قصور (جاویدملک سے) سولہ روز قبل اغواءکے بعد زیادتی کا نشانہ بننے اور بہیمانہ طریقے سے قتل کی جانیوالی معصوم زینب اور قصور شہر کی دیگر گیارہ بچیوںکو انصا ف تو نہ مل سکا تاہم پہلے روز سے مجرمانہ غفلت لاپرواہی اور سینہ زوری کرنیوالے افسران اور ضلعی انتظامیہ نے انصاف اور مجرمان کی گرفتاری کے لیے آواز بلند کرنیوالے شہریوںکے ساتھ ساتھ معصوم بچوں کی آواز بھی دبانا شروع کر دی تفصیلات کے مطابق سات سالہ زینب کے اغواءکے پندرہ روز بعد قصور بچاﺅ کمیٹی کے اراکین نے پرائیویٹ سکولز مالکان کی مشاورت سے شہر کے سو پرائیویٹ سکولوں کے طالب علموں کو ساتھ لیکر رات کے وقت زینب کی قبر گھر اور جائے وقوعہ پر شمعیں روشن کرنے کا پروگرام بنایا جس میں زینب کے والد محمد امین انصاری ،چوہدری منظور احمد تاجر برادری کے نمائندگان اور سول سوسائٹی کے اراکین بھی شامل تھے گزشتہ روز جب سکول کے بچوں کی بڑی تعداد اور سول سوسائٹی کے ممبران نے تینوںمقامات پر ہزاروںشمعیں روشن کیںاور پر امن جلوس نکالا تو شمع بردار معصوم بچوں اور شہریوںکو دیکھ کر ضلعی انتظامیہ آگ بگولہ ہوگئی جس کا اندازہ اس ا مر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پرامن جلوس میں شرکت کرنیوالے سکولوںکے مالکان کو ڈپٹی کمشنر قصور سائرہ عمر کی طرف سے ہنگامی طور پر میٹنگ ہال میں بلایا گیا اور ا نہیں آئندہ احتجاج کرنے سے باز رہنے کی واضح وارننگ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اگر انہوںنے سرکاری احکامات پر عمل نہ کیا تو احتجاج کرنیوالے تمام سکولوں کے لائسنس یا اجازت نامے منسوخ کر دیے جائیں گے اس امر کی اطلاع ملنے پر سکولز مالکان کے علاوہ شہریوں کی بڑی تعداد میں غم وغصہ پھیل گیا اور انہوںنے ضلعی انتظامیہ کے غیر قانونی اقدامات کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی افسران کی مجرمانہ غفلت نے پہلے دو شریف شہریوںکی جان لی اور تین کو فائرنگ کرکے عمر بھر کے لیے معذور کر دیا جس کے بعد پھیلنے والا اشتعال پورے پاکستان میں نظر آنے لگا ممتاج سماجی کارکن قیصر ایوب شیخ ،میاںفاروق احمد انصاری ،میاںمقبول احمد ٹولو ،چوہدری محمد صادق،اور دیگر نے اس موقع پر کئی ماہ گزر جانے کے باوجود بچیوں کے کسی قاتل کی گرفتاری نہ ہونے کی تمام تر ذمے داری انتظامیہ اور پولیس پر ڈالتے ہوئے کہا کہ پولیس نے آج تک اس معاملے کو کبھی سنجیدہ ہی نہیں لیا ہے اور ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ساتھ دیگر افسران کا یہ رویہ درحقیقت لوگوںکو مجبور کر رہا ہے کہ وہ دوبارہ سڑکوںپر نکل آئیںانہوںنے کہاکہ کس قدر شرمناک امر ہے کہ معصوم بچوںکو مقتول بچوں کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے شمعیں روشن کرنے پر دھمکایاجارہا ہے دوسری طرف قصور پولیس سولہ روز گزرنے کے باوجود ناصرف زینب کے قاتلوںکو گرفتار کرنے میں ناکام ہوچکی ہے بلکہ پولیس نے ناکامی کا غیر بیانیہ اعتراف کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی پھر سے تبدیل کر لی ہے پہلے پولیس احتجاج کرنیوالوں کو فری ہینڈ دے رہی تھی تاہم بعد میں جب مظاہرین نے مقامی ایم پی اے کے دفتر کو نظر آتش کیا تو مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینکنا شروع کر دی گئی اس کے ساتھ ہی پولیس نے ڈیڑھ سو شہریوں کے خلاف ایم پی اے نعیم صفدر انصاری کے ڈیر ہ پر مبینہ حملہ کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ہے اسی کے ساتھ ساتھ پولیس کی تحقیقاتی ٹیمیں تو کسی ملزم کی گرد کو نہیں چھو سکی تاہم