All posts by Daily Khabrain

واسا کے افسران کروڑوںروپے،گڑروں کے ڈھکن بھی ڈکار گئے

لاہور (سٹی رپورٹر) صوبائی دارالحکومت میں واسا اور ٹاﺅن افسران کی ملی بھگت اور عدم توجہ کے باعث درجنوں بچے کھلے مین ہول میں گر کر زندگی کی بازی ہار گئے، مگر واسا اور ٹاﺅن افسران کو کروڑوں روپے کے فنڈز ملنے کے باوجود گٹروں کمے اوپر ڈھکن نہ رکھے گئے۔ ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی بچہ گٹر میں گرنے اور موت واقع ہونے کے بعد واسا اور ٹاﺅن وقتی طور پر الرٹ، مگر اس کے باوجود لاہور شہر کا اللہ حافظ۔ گزشتہ روز بھی دو سالہ بچہ گٹر میں گر کر جاں بحق۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز شاہدرہ نین سکھ میں گٹر کا کھلا ہول ہونے کی وجہ سے 2 سالہ الماس گٹر میں گر کر جاں بحق ہوگیا۔ سڑک میں گڑھا ہونے کی وجہ سے ماں کا پاﺅں پھسلنے سے ماں کی گود سے بچہ گر کر جاں بحق ہو گیا۔ اسی طرح لاہور شہر میں اب تک درجنوں کی تعداد میں بچے کھلے مین ہول گٹروں میں گر کر جاں بحق ہو چکے ہیں مگر ہمیشہ کی طرح وقتی طور پر ایکشن تو لیا جاتا ہے مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوتا حالانکہ واسا اور ٹاﺅن افسران کو کروڑوں روپے کے فنڈز سیوریج سسٹم کو بہتر بنانے اور گٹروں پر ڈھکن رکھنے کیلئے ملتے ہی مگر یہ فنڈز کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ آئے روز حادثات ہوتے ہیں اور حادثہ کی صورت میں واسا اور متعلقہ ٹاﺅن جاگ جاتا ہے مگر کچھ روز گزرنے کے بعد ہی وہی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ لاہور شہر میں اہم شاہراہوں کے علاوہ گلی محلوں میں بھی مین سڑکوں پر کھلے مین پڑے ہیں مگر انہیں نہ تو ٹھیک کروایا گیا اور نہ ہی اس کی مرمت کی گئی۔ شاہد واسا اور متعلقہ ٹاﺅن افسران دوبارہ کسی حادثہ کا انتظار کر رہے ہیں حالانکہ سڑکوں میں ہول اور گٹروں پر ڈھکن نہ ہونے کی شکایات رہائشی لوگ متعلقہ سیاسی شخصیات اور واسا افسران اور ٹاﺅن افسران کو بھی کرتے ہیں مگر کئی کئی ہفتے گزرنے کے باوجود اس کی شنوائی نہیں ہوتی مگر شہر میں جیسے ہی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو فوری گٹروں اور سیوریج سسٹم کو بند کرنے کی تیاریاں کرلی جاتی ہیں حالانکہ واسا اور متعلقہ ٹاﺅن افسران واقعات ہونے سے پہلے بھی نظام ٹھیک کرسکتے ہیں مگر وہ کرتے ہیں اس کے باوجود کروڑوں روپے کے فنڈز کہاں جاتے ہیں جس کا آج تک کسی کو جواب نہیں مل سکا۔

ثانیہ مرزا اور سنجے منجریکرسے”توں توں میںمیں “

ممبئی(خصوصی رپورٹ) بھارتی ٹینس سٹار ثانیہ مرزا اور سابق ٹیسٹ کرکٹر سنجے منجریکر میں لفظی جنگ چھڑ گئی۔ ڈبلز رینکنگ میں 80 ہفتوں تک ٹاپ پوزیشن پر رہنے کی تکمیل کرنے والی ثانیہ اور منجریکر کے درمیان سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر گرما گرمی کی شروعات ایک ٹویٹ سے ہوئی، جس میں ثانیہ نے اپنے4.51 ملین فالوورز سے 80 ہفتوں تک رینکنگ میں ورلڈ نمبر ون رہنے کی خوشی شیئر کی۔ منجریکر نے اس پر لکھا کہ ورلڈ نمبر ون یا ڈبلز نمبر ون۔ جواباً ثانیہ نے لکھا کہ سب جانتے ہیں کہ میں سنگلز نہیں کھیلتی، کامن سینس کے حامل لوگ سمجھتے ہیں کہ میرا مطلب ڈبلز کا ہی تھا۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان مزید دلچسپ ٹویٹس کا بھی تبادلہ ہوا۔ ثانیہ مرزاکے پرستاروں نے ان کا دفاع کیا۔

سول ملٹری کشیدگی….پریشانیاں بڑھ گئیں

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) لگتا ہے کہ ڈان اخبار کی خبر کی وجہ سے پیدا ہونے والا تنازع اب سویلین اور ملٹری قیادت کے درمیان نہ ختم ہونے والی کشیدگی بن گئی ہے اور متعدد تردیدوں کے باوجود یہ معاملہ اعلی سویلین اور ملٹری سطح پر ہونے والے مذاکرات کا حصہ بنا ہوا ہے۔ دونوں جانب سے ان مذاکرات کے حوالے سے جاری کیے جانے والے ہینڈ آﺅٹ اور پریس ریلیز معاملہ سلجھانے کی بجائے کئی لوگوں کی پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر پوری توجہ خبر کی تردید اور صحافی کو سزا دینے کے معاملے پر مرکوز رکھی گئی لیکن بعد میں معاملہ اس جانب موڑ دیا گیا کہ آخر یہ خبر لیک کس نے کی یا خبر کس نے چلوائی۔ فوج کے رد عمل سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ خبر کس نے چلوائی / لیک کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صورتحال ایک ایسے موقع پر پیدا ہوئی ہے جب تحریک انصاف نواز شریف کو حکومت سے نکلنے پر مجبور کرنے کیلئے سڑکوں پر سیاست، دھرنا اور بندش کے آخری مرحلے میں داخل ہونے والی ہے۔ ڈان کی متنازع خبر 6 اکتوبر کو شایع ہوئی لیکن 12 دن گزرنے کے باوجود یہ معاملہ سول اور ملٹری قیادت کے درمیان اور ان کی آپسی بات چیت کے دوران تمام ایشوز میں سر فہرست ہے۔ اس ایشو پر حکومت کے مختلف محکموں بشمول وزیراعظم آفس، پاک فوج، دفتر خارجہ، پنجاب حکومت اور وزارت داخلہ کی جانب سے کئی ہینڈ آﺅٹس اور بیانات جاری کیے گئے ہیں لیکن اب تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ 6 اکتوبر سے وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہر بات چیت کے دوران اس معاملے پر بات ہوتی ہے۔ 6 اکتوبر کو شایع ہونے والی ڈان کی خبر کی اسی روز وزیراعظم آفس اور پنجاب حکومت کی جانب سے تردید کی گئی۔ وزیرعظم آفس کی جانب سے خبر کی تردید جاری کرتے ہوئے اسے قیاس آرائی پر مبنی اور گمراہ کن اور غلط قرار دیا گیا تھا۔ اسی روز وزیراعظم آفس کی جانب سے ایک اور نظرثانی شدہ ریلیز جاری کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں بالخصوص آئی ایس آئی ریاست کی پالیسی اور قوم کے وسیع تر مفاد کے مطابق کام کر رہی ہیں۔ درحقیقت، فوج اور آئی ایس آئی کا نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے معاملے میں کردار غیر متزلزل اور سرگرم ہے۔ پنجاب کے وزیراعلی آفس کی جانب سے 6 اکتوبر کو جاری کی گئی ریلیز میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے متعلق خبر میں کہے گئے الفاظ غلط اور گمراہ کن ہیں۔ اگلے دن ڈان نے یہ تردیدیں شایع کیں لیکن اخبار نے اس معاملے میں کوئی مقابلہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 10 اکتوبر کو وزیراعظم آفس نے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد ایک اور پریس ریلیز جاری کی۔ اجلاس کی صدارت وزیراعظم نواز شریف نے کی جبکہ اس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے شرکت کی۔ پریس ریلیز کے مطابق، اجلاس کے شرکا نے ڈان میں سکیورٹی امور کے حوالے سے من گھڑت خبر شایع ہونے پر تشویش کا اظہار کیا، خبر کی وجہ سے ریاست کے اہم مفادات کو خطرات لاحق ہوئے کیونکہ خبر میں گمراہ کن مواد شامل تھا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، وزیراعظم نے اس خلاف ورزی کا سخت نوٹس لیا اور ہدایت دی کہ ذمہ دار افراد کی شناخت کرکے ان کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ آرمی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرتی رہیں گی اور یہ کارروائی بلاتفریق انداز سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے کے ساتھ جاری ہے۔ 10 اکتوبر کے واقعات کے بعد، الیکٹرانک میڈیا نے سینئر فوجی اور انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے کہا کہ فوج نے اخبار یا پھر صحافی کیخلاف کارروائی کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ ان لوگں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے یہ خبر جاری کی / چلوائی۔ دو دن بعد وزیر داخلہ چودھری نثار نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ وہ کسی ملٹری ذریعے کو نہیں جانتے اور صرف حقائق کی بنیاد پر صرف اس وقت بات کریں گے جب فوج کی جانب سے اس ایشو پر کوئی ریکارڈ پر آ کر بات کرے۔ 14 اکتوبر کو آئی ایس پی آر نے کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد پریس ریلیز جاری کی جس میں فوجی کمان نے وزیراعظم ہاﺅس میں ہونے والے سکیورٹی اجلاس کی جعلی خبر لیک کیے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اسے قومی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیا۔ گزشتہ ہفتے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران، دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھی خبر کی تردید کی اور اس کے مواد کو غلط قرار دیا۔ 17 اکتوبر کو وزیراعظم آفس کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں آرمی چیف کی وزیراعظم سے ملاقات کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ قومی سلامتی اور علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ تاہم، ذرائع کے حوالے سے میڈیا نے بتایا کہ آرمی چیف نے پیر کو وزیراعظم کو بتایا کہ فوجی کمانڈرز نے جعلی خبر چلائے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس معاملے کی انکوائری شروع ہوگئی ہے اور چند دن میں مکمل ہوجائے گی۔ 18 اکتوبر کو وزیراعظم نے وزیر داخلہ کے ساتھ ملاقات کی اور انہوں نے مبینہ طور پر بتایا کہ انکوائری میرٹ پر اور جلد مکمل کی جائے گی۔ کچھ میڈیا اطلاعات نے رواں ہفتے بتایا تھا کہ چودھری نثار، جنہوں نے میڈیا کو بتایا کہ اس ایشو پر تحقیقات کرائی جا رہی ہیں، نے خود کو اس معاملے سے علیحدہ کر لیا ہے۔

اسلحہ چھینو مجاہد بنو ….اہم پیغا م سے سور ماﺅں کی نیندیں حرام

سرینگر (نیٹ نیوز) مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کے بعد حریت پسندوں کا رہنما بننے والے ذاکر موسیٰ کے ویڈیو پیغام نے بھارتی فوج کی نیندیں حرام کر دیں۔ ذاکر موسی کا کہنا ہے کہ سکھ بھی حریت پسندوں کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ ان کا الگ گروپ بنانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد ہر کشمیری برہان وانی بننے کے لیے تیار ہے۔ بھارتی مظالم سے تنگ سکھ بھی مجاہدین کے ساتھ ملنے لگے۔حریت پسندوں کے نئے سربراہ ذاکر موسی کے ویڈیو پیغام نے بھارت میں کھلبلی مچا دی۔ ویڈیو پیغام میں ذاکر موسی کا کہنا ہے کہ متعدد سکھ نوجوان پولیس سے ہتھیار چھین کر حریت پسندوں کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں اس لیے حریت پسند سکھوں کا الگ گروپ بنانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کشمیری پنڈتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے گھروں کو واپس آجائیں۔ حریت پسند ان کی حفاظت کے لیے بھرپور اقدامات کریں گے۔ ذاکر موسیٰ کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج آپریشن بلیو اسٹار کی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی قتل عام کی تیاری کر رہی ہے اس لیے پنڈتوں کو وہاں سے منتقل کیا جا رہا ہے۔

چائے فروش نے پرسنل سیکرٹری رکھ لیا….

اسلام آباد (نیٹ نیوز) کھلاڑی نہ فنکار پر چار دن میں سپر سٹار بنئے والااسلام آباد کا چائے والا شہرت ملتے ہی ہیرو بن گیا ارشد خان نے پرسنل سیکرٹری بھی رکھ لیا۔تفصیلات کےمطابق چائے والے کو سوشل میڈیا پر اتنی چاہ ملی کہ اب صاحب سے ملنے کے لئے اپوائنٹمنٹ لینا پڑتی ہےارشد نے اس کام کے لئے پی اے بھی رکھ لیا ہے۔راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے ارشد کا ہیر اسٹائل بدل چکا ہے تو ادائیں بھی ہیرو جیسی ہیں صاحب کہتے ہیں ماڈلنگ اور اداکاری کی آفرز ہی بڑی ہیں۔سپر سٹار چائے والے کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگوں کا بھی تانتا بندھا رہتا ہے جبکہ نئے ہیرو کے ساتھ ایک سیلفی کے لئے بھی جتن کئے جا رہے ہیں۔

اسلام آباد بند نہیں ہوگا ….اہم ترین اعلان سے ہلچل

اسلام آباد (این این آئی) مسلم لیگ (ن) نے واضح کیا ہے کہ احتجاج کے نام پر حکومت کو لاک اپ نہیں کیا جاسکتا، پانا ما لیکس میں ٹیکس چوری کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا ¾ عمران خان بتائیں کونسے بلین روپے پکڑے گئے ہیں؟ عمران خان نے شوکت خانم کے چندے کو برٹش ورجن آئی لینڈ میںانویسٹ کیا، کینسر کے علاج کے جمع پیسوں سے آف شور کمپنیاں بنائیں ¾بھارتیوں نے عمران خان کے ڈوبے ہوئے پیسے بھرے تھے، عمران خان کنٹینر سے اتر کر سب باتوں کا جواب دیں ¾ 2 نومبر کی تاریخ بھی الیکشن کمیشن میں پیشی سے بچنے کےلئے رکھی گئی ¾عوام پی ٹی آئی کے جھانسے میں نہیں آئینگے ¾ سپریم کورٹ میں (آج )جمعرات کو سماعت ہے ¾عمران خان کو بھاگنے نہیں دینگے ۔ ان خیالات کا اظہار وزیرمملکت محمد زبیر اور دانیال عزیز نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماءمحمد زبیر نے کہا کہ ا حتجاج کے نام پر حکومت کو لاک اپ نہیں کیا جا سکتا ¾عمران خان اداروں کی تضحیک کرتے ہیں،وہ قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔محمد زبیر نے کہاکہ حکومتی دفاتر بند کرنا کسی آئین میں نہیں لکھا ¾1947سے آج تک حکومتی دفاتر بند کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہم نے 126دن کے دھرنے میں بھی کچھ نہیں کیا ¾ عمران خان اسلام آباد بند کرنے کو جمہوریت کہتے ہیں ¾ عمران خان نے 2نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ پاناما معاملے پر حکومت کا ردعمل مثبت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے پاناما لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ کو خط بھی لکھا ، تمام اقدامات بھی اٹھائے اورعمران خان کو تحقیقات کےلئے مرضی کے افسرکی پیشکش بھی دی تھی ¾ایف بی آر اور متعلقہ محکموں کو بھی خط کھے گئے تھے۔انہوںنے کہاکہ عمران خان یہ بھی بتائیں کہ کونسے بلین روپے پکڑے گئے ہیں، پاناما لیکس میں ٹیکس چوری کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماءدانیال عزیز نے کہا کہ عمران خان کا دوہرا معیار قوم کے سامنے آچکا ہے ¾وہ دوبارہ سے 35پنکچر والا بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں،عمران خان صاحب کنٹینر سے اتریں اور جواب دینے آئیں۔انہوںنے کہاکہ عمران خان نے شوکت خانم کے چندے کو برٹش ورجن آئی لینڈ میںانویسٹ کیاہے،کینسر کے علاج کے جمع پیسوں سے آف شور کمپنیاں بنائی گئیں ¾پاناما میں وزیر اعظم کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں لیکن آپ کے خلاف پکے ثبوت موجود ہیں۔2015کی شوکت خانم کی آڈٹ رپورٹ سامنے آچکی ہے،بھارتیوں نے عمران خان کے ڈوبے ہوئے پیسے بھرے تھے۔

