل اور ٹھوس انداز میں مخالفین کی باتوں کا تاریخی شواہد کے ساتھ جواب دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے لکھے کو سند کا درجہ حاصل ہوتا اوراسے مستند سمجھا جاتا۔ قائد اعظمؒ سے بے مثال محبت کرتے تھے۔ سول سروس کے افسر ہونے کے باوجود انتہائی منکسر المزاج، سادہ، دیانتدار اور بااصول شخصیت کے مالک تھے۔ یہ ساری خوبیاں بھی شاید اُن کی زندگی میں قائد اعظم علیہ رحمہ سے لازوال محبت کی راہوں پر چلتے ہوئے در آئی تھیں۔ ایک لحاظ سے وہ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی فکر کے صحیح معنوں میں محافظ، ان کے روحانی فرزند اور پاکستان کے بیٹے تھے۔ ان کی ساری زندگی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر دو قومی نظریے کی حفاظت کرتے، بانیانِ پاکستان کے دفاع میں اور پاکستان کی محبت میں گذری۔ مرحوم نے ساری زندگی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر پہرہ دیتے گزار دی۔ انہوں نے پاکستان کے بد خواہوں اور نام نہاد دانشوروں کا اپنے قلم سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اُن کی رحلت سے تحقیق اور جستجو کا ایک عہد تمام ہوا، ان کا خلا مدتوں پُر نہ ہوسکے گا۔
ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی ادبی اور علمی حلقوں میں خاص پہچان ان کی پاکستان سے محبت کے حوالے سے بہت نمایاں رہی۔ پاکستان اور قائد اعظمؒ کے مخالفین اورنام نہاد دانشوروں کو ٹھوس شواہد اور تاریخ کے مستند حوالوں سے مدلل جواب دے کر ان کے منہ بند کرنا، ڈاکٹر صاحب کا خاص موضوع تھا۔ لیکن شاید بہت زیادہ لوگ نہیں جانتے کہ ڈاکٹر صفدرمحمود کو روحانیت اور تصوف سے بھی خاص شغف تھا، بظاہر سوٹ میں ملبوس ٹائی لگائے وہ ایسے کلین شیو صوفی تھے کہ روحانیت اور تصوف کے موضوع پر ان کی تحریریں قلب و نظر کے سکون کا ذریعہ بن جاتی تھیں۔ روحانیت کے موضوع پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ صفحہ قرطاس پر آگاہی اور بصیرت کے ایسے پھول کھلاتے اور ایسی خوشبو بکھیرتے کہ قلب و نگاہ میں نورِ الٰہی کی شمع روشن ہوتی چلی جاتی۔ ڈاکٹر صاحب نے ایسے نام نہاد دانشوروں کو ہمیشہ منہ توڑ جواب دیا جو قائد اعظمؒ پر پاکستان کوسیکولر اسٹیٹ بنانے کا الزام دھرتے اور اس بیان کی نفی کرتے جس میں قائد اعظمؒ نے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب مغرب کے اس مادر پدر آزاد معاشرے سے بیزار تھے۔ جس میں جسم فروشی، ناؤنوش اور نائٹ کلبوں نے نوجوان نسل کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ آپ پاکستان کی نوجوان نسل اور طلباء و طالبات کے معصوم ذہنوں اور اجلے دماغوں کو ”آزاد خیالی“ کے مغربی زہر سے بچا کر رکھنا چاہتے تھے۔
وہ ایسے مغربی معاشرے کی اندھی تقلید کے پُر زور مخالف تھے کہ جس معاشرے میں آزاد خیالی کے نام پر خاندانی نظام کے پرخچے اڑا دیئے جائیں اور جہاں رشتوں کے تقدس کو کوڑے دانوں میں پھینک دیا جائے۔ وہ اس ساری غلاظت سے اپنی نوجوان نسل کو بچا کر رکھنا چاہتے تھے وہ اپنی تحریروں میں قلب و نظر اور باطن کی صفائی کا درس دیتے تھے۔ان کی نظر میں ایک صوفی کے نزدیک بدن اور کپڑوں کی صفائی ہی کا فی نہیں بلکہ طہارت کا اصل مطلب قلب و نگاہ، فکر و نظر اور باطن کی پاکیزگی ہے۔ گو کہ ان کی علمی ادبی حلقوں میں پہچان اور شہرت پاکستان اور بانیانِ پاکستان سے محبت اور اُن کے دفاع کے حوالے سے ہے، لیکن روحانیت، تصوف، بزرگانِ دین اور اللہ کے بندوں سے محبت بھی ان کا موضوع تھا اور وہ گاہے گاہے اپنے قلم سے ایسی تحریریں بھی لکھتے تھے، جس سے ان کے اندر کے ”صوفی“ کا راز فاش ہوجاتا ہے۔ گو کہ وہ خود کو دنیا دار اور اغراض میں ڈوبا شخص ظاہر کرتے، لیکن ان کے باطن میں چھپا صوفی انہیں تصوف، فقر اور روحانیت کے موضوع پر لکھنے پر اکساتا رہتا۔ ان کی تحریروں میں ”غنیۃ الطالبین“ اور ”کشف المحجوب“ کے حوالے بہت کثرت سے ملتے۔ ان کی ایسی ہی تحریروں کے مجموعے ”امانت“، ”درد آگہی“، ”روشنی“، ”حکمت“ اور ”بصیرت“ کے نام سے قارئین میں بہت مقبول ہوئے۔ یہاں بیوروکریٹ ڈاکٹر صفدر محمود صوفی ڈاکٹر صفدر محمود کو پوشیدہ رکھنے میں ناکام ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ اُن کی تُربت پر اپنی کروڑ ہا رحمتیں نازل فرمائے۔
ڈاکٹر صفدر محمود 30 دسمبر 1944 کو گجرات کے ایک گاؤں ڈنگہ میں پیداہوئے، گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات کے مضمون میں ماسٹر کیا۔ 1974 میں آپ نے سیاسیات کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 1976 میں آپ اعلیٰ مرکزی سروسز کے لیے منتخب ہوئے۔ آپ قائد اعظم یونیورسٹی کے پاکستان سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں کئی برس تک وزٹنگ پروفیسر رہے۔ حکومت پنجاب کے علاوہ مرکزی حکومت میں بھی بہت سے اہم عہدوں پر خدمات سر انجام دیں۔ پنجاب اور وفاق کے بہت سے محکموں اور وزارتوں کے سیکرٹری رہے۔ 1997 میں وہ یونیسکوکے ایگزیکٹو بورڈ کے تین سال کے لیے رُکن منتخب ہوئے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم آئی سسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کے رکن بھی رہے۔ انہیں یونیسکو کے عالمی ایجوکیشن کمیشن کے نائب صدر منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ تاریخ کے شعبہ میں ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف کے طور پر 1997 میں آپ کو صدارتی تمغہئ برائے حُسن کارکردگی دیا گیا۔
گذشتہ ایک سال سے آپ شدید علیل تھے۔ علاج کی غرض سے کئی ماہ امریکہ کے ہسپتال میں داخل رہے۔ لیکن مکمل صحت یاب نہ ہوسکے۔
بہرحال ڈاکٹرصفدرمحمود اب اس دنیا میں نہیں رہے تاہم ان کی یادیں باقی رہیں گی۔ بلاشبہ وہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے ”پاسبان“ تھے۔
خدا رحمت کنند، ایں عاشقانِ پاک طینت را
(کالم نگار مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain