سیہون شریف، کراچی (نمائندگان خبریں، نیوز ایجنسیاں) خودکش حملے کے بعد سخی لعل شہباز قلندر کے مزار پر سیکیورٹی اقدامات بہتر کرنے کی بجائے انتظامیہ نے خراب واک تھرو گیٹ نصب کر دیے۔ دنیا نیوز کے مطابق 3روز قبل ہونے والے خود کش حملے کے بعد سخی لال شہباز قلندر کے مزار کو زائرین کے لئے دوبارہ کھول دیا گیا ہے جہاں پولیس اہلکار لوگوں کی سیکیورٹی کیلئے تعینات ہیں۔ خودکش حملے میں 88سے زائد انسانی جانوں کے ضیاع کے باوجودانکشاف ہوا ہے کہ انتظامیہ نے مزار میںخواتین کے داخلے کیلئے انٹری پوائنٹ پر خراب واک تھرو گیٹ نصب کر دیے ہیں۔ معاملے کی نشاندہی ہونے پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ مزار پر کوئی لیڈی پولیس اہلکار موجود نہیں ہے جبکہ ان گیٹس کو جلد مرمت کر لیا جائے گا۔ دوسری جانب،آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا ہے کہ خودکش حملہ آورکی نشاندہی کر لی گئی ہے،حملہ آور کی نام سے شناخت نہیں ہوئی، سیہون دھماکے میں حفیظ بروہی کے ملوث ہونے کو نظراندازنہیں کرسکتے، حفیظ بروہی کا سندھ میں دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم ہے۔ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہاکہ 99فیصد یقین ہے ویڈیو میں نظر آنے والا ہی خودکش حملہ آور ہے،حملہ آور اہلکار کے قریب سے گزر کر مزار میں داخل ہوا ،سیہون دھماکے میں حفیظ بروہی کے ملوث ہونے کو نظراندازنہیں کرسکتے،رش کے باعث شواہداکٹھے کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے تسلیم کیا ہے کہ سہون میں شہید افراد کے اعضا ءنالے میں پھینکے گئے ¾ذمہ داروں کو سزا دی جائیگی ۔ وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ سندھ کابینہ کے وزرا جام خان شورواوردیگرکے ہمراہ درگاہ لعل شہباز قلندرپہنچے۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اعضا ءوالے معاملے کی شدید مذمت کرتاہوں، اس واقعہ پر شرمندہ ہوں اورانسانی اعضا ءکی بے حرمتی کرنے والوں کوباقاعدہ سزا ملے گی۔انہوںنے کہاکہ اعتراف کرتاہوں درگا ہ پرمناسب تعداد میں پولیس اہلکارنہیں تھے ¾سرحدپار سے دہشت گرد آرہے ہیں،سی سی ٹی وی وڈیو سے کچھ سراغ نکلے ہیں، امید ہے تحقیقاتی ایجنسیاں تہہ تک پہنچیں گی۔ جبکہ سہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خودکش دھماکے کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ مزار کے قریب چار مشکوک افرا دکو دیکھا گیا ۔ایف آئی آر میں قتل، اقدام قتل، ایکسپلوزو اور دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں ¾ ایف آئی آر میں اس کے اندراج کا وقت 17 فروری شام ساڑھے چھ بجے درج کیا گیا ہے۔ایف آئی آر کے متن کے مطابق پیٹرولنگ کرتی پولیس پارٹی حضرت لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر پہنچے جہاں شلوار قمیض میں ملبوس چار افراد کو دیکھا گیا ، چاروں مشکوک افراد میں سے ایک شخص کو باقی تین افراد نے گلے مل کر روانہ کیا، روانہ ہونے والے شخص کو باقی تین افراد نے کہا” تمہیں مبارک ہو اور خدا حافظ،،ایس ایچ او رسول بخش پنہور کے مطابق انہوں نے ڈیوٹی پر مامور ہیڈ کانسٹیبل عبدالعلیم کو روانہ ہونے والے شخص کو روک کر چیک کرنے کا کہا ¾کانسٹیبل عبدالعلیم نے مشکوک شخص کو مڑنے کا کہا تو7 بج کر 1 منٹ پر خوفناک دھماکا ہوگیا اور بھگدڑ مچ گئی ¾باقی تین مشکوک افراد بھگدڑ میں گم ہوگئے جنہیں اچھی طرح سے دیکھا گیا ہے۔ گم ہو جانے والے افراد کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں۔ سانحہ سہون شریف کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک ایسے شخص کی تلاش میں انتہائی سرگرم ہیں جس پر سانحہ لال شہباز قلندر میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ اس انتہائی مطلوب دہشت گرد کا نام عبدالحفیظ پندرانی ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شبہ ہے کہ عبدالحفیظ پندرانی نے ہی خود کش حملہ آورکے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہوگا ۔ مختلف واقعات اور مشتبہ افراد سے کی جانے والی تفتیش میں وقتاً فوقتاً عبدالحفیظ پندرانی کا نام سامنے آتا رہا ہے ۔عبدالحفیظ پندرانی رواں سال 18 جنوری کو شیخوپورہ میں مارے گئے لشکر جھنگوی کے سربراہ آصف چھوٹو کا اہم ترین ساتھی ہے ۔ عبدالحفیظ پندرانی کا نام سی ٹی ڈی سندھ کی انتہائی مطلوب دہشت گردوں پر مشتمل ریڈ بک کے صفحہ نمبر 57 پر درج ہے ۔ دریں اثنائ پیپلز پارٹی کے دو بلدیاتی نمائندوں کو مبینہ طور پر سیہون شریف خود کش حملے کی تحقیقات کے دوران سہولت کاری کے شکوک وشہبات سامنے ا?نے پر حراست میں لے لیا گیاہے۔ منیر خان جمالی جنگوانی اور عبدالعزیز جمالی حملانی جو کہ چینی اور کمال خان یونین کونسل کے نمائندے ہیں ،یہ دونوں بھی ان چار افراد میں شامل ہیں جنہیں دادو کے دیہی علاقے جوہی سے حراست میں لیا گیاہے۔پولیس کا کہناہے کہ دونوں افراد انٹیلی جنس ایجنسیوں کی حراست میں ہیں ،منیر خان جمالی کے قریبی رشتہ دار جنگو خان کمالی جنگوانی کا کہناہے کہ وہ دونوں بے قصور ہیں۔جنگو نے حراست میں لیے جانے والے دیگر دو افراد کی شناخت حبیب اللہ اور غلام رسول کے نام سے کی ہے۔