شہریوں تجارتی حلقوں اور سماجی تنظیموں کو احتجاج سے روکنے کے لیے ڈی پی او قصور زاہد علی مروت نے تاجر اور دیگر تنظیموںسے ملاقاتیں کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اس ضمن میں انہوںنے اپنے دفاتر میں کئی ایک شخصیات سے ملاقات کی اور بعد ازاں شہر کے مختلف تجارتی مراکز میں جاکر تاجروں،سماجی نمائندوںاور صحافیوںسے بھی ملاقات کی اور انہیں اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ آئندہ احتجاج کا حصہ نہ بنیں دریں اثناءبتایا گیا ہے کہ پولیس نے ڈی این اے لینے کے سلسلہ میں اپنے دائرہ کو پندرہ کلومیٹر تک وسیع کر دیا ہے اور اب کھڈیاںراجہ جنگ اور مصطفی آباد سے بھی ڈی این اے لیے جارہے ہیں پولیس وقوعہ کے روز تین سوکالوںپر فوکس کرتے ہوئے چھ مشتبہ افراد کی نگرانی کر رہی ہے پولیس نے کالج روڈ سے تنویر نامی ایک شخص کو بھی حراست میں لیا ہے بتایا گیا ہے کہ پولیس نے مذکورہ نوجوان کے بھائی جہانگیر کو بھی گرفتار کر لیا ہے تنویر چند ماہ قبل ہلاک کی جانیوالی ایک معصوم بچی کے قتل کے الزام میں کئی ماہ تک پولیس کی زیر حراست رہ چکا ہے اور بعد ازاں پولیس نے اسے بے گناہ قرار دیکر رہا کر دیا تھا ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے تیس کے قریب اپنے ملازمین کا بھی ڈی این اے لینے کا فیصلہ کیا ہے تاہم یہ اطلاع ترجمان پولیس سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے کنفرم نہیں ہوسکی تھی دریں اثناءسولہ روز سے زینب کے ملزمان کی گرفتاری نہ ہونے ہلاک کی جانیوالی تمام بچیوںکے متحد ہوجانے کے باعث شہر میں غم وغصہ پھر سے بڑھتا جارہا ہے اور ایک سرکاری ادارے کا کہنا ہے کہ اگر ملزمان کی جلد گرفتاری عمل میں نہ آئی تو ضلع قصور کے اندر پھر سے مظاہروںکا آغاز ہوجائے گا ۔ ہزاروںبچوںاور سول سوسائٹی کی طرف سے زینب کے لیے شمعیں روشن کرنے اور پر امن جلو س نکالنے پر سکولز مالکان کو آفس میں بلاکر دھمکیاںدینے کے معاملہ پر جب ڈپٹی کمشنر سائرہ عمر سے سوال کیا گیا تو انہوںنے کہا کہ میں نے سکولز مالکان کو بلاکر دھمکی نہیں صرف تجویز دی تھی کیونکہ اگر اتنے زیادہ بچوںکو آپ احتجاج کے لیے لیکر باہر نکلتے ہیں تو دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ پیش ہوسکتا ہے لہذا میری تجویز کو دھمکی نہ سمجھا جائے۔ تھانہ اے ڈویژن پولیس نے گزشتہ دنوں مقتولہ زینب کے قتل کے بعد احتجاج کے دوران ممبر بنجاب اسمبلی حاجی نعیم صفدر انصاری کے ڈیرہ پر حملہ آور ہو کر دو گاڑیوں ،موٹر سائیکل ،جنریٹر ،اور فرنیچر ،قیمتی سامان کو آگ لگانے کے علاوہ توڑ پھوڑ اور ڈیرہ میں کمروں کے اندر لگی ہوئی ایل سی ڈی،چیک بکس ،اسلحہ ساتھ لے جانے کے الزام میں 150سے زائد نا معلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے ،تفصیلات کے مطابق تھانہ اے ڈویژن میں درج کرائے گئے مقدمہ میں حاجی نعیم صفدر کے ملازم عامر شہزاد نے بتایا کہ وہ اپنے دیگر ساتھیوں،غلام حیدر وغیرہ کے ہمراہ ڈیرہ پر موجود تھے کہ دوپہر دو بجے کے قریب زینبسانحہ کے واقعہ میں احتجاج کرنے والے 150کے قریب ملزمان جو ڈنڈوں اور سوٹوں سے مسلح تھے بیرونی گیٹ توڑ کر گیت کیپر سے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیکر چابیاں چھین لیں اور اندر داخل ہو کر ملزمان نے دو کاروں اور ایک موٹر سائیکل ،جنریٹر کو آگ لگا کر جلا ڈالا اور کمروں میں داخل ہو کر ایک گن،ریوالور،چیک بکیں،اور دیگر دستاویزات غندہ گردی کرتے ہوئے ساتھ لے گئے ،پولیس نے اس مقدمہ میں ملزمان کی گرفتاری شروع کر دی ہے ۔