تازہ تر ین

جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب کی بڑی پیشکش، 30نومبر یا یکم دسمبر کو روانگی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ایل او سی پر بھارتی مظالم کا نیوز لیگ سے گہرا تعلق ہے۔ بھارت کی یلغار بارڈر پر ہے جس کی حفاظت پاک فوج کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سختی سے نوٹس لیتے ہوئے فوج کو حکم دیں کہ جتنا نقصان بھارت کرتا ہے اس سے بڑھ کر اس پر حملہ کیا جائے، بھارت کی جانب گولہ باری کی جائے اور ان کی چوکیوں پر قبضہ کیا جائے۔ چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیوز لیک کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی کمیٹیاں ایک ماہ گزر جانے کے باوجود کسی نتیجے پر کیوں نہیں پہنچ سکیں۔ ایک وزیر کو بھی فارغ کر دیا۔ کیا اس کے لئے سکاٹ لینڈ یارڈ کو بلانا پڑے گا۔ متنازعہ خبر دینے والے صحافی سے کیوں پوچھ گچھ نہیں کی جا رہی۔ ہم خاموش بیٹھے ہیں بھارت نے نیوز لیک کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا، میڈیا پر خوب شور مچایا اور بارڈر پر عام شہریوں اور فوجیو ںکو شہید کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں برابر کے نیو کلیئر پاور ہیں تو کیا نیو کلیئر کو بنک میں جمع کروا دیں۔ جہاں وہ محفوظ رہے۔ ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کریں لیکن بھارتی کارروائیوں کا جواب دس قدم آگے بڑھ کر دیں۔ آئی ایس پی آر سے جب بھی پریس ریلیز جاری ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہم نے دشمن کو پیچھے دھکیل دیا، یہ آگے بڑھ کر خود حملہ کیوں نہیں کرتے۔ بھارت خود وقت اور جگہ کا تعین کر کے حملے کر رہا ہے، ایمبولینس، مسافر بسوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہماری فوج اس کے جواب میں خود وقت اور جگہ کا تعین کر کے حملے کیوں نہیں کرتی۔ یہ لڑائی بھارتی حکومت کی فوج کے ساتھ ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر نے کہا تھا کہ پاک بھارت جنگ نہیں ہو گی، لفظی لڑائی جاری رہے گی۔ ڈاکٹر قدیر بتائیں کہ یہ کون سی لفظی لڑائی ہے کہ روز ہمارے فوجی اور عام شہری بارڈر پر شہید کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے اُن سے کہا تھا کہ بھارت جنگ نہیں کرے گا، وہ خود تو محفوظ ہوں گے لیکن آزاد کشمیر کی عوام بارڈر پر شہید ہو رہی ہے۔ وہ محفوظ نہیں ہیں۔ مجید نظامی (مرحوم) پاک فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر کشمیر آزاد نہیں کرانا تو آپ کا کیا فائدہ، میں کہتا ہوں کہ کشمیر آزاد نہ کرائیں لیکن بارڈر کی حفاظت تو کریں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں وزیراعظم آج شام تک یا کل نئے آرمی چیف چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کے نامو ںکا اعلان کر دیں گے۔ جنرل راحیل شریف نے چند ماہ پہلے معذرت کی تھی کہ وہ توسیع لینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ لیکن پھر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف ایک مرتبہ اکیلے براہ راست جبکہ دوبار چودھری نثار کے ساتھ جنرل راحیل شریف سے ملنے گئے۔ اس وقت بھی یہ خبریں آئی تھیں کہ ان کو توسیع لینے کی پیش کش کی گئی ہے، یہ بھی کہا گیا کہ اگر آپ توسیع نہیں لینا چاہتے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی کر کے آرمی چیف کی مدت میں ایک سال کی توسیع کر کے 3 سے 4 سال بڑھا دیتے ہیں۔ لیکن جنرل راحیل شریف نہیں مانے۔ آصف زرداری کی ناراضی جنرل راحیل شریف سے تھی اُنہوں نے کہا تھا کہ آپ چلے جائیں گے ہم نے یہیں رہنا ہے پھر وہ خود بھاگ گئے۔ انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کا بدلہ کچھ اس طرح لیا کہ پہلے دن سے ہی خورشید شاہ، رضا ربانی، قمر زمان کائرہ سمیت پی پی کے تمام رہنماﺅں کا یہ کہنا تھا کہ کسی سینئر جنرل کو آرمی چیف بنایا جائے۔ یہ واقعاتی شہادتیں ہوتی ہیں، کوئی ایک بھی رہنما جنرل راحیل کے حق میں نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ چینی لابی چاہتی ہے کہ جنرل راحیل شریف کو توسیع دی جائے جبکہ سعودی حکومت نے تو انہیں ایک فائل بھی دی جس میں پیش کش کی گئی کہ آپ 35 مسلم ممالک کی افواج کے سربراہ بنیں اور سعودی افواج کو منظم کرنے کا کام بھی اپنے ذمہ لیں۔ اب میری معلومات کے مطابق جنرل راحیل شریف نے ریٹائرمنٹ والے دن جب وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو چکے ہوں گے 29 نومبر کی شام کو انہوں نے لاہور میں اپنے چند دوستوں کو کھانے پر بلایا ہے۔ پھر 30 نومبر یا یکم دسمبر کو وہ عمرہ کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔ جنرل راحیل اب صرف عمرہ کر کے واپس آ جائیں گے یا سعودی حکومت کی پیش کش پر ان سے ملاقاتیں بھی کریں گے یہ وقت بتائے گا۔ سعودی حکومت کی جانب سے صرف ایک بات جنرل راحیل شریف کے خلاف جاتی ہے کہ جب یمن میں سعودی عرب کی جنگ شروع ہوئی تو انہوں نے پاک فوج کو مدد کے لئے پکارا لیکن جنرل راحیل شریف نے یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ پاک فوج اپنے ملک میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے، لہٰذا ابھی ان کیلئے بہت مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ نون لیگ کے سنیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ نئے آرمی چیف کیلئے چار میں سے ایک نام ایسا ہے کہ جس کا تعلق قادیانی مسلک سے ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ جس جنرل باجوہ پر وہ الزام لگا رہے ہیں 12 سال پہلے وہ اس کی وضاحت میں تحریری سرٹیفکیٹ دے چکے ہیں کہ وہ آخری نبی پر ایمان رکھتے ہیں اس کے بعد یہ بات ختم ہو گئی تھی۔ جنرل ضیا نے فوج میں یہ روایت ڈالی تھی کہ کسی بریگیڈیئر کو میجر جنرل کے عہدے پر اس وقت تک ترقی نہیں دی جائے گی جب تک وہ تحریری سرٹیفکیٹ نہ دے کہ وہ آخری نبی پر ایمان رکھتا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) جاوید نے کہا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ مودی سرکار والا آپریشن اب ہمیں کرنا چاہئے۔ پاک فوج کی جانب سے کنٹرول لائن پر گولہ باری کی جائے، ان کی چوکیوں کو تباہ کیا جائے۔ مودی سرکاری اول روز سے اشتعال انگیز پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ عام جنگ سے شارٹ رہتے ہوئے اس نے سرحدوں پر جنگ شروع کر دی ہے، اب پاک فوج کو خاموشی توڑ دینی چاہئے۔ انہوں نے ضیا شاہد کی اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ کنٹرول لائن پر بھارتی مظالم کا تعلق نیوز لیگ سے ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ عوامی تحریک چاہتی ہے کہ سارا نظام لپیٹ دیا جائے جبکہ پی ٹی آئی موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے آئین و قانون کے مطابق تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ پی اے ٹی اور پی ٹی آئی میں یہ دو نظریے موجود ہیں۔ ہم قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے۔ بہت سے لوگ تنقید کرتے ہیں کہ عمران خان نے 2 نومبر کے اعلان کے بعد عدالت جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ لیکن سیاست میں بعض اوقات لیڈر شپ کو فوری فیصلے لینا پڑتے ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain