لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ دو سال قبل اے پی ایس کا المناک واقعہ پیش آیا جسے آج بھی یاد کریں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ افسوس سے کہتا ہوں کہ اس المناک واقعہ میں حکومت کیلئے دو سبق تھے ایک تو عمران خان نے اس وقت سیاسی قیادت کے اتحاد کیلئے دہشتگردی کیخلاف دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا لیکن آج بھی سیاسی قوتیں آپس میں دست و گریباں ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس طرح کے سانحات کی روک تھام کیلئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہ ہو سکا۔ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات میں سے10 ایسے ہیں جن پر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا گیا۔ حکومت کے حلیف مولانا فضل الرحمان نے 3 دن قبل پھر بیان دیا کہ نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ 1971ءمیں پاکستان دو لخت ہو گیا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا اس میں بھی ہمارے لئے دو سبق ہیں ایک یہ کہ مدت تک ہمیں کہا جاتا رہا کہ ہم سے سیاسی غلطیاں ہوئیں سارے صوبوں کو ساتھ لے کر نہیں چلے۔ اس غلط فہمی کے تحت ہمارے حکمران تو بنگلہ دیش جا کر معافیاں بھی مانگتے رہے لیکن اب بھارتی انٹیلی جنس اور نریندر مودی نے خود ڈھاکہ جا کر اعتراف کیا کہ اس سارے کھیل میں بھارت نے مرکزی کردار ادا کیا۔ پاکستان میں ناعاقبت اندیش لوگ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ بھارت ہمارا خیر خواہ یا دوست ہو سکتا ہے انہیں اپنے ذہنوں سے یہ خیال نکال دینا چاہئے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدراامد کرانے کی ذمہ داری سول حکومت سے زیادہ فوج کی تھی۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف سے جب بھی اس حوالے سے سوال کیا جاتا تو جواب دیتے کہ میں کام مکمل کر کے جاﺅں گا۔ نئے آرمی چیف کی بھی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی اتنی ہی ذمہ داری ہے۔ متنازع خبر بارے کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہئے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ فوج اور سول حکومت دونوں کا موقف ہے کہ خبر ہی جھوٹی اور من گھڑت تھی تو کیا اس ملک میں آئین و قانون ہے جو خبر لگانے والے اخبار سے اس بارے پوچھ سکے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ جسٹس قاضی عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی ہے ابھی تک چودھری نثار نے ایک لفظ نہیں بولا جبکہ وزیرریلوے بول پڑے ہیں کیا سعد رفیق نے ہر بات کا جواب دینے کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی اس رپورٹپر کوئی لب کشائی نہیں کی۔ میں اس رپورٹ کے حوالے سے پچھلے 21دن سے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک سے فون پر رابطہ کی کوشش کر رہا ہوں لیکن ناکام رہا ہوں۔ ڈاکٹر عبدالمالک سے اب اس پروگرام کے توسط سے بھی پوچھتا ہوں کہ آپ نے اڑھائی سال کتنے دعوے اور تقریریں کیں، دعوے کرتے رہے کہ میں برہمداغ، حربیات اور دیگر باغی لیڈرو ںکو واپس لا رہا ہوں وہ سب باتیں کیا ہوئیں قوم کا وقت اور پیسہ کیوں برباد کیا گیا۔ سابق وزیراعلیٰ کا فون کیوں بند ہے۔ بلوچستان کی موجودہ حکومت کا بھی اخبار میں بیان چھپا کہ برہمداغ آج بھی پاکستان آ جائیں تو گلے لگائیں گے۔ حکومت اس بات کا جواب دے کر پاکستان کے وہ غدار جو بھارت اور اسرائیل سے مل کر ملک کو توڑنے کی سازش کر رہے ہیں آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ انہیں گلے لگانے کی بات کریں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ بھارت آبی جارحیت کی حتمی پالیسی پر آج بھی عمل پیرا ہے جو نہرو دور سے شروع ہوئی۔ پاکستان جب کسی عالمی ادارے کے پاس جاتا ہے تو بھارت کا لہجہ فوری تبدیل ہو جاتا ہے اور پیشکش کر دیتا ہے کہ ہم تو بھائی بھائی ہیں مل کر بات کرتے ہیں۔ دوسری جانب ورلڈ بینک کی جانب سے عجیب ہدایت سامنے آئی ہے کہ آپس میں بات چیت کریں اگر حل نہ نکلے تو ایک ماہ بعد میرے پاس آئیں۔ اس کی مثال تو ایسے ہی ہے کہ دو گروپ آپس میں سر بھٹول پر اترے ہوں اور عدالت کہے کہ خود ہی بیٹھ کر حل نکال لو۔ ایک ماہ بعد پتہ نہیں ان میں سے ایک زندہ بھی رہے یا نہیں۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جسٹس قاضی عیسیٰ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت امن و عامہ قائم کرنے میں یکسر ناکام رہی، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا یہ قومی ادارے سیاسی مداخلت کے باعث مفلوج ہو چکے ہیں۔ یہ رپورٹ وزیرداخلہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف چارج شیٹ ہے اسی لئے ہم نے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت نے اگر کمیشن کی رپورٹ کو تسلیم نہیں کرنا تو کمیشن بنانے کا کیا مقصد تھا۔ حکومت کے رویے نے ہمارا موقف درست ثابت کر دیا ہے کہ پانامہ کیس پر کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان میں آج تک کسی کمیشن رپورٹ کو اہمیت نہیں دی گئی۔ مولانا فضل الرحمان حکومت کے حلیف ہیں وہ اس اے پی سی میں شریک تھے جس میں متفقہ طور پر نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ضرورت نہیں ہے یہ تو دہرا معیار ہے جو نہیں چلے گا۔ بیورو چیف امریکہ محسن ظہیر نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران ڈی ایم سی کا ای میل اکاﺅنٹ ہیک کیا گیا۔ ای میلز منظر عام پر آئیں تو نیشنل سکیورٹی حکام کیلئے خطرے کا الارم بچ گیا کہ برسر اقتدار جماعت کی ای میلز ہیک ہونا معمولی واقعہ نہ تھا۔ الیکشن سے 6 ہفتےے قبل نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ نے رپورٹ دی کہ ای میلز ہیک کرنے والے ہیکرز روس میں تھے اور انہیں پیوٹن کی معاونت حاصل تھی۔ یہ بڑا الزام تھا لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے اس کو خاطر میں نہ لانے کے باعث متنازعہ بن گیا ہے ہیکرز نے آزمودہ حربہ استعمال کیا اور ڈیموکریٹک پارٹی کے انتخابی مہم کے انچارج کو ای میل کی کہ آپ کا اکاﺅنٹ ہیک ہو رہا ہے لہٰذا فوری پاس ورڈ تبدیل کر لیں۔ صدر ٹرمپ نے جو کابینہ تشکیل دی ہے کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی تاریخ کی سب سے قدامت پسند کابینہ ہے۔ سکیورٹی آف سٹیٹ ایکس ٹیلرسن دنیا کی بڑی تیل کمپنی کے سی ای او ہیں۔ ایڈیٹر مشرق کوئٹہ کامران ممتاز نے کہا کہ قاضی عیسیٰ کمیشن رپورٹ سامنے آ گئی زمینی حقائق بھی اہی ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ بلوچستان میں صورتحال یہ ہے کہ کالعدم تنظیموں کی خبریں چھاپنے کا کہہ کر درجنوں اخبارات اور اخبار نویسوں کے خلاف ایف آئی آرز کاٹی جا چکی ہیں۔ دوسری طرف ہم نے پچھلے دنوں وزارت داخلہ کے ذمہ داران سے ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ کالعدم تنظیموں کی خدمت کا اخبارات میں اشتہار دیں اور بتائیں کہ ان کی خبروں کی اشاعت ممنوع ہے لیکن کوئی جواب نہ دیا گیا۔ اسی وقت بلوچستان میں لشکر جھنگوی العالمی دہشتگرد وارداتیں کرنے میں مصروف ہے۔ ٹی ٹی پی اتنی فعال نہیں ہے۔
Tag Archives: zia-shahid
خبریں کے زیر اہتمام ”بیٹھک “….فخر الزمان ،ضیا شاہد ،جمیل پال ،بابا نجمی سیمت اہم شخصیات کا خطاب
لاہور (ایجوکیشن رپورٹر) روزنامہ خبریں کے زیراہتمام مقامی ہوٹل میں پنجابی زبان کی ترویج و اشاعت اور پنجابی ذرائع ابلاغ کے تحفظ پر ایک بیٹھک کا انعقاد کیا گیا جس میں چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں ضیا شاہد، ورلڈ پنجابی کانگریس کے چیئرمین فخر زمان، چیف ایڈیٹر پنجابی روزنامہ بھلیکھا مدثر اقبال بٹ معروف شاعر اور ادیب جمیل احمد پال، بابا نجمی، صغریٰ صدف، صوفیہ بیدار، ڈاکٹر نبیلہ رحمان، احمد رضا پنجابی، طارق محمود جٹالہ، الطاف ضامن، اقبال قیصر، اعظم توقیر، دلشاد ٹوانہ، افتخار مجاز، نیلمہ ناہید درانی، اکرم شیخ، فاطمہ غزل، اسحاق تنویر، ظہور، ،فراست علی بخاری، ازہر منیر، رائے محمد خان، سلطان کھاروی بشریٰ اعجاز، عاشق راحیل، سلیم آہنگ، زاہد حسن، اعظم قریشی، عاطف ریحان بٹ اور اروما بٹ نے شرکت کی جس میں چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں نے پنجابی زبان کی ترویج اور اشاعت کے مسلسل کم ہوتے ہوئے رجحان پر گفتگو کرتے ہوئے شرکاءکو بتایا کہ انہوں نے پنجابی زبان کی ترویج اور اشاعت میں اضافے کے لئے کچھ تجاویز حکومت کے ان کے سامنے رکھی ہیں۔ تاکہ پنجابی کلچر، زبان کے کم ہوتے ہوئے رجحان کو بڑھاوا دیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پرائمری سطح پر پنجابی کو بنیادی تعلیم کا حصہ بنا دیا جائے اور پنجابی میں چھپنے والے ذرائع ابلاغ کے لئے کوٹہ مختص کر دیا جائے تو ہم اپنی مادری زبان کے بولنے اور پڑھنے کے کم ہوتے رجحان جیسے مسائل کو کافی حد تک کم کرسکتے ہیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ملک میں سندھی کے 52، پشتو کے 7، بلوچی کے 4 اخبارات شائع ہوتے ہیں جبکہ پنجابی کا صرف ایک اخبار ہے۔ چئیرمین ورلڈ پنجابی کانگریس فخر زمان نے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنے ہی صوبہ پنجاب کے اسمبلی فورم پر کھڑے ہوکر پنجابی زبان میں بول نہیں سکتے اور نہ ہی کوئی بل پیش کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو گھروں میں عملی طور پر پنجابی کی اہمیت کا احساس دلائیں اور زیادہ سے زیادہ ان سے پنجابی میں بات کریں جبکہ انہوں نے مالی مشکلات کو دور کرنے کے لئے تاجروں، صنعتکاروں سے ایک وفد کی صور ت میں ملنے کی تجویز بھی پیش کی۔ تاکہ پنجابی زبان کی ترویج اور اشاعت کی مشکلات کو کم کیا جاسکے۔ چیف ایڈیٹر پنجابی اخبار روزنامہ بھلیکھا کے ایڈیٹر مدثر اقبال بٹ نے کہا کہ پنجابی تعلیم کے رائج ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ہم زبانی باتیں کرتے ہیں لیکن عملی طور پر آج تک کوئی بھی تحریک چلانے میں ناکام رہے ہیں اس بیٹھک کے موقع پر انہوں نے کہا کہ ہم پنجابی زبان کی ترویج اور ذرائع ابلاغ میں اضافے کے لئے ہر طرح سے چیف ایڈیٹر خبریں کے ساتھ ہیں۔ اس موقع پو معروف ادیب اور پنجابی روزنامہ لوکائی کے چیف ایڈیٹر جمیل احمد پال نے کہا کہ مالی مشکلات اپنی جگہ لیکن ماں بولی زبان کی ترویج اور ابلاغ کے لئے جذبہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس دن کسی بھی پنجابی اخبار کی اشاعت 10ہزار تک پہنچ گئی اس دن کامیابی کی طرف سفر شروع ہو جائیگا۔ صغریٰ صدف نے کہا کہ ہمیں ایک وفد کی صورت میں وزیراعلیٰ پنجاب سے مل کر ان سے پنجابی ذرائع ابلاغ کے لئے کوٹہ بحال کرنے کر کے اسے 25فیصد مختص کرنے کی درخواست کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پنجابی زبان کی ترویج کے لئے ہمیں اپنے گھروں میں بھی ماحول فراہم کرنے اور سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر نبیلہ رحمان نے کہا کہ اگر حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے اشتہارات پنجابی زبان میں شائع اور نشر کئے جائیںتو بھی پنجابی بولنے اور اشاعت کے اس بڑھتے ہوئے رجحان میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ بابانجمہ نے کہا کہ ماں بولی کی اشاعت اور ابلاغ میں اضافے کے لئے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور کوششیں کرنی ہوں گی اور اس حوالے سے چیف ایڈیٹر خبریں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے اخبار میں پنجابی ایڈیشن کا اجراءکیا بشریٰ اعجاز نے کہا کہ ہمیں اپنے سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا جبکہ تک ہم اپنی زبان سے محبت نہیں کریں گے ہم اس کو ترویج نہیں کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے خبریں کی کاوشیں قابل تعریف ہیں اور مستقبل میں بھی یہ کاوشیں جاری رہنی چاہئیں۔ اس موقع پر تنویر ظہور نے چیف ایڈیٹر ضیاشاہد کو چادر اور اپنی کتاب تحفہ تن پیش کرتے ہوئے کہا کہ روزنامہ امروز کے بعد یہ کریڈٹ خبریں کو ہی جاتا ہے کہ انہوں نے پنجابی زبان میں صفحہ شائع کیا ہے خبریں کے زیر اہتمام پنجابی زبان کی ترویج اور اشاعت میں مسلسل کمی کے رجحان پر قابو پانے کے لئے دیگر پنجابی ادیب اور شعراءنے بھی بیٹھک میں پیش کی جانے والی اراءاور تجاویز پر اتفاق کیا جبکہ چیف ایڈیٹر خبریں نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے مالی مشکلات کے باعث بند کئے جانے والے پنجابی اخبار خبراں کی دوبارہ اشاعت کا بھی اعادہ کیا او رمعزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
لوگ پوچھتے ہیں کیا بھارت حملے اور ہم صرف مذمتی بیان دیتے رہیں گے؟
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وزیراعظم ہاﺅس میں آرمی چیف کیلئے پہلی بار اتنی شاندار الوداعی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ پہلے تو یہ عام معمول کی کارروائی ہوتی تھی۔ پاکستان اور بھارت میں صلح صفائی ہونی چاہئے ہمارے حکمران مختلف ادوار میں اس پر پیش رفت بھی کرتے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک مکتبہ فکر کا کہنا ہے کہ بھارت سے تعلقات ٹھیک ہوں اور یہ دفاع کی بجائے ترقی پر لگایا جائے۔ ایک طبقہ فکر ایسا بھی ہے جس نے اسلامی فوج کے اعلان پر بغلیں بجائیں ان کا کہنا تھا کہ پچیس تیس فیصد فوجی افسر و جوان ڈیپوٹیشن پر باہر جائیں گے تواس سے ان کے مالی معاملات بہتر ہوں گے۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سوچتا ہے کہ جب تک بھارت کے ساتھ ہمارے بنیادی مسائل کشمیر، پانی وغیرہ حل نہیں ہوتے کوئی تعلق بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک میڈیا چینل نے تو آگے بڑھ کر ”امن کی آشا“ کے نام سے پروگرام شروع کر دیا تھا۔ سینئر صحافی نے کہہا کہ آرمی چیف نے بڑا زور دار بیان دیا ہے آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا کہ صرف بیان ہی ہے یا واقعی اس پر عمل بھی ہو گا۔ کروڑوں پاکستانیو ںکے جذبات ہیں کہ کیا ہم صرف مار کھانے کیلئے رہ گئے ہیں کہ یہ دوسرے تیسرے دن ہمارے بیگناہ شہریوں، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہم صرف احتجاج کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے بھی حالات کا سخت نوٹس لیا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ جنرل (ر) عبدالقیوم محب وطن اور زمینی آرمی میں یقینی طور پر انہوں نے وفد کے ہمراہ برطانیہ میں پاکستان کی اچھی کمپئن کی ہو گی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سے جتنے بھی وفود باہر جاتے ہیں ان کی کارکردگی صفر ہوتی ہے ویسے تو بڑی بڑی مارتے ہیں کہ ہم نے یہ کیا یہ کیا لیکن جب پوچھا جائے کہ انہوں نے جواب میں کیا کہا تو آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں دعا گو ہوں کہ اگلے دو تین دن میں بھارت کی واقعی سبق سکھیا جائے جو مسلسل شرارتیں کر رہا ہے۔ صدر آزاد کشمیر جو سابق سفارتکار میں نے ایک ملاقات میں کہا کہ شملہ معاہدہ ہماری راہ میں ہر گز رکاوٹ نہیں ہے۔ ہم آج بھی سلامتی کونسل جا سکتے ہیں اور انہیں ہماری بات سننا پرے گی کیونکہ شملہ معاہدہ سے قبل ہی سلامتی کونسل کشمیر میں رائے شماری کے حق میں قراردادیں پاس کر چکی تھی۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ اگلے الیکشن سے کچھ عرصہ قبل بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات اور کچھ فنڈز دیئے جائیں گے ساتھ ہی ووٹروں کو الیکشن بوتھ تک لانے کی ذمہ داری بھی سونپی جائے گی۔ ہمارے ارکان اسمبلی اختیارات کسی صورت بلدیاتی نمائندوں کو نہیں دینا چاہتے۔ آمریت کے دور میں اازادی صحافت ممکن نہیں ہوتی یہ صرف جمہوریت کے دور میں ممکن ہے اس لئے آزادی صحافت یا آزادی اظہار پر یقین رکھنے والا کبھی جمہوریت کا مخالف نہیں ہو سکتا۔ ہمارے یہاں کی جمہوریت صرف الیکشن کرانے اور حکومت میں آنے کا ذریعہ ہے۔ ارکان اسمبلی کی تنخواہیں بڑھا دی گئی ہیں۔ یہ سب سیاسی رہنما آپس میں ایک ہیں ان میں آئی اختلاف نہیں ہے مراعات کیلئے سب ہاتھ کھڑا کر دیتے ہیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ پرانی عدلیہ پر داغ رہا ہے۔ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ پنجاب اور سندھ میں تفریق رکھتی ہیں۔ عدالتوں میں ”چمک“ کام کرتی ہے۔ آج کی عدلیہ کو ان باتوں کا خاص طور پر زمین میں رکھنا ہو گا۔ سپریم کورٹ نے پیپلزپارٹی نے دو وزیراعظم گیلانی اور پرویز اشرف کو گھر بھیج دیا۔ حالیہ دنوں میں ایسا ہوتا ذرا مشکل نظر ااتا ہے عام عوام کا خیال ہے کہ حکمران خاندان کے خلاف کسی عدالت نے فیصلہ نہیں دینا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ بلاول بھٹو کو سکیورٹی ضرور دی جانی چاہئے لیکن میرے خیال میں وہ نوجوان اور معصوم ہیں حکومت میں رہے نہ کرپشن کا کوئی الزام ہے تو کوئی ان کا مخالف کیوں ہو گا۔ عوام آصف زرداری و دیگر رہنماﺅں سے تو اختلاف رکھتے ہیں لیکن بلاول سے ابھی انہیں کوئی شکایت نہیں ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی پاکستان اور اسلام دشمن ہے بلکہ انسان دشمن اور ایک بھیڑیا ہے لیکن اگر اس نے اپنے وطن کیلئے کوئی بہتر کام کیا ہے تو اس کا کریڈٹ تو اس کو جاتا ہے۔ ہمارے یہاں تو یہ صورتحال ہے کہ کوئی اہم فیصلہ ہو تو صرف نوازشریف اور اسحاق ڈار کو پتہ ہونا چاہئے پیشگوئی کرتا ہوں کہ اگر یہاں ایسی صورتحال ہوتی تو بیس پچیس روز قبل ہی سب کو پتہ چل چکا ہوتا اور لوگ اپنے نوٹوں کا بندوبست کر چکے ہوتے ہماری ملک سے محبت اور ڈسپلن کی پابندی ”بگ زیرو“ ہے۔ مودی نے اگر اپنے ملک اور معاشرے کیلئے اچھا اقدام اٹھایا ہے تو ہمیں بھی غیرت کھانی چاہئے اور حکومت سے کسی انقلابی اقدام اٹھانے کا مطالبہ کرنا چاہئے لیکن اس سے قبل حکمرانوں سے وعدہ لینا چاہئے کہ آپ کے چمچے کڑچھے اسے لیک نہیں کر دیں گے۔ معاشی امور کے ماہر خالد رسول نے کہا کہ بھارت نے کرنسی تبدیلی کا جو انقلابی اقدام اٹھایا اسے بہت حد تک رازداری میں رکھنے میں کامیاب رہا جس کا کریڈٹ مودی حکومت کو جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بہت سی سکیمیں صرف اسی وجہ سے ناکام ہو گئیں کہ وقت سے پہلے ہی خبریں باہر لیک ہوئیں اور لوگوں نے اپنا بندوبست کر لیا جس سے اسکیم کا مقصد ہی فوت ہو گیا۔ بھارت میں کرنسی تبدیلی سکیم کو ابھی کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ جس انداز سے سکیم لاﺅنج کی گئی وقت بہت کم دیا گیا۔ بھارت میں نچلا طبقہ کسان اور مزدور کی زندگی عذاب میں ہے۔ بھارت کی ساری سیاسی جماعتیں بھی حکومتی اقدام کے خلاف پھٹ پڑی ہیں اور راجیہ سبھا میں ہنگامہ ہوا ہے۔
آرمی مدت چیف کی مدت ملاز مت میں توسیع کا معاملہ
ری پبلکن جب بھی اقتدار میں آئے تو کیا ہوا ….نامور صحافی ،اخبار نویس ضیا شاہد کاچینل ۵کے پروگرام میں دبنگ تجزیہ
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا کہ ٹرمپ کی صدارتی الیکشن میں فتح سے پاکستانیوں کو جو ہلیری کو پسند کرتے تھے مایوسی ہوئی۔ امریکہ کی تاریخ میں شاید ہی کبھی کسی ایک ہی پارٹی نے لگاتار 3 بار حکومت بنائی ہے۔ پاکستان میں شخصیات کی ووٹ دیئے جاتے ہیں جبکہ امریکہ میں پارٹی کی ووٹ ملتے ہیں۔ امریکی گورے کالوں کو پسند نہیں کرتے اور انہیں دہشتگرد اور جرائم پیشہ سمجھتے ہیں۔ اوبامہ کو بھی امریکی گورے لوگ پسند نہیں کرتے تھے اب انہیں موقع ملا تو ری پبلکن پارٹی امیدوار کو فتح یاب کرا دیا۔ دنیا میں اس وقت انتہا پسندی کا دور چل رہا ہے۔ بھارت میں جتنے نان سٹیٹ ایکٹرز ہیں ان کی تو گنتی بھی نہیں ہو سکتی۔ ری پبلکن پارٹی جب بھی اقتدار میں آتی ہے وہاں فوجی سوچ غالب ہو جاتی ہے اور سیاستدان پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اسی پارٹی کے دور میں جھوٹے الزامات لگا کر افغانستان اور عراق کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہزاروں افراد کو قتل کر دیا گیا۔ موجودہ صورتحال میں مسلمان ممالک کا تو پہلے ہی بیڑا غرق ہے۔ امریکہ اب عالم اسلام کی باقی بچ جانے والی تین طاقتوں پاکستان، ترکی اور سعودی عرب کو بھی نشانہ بنائے گا۔ اس کی پوری کوشش ہو گی کہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے وجود کو ہی ختم کر دے۔ جب بھی ری پبلکن برسراقتدار آئے دنیا میں بڑی بڑی جنگیں ہوئیں اب بھی دنیا میں کہیں نہ کہیں امریکہ چڑھائی ضرور کرے گا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ امریکی حکمران پارٹیوں سے بڑا منافق دنیا میں نہیں ہے باتیں جمہوریت کی کرتے ہیں اور کالے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ساری دنیا میں مرد و عورت کی تفریق نہ برتنے کا ڈنڈھورا پیٹتے ہیں اور خود ایک خاتون کو ملک کی صدر نہیں دیکھ سکتے۔ ٹرمپ ایک ذہین اور چالاک آدمی ہے جس نے امریکی عوام کے خوف کو کیش کرایا۔ صدر اوباما بھی کوئی نمایاں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ ان کا دوسرا دور تو بالکل ہی ناکام دور تھا کانگریس نے انہیں کوئی کام نہیں کرنے دیا۔ اوباما اگر بہتر کام کر جاتے تو ہلیری کیلئے جیتنا آسان ہو جاتا۔ امریکی مجموعی طور پر میٹرک پاس قوم ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ان میں ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔ شاید اس لئے ٹرمپ جیسا شخص انہیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے میں کامیاب رہا۔ ٹرمپ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے کتنے ہی الزامات سامنے آئے پھر بھی ان کی جیت ہوئی اس سے امریکیوں کی اخلاقیات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ امریکی گورے نے کالے کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ آنے والے دور میں دنیا میں دو واضح بلاک بنتے نظر آ رہے ہیں عام طور پر روس کو امریکہ کے خلاف بلاک میں تصور کیا جاتا ہے لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے اور روس بھی امریکی گروپ میں ہی دکھائی دے گا۔ انتخابی کمپین میں تو تڑیاں وغیرہ لگائی جا سکتی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حکومت میں آ کر اپنے انہی خیالات کو بروئے کار نہیں لایا جا سکتا۔ ٹرمپ ہو یا کوئی بھی انتہا پسند حکمران ہو اسے ملکی نظام اور عالمی دباﺅ رویے تبدیل کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ نیا امریکی صدر اگر اپنی پالیسیوں پر چلنے میں کامیاب رہا تو یہ دنیا کی بڑی بدقسمتی ہو گی اور ہر طرف تباہی نظر آئے گی۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ کوئی بھی حکمران اپنے ملک کی 35 فیصد آبادی کی ایک دم کیسے نکال سکتا ہے۔ پاکستان تمام تر تحفظات کے باوجود آج تک افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیج سکا۔ پوری دنیا میں تمام سیاسی قوتیں تیزی سے انتہا پسندی کی جانب جا رہی ہیں۔ شاید انسان خود ہی تیزی سے قیامت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں موجود انتہا پسند گروپوں اور سیاسی جماعتوں کے نظریات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں لیکن وہ لبرل ازم اور ترقی پسند کے خلاف ایک نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی حکومت ہے لیکن سیاسی بھی اگلے الیکشن کا انتظار کرنے کے بجائے سڑکوں پر سرپھٹول جاری ہے حکومت کو چلنے نہیں دیا جا رہا ہے یہ بھی اس انتہا پسندی کی ہی ایک شکل ہے جو اس وقت دنیا میں سرگرم عمل ہے۔ سینئر صحافی نے سندھ میں گورنر کی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عشرت العباد ایک مشکوک کردار کے آدمی تھے۔ وہ آج کے دور کی ”ماتا ہری“ تھے۔ ان کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ جس نائن زیرو سے انہیں دھمکیاں ملتی تھیں انہی رہنماﺅں کو بیٹی کی شادی پر بھی بلاتے تھے۔ ایک مشکوک کردار کا حامل شخص کراچی میں اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں شرکت کرتا تھا۔ صولت مرزا اور کءمتحدہ رہنماﺅں نے ان پر خوفناک الزامات لگائے کہ گورنر سندھ قاتلوں کا سرپرست انہیں جائے پناہ فراہم کرتا تھا اور کئی قسم کے مذموم جرائم میں ملوث تھا۔ واشنگٹن سے خبریں کے بیورو چیف فقیر حسین نقوی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں کالے گورے کا معاملہ شروع ہو گیا جو ہلیری کی ہار کا باعث بنا۔ گورے نے اس چیز کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ٹرمپ کو ووٹ دیں گے۔ ہلیری نے اچھا مقابلہ کیا ہے۔ امریکہ میں پالیسی پیناٹا گون، نیشنل سکیورٹی اور فارن آفس بناتا ہے ساﺅتھ ایشیا کیلئے یہی ادارے پالیسی بناتے ہیں اورجو بھی صدر آتا ہے وہ اس پر عمل کرتا ہے۔ ری پبلکن کو بھارت نواز بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ امریکہ میں جتنے بھی بھارتی کام کرتے ہیں ان کے کنٹریکٹ پورے ہونے کے بعد واپس بھیج دیں گے جس پر بھارت بڑا پریشان بھی تھا۔ پہلے سو دن میں پتہ چلے گا کہ نئے امریکی صدر کن پالیسیوں پر چلتے ہیں۔ معروف تجزیہ کار شمع جونیجو نے کہا کہ ٹرمپ کی فتح پر پوری دنیا میں سوچنے سمجھنے والا طبقہ شاک میں ہے۔ مجھے پہلے سے اندازہ ہو گیا تھا کہ ٹرمپ ہی جیتے گا۔ امریکہ میں بھی وہی نسل پرستی کی لہر چل پڑی ہے جو برطانیہ میں تھی وہ ووٹر بھی ٹرمپ کو ووٹ دینے پہنچ گئے جنہوں نے کبھی ووٹ نہیں دیا تھا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ میں دوڑ لگی ہے کہ دنیا کی سب سے بیوقوف قوم کو کون سی ہے۔ امریکہ میں اب امیگریشن کی سخت پالیسیاں ہوں گی پاکستانیوں کیلئے اس سے بھی زیادہ سختیاں ہوں گی جہالت صرف ترقی پذیر ممالک میں نہیں ہوتی ان ممالک میں بھی جو خود کو ترقی یافتہ کہتے ہیں بہت جہالت ہے۔ امریکہ کا نچلا طبقہ اور مڈل کلاس عورت کو ووٹ دینے کے حق میں نہیں ہے جبکہ امریکہ پوری دنیا میں مساوات اور بڑے بڑے دعوے کرتا نظر آتا ہے۔ ٹرمپ کا جیتنا ایک المیہ ہے۔ ٹرمپ کا خواتین کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ مردانگی شو کیا گیا۔ اب پھر اگلے امریکی صدر کے لئے خاتون امیدوار کو لایا جا رہا ہے اور مشعل اوباما کیلئے موومنٹ شروع ہو گئی ہے۔نمائندہ لندن خبریں وجاہت علی خان نے کہا کہ برطانیہ اور امریکی میڈیا ٹرمپ کی جیت پر شاک میں ہے۔ گارڈین اخبار لکھتا ہے کہ ”امریکی عوام نے کھائی کی جانب قدم بڑھا دیا“ جرمنی کے اخبارات بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے اسے سانحہ قرار دیا ہے۔ ٹرمپ کا جیتنا دنیا میں ایک بڑی ہلچل ہے کہ ایسا انتہا پسند شخص امریکی صدر بنے گا تو طاقت کا توازن کدھر جائے گا۔ برطانیہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ لبرل پارٹی خلاف توقع ہار گئی تھی۔ ٹرمپ کو تو کوئی سنجیدگی سے نہیں لے رہا تھا وہ ایک ارب پتی تاجر ہے۔ سیاست میں کوئی خاص تجربہ نہیں رکھتا جبکہ ہلیری تو آزمودہ سیاستدان ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ میں پر اقدار کی جانب بڑھا جا رہا ہے۔ برطانیہ میں قدامت پسند قوت نے امیگریشن کے بہت سے قوانین بدل دیئے ہیں اس طرح ری پبلکن بھی ایسا ہی کرتے نظر آتی ہے۔ بھارت میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ اسی طرح کے حالات سے گلوبل ویلیج کے تصور پر زد پڑے گی۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہلیری کلنٹن نے بھی ٹوٹل ووٹ کے نصف لئے ہیں جبکہ ٹرمپ الیکٹرول ووٹ سے جیتے ہیں۔ پاکستان میں اکثریت کی رائے ٹرمپ کے حق میں نہیں تھی امریکی پاکستانیوں کا جھکاﺅ بھی ہلیری کی جانب تھا لیکن ٹرمپ خلاف توقع جیت چکے ہیں۔ پاکستان کو ٹرمپ پسند ہیں یا نہیں انہی کے ساتھ چلنا ہو گا یہ تو سفارتکاری اور ڈپلومیسی پر اب منحصر ہو کر کسی طرح منفی اثرات کو کم کرتے ہیں اور معاملات بہتری کے ساتھ نمٹاتے ہیں۔ پاکستان میں وزارت خارجہ کام کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے فارن سکیورٹی تو پروفیشنل اور اہل آدمی ہیں لیکن لیڈر شپ تو حکومت نے مہیا کرنی ہے۔ سرل المیڈا کی خبر کے کیس سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکومت کس طرح سے چل رہی ہے۔ اس خبر کے باعث پاکستان مخالف ملکوں کو فائدہ پہنچا۔
امریکی عوام خاتون کو بطور صدر دیکھنے کو تیار نہیں تھے….تجزیہ :امتنان شاہد
میں بطور پاکستانی ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر بالکل حیران یا پریشان نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو تھوڑے مارجن سے نہیں بلکہ بڑے مارجن سے شکست دی ہے۔ تقریباً ایک سال قبل جب دونوں امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم شروع کی تھی تو میں نے عالمی ذرائع ابلاغ سے معلومات حاصل کیں اور امریکہ میں میرے ذرائع نے بھی تصدیق کی تھی یہی میرا ذاتی مشاہدہ بھی تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑی سمجھداری کے ساتھ اپنی انتخابی مہم شروع کی ہے اور انہوں نے امریکہ کی سفید فام آبادی کو فوکس کیا اور وہی ان کا ہدف رہے۔ جن لوگوں نے امریکہ دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ امریکی گوروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے ان کو صرف دو وقت کی روٹی، صحت کی سہولیات اور تعلیم چاہیے ان کا اپنی صحت کی سہولیات سے مطلب ہوتا ہے یا انہیں اپنی نوکریوں کی فکر ہوتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پوری انتخابی مہم کی یہی خاص بات رہی کہ انہوں نے اسی آبادی کو فوکس کیا، ہیلری کلنٹن کی شکست کی دوسری سب سے بڑی وجہ جو سامنے آئی وہ ان کا خاتون ہونا تھا، ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ایک بہت بڑا فیکٹر ہے جس نے ہیلری کے ہارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکی ذہنی طور پر کسی خاتون کو بطور صدر دیکھنے کیلئے اپنے آپ کو تیار ہی نہیں کر پائے، اگر آپ پولنگ کے اعدادو شمار پر نظر دوڑائیں تو اس میں ایک اور دلچسپ بات سامنے آتی ہے کہ نقل مکانی کرکے آٓنے والے امریکیوں جن کی کل تعداد امریکی آبادی کا 35 فیصد ہے جس میں سے 19 فیصد ایشیائی ہیں جبکہ اس 19فیصد میں سے 4 فیصد صرف پاکستانی نژاد امریکن ہیں، ہم یہ بھی بڑی خوشی سے کہتے ہیں کہ ہیلری پاکستان کی بڑی دوست ہیں اور پاکستان آتی جاتی بھی رہی ہیں اور پاکستانی مسائل سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں اور وہ ٹرمپ کے مقابلے میں پاکستان سے بڑا اچھا سلوک کرینگی، یہ پاکستانیوں کی غلط فہمی تھی، ہے اور رہے گی، ان کی سوچ میں پاکستانی سٹیبلشمنٹ ہمیشہ اس وقت سہولت میں ہوتی ہے جس وقت امریکہ میں ری پبلکن پارٹی کا صدر ہوتا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ تمام پاکستانی نژاد امریکیوں نے یہ سوچا شاید ڈیموکریٹ ان کے لیے بہتر ثابت ہوں اور انہوں نے یہی سوچ پر ہیلری کو ووٹ دیا لیکن اگر ہم الیکشن کے نتائج پر نظر ڈالتے ہیں تو کاسٹ کیے گے ووٹوں میں سے کالے امریکیوں میں سے 90 فیصد نے ٹرمپ کوووٹ دیا اور صرف10فیصد ووٹ ہیلری کے حصے میں آئے۔ امریکی بطور قوم بری طرح ایکسپوز ہوئے ہیں وہ ابھی تک اپنے آپ کو اس بات کے لیے تیار نہیں کر پائے کہ وہ کسی خاتون کو بطور صدر قبول کریں۔ امریکی پوری دنیا میں این جی اوز کے ذریعے یا اپنی تعلیمات اور تبلیغ کے لیے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مرد اور خاتون میں برابری ہونی چاہیے، خواتین کو مردوں کے برابر حقوق ملنے چاہئیں لیکن اس الیکشن کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی قوم خواتین کوحقوق دینے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ ان کی برابری کے دعوے ایک ڈھکونسلہ ہیں امریکی صرف این جی اوز کو پیسے دیکر انسانی حقوق کی آوازیں اٹھا کر یا ملالہ یوسفزئی جیسی خواتین کو اپنے مطلب کے لیے استعمال ضرور کرتے ہیں۔ ملالہ پر حملہ ہوا جو ایک بری بات ہے، اللہ تعالی نے ان کی جان بچائی اور بطور پاکستانی خوشی ہے کہ وہ صحت یاب ہوئیں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ امریکی اپنے مطلب کے لیے استعمال بھی ضرور کرتے ہیں۔ اگر امریکی اتنے ہی سنجیدہ ہوتے تو بطور قوم اور سٹیبلشمنٹ ہیلری کو صدر بنانے میں ان کے مددگار ضرور ثابت ہوتے جو کہ نہیں ہوا۔ ڈیڑھ سال سے جب لوگ ڈونلڈ ٹرمپ پر نسل پرستی کا الزام لگا رہے تھے تو سب سے بڑی بات یہی ہے کہ انہوں نے امریکیوں میں موجود ڈر کو ایڈریس کیا اور ٹارگٹ بنایا۔ امریکی ایک ڈرپوک سی قوم ہے جو زیادہ پڑھی لکھی بھی نہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا ان کے خلاف ہے اور جو بھی اس بات کو پن پوائنٹ کرے گا تو وہ اس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے، ٹرمپ نے اسی بات کا فائدہ اٹھایا اور اپنی پوری انتخابی مہم میں امریکی عوام میں موجود اسی خوف کو ہلکی سے آگ لگانے کی کوشش کی۔ شروع میں سب سمجھتے رہے کہ وہ ان کا منفی پوائنٹ ہے لیکن آخر کار یہی ان کا مثبت پوائنٹ ثابت ہوا۔ ٹرمپ نے اس سے پہلے کسی سرکاری دفتر میں کام نہیں کیا وہ واشنگٹن میں بھی مشیر نہیں رہے وہ ایک عام آدمی کے طور پر سامنے آئے لیکن ان کے مقابلے میں ایک کہنہ مشق سیاستدان تھی جو دو دفعہ وزیر خارجہ رہ چکی تھیں، نتیجہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ امریکی عوام نے جہاں ایک خاتون کو ووٹ نہیں کیا وہیں انہوں نے روایتی سیاست کو بھی مسترد کیا ہے۔ امریکی عوام ایک ایسے شخص کو اقتدار میں لائے ہیں جو بظاہر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے رنگ میں بیٹھ کر لوگوں سے کشتیاں بھی کرتا ہے، وہ لوگوں کی حجامت بھی بناتا ہے اوراپنے چہرے پر رنگ ڈال کر ٹی وی پروگرامز میں بھی آتا ہے اور وہ جو کہہ رہا ہے اسے صحیح سمجھتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس پر لوگوں نے اسے ووٹ کیا ہے چاہے اس سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے، ٹرمپ کی آٓئندہ پالیسیوں کے حوالے سے میری ذاتی رائے ہے کہ اگلے دو سے اڑھائی سال کے اندر دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں ایک بڑی جنگ ہوگی، جس میں براہ راست امریکہ کی مداخلت ہوگی۔ جنگ جنوبی چین میں سمندری حدود کے تنازع پر بھی ہوسکتی ہے اور کوریا اورشمالی کوریا کی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور افغانستان کے ساتھ پرابلمز بھی ہو سکتی ہیں پاکستان کے مقابلے میں ٹرمپ کی طرف سے بھارت کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان بھی مسئلہ بن سکتا ہے۔ پھر ترکی یا شام کے اندر داعش کا معاملہ جنگ کا باعث بن سکتا ہے اگر ہم یہ سب ملا کر دیکھیں تو ٹرمپ کے ہوتے ہوئے دنیا پر ایک بڑا سوالیہ نشان نظر آتا ہے۔ ٹرمپ کے اپنی پالیسیوں پر یوٹرن لینے کے امکان یا خود ٹرمپ کی طرف سے کوئی پالیسیاں بنانے کے حوالے سے میں یہ نہیں سمجھتا کہ ایسا ہوگا، امریکہ کی 70فیصد پالیسیاں سٹیبلشمنٹ، پینٹاگون اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بناتا ہے لیکن یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جب بھی ری پبلکن اقتدار میں آئے چاہے وہ بش سینئر کا دور ہو یا بش جونیئر کا ان کے دورِ اقتدار میں جنگیں ہوئیں، عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر جنگ ہوئی، افغانستان میں نائن الیون کے نام پر جنگ مسلط کی گئی، جب کچھ نہ نکلا تو امریکی سٹیبلشمنٹ نے بڑی خوبصورتی سے کہہ دیا کہ ہمیں تو پتہ نہیں تھا ہمارے ایک صدر صاحب آئے تھے جو بڑے بے وقوف تھے انہوں نے 70سے80 ہزار افراد قتل کیے جس کے بعد کچھ نہ نکلا، چلیں اب کمیٹی بنا دیں تو انہوں نے کمیٹی بنا دی جس کی انکوائری تاحال چل رہی ہے۔ اگر ہم یہ دیکھیں جب بھی ایسے صدور آتے ہیں جن کا کوئی بیک گراﺅنڈ نہیں ہوتا تو سٹیبلشمنٹ ان کو اپنے فیصلوں کے لیے استعمال کرتی ہے امریکی سٹیبلشمنٹ اور قومی سلامتی کے ادارے بھی بالکل اسی طرح سوچتے ہیں جس طرح باقی دنیا کے ادارے اپنے اپنے قومی مفاد کے لیے سوچتے ہیں۔ بھارت اور امریکہ کے نئے یو پوائنٹ پر جب کوئی ملک، معاشرہ ، ادارہ یا شخص بہت طاقتور ہوتا ہے تو اسے اپنی امیج کی کوئی فکر نہیں ہوتی وہ صرف اپنا مفاد دیکھتا ہے کوئی شک نہیں کہ امریکہ اس وقت ایک سپرپاور ہے وہ بھارت کو صرف اس لیے سپورٹ کرتا ہے کیونکہ بھارت ان کے بہت سے مسائل حل کرتا ہے۔ آپ دونوں ممالک کے معاشی تعلقات پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ صرف کمپیوٹر انڈسٹری یا انٹرنیٹ، سافٹ ویئر کی تجارت دیکھ لیں تو اس کا حجم پاکستان جیسے کئی ملکوں کی معیشت سے بھی زیادہ ہوگا، انٹرنیٹ اور سافٹ ویئر کی تجارت کے ساتھ ان کا فوکس ہے کہ چائنہ کے مقابلے میں کمپیوٹر کی ہائیکنگ کو کیسے روکنا ہے یہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی ایک مثال ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اگلے دو سالوں کے اندر پاکستان، چائنہ، روس ایک طرف کھڑے ہونگے جبکہ ان کے ساتھ ترکی اور تین چار خلیجی ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب آپ کو بھارت امریکہ، افغانستان اور بنگلہ دیش کھڑے نظر آئینگے انہیں بھی تین چار عرب ممالک کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے، جو کہ شیعہ سنی وکٹ پر کھیلیں گے لہٰذا یہ کہہ دینا کہ صرف پاکستان کے لیے یا باقی دُنیا کے لیے یہ پیغام دیا ہے we dont care، امریکی عوام اور سٹیبلشمنٹ کو کوئی پروا نہیں کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی اور کیا کہتی ہے کیونکہ وہ مالی طور پر مستحکم ہیں، ان کی جیب میں پیسے ہیں، ان کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اس لیے انہوں نے صرف اپنے لوگوں کے بارے میں سوچا ہے ان کو باقی دنیا کی سوچ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
” سپریم کورٹ کا انقلابی اقدام ، ملک خانہ جنگی سے بچ گیا “
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ شکر کا مقام ہے کہ ملک میں محاذ آرائی کی کیفیت ختم ہو گئی، ایک بڑی تباہی اور انتشار ختم ہو گیا، خانہ جنگی کی دعوت دی جا رہی تھی جس کا خاتمہ ہو گیا۔ عدالت نے بڑا اچھا قدم اٹھایا اور انصاف کے تقاضوں کے تحت ایسا فیصلہ دیا کہ جس سے انتشار ختم ہو گیا۔ شیخ رشید ایک سینئر سیاستدان میں انہوں نے اپنی پٹیشن کے حوالے سے انہیں جنگ اصولی بنیادوں پر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جو ٹھیک ہے۔ سپریم کورٹ میں حکومتی وکیل کے موقف سے صاف ظاہر ہوا کہ وہ معاملے کو لٹکانا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ملکی تاریخ کے ایک بڑے بحران کو بڑی حکومت کے ساتھ ایک ہی دن میں فیصلہ کر کے ختم کر دیا جس پر اسے خراج تحسین پیش کیا جانا چاہئے۔ تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دھرنا ختم کرنے کا ٹھیک اعلان کیا ورنہ اسے ضد برائے ضد یا لڑائی ہی سمجھا جاتا۔ پیپلزپارٹی کے پی ٹی آئی بارے بیان پر حیرت ہوئی۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ اندر سے ملی ہوئی ہیں۔ نواز زرداری بات چیت جب ہوئی تھی تو اس وقت ہی ڈاکٹر عاصم کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ میں بخوبی آگاہ تھا کہ ڈاکٹر عاصم کی ضمانت ہو جائے گی۔ بڑے لوگ جب بھی جیل جاتے ہیں تو بیمار پڑ جاتے ہیں تا کہ ہسپتال جا کر رہیں آصف زرداری جب جیل میں تھے تو ان سے ملنے گیا پتہ چلا کہ ہسپتال میں ہیں وہاں تو تو پھر اطلاع ملی کے جیل کے باہر سڑک پار ایک کوٹھی لی گئی ہے وہ وہاں پر ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کی ضمانت اس یقین دہانی کا نتیجہ ہے جو پیپلزپارٹی نے ن لیگ کو کرائی تھی کہ ہم کہیں بھی کنٹینر پر کھڑے نہیں ہوں گے۔ بلاول بھٹو کی ساری دھمکیاں مصنوعی تھیں، پیپلزپارٹی جو اپوزیشن ہونے کی دعویدار ہے۔ ملک بھر میں گرفتاریاں اور ماد دھاڑ ہو رہی تھی تو چیئرمین پی پی کراچی میں دیوالی کی ایک تقریب میں شریک تھے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ یہاں صرف شوقیہ آتے ہیں بیان دیتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں وہ پاکستان میںصرف پراکسی وار چاہتے ہیں اس کے لئے خرم گنڈا پور کو آگے لگا کر خود دنیا میں گھومتے پھرتے رہنا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو مار پڑ رہی تھی اور گنڈا پور کی مشاورت ہی ختم نہیں ہو رہی تھی۔ موجودہ حالات میں وفات اور صوبہ متصادم نظر آئے لیکن شکر ہے کہ یہ معاملہ ختم ہو گیا۔ دونوں فریق ہی انتہا پر رہے۔ اگر پرویز خٹک کا راستہ روکا گیا اور شیلنگ کی گئی تو وزیراعلیٰ کے پی کے نے بھی تڑی لگائی کہ اگر حکومت باز نہ آئی تو ہم باغی ہو جائیں گے۔ خاتون رہنماﺅں سے بدسلوکی کے واقعات پر سینئر صحافی نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن خدارا کوئی تو اصول سیٹل کر لے کسی خاتون سیاسی رہنما بارے نازیابا گفتگو، بیان، توہین یا مذاق نہ اڑایا جائے معاشرے کو مہذب بنایا جائے انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اب دھرنا دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت بھی اب براہ کرم سیاسی تلخی کو ختم کرے۔ سیاستدان پڑھے لکھے افراد کی طرح کا طرز عمل اپنائیں اور ایسے الفاظ نہ استعمال کریں جس سے سیاسی لڑائی ذاتی لڑائی میں تبدیل ہو جائے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور قانونی ماہر حامد خان نے کہا کہ عدلیہ کی ملک کے حالات پر نظر ہے خاص طور پر سپریم کورٹ ان معاملات پر غافل نہیں رہ سکتی۔ ہم نے ٹی او آرز تیار کر رکھے ہیں ممکن ہے ایک آدھ کا اضافہ بھی کریں۔ اپنے ٹی او آرز عدالت میں داخل کریں گے۔ عدالت کو تمام ریکارڈ پیش کر دیا ہے۔ ن لیگ کو ابھی تک جواب بھی داخل نہیں کرا پائی صرف لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ ان سے یہیں پر جواب لیں اگر کمیشن کو معاملہ بھیجا گیا تو یہ پھر وقت ضائع کریں گے۔ پہلے تمام چیزوں کو سیٹلڈ کیا جائے پھر معاملہ کمیشن کو بھیجا جائے۔ عدالت نے ہمارے موقف کو تسلیم کیا اور ن لیگ کو 2 دن میں جواب داخل کرنے کا کہا ہے۔ واضح ہو چکا ہے کہ کمیشن کو سپریم کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ قانونی طور پر بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ معاملے کو پہلے نمبر پر دیکھا جائے گا۔ تحریک انصاف کا موقف تسلیم کر لیا گیا۔ ہم اسی کیلئے جدوجہد کر رہے تھے ن لیگ نے 7 ماہ ضائع کئے۔ ن لیگ کی پوری کوشش ہے کہ ماضی کی طرح یہ معاملہ بھی دب جائے اور عوام بھول جائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس کا ایک ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ سپریم کورٹ میں شیخ رشید کا کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر کوئی پارلیمنٹیرین اثاثے چھپائے تو جب بھی پتہ چلے تو اسی وقت مقدمہ کھل سکتا ہے اب تک 9 بڑے سیاسی رہنما نااہل ہو چکے ہیں۔ اثاثوں بارے الیکشن کمیشن کی دستاویزات بڑی مفصل ہے اس میں تمام تفصیلات فراہم کرنا پڑتی ہیں۔ سپریم کورٹ میں سب سے اہم پٹیشن شیخ رشید کی ہے نظر آ رہا ہے کہ سپریم کوورٹ ماضی کے کیسوں کو دیکھتے ہوئے اہم فیصلہ کر دے گی۔ کیپٹن صفدر بارے فیصلہ تو جلد ہو جائے گا اور وہ مریم نواز بارے حقائق پوشیدہ رکھنے پر نااہل ہو جائیں گے۔ 18 ویں ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی منشا کے مطابق تشکیل دیا جاتا ہے۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سردار رضا ماضی کے مقابلے میں بہتر شخصیت ہیں آج الیکشن کمیشن میں بڑی اہم سماعت ہونا ہے اس سے بھی کمیشن کی دیانتداری کا پتہ چل جائے گا۔ موجودہ حالات میں عوامی دباﺅ بہت زیادہ ہے اسی باعث سپریم کورٹ بھی صحیح سمت مڑی ہے۔ آج الیکشن کمیشن نے فیصلہ کرنا ہے۔ سردار رضا نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ الیکشن کمیشن ارکان چاروں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کی مشاورت سے سٹنگ ججز کو بنایا جائے۔ ادارہ بہتر انداز سے چل سکے لیکن انتخابی اصلاحات کمیٹی نے ان کی تجویز مشترد کر دی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے بھی اس تجویز کی تائید نہ کی۔
” حالت جنگ میں ایسی خبر نہیں دی جا سکتی جس سے دشمن کے ہاتھ مضبوط ہوں “ نامور اخبار نویس ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام میں گفتگو
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل معروف پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ متنازعہ خبر کے حوالے سے ابھی تک کوئی مصدقہ اطلاع سامنے نہیں آئی۔ اے پی این ایس اور سی پی این ای وفود کی وزیر داخلہ سے طویل ملاقات میں صرف اس موضوع پر بات چیت ہوئی۔ فوج نے اس خبر پر اعتراض اٹھایا اور آرمی چیف نے وزیراعظم سے شکایت کی اور ذمہ داران کو سامنے لانے کا کہا ہے۔ ذاتی خیال ہے کہ فوج کو اس خبر کے حولے سے مکمل معلومات حاصل ہیں کہ کسی نے خبر بھیجی کون کون اس کے پیچھے ہے ثبوت اور سکیننگ موجود ہے۔ فوج اپنی معلومات کو بعص ٹیکنیکل معاملات کے اعث آشکارا نہیں کر رہی۔ حکومت پر خبر کے حوالے سے بڑا دباﺅ ہے کہ ذمہ داران کو سامنے لائے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ پرویز رشید تو اس اجلاس میں شامل ہی نہیں تھے اس لئے وہ تو خبر لیک میں شامل نہیں ہو سکتے وزیر داخلہ بھی کھرے آدمی ہیں انہیں چاہئے کہ تحقیقات کر کے ذمہ داران کو سامنے لائیں اور ہر بندے پر شک و شبہے کا جس طرح اظہار ہو رہا ہے وہ بند ہو جائے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر خبر کے حوالے سے عجیب و غریب کہانیاں چل رہی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ جلد از جلد انکوائری کر کے سچ کو سامنے لائے تا کہ الزامات کا سلسلہ بند ہو۔ آزادی صحافت کیلئے ساری عمر جنگ کی ہے اسی لئے یہ سمجھتا ہوں کہ کسی اخبار یا صحافی کو صفائی کا موقع دیئے بغیر سزا دینا درست عمل نہیں ہے۔ وزیر داخلہ سے ملاقات میں بھی یہی موقف دیا کہ بغیر کسی تحقیقات اور ثبوت کے کسی کا نام ای سی ایل میں ڈال دینا اسے سزا دینا ہے۔ میں نے چودھری نثار سے کہا کہ صرف باہر ہی نہ دیکھیں اپنے بندوں کو بھی چیک کریں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ آزادی اظہار کا مطلب کھلی چھٹی نہیں ہوتا۔ اگر میرے پاس ثبوت اور شواہد نہیں ہیں اور میں خبر دے دیتا ہوں تو میں مجرم ہوں۔ 17 سال کی عمر سے صحافت کے میدان میں ہوں۔ اگر میں ایڈیٹر ہوتا اور میرے پاس وہ خبر آتی تو اسے شائع کرنے کی اجازت نہ دیتا۔ جنگ کا سب سے بڑا فعل سچ ہوتا ہے ملک حالت جنگ میں ہو یا جنگ کی فضا ہو تو کوئی ایسی خبر نہیں شائع کرنی چاہئے جس سے دشمن کو فائدہ پہنچے۔ میں اس لئے خبر کو شائع کرنے سے روک دیتا کہ بھارت تو پہلے ہی پاکستان پر چڑھائی کر رہا ہے۔ پوری دنیا میں پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کو سپورٹ کرتا ہے غیر ریاستی عناصر کو پالتا ہے جس کے باعث امریکہ اور یورپی ممالک بھی اس کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ اس صورتحال میں ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ بھارتی پروپیگنڈے کا مقابلہ کریں اس کی تردید کریں اور بھارت کا اصل مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لائیں۔ کیا بھارت میں نان سٹیٹ ایکٹرز نہیں ہیں ہمارے یہاں سے بھارت جانے والے فنکاروں، کھلاڑیوں اور دیگر شعبہ ہائے جات سے متعلقہ شخصیات کے ساتھ وہاں کیا سلوک کیا گیا۔ کیا یہ سب آنے والے بھارت کے نان سٹیٹ ایکٹرز نہیں ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ہمیں بھارت کے منفی اور زہریلے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا ہے نا کہ خود ہی ایسی خبریں چھاپ دیں جس سے دنیا بھر میں یہ تاثر جائے کہ بھارت تو سچ بول رہا ہے۔ متنازع خبر کے آتے ہی بھارت نے پروپیگنڈا تیز کر دیا اور پوری دنیا میں پاکستان کا تاثر منفی انداز میں پینٹ کیا۔ اگر کوئی شخص سچ بولنے کیلئے بڑا بیتاب ہے اگر اس کے پاس واقع سچ موجود ہے تب بھی اسے انتظار کرنا چاہئے اور جب جنگ کے حالات نہ رہیں اور نارمل صورتحال ہو تو وہ خبر دے۔ موجودہ صورتحال میں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے دشمن کے ہاتھ مضبوط ہوں کیونکہ یہ ہماری قومی سلامتی کے خلاف ہے۔ سینئر صحافی نے مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ساری عمر غیر جانبدار صحافت کی ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے بڑے اختلافات رہے۔ ان کے دور میں کئی ماہ قید بھی گزارے لیکن ان کی اچھی باتوں پر تعریف کرنے سے کبھی گریز نہ کیا۔ بھٹو صاحب کی بڑی خوبی یہ تھی کہ سندھ سے تعلق کے باوجود انہوں نے کبھی خود کو سندھی لیڈر نہیں سمجھا اور پنجاب سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ بلاول بھٹو نے بڑی مناسب اور اچھی تقریر کی اور حکومت پر خوب دباﺅ ڈالا اور یہ تاثر دیا کہ وہ حکومت کی بی ٹیم نہیں ہیں۔ مطالبات نہ ماننے پر جلسے اور دھرنے دینے کی دھمکی بھی دی۔ حکومت کو جو 4 مطالبات پیش کئے وہ کوئی خاص نہیں ہیں صرف حکومت پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ سابق وزیرخزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرکولر ڈیٹ لوڈ شیڈنگ اسی طرح چل رہی ہے۔ ایکسپورٹ سیکٹر تباہ حالی کا شکار ہے جس کی وجہ صرف توانائی بحران ہے۔ حکومت اگر ریفارمز کرنے میں ناکام رہی تو آئی ایم ایف اس کی ذمہ دار ہے۔ اکانومی کی مینجمنٹ تو اس کے پاس ہے وہ یہاں 3 سال سے بیٹھی کیا کر رہی ہے۔ سی پیک کے دو حصے ہیں ایک لاجسٹک ہے جس میں سڑکیں بنائی جائیں گی اس پر 12 ارب ڈالر خرچ آئے گا جبکہ باقی 33 ارب ڈالر توانائی منصوبوں پر خرچ ہونا ہیں۔ بجلی منصوبوں پر زیادہ خرچ کیا جا رہا ہے اور کئی گناہ زیادہ لاگت سے منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں۔ حکومت نے یہ گارنٹی بھی دی ہے کہ اگر کوئی صارف بجلی بل نہ دے سکا تو وہ بل دینے کی پابند ہو گی جس سے بجٹ پر منفی اثر پڑے گا۔ اینکر پرسن منظور ملک نے کہا کہ وزیر داخلہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ متنازعہ خبر پر تحقیقات کافی حد تک مکمل ہو چکی ہیں اور انکوائری ٹیم ذمہ داران کے قریب پہنچ چکی ہے۔ وزیرداخلہ نے پیشکش کی ہے کہ مجھ سمیت تمام افراد سے پوچھ گچھ کی جائے۔ چودھری نثار خود کہہ چکے ہیں کہ وہ براہ راست انکوائری کمیٹی کا حصہ نہیں ہیں صرف ان کی ہدایت پر کمیٹی تشکیل دی گئی۔ عسکری ادارے کا حکومت پر بڑا سخت دباﺅ ہے کہ فوری خبر لیک کرنے اور توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے کو سامنے لایا جائے۔ سول و ملٹری تعلقات قطعاً خوشگوار نہیں ہیں اور اس سے حکومت خوب آگاہ ہے۔ اسلام آباد میں یورپی یونین اور امریکی سفارتکار تمام حالات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔
سرتاج عزیز ، جنرل راحیل بیگناہ کشمیریوں پر ظلم بند کرائیں ورنہ نیو کلیئر پاور ، مضبوط فوج کا کیا فائدہ ؟ کہنہ مشق صحافی ضیا شاہد کی چینل۵ سے گفتگو
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل مقبول پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ن لیگ کا پارٹی الیکشن کرانے کا اعلان خوش آئند ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت کا راگ الاپنے والی سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر کوئی جمہوری اقدار نظر نہیں آتی۔ سیاسی جماعتوں میں قومی ایشوز پر سنجیدگی سے کوئی بات ہوتی ہے نہ ہی کسی رکن کو اختلاف رائے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اسی طرح کے رویے کی وجہ موروثی سیاست ہے۔ پہلے ایک شخصیت بنائی جاتی ہے جو عام طور پر آرمی کی نرسری سے نکلتی ہے پھر اس کو پروان چڑھایا جاتا ہے اور پھر اقتدار اس کی نسل در نسل کو منتقل کیا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ، اے این پی، جے یو آئی پاکستان، اچکزئی پارٹی سب ایک ہی لائن میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ کتنے ادوار گزر گئے کئی حکومتیں آئی اور چلی گئیں لیکن یہ دور میں صرف ایک ہی راگ الاپا گیا کہ بجلی چوری ہوتی ہے اب کوئی آسمان سے اترے گا اور بجلی چوری روکے گا۔ اس حوالے سے تمام حکومتوں کی کارکردگی شرمناک نظر آتی ہے۔ واپڈا والوں نے تو ایک بار اشتہار دے دیا تھا کہ کنڈے لگا کر بجلی چوری کرنے والے رجسٹریشن کرا لیں انہیں 50 فیصد تک رعایت دی جائے گی، توانائی اہم ترین شعبہ ہے لیکن اس میں آج تک ایک فیصد بھی نظم و نسق قائم نہیں ہو سکا اور کرپشن بجلی چوری ویسے ہی جاری ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت جاری ہے 12 سالہ معصوم بچے کو مار ڈالا اور پھر اس کے جنازے میں شامل افراد پر بھی شیلنگ کی گئی۔ اقوام متحدہ صرف ایک فراڈ ہے۔ عالمی طاقتوں کی لونڈی ہے۔ یہ کیسی عالمی تنظیم ہے جو ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن تک بھیجنے سے معذور ہے ایسے علاقوں میں جہاں انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے۔ پاکستان عشروں سے چیخ رہا ہے متعدد بار یو این میں قراردادیں ثبوت پیش کئے گئے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ امریکہ نے یو این کی اجازت کے بغیر محض الزام لگا کر عراق کو برباد کر دیا اور اس بربادی کے بعد یو این کمیٹی نے رپورٹ دی کہ وہاں کوئی کیمیائی ہتھیار نہیں تھا۔ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں آپس کے جھگڑے ختم کریں ہم ایک نیوکلیئر پاور ہیں اور چھوٹے ایٹمی ہتھیار بھی رکھتے ہیں۔ ہمارے حکمران معذرت خواہانہ رویہ چھوڑ کر بھارت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کریں اور اسے دھمکی دیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم بند کرے اور فوج کو شہری علاقوں سے نکالے۔ بھارت کو 24 گھنٹے کا نوٹس دیں کہ فوری اپنی فوجیں وادی سے نکالے۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم تو جاری تھے اب یہ بھی خبر سامنے آئی ہے کہ مسلسل کرفیو کے نتیجہ میں قحط سالی کا خطرہ بھی سامنے آ گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کھلے عام انسانی حقوق کی تذلیل جاری ہے لیکن تمام مسلم ممالک، او آئی سی، عالمی تنظیمیں سب نے چپ سادھ رکھی ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے اپیل کرتا ہوں کہ وزارت خارجہ آفس کو صرف بیان بازی کی حد تک محدود نہ کریں۔ آرمی چیف سے بھی درخواست ہے کہ سرحدوں کی حفاظت کریں، اندرونی دہشتگردوں کی سرکوبی ضرور کریں لیکن کیا ہم کشمیر میں ظلم و ستم پر صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ پاکستانکو انتہا پسند مودی حکومت کو دو ٹوک کہنا چاہئے کہ فوج کو چھاﺅنیوں تک محدود کرو اگر تم بیگناہ کشمیریوں کو شہید کرو گے تو ہم تم سے لڑیں گے۔ کیا کشمیر میں کربلا کا منظر نہیں ہے۔ بچوں بوڑھوں عورتوں کو ظلم و ستم کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ کاش آج ہمیں ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل جیسے رہنما میسر ہوتے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لاکھ اختلاف سہی لیکن وہ خارجہ امور میں کمال رکھتے تھے۔ ہمیں آج ایک ان جیسے زبردست وزیرخارجہ کی ضرورت ہے۔ نوازشریف کو فوری باصلاحیت وزیرخارجہ تلاش کرنا چاہئے جو دنیا کے سامنے ہمارے کیس رکھے اور بات کرنے کا اہل ہو۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو کے الطاف انکل بارے بیان کے بعد پیپلزپارٹی کے رہنما بڑی مشکل میں ہیں کہ کل تک تو انہوں نے اسے غدار قرار دینے کیلئے اسمبلی میں قرارداد پیش کی اب نئی بات سامنے آ گئی ہے۔ کراچی کے سیاسی حلقوں میں بحث شروع ہو گئی ہے! کیا فاروق ستار الطاف حسین سے معافی مانگ لیں گے اور متحدہ پھر سے ایک ہو جائے گی۔ بلاول کے الطاف بارے جملے کہ وہ آج بھی کراچی کی بڑی طاقت ہیں تو پھر فاروق ستار کیا بیچ رہے ہیں پاک سرزمین کی کیا اہمیت باقی ہے۔ سعودی عرب کی فوج کا یمن میں جنازے پر بمباری کرنا انتہائی افسوسناک امر ہے۔ یہ کہاں کا اسلام ہے۔ کس بنیاد پر جنازے پر بمباری کی گئی۔ لندن سے ”خبریں“ کے نمائندہ وجاہت علی خان نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو کا الطاف حسین کو انکل کہنے کا شاخسانہ لندن سے پھوٹا ہے چند روز قبل پارلیمنٹ ہاﺅس کے کمیٹی روم میں پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کا افتتاح ہوا جس میں آصف زرداری بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ اس تقریب میں ایم کیو ایم لندن کے رہنما محمد انور بھی شریک تھے جنہوں نے آصف زرداری سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ کوئی تو ہمارے لئے بھی چند جملے بول دے۔ بلاول بھٹو کی الطاف کیلئے پھوٹنے والی محبت اسی ملاقات کا نتیجہ ہے۔ مصدقہ اطلاع ہے کہ شیخ رشید یا چودھری سرور کی ڈاکٹر طاہر القادری سے کوئی ملاقات طے نہیں تھی۔ جو منہاج القرآن لندن دفتر سے اطلاع ملی ہے کہ عمران خان تو انہیں ساتھ شامل ہی نہیں کرنا چاہتے اس لئے سرد مہری اختیار کی گئی۔ شیخ رشید اور چودھری سرور نے طاہرالقادری سے ملاقات کی کوئی کوشش نہیں کی۔
مشترکہ اجلاس : 445 کا ایوان ، پہلے دن حاضری بھر پور ، دوسرے روز 70 ، تیسرے دن 80 ارکان کیوں نہیں آتے ؟ نامور صحافی ضیا شاہد کا دبنگ تجزیہ
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار اور صحافی ضیاشاہد نے کہا ہے کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں انہی کا طرز حکمرانی پارلیمانی نظام اپنایا گیا تھا۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام کو ہمیشہ غلط استعمال کیا گیا اور سیاسی آمریتیں یا سیاسی بادشاہتیں حاصل کرنے کےلئے الیکشن کو ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ تو سارا سال کام کرتی ہے جبکہ ہمارے ہاں ارکان اسمبلی صرف زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کے خواہش مند رہتے ہیں اور اپنے حلقوں کو راجو اڈے بنا کر رکھتے ہیں۔ ہمارے ارکان اسمبلی کی ذہنیت جاننا ہو تو موجودہ ایم این اے کی مثال موجود ہے جن کے بندوں نے سوئی گیس کے اعلیٰ عہدیدار اور ملازموں کی پٹائی کی جس پر گیس کے ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔ ارکان اسمبلی خود کو بادشاہ اور عوام کو اپنا نوکر یا غلام سمجھتے ہیں۔ مشترکہ اجلاس بلانا اچھی بات ہے لیکن صرف ایک ایشو کےلئے تو اس کا بلایا جانا ضروری نہیں یہ تو روٹین کے ا جلاس میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ مشترکہ اجلاس سے خطیر رقم خرچ ہوتی ہے جبکہ ہمارے یہاں صورتحال یہ ہے کہ 43 فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور بچوں کی بہت بڑی تعداد صرف خوراک نہ ملنے کے باعث مر جاتی ہے۔ ارکان اسمبلی ایوان میں صرف شکل دکھانے آتے ہیں یا وزرا سے کام نکوانے کےلئے آتے ہیں۔ مشترکہ اجلاس کے پہلے روز تو نواز شریف اور بلاول بھٹو کی موجودگی کے باعث بڑی تعداد میں ارکان اسمبلی موجود تھے لیکن اگلے دن صرف 72 اور تیسرے دن جب قرار داد منظور کی گئی 435 ارکان کے ایوان میں صرف 80 حاضر تھے۔ کیا یہ اتحاد کا پیغام ہے جو ہم بھارت کو دے رہے ہیں۔ قوم کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے مذاق ہو رہا ہے۔ عوام کے یہ نام نہاد نمائندے کروڑوں روپے خرچ کر کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں اور پھر دس گنا کماتے ہیں۔ خورشید شاہ کو کون اپوزیشن لیڈر سمجھتا ہے ان سے بھی پوچھتا ہوں کہ آپ کا کل کتنے ارکان ہیں اور کتنے حاضر ہوئے۔ مطالبہ کرتا ہوں اسمبلیوں کی کارروائی دکھانے پر پابندی ختم کی جائے تاکہ عوام اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ کتنے ارکان وہاں آتے ہیں اور کیاگل کھلاتے ہیں۔ اعتزاز احسن نے وزیراعظم کے کلبھوشن کا نام لینے پر 50 ہزار روپے بلائنڈ افراد کو دینے کا اعلان کیا وہ ایک بڑے وکیل ہیں انہیںاپنی حیثیت کے مطابق کم از کم 10لاکھ روپے کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ بلاول بھٹو جو کہتے ہیں اسے ماننا ہی پڑے گا۔ انہوں نے کشمیر میں جو نعرہ لگایا تھا کہ مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے شاید اس میںوہ نیپال، سری لنکا یا کسی اور ملک کے وزیراعلیٰ کی بات کر رہے ہونگے۔ بلاول بھٹو خاطر جمع رکھیں مائنس ون فارمولا ان پر لاگو نہیں ہوگا۔ ان کے بعد ان کے بچے بھی ہمارے حکمران ہونگے کیونکہ پاکستانی قوم کی قسمت میں صرف محکومی ہی لکھی ہے۔ بلاول کی اس بات سے اختلاف ضرور کروں گا کہ 2018ءمیں نواز شریف جیل میں ہونگے کیونکہ یہ روایت تو پاکستان میں موجود ہی نہیں ہے۔ آپ سب تو خود ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں پیپلز پارٹی ہو یا ن لیگ جے یو آئی ف ہو یا اچکزئی پارٹی ہر جگہ صرف وراثتی سیاست چل رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی بلاول بھٹو سے ملاقات دلچسپ خبر ہے۔ ناجانے کشمیر کمیٹی کے سربراہ نے نوجوان رہنما کو کشمیر کے حوالے سے اپنی خدمات پر کیا بریف کیا ہوگا۔ مولانا کی صلاحیتوں کا معترف ہوں۔ سیاست میں بہترین فوائد حاصل کرنا ان پر ختم ہے۔ سیاست میں آنے کی خواہش رکھنے والوں کو انہیں رول ماڈل بنانا چاہیے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ کینیا میں مصنوعی خانہ کعبہ کی خبر بہت تشویشناک ہے جس پر عوام کے بہت فون اور خط ملے رہے ہیں۔ حامیوں کی تربیت کےلئے کوئی چھوٹا ماڈل بنانا تو ٹھیک ہے لیکن کینیا میں مصنوعی خانہ کعبہ اور دیگر مقامات مقدسہ کو ہو بہو بنانا اور حاجیوں کا طواف کرنا بڑا خوفناک اور تشویشناک معاملہ ہے۔ یہ تو کفر کے مترادف ہے کیونکہ دنیا میں خانہ کعبہ صرف ایک ہے۔ ماڈل کہہ کر بھی اتنی بڑی تعمیر کرنا غلط ہے۔ بلوچستان میں بھی زکری قبیلہ کے حوالے سے خبریں آتی رہتی ہیں کہ انہوں نے پہاڑوں میں مصنوعی خانہ کعبہ بنا رکھا ہے جہاں باقاعدہ حج کرایا جاتا ہے۔ ہماری اسمبلیوں میں بڑی تعداد میں علماءموجود ہیں لیکن کبھی ان معاملات پر اعتراض سننے میں نہیں آیا۔کینیا میں مصنوعی خانہ کعبہ کی تعمیر اور اس کے گرد طواف پر معاملہ انتہائی اہم شرعی اعتبار سے اس کی قطعی اجازت نہیں، امت مسلمہ احتجاج کرے، سعودی عرب کینیا حکومت سے جواب طلبی کرے۔ کینیا کے سفارتکار نے ویڈیو کو جھوٹ قرار دیا، مقصد کینیا کے مفادات کو نقصان پہنچانا اور وہاں کے مسلمانوں بارے غلط فہمیاں پیدا کرنا بتایا ہے۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر منظور ملک نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کینیا کے سفارتکار نے سرکاری بیان جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کینیا میں مصنوعی خانہ کعبہ جیسا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے۔ اس مہم کا مقصد کینیا کے مفادات کو نقصان پہنچانا ا ور وہاں کے مسلمانوں بارے غلط فہمیاں پھیلانا ہے۔ ویڈیو میں دکھائے گئے مصنوعی خانہ کعبہ کے گرد موجود لوگ یا سکیورٹی اہلکاروں کا کینیا سے کئی تعلق نہیں ہے۔ اس سال کینیا کے 6ہزار لوگ مکہ میں حج کر کے واپس لوٹے ہیں۔ عالم دین مولانا راغب نعیمی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کینیا میں جس طرح کی خانہ کعبہ کی شبیہہ بنائی گی ہے اور اس کا طواف کرایا جا رہا ہے اس ویڈیو میں غور کیا جائے تو وہاں سپاہی اور فوجی بھی کھڑے نظر آرہے ہیں جو نگرانی یا حفاظت کر رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ شرعی اعتبار سے اس طرح کے معاملہ کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ تعلیم و تربیت دینا مقصد ہو تو چھوٹا ماڈل بنا کر مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے پر مسلم امہ کو کینیا سے احتجاج کرنا چاہےے۔ سعودی عرب کو اس کا نوٹس اور کینیا حکومت سے جواب طلب کرنا چاہیے۔ اس معاملہ پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تاکہ دنیا میں کہیںبھی ایسے معاملات کو روکا جا سکے۔ بلوچستان میں بھی زکری قبیلہ نے پہاڑوں کے درمیان خانہ کعبہ بنا رکھا ہے جہاں طواف کرایا جاتا ہے۔