لاہور(اپنے سٹاف رپورٹرسے) پی ایم اے کے رہنماوں نے کہا ہے کہ صوبہ پنجاب میں MDCAT کے نام پر تعلیمی دہشتگردی سے جاری ہے اور اس امتحان کے کھلاڑی والدین کے جیب پر ڈاکہ ڈال رہے ہیںاور طلباءکو ذہنی مریض بنا رہے ہیں۔ا ان خیالات کا اظہار پی ایم اے رہنماوں پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف نظامی ، مرکزی صدر پی ایم اے سنٹر،ڈاکٹر اظہار احمد چوہدری، صدر پی ایم اے پنجاب ،پروفیسر اجمل حسن نقوی، صدر پی ایم اے لاہور ڈاکٹر علیم نواز، فنانس سیکریٹری پی ایم اے پنجاب ڈاکٹر واجد علی، جنرل سیکریٹری، ڈاکٹر ارم شہزادی، جوائنٹ سیکریٹری پی ایم اے لاہور ، ڈاکٹر محمد تنویر انور، ڈاکٹر شاہد ملک نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا رہنماون کا کہنا تھا کہ ایم ڈی کیٹ میں مندرجہ ذیل تکنیکی ، مالیاتی اور انتظامی فراڈ پائے جاتے ہیں اس نام نہاد انٹری ٹسٹ کو شروع کرنے کا مفروضہ یہ تھا کہ پنجاب کے بورڈوں کے اندر دیئے جانے والے نمبروں میں یکسانیت نہیں اور امتحانوں میں بوٹی مافیا کا راج ہے۔اب جب کہ انٹربورڈ پیپر چیکنگ، سنٹرل مارکنگ اور سخت مانیٹرنگ میں امتحان لیئے جا رہے ہیں تو یہ مفروضہ اپنی دلیل ختم کر چکا ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ بوٹی مافیا کو ختم کرنے کیلئے MDCAT کے امتحان کا اجرائ ہوا اور اب بوٹی مافیا ہی یہ امتحان لے رہا ہے۔امتحان کی ساخت یہ ہے کہ ڈھائی گھنٹے میں بیالوجی، کمسٹری، فزکس اور انگلش کے 220 MCQs کے جواب دینے ہوتے ہیں اور رسپونس ٹائم تقریباً 40سیکنڈ فی سوال بنتا ہے اور اگر کسی سوال میں کیلولیشنز ہوں تو کم از کم رسپونس ٹائم 90سیکنڈ بنتا ہے اور ظلم یہ ہے کہ کیلکولیٹر لے کر جانے کی اجازت نہیں اور تمام کیلکولیشن روائتی طریقے سے کرنی ہوتی ہیں۔20 اگست 2017کے MDCAT میں فزکس کے 28 نمیریکلز کیلکولیشن والے تھے اور یہ بات زبان زد عام ہے کہ ایک پرائیویٹ اکیڈمی کے طلبائ کو ایک دن پہلے ان سوالات کے جوابات ہی نہیں بلکہ پورا پرچہ یاد کروایا گیا تھا اور اس ناانصافی سے تمام اہل طلبائ یہ سوال کر ہی نہیں سکے کہ ا±ن کے پاس چمک نہیں تھی۔پی ایم اے سمجھتی ہے کہMDCAT نہ تو Scholaristic Apptitude ٹسٹ ہے اور نہ ہی یہ Professional Apptitude ٹسٹ ہے کیونکہ ان ٹسٹوں کے کسی عالمی معیار پر پنجاب کا MDCAT پورا ہی نہیں اترتا۔ یہ ٹسٹ Knowledge Test بھی نہیں اور Skill Test بھی نہیں۔ اس ضمن میں ہم بتانا چاہتے ہیں کہ 9th اور 10th میں ایک طالب علم دو سال میں سینکٹروں لیکچر پڑھتا ہے، سینکڑوں پریکٹیکل کرتا ہے اور کئی اساتذہ سے علم حاصل کرنے کے بعد متعلقہ بورڈ میں 41 گھنٹے کا تحریری اور پریکٹیکل امتحان دیتا ہے جبکہ MDCAT میں اس پوری ایکسرسائز اور ٹریننگ کا Weightage صرف 10% ہے۔ مزید برا?ں F.Sc میں یہی طالب علم سینکٹروں لیکچر پڑھتا ہے، سینکڑوں پریکٹیکل کرتا ہے اور کئی اساتذہ سے علم حاصل کرنے کے بعد متعلقہ بورڈ میں 43 گھنٹے کا تحریری اور پریکٹیکل امتحان دیتا ہے جبکہ MDCAT میں اس پوری ایکسرسائز اور ٹریننگ کا Weightage صرف 40% ہے۔ اور ڈھائی گھنٹے کے اس تعلیمی تحت ہزارہ یعنی MDCAT کا Weightage 50% ہے۔ یہ دوہرا بوجھ ، تعلیمی دھشت گردی اور مالیاتی فراڈ ناقابل قبول ہے۔یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز یہ امتحان کرواتی ہے اور اس کا پنجاب کے کسی بورڈ کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں۔ اور پی ایم اے سمجھتی ہے کہ پرائیویٹ اکیڈیمیوں اور UHS کی ملی بھگت ایک مافیا کا روپ دھار چکی ہے اور ہر سال MDCAT کی تیاری اور امتحان کے نام پر والدین کی جیب پر6 ارب روپے کا سالانہ ڈاکہ ڈالا جاتا ہے اور ایک فضول اور بلا ضرورت امتحان کا پرچہ مبینہ طور پر اکیڈمیوں اور اعلیٰ حکام کی ساز باز سے ا?و?ٹ ہوتا ہے اور مارکیٹ میں بکتا ہے۔اس صورتحال میں ایک طرف والدین کو ذہنی عذاب میں مبتلا کر دیا ہے اور طلبائ ایک ہی امتحان کئی بار دے کر ذہنی مریض بن چکے ہیں۔پی ایم اے چیلنج کرتی ہے کہ ہم اوپر بیان کردہ صورتحال پر تعلیمی نوسربازوں ، حکام بالا اور ہر کسی سے کسی بھی فورم پر مذاکرے کیلئے تیار ہیںاور ا?ج ا?پ کے توسط سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ MDCAT کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں اور اسے فی الفور ختم کیا جائے اور جن تعلیمی قزاقوں اور اکیڈمی مافیا نے اربوں کا ڈاکہ ڈالا ہے ا±ن کا احتساب کیا جائے۔متعلقہ حکومتی ادارے ان سے بازپرس کریں۔پی ایم اے اعلان کرتی ہے کہ اس تعلیمی دھشت گردی اور مستقبل کے معماروں کو ذلیل کرنے پر پیر کو سہ پہر 3:00 بجے پریس کلب کے باہر اس بدانتظامی اور حکومتی عدم دلچسپی پر متاثرین اور والدین کے ہمراہ احتجاج کیا جائے گا اور لاہور ہائی کورٹ میں دائر رٹ پٹیشن کا حصہ بھی بنا جائے گا