تازہ تر ین

غربت اور مہنگائی کا خاتمہ ضروری

لقمان اسد
آزاد کشمیر میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات میں ملنے والی بھرپور کامیابی اور پھر وہاں پر با آسانی اپنی حکومت قائم کر لینے کے بعد تحریک انصاف کی قیادت اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے خاصی مطمئن ہے۔بجا طور پر تحریک انصاف کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی ہے لیکن یہ سچ بھی اپنی جگہ واضح ہے کہ سیاسی میدان میں آئندہ کی کامیابیاں سمیٹنے کے لیے حکومت کو غربت اور مہنگائی جیسے عوام دشمن عوامل کے خلاف صف آرا ہونے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔
عام انتخابات 2018ء کی اپنی الیکشن کمپین میں تحریک انصاف نے عام آدمی کو جو سہانے خواب دکھائے تھے اب عوام انہیں ہر صورت شرمندۂ تعبیر ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے تحریک انصاف نے یوں تو بہت سے بڑے، بڑے دعوے کیے تھے مگر چند ایک چیزوں پر زیادہ زور دیا جن میں مہنگائی، غربت اور بے روز گاری کا خاتمہ شامل تھا۔ حکومت کی تین سالہ کارکردگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو مذکورہ چیزوں میں نمایاں کمی ہونے کی بجائے ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو یہ بات کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگی کہ وہ عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل اور دعووں کو سچ ثابت کرنے میں ابھی تک ناکام ہے جس کے باعث عوام کی بے چینی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاست میں رومانس زیادہ دیر نہیں چلتا جس قدر بھی مقبول سے مقبول اور ہر دل عزیز عوامی رہنما ہو جب وہ اقتدار سنبھال لیتا ہے تو تھوڑا سا عرصہ گزرنے کے بعد عوام اپنی توقعات اور امنگوں کے مطابق ہی کام کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔
دیگر حکومتی معاملات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہاں پر صرف گذشتہ تین برسوں میں مہنگائی میں ہونے والے غیر معمولی اضافے کا تذکرہ ہی اگر کیا جائے تو حکومتی دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات سے لیکر بجلی کے نرخوں کھاد اور لوہے کے علاوہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ عام طبقے کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ کم تنخواہ والے ملازمین اور خاص طور پر دیہاڑی دار اور مزدورطبقہ کے لیے تو دو وقت کی روٹی کمانا بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ بلاشبہ حکومت نے عوامی فلاح کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں جن میں صحت کارڈ کا اجراء، احساس پروگرام کے تحت غریب افراد کو ہر دو،تین ماہ بعد ملنے والی مالی امداد، کامیاب جوان کامیاب پاکستان ”لون اسکیم“، میرا پاکستان میرا گھر اسکیم اور کسان کارڈ جیسے احسن اقدامات شامل ہیں لیکن اس سب کے باوجود مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی برق رفتار شرح کا کنٹرول نہ ہونا حکومت کی بڑی ناکامی تصور ہوتا ہے۔
اسی طرح ترقیاتی کاموں کی رفتار اس حد تک سست روی کا شکار ہے کہ یہ امر سمجھ سے بالا تر ہے۔ گذشتہ دو سالوں سے میانوالی تا مظفر گڑھ دو رویہ شاہراہ کی تعمیر کی نوید حکومت سنا رہی ہے اور پچھلے سال پی سی ون کی تیاری اور منظوری کی خوشخبری بھی وزیر مواصلات نے دی تھی لیکن بدقسمتی سے اس منصوبے کا ابھی تک آغاز نہیں کیا جاسکا۔
ضلع لیہ میں بننے والا ”لیہ، تونسہ پُل“ جسے ملکی ترقی کے حوالے سے گیم چینجر منصوبے کا نام دیا گیا کی تعمیر 2019ء سے مکمل ہوچکی ہے لیکن رابطہ سڑک کی تعمیر کا کام دو سال بعد بھی شروع نہیں ہوسکا۔ سال 2021ء اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے اور حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے قریب ہے اگر حکومت نے اب بھی عوام سے کیے گئے وعدوں کو حقیقت کا رنگ نہ دیا تو 2023ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو عوامی سطح پر پذیرائی نہ ملنے کے سبب مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ زیرِ تعمیر ترقیاتی منصوبوں کی رفتار بڑھا کر انہیں جلد پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ غربت اور مہنگائی میں کمی لانے کے لیے عملی اور حتمی اقدامات بروئے کارلائے تاکہ عوامی سطح پر اپنی مقبولیت کے گراف اور سیاسی ساکھ کو بہتر بنا سکے۔
(کالم نگارسیاسی و قومی مسائل پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain