آغا خالد
کارساز پر بے نظیر بھٹو شہید کے جلوس میں دو بم دھماکوں کے ملزمان کا ہنوز کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا جبکہ کارساز پر یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد180 سے زائد تھی اور حکومت پاکستان کی دعوت پر اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان آنے والی تفتیشی ٹیم کی رپورٹ میں کراچی پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ کو سراہا گیا تھا اور اپنی رپورٹ میں یو این کمیشن نے کہا تھا کہ پنڈی میں محترمہ پر قاتلانہ حملے کی تفتیشی رپورٹ میں بہت زیادہ سقم پائے گئے جبکہ کراچی میں ایسا نہیں ہوا اور ذمہ دارانہ تفتیش کی گئی۔محترمہ کی شہادت کے حوالے سے پنڈی کیس کے فیصلے میں ایک اعلیٰ پولیس افسر کو عبرت ناک سزا سنائی گئی تھی اور اس کے بڑے ملزم پرویز مشرف کو مفرور قرار دیدیا گیاتھاجبکہ اس سلسلہ میں کراچی میں محترمہ پر قاتلانہ حملے کے اہم تفتیشی افسر نیاز کھوسو سے”خبریں“ نے تفصیلی بات چیت کی جوحال ہی میں پولیس سے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں مگر نیاز کھوسو کی اس کیس کے حوالے سے انفرادیت یہ ہے کہ محترمہ پرایک ہی وقت میں ہونے والے دو خودکش دھماکوں کی تفتیش کیلئے بنائی جانے والی چار مختلف ٹیموں میں وہ شامل رہے اور آخر میں وہ اکیلے ہی اس کیس کی تفتیش کرتے رہے۔ محترمہ پر کارساز میں حملے کے فوراً بعد اس وقت کے ڈی آئی جی سعود مرزا کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی تھی جس میں نیاز کھوسو بھی شامل تھے بعد ازاں شبیر شیخ اور ان کے بعداس وقت کے ڈی آئی جی (اور اب ڈی جی ایف آئی اے)ثناء اللہ عباسی کی تفتیشی ٹیم میں بھی وہ شامل رہے۔ نیاز کھوسو کا کہنا ہے کہ محترمہ بے نظیر پنڈ ی میں قاتلانہ حملے کے گرفتار ہونے والے ملزمان سے تفصیلی تفتیش کی گئی تھی جنہوں نے اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ انہیں اتنا معلوم ہے کہ اس وقت کے طالبان سربراہ بیت اللہ محسود نے محترمہ پر قاتلانہ حملے کیلئے دو ٹیمیں تشکیل دی تھیں جن میں سے ایک میں وہ بھی شامل تھے جبکہ دوسری ٹیم کے متعلق وہ زیادہ نہیں جانتے دونوں ٹیموں کو کراچی میں حملے کے لئے ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ملزمان نے تفتیشی ٹیم کو یہ بھی بتایا تھا کہ کراچی میں محترمہ کو شہید کرنے کیلئے جو منصوبہ بندی کی گئی تھی اس کے مطابق پہلے خودکش دھماکے کے بعدمحترمہ بم پروف ٹرک کی وجہ سے بچنے سے ا گرکامیاب ہوجائیں تو انہیں دوسری گاڑی میں سوار کراتے وقت دوسرے خودکش بمبار کوکام دکھانے کابھی حکم تھاتاکہ محترمہ کے بچنے کی کوئی امیدباقی نہ رہے مگر دوسرا خودکش بمبار پہلے دھماکے کے بعد ہر طرف لاشیں دیکھ کر شاید گھبرا گیا اور اس نے محترمہ کے ٹرک سے نکلنے سے پہلے دوسرا دھماکہ بھی کردیا اور اس طرح محترمہ محفوظ رہیں۔کھوسو کا کہنا ہے کہ موقع واردات پر ملنے والے اعضا کا ڈی این اے کرایا گیا سب کے اعضا مل گئے تھے ما سوائے دو انسانی سروں کے جن کا ڈی این اے اور چہرے کی میچنگ نادرا سے کرائی گئی مگر نادرا کو کامیابی نہ ملی۔ اس سے تفتیشی ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مذکورہ دونوں سر خودکش بمباروں کے ہیں اور ان کا تعلق یا تو پاکستان سے نہیں یا علاقہ غیر کے ایسے ملزمان کے گروہ سے ہے جنہوں نے شناختی کارڈ نہیں بنوائے اس لئے نادرا میں ان کا ریکارڈ نہیں تاہم انہوں نے کہا کہ وقتاًفوقتاً ان کا ڈی این اے دیگر ملزمان سے کرایا جانا ضروری تھا مگر اس سلسلے میں ہمیں سندھ حکومت سے زیادہ تعاون نہیں ملا۔ انہوں نے”خبریں“ سے خصوصی بات چیت میں یہ انکشاف بھی کیا کہ ہم نے تفتیش میں مدد کیلئے اس وقت ایوان صدر(جہاں آصف زرداری منصب صدارت پرفائزتھے) اور بلاول ہاؤس کو متعدد خطوط لکھے مگر کسی ایک کا بھی جواب نہیں دیا گیا۔ہم نے ان خطوط میں ان دونوں سے بار بار استدعا کی کہ وہ ہمیں محترمہ بے نظیر کا پرویز مشرف کو لکھا گیا وہ خط یا اس کی کاپی فراہم کریں جس میں محترمہ نے اپنی جان کے دشمن تین لوگوں کی نشاندہی کی تھی اور الزام لگایا تھاکہ مجھے کچھ ہونے کی صورت میں انہیں ذمہ دار سمجھا جائے۔واضح رہے کہ محترمہ نے کارساز بم دھماکے کے فوراً بعد 17اکتوبر2007 کو پولیس کی جانب سے حملے کی درج کی گئی ایف آئی آر کو مسترد کرتے ہوئے صدر پرویز مشرف کو خط لکھا تھا کہ تین لوگ ان کی جان کے درپے ہیں اور اگر مجھے کچھ ہوجائے تو انہیں قاتل نامزد کیا جائے جبکہ کارسازبم دھماکے کا ذمہ دار بھی انہیں ہی ٹھہرایا گیا تھا۔ نیاز کھوسو کا کہنا ہے کہ محترمہ نے اس وقت کے صدر کو خط لکھا تھا اس لئے ہم بار بار ایوان صدر کا ہی دروازہ کھٹ کھٹاتے رہے کیونکہ اس خط کا ریکارڈ وہیں سے مل سکتا تھا مگر کوئی جواب نہیں ملا مجبوراً ہم نے اخباری ریکارڈ سے مدد حاصل کرکے بلاول ہاؤس کو لکھا کہ اخباری تراشوں کے مطابق جس وقت محترمہ نے خط لکھا تو وہ بلاول ہاؤس میں مقیم تھیں ممکن ہے اس خط کی کوئی کاپی محترمہ کے ریکارڈ میں موجود ہوتو انہیں دی جائے تاکہ وہ تفتیش کا سلسلہ آگے بڑھا سکیں کیونکہ محترمہ نے جن لوگوں پراپنے قتل کی ساز ش کا الزام لگایا تھا ان سے تفتیش بہت ضروری ہے اور جرم کا کھرا وہیں سے اٹھنے کا امکان تھامگر ہماری کسی درخواست کو درخورا عتنا نہیں سمجھا گیا ان کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ اور بد قسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ محترمہ کے نام پر اقتدار حاصل کرنے اور ان کے نام پر سیاست چمکانے والوں نے تفتیشی ٹیم کے نوٹسز کا جواب تک نہیں دیا۔ انہوں نے ایک اور دل خراش واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ کے ساتھ ٹرک پر سوار پیپلزپارٹی کے لیڈروں کو ویڈیو کی مدد سے شناخت کرکے متعدد نوٹسز بھیجے گئے کہ وہ تفتیشی ٹیم کو اپنا بیان ریکارڈ کروائیں۔ دس سے پندرہ لوگوں کو نوٹسز جاری کئے گئے مگر صرف مخدوم امین فہیم مرحوم اورآغا سراج درانی نے نوٹسز کا جواب دیا اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا جبکہ رحمان ملک سمیت اورکوئی لیڈر اپنا بیان ریکارڈ کروانے پر تیار نہ ہواان حالات میں ہم مزید تفتیش کیا کرتے البتہ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہر 17اکتوبر کو انہیں محترمہ کا کیس یاد آجاتا تھا اور حکومتی عملداروں میں سے کوئی نہ کوئی فون کرکے تفتیشی رپورٹ کے متعلق پوچھتا تھا اور جب انہیں ان حالات سے آگاہ کیا جاتا تھا جو میں نے آپ کو بتائے ہیں تو دوسری طرف ٹیلی فون کی لائن بے جان ہوجاتی تھی جبکہ اس سلسلے میں سندھ کے سینئر وزیر سید ناصر حسین شاہ نے کہاکہ نیاز کھوسو کو ساری باتیں اب کیوں یاد آرہی ہیں جبکہ وہ ہماری مخالف جماعت میں شامل ہوچکے ہیں پہلے انہوں نے یہ کیوں نہیں بتایا اور نہ ہی میڈیا پر ایسی کوئی بات سنائی دی۔انہوں نے”خبریں“ کے رابطہ کرنے پرکہا کہ ہم توپہلے ہی مظلوم ہیں اس کیس کی پہلی ایف آئی آر پر بھی ہمیں تحفظات تھے اس لئے محترمہ کی درخواست پر ایک سال کے بعددوسرا مقدمہ درج کیا گیا اور اس میں بھی مطلوب ملزمان کوتفتیشی ٹیم کے حوالے نہیں کیا گیا جبکہ جائے وقوعہ کو بھی دھو دیا گیا تو ہم تو ایسے فریادی تھے جنہیں سننے پر کوئی تیار ہی نہ تھا اور جب تمام ثبو ت و شواہد مٹادیئے گئے تو کیس ہمارے حوالے کیا گیا انہوں نے کہا کہ ہمیں پنڈی والے فیصلے پر بھی تحفظات ہیں یہ حیرت کی بات ہے کہ ایسے ملزمان کو عدالت نے چھوڑدیا جو خود اعتراف جرم کرچکے ہیں اور متعدد گواہوں نے انہیں پہچانا اور ان کے خلاف گواہی دی ہم اس کیس کے خلاف بھی اپیل میں گئے ہیں۔
(کالم نگارقومی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
All posts by Daily Khabrain
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
میم سین بٹ
لاہور میں آزادی کے بعدترقی پسنددانشوروں میں فیض احمد فیض اوراحمد ندیم قاسمی بہت کم پاک ٹی ہاؤس جاتے رہے تھے۔ احمد ندیم قاسمی بھی پیراڈائز ریسٹورنٹ کی بندش کے بعد مجلس ترقی ادب اوراپنے ادبی جریدے ”فنون“ کے دفتر میں ہی محفل جما لیتے تھے ان کی محفلوں میں عطاء الحق قاسمی،امجد اسلام امجد،نجیب احمد، خالد احمد، اشرف جاوید،ضیا بٹ وغیرہ مستقل طور پر حاضری دیتے رہے تھے۔ بعدازاں ”فنون“ کے دفتر میں محفل جمانے والوں میں عطاء الحق قاسمی کی زیرادارت ”معاصر“ اورخالد احمد کی زیر ادارت ”بیاض“ کے نام سے نئے ادبی جرائد بھی چھپنے لگے تھے ”فنون“ کے بعد ”بیاض“ میں بھی چھپنے والوں میں ضیا بٹ نمایاں تھے۔ادبی حلقوں میں انہیں خالد احمد نے متعارف کرایا تھا اورحلقہ ارباب غالب کے اجلاس میں پڑھنے کیلئے ان سے پہلا افسانہ ”دوڑ“ لکھوایا تھا جسے بعدازاں خالد احمد نے”فنون“ میں بھی شائع کروادیا تھاریس کورس کے حوالے سے مہارت سے لکھا جانے والا یہ افسانہ ان کے افسانوی مجموعہ ”بھاری پانی“میں بھی شامل ہے۔
افسانہ نگارضیاء بٹ سرکاری افسر تھے ریلوے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹرآڈٹ رہے تھے ریلوے کے علاوہ اوقاف اور سول ایوی ایشن میں بھی ڈیپوٹیشن پر تعینات رہے تھے ان کا آبائی تعلق ہمارے ننھیالی قصبے ظفروال سے تھا جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کرکے لاہور چلے آئے تھے اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخلہ لے لیا تھا جہاں پروفیسر علم الدین سالک جیسی علمی و ادبی شخصیت کے شاگرد خاص رہے تھے۔ضیاء بٹ کے افسانوں کے 3 مجموعے شائع ہوئے جبکہ مضامین کامجموعہ ”دیدہ حیراں“ کے نام سے چھپا۔ جس کا انتساب انہوں نے بڑے صاحبزادے مظہر الحق بٹ کے نام کیا تھا اس کتاب کے مضامین ضیاء بٹ مرحوم کے سوانحی حالات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں انہوں نے افسانوں کے مجموعہ ”سوزدروں“ کا انتساب چھوٹے صاحبزادے اطہر الحق بٹ،دوسرے افسانوی مجموعہ ”بھاری پانی“ کااپنی انتساب صاحبزادی صبیحہ امین اورتیسرے افسانوی مجموعہ ”روشنی“ کا انتساب نواسے خواجہ وقاص کے نام کیا ان کی ایک کتاب ”بیاض“ جبکہ باقی تینوں کتابیں مطبوعات لوح و قلم لاہورکے تحت شائع ہوئی تھیں۔
ضیاء الحق بٹ مرحوم کے بڑے صاحبزادے مظہر الحق بٹ سے گزشتہ دنوں ملاقات ہوئی تو وہ ہمیں اپنے والدمحترم کی چاروں کتابیں دے گئے جنہیں ہم نے چند روز میں پڑھ لیا۔ ضیاء بٹ مرحوم کے افسانوی مجموعہ ”سوزدروں“ میں سے ہمیں ”وجدان“ جبکہ ”بھاری پانی“ سے اسی عنوان کااور”جلتی بھجتی روشنی“ میں سے ”دانشور“ افسانہ سب سے زیادہ پسند آیا تاہم اس کا انجام تشنہ محسوس ہوا۔ ضیاء بٹ نے اپنے افسانوں کے بیشترکردار اردگرد کے ماحول سے لئے۔ انہوں نے چند افسانوں میں کرداروں کے نام بھی اصل لکھے تھے ان کا مشاہدہ تیز تھااورانہیں کہانی کی بنت پر بھی مکمل عبورحاصل تھا،احمد ندیم قاسمی ان کے مشاہدے کی گہرائی اور گیرائی دیکھ کر حیرت زدہ رہتے تھے،خالد احمد نے ان کے بارے میں رائے دی تھی کہ وہ موضوع اور اظہار کے درمیان ہمہ جہت توازن پیدا کر لیتے ہیں اور ہمارے معاشرتی حقیقت پسند افسانہ نگاروں میں اعلیٰ تر مقام رکھتے ہیں،منصورہ احمد نے بھی درست لکھا تھاکہ ان کے افسانے ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگی کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں،”دیدہ حیراں“ میں ضیاء بٹ نے دلچسپ بات بتائی کہ تقسیم ہند سے دوبرس قبل جب وہ آبائی قصبے سے لاہور شہر منتقل ہوئے تھے تو مال روڈ پر دونوں طرف سایہ دار درخت ہوتے تھے لوگ اسے ٹھنڈی سڑک کہتے تھے آدھ پون گھنٹے بعد جب مال روڈ سے کوئی موٹرکارگزرتی تو چوک میں کھڑا سپاہی اپنے سٹینڈ پر پاؤں مارکر گاڑی والے کوسلیوٹ کیا کرتا تھا۔
ضیاء بٹ سرکاری ملازمت کے دوران داتا دربار پر اوقاف افسر تعینات رہے تھے داتا دربار سے انہیں تصوف میں دلچسپی پیدا ہوگئی اورتصوف کی قدیم ترین کتابیں تعرف،کشف المعجوب، فصوص الحکم،انفارس العارفین وغیرہ کا مطالعہ کرتے اورروحانی استادکی تلاش کیلئے مختلف شخصیات کے پاس جاتے رہے تھے لاہور میں مستقل طورپرمنتقل ہونے سے پہلے ضیاء بٹ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے بھی یہاں آیا کرتے تھے۔
اپنے مضامین کی کتاب میں ضیاء بٹ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میرے خیال میں زیادہ سے زیادہ ایک نسل کسی حد تک یاد رکھتی ہے پھر ایسا وقت آتا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ آیا ضیاء بٹ بھی کبھی اس دنیا میں آیا تھا!“ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ضیاء بٹ مرحوم کی تحریریں ادبی دنیا میں ان کا نام تادیر زندہ رکھیں ی ممکن ہے مستقبل قریب میں ایم اے،ایم فل یا پی ایچ ڈی کاکوئی طالبعلم ان کے افسانوں پر تحقیقی مقالہ بھی لکھ دے۔
ضیابٹ اب پاک عرب سوسائٹی کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں، بقول حیدر علی آتش۔۔۔
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
رویئے کس کے لئے،کس کس کا ماتم کیجئے
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
پاکستان اور تاجکستان پنج شیر کشیدگی ختم کرانے کو تیار
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام نہ صرف پاکستان اور تاجکستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے، افغانستان میں ایسی جامع حکومت کے قیا م کی ضرورت ہے جس میں تمام گروپوں کی نمائندگی موجود ہو، افغانستان کے دوست کی حیثیت سے ہم پنج شیر کے معاملہ کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے خواہاں ہیں، پاکستان اس سلسلے میں پشتون گروپوں جبکہ تاجکستان تاجکوں پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو یہاں پاکستان اور تاجکستان کے مابین مختلف شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخطوں کے بعد تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے کامیاب انعقاد پر تاجکستان کے صدر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے تاجکستان میں اپنی اور اپنے وفد کی بہترین میزبانی پر تاجکستان کے صدر کا شکریہ بھی ادا کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ملکوں کے مابین تجارت، سیاحت، اطلاعات، ادویہ سازی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین افغانستان کی صورتحال پر بھی اہم بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام نہ صرف پاکستان اور تاجکستان بلکہ پورے خطے کیلئے ضروری ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغان عوام 40 سال سے مشکلات کا شکار ہیں، انہیں امن کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پنج شیر میں طالبان اور تاجکوں کے مابین تنازعہ کے پرامن حل کیلئے ثالثی پر بھی بات چیت ہوئی، ہم کوشش کریں گے کہ اس معاملہ کو بات چیت سے حل کیا جائے، اس سلسلہ میں پاکستان پشتون گروپوں جبکہ تاجکستان تاجکوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کی تاریخ میں یہ فیصلہ کن گھڑی ہے، افغانستان میں پشتون 45 فیصد ہیں، اس کے علاوہ تاجک اور ہزارہ سمیت کئی اور گروپ بھی موجود ہیں، افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کے ذریعے ہی پائیدار امن ممکن ہے، اس سلسلہ میں ہم اپنی پوری کوششیں کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں امن سے پاکستان کا امن بھی وابستہ ہے، تین دہشت گرد گروپ اب بھی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، افغانستان میں قیام امن جامع حکومت کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ قبل ازیں دونوں ملکوں کے مابین وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ اس سلسلہ میں تقریب دوشنبے کے صدارتی محل ”قصر ملت” میں ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان نے مذاکرات میں پاکستانی جبکہ تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف نے اپنے ملک کے وفد کی قیادت کی۔ بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے پاکستان جبکہ صدر امام علی رحمان نے تاجکستان کی طرف سے مختلف شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے اور دستاویزات کا تبادلہ کیا۔ دونوں ملکوں کے مابین خارجہ امور ، صنعتی تعاون ، دوہرے ٹیکسوں کے بچا ،منی لانڈرنگ ، دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے، فنانشل انٹیلی جنس، سیاحت اور کھیل، اطلاعات سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لئے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ تاجک خبر رساں ایجنسی اور پاکستان کے قومی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی )کے مابین بھی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے گئے۔ مختلف شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخطوں سے دونوں ملکوں کے مابین تعاون کو فروغ حاصل ہو گا۔
نیب کو ٹیکس گزاروں کے ڈیٹا تک رسائی مل گئی
ٹیکس سے متعلق غلط معلومات فراہم کرنے پر5 لاکھ جرمانہ، ایک سال قید سزا مقرر
نان فائلر پروفیشنلز کیلئے بجلی بل کی مختلف سلیب پر 35 فیصد ٹیکس عائد
پروفیشنلز میں وکلائ، ڈاکٹر، انجینئرز، آئی ٹی ماہرین اور اکاﺅنٹنٹ شامل
ایف بی آر کو نادرا ڈیٹا تک رسائی حاصل، انکم ٹیکس آرڈیننس سیکشن 198 ختم
نیب20 سال پرانی بند فائلیں بھی کھول سکے گا، آرڈیننس جاری
نان فائلرز کے فون، یوٹیلیٹی کنکشن کاٹنے کا اختیار بھی حاصل
اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی)
افغان مسئلے کا واحد حل مشترکہ حکومت ہے، وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغان مسئلے کا واحد حل مشترکہ حکومت ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیرونی طاقتوں کے خلاف جنگ کو افغان عوام جہاد سمجھتے ہیں، طالبان نے گزشتہ 20 سال میں بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ تبدیل ہوئے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان اس وقت ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے، افغانستان 40 سال کی جنگی صورت حال کے بعد استحکام کی طرف بڑھے گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان غلط سمت گیا تو افراتفری، انسانی بحران، پناہ گزینوں کے بڑے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و استحکام کی واحد صورت ایک مشترکہ حکومت ہے، افغانستان میں افراتفری اور انسانی بحران سے سارے ہمسائے متاثر ہوں گے۔
عمران خان نے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں جو کچھ صدر بائیڈن نے کیا وہ سمجھداری کا فیصلہ تھا، تاہم امریکا کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے سے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتے۔
وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ پاکستان کے نکتہ نظر سے افغان سرزمین سے دہشت گردی کا بھی خطرہ ہے، پہلے سے ہی تین دہشت گرد گروہ افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کروارہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم عمران خان شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے 2 روزہ دورے پر تاجکستان میں موجود تھے، دورے کے دوران وزیرِ اعظم کی ایران، قازقستان ، بیلاروس اور ازبکستان کے صدور سے ملاقاتیں بھی ہوئی تھی۔
وزیراعظم عمران خان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان عوام کوانسانی ہمدردی کی بنیاد پرامداد کی ضرورت ہے،افغانستان ایساملک ہےجس میں کوئی باہرسے حکمرانی نہیں کرسکتا۔
وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دنیا کا افغانستان کےساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے، پچھلی افغان حکومت 75 فیصدغیر ملکی امداد پر چل رہی تھی، افغانستان کی موجودہ صورتحال میں عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ طالبان کوسیاسی استحکام کےساتھ افغان عوام کا بھروسہ جیتنا ہوگا، افغانستان میں ایسا سیاسی ڈھانچہ ہو جس میں تمام افغان گروپوں کی نمائندگی ہو، پاکستان سمجھتا ہے افغان عوام اپنے فیصلے خود کریں، پاکستا ن پر امن افغانستان کا خواہاں ہے، پاکستان افغانستان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے،افغانستان کوتنہا چھوڑا تو مختلف بحران ایک ساتھ جنم لیں گے۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ افغانستان کی صورتحال پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے،افغانستان کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا جا سکتا،عالمی برادری کو افغانستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا، افغانستان کی حقیقت دنیا کو تسلیم کرنا ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ہم نے افغانستان کے حوالے سے ہمیشہ یکساں موقف رکھا ، افغانستان کا مسئلہ ہم سب کومل کرحل کرناہوگا، پاکستان نےدہشت گردی کےخلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا،دہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں 80 ہزارسےزائد جانوں کی قربانی دی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معیشت کونقصان پہنچا۔
ان کا کہنا تھا کہ تاجکستان کےساتھ دیرینہ اوربرادرانہ تعلقات ہیں،شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کی میزبانی پر تاجک صدر کے مشکور ہیں، تجارت، سرمایہ کاری، روابط کےفروغ کیلئے تنظیم اہم پلیٹ فارم ہے۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ کورونا سے پوری دنیا کی معیشتیں متاثرہوئیں ،خطےکوکئی چیلنجزکا سامنا ہے، ہمیں مل کرمسائل سے نمٹنا ہے، کورونا میں صحت کےساتھ معاشی صورتحال پر بھی نظر رکھنی ہے، دنیا کا ہیلتھ سیکٹر کورونا صورتحال میں مقابلہ نہیں کرسکتا۔
اجلاس میں خطاب کے دوران انہوں نے مزید کہا تھا کہ دنیا کودوسرا بڑا چیلنج ماحولیاتی آلودگی کا ہے، ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے ہم نے شجر کاری مہم شروع کی ، دنیا کے مختلف خطے پرعالمی حدت اور ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔
عمر شریف کے علاج کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دیدیا، وفاقی حکومت
گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وفاقی وزیر اطلاعات فواہد چوہدری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات کے مطابق لیجنڈری اداکار عمر شریف کے علاج کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی کے آغا خان ہسپتال میں عمر شریف کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعظم کی ہدایت پر ہی اداکار کی عیادت کرنے آئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عمر شریف کا 11 ستمبر کو ہسپتال میں ڈائلاسز بھی ہوا ہے اور ان کے علاج کے لیے وزیر اعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کی سربراہی میں میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جو اداکار کے علاج سے متعلق فیصلہ کرے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی حکومت عمر شریف کے علاج کے تمام اخراجات اور انتظامات کرے گی۔
انہوں نے عمر شریف کو ملک و قوم کا اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اداکار نے ماضی میں وزیر اعظم عمران خان کے شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
گورنر سندھ نے یہ بھی کہا کہ وہ وفاقی حکومت سے لیجنڈری اداکاروں کی فلاح و بہبود کے لیے فنڈز کو مختص کرکے لیجنڈری ٹرسٹ ادارے کو فعال کرنے کی بات بھی کریں گے۔
میڈیا سے بات کرتے وقت چوہدری فواد نے بتایا کہ وزیر اعظم کی ہدایات پر ہی ڈاکٹر فیصل سلطان اور عمر شریف کے معالج ڈاکٹر یاور کی سربراہی میں میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جو اداکار کے علاج سے متعلق فیصلہ کرے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ جو فیصلہ میڈیکل بورڈ کرے گا، حکومت اس پر عمل درآمد کرے گی اور عمر شریف کے علاج کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ دل کے عارضے کا علاج پاکستان میں بھی ممکن ہے مگر جو فیصلہ میڈیکل بورڈ کرے گا، اس پر ہی عمل کیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بیرون ملک کا ویزا جاری کرنا یا ایئر ایمبولینس فراہم کرنا مسئلہ نہیں ہے لیکن میڈیکل بورڈ پہلے یہ دیکھے گا کہ عمر شریف بیرون ملک سفر کرنے کی حالت میں ہیں یا نہیں؟
چوہدری فواد حسین کے مطابق میڈیکل بورڈ عمر شریف کی صحت، حالت اور بیرون ملک سفر کرنے کی طاقت کو دیکھتے ہوئے جو بھی فیصلہ کرے گا، اس پر عمل کیا جائے گا۔
اسی دوران گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ایک بار پھر واضح کیا کہ حکومت میڈیکل بورڈ کی تجاویز پر عمر شریف کو ایئر ایمبولینس فراہم کرنے سمیت امریکا و جرمنی کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی علاج کے لیے بھیجے گی۔
خیال رہے کہ عمر شریف گزشتہ کچھ عرصے سے علیل ہیں اور ابتدائی طور پر ان کے اہل خانہ نے ان کی علالت کی خبروں کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
گزشتہ ماہ اگست کے اختتام پر عمر شریف کی سوشل میڈیا پر بیماری کی تصاویر وائرل ہوئی تھی، جس کے بعد ابتدائی طور پر ان کے اہل خانہ نے ان کے علیل ہونے کی خبروں کو غلط قرار دیا تھا۔
بعد ازاں ان کے اہل خانہ نے تسلیم کیا کہ عمر شریف علیل ہیں اور دل کے عارضے میں مبتلا ہیں، ساتھ ہی اداکار کے خاندان نے حکومت سے بیرون ملک علاج کے لیے مدد بھی مانگی تھی۔
دو دن قبل عمر شریف نے ایک ویڈیو بھی جاری کی تھی، جس میں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے بیرون ملک علاج کروانے سے متعلق مدد مانگی تھی۔
بعد ازاں اداکار کے اہل خانہ نے واضح کیا تھا کہ انہوں نے حکومت سے مالی مدد نہیں مانگی بلکہ انہوں نے حکومت سے جلد سے جلد بیرون ملک کا ویزہ جاری کرنے اور ایئر ایمبولینس کا بندوبست کرنے سے متعلق مدد مانگی ہے۔
اہل خانہ اور اداکار کی جانب سے اپیل کیے جانے کے بعد متعدد شوبز و اسپورٹس شخصیات سمیت بھارتی شوبز شخصیات نے بھی وزیر اعظم عمران خان سے عمر شریف کی مدد کرنے کی اپیل کی تھی۔
اداکار اور اہل خانہ سمیت دیگر شخصیات کی جانب سے اپیل کیے جانے کے بعد وزیر اعظم کی ہدایات پر ہی چوہدری فواد اور عمران اسماعیل نے 11 ستمبر کی شام کو عمر شریف کی عیادت کی، جس کے بعد انہوں نے اداکار کے علاج سے متعلق میڈیکل بورڈ کے قیام کی تصدیق کی۔
مائیکرو سافٹ کا نیا آفس سافٹ ویئر 5 اکتوبر کو متعارف کرانے کا اعلان
مائیکرو سافٹ نے اپنے مقبول سافٹ ویئر پروگرام آفس کے نئے ورژن کو 5 اکتوبر کو متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے، یعنی اسی دن جب ونڈوز 11 کی دستیابی کا سلسلہ شروع ہوگا۔
مائیکرو سافٹ نے اس سے قبل کہا تھا کہ اگرچہ سبسکرائپشن سروس مائیکرو سافٹ 365 پر زیادہ توجہ دی جائے گی، مگر ان افراد کے لیے آفس 2021 کو متعارف کرایا جائے گا جو ابھی کلاؤڈ پر منتقل ہونے کے لیے تیار نہیں۔
اب ایک بلاگ میں آفس 2021 کی دستیابی کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا۔
آفس 2021 کو 2 ورژنز میں پیش کیا جائے گا، ایک کمرشل صارفین کے لیے جسے آفس لانگ ٹرم سروسنگ چینل (ایل ٹی ایس سی) کا نام دیا گیا ہے۔
دوسرا ورژن گھریلو صارفین کے لیے ہوگا۔
بلاگ میں بتایا گیا کہ آفس ایل ٹی ایس سی ورژن 16 ستمبر سے ہی دستسیاب ہوگا اور اس میں accessibility فیچرز کو بڑھایا گیا ہے جبکہ ورڈ، ایکسل اور پاور پوائنٹ کی کارکردگی کو بھی بہتر بنایا گیا ہے۔
اسی طرح تمام ایپس کے لیے ڈارک موڈ سپورٹ بھی فراہم کی جارہی ہے۔
ذاتی استعمال کے لیے آفس 2021 صارفین کو 5 اکتوبر سے دستیاب ہوگی مگر فی الحال قیمت کا اعلان نہیں کیا گیا۔
آفس کے دونوں ورژنز ونڈوز اور میک ڈیوائسز پر کام کرسکیں گے اور ون نوٹ ایپ کے ساتھ فراہم کیے جائیں گے۔
یہ دونوں 32 اور 64bit ورژنز پر دستیاب ہوں گے اور مائیکرو سافٹ کی جانب سے سافٹ ویئر کو 5 سال تک سپورٹ فراہم کی جائے گی۔
امریکا سے جنگ کا باب ختم ہوگیا اب نئے تعلقات کی شروعات چاہتے ہیں، ترجمان طالبان
دوحہ: قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ جب امریکا سے جنگ تھی تو وہ ہمارا دشمن تھا لیکن اب حالات یکسر مختلف ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کی نمائندہ مونا شاہ کو خصوصی انٹرویو میں امریکا کے دوست یا دشمن ملک ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں ترجمان طالبان سہیل شاہین نے کہا کہ جب امریکا سے افغانستان میں جنگ تھی تب وہ ہمارا دشمن تھا تاہم اب جنگ کا چیپٹر ہی ختم ہوگیا اور امریکا کو بھی سمجھ آگیا کہ مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے۔
ترجمان طالبان سہیل شاہین نے مزید کہا کہ جنگ کا دور ختم ہوگیا اور اب نیا دور شروع ہو رہا ہے جس میں امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات کی شروعات چاہتے ہیں تاہم یہ امریکا پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کام کرکے افغانستان میں غربت کے خاتمے، تعلیم کے شعبے، اور افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں مدد کرتا ہے یا نہیں۔
ترجمان طالبان سہیل شاہین نے عبوری حکومت میں افغانستان کی تمام اقوام اور طبقات کی نمائندگی نہ ہونے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت تمام نسلی گروپس کی حمایت سے بنائی گئی ہے جب کہ فوری الیکشن کا امکان کو بھی رد کرتے ہوئے کہا کہ ابھی آئینی مسودے پر کام جاری ہے۔
خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں سے متعلق سوال کے جواب میں ترجمان طالبان کا کہنا تھا کہ شریعت کے تحت خواتین کو تمام حقوق دیں گے لیکن اعلیٰ حکومتی عہدوں پر خواتین کی تعیناتی پرعلمائے دین سے مشوروں کے بعد ہی غور کیا جاسکتا ہے۔
یہ خصوصی انٹرویو وائس آف امریکا کی ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا۔
سرمائے اور غربت میں بڑھتی ہوئی خلیج
جاوید ملک
”کریڈٹ سوِیس“ کی ایک نئی انکشافاتی رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سال 2020ء کے اندر کروڑ پتی افراد کی تعداد میں ڈرامائی طورپر اضافہ ہوا ہے جبکہ دولت کی نابرابری بڑے پیمانے پر شدید ہونے کی طرف گئی ہے، اس کے باوجود کہ سرمایہ داری وینٹی لیٹر پر پڑی ہوئی ہے۔ (صرف سال 2020ء میں) امریکی ریاست کے اندر 17 لاکھ 30 ہزار نئے افراد کروڑ پتی بنے ہیں، جرمنی میں یہ تعداد 6 لاکھ 33 ہزار اور آسٹریلیا میں 3 لاکھ سے زائد ہے۔
اگر یہ کروڑ پتیوں کے لیے اچھا سال تھا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ارب پتیوں کے لیے اس سے بھی زیادہ بہتر ثابت ہوا۔ پچھلے 12 مہینوں میں، 650 امریکی ارب پتیوں کی مجموعی دولت میں 1.2 ٹریلین ڈالر اضافہ ہوا ہے۔ جیف بیزوس دنیا کا وہ پہلا شخص بن چکا ہے جو 200 ارب ڈالر سے زائد دولت کا مالک ہے۔
رپورٹ میں گہرے ہوتے سرمایہ دارانہ بحران کے ریگستان کے بیچ و بیچ ہریالی کا نقشہ کھینچا گیا ہے، جس میں درج ہے کہ ”نا موافق معاشی حالات کے تحت گھریلو دولت نے شدید ثابت قدمی دکھائی ہے“۔ در حقیقت، رپورٹ نشاندہی کرتی ہے کہ 2020ء کے دوران گھریلو دولت میں 7.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کروڑ پتیوں کا میگزین”فوربز“ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا: ”ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وبا محض امیر ترین افراد کے لیے ہی نہیں بلکہ کروڑ پتیوں کی اکثریت کے لیے بھی خوشخبری ثابت ہوئی“۔
مگر کیا ہم 300 سال کے بد ترین بحران اور جی ڈی پی کے دیوہیکل سکڑاؤ سے دوچار نہیں ہوئے ہیں؟ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ اگرچہ محنت کش طبقہ ایک دہائی سے اجرتوں کی کٹوتی، نجکاری اور آسٹیریٹی کا شکار ہے، مگر دیوہیکل معاشی سکڑاؤ کے باوجود ہمارے سماج کی دولت میں ایک سال پہلے کی نسبت بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔
قرض، گھروں کی قیمتوں میں اضافہ، اشیاء کی قلت اور روزگار کی مقابلہ بازی سمیت طویل اوقاتِ کار پر مبنی نوکریاں سب معمول کی باتیں بن چکی ہیں، اور مسلسل لاک ڈاؤنز کے باوجود محنت کشوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع نہیں ملتا۔
غریبوں کی غربت میں مزید اضافہ ہوا ہوگا اور پیداوار منہدم ہوئی ہوگی، مگر رپورٹ کے مطابق ان سب کا امیروں کی دولت سے کوئی سروکار نہیں۔ محنت کش طبقے اور اجرتوں پر گزر بسر کرنے والی انسانیت کی اکثریت کے بر عکس، امیروں نے سرمایہ کاری اور بچت کی شکل میں بے تحاشا دولت اکٹھی کی ہوئی ہے۔
جیسا کہ رپورٹ میں درج ہے، ”امیر ترین افراد تمام معاشی سرگرمیوں کے منفی اثرات سے نسبتاً محفوظ رہے ہیں اور، اہم بات یہ کہ، انہوں نے شیئرز کی قیمتوں اور گھروں کی قیمتوں پر کم شرحِ سود سے بھی منافعے کمائے ہیں“۔
مثال کے طور پر، پراپرٹی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والے معاشی خطرات سے قدرے محفوظ رہتے ہیں۔ امریکی ریاست کے اندر، فیڈرل ریزرو نے شرحِ سود کم رکھنے کی غرض سے تیزی کے ساتھ بانڈز خریدے، اور گھریلو قرضے کم کرنے کے لیے مداخلت کی۔ امیر ممالک کی ایک مخصوص پرت بچت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، خاص کر زیادہ تنخواہوں والے، اب اس بچت کا ایک حصہ پراپرٹی کی خریداری پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ان عناصر کے باعث دنیا کے اکثر علاقوں میں گھروں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بلاشبہ نئے ’کروڑ پتیوں‘ کی اکثریت محض برائے نام کروڑ پتی ہیں کیونکہ وہ جن گھروں میں رہ رہے ہیں، ان کی قیمت آسمانوں کو چھو رہی ہے۔
دیگر اثاثے بھی اسی طرز پر چل رہے ہیں، اور زیادہ تر اثاثوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ باالفاظِ دیگر، دولت رکھنے والوں کی دولت میں اس لیے مزید اضافہ ہوا ہے کیونکہ ان کے اثاثوں کی قیمت بڑھ چکی ہے۔ جن کے پاس وبا سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا، ان کے ہاتھ اب بھی خالی ہیں۔
پہلے سے دولت مند افراد کی گھریلو دولت میں اضافے کی وجہ سماج کے ذرائع پیداوار کی بڑھوتری نہیں ہے۔ امیروں کی اہلیت ہی یہی باقی بچی ہے کہ وہ سٹے بازی کے ذریعے پیسے کما رہے ہیں۔
سٹاک مارکیٹ اور سرمایہ کاری کے غبارے، ریاست اور حقیقی معیشت سے بڑے پیمانے پر لا تعلق ہیں، جس کا انحصار کار آمد اشیا بنانے والی انسانی محنت کے اوپر ہے۔ حکمران طبقہ جب معیشت میں پیسہ پھینکتا ہے تو اس سے بس یہی ہوتا ہے کہ دولت تقسیم ہو جاتی ہے۔ افراطِ زر کے باعث غریبوں کی اجرتوں کی کوئی قدر نہیں رہتی، جبکہ اثاثوں کے مالکان اپنے اثاثوں کی قیمتوں کو مزید بڑھتا ہوا پاتے ہیں۔
جیسا کہ رپورٹ وضاحت کرتی ہے: امیر ترین 10 فیصد افراد عالمی دولت کے 82 فیصد کے مالک ہیں، اور وہ اکیلے 45 فیصد گھریلو اثاثوں کے مالک بھی ہیں۔
جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی، ”سماج کے ایک حصے میں دولت کے ارتکاز کا مطلب یہ ہے کہ اسی وقت سماج کے دوسرے حصے میں اذیتیں، سخت محنت، غلامی، جہالت، ظلم اور اخلاقی پستی پروان چڑھ رہی ہے“۔
سرمایہ دارانہ نظام انہی بنیادوں پر چلتا ہے؛ امیروں کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے، جبکہ اس دولت کو بصورتِ دیگر سماجی ضروریات پورا کرنے اور سماجی بیماریوں کا خاتمہ کرنے کے لیے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اس کی بجائے، اس کو ان کی حیثیت مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؛ جبکہ انسانیت کی اکثریت کو مزید غربت میں دکھیل دیا جاتا ہے۔
امیر افراد محنت کش طبقے کی پیدا کی گئی دولت کا سہارا لے کر بحران کے اثرات سے خود کو محفوظ کر رہے ہیں، جبکہ بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ 2020ء کے دوران 4 کروڑ سے زائد امریکیوں نے خود کو بے روزگار رجسٹر کروایا، جبکہ عالمی سطح پر خواتین محنت کشوں کی 40 فیصد ان شعبوں میں کام کرتی ہیں جسے وباء سے شدید نقصان پہنچا، جیسا کہ ریستوران، پرچون کی دوکانیں اور ہوٹل۔
یہ حیرانگی کی بات نہیں کہ امیروں پر ٹیکس لگانے کے مطالبے کو مقبولیت ملی ہے۔ البتہ، اس طریقے سے اقلیتی طبقے کا دولت اکٹھا کرنے اور اس پر جوا کھیلنے کا بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو جاتا، وہ اپنی دولت سے چمٹے رہنے کے لیے کچھ بھی کر گزر سکتے ہیں، جیسا کہ ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنے اثاثے بیرونِ ملک منتقل کرنا۔
سوشلزم کی ضرورت اس سے قبل کبھی اتنی واضح ہوکر سامنے نہیں آئی۔ سرمایہ داری کا تختہ کرپٹ سمجھے جانے والے حکمران طبقے سمیت الٹنا پڑے گا۔ ایسا ذرائع پیداوار پر قبضہ کرتے ہوئے انہیں محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں دے کر کیا جا سکتا ہے، تاکہ سماج کی دولت، جسے محنت کشوں نے پیدا کیا، کو منافعوں کی بجائے جمہوری منصوبہ بند معیشت کے تحت انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہ عمل اس بات کو یقینی بنائے گا کہ انسانیت کی اکثریت، یعنی محنت کش طبقہ، خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کرے۔
(کالم نگار سیاسی و سماجی ایشوز پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
نریندر مودی بنام جوبائیڈن
سجادوریا
ہیلو،مسٹر بائیڈن،نمسکار،میں امید کرتا ہوں کہ مزاج بخیر ہوں گے کیونکہ افغانستان میں حا لیہ شکست کے بعد آپ خاصے گھائل ہو چکے ہیں،ان حالات میں مزاج کا بخیر ہونا،ممکن نہیں،لیکن اُمید کرنے میں کیا حرج ہے؟۔”شرارتی“ میڈیا ایسی ”افواہیں“ پھیلا رہا ہے کہ آپ نجی محفلوں میں روتے پائے گئے ہیں۔میں ان ”شرارتی“ میڈیا والوں کی افواہوں پر بالکل یقین نہیں کرتا،ان کا کام ہی ’جلتی پر تیل‘ ڈالنا ہوتا ہے۔یہ آپ کی شکست کے بعد کے جذبات کو کیا سمجھیں گے؟میں پوری طرح سمجھ سکتا ہوں کہ آپ کس اذیت سے گزر رہے ہیں۔
مسٹر بائیڈن،آپ پریشان نہ ہوں،ذلت و رُسوائی ہوتی رہتی ہے،انسان کو تھوڑا ڈھیٹ بن جانا چاہئے اور اپنے میڈیا کو کنٹرول میں رکھنا چاہئے،بھارتی میڈیا کو ایسے کنٹرول کر رکھا ہے کہ اتنی گھٹیا صحافت کر رہا ہے کہ ان کا اپنا تماشا بن گیا ہے،مسٹر بائیڈن آپ تو جانتے ہیں کہ چین نے لداخ میں بھارتی افواج کی پٹائی کی،چین نے کئی کلومیٹر بھارتی علاقے پر قبضہ کر لیا۔چینی فوج نے مُکوں اور گھونسوں سے کئی بھارتی فوجی بھی ہلاک کردیے،لیکن میری حکومت کو ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوئی،میرے وزیر انتہائی بے شرمی سے میڈیا کی ملی بھگت سے واقعات کو چھپاتے رہے۔شکست و شرمندگی تو گویا ہم نے محسوس ہی نہیں کی۔ہمیں معلوم ہے کہ چین ایک بڑی طاقت ہے،اس کی عسکری قوت بھی قابو سے باہر ہو چکی ہے،اس لئے بھارت نے مناسب سمجھا کہ شرمندگی برداشت کر لو چین سے پنگا نہیں لینا چاہئے۔
جنابِ صدر ِ امریکہ،یہ تو شرمندگی کا ایک واقعہ لکھا ہے،اس سے بھی بڑی رُسوائی تو پاکستان کے ہاتھوں برداشت کر چکا ہوں۔مسٹر بائیڈن، آپ تو جانتے ہیں اور آپ کی خفیہ ایجنسیوں نے بھی بتایا ہو گا کہ پاکستان نے بھارت کے ناک میں دم کر رکھا ہے،میں نے تو مذاق مذاق میں ”سرجیکل“ اسٹرائیک کے لئے جہاز پاکستان بھیجے تھے،وہ بھی رات کو چوری چھپے ان کے چند درخت شہید ہو گئے۔میں سمجھا وہ بھی اسے مذاق ہی سمجھیں گے،لیکن سر ایک بات بتانا پڑے گی کہ نوازشریف واقعی شریف انسان تھے،ایسا ہنسی مذاق بھی برداشت کر لیتے تھے بلکہ اپنی افواج کو ہی دباوٗ میں لاتے تھے،ہمیں ہمیشہ خوش رکھتے تھے۔جب سے عمران نیازی آیا ہے تب سے آپ تو پریشان ہیں ہی،ہمیں بھی ذلیل کر رہا ہے۔ہمارے دوست نواز شریف کو تو جیل میں ڈالا لیکن ہمارا دوست نوازشریف بھی کمال کا ایکٹر ہے،جیل میں ایسی پلیٹ لیٹس کی گیم ڈالی،میڈیا میں اپنے چہیتے صحافیوں سے ایسی فضا بنوائی کہ عمرانی حکومت تو کیا عدلیہ بھی پریشان ہو گئی کہ جیل سے رہا کرنا پڑا۔میں آپ کوبتا رہا تھاکہ پاکستان کی فضائیہ نے میرے ”ابھی نندن“ کو پکڑلیا۔کشمیریوں نے پٹائی بھی کی،لیکن پاک فوج موقعے پر پہنچ گئی،ابھینندن کو بچایا،پھر فنٹاسٹک چائے بھی پلائی۔ایسی بھارت کی دُرگت بنائی کہ جگ ہنسائی ہمارا مقدر بن گئی لیکن ہم نے ڈھٹائی اور شرمندگی سے اپنے بے شرم میڈیا کو ”فرضیکل اسٹرائیک“ کا ٹاسک دے دیا۔
مسٹر بائیڈن! میں ایمانداری کی بات کہوں،افغانستان میں امریکہ کی شکست کے پیچھے بھی مجھے پاکستان دکھائی دیتا ہے۔پاکستان نے افغانستان میں صرف امریکہ کی ہی نہیں انڈیا کی بھی ٹھکائی کی ہے۔جناب صدر،پاکستان نے کمال ذہانت سے پہلے سوویت یونین کے ٹُکڑے کر دیے،اب امریکہ اور بھارت کی لُٹیا ڈبو دی۔پاکستان کی فاتحانہ للکار،جنرل فیض حمید کا کابل میں چائے پینے کا انداز،سچ کہوں ناقابلِ برداشت ہو رہا ہے۔
مسٹر بائیڈن،بھارت کو کس کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے ہو؟ہم نے بھارتی عوام کو بھوگا،ننگا رکھ کر اربوں افغانستان میں لگا دئیے،وہاں سڑکیں بنائیں،بسیں فراہم کیں،افغان فوج کو تربیت دینے میں مدد دی،اشرف غنی،امرللہ صالح سمیت کئی افغان رہنماوٗں پر انویسٹمنٹ کی،لیکن سب ڈوب گیا۔آپ تو جانتے ہیں ایک’بنیا‘پائی پائی پر مر جاتا ہے۔اپنے عوام کو بے وقوف بنا ئے رکھا،افغانستان میں آپ کی آشیر باد سے اربوں اُڑا دیے۔اب ہمارے لئے تشویش کی بات یہ ہے کہ امریکہ بھاگ گیا ہے،انڈیا اس خطے میں تنہا ہو چکا ہے،چین،رُوس اور پاکستان خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں۔بھارت میں میری حکومت کی انتہا پسند پالیسیاں،اندرونی خلفشار پیدا کر چکی ہیں۔بظاہر ایسے لگتا ہے کہ امریکہ کا خوف بھی اب نہیں ہے،اگر مقبوضہ کشمیر میں کوئی تحریک دوبارہ جاگ گئی تو بھارت اس پر قابو نہیں پا سکے گا۔چین اور پاکستان تو پہلے ہی ہم پر دباوٗ بڑھانا چاہتے ہیں۔
جنابِ صدر! ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان نے اپنے لئے مشکل ترین حالات کے باوجود بہترین فیصلے کیے ہیں،عالمی سازشوں،عالمی میڈیا کی بد عنوان رپورٹس اورمقامی سیاسی و عسکری رہنماوٗں کی غفلتوں کے باوجود اپنی ترجیحات پر توجہ مرکوز رکھی۔پاکستان نے ایسے وقت کا انتظار کیا،جب امریکہ کو تھکا دیا جائے اور بھگا دیا جائے،پاکستان نے چین کے ساتھ ایسے مضبوط اسٹریٹیجک تعلقات قائم کر لئے ہیں کہ اب اس خطے میں بیرونی مداخلت کے امکانات کو ختم کر دیا ہے۔پاکستان،چین اور عرب ممالک افغانستان میں نظامِ دنیا کو بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔امریکہ اور بھارت انتہائی بے بسی سے دور بیٹھ کر دانت پیستے رہیں گے۔جناب صدر،ہمارے لئے چین بڑا دردِ سر بن چکا ہے،اسی طرح پاکستان بھی ہمیں خطے میں تنہا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔سری لنکا، مالدیپ، بنگلہ دیش اور نیپال ہمارے پڑوسی ممالک ہیں،وہ بھی آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ہم جان چکے ہیں کہ امریکہ ہماری مدد نہیں کر پائے گا۔
مسٹر بائیڈن،طالبان نے امریکہ اور نیٹو فورسز کے ساتھ جو کیا ہے،اس میں پاکستان کا دماغ شامل ہے،پاکستان نے طالبان کو ایسے تمام اطوار سکھا دیے ہیں جن سے دنیا کو ہینڈل کرنے میں مدد ملے گی۔میں گزارش کرتا ہوں کہ پاکستان پر دباوٗ کم نہ کیا جائے،پاکستان کو فیٹف کے شکنجے میں کسنا چاہئے،اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنی چاہئیں،آئی ایم ایف،ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں کو استعمال کر کے پاکستان میں عمرانی حکومت کو دباوٗ میں رکھنا چاہئے۔ورنہ ان عالمی اداروں کا کوئی کام نہیں، انکو بند کر دینا چاہئے۔
میں نے بطور وزیر اعظم ہندوستان آپکو خط اس لئے لکھا ہے کہ ہمارا ساتھ دیں،ہماری مشکلات سمجھیں،اگر بھارت کو تنہا چھوڑا گیا تو ہم بھی امریکہ کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور چین سے جا ملیں گے،اس خطے میں امریکہ پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔جنرل بخشی پہلے ہی امریکہ کو بُزدل اور خوف زدہ کہہ رہا ہے۔اگر ہماری مدد نہ کی گئی تو ہم بھی چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنا لیں گے،میرا خط ایک دھمکی سے کم نہ سمجھا جائے،کیونکہ ہمارے پاس وقت کم ہے،ہمیں اس خطے میں ایک راکھشش پاکستان کا سامنا تھا،اب افغانستان میں راکھششوں نے حکومت بنا لی ہے۔طالبان تو کشمیر کی باتیں کرنے لگے ہیں۔اس لئے ہمیں خطرات کا سامنا ہے۔امید ہے ہمیں تنہا نہیں چھوڑا جائے۔
آخر میں آپ سے ہمدردی کرتا ہوں،آپ کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتا ہوں۔امریکی شکست نے دنیا کا توازن بدل دیا ہے۔اب دنیا امریکہ کو نہیں،چین کو نئی سُپر پاور کے طور پر دیکھنا شروع ہو گئے ہیں۔میرا ”گمان“ ہے کہ امریکہ ان سب حالات کو سمجھتا ہے۔میرا مقصد صرف آپکو ’چتاونی‘ دینا ہے۔بائے!اپنا خیال رکھنا اور ہمارا بھی۔
آپکا خیر اندیش
نریندرا مودی،وزیر اعظم ہندوستان
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