خبر لیک کرنیوالوں بارے وزیراعظم کا بڑا حکم جاری

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم نوازشریف نے وفاقی وزیرداخلہ کو ”ڈان نیوز“ میں شائع ہونے والی متنازع خبر کے معاملے پر تحقیقات کرکے خبر لیک کرنے والوں کے نام سب کے سامنے لانے کی اجازت دیدی ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس میں گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں دونوں رہنماﺅں میں اتفاق ہوا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائے گی تاکہ اداروں کے درمیان شکوک ختم کئے جاسکیں۔ ذرائع کے مطابق چودھری نثار نے اس معاملے پر اب تک ہونے والی تحقیقات سے متعلق وزیراعظم کو آگاہ کیا جس پر نوازشریف نے وفاقی وزیرداخلہ کو ہدایت کی کہ اس معاملے کی غیرجانبدارانہ طریقے سے تحقیقات کرکے خبر لیک کرنے والے عناصر کا نام سب کے سامنے لائیں ذرائع کا کہنا ہے کہ متنازع خبر لیک کرنے میں بعض حکومتی عہدیدار مشکوک ہیں اس معاملے کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات میں بھی دوریاں پیدا ہوئی ہیں۔

جنرل راحیل کو توسیع, نئے سپہ سالار کا تقرر, فیصلہ جلد

لاہور (مکرم خان سے) 29 نومبر کو جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ یا بصورت دیگر توسیع وغیرہ کے حوالے سے قیاس آرائیاں ختم ہو رہی ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ مقررہ تاریخ کو اپنی تاریخی خدمات سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں چیف آف آرمی سٹاف یا ماضی میں کمانڈر انچیف کی تعیناتی کے حوالے سے مختلف روایات پائی جاتی ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ سے 2روز قبل وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا تھا جس پر صدر پاکستان بحیثیت سپریم کمانڈر دستخط کرنے کے مجاز تھے۔ اس سے قبل جنرل اشفاق پرویز کیانی کو 29نومبر 2007ءکو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا تھا تو وہ پہلے ہی فل جنرل کے عہدے پر ترقی پا کر وائس چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے جنہیں قریباً 40 روز کے بعد آرمی چیف تعینات کر دیا گیا جو 29نومبر 2013ءتک اس عہدے پر فائز رہے اور 3سال کی دو مدتیں آرمی چیف رہنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ وہ واحد آرمی چیف ہیں جنہیں ایک منتخب حکومت نے ایک مکمل دورانیے کے لیے توسیع دی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کو 6اکتوبر 1998ءکو جنرل جہانگیر کرامت کی قبل از ریٹائرمنٹ پر وزیراعظم نواز شریف نے دیگر سینئر جرنیلوں پر فوقیت دے کر آرمی چیف مقرر کیا تھا جو 28 نومبر 2007ءتک اس عہدے پر فائز رہے ان کا دورانیہ بطور آرمی چیف 9سال ایک ماہ 27 دن رہا۔ جنرل جہانگیر کرامت 12جنوری 1996ءکو سینئر موسٹ لیفٹیننٹ جنرل ہونے کی بنا پر وزیراعظم بے نظیربھٹو کے ہاتھوں چیف آف آرمی سٹاف بنائے گئے جنہیں اس عہدے کے لئے پہلے ہی وزیراعظم کی جانب سے عندیہ دیا جا چکا تھا۔ ان کی مدت بطور آرمی چیف 12 جنوری 1999ءکو اختتام پذیر ہونا تھا لیکن وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اصولی اختلاف کی بنا پر 6اکتوبر 1998ءکو قبل از وقت ریٹائر کر دئیے گے، جنرل عبدالوحید کاکڑ جنرل آصف نواز جنجوعہ کی اچانک وفات کے باعث 11جنوری 1993 کو آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہوئے اور 12جنوری 1996ءکو 3سالہ مدت مکمل کر کے ریٹائر ہوئے انہیں صدر غلام اسحق خان نے 4 دیگر جرنیلوں پر ترجیح دیکر آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ اختیارات کی رو سے صدر پاکستان کے ہاتھوں آرمی چیف مقرر ہونے والے آخری فرد تھے۔ بعض آئینی ترامیم کے نتائج میں آرمڈ فورسز چیفس مقرر کرنے کے اختیارات وزیراعظم پاکستان کو حاصل ہو گئے۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ 16اگست 1991ءکو سینئر موسٹ جنرل ہونے کی بنا پر آرمی چیف مقرر کئے گئے اور 8 جنوری 1993ءتک اپنی اچانک وفات تک فائز رہے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے 11جون 1991ءکو ہی تقریباً 2ماہ قبل آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف کے عہدے کے لئے نامزد کر دئیے تھے جو عسکری روایات کے منافی بھی نہیں تھا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ جنرل ضیاءالحق کے فضائی حادثے میں اچانک وفات سے 17اگست 1988ءکو آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہوئے اور 16 اگست 1991ءتک فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کا عرصہ تعیناتی 3سال تھا۔ اس سے قبل وہ وائس چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر قریباً ایک سال سے زائد عرصہ خدمات انجام دے چکے تھے۔ جنرل محمد ضیاءالحق یکم مارچ 1976ءکو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں سات سینئر لوگوں کو سپرسیٹ کر کے جونیئر موسٹ لیفٹیننٹ جنرل ہونے کے باوجود آرمی چیف مقرر ہوئے جو 17اگست 1988ءکو اپنی وفات تک اس عہدے پر فائز رہے ان کا عرصہ کمان 11سال سے زائد اور انہیں طویل ترین آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جنرل ٹکا 3 مارچ 1992ءکو وزیراعظم ذوالفقار بھٹو نے چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا۔ اس عہدے کو اس سے قبل کمانڈر انچیف کہا جاتا تھا جو یکم مارچ 1976ءتک عہدہ پر فائز رہے ان کا دورانیہ کمان 4سال ہے یاد رہے کہ وہ اپنے پیشرو لیفٹیننٹ جنرل گل حسن سے سینئر ہونے کے باوجود ملازمت جاری رکھے ہوئے تھے اور پاکستان کی تاریخ میں واحد آرمی چیف تھے جو سپرسیٹ ہونے کے باوجود اس عہدے پر فائز رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل گل حسن خان پاکستان کی عسکری تاریخ کے آخری کمانڈر انچیف تھے جنہوں نے 20 دسمبر 1971ءکو آرمی کی کمان سنبھالی انہیں فل جنرل عہدے پر ترقی نہیں دی گئی تھی۔ انہیں 3مارچ 1972ءکو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ جنرل محمد یحییٰ خان جو مارچ 1966 سے ڈپٹی کمانڈر انچیف کے عہدے پر فائز تھے۔ انہیں 18 جون 1966ءکو کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا اور 20دسمبر 1971ءتک کمانڈر انچیف رہے ان کا عرصہ کمان 5سال تین ماہ اور 2 دن تھا۔ جنرل محمد موسیٰ خان 27 اکتوبر 1958ءکو کمانڈر انچیف مقرر ہوئے اور 17جون 1966ءتک اس عہدے پر فائز رہے جن کا عرصہ کمان 7سال 11ماہ پر محیط تھا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب 16 جنوری 1951ءکو کمانڈر انچیف مقرر کئے گئے۔ 26 اکتوبر 1958ءتک اس عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے صدر مملکت کا عہدے سنبھالنے کے بعد بھی عسکری کمان اپنے ہاتھ میں رکھی۔ چیف آف آرمی سٹاف کی نامزدگی کو خاص تاریخ تک مو¿خر کیا جانا عسکری روایت نہیں۔ ماضی میں کسی ابہامی صورتحال کے پیش نظر متوقع آرمی چیف کے نام کا اعلان قبل از وقت ہونا غیر متوقع نہیں تھا۔ بعض صورتحال میں عین موقع پر نام فائنل کیا جاتا رہا ہے عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال ماضی کی نسبت زیادہ ابہامی ہے قیاس آرائیاں جاری ہیں اور مختلف آراءپائی جاتی ہیں۔ حکومت اگر اگلے آرمی چیف کااعلان یا توسیع کی وضاحت بروقت کر دے تو گو مگو کی کیفیت سے نکلا جا سکے۔

بھارتی فورسز کا پھر پاکستان پر حملہ, گھمسان کی لڑائی

نکیال، راولپنڈی(اے این این) بھارت کا جنگی جنون، کوٹلی آزاد کشمیر کے نکیال اور کیرالہ سیکٹرزمیں بھارتی سکیورٹی فورسز کی بلااشتعال فائرنگ سے ایک شہری عبدالرحمان شہید جبکہ 3خواتین اور دو بچے شدید زخمی ہو گئے جبکہ پاک فوج کی منہ توڑ جوابی کارروائی سے دشمن کے اوسان خطاءہو گئے اور بھارتی توپوں اور گنوں کو سانپ سونگھ گیا۔نکیال سیکٹر سے اے این این کوموصولہ اطلاعات کے مطابق بھارتی سکیورٹی فورسز نے 24 گھنٹے میں لائن آف کنٹرول کی دوسری بار خلاف ورزی کرتے ہوئے بدھ کی شام پھر نکیال سیکٹر کے گاو¿ں ترکنڈی ریتلہ، پلانی، داتوِٹ کو مارٹر گولوں اور مشین گنوں سے نشانہ بنایا۔ بھارتی فورسز کی فائرنگ سے گیارہ سالہ ولید ، حلیمہ بی بی سمیت 5افراد زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے لیے سول ہسپتال نکیال لا یا گیا جہاں پر ا±نہیں طبی امداد دی جا رہی ہے جبکہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق بھارتی فوج نے ایک بار پھر لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیرالہ سیکٹر میں پلانی گاو¿ں کے قریب بلااشتعال فائرنگ کی جس کے نیتجے میں 2 بچے زخمی ہوئے ہیں جبکہ پاک فوج نے بھارتی فوج کی فائرنگ کا منہ توڑ جواب دیا جس سے بھارتی بندوقیں خاموش ہوگئیں۔دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ایل او سی پر کیرالہ سیکٹر میں بھارتی فورسز کی جانب سے شام 4 بجے شروع کی گئی جس میں دو پاکستانی بچے زخمی ہوگئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ زخمی ہونے والے بچوں کی عمر 3 سال اور 11 سال ہے، جنھیں علاج کیلئے فوری طور پر ہسپتال منتقل کردیا گیا۔اس سے قبل نفیس زکریا نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان نے ایک مرتبہ پھر 19 اکتوبر کو رات گئے ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف وزری کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے ایل او سی پر کیرالہ سیکٹر میں پاکستانی حدود میں بلا اشتعال فائرنگ کی، جس کا پاکستانی فورسز نے بھر پور جواب دیا۔اپنے دوسرے ٹوئٹ میں نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے ایک ہی دن میں دوسری مرتبہ شام 4 بجے کیرالہ سیکٹر میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے، جس کا پاکستان آرمی نے بھر پور جواب دیا۔خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے ہندوستان کی جانب سے ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کی رپورٹ اپنے ٹوئٹ کے ذریعے فراہم کی ہے اس سے قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل عاصم باجوہ اس حوالے سے میڈیا کو رپورٹ فراہم کرتے تھے۔واضح رہے کہ اس سے قبل 16 اکتوبر کو بھی بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔بھارتی فورسز نے 4 اکتوبر کو بھی ایل او سی پر پاکستانی حدود میں بلا اشتعال فائرنگ کی تھی۔ہندوستانی فورسز نے 3 اکتوبر کو بھی ایک بار پھر لائن آف کنٹرول پر سیز فائر معاہدے کے خلاف ورزی کرتے ہوئے بلا اشتعال فائرنگ کی تھی۔اس سے قبل یکم اکتوبر کو بھی لائن آف کنٹرول کے بھمبر سیکٹر پر ہندوستانی فوج کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ کی گئی تھی جس کا پاک فوج نے بھرپور جواب دیا تھا۔9 اکتوبر کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے کنٹرول لائن کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایل او سی کے اگلے مورچوں کا دورہ بھی کیا تھا۔یاد رہے کہ 29 ستمبر کو بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے کنٹرول لائن کے اطراف میں پاکستانی علاقے میں دہشت گردوں کے لانچ پیڈز پر سرجیکل اسٹرائیکس کیں جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی تھی۔پاکستان نے ہندوستان کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی کا واقعہ تھا جس کے نتیجے میں اس کے دو فوجی جاں بحق ہوئے۔جبکہ بھرپور جوابی کارراوئی میں کئی انڈین فوجی ہلاک بھی ہوئے۔

اڈیالہ جیل میں خصوصی انتظامات اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ حکومت اسلام آباد میں ایکشن کیلئے تیار

