تازہ تر ین

جوتا مارنے پر 50ہزار انعام

کراچی (خصوصی رپورٹ)تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا پر عائشہ گلالئی پر تشدد کیلئے اکسانے لگے۔ مختلف پوسٹوں میں کہاگیا ہے کہ جو بھی عائشہ گلالئی کو جوتا مارے گا اسے پچاس ہزار انعام دیا جائے گا۔ اسی طرح عائشہ گلالئی پر تیزاب پھینکنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنان نے عائشہ گلالئی کو تحفظ دینے اور تحریک انصاف کی مہم بند کرنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کارروائی کا مطالبہ کردیا۔انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ عمران خان کو تحقیقاتی کمیٹی کے ساتھ تعاون کرکے بے گناہی ثابت کرنا چاہیے۔قومی اسمبلی کی خاتون رکن کی جانب سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر الزامات کے بعد سوشل میڈیا پر عائشہ گلالئی پرتشدد کیلئے اکسایا جارہا ہے۔ ٹویٹر، فیس بک اور دیگر سماجی ویب سائٹس پر کہا جارہا ہے کہ جو بھی عائشہ گلالئی پر تشدد کارروائی کرے گا اسے انعامات دئیے جائیں گے۔ ایک فیس بک پوسٹ میں کراچی کے آصف خان تنولی نے لکھا کہ عائشہ گلالئی کو ہماری پی ٹی آئی کی جو خاتون جوتا مارے گی،میری طرف سے کیش 50,000 کا انعام“۔ اسی طرح ایک ٹویٹر اکاﺅنٹ میں Imran calibri کی جانب لکھا گیا ہے کہ یعنی میری خواہش ہے کہ کوئی عائشہ گلالئی کے چہرے پر تیزاب پھینک دے۔ اس کے ساتھ ایک بیہودہ جملہ بھی تحریر کیاگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی ایسی پوسٹیں ہیں، جن میں انتہائی گھٹیا الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ ذرائع نے آصف خان تنولی سے رابطہ کیا توانہوں نے اقرار کیا کہ ہاں اس نے یہ پوسٹ کی ہے، کیونکہ اس کادل کررہا تھا۔ جب ان سے کہا گیا کہ آپ اس سے اشتعال دلانے کے مرتکب نہیں ہورہے؟ تو ان کا کہنا تھا ”عائشہ گلالئی نے بھی تو اشتعال انگیزی کی ہے۔ میں نے یہ پوسٹ بطور کارکن ذاتی حیثیت میں کی ہے۔ میں خود اس کا ذمہ دار ہوں۔“ دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکن محمد جبران ناصر ایڈووکیٹ نے اس ساری صورتحال کو انتہائی افسوسناک قرار دیا۔ ان کے مطابق عائشہ گلالی نے براہ راست عمران خان کے بارے میں بات کی تھی۔ اس میں انہوں نے عمران خان کے خاندان ، ان کی سابقہ بیویوں وغیرہ پر کوئی بات نہیں کی تھی۔ مگر اس وقت تحریک انصاف اور ان کے حامیوں نے براہ راست عائشہ گلالئی کے خاندان کو ٹارگٹ بنالیا ہے۔ جبران ناصر کا کہنا تھا کہ ”کیا عمران خان نہیں جانتے تھے کہ ان کے ترجمان لاہور میں بیٹھ کر ان کی صفائی پیش کرتے ہوئے عائشہ گلالئی پر کیا الزام لگادیں گے۔ عمران خان کے ترجمان نے پارٹی چیئرمین کی صفائی دینے کے بجائے عائشہ گلائی کے خاندان کو ٹارگٹ بنالیا۔ تسلیم کرلیتے ہیں کہ کارکنان کی تربیت میں برسوں لگ جاتے ہیں، مگر عمران خان کے اردگرد رہنے والے اور ان کے ترجمان کی تربیت تو ہونی چاہیے کہ کس وقت کیا بات کرنی ہے اورکیا کہنا چاہیے اور اخلاقیات کیا ہوتی ہے۔ محمد جبران ناصر نے کہا کہ عائشہ گلالئی کے الزامات کے حوالے سے بات چیت چلتی رہے گی۔ یہ ختم ہونیوالی نہیں ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ عائشہ گلالئی کے الزامات کے بعد متعلقہ فورم پر بات ہوتی۔ تحقیقات ہوتیں مگر جس طرح عائشہ گلائی کو ٹارگٹ کیاگیا، اس کے بعد اگر کسی خاتون کو شکایت ہوگی تو کبھی بھی وہ اپنی شکایات کو سامنے نہیں لائے گی۔ ہراساں کرنے کے کلچر کو اتنا پھیلا دیا گیا ہے کہ کوئی بھی بات کرنے کی جرا ت نہیں کرے گا۔ ایک اور سوال پر جبران ناصر کاکہنا تھا کہ ”پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19میں واضح طور پر بتادیاگیا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کیا ہے۔ اس کے تحت اور سائبر کرائم بل کے تحت کسی کو دھمکیاں دینا اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں کرنا جرم ہے اور اس کیلئے سزائیں بھی موجود ہیں۔عمران خان اور تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ تحقیقات میں تعاون کریں تاکہ سچ کا پتا چل سکے“۔انسانی حقوق کے ایک اور کارکن حسیب خواجہ کا کہنا تھا کہ جس طرح سوشل میڈیا پر سرعام عائشہ گلالئی کو نشانہ بنایا جارہا ہے، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ جواب، موقف اور صفائی دینا تحریک انصاف کاحق ہے، مگر اس میں اخلاقیات کا پاس بھی رکھنا چاہیے تھا ، جو نہیں رکھا گیا۔ ابھی تک عمران خان کی جانب سے اپنے کارکنان اوررہنماﺅں کو یہ نہیں کہا گیا کہ وہ عائشہ گلالئی کے حوالے سے اخلاقیات سے گری ہوئی باتیں نہ کریں اور انہیں خوفزدہ نہ کیا جائے۔عمران خان کو چاہیے کہ وہ میڈیا پر سامنے آکر عائشہ گلالئی کے ساتھ ہونے والے سلوک پر معافی مانگیں اور ان کے جن جن لیڈروں اور کارکنان نے بیہودہ باتیں کی ہیں ، ان کو پارٹی سے نکالیں۔“ ڈاکٹر پروین نے عائشہ گلالئی کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاست بھی اس حوالے سے قانونی کارروائی کرے۔پی ٹی آئی کا موقف حاصل کرنے کے لئے تحریک انصاف کے مرکزی میڈیا سیل سے رابطہ قائم کیا، مگر کوئی جواب نہیں ملا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain