لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ہم نے ایک وی آئی پی کلاس بنا دی ہے کہ شاید یہ آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہیں۔ ایک مرتبہ ہم ایک وزیر کے ساتھ سفر کر رہے تھے ٹکٹ ہمارے پاس اپنے تھے۔ انہوں نے کہا لاﺅ جی ٹکٹ دو۔ انہوں نے ٹکٹ لے کر وی آئی پی ٹکٹ دیدیئے اور ٹکٹ پر ضیا شاہد کی بجائے کچھ اور لکھا تھا۔ میں نے کہا کہ یہ میرا ٹکٹ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا آپ چھوڑیں اندر جانے کیلئے کارڈ چاہئے۔ میں نے وہ کارڈ واپس کر دیا کہ میں نہیں جاﺅں گا۔ میں اپنے کارڈ سے جاﺅں گا۔ مجھے تو یہ بات اچھی لگی ہے کم از کم محسوس ہونا چاہئے کہ جہاز کے ٹکٹ ہوں ریلوے کے ٹکٹ ہوں۔ جو عام آدمی ہے وہ بھی انسان ہے اس کے بھی حقوق ہیں۔ کسی کو حق حاصل نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے اس کے نام کا کارڈ ایک طرف پھینک دے۔ اور اس کی جگہ اپنے آدمی کو بھیج دے۔ میں نے کابینہ کے فیصلے سے جو سنا ہے اچھا فیصلہ ہے کہ ایک تو وی آئی پی سہولتیں اور بزنس کلاس ختم کر دی گئی ہے وہ عام مسافروں کے ساتھ سفر کریں گے ان کے زبردستی کارڈ کوئی نہیں نکلوا سکے گا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اگر امریکہ نے ڈومور کا مطالبہ کیا تھا تو ہمارے وزیرخارجہ جو حال ہی میں بنے ہیں۔ پہلے بھی وزیرخارجہ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اس کی تردید کی ہے کہ ہم سے ڈومور کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ واشنگٹن میں بھی اور نیویارک میں دونوں جگہوں پر امریکی حکومت کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے ڈومور کا مطالبہ کیا تھا اب تو درمیان وہاں کا نمائندہ پکڑیں یا فارن آفس کا سپوکس مین ہی پکڑیں تو جس سے صحیح صورتحال معلوم ہو۔
محسن صاحب چھوٹا سا ایک جھگڑا سا ہے کہ امریکہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے ڈومور کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن ہمارے وزیرخارجہ کہہ رہے ہیں کہ اس قسم کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ آپ نے امریکی اعلامیہ سنا ہو گا آپ کیا کہتے ہیں اس سلسلے میں امریکی انتظامیہ صحیح کہہ رہی ہے یا ہمارے شاہ محمود صاحب کوئی ڈنڈی مار رہے ہیں۔
نیویارک سے بیورو چیف محسن ظہیر نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ ایک کرٹسی کاٹ ہوتی ہے کہ جو نئی حکومت ہوتی ہے یہ بھی امریکی وزیرخارجہ کی طرف سے ایک اسی طرح کی کال تھی جس میں نئی حکومت کو مبارکباد دی گئی ہے ظاہر ہے فون پر کوئی اتنی لمبی چوڑی باتیں نہیں ہوتیں لیکن جو بھی معاملات ڈسکس ہوئے ہیں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ایک ریڈ آﺅٹ جاری کیا گیا ہے جب ریڈ آﺅٹ سامنے آیا اور پاکستان میں رپورٹ ہوا تو پھر پاکستان کی جانب سے ردعمل سامنے آیا کہ ریڈ آﺅٹ درست نہیں ہے اور یہی تنازع کی بنیاد بنی۔ کل رات کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں جو بریفنگ ہوئی اس میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے جو ترجمان ہیں ان سے پوچھا گیایہ جو کال تھی اس پر میڈیا میں ایک تنازع کھڑا ہوا اور بعض سوال پوچھنے والوں نے یہ پوچھا کہ یہ کیا طوفان برپا ہوا ہے۔ اس پر ترجمان کا یہ کہنا تھا کہ میں ڈائریکٹ الفاظ ان کے کہہ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا سیکرٹری خارجہ کے یہ الفاظ تھے کہ اچھی بات چیت ہوئی پھر اس سے پوچھا گیا۔ پھر اس نے کہا It was a good call پھر ان سے پوچھا گیا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے ریڈ آﺅٹ پر تنازع کھڑا کیا گیا۔ میڈیا پرجو بات ہو رہی ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے پھر اس نے کہا کہ we stand by over readout یعنی کہ ہم نے اس کال پر اپنا جو ریڈ آﺅٹ جاری کیا تھا۔ یا بیان جاری کیا تھا ہم اس پر قائم ہیں اب پاکستان کی حکومت کی جانب سے جو موقف ہے وہ آپ کو معلوم ہے اب یہ دونوں دفتر خارجہ نے اپنی اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی طور پر یہ صرف ایک کال پر تنازع کا معاملہ نہیں ہے پاکستان اور امریکہ کے درمیان کچھ سالوں سے جو دونوں ملک ایک دوسرے سے چاہتے ہیں اس پر تنازعات بھی موجود ہیں اختلافات بھی موجود ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں نئی حکومت آتی ہے اس کی نئی ترجیحات ہیں لیکن امریکی حکومت کا جو اپنا موقف ہے اس میں کوئی تبدیلی ہمیں واشنگٹن میں نظر نہیں آئی دوسرا میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو کال کا معاملہ ہے دونوں ملکوں نے اپنی پوزیشن واضح کی ہے اور پوزیشن جو واضح کی ہے اس پر یہی بات ایک سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی اپنی پوزیشن ہے وہ ڈو مور کے خلاف ہے۔
ضیاشاہد نے کہا کہ پاکستان نے میرا خیال ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں یہ تعداد نہیں ہو گی کہ 60 سے 70 ہزارتک جو لوگ تھے دہشتگردوں کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے اور صرف پاکستان کی ریگولر آرمی جو ہے اس کے 7 ہزار لوگ جاں بحق ہوئے شہید ہوئے۔ پھر جب امریکہ کی طرف سے بات کی جاتی ہے وہ اتنی سخت ہوتی ہے اور لہجہ اتنا گرم ہوتا ہے کہ 70 ہزار بندہ ہم قربان کر چکے ہیں سات ہزار فوج اپنی قربانی دے چکی ہے اور پاکستان اور پاکستانی قوم کیا کرے کہ ہم امریکی سفارتکاروں کو مطمئن کریں۔
محسن ظہیر نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں دہشتگردی کے خلاف جو سب سے بڑی قربانی جانی طور پر بھی اور مالی طور دی ہے وہ پاکستان کی ہے اور اس کا واضح طور پر دنیا کے سامنے ہے لیکن بدقسمتی سے دنیا جو ہے ان قربانیوں کو جب ان کا مطلب ہوتا ہے تو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے اور جب مطلب نہیں ہوتا تو نظر انداز کرتے ہیں میں سمجھتا ہو ںکہ اس وقت جو نئی حکومت آئی ہے اس کی شروعات ہے اور واضح طور پر آج عمران خان نے ایک غیر ملکی کارسپانڈنٹ ہیں ان کو اس حوالے سے امریکہ کی پالیسی کے حوالے سے انٹرویو دیا ہے و ٹوک اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے یہ کوئی ہماری جنگ نہیں ہے پاکستان اپنی ایک جنگ لڑ رہا ہے اپنے ملک میں امن کے حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے خطے میں پاکستان کو اب ایک واضح موقف قائم کرنا چاہئے۔ امریکہ جو ہے وہ اپنا مختلف ادوار میں محتلف پالیسی اپناتا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا اورنج ٹریم کے حوالے سے میں ہی نہیں ہر معقوٹ آدمی پاکستان میں پاکستان کا ہر شہری یہی چاہے گا کہ جو کام شروع ہو چکے ہیںوہ تکمیل تک پہنچیں۔ اورنج ٹرین پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ 70 سے 75 فیصد کام ہو چکا ہے۔ کچھ سٹیشن چالو بھی ہو چکے ہیں کچھ پر ایک تربیتی طور پر چلا کر بھی دیکھا ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ اب سٹیج پر آ کر ترقی معکوس کی طرح سے بیک ریورس لگنا چاہئے البتہ یہ ضرور ہے کہ آج ایک بڑی خبر سامنے آئی ہے کہ وہ یہ کہ جو اوورنج ٹرین کے ٹھیکیدار حضرات ہیں ان سے پوچھا گیا کہ آپ کام کیوں بند کر دیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں جو چیک ملنے تھے معاوضے کے وہ چیک باﺅنس ہو گئے ہیں۔ پچھلی حکومت نے وہ چیک دیئے ہیں جن کے پاسوں کا بندوبست نہیں تھا۔ یہ بڑی خوفناک بات ہے کہ پچھلی حکومت تو آج کی کل کوئی اور حکومت آ جائے یہ کہ گورنمنٹ کے منصوبے شروع کئے گئے ہیں ان کو بہرحال مکمل کرنا ہے اگر اس میں کوئی بنگلنگ ہوئی ہے اس میں بد انتظامی ہوئی اگر کوئی غلط طریقے سے منصوبہ میں سشے کوئی پیسہ نکالا گیا ہے کہ یقینا اس کا سدباب ہونا ہے۔ نیب موجود ہے۔ نیب اس قسم کی شکایات کا نوٹس لے۔ جہاں منصوبوں کا تعلق ہے ان کو جاری و ساری رہنا چاہئے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ عید کے تینوں دن بہت شکایت آئی کہ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے پچھلے برسوں کی طرح اس بار اپنے فرائض انجام نہیں دیئے۔ حکومتی معاہدوں پر افراد کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر شکایت درست ہے تو فوری ازالہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پرویز رشید آزاد ہیں جو مرضی کہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اعتزاز احسن جیل میں جا کر معافی مانگیں گے، نہ ہی یہ مناسب ہے۔ اعتزاز نے جو باتیں کیں اسمبلی میں کیں، اپوزیشن حکومت پر تنقید کرتی ہے یہ بچگانہ بات ہے کہ معافی مانگیں۔ مجھے پرویز رشید کی یہ بات اچھی نہیں لگی۔ 24 گھنٹوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔ ن لیگ کے مطالبے کا بھی جواب آ جائے گا۔ صدارتی انتخابات بچوں کا کھیل نہیں، اس میں معافی جیسے بیانات نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سی حکومتیں آتی و جاتی دیکھیں لیکن پہلی بار دیکھا کہ کسی حکومت نے موسم کی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر وزارت بنائی ہو۔ یہ عمران خان کا اچھا وژن ہے۔ دنیا میں بہت بڑی تبدیلی آ رہی ہے، گرمی زیادہ اور سردی کم ہوتی جا رہی ہے۔ گرمی کا مقابلہ درخت کرتےے ہیں، کبھی کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ ہمارے ملک میں 10 ارب تو کیا جتنے بھی پودے لگائیں اتنا ہی جانداروں کے لئے مفید ہو گا اور گرمی میں بھی کمی آئے گی۔ جتنے زیادہ درخت ہوں گے اتنی زیادہ آکسیجن چھوڑیں گے اور ہمارے منہ سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کریں گے۔ یہ ایک قدرتی نظام ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں بہت معقول رویہ اختیار کیا۔ اگر پاکستان و بھارت انسانی مسائل پر ایک دوسرے کے دکھ سکھ پر متفق ہو جائیں تو انتہا پسندی ختم ہو جائے گی۔ کیرالہ میں سیلاب آیا تو اس پر سب سے زیادہ ردعمل وزیراعظم عمران خان نے دیا۔ وہ والا علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ عمران خان نے خدمات کی آفر کی ہے اگر بھارت سے بھی کوئی مثبت جواب آتا ہے تو سیلاب زدگان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہئے۔ عمران خان نے اپنی حلف برداری تقریب میں بھی مہمانوں سے کھل کر باتیں کی تھیں کہ انڈیا سے اچھے مذاکرات و تعلقات چاہتے ہیں۔ پاک بھارت کو مارکٹائی کے بجائے انسانی سطح پر خدمات پیش کرنی چاہئیں۔ انڈیا کی بار بار کی دھمکیوں کی وجہ سے ایٹم بم بنایا گیا تھا، جنگ کے لئے نہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے 2 شہروں پر ایٹم بم گرایا گیا تھا اس کی تباہی آج بھی یاد کرتے ہیں۔ پڑوسی ملک میں ایسی تباہی نہیں چاہتے لیکن اگر اس نے کچھ کیا تو منہ توڑ جواب دیں گے۔ دونوں ممالک میں معقول لوگ لڑائی جھگڑا نہیں چاہتے۔ عمران خان نے کہا کہ دونوں ملکوں کی ترقی اسی پر منحصر ہے کہ لڑائی جھگڑے کی روش چھوڑ کر بات چیت سے مسائل حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں 22 سال میرا گھر رہا ہے، میرا خاندان وہاں رہتا تھا۔ میں سعودی معاشرے میں بڑی اچھی طرح واقف ہوں لیکن پچھلے چند برس سے وہاں معاشرے کو جدید کیا جا رہا ہے۔ خواتین کو ٹی وی پروگرام میں آنے اور ڈرائیونگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ امام کعبہ نے کہہ دیا کہ خواتین کو آزادی کی اسلام اجازت نہیں دیتا تو اس کے خلاف کارروائی عمل میں لے آئے، اس سے لگتا ہے کہ وہاں ایک پرانا سکول آف تھاٹ پروان چڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب نے ٹھیک کیا خواتین کو ہر قسم کی سہولت ہونی چاہئے اگر آزادی کا غلط استعمال ہو تو ایکشن لیا جائے لیکن اس کے لئے سعودی حکومت امام کعبہ کو گرفتار کرنے جیسے انتہائی اقدامات نہ کرے۔ امام کو گرفتار کرنا انتہا پسندانہ رویہ ہے میں اس کے ہمیشہ خلاف رہا ہوں۔ چیف رپورٹر خبریں احسان ناز نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ہدایات جاری کی ہیں کہ جن ترقیاتی منصوبوں پر 50 فیصد سے زیادہ کام ہو چکا ہے ان کو مکمل کیا جائے۔ جاری منصوبوں کو بند نہیں کریں گے۔ عثمان بزدار نے یہ بھی کہا ہے کہ اورنج ٹرین، میٹروبس، 56 کمپنیوں کا سکینڈل سمیت جتنے بھی منصوبوں میں بددیانتی ہوئی اس کا حساب لیا جائے گا۔ اَب جاری شدہ ترقیاتی منصوبوں کو اپنی نگرانی میں مکمل کروائیں گے، اس سے لاگت بھی کم آئے گی اور جہاں کام سست رفتاری کا شکار تھا وہاں تیزی لائیں گے۔پیپلزپارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ نے کہا کہ پرویز رشید کا شمار سنجیدہ لوگوں میں ہوتا ہے، ان سے معافی جیسے بیان کی توقع نہیں تھی۔ نون لیگ و پیپلزپارٹی کا 40,35 سال کا تلخ ماضی ہے۔ معافی تلافی والا ماحول سیاست میں نہیں ہوتا۔ ایک وقت تھا جب ایئرمارشل اصغر خان نے بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور ان کو شہید کر دیا گیا، محترمہ شہید کے ساتھ بھی نوازشریف کی تلخی رہی، اعتزاز احسن نے کوئی حد سے زیادہ بات بھی نہیں کی، تلخ باتیں دونوں طرف سے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر کے امیدوار کیلئے اعتزاز احسن کے علاوہ نہ کوئی زیرغور ہے اور نہ ہی کوئی آپشن ہے۔ نون لیگ سے بات کر رہے ہیں آج ہمارا وفد اے پی سی میں بھی جائے گا۔ اتفاق رائے سے اپوزیشن کا امیدوار لانے کیلئے آج بھی کوشش کر رہے ہیں۔