تازہ تر ین

” جسٹس (ر) جاوید اقبال کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ منظر عام پر آئی تو حیرت انگیز انکشافات ہونگے “ نامور اخبار نویس ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام میں دبنگ گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اگر پاکستان میں آئین و قانون کی حکمرانی ہے تو سپریم کورٹ کے کمیشن کی رپورٹ کا مذاق اڑانے اور ذاتی الزامات قرار دینے پر وزیرداخلہ چودھری نثار کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہئے۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ کمیشن رپورٹ کے جواب میں سرکاری پوزیشن اور سرکاری ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھی چودھری نثار کا جواب دینا غیر قانونی ہے۔ اگر کسی سانحہ پر کمیشن بنایا جاتتا ہے تو مقصد یہی ہوتا ہے کہ ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ سٹیٹ بمقابلہ کورٹ کا معاملہ نہ بنایا جائے۔ حکومت نے اگر عدالت کی بات ہی نہیں ماننی تو ویسے ہی پاکستان کو بے آئین و قانون قرار دے دیا جائے۔ پہلے بھی تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون ہی یہاں چل رہا ہے۔ معمولی کیسوں میں غریب ساری عمر رگیدا جاتا ہے جبکہ طاقتور کو کوئی پوچھتا تک نہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ عدلیہ کے نظام میں بہت سی خامیاں ہیں لیکن اس کے باوجود ایک سسٹم تو چل رہا ہے حکومت تو اس کو تسلیم کرے۔ پانامہ کیس بارے بار کونسلز کا بارہا بیان پڑھا اور سنا کہ ہم اس کیس میں فریق بنیں گے۔ پھر حکومت کی جانب سے بارز کو امداد اور سہولتیں دینے کا اعلان ہوا تو پھر اسی بار کونسل نے پانامہ کا ذکر تک نہ کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم سب ہی چور ہیں معاشرے میں ہر طرف چوروں کا راج ہے۔ اس لئے تو کسی کی چوری بارے کوئی بھی اظہار خیال نہیں کرتا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ بارے اشارتاً کسے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ اس رپورٹ کا سامنے آنے سے ملک کے ددرودیوار ہل جائیں گے۔ ایبٹ آباد واقعہ کے فوری بعد آصف زرداری جو اس وقت صدر تھے نے بڑی جلدی ایک زبردست مضمون لکھا تھا۔ ہمارے حکمرانوں نے صرف تقریر لکھنے کے لئے بیس بیس بندے رکھے ہوتے ہیں جن کی بھارتی تنخواہوں کا بوجھ بھی غریب ہی اٹھاتا ہے۔ مجھے ملنے والے لوگوں میں 99 فیصد کہتے ہیں کہ پانامہ پر کمیشن بنا تو اگلا الیکشن آ جائے گا لیکن کوئی فیصلہ نہ ہو سکے گا۔ زندہ قوموں کے اطوار مختلف ہوتے ہیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ قومی اسمبلی میں معلومات تک رسائی کا قانون بھی منطوری کیلئے پڑا ہے دعا ہے کہ منظور ہو جائے کیونکہ عرصہ دراز سے ہ حکومت یہی کہتی ہے کہ معلومات تک عوام کو رسائی دیں گے لیکن آج تک ایسا نہیں ہو سکا۔ اداروں کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔ پاک فوج ملک کا سب سے ذمہ دار ادارہ ہے۔ جنرل (ر) راحیل شریف جب ریٹائر ہوئے تو 16 گھنٹے تک آئی ایس پی آر کی سائٹ پر انہی کا نام بطور آرمی چیف لکھا رہا۔ ہمارے ذرائع ابلاغ، ان کے ادارے، میڈیا سیلز کی ویب سائٹس پر لکھا ہوتا ہے کہ اگر آپ کو معلومات چاہئیں تو فلاں سائٹ یا فون نمبر سے مل سکتی ہیں لیکن وہ فون نمبر کبھی بھی نہیں ملتے۔ معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا کہ پاکستان میں عدالتی کمیشن 1956ءکے ایکٹ کے تحت بنتا ہے جس میں لکھا ہے کہ کمیشن اپنی رپورٹ حکومت کو دے گا جس کی صوابدید ہو گی کہ اسے شائع کرے یا نہ کرے۔ کمیشن بارے یہ شرط اس لئے رکھی گئی تھی کہ بعض اوقات حساس معاملات پر کمیشن بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ پبلک کرنے سے ملک میں انتشار پھیل سکتا ہے جس سے کوئی گروہ فائدہ اٹھا سکتا ہے اسی لئے حکومت کو صوابدیدی اختیار دیا گیا۔ دنیا بھر میں کمیشن رپورٹ فوری شائع نہیں کی جاتی بلکہ ایک خاص وقت گزرنے کے بعد اشاعت کی جاتی ہے۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ بھی اسی وجہ سے پبلک نہیں کی گئی تھی۔ قانونی طور پر کوئی حکومت کو مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ رپورٹ پبلک کرے۔ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ بارے جسٹس (ر) جاوید اقبال کی باتوں سے پتہ چلتاہے کہ رپورٹ پبلک کرنے سے حکومت کے بہت سے لوگوں کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ حکومت اس رپورٹ کو نہ شائع کرنا چاہے تو اسے اختیار حاصل ہے۔ اسی باعث تو پانامہ بارے فریقوں کا خیال ہے کہ جو کمیشن بنے اس کے فوائد میں درج ہونا چاہئے کہ رپورٹ پبلک کی جائے گی حکومت کی صوابدید نہ ہے۔ کسی بھی حکومت کا کمیشن بنانے کا یہ مقصد ہی نہیں ہوتا کہ عوام کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ ایس ایم ظفر نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ پر بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ پر چودھری نثار نے جو جارحانہ رویہ اختیار کیا غلط تھا۔ اگر کمیشن نے وزیرداخلہ کو نوٹس دے کر جواب طلب نہیں کیا تو ان کی ذات اور عہدے بارے جو باتیں رپورٹ میں آئی ہیں ان کا جواب چودھری نثار دے سکتے ہیں۔ حکومت اگر کمیشن کی رپورٹ کو درست سمجھتی ہے تو اس کا فرض ہے کہ چودھری نثار کے خلاف کارروائی کرے۔ لیکن اگر حکومت سمجھتی ہے کہ وزیرداخلہ کے جوابات درست ہیں تو وہ کارروائی نہیں کرے گی۔ سینئرقانون دن نے کہا کہ حکومت کسی ریموورٹ کو شائع کئے بغیر بھی ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے اس کے لئے رپورٹ کا شائع ہونا ہی لازمی نہیں ہے۔ حمود الرحمان کمیشن کے جو ٹی او آرز بنائے گئے تھے ان میں صرف فوجیوں کے کردار کا ذکر تھا جبکہ ملک کے دو لخت ہونے میں سیاسی کردار بھی موجود تھا جو اس ریفرنس میں شامل نہ کیا گیا۔ سارا معاملہ سامنے آتا تو بہتر ہوتا۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain