لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وزیرخارجہ کا عہدہ ملک کے لئے بہت اہم ہوتا ہے۔ تمام ترقی یافتہ ملکوں میں سربراہ مملکت کے بعد سب سے پہلے وزیرخارجہ کا چناﺅ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی وزیرخارجہ کا عہدہ خالی نہیں رہنا چاہئے تھا وزیراعظم کو اس پر غور کرنا چاہئے، ن لیگ میں باصلاحیت افراد کی کمی تو نہیں ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کا کویت کا دورہ موجودہ حالات میں بڑا اہم ہے۔ یو اے ای اور دیگر عرب ریاستیں پاکستان سے خفا ہیں کیونکہ انہوں نے جب اسلامی فورس بنانے کی کوشش کی اور پاکستان کا نام بھی فہرست میں شامل کیا تو پاکستان کی جانب سے پس و پیش سے کام لیا گیا جس سے تعلقات خراب ہوئے اور یو اے ای نے تو بڑے سخت بیانات بھی دیئے۔ دبئی میں پاکستان کی لیبر کلاس کام کرتی ہے تاہم پروفیشنل افراد جن میں انجینئرز، آئی ٹی سپیشلسٹ، اکاﺅنٹس میں بھارت کی اجارہ داری ہے۔ پاکستان سے صرف پیسہ لوٹ کر بھاگنے والے اور لیبر کلاس وہاں موجود ہے۔ پاکستان سے ناراض ہونے کے بعد یو اے ای کے شاہ بھارت کے دورہ پر گئے تو نریندر مودی سے گرمجوشی سے ملے اور بہت سے معاہدے کئے جس کے باعث نظر آ رہا ہے کہ پاکستانیں کو وہاں مستقبل میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔ حکومت عرب ممالک کے ساتھ معاملات کو درست کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو اچھی پیش رفت ہے۔ سینئر صحافی نے عمران خان کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں مخالفت برائے مخالفت کا کلچر فروغ پا چکا ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ صرف دوسرے کے کام پر تنقید ہی کرنی ہے چاہے وہ اچھا کام ہی کیوں نہ ہو۔ سیاست کے علاوہ بہت سے معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے ملک و قوم کا مفاد وابستہ ہوتا ہے اور سب کا ساتھ مل کر چلنا ضروری ہوتا ہے۔ عمران خان کو غیر ملکی کرکٹرز کے حوالے سے محتاط گفتگو کرنا چاہئے تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان آنے والے کھلاڑیوں میں اے کلاس کرکٹرز کم ہی تھے تاہم پھٹیچر جیسے الفاظ کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ دونوں فریقوں سے گزارش ہے ک ہ سیاست میں ایک دوسرے کی مخالفت ضرور کریں لیکن باقی معاملات میں تو مل کر چلیں۔ عمران کا کرکٹ میں کیریئر نہایت شاندار رہا ہے ان سے بڑا کرکٹ فاتح پاکستان میں دوسرا نہیں ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ کرکٹ کے معاملات میں ان سے ضرور مشاورت کریں عمران خان ہسپتال پر ہسپتال بنائے جا رہے ہیں تو اس پر بھی حکومت کو ان کی تعریف کرنی چاہئے دوسری جانب عمران خان بھی حکومت کے اچھے کاموں کی دل کھول کر تعریف کریں۔ پی ایس ایل فائنل لاہور میں کرانا ایک چیلنج تھا جسے پورا کرنے پر عمران خان کو شہباز شریف کی تعریف کرنی چاہئے تھی۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ دنیا بھر میں کہیں بھی فوج یا سکیورٹی اداروں کے طرز عمل کو زیربحث نہیں لایا جاتا۔ یوں تو قتل ایک بڑا جرم ہے لیکن یہی عمل جب بارڈر پر مخالف فوج کے اہلکاروں کو مار کر کیا جاتا ہے تو تمغے دیئے جاتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ فوج سے کسی کارروائی کے بارے میں وضاحت طلب کی جائے۔ فوج یا سکیورٹی ادارے کو یہ خوف ہو کہ رات کو تو دشمن سے لڑے اور صبح کو اس کی وضاحت بھی پیش کرے تو ایسا نہیں چل سکتا۔ حکومتوں کو سکیورٹی فورسز کو کارروائیوں کی اجازت دینا پڑتی ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ چودھری شجاعت اس وقت پیپلزپارٹی سے دوستی کرنا چاہتے ہیں، اس سے پہلے بھی وہ پرویزالٰہی کو پی پی دور میں ڈپٹی وزیراعظم بنوا چکے ہیں۔ نوازشریف کے بارے میں تو ہر کوئی جانتا اور کہتا رہتا ہے کہ ان کی سیاسی پیدائش فوج کی نرسری میں ہوئی تاہم یہ بھی یاد دلاتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی فوجی نرسری سے ہی سامنے آئے تھے۔ ایوب خان نے انہیں پہلے وزیر برائے ایندھن و قدرتی وسائل بنایا بعد میں وزیرخارجہ بنے۔ بطور وزیر قدرتی وسائل بھٹو نے بیان دیا تھا کہ ہر ضلع کے ڈی سی او اور ایس پی کو مسلم لیگ میں شامل کیا جائے اس پر اپوزیشن نے اعتراض کیا تو کہا کہ چلو ایسوسی ایٹ ممبر بنا لیا جائے۔ یہ بیان اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ چودھری شجاعت تو ایک قدم اور آگے بڑھ گئے جب مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹا تو چودھری شجاعت پہلے آدمی تھے جنہوں نے پارٹی چھوڑی اور ق لیگ بنا لی۔ 3 ماہ وزیراعظم بھی رہے۔ گجرات میں ان کے حامیوں نے پرویز مشرف کی گاڑی کو ہاتھوںپر اٹھا لیا تھا بعد میں جب الیکشن ہار گئے تو مشرف کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ چودھری شجاعت کو فوجی عدالتوں بارے کوئی بھی بات کرنا زیب نہیں دیتا۔