چین میں بچوں کو 40 منٹ سے زیادہ ٹک ٹاک استعمال کرنے سے روک دیا گیا

چین کی جانب سے بچوں میں انٹرنیٹ کی لت کی روک تھام کے لیے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے اور آن لائن گیمز کھیلنے کا وقت محدود کرنے کے بعد ٹک ٹاک کے حوالے سے اہم فیصللہ کیا گیا ہے۔

ٹک ٹاک کی ملکیت رکھنے والی کمپنی بائیٹ ڈانس نے چین میں 14 سال سے کم عمر بچوں کے حوالے سے نئے قوانین کا اعلان کیا ہے۔

بائیٹ ڈانس کی جانب سے ایک بلاگ پوسٹ میں بتایا گیا کہ 14 سال سے کم عمر بچے اب ڈویوین (ٹک ٹاک کو چین میں اس نام سے استعمال کیا جاتا ہے) پر یوتھ موڈ کے ذریعے رسائی حاصلل کرسکیں گے۔

کمپنی کی جانب سے یوتھ موڈ کے ذریعے 14 سال سے کم عمر بچوں کے لیے ٹک ٹاک کا استعمال دن بھر میں 40 منٹ تک محدود کردیا جائے گا۔

اسی طرح اس عمر کے بچوں کو اس ایپ تک رسائی صبح 6 بجے سے رات 10 بجے تک ہی حاصل ہوگی۔

ڈویوین لگ بھگ ٹک ٹاک جیسی ہی ایپ ہے مگر اس میں مواد کی جانچ پڑتال زیادہ سختی سے کی جاتی ہے اور اس کے 60 کروڑ سے زیادہ ماہانہ صارفین ہیں۔

اس سے قبل بائیٹ ڈانس میں صارفین کی اصل نام اور عمر کی تصدیق کے ضوابط پر بھی عملدرآمد کیا گیا تھا جبکہ صارفین کو اپنے فون نمبر اور دیگر ذاتی تفصیلات بھی مہیا کرنا ہوتی ہیں۔

کمپنی نے اپنے بلاگ میں بتایا کہ یوتھ موڈ کے ذریعے ہمیں ہر ایک کے لیے زبردست مواد جیسے ناول اور دلچسپ سائنسی تجربات کی تیاری کا موقع مل سکے گا۔

اس سے قبل اگست 2021 کے اختتام پر چین میں گیمنگ پلیٹ فارمز ٹین سینٹ سے نیٹ ایز سمیت دیگر کو حکومت کی جانب سے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ بچوں کو جمعے سے اتوار (ویک اینڈز پر) اور عام تعطیلات پر صرف ایک گھنٹے آن لائن گیمز کھیلنے کی اجازت دیں۔

ان نئے قوانین کے تحت 18 سال سے کم عمر افراد کو ہفتہ بھر میں صرف 3 گھنٹے آن لائن گیمز کھیلنے کی اجازت ہوگی۔

اس سے قبل چین میں 2019 میں بچوں کی آن لائن گیمز کا دورانیہ روزانہ ڈیڑھ گھنٹہ تک محدود رکھنے کے قوانین کا اطلاق ہوا تھا۔

امریکا اور چین کی سرد جنگ پوری دنیا میں پھیل سکتی ہے، اقوام متحدہ کا انتباہ

جنیوا: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے یہ بھی کہا کہ چین اور امریکا دنیا کی دو بڑی معاشی طاقت ہیں جو کورونا ویکسینیشن اور ماحولیاتی مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں تاہم اس میں دونوں کی سرد جنگ رکاوٹ بن رہی ہے اس لیے ہمیں ان 2 طاقتوں کے درمیان ایک فعال تعلق کو دوبارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی چین کے ساