لاہور (خصوصی رپورٹ) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جانب سے وزارت خزانہ‘ منصوبہ بندی‘ ایف بی آر اور اوگرا کی کھلی مخالفت کے باوجود آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ڈیلرز کے منافع میں ماہانہ اربوں روپے اضافے کیلئے ہائی سپیڈ ڈیزل کی من پسند قیمت مقرر کرنے کی منظوری دینے کا انکشاف ہوا ہے۔ دو غیرملکی کمپنیوں اور ن لیگ کی اہم شخصیت کا مطالبہ پورا کرنے کے نتیجے میں قومی خزانے کو 30ارب روپے نقصان اور عوام پر 40ارب روپے سالانہ اضافی بوجھ پڑے گا۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں 5ارب ڈالر سالانہ کی کمی سے بچنے کیلئے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں پٹرولیم ڈویژن کی سمری کی سفارشات کو تبدیل کیا گیا۔ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کا سٹاک 20دن سے بڑھا کر 30دن لازم کرنے کی شرط کی بھی چھوٹ دے دی گئی۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی ملک بھر میں یکساں قیمت مگر آئل مارکیٹنگ کمپنیاں یکساں قیمت کے نام پر عوام سے ماہانہ 3ارب روپے کی وصولی جاری رکھیں گی۔ وزارت توانائی نے اوگرا کو یکم نومبر سے ہائی سپیڈ ڈیزل کی ملک بھر کیلئے یکساں قیمت مقرر کرنے سے روکنے کی ہدایت کرتے ہوئے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ڈیلرز کو من پسند قیمت مقرر کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ تحقیقات سے وزارت خزانہ‘ منصوبہ بندی‘ ایف بی آر اور اوگرا کے موقف سے متعلق سرکاری دستاویز میں ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں۔ گڈگورننس اور معیشت کی بہتری کیلئے کوشاں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ ن کے 4سال 3ماہ کے اقتدار کے دوران عوام اور قومی خزانے کی قیمت پر کمپنیوں کو نوازنے کا ایسا یکطرفہ فیصلہ کیا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سرکاری دستاویز کے مطابق 26ستمبر کے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت خزانہ‘ منصوبہ بندی‘ اوگرا اور ایف بی آر نے وزیراعظم کو آگاہ کیا ہے کہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ڈیلرز کو دینے سے کارٹلائزیشن ہو گی۔ پاکستان میں 87فیصد ہائی سپیڈ ڈیزل فروخت کرنے والی پی ایس او سمیت 6آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے گزشتہ سال 33ارب روپے سے زائد منافع کمایا۔ پاکستان میں ڈاﺅن سٹریم پالیسی موجود نہیں۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ڈیلرز کو پاکستان میں پرکشش منافع مل رہا ہے‘ لہٰذا ملک بھر میں یکساں قیمت مقرر کرنے کا میکنزم ختم کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ وفاقی حکومت کے اس اقدام سے عوام اور قومی خزانہ کو بھاری بوجھ اور نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ضلعی سطح پر ڈیلرز کارٹلائزیشن کر کے ہائی سپیڈ ڈیزل کی من پسند قیمت مقرر کریں گے جس سے کسانوں سمیت عام آدمی بری طرح متاثر ہو گا۔ 2002ءمیں آئل ریفائنریز کو ڈیزل کی فروخت پر ساڑھے 7فیصد ڈیمڈ ڈیوٹی وصول کرنے کی اجازت دی گئی جس کا مقصد ماحول دوست ہائی سپیڈ ڈیزل کی تیاری اور پیدوار میں اضافہ تھا مگر آئل ریفائنریوں نے 80 ارب روپے وصول کرنے کے باوجود مقررہ وقت میں اپ گریڈیشن کرنے کے بجائے عوام سے وصول کی گئی رقم کو اپنے منافع میں شامل کرلیا۔ وزارت منصوبہ بندی کے حام کے مطابق بی سی سی کے اجلاس میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے مو¿قف اختیار کیا کہ پٹرولیم ڈویژن کی سمری کے مطابق اگر آئل رکیٹنگ کو پٹرولیم مصنوعات کے سٹاک 20 دن سے بڑھا کر 30 دن کیلئے پابند کیا گیا تو اس کے نتیجے میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر پانچ ارب ڈالر سالانہ کا بوجھ پڑے گا لہٰذا آئندہ 3 سال تک بھی ملک میں پٹرولیم مصنوعات کا سٹاک صرف 20 دن تک لازم رکھنے کی شرط کو برقرار رکھا جائے۔ وفاقی حکومت کے اس اقدام کے مطابق قومی خزانے کو سالانہ 30 دن تک لازم رکھنے کی شرط کو برقرار رکھا جائے۔ وفاقی حکومت کے اس اقدام کے مطابق قومی خزانے کو سالانہ 30 ارب روپے کا نقصان اور عوام پر 40 ارب روپے سالانہ اضافی بوجھ پڑے گا۔ اوگرا کے مطابق وفاقی حکومت کے اس اقدام کے نتیجے میں مسابقت اور سرمایہ میں اضافے کی بجائے کارٹلائزیشن یکساں قیمت کا میکنزم تباہ اور ناجائز منافع فوری کو فروغ ملے گا۔ موجودہ فارمولے کے مطابق اوگرا کی جانب سے ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت کا تعین ہونے کے باعث کمپنیوں اور ڈیلرز سے جی ایس ٹی وصولی کا طریقہ کار موجود تھا۔حکام ک مطابق گزشتہ سال ہائی آکٹین کی قیمت بھی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کی کاوشوں سے ڈی ریگولیٹ کی گئی تھی جس کے بعد آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے اپنے منافع میں 12 روپے فی لٹر اضافہ کیا۔ پٹرولیم ڈویژن نے ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت ڈی ریگولیٹ کرنے کا انوکھا جواز پیش کرتے ہوئے ای سی سی میں تسلیم کیا کہ وفاقی حکومت کے اس فیصلے کے نتیجے میں کمپنیاں اور ڈیلر قیمت میں اضافہ کریں گے جس سے ہر پٹرول پمپ پر مختلف قیمت نافذ ہوگی۔ تاہم صارفین خود ہی تلاش کریں گے کہ کس پٹرول پمپ پر ڈیزل سستا مل رہا ہے۔