تازہ تر ین

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

میم سین بٹ
لاہور میں آزادی کے بعدترقی پسنددانشوروں میں فیض احمد فیض اوراحمد ندیم قاسمی بہت کم پاک ٹی ہاؤس جاتے رہے تھے۔ احمد ندیم قاسمی بھی پیراڈائز ریسٹورنٹ کی بندش کے بعد مجلس ترقی ادب اوراپنے ادبی جریدے ”فنون“ کے دفتر میں ہی محفل جما لیتے تھے ان کی محفلوں میں عطاء الحق قاسمی،امجد اسلام امجد،نجیب احمد، خالد احمد، اشرف جاوید،ضیا بٹ وغیرہ مستقل طور پر حاضری دیتے رہے تھے۔ بعدازاں ”فنون“ کے دفتر میں محفل جمانے والوں میں عطاء الحق قاسمی کی زیرادارت ”معاصر“ اورخالد احمد کی زیر ادارت ”بیاض“ کے نام سے نئے ادبی جرائد بھی چھپنے لگے تھے ”فنون“ کے بعد ”بیاض“ میں بھی چھپنے والوں میں ضیا بٹ نمایاں تھے۔ادبی حلقوں میں انہیں خالد احمد نے متعارف کرایا تھا اورحلقہ ارباب غالب کے اجلاس میں پڑھنے کیلئے ان سے پہلا افسانہ ”دوڑ“ لکھوایا تھا جسے بعدازاں خالد احمد نے”فنون“ میں بھی شائع کروادیا تھاریس کورس کے حوالے سے مہارت سے لکھا جانے والا یہ افسانہ ان کے افسانوی مجموعہ ”بھاری پانی“میں بھی شامل ہے۔
افسانہ نگارضیاء بٹ سرکاری افسر تھے ریلوے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹرآڈٹ رہے تھے ریلوے کے علاوہ اوقاف اور سول ایوی ایشن میں بھی ڈیپوٹیشن پر تعینات رہے تھے ان کا آبائی تعلق ہمارے ننھیالی قصبے ظفروال سے تھا جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کرکے لاہور چلے آئے تھے اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخلہ لے لیا تھا جہاں پروفیسر علم الدین سالک جیسی علمی و ادبی شخصیت کے شاگرد خاص رہے تھے۔ضیاء بٹ کے افسانوں کے 3 مجموعے شائع ہوئے جبکہ مضامین کامجموعہ ”دیدہ حیراں“ کے نام سے چھپا۔ جس کا انتساب انہوں نے بڑے صاحبزادے مظہر الحق بٹ کے نام کیا تھا اس کتاب کے مضامین ضیاء بٹ مرحوم کے سوانحی حالات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں انہوں نے افسانوں کے مجموعہ ”سوزدروں“ کا انتساب چھوٹے صاحبزادے اطہر الحق بٹ،دوسرے افسانوی مجموعہ ”بھاری پانی“ کااپنی انتساب صاحبزادی صبیحہ امین اورتیسرے افسانوی مجموعہ ”روشنی“ کا انتساب نواسے خواجہ وقاص کے نام کیا ان کی ایک کتاب ”بیاض“ جبکہ باقی تینوں کتابیں مطبوعات لوح و قلم لاہورکے تحت شائع ہوئی تھیں۔
ضیاء الحق بٹ مرحوم کے بڑے صاحبزادے مظہر الحق بٹ سے گزشتہ دنوں ملاقات ہوئی تو وہ ہمیں اپنے والدمحترم کی چاروں کتابیں دے گئے جنہیں ہم نے چند روز میں پڑھ لیا۔ ضیاء بٹ مرحوم کے افسانوی مجموعہ ”سوزدروں“ میں سے ہمیں ”وجدان“ جبکہ ”بھاری پانی“ سے اسی عنوان کااور”جلتی بھجتی روشنی“ میں سے ”دانشور“ افسانہ سب سے زیادہ پسند آیا تاہم اس کا انجام تشنہ محسوس ہوا۔ ضیاء بٹ نے اپنے افسانوں کے بیشترکردار اردگرد کے ماحول سے لئے۔ انہوں نے چند افسانوں میں کرداروں کے نام بھی اصل لکھے تھے ان کا مشاہدہ تیز تھااورانہیں کہانی کی بنت پر بھی مکمل عبورحاصل تھا،احمد ندیم قاسمی ان کے مشاہدے کی گہرائی اور گیرائی دیکھ کر حیرت زدہ رہتے تھے،خالد احمد نے ان کے بارے میں رائے دی تھی کہ وہ موضوع اور اظہار کے درمیان ہمہ جہت توازن پیدا کر لیتے ہیں اور ہمارے معاشرتی حقیقت پسند افسانہ نگاروں میں اعلیٰ تر مقام رکھتے ہیں،منصورہ احمد نے بھی درست لکھا تھاکہ ان کے افسانے ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگی کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں،”دیدہ حیراں“ میں ضیاء بٹ نے دلچسپ بات بتائی کہ تقسیم ہند سے دوبرس قبل جب وہ آبائی قصبے سے لاہور شہر منتقل ہوئے تھے تو مال روڈ پر دونوں طرف سایہ دار درخت ہوتے تھے لوگ اسے ٹھنڈی سڑک کہتے تھے آدھ پون گھنٹے بعد جب مال روڈ سے کوئی موٹرکارگزرتی تو چوک میں کھڑا سپاہی اپنے سٹینڈ پر پاؤں مارکر گاڑی والے کوسلیوٹ کیا کرتا تھا۔
ضیاء بٹ سرکاری ملازمت کے دوران داتا دربار پر اوقاف افسر تعینات رہے تھے داتا دربار سے انہیں تصوف میں دلچسپی پیدا ہوگئی اورتصوف کی قدیم ترین کتابیں تعرف،کشف المعجوب، فصوص الحکم،انفارس العارفین وغیرہ کا مطالعہ کرتے اورروحانی استادکی تلاش کیلئے مختلف شخصیات کے پاس جاتے رہے تھے لاہور میں مستقل طورپرمنتقل ہونے سے پہلے ضیاء بٹ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے بھی یہاں آیا کرتے تھے۔
اپنے مضامین کی کتاب میں ضیاء بٹ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میرے خیال میں زیادہ سے زیادہ ایک نسل کسی حد تک یاد رکھتی ہے پھر ایسا وقت آتا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ آیا ضیاء بٹ بھی کبھی اس دنیا میں آیا تھا!“ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ضیاء بٹ مرحوم کی تحریریں ادبی دنیا میں ان کا نام تادیر زندہ رکھیں ی ممکن ہے مستقبل قریب میں ایم اے،ایم فل یا پی ایچ ڈی کاکوئی طالبعلم ان کے افسانوں پر تحقیقی مقالہ بھی لکھ دے۔
ضیابٹ اب پاک عرب سوسائٹی کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں، بقول حیدر علی آتش۔۔۔
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
رویئے کس کے لئے،کس کس کا ماتم کیجئے
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain