All posts by Daily Khabrain

خرابی جمہوریت میں نہیں‘ لیڈرشپ میں ہے

خیر محمد بدھ
اس وقت ملک میں صدارتی نظام حکومت لانے کی بحث چل رہی ہے بہت سے سیاسی افلاطون اور ارسطو صدارتی اور پارلیمانی نظام کے حق اور مخالفت میں بیان بازی کر رہے ہیں رضا ربانی صاحب نے تو باقاعدہ سینٹ آف پاکستان میں ایک قرار داد صدارتی نظام کے خلاف منظور کروائی ہے۔ پولیٹیکل سائنس کے طالب علم جانتے ہیں کہ یہ دونوں نظام جمہوری ہیں دونوں کے فوائد یکساں ہیں، تاہم ہر ملک اور قوم اپنے معروضی، سیاسی اور سماجی حالات کے پیش نظر ایک نظام کا انتخاب کرتا ہے۔دنیا کے بہت سے ممالک امریکہ، فرانس، روس وغیرہ میں صدارتی نظام ہے جبکہ کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ وغیرہ میں پارلیمانی نظام کام کر رہا ہے۔ 2017ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 206 ممالک میں سے 159 ممالک میں صدارتی نظام قائم ہے جبکہ دنیا کے ایسے ممالک بھی ہیں جن میں نہ صدارتی نظام ہے نہ پارلیمانی بلکہ جمہوری نظام حکومت ہی نہیں ہے ان میں چین، نارتھ کوریا، کیوبا، لاؤس،ویتنام، برونائی، بحرین، مناکو، اردن، کویت، سعودی عرب وغیرہ شامل ہیں ان ممالک میں سیاسی اور سماجی نظام بہت ہی خوبصورت طریقے سے کام کر رہا ہے اور کسی قسم کا سیاسی خلفشار نہیں ہے تعمیر و ترقی کا عمل بھی جاری ہے۔
ہمارے ملک میں آزادی کے وقت برطانوی جمہوریت کے ماڈل پر طرز حکومت کی بنیاد رکھی گئی جمہوری نظام انتہائی کمزور اور سازشوں کا شکار ہوتا چلا گیا پھر 1962ء میں بنیادی جمہوریت کا نظام قائم ہوا ملک میں جمہوریت کے نام پر کئی تجربے ہوئے جن میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی،اسلامی سوشلزم، صدارتی نظام، اسلامک ڈیمو کریسی، پارلیمانی نظام وغیرہ پر عمل ہوا۔ سیاسی نظام کے نت نئے تجربات نے عدم استحکام کے علاوہ اداروں کو کمزور کیا لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کیا اور آج 72 سال گزرنے کے بعد بھی ہم نئی جمہوری روایات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کی ہے کہ نظام کوئی بھی ہو وہ نہ تو مکمل خامیوں سے مبرا ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں سب اچھائیاں ہوتی ہیں۔ سسٹم اتنا برا نہیں ہوتا۔اصل مسئلہ سیاسی قیادت کا ہے۔ ان لیڈران کا ہے جو اس نظام کو چلاتے ہیں جو ریاستی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں ان میں پارلیمنٹ انتظامیہ اور عدلیہ کے طاقتور ترین لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں اقتدار ہوتا ہے اگر یہ لیڈر ان محب وطن اور ایماندار ہوں گے تو جو بھی نظام ہوگا وہ صحیح سمت میں چلتا رہے گا اور اگر لیڈر کرپٹ،نااہل اور بے ایمان ہونگے تو پھر آپ جو نظام بھی لائیں وہ صحیح طور پر کام نہیں کرے گا۔ اس نظام کی کامیابی یا ناکامی کا ذمہ دار سیاسی لیڈر،صاحبا ن اقتدار اور لیڈرشپ ہے لہٰذا سب سے پہلے ان کی اصلاح کی طرف توجہ دی جائے۔ میرے خیال میں اگر ہم اپنے سیاسی نظام میں صرف تین اصلا حات لاگو کرلے تو ہمارا ہر نظام کامیابی سے چلتا رہے گا۔ سب سے پہلے ہم انتخابی اصلاحات Electoral Reformsکریں۔ جن میں سیاسی جماعتوں کے قیام،ان کے اندرونی انتخابات، ان کی فنڈنگ وغیرہ سے لے کر امیدواروں کی اہلیت، تعلیمی قابلیت،انتخابی مہم کا ضابطہ اخلاق، الیکشن کے انعقاد، ووٹ کی گنتی اور نتائج کے اعلان تک تمام امور پر متفقہ لائحہ عمل بنایا جائے۔ جب تک چھانگامانگا کی سیاست، ڈسکہ کا الیکشن اور ووٹوں کی خریداری جاری رہے گی اس وقت تک نہ صدارتی نظام چل سکتا ہے اور نہ ہی پارلیمانی نظام۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگتے ہیں ہارنے والے ٹربیونل اپیل کرتے ہیں۔ اسمبلی کی مدت پوری ہو جاتی ہے۔ لیکن ان کا فیصلہ اس وقت تک نہیں ہوتا۔ اس طرح ملک میں چپڑاسی بھرتی ہونے کے لئے بھی تعلیمی قابلیت کی حد مقرر ہے لیکن ممبران پارلیمنٹ کے لئے کوئی تعلیمی شرط نہیں ہے۔ وہ ممبران جن کا بنیادی کام قانون سازی ہے اور وہ بھی انگریزی میں کیوں کہ پارلیمنٹ کے تمام ایکٹ ہو یا آرڈی نیس سبھی انگریزی میں جاری ہوتے ہیں۔بجٹ بک بھی انگریزی میں ہوتی ہے اگر ممبران تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے تو پھر وہ بحث میں کس طرح حصہ لیں گے۔ ملک کے سیاسی نظام میں خرابی اس حدتک چلی گئی ہے کہ جعلی ڈگری والے اسمبلی میں پہنچ گئے ہیں اور ایسے لوگوں کو صرف نااہلی کی سزا ملی ہے اور وہ بھی محدود مدت کے لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے لوگوں کو عبرت ناک سزا ملتی اور وہ ہمیشہ کے لئے نااہل ہوتے تاکہ پارلیمنٹ جیسے مقدس ادارے میں ایسے لوگوں کا ہمیشہ کے لئے داخلہ بند ہو جاتا۔ دوسری اہم بات جو سیاسی نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے ضروری ہے وہ ملک میں پولیس کا کردار ہے۔جمہوریت کے نام پر لوگوں کو غلام بنایا جا رہا ہے الیکشن کے دن ہو یا عام حالات طاقتور لوگ پولیس کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اپنے مخالفین پر جھوٹے مقدمات بناتے ہیں ان پر تشدد اور پولیس مظالم کے ذریعے انہیں اپنے ساتھ ملاتے ہیں اس میں پولیس کا قصور نہیں ہے۔
جب سیاسی لوگوں کے کہنے پر تبادلے اورتعیناتیاں ہوں گی۔ تو میرٹ پر کیسے کام ہوگا ہر حکومت نے پولیس اصلاحات کا وعدہ کیا۔ پی ٹی آئی نے بھی پولیس ریفارمز کا اعلان کیا۔ لیکن آج تک وہی پرانا نظام چل رہا ہے۔ سیاسی لوگ پولیس کو بلدیاتی الیکشن سے لے کر قومی انتخابات تک استعمال کرتے ہیں لوگ غربت کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں اگر جھوٹے مقدمات کے ذریعے لوگوں کی وفاداریاں خریدی جا رہی ہیں۔ انتخابی نتائج تبدیل ہو رہے ہیں۔بیلٹ بکس تک چوری ہورہے ہیں۔ تو اس میں پارلیمانی نظام کا قصور نہیں ہے بلکہ صورتحال کے ذمہ دار لیڈران اور برسراقتدار طبقہ ہے جس کا احتساب ہونا چاہیے۔ نظام کی بہتری کے لئے تیسرا اہم قدم کریمنل جسٹس سسٹم میں تبدیلی لانا ہے ہمارا نظام کرپٹ اور بوسیدہ ہو چکا ہے پورے ملک میں ایک بندہ آپ کو نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ ملک میں فوری اور سستا انصاف مل رہا ہے یا میرٹ پر فیصلے ہو رہے ہیں۔ خود وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں دو قوانین ہیں ایک قانون طاقتور کے لئے اور دوسرا غریب لئے۔جب تک قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی میرٹ پر فیصلے نہیں ہونگے انصاف سستا اور فوری طور پر دستیاب نہیں ہوگا اس وقت تک ظلم اور زیادتی جاری رہے گی۔ خوا ہ ملک میں پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی۔عدلیہ ریاست کا اہم ستون ہے قانون اور آئین کی تشریح اور اس پر عمل درآمد کی ذمہ دار ہے مغربی جمہوریت کی کامیابی میں آزاد اور خودمختار عدلیہ کا زبردست کردار ہے۔
ہم نے 72 سال میں تمام نظام اپنا ئے ہیں۔ جمہوریت کی تمام اقسام کو آزمایا ہے لیکن ہم نے سبق حاصل نہیں کیا ہمارے ملک کے تمام مسائل کے ذمہ دار ہمارے لیڈر ہیں ہماری قیادت ہے اور صاحب اقتدار سیاسی لوگ اور آئینی اداروں کے سربراہ ہیں ہر نظام میں خامیاں اور خوبیاں ہیں لیکن اصل کمال تو نظام کو چلانے والوں کا ہے۔سڑک کتنی خراب ہو گاڑی میں کتنا نقص ہو۔ اگر ڈرائیور سمجھدار اور ذہین ہو تو وہ منزل تک پہنچنے میں ضرور کامیاب ہو گا۔ ہمارے لیڈر خلوص دل سے انتخابی اصلاحات،پولیس ریفارمز اور کریمنل جسٹس سسٹم میں بہتری پر متفق ہوجائیں۔ آئین اور قانون کی پاسداری کو وطیرہ بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ملک میں جمہوریت مضبوط نہ ہو لیڈرشپ کی تبدیلی نظام کی تبدیلی سے زیادہ اہم ہیں سیاسی جماعتیں اور لیڈران اپنی سوچ تبدیل کریں پھر نظام صحیح کام کرے گا۔ بقول علامہ اقبال
مجھے را ہ زنوں سے گلہ نہیں
تیری رہبری کا سوال ہے
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ

طارق ملک
جب سے عمران خان کی حکومت بنی ہے اپوزیشن کے خلاف کڑے احتساب کا نعرہ لگایا جا رہا ہے اور اپوزیشن کی طرف سے عمران خان کی حکومت گرانے کے دعوے کئے جارہے ہیں دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے غریب عوام کے مسائل میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔
عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی میڈیا سے گفتگو میں اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے اور مل کر عوامی مسائل حل کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر اپوزیشن نے عمران خان کی قومی اسمبلی میں پہلی تقریر کے دوران ہلڑ بازی کرکے عمران خان کو الگ راستہ اپنانے پر مجبور کیا جس پر عمران خان نے اپوزیشن کے ساتھ نہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا جس کا سب سے زیادہ نقصان ملک کے غریب عوام کو ہوا جن کے مسائل جب سے لے کر اب تک جوں کے توں ہیں بلکہ ان میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ نوازشریف اور مریم نواز کی سزاؤں کے بعد شہبازشریف، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف دائرہ کردہ مقدمات کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ چیئرمین نیب کو چاہیے کہ وہ بروقت ان کیسز کے چالان احتساب عدالتوں میں بھجوانے کا بندوبست کریں تاکہ ان مقدمات کے فوری فیصلے ہوسکیں اور دودھ کا دودھ پانی کا پاین ہو جائے۔ جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے اپوزیشن عوامی مسائل کے حل کے لئے تجاویز دینے کے بجائے عمران خان کی حکومت گرانے پر زور لگا رہے ہیں جبکہ اپوزیشن کا اصل مقصد حکومت کو عوامی مسائل کے حل کے لئے تجاویز دینا ہوتا ہے۔
حکومتی ارکان بھی عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے اپوزیشن اور متحدہ اپوزیشن کے خلاف باتیں کرنے پر مامور ہیں۔ میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی 80فیصد سے زیادہ وقت اور جگہ سیاسی مضامین اور گفتگو کو دی جا رہی ہے جوکہ عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں صرف الیکشن کے دنوں میں میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر سیاسی امور کو کوریج دی جاتی ہے۔ پاکستان میں روزانہ ٹاک شو پر سیاسی گفتگو ہوتی ہے جبکہ تعلیم، صحت اور دیگر امور کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ غریب عوام کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اپوزیشن اور متحدہ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ حکومت کو اس کی آئینی مدت مکمل کرنے دیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کے بجائے عوامی مسائل کے حل کی طرف توجہ دے۔ ملک میں اس وقت گڈگورننس کا فقدان ہے۔ صرف چند لوگ اور ضلعی انتظامیہ کے افسر ہیں جو دن رات عوامی مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہیں۔ ڈپٹی کمشنر لاہور نے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سونے والے ان لوگوں کو جو پناہ گاہوں میں نہیں جاتے کمبل، رضائیاں اور گرم کپڑے تقسیم کئے اور پناہ گاہوں میں جانے والے غریب لوگوں میں بھی گرم کپڑے تقسیم کئے جوکہ ایک احسن اور قابل تقلید کام ہے۔ اسی طرح ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ روزانہ ڈینگی اور کرونا کے مریضوں کو سہولیات بہم پہنچانے، شہر سے تجاوزات کے خاتمے، گراں فروشوں کے خلاف کارروائیاں اور پناہ گاہوں کی چیکنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کمشنر گوجرانوالہ بھی عوامی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوئے بڑھ چڑھ کر عوام کی خدمت میں مصروف ہیں۔
ہمارے مذہب نے سب سے زیادہ زور عوامی خدمت پر دیا ہے بنی نوع انسان کے لئے آسانیاں پیدا کرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔ ہمارے پیارے نبیؐ کی مستند حدیث ہے جوکہ حضرت علیؓ سے مروی ہے آپؐ نے فرمایا کسی مریض کی عیادت کرنے والے کے لئے 70 ہزار فرشتے اُس کی مغفرت کے لئے دعا کرتے ہیں۔ اسی طرح حدیث پاک ہے جس نے ایک شخص کو قتل کیا اُس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔ ہمارے سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ان کو ذاتی پسند اور ناپسند کو پس پشت ڈال کر عوامی مسائل کے حل کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
عوام تو بے بس ہیں شاید ان کا محاسبہ نہ کرسکیں لیکن ایک دن ان کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور عوام سے کی گئی زیادتیوں کا جواب دینا ہے۔ ہمارے بڑے سیاستدانوں جن میں نوازشریف، عمران خان، آصف علی زرداری، شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمن شامل ہیں پاکستان میں اوسط عمر سے دگنی زندگیاں گزار چکے ہیں کسی بھی وقت کسی کا بُلاوا آسکتا ہے اس لئے تمام اختلافات کو بھلا کر ذاتی پسند اور ناپسند کوت رک کرکے تنقید برائے تنقید ختم کرکے عوامی خدمت میں شامل ہو جانا چاہیے۔ سیاست اگر صحیح طرح سے کی جائے تو یہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے سیاست میں سب سے اہم عوامی خدمت ہوتی ہے جس شخص میں عوامی خدمت کا جذبہ نہیں ہے اسے سیاست میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں۔
پاکستان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں جس میں آئل، گیس، کوئلہ، معدنیات، اجناس اور پھل شامل ہیں سے مالامال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وبائی امراض سے بھی کافی حد تک بچا کر رکھا ہے۔ کرونا کی وجہ سے دنیا میں بہت زیادہ نقصان ہوا ہے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان میں اس وباء سے کم نقصان ہوا ہے۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ عمران خان کو ان کی حکومت کے پانچ سال مکمل کرنے دیں کیونکہ تقریبات چار سال کا عرصہ سیاسی خانہ جنگی میں ضائع ہوچکا ہے اگر عمران خان اپنے بقایا ایک سال میں عوامی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو عوام ان کو دوبارہ بھی ووٹ دیں گے اگر عوام نے ان پر دوبارہ اعتماد نہ کیا تو عوام کسی اور کا انتخاب کرلیں گے۔
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭

جسٹن ٹروڈو۔ اسلامو فوبیاکے خلاف مؤثر آواز

کنور محمد دلشاد
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے امت مسلمہ کی ترجمانی کرتے ہوئے اسلامو فوبیا ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے ایک خصوصی نمائندے کو مقرر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وزیراعظم ٹروڈو کا کہنا ہے کہ کینیڈا کو اس نفرت انگیز عمل کو مکمل طور پر روکنے اور اپنی قوم کو ایسے اسلامو فوبیا کے عناصر سے مسلمانوں کیلئے محفوظ بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس سے بیشتر روسی صدر پیوٹن نے کہا تھا کہ نبی اکرم ؐ کی توہین آزادی اظہار رائے نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کینیڈا کے وزیراعظم کی جانب سے اسلامو فوبیا کے انسداد کے خصوصی نمائندے کے ارادے کا خیرمقدم کیاگیا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو کی جانب سے اسلامو فوبیا کی صریح مذمت اور دور حاضر کی اس لعنت کے انسداد کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جسٹن ٹروڈو کی اس بروقت ترغیب میں اس دعوت کی باز گشت ہے جو امت مسلمہ اس کے خاتمے کیلئے بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھا رہی ہے۔ وزارت خارجہ پاکستان اور وزیراعظم کے آئینی و قانونی ماہرین کو ادراک ہونا چاہیے کہ کینیڈا کی پارلیمنٹ میں ٹروتھ کمیشن کے قیام سے اس طرح کے نفرت انگیز اسلامو فوبیا کے تدارک کیلئے بڑا اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ٹروتھ کمیشن ایسے حساس نوعیت کے معاملات کا بڑی گہری نظر سے ریسرچ کرکے پالیسی مرتب کرکے قانون سازی کرتا ہے۔ میں نے جون 2007ء میں کینیڈا کے سرکاری دورے کے دوران ٹروتھ کمیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیا تھاکہ اسلامو فوبیا کے انسداد کیلئے ٹروتھ کمیشن کی طرف ریفرنس بھجوانا چاہیے۔
کینیڈا کے سرکاری دورے کے دوران کینیڈا کے چیف الیکشن کمشنر نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹروتھ کمیشن کینیڈا کے عام انتخابات میں نفرت انگیز مہم چلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ امر اسی ٹروتھ کمیشن کی بدولت کیوبک میں علیحدگی پسندوں کا ہمیشہ کیلئے تدارک ہوگیا۔ ٹروتھ کمیشن کی بدولت ہی کینیڈا کی وحدت برقرار ہے۔ کینیڈا سے واپسی کے بعد میں نے جو رپورٹ صدر مملکت جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کو بھجوائی تھی اور ٹروتھ کمیشن کے قیام پر زور دیا تھا۔وزیراعظم شوکت عزیز نے ٹروتھ کمیشن قیام کرنے کے لئے سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیرحسین کوریفرنس بھجوادیاتھا۔ اس دوران چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی بحالی کی تحریک سے معاملہ داخل دفتر ہوگیا اور ٹروتھ کمیشن کے اغراض ومقاصد جاننے کیلئے کینیڈا سے ریکارڈ بھی منگوایا گیا اور بینظیر بھٹو اور نوازشریف کی واپسی کی راہ ہموار ہوگئی۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے صدر پرویز مشرف کو وکلا تحریک کے ذریعے بے بس، مجبور اور حکومت کی گرفت سے محروم کردیا تھا۔
دراصل سابق چیف جسٹس کی آڑ میں پاکستان کے مقتدر حلقوں نے جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی منصوبہ بندی کرلی تھی جس سے صدر مشرف کے ایوان صدر کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل حامد جاوید 3نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے روز ہی مستعفی ہوگئے پاکستان میں جو ہنگامہ آرائی نومبر 2007ء میں شروع ہوئی جسے کینیڈا کی نائب وزیر خارجہ نے کینیڈا کے دورے کے دوران ہمیں بتادیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے دن پورے ہوچکے ہیں اور عالمی مقتدرہ نے افغانستان کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ صدر پرویز مشرف کی ڈبل گیم سے کینیڈا اور امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک ان سے نالاں ہیں لہٰذا آئندہ انتخابات میں ان کی سرکاری پارٹی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ کینیڈا نے کیوبک کے مسئلہ کو لسانی فسادات سے محفوظ رکھنے کیلئے پارلیمنٹ میں لینگویج کمیشن بنایا ہوا ہے۔ اس کمیشن کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ کیوبک ریاست یا صوبہ میں غیرملکی مداخلت پر گہری نظر رکھنی ہے اور کیوبک کو ریاست میں انگلش بولنے کی اجازت نہیں ہے وہاں پر فرانسیسی زبان سرکاری طور پر بولی جاتی ہے۔ اس طرح کینیڈا میں کیوبک اور کینیڈین انگلش اور فرانسیسی زبان مساوی طور پر بول چال کرتے ہیں جہاں توازن بگڑے تو لنگویج کمیشن اثرانداز ہوتا ہے۔
میں نے اپنی رپورٹ میں وزیراعظم شوکت عزیز کو تجویز دی تھی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں بھی کینڈین طرز کا کمیشن بنایا جائے اور پاکستان کی تمام صوبائی زبانوں کو مساوی حقوق دے کر فیڈریشن کو مضبوط بنایا جائے۔ میں نے یہی رپورٹ صدر مملکت پرویز مشرف کو بھی بھجوائی تھی‘ انہوں نے بھی اس رپورٹ پر رائے حاصل کرنے کیلئے چیئرمین سینٹ میاں محمد سومرو کو بھجوا دی تھی لیکن اس دوران 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی سے ملک میں بے چینی کی مہم شروع ہوگئی اور بینظیر بھٹو کی آمد اور نوازشریف کی جدہ سے واپسی پرملک میں انتخابی عمل کاآغاز ہوگیا۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭

عدم اعتماد کی سیاست اور حکومت کا مستقبل؟

ملک منظور احمد
ملک میں سیاسی گہما گہمی بڑھتی چلی جا رہی ہے،ایک جانب اپوزیشن جماعتیں جو ڑ توڑ کی کوششوں میں مصروف ہیں تو دوسری جانب حکومت بھی جوابی وار کے لیے تیار بیٹھی ہے گزشتہ دنوں میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پا رٹی کی قیادت کے درمیان ہونے والی ملا قات نے سیاسی میدان میں ہلچل مچا دی ہے اور طرح طرح کی قیاس آرائیاں زیر گردش ہیں کہ آخر کس طرح اچانک دو بڑی جماعتوں کی قیادت تمام تر اختلا فات با لائے طاق رکھتے ہوئے ملا قات کرنے کے لیے اکٹھی ہوگئیں۔سابق صدر آصف زرداری نے حکومت کی اتحادی جماعت ق لیگ کے ساتھ ملا قات کی ہے اور چوہدری شجاعت اور پرو یز الہیٰ کو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے لیے منانے کی کوشش کی ہے جو کہ بظاہر نا کام ہو گئی ہے لیکن کہنے والے کہہ رہے ہیں ابھی کہانی کا اختتام نہیں ہوابلکہ ابھی تو کہانی کی شروعات ہوئی ہے۔بہر حال ایسا محسوس ہو رہا ہے اکہ اپوزیشن جماعتیں پہلی مرتبہ سنجیدگی کے ساتھ حکومت کو گرانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔حکومت بظاہر تو ان حالات میں پُر اعتماد نظر آرہی ہے لیکن محسوس ایسا ہو تا ہے کہ حالات کی تپش بہر حال حکومت کو بھی محسوس ہو رہی ہے کیونکہ انھوں نے بھی گزشتہ روز اپنی سینٹرل ایگز یکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر میں بڑے جلسے کرنے اور عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
مارچ کے مہینے کو سیاسی طو رپر بہت اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور پیپلز پا رٹی اور پھر پی ڈی ایم کے لانگ مارچ بھی اس حوالے سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔لیکن معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں جتنے نظر آتے ہیں۔پی ڈی ایم کے اندر کی صورتحال ابھی تک پیچیدہ ہے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا گرین سگنل تو دے دیا ہے،لیکن اگر حکومت کے اتحادی نہیں مانیں گے تو تحریک اعتماد کامیاب کیسے ہو گی یہ سوال اہم ہے؟ تحریک عدم اعتماد لا کر وزیر اعظم کو گھر بھیجنا اتنا آسان کام نہیں ہے جتنا کہ اپوزیشن سمجھ بیٹھی ہے اور نہ ہی حکومت ابھی تک سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے گرین سگنل کے مرحون منت اقتدار میں موجود ہے۔
بہر حال اس حوالے سے یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ مولا نا فضل الرحمان جو کہ پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں اور پیپلز پا رٹی سے خاصے خفا بھی ہیں وہ اس سارے عمل سے باہر نظر آتے ہیں اگرچہ لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف نے ان کو اعتماد میں لینے کے لیے ان سے رابطے کیے ہیں لیکن ان اہم ملا قاتوں میں مولانا کو شامل نہ کرنا ان کی مزید نا راضگی کا باعث بن سکتا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے بھی ملک بھر میں جلسوں اور عوامی رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔اور حالیہ دنوں میں پیپلز پا رٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان نے بڑے جلسے کیے ہیں،اپوزیشن کی یہی کوشش ہے کہ اپنے اپنے اعلان کردہ لا نگ ماررچز سے قبل حکومت مخالف مو مینٹم بنایا جائے جو کہ آخری ہلے سے قبل اپوزیشن کی مدد کر سکے۔ملک کی مجموعی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو کافی پیچیدہ نظر آتی ہے افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان کو سرحد پر بھی مسائل کا سامنا ہے اور گزشتہ کچھ عرصے سے خصوصاً بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں مسلسل تیزی دیکھنے میں آرہی ہے اور ملک کے جوان ملک کی حفاظت کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں چین کا اہم دورہ مکمل کیا ہے اور اب اسی ماہ روس کے اہم دورے پر بھی جا رہے ہیں جو کہ یقینا بین الا ا اقومی سطح پر پاکستان کی مخالفت کا باعث بنیں گے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ اور مغرب جن کی آجکل روس کے ساتھ یو کرائن کے معاملہ پر شدید کشیدگی ہے وزیر اعظم کے اس دورے کو اچھی نظر سے ہمیں دیکھیں گے اس صورتحال میں ملک کے وزیر اعظم کے پاس اپنی پا رلیمان اور اپوزیشن کی حمایت ہو نا بھی بہت ضروری ہے اور اس سے حکومتیں اور وزیر اعظم تقویت حاصل کرتے ہیں۔ پارلیمان کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہی ہوتا ہے کہ حکومت یا وزیر اعظم پر آنے والے دباؤ کو اپنے اوپر لے اور حکومت کو سپیس مہیا کرے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں گزشتہ ساڑھے تین سال سے تو ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔یہ ملک کے لیے ایک آئیڈیل صورتحال نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں ہر شہر میں سیاسی حدت میں بلا شبہ اضافہ ہونے جا رہا ہے اور حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہوں گے۔ایسی صورتحال ہمیشہ حکومت کے لیے زیادہ مشکل ہوا کرتی ہے کیونکہ احتجاج اور لانگ مارچ کے دوران اگر کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ پیش آئے یا پھر پولیس کی جانب سے کوئی بھی کا رروائی کی جائے تو اس کا سارا ملبہ حکومت کے اوپر ہی آتا ہے۔اس لیے حکومت کو بھی چاہیے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کسی نہ کسی لیول پر رابطے کرے اور معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے روکا جائے لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ٹریک ریکا رڈ کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے ایسا کو ئی قدم اٹھایا جائے گا۔
جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے تو حکومت کے اتحادیوں کے بغیر تحریک عدم اعتماد کو کسی صورت کامیابی نہیں مل سکتی ہے اور اگر اپوزیشن کی جانب سے ایسی کوشش بغیر حکومتی اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر کی گئی تو قوی امکان ہے کہ اپوزیشن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس صورت میں اپوزیشن کی سیاست کو شدید دھچکا لگنے کا بھی امکان ہے،حکومت کے لیے ایک مسئلہ مہنگائی کا ہے جو کہ جوں کا توں برقرار ہے بلکہ مزید بڑھتا چلا جا رہا ہے،آئی ایم ایف کی نئی شرائط سامنے آئیں ہیں جن کے تحت حکومت کو مارچ تک بجلی اور ٹیکسوں کی شرح میں مزید اضافہ کرنا ہے جس کے باعث یقینا عوام کی مشکلا ت میں بھی اضافہ ہو گا اور حکومت پر عوامی دباؤ بھی بڑھے گا۔
بڑھتی ہو ئی مہنگائی اور آئی ایم ایف کی شرائط اپوزیشن کے لیے ایک اچھا موقع ہو سکتی ہیں کہ عوام کو حکومت کے خلاف سٹرکوں پر لایا جائے دیکھنا ہو گا کہ اپوزیشن اس موقع کا فائدہ اٹھا پائے گی یا نہیں۔بہر حال آنے والے چند ہفتے سیاسی طورپر بہت دلچسپ ہو نے جا رہے ہیں،اقتدار کی اس کشمکش میں جیت کس کی ہو گی شاید اس بات کا جواب ہمیں مارچ کے آخر تک مل جائے گا۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

درسگاہ سے تربیت گاہ کا سفر

ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔مجھے اس ادارے میں جانے کا اتفاق 1985ء میں پہلی دفعہ ہوا تھا۔ جب میرے بڑے بھائی وہاں پر ایم اے تاریخ کے طالب علم تھے۔ یہ ضیاء الحق کا دور تھا اس لئے ڈسپلن کے حوالے سے بہت سختیاں تھیں۔ طلبہ سیاست پر مکمل طور پر پابندی تھی لیکن طلبہ کونسلز کو فروغ مل رہا تھا جس سے نظریات دم توڑ رہے تھے اور علاقائی تعصب کو فروغ مل رہا تھا۔ اس ادارے کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات پاکستان میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
چند دن پہلے ہمارے دوست ڈاکٹر مظہر حیات چیرمین شعبہ انگریزی نے مجھے کہا کہ ہمیں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد جانا ہے آپ تیار ہو جاو۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا نام سنا تو میرے ذہن میں موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ کی شخصیت گھومنے لگی۔ میں نے زندگی میں ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ بہت خوب صورت شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا طرز حکمرانی بہت ہی مختلف ہے۔ وہ ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے، کسی کو بے جا تنگ نہیں کرتے، کام کرنے والے لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں، صوفیائے کرام کی تعلیمات سے خاص شغف رکھتے ہیں، وائس چانسلرز میں وائس چانسلر ہیں اور دوستوں میں دوست، کلچر کو فروغ دینے والے انسان ہیں۔ جب وہ گورنمنٹ کالج یونورسٹی فیصل آباد میں وائس چانسلر تھے تو انہوں نے میری بڑی سرپرستی کی۔ مجھے کام کرنے کا موقع دیا۔ میں نے ان کے ساتھ بطور پبلک ریلشنز آفیسر کام کیا۔ جس طرح ہر انسان کے حاسدین ہوتے ہیں اسی طرح مجھے بھی ہر دور میں ایسے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس وقت زیادہ افسوس ہوتا ہے جب دوست نما دشمن آپ کی زندگی میں داخل ہو جائیں اور اندر ہی اندر سے آپ کی جڑیں کاٹنا شروع کر دیں۔ ایسے لوگوں کی کوششوں سے میرے اور ڈاکٹر محمد علی شاہ کے درمیان کچھ غلط فہمیوں نے جگہ لے لی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے چہروں سے غلاف اترنے شروع ہو گئے اور وہ بے نقاب ہوتے گئے۔ خدا انسان کو بے نقاب ضرور کرتا ہے بس کچھ وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ان ساری باتوں کے باوجود ڈاکٹر محمد علی شاہ نے کبھی بھی انتقامی کاروائی کا عملی مظاہرہ نہیں کیا۔ ڈاکٹر مظہر حیات، خالد حسن اور میں نے اسلام آباد کا رخ کیا۔ میرے ہم سفر بہت خوبصورت انسان تھے اس لئے سفر کا احساس ہی نہیں ہوا۔ دوران سفر سیاست پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، تصوف کی باریک بینیوں زیر بحث آئیں، لٹریچر پر بات ہوئی اور ہم اسلام آباد پہنچ گئے۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ کے لئے ہی شاعر نے کہا تھا کہ جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی میں محفل مشاعرہ کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ قومی سطح کے شاعر اپنا کلام پیش کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا اور ہم خوب شعر و شاعری سے لطف اندوز ہوئے۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی تاریخ میں یہ پہلا اتنا بڑا مشاعرہ تھا۔ میں چونکہ تاریخ کا طالب علم ہوں اس لئے تاریخ کی تلاش میں رہتا ہوں۔ میں نے پروگرام دیکھ کر اندازہ لگایا کہ محمد علی شاہ کا شمار ان لوگوں میں ہے جو تاریخ میں اپنا نام لکھوانا جانتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بطور وائس چانسلر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کو بھی ایک نئی پہچان دی۔ ایک خوبصورت مسجد کی تعمیر کروا چکے ہیں، طلبہ و طالبات کے اندر قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لئے ان کی کاوشیں قابل تعریف ہیں، کئی نئے تعلیمی پروگرام شروع کئے گئے ہیں جن میں شعبہ انگریزی، ماس کمیونیکیشن، فزیکل ایجوکیشن کا قیام قابل ذکر ہے۔ طلبہ سیاست کو تشدد سے پاک کرنے کے لئے ان کو تعلیمی و ادبی سرگرمیوں میں مصروف کرنے ویثرن بھی قابل تعریف ہے۔ طلبہ و طالبات کی رہائش کا یونیورسٹی کو بہت بڑا مسئلہ درپیش تھا، وائس چانسلر صاحب نے نئے ہاسٹل کی تعمیر سے اس مسلے کو حتی الامکان حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا پرامن ماحول دیکھ کر ایسا لگا کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے ایک اور دوست اعجاز الحسن کی بدولت ہمیں سینٹ کا اجلاس بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ سیاست دانوں کی قومی معاملات پر سنجیدگی کا بھی احساس ہوا کہ ہمارے لیڈر اجلاس میں کتنی سنجیدگی سے قومی معاملات پر بات کرتے ہیں۔ اعجاز الحسن کی مہمان نوازی نے میرے دونوں دوستوں کو بہت متاثر کیا۔ اس سارے سفر میں ہمیں جس چیز نے سب سے زیادہ تنگ کیا وہ خالد حسن صاحب کا فون تھا۔ لیکن ان کی محبت اتنی شامل حال رہی کہ فون کا بار بار بجنا بھی ہمارے خوشگوار ماحول کا متاثر نہ کر سکا۔ جس چیز نے ہمارا ساتھ نہیں دیا وہ دن کی روشنی تھی۔ جب روشنی اندھیرے میں ڈھلنے لگی تو ہم نے اسلام آباد کی خوبصورت یادوں کو اپنے ساتھ لیا فیصل آباد کا رخ کیا۔ کیونکہ محسن نقوی نے کیا خوب کہا ہے کہ شام ہو جائے تو محسن تم بھی گھر جایا کرو۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭

اہلِ کشمیر کی صحرانوردی

محمد صغیر قمر
جب کوئی قوم خود اپنی بقاکی جنگ سلیقے سے نہ لڑ سکے،اپنی آزادی کی کو یقینی بنانے کی جدوجہد کے لیے د وسروں سے امیدیں وابستہ رکھے تومنزلیں یوں ہی کھو جاتی ہیں۔جیسے بنواسرائیل چالیس سال تک جہاد سے انکار کے بعد صحرانوردری کی سزا بھگتتے رہے۔
جموں کشمیر پون صدی سے ایک غیراعلانیہ جنگ کی لپیٹ میں ہے۔جس میں لاکھوں انسان موت کی نیند سلا دیے گئے۔لاکھوں ہجرت پر مجبور کیے گئے۔ہزاروں بندی خانوں میں ڈالے گئے۔جائیدادیں تباہ اور گھر مسمار کر دیے گئے۔ظلم کی رات طویل ہوتی گئی اوراہل کشمیر ظلم کی متعین تاریخوں کے ”یوم“منانے پر راضی کر لیے گئے۔ تین نسلیں اپنی آزادی کو یقینی نہ بنا سکیں۔یہ مانا کہ کشمیر کے خمیر میں رزم آرائی کم رہی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ تیس برسوں میں کشمیریوں نے جبر کے سامنے سینہ سپر ہو کربھارت کے چھکے چھڑادیئے۔ اس جدوجہد کو ترک نہیں ہونا چاہیے،حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں،بھارت جوزبان سمجھتا ہے اسی میں بات کرنا،کشمیریوں کا مقدر بدل سکتا ہے۔دنیا کتنی ہی بدل جائے،طاقت کی زبان استعمال کرنے والے ہی سرخرو ٹھہرتے ہیں۔مطالبے،نعرے اور قرارادادیں اپنی جگہ لیکن اہل کشمیر نے اس پون صدی کی دو دہائیوں میں جو سبق بھارت کو سکھایا ہے وہی کارگر تھا اور رہے گا۔
پاکستان اور عالم اسلام سے ریاست کی آزادی کی مدد طلب کرنے والوں سے اب ریاست کے عوام پوچھ رہے ہیں کہ اگر وہ آزادی کے لیے خود کچھ نہیں کر سکتے تو دوسروں کو اس کا ذمہ دار کیسے قرار دے سکتے ہیں۔گزشتہ تیس برسوں سے ریاست کی کچھ ”قیادت“ آزادکشمیر اور پاکستان میں آ بسی ہے۔ الا ما شااللہ چند ایک کو چھوڑ کر یہ سب تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہاں ”مہمان“ کی حیثیت میں رہتے ہیں اور پورا پروٹوکول بھی مانگتے ہیں۔ یہ لوگ پاکستانیوں سے شکوے بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے ”کچھ“ نہیں کیا۔ اس ربع صدی میں ان کی دوسری نسل بھی جوان ہو کر’”اپنے اپنے“ گھروں میں منتقل ہو چکی ہے اور تیسری نسل کو خبر ہی نہیں کہ کشمیر بھی کوئی مسئلہ تھا یا ہجرت کا کرب بھی کوئی کرب ہوتا ہے۔یہ المیہ ہے اور اس کا شکوہ بھی اپنے آپ سے بنتا ہے۔
شیخ عبداللہ جیسا آدمی جس طرح ڈگڈی پر معصوم سادہ لوح کشمیریوں کو نچاتا تھا، پاکستان کی نشانیاں بتا کر محبت کی اداکاری کرتا تھا۔یکے بعد دیگرے اس کی اصلی اور معنوی اولاد نے جموں کشمیر کے عوام کے ارمانوں، آرزوؤں اور جذبات سے کھیلنا جاری رکھا اور کشمیری عوام ان کے وعدوں پر یقین کرتے رہے۔ یہ اداکار آج بھی ہمارے اندر زندہ ہیں اور ان کی اداکاری اب بھی باقی ہے۔ آج کا جموں وکشمیر جس انجام سے دوچار ہے،اس کو سمجھنے کے لیے کسی افلاطونی دماغ کی ضرورت نہیں۔ اس خطے کی قیادت چاہے وہ خود مختاری کے نظریے کی حامی ہے یا پاکستان سے الحاق کی متمنی یا آمریت کے تیار شدہ چار نکاتی پالیسی کی ترجمان، یہ سب افتراق اختلاف اور انتشار کی گہری خلیج کے آر پار کھڑے ہیں۔ حالیہ تحریک کے دوران ایک لاکھ سے زائد انسانوں کی قربانی اور ماضی کے چار لاکھ شہیدوں کا لہو دینے والے یہ لوگ جموں وکشمیر کے عوام کے ہی نہیں اپنے ضمیر کے سامنے بھی جواب دہ ہیں۔ کشمیریوں کے پاس اب دو ہی آپشن باقی ہیں۔ ایک یہ کہ جموں وکشمیر کی ”قیادت“ تمام تر اختلافات ختم کر کے آزادی اور صرف آزادی پر اتفاق کرلے۔ دوسرا یہ کہ قیادت کے منصب کو ترک کر کے کشمیری عوام کے کندھوں سے اتر جائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ کشمیر کے عوام اپنے مزاج کے عین مطابق ان کو اتار پھینکیں گے۔ آج جب ریاست جموں کشمیر کے مستقبل پر گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں ”قیادت“ کاسرد مہر ی دکھانا،کسی معجزے کا انتظار کرنا،جیلوں میں سڑتے،ہجرت کے راستے پر پڑے بے بس لوگوں اور شہیدوں کے ورثاء سے لاتعلق رہنا،سیادت کے ”تمغے“اور بغل کی بیساکھیاں چھین لے گا۔صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اگر ہماری موجودہ آر پارکشمیری قیادت اپنا کوئی رول ادا نہ کر سکی اور محض طفل تسلیوں پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کو احتجاجوں کی تصاویر بھیج بھیج کر بہلاتی رہی تو بہت جلد کشمیر کے اندر سے متبادل وہ لوگ اٹھیں گے جو اس جدوجہد کا دھارا بدل سکتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں گرم لوہے پر چوٹ لگانے کا وقت ایک ہی بار آتا ہے اور وہ چند لمحے ہی ہوتے ہیں۔یہ لمحے گزر رہے ہیں۔مقبوضہ جموں کشمیر میں ہماری اس سہل انگیزی کا شدید ترین ردعمل ہو سکتا ہے۔یہاں تک کہ محصور لوگ کسی ایسے ”سیٹ اپ“ پر اتفاق کر لیں جو خالصتاًمیدان کارزار سے تعلق رکھتی ہو اور”باہر“ بیٹھنے والوں کو ہمیشہ کے لیے باہر کردیں۔
ریاست کا ہر فرد آج قائدین سے سوالی ہے۔اس کی التجاؤں اور تمناؤں کا جواب ان میں سے کس کے پاس ہے؟قربانیوں، جراتوں اور ہمتوں کی لازوال داستان اس قیادت کے علاوہ اور کون جان سکتا ہے؟ اس لہو کی قدر کون پہچان سکتا ہے؟ جس کی اولاد ذبح ہو جائے، گھر بار لٹ جائے، وہ قاتل کے ساتھ کس قیمت پر صلح کے لیے تیار ہوں گے۔ وہ قاتل پر اعتماد اور دوستوں پر عدم اعتبار کا مظاہرہ کیسے کر سکتا ہے۔
(متعدد کتابوں کے مصنف‘شعبہ تعلیم
سے وابستہ اورسماجی کارکن ہیں)
٭……٭……٭

لتا منگیشکر سُروں کی دیوی

مریم ارشد
کیاسہانی روح تھی۔ لہروں کی دوش پر دنیا کے ہر خطے میں دلِ نادان کی وہ آواز عجیب داستانیں سناتی رہی۔ کبھی وہ آواز برہا کی سلی سلی راتوں میں جلتی رہی۔ تنہائی میں پریتم جہاں چلتا ہے اس سریلی آواز کا سایہ ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ اس مدُھر آواز میں کئی زندگیوں نے جینے کی تمنا کی اور مرنے کا ارادہ بھی کیا۔ سنگیت اور سُر بلا شبہ ربّ کی دین ہے۔ خدا نے بہت سخاوت سے لتا جی کو سنگیت کے سارے سُر عطا کیے تھے۔لتا جی کی آواز زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں فروری کے مہینے کی مست ٹھنڈی ہواؤں کی طرح دلوں کو چھو جاتی۔ چاندنی راتوں میں بیٹھ کر ”آجا صنم مدُھر چاندنی میں ہم“ سنتے ہوئے چاندنی واقعی مدُھر ہو جاتی ہے۔ گانے میں سانس کہاں چھوڑنی اور کہاں لینی ہے لتا جی کو اس پر ملکہ حاصل تھا۔ لتا جی اس صدی کی مہان گلوکارہ جو سادگی، عاجزی، بُردباری اور تحمل کا حسین امتزاج تھیں۔ سنگیت میں سُر نہ ہو تو وہ مر جاتا ہے۔
لتا کو خدا نے سُر جھولیاں بھر بھر کر سُچے موتیوں کی صورت میں دیا تھا۔ لتا منگیشکر فلموں کے کرداروں میں کھو کر گاتی تھیں۔ مینا کماری، نوتن، نرگس، سادھنا پر لتا جی کی آواز بہت سجتی تھی۔ لتا جی کے گیتوں سے محبتوں کے خواب دیکھنے والوں کے دلوں میں پُھول کھلنے کے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں۔ دل جب فرصت کے رات دن ڈھونڈتا ہے تو زندگی میں پیار کے نغمے شروع ہو جاتے ہیں۔ زندگی پھر تیری میری کہانی بن جاتی ہے تو ویرانوں میں بہار آ جاتی ہے۔ جس طرح پھول کی خوشبو کھلنے پر ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ لتا جی کی آواز بھی سُروں کی مدھر لہروں پر پھیل جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے سننے والوں کے سینوں میں عطر کی ٹھنڈک اترنے لگتی ہے۔ اپنے والد کی ڈرامہ کمپنی میں انہوں نے کم سنی میں ہی گانا شروع کیا۔ لتا جی کبھی سکول نہیں گئیں۔ لیکن بہت سی زبانیں انہوں نے گھر ہی میں سیکھیں۔ مراٹھی ان کی زبان تھی۔ لتا جی کی آواز میں نجانے کیا طلسماتی کھنک تھی۔ کون سی جھنجھناہٹ تھی کہ سُننے والا بے اختیار تھرکنے لگتا ہے۔اگر ان کا گانا دل تو پاگل ہے کی ریکارڈنگ دیکھیں تو سادہ سی لتا جی گا رہی ہیں۔ لیکن ان کی آواز کی کھنک ہر کسی کو تھرکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
دلیپ کمار لتا جی کو اپنی چھوٹی بہن مانتے تھے۔ 1947میں ان کی ملاقات انیل بسواس کے ساتھ ٹرین میں ہوئی۔ وہ لتا جی کے سامنے بیٹھے تھے۔ انیل بسواس نے دلیپ کمار سے کہا یہ لتا منگیشکر ہے۔ مراٹھی لڑکی ہے بہت اچھا گاتی ہے۔ دلیپ کمار صاحب نے کہا اچھا مراٹھی ہے تو مجھے اس کے اردو تلفظ پر تھوڑا شک ہے۔ ان کے اردو بولنے پر ایسا لگتا ہے جیسے دال چاولوں کی بُو آرہی ہو۔ لتا جی کو یہ بات بہت کھٹکی۔ پھر انہوں نے اپنے منہ بولے بھائی شفیع سے کہا کہ انہیں اردو سیکھنی ہے۔ وہ ایک مولانا جن کا نام محبوب تھا انہیں لتا جی کو اردو پڑھانے لے آئے۔ انہوں نے کہا اردو کے ساتھ غا لب، ذوق، میر تقی میر کو بھی پڑھنا شروع کرو۔ یوں لتا جی نے اردو پڑھنا سیکھی۔ لتا جی کو ”سُروں کی دیوی“ کا خطاب دیا گیا۔
برستی بارشوں، جھلملاتے ستاروں، چاندنی راتوں میں، بھیگتی برساتوں میں لتا جی کے سُر کلیاں بن کے یادوں کے باغِ وفا میں مہکا کریں گے۔ ان کے جتنے مداح بھارت میں ہیں اتنے ہی پاکستان میں بھی ہیں۔ ماسٹر غلام حیدر ان کے گرو تھے۔ تین نسلیں لتا جی کے گانوں کے طلسم میں پل کر جوان ہوئیں۔ لتا جی وہ پہلی عورت تھیں جنھوں نے گلوکار کو گانے کی رائلٹی دلوانے کی ابتدا کی۔ ”خوب صورت ہے تُو تو ہوں میں حسیں“ ”اچھا تو ہم چلتے ہیں“۔ کیا کیا خوب صورت گانے گائے ہیں انہوں نے۔ لتا منگیشکر بننا آسان نہیں۔ لتا جی نے کلاسیکل میوزک بہت گایا۔ لتا منگیشکر کو ”ایشیا کی کوئل“ بھی کہا جاتا تھا۔
لتا جی 14برس کی تھیں تو میڈم نور جہاں سے ہلا پور میں ایک شوٹنگ پر ملاقات ہوئی۔ لتا جی نے انہیں شاستری سنگیت سنایا۔ میڈم نور جہاں نے پوچھا کوئی فلمی گانا سناؤ۔ لتا جی نے سنایا تو میڈم نے کہا تم بہت دور تک جاؤ گی۔ میڈم نور جہاں کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔ لتا جی بھی میڈم کی پرستار تھیں۔ کسی گیت میں لتا جی جانے کیوں لوگ محبت کیا کرتے ہیں کا شکوہ کرتی ہیں تو ساتھ ہی لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو گاتی ہیں۔ کہیں ان کے پاؤں زمیں پر نہیں پڑتے تو کبھی ساون کے جُھولے جھولتی دکھائی دیتی ہیں۔ کبھی کبھی لتا جی کے دل میں خیال آتا ہے تو ایشور اللہ تیرو نام جیسا بھجن گلے کے سُریلے سُروں سے نکلتا ہے تو امر ہو جاتا ہے۔
گلزار صاحب کا کہنا ہے کہ لتا جی گانے کا جینڈر بدلنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔انہوں نے قصہ سنایا کہ ہیمنت کمار کے ساتھ ”ہم نے دیکھی ہیں ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو“ فلمانا تھا تو میں نے کہا کہ یہ جملہ تو کوئی لڑکا ہی کسی لڑکی کو کہہ سکتا ہے یہ لتا جی کیسے گا سکتی ہیں۔ ہیمنت کمار نے کہا یہ کمپوزیشن تو صرف لتاہی گائیں گی۔ گلزار صاحب کہتے ہیں پھر لتا جی نے یہ گانا گایا تو گانے کا جینڈر ہی بدل گیا۔ لتا جی نے جو گایا کمال گایا۔ لتا جی نے روایت کے مطابق شادی نہیں کی جبکہ شادی عورت کی زندگی کی بڑی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔ لتا جی نے ثابت کیا کہ ان کی روح صوفیانہ ہے۔ انہوں نے شیرنی کی طرح اپنے اندر کی جنگ لڑی ہوگی۔ باپ کے جانے کے بعد باپ بن کر نہ صرف اپنے بہن بھائیوں کو پالا بلکہ اپنی ماں کے اوپر بھی چھت مہیا کی۔ محبت کا سیاق و سباق دل سے جڑ تا ہے۔
لتا جی سراپا محبت تھیں۔ جب تک دل اور روح آپس میں گُھلیں گے نہیں تو گلے سے سچے سُر نہیں نکلیں گے۔ لتا جی نے گیتوں کے ایسے خزانے چھوڑے ہیں کہ وہ اپنے مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔لتا جی نے جب مغلِ اعظم کے لیے ”بے کس پر کرم کیجیے سرکارِ مدینہ“ گایا تو پتھر دل بھی پگھل گئے۔ نجانے خدا لتا منگیشکر کے گائے اس کلام کو کس معیار پر پرکھے گا۔ یہ رب ہی جانے کہ وہ تو بے نیاز ہے۔
(کالم نگارقومی وسماجی ایشوزپرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭

جوڈیشل اصلاحات

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
عدلیہ میں تمام کیسوں کی مکمل ویڈیو ریکارڈنگ ہونی چاہئے اور معمولی معمولی وجوہات پر اگلی تاریخ دینے کوئی موثر مداوا ہونا ضروری ہے۔ کیس جب عدالت میں زیر سماعت ہو تو اس پر میڈیا میں بے جا تبصرے اور کیس کو متاثر کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔ متعلقہ عدالت کسی بھی کیس میں اس کی میڈیا پر تشہیر روکنے کے احکامات جاری کر سکے۔ عدالتوں میں شہادت دینے والوں کی حفاظت اور ان کو کسی قسم کے نقصان سے بچانا ضروری ہے۔ اس کے لئے شہادت دینے والے افراد کو ویڈیو لنک video link سے شہادت اور جرح کی اجازت اور بندوبست ہونا ضروری ہے۔ عدلیہ نہ صرف قانون کا تحفظ کرے بلکہ اس سے بڑھ کے انصاف کریاور انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے۔انصاف کے رستے میں اگر قانون بھی حائل ہو تب بھی انصاف کو ترجیح دی جائے۔ جوڈیشری کی اپنی صفوں میں کسی قسم کی رشوت ستانی کو روکنا عدلیہ کا ہی کام ہے اور اس سلسلے میں سپریم جوڈیشل کونسل supreme judicial commissionاور ہائی کورٹس کے لیول پر ہائر جوڈیشل کمشن higher judicial commission فعال ہو اور اپنے ما تحت عدلیہ پر کڑی نظر رکھے۔ان دونوں کمشنرز commissions کے لئے بھی وقت کی حد مقرر کی جائے وہ اپنے فیصلے زیادہ سے زیادہ دو مہینے کے اندر مکمل کر کے سنا دیں۔
عدلیہ کو ضروری سروس قرار دے اس کے خلاف کئے جانے والے جرائم کے کیس سپیشل کورٹ یا اینٹی ٹیرورسٹ کورٹ یا ملٹری کورٹس میں چلائے جائیں تاکہ عدلیہ مکمل آزادی کے ساتھ قوم کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی یقینی بنائے۔ اگرچہ عدلیہ کے اوپر کوئی اور چیک check نہیں مگر گزشتہ کالموں میں قومی مشاورتی کونسل قائم کرنے کا کہا گیا ہے جس میں سپریم کورٹ کے دو سابق چیف جسٹس بھی ممبر ہیں، یہ قومی مشاورتی کونسل عدلیہ کو انصاف کی عدم فراہمی یا کوئی اور غیر معمولی حالات پیدا ہونے کی صورت میں ایڈوائزری جاری کر سکتی ہے جس پر عدلیہ کے لئے لازم ہو گا کہ اس کونسل کو مطمئن کرنے کے لئے عمل کرے یا کونسل کو تسلی بخش جواب دے۔
عدلیہ کا احترام اور عزت ہر صورت برقرار رکھنا اشد اہم ہے۔ آئے دن وکلا کی طرف سے یا کسی اور شخص کا خاص طور پر ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے احترام کو پا مال کرنا کسی صورت برداشت نہ کیا جائے اور ایسے اشخاص کو کڑی سزائیں دی جائیں۔عدلیہ ایک باوقار ادارہ ہے اور اس وقار کو برقرار رکھنے میں عدلیہ اپنا کردار اور کارکردگی سے بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ مندرجہ بالا چند تجاویز پر عمل کرکے پاکستان میں عدلیہ اور عوام میں اعتماد اور عزت کا بہترین معیار قائم کیا جا سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر سطح پر جج صاحبان کی کارکردگی performance، کردار integrity اور قابلیت competence کو ریکارڈ کیا جائے اور ان کو اگلی سطح پر ان کی پروموشن کے لئے معیار بنایا جائے۔ اس طرح ایک نہایت تربیت یافتہ، قابل اور بہترین کردار کی عدلیہ وجود میں آئے گی جو کسی قسم کے سیاسی یا سماجی دباؤ سے آزاد ہو گی اور اس میں نہ ہی کسی قسم کا وکلا کا دخل ہوگا جو وکلا جج بننا چاہیں وہ شروع سے اس سٹریم stream میں شامل ہوں اور اس کی تربیت لیں، کارکردگی اور کردار کا مظاہرہ کریں اور مختلف کورٹس میں بہترین خدمات انجام دیں۔
عدلیہ میں مقدمات کی بھر مار ہے اور پینڈینسی pendency بہت زیادہ ہے جو ہزاروں اور لاکھوں کیسز کی صورت میں نظر آتی ہے جس کی ایک بڑی وجہ کیس کی تحقیق میں تاخیر اور تحقیق کا غیر معیاری بھی ہونا ہو سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے کیسوں کے لئے عدلیہ کے ماتحت تحقیقات کا ایک علیحدہ ادارہ بنایا جائے جو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کیسز کو دوبارہ یا نامکمل تحقیق کو مکملْ کرنے کے لئے عدالت اس ڈیپارٹمینٹ کو ریفر refer کرے اور وقت کی حد مقرر کر کے اس تحقیق کو جلد مکمل کرا کے کیس کو نپٹایا جا سکے۔ اسی طرح ہر نوعیت کے کیس کو مکمل کرنے کے لئے ایک مناسب مدت مقرر کرے۔ کوئی بھی کیس کتنا بھی پیچیدہ ہو ایک سال سے زیادہ لٹکا نہ رہے۔ چھوٹے کیسوں کے لئے تو چار سے آٹھ ہفتے سے زیادہ وقت نہ لگے۔جیلوں میں قیدی کئی کئی سال تک اپنی اپیلوں کی تاریخ کا انتظار کرتے ہیں۔ جن کو چند دنوں یا ہفتوں میں نپٹایا جائے۔
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