اسلام آباد (مظہر شیخ سے) تحریک انصاف کے 2نومبر کے اسلام آباد بند کرنے کے دھرنا پلس کو ناکام بنانے کیلئے پولیس اور ضلعی انتظامیہ متحرک ہوگئی ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں داخلہ کے تمام راستوں کو بند کرنے کیلئے جہلم، گجرات، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، فیصل آباد، آزاد کشمیر سمیت قریبی اضلاع سے مجموعی طور پر 20ہزارپولیس نفری طلب کی گئی ہے۔ 300 کنٹینرز پکڑنے کا ہدف مقرر کردیا ہے۔ پولیس کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں، شہر بھر کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہوگی۔ بیرون شہر سے راولپنڈی آنے کے راستے بھی سیل کئے جائیں گے، راولپنڈی سے اسلام آباد جانے والے تمام راستے بھی سیل کئے جائیں گے۔ تحریک انصاف کے ٹائیگرز کیلئے اڈیالہ جیل میں خصوصی بارک کی صفائیاں بھی شروع کی جارہی ہیں۔ تحریک انصاف کے دو نومبر کے دھرنے کے باعث راولپنڈی کے تمام تعلیمی اداروں میں یکم نومبر سے 3 نومبر تک چھٹیاں کرنے کی تجویز پیش کردی گئی ہے۔وزارت داخلہ نے تحریک انصاف کے دھرنے سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی تیار کر لی۔ وزارت داخلہ نے2نومبر کو تحریک انصاف کے دھرنے سے نمٹنے کیلئے ایف سی اور رینجرز کو سیکیورٹی پلان میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ نے دھرنے کے دوران امن و امان کو بہتر بنانے کیلئے پنجاب سے پولیس طلب کر نے کا فیصلہ بھی کیا ہے جبکہ پولیس کے ساتھ ساتھ ایف سی اور رینجرز ہراول دستے کا کام کرے گی۔اس کے علاوہ وزار ت داخلہ نے آزاد کشمیر سے بھی پولیس فورس بلانے کا فیصلہ کیا ہے اور اسلام آبا د پولیس ہیڈ کوارٹرز باہر سے آنے والوں کی میزبانی کرے گا ۔اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کے اعلان کے پیش نظر وزارت داخلہ کو دوسرے صوبوں سے پولیس فورس طلب کرنے کے لیے خط لکھا ہے۔اس خط میں جن صوبوں سے پولیس فورس منگوانے کے بارے میں کہا گیا ہے ان میں پنجاب کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس بھی شامل ہے۔اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے مختلف اداروں کو لکھے گئے خط میں کہا گیاہے کہ یہ ادارے 23 اکتوبر تک ان عمارتوں کا کنٹرول ضلعی انتظامیہ کے حوالے کر دیں۔خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کی کال دے رکھی ہے۔جن عمارات کو ضلعی انتظامیہ کے کنٹرول میں دینے کی بات کی گئی ہے ا±ن میں سپورٹس کمپلکس، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کیمپس کےعلاوہ سیکٹر جی سکس اور جی نائن میں واقع کمیونٹی سینیٹرز شامل ہیں۔اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا ختم نہیں ہوتا اس وقت تک یہ عمارتیں ضلعی انتظامیہ کے کنٹرول میں ہی رہیں گی۔اسلام آباد میں دفعہ 144 نافد ہے جس کے مطابق وہاں جلسے، جلوس اور احتجاجی مظاہرے کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی ناگہانی صورت حال میں ضلعی انتظامیہ فوج کو بھی طلب کر سکتی ہے۔پی ٹی آئی کا دھرنا وفاقی پولیس نے 25000اضافی نفری مانگ لی، وفاقی وزارت داخلہ نے بھی 2نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے ممکنہ دھرنے سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی تیار کرلی ۔پنجاب پولیس اور آزادکشمیر پولیس کے علاوہ رینجرز کے دستے تعینات کئے جائیں گے۔ پولیس لائن ہیڈ کوارٹر میزبانی کرے گا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے بھی رہائش گاہوں کی فراہمی کیلئے مختلف محکموں کو خط لکھ دیا۔ذرائع کے مطابق 2نومبر کو پی ٹی آئی کی طرف سے ممکنہ دھرنے سے نمٹنے کیلئے وفاقی وزارت داخلہ نے کمر کس لی ہے۔ وزارت داخلہ کی طرف سے اسلام آباد میں وفاقی پولیس کے علاوہ پنجاب پولیس آزادکشمیر اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کی جائے گی۔ دوسرے صوبوں سے آنے والی پولیس اور رینجرز کو پولیس لائن ہیڈ کوارٹر میں ٹھہرانے کے انتظامات کئے جائیں گے۔تاہم ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد نے رہائش گاہوں کی فراہمی کیلئے مختلف محکموں کو خطوط بھجوا دئیے ہیں ۔