سید سجاد حسین بخاری
آج عید قرباں ہے اور دنیا بھر کے مسلمان ہر عید بڑے ذوق و شوق اور جوش جذبے سے مناتے ہیں اور یہ جذبہ بعض اوقات تو اس قدر زیادہ ہوجاتا ہے کہ ریاکاری نظر آنے لگتی ہے، مثلاً 50 لاکھ کا بیل دس لاکھ کا بکرا مگر میری نظر میں یہ ریاکاری بھی ثواب میں بدل جاتی ہے کیونکہ نیت حضرت ابراہیمؑ کی سنت پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ ہم مسلمان تمام مذاہب میں اس لئے افضل ہیں کہ الحمدللہ ہم تمام انبیاؑء پر نہ صرف ایمان رکھتے ہیں بلکہ بعض کی ہم تقلید بھی کرتے ہیں جس کی مثال سنت ابراہیمیؑ پر عمل کرنا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم اس نبیؐ کی امت ہیں جس نے تمام نبیوں پر ایمان لانے کا ہمیں درس اور حکم دیا ہے اور پھر ہماری یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ کی تعمیر کے دوران ایک دعا مانگی تھی کہ اے پرور دگار تیرے گھر کی تعمیر کرنے کی مزدوری تجھ سے صرف اتنی مانگ رہا ہوں کہ آخری نبیؐ میری اولاد سے بنانا تو اللہ پاک نے حضرت ابراہیمؑ کی دعا کو قبول فرمایا اور الحمدللہ ہمارے پاک پیغمبرؐ کو آخری نبیؐ کا درجہ ملا جو تمام نبیوں اور رُسل پر افضل ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تم دعا اور مراد حضرت ابراہیمؑ ہیں اور ہمیں فخر کرنا چاہیے کہ ہمارے پاک پیغمبرؐ کے جد امجد نے خانہ کعبہ تعمیر کیا۔
کتنا خوبصورت وہ منظر ہوگا مگر باپ حضرت ابراہیمؑ کعبے کی دیواروں کی چنائی کر رہا ہوگا اور بیٹا حضرت اسماعیلؑ گارا اور اینٹیں اٹھا اٹھا کے لا رہا ہوگا بس اللہ کو یہ ادا ایسی پسند آئی کہ تاقیامِ قیامت سنت ابراہیمیؑ کی شکل میں عیدقربان منائی جاتی رہے گی۔ وہ پورا منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ حاجی کس طرح شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں اور پھر اپنے حصے کا دنبہ یا بکرا قربان کرتے ہیں اس جیسا روح پرور منظر اسلامی تاریخ میں شاید ہی ہو کہ حضرت ابراہیمؑ کے پورے عمل کو ہم مسلمان حج کے موقع پر دہراتے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان ہر سال یہ عید مناتے ہیں مگر کچھ عربی ممالک میں عید قرباں نہیں منائی جاتی بلکہ میں نے خود ایک عید عراق میں کی تو ہوٹل سے باہر نکلا کہ عید قرباں کا منظر دیکھوں اور خواہش ہوئی کہ اونٹ کا گوشت لے آؤں مگر بہت دور تک میں گیا مجھے کہیں بھی اونٹ یا بکرے، دنبے ذبح ہوتے دکھائی نہ دیئے توبالآخر میں نے ایک راہگیر عربی سے پوچھا کہ ”عید قرباں“ تو اس نے جواب دیا کہ فقط مکہ، یعنی جو حج کرتا ہے وہ قربانی کرتا ہے ہم نہیں کرتے مایوس ہو کر واپس ہوٹل آگیا تو دل میں سوچنے لگا کہ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ مکہ میں ہونے والے عمل کو اپنے گھروں میں دہراتے ہیں۔
مگر افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ہم عبادت کے بجائے ریاکاری پر اتر آئے ہم لوگ قربانی کی اصل روح کو بھول کر فیشن پرستی میں آگئے ہیں، لاکھوں روپے تو خرچ کرتے ہیں مگر وہ اصل حق داروں تک نہیں پہنچاتے اپنے گھروں میں بکرے کی رانیں رکھتے ہیں، چانپ بچالیتے ہیں اور چند ایک پیکٹ تیار کر کے اپنے قریبی رشتہ داروں یا دوستوں کے گھر دیتے ہیں جن کے ہاں پہلے سے کئی پیکٹ موجود ہوتے ہیں اور وہ بھی فریزر میں جمع کرلیتے ہیں۔ ہمیں سارا سال باربی کیو یاد نہیں آتی اور سال بھر کیوں رشتہ داروں کو نہیں بلاتے اور پھر بکرے رانیں ہم بڑے لوگوں کے گھروں میں کیوں بھجواتے ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں یہ رانیں روسٹ کراتے ہیں اور پھر دوستوں کو بلا کر دعوتیں کرتے ہیں اور مستحق لوگوں تک چند بوٹیوں‘ چھیچھڑوں اور ہڈیوں کے سوا کچھ نہیں جاتا اور اگر کوئی غریب گھر کی گھنٹی بجا کر پوچھ لے کہ صاحب قربانی کا گوشت چاہیے تو ہم اسے ڈانٹ کر واپس بھیج دیتے ہیں کہ ختم ہوگیا۔ کیا ہماری نیکی پوری ہوگئی؟
کیا ہم نے دین اسلام کے وہ تقاضے پورے کرلئے جو قربانی کی بابت ہمیں نبی پاکؐ نے بتائے تھے قطعاً نہیں، صد افسوس کہ ہم پورا سال گوشت کھاتے ہیں اور عید پر کئی گنا زیادہ کھاتے ہیں اور بعض اوقات بیمار بھی ہوجاتے ہیں مگر غریبوں کو نہیں دیتے ہمارے گھروں میں پڑا ہوا گوشت اس غریب کے حصے کا ہے جو سال بھر قربانی کی عید کا انتظار کرتا ہے مگر ہم خوشامد ریاکاری اور حرص لالچ میں مبتلا ہو کر اپنی نیکی ضائع کردیتے ہیں اور پھر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ یہی جانور ہمیں اٹھا کر پل صراط سے گزارے گا۔ ہرگز ہرگز نہیں آپ کا جانور اصل مستحق لوگوں تک تو گیا ہی نہیں وہ تو فریزر میں پڑا ہے۔ لہٰذا آپ روز قیامت جانور نہیں فریزر کا انتظار کرنا، میری تمام پڑھنے والے دوستوں سے درخواست ہے کہ قربانی کا گوشت غربا کو نہ صرف دیں بلکہ پکا کر انہیں کھلادو، یتیم خانوں اور فلاحی اداروں اوردینی تعلیمی اداروں میں موجود غریب نادار مرد وخواتین اور طلباوطالبات اچھے کھانے کے منتظر ہیں، آپ بھی قربانی کے آداب سیکھیں۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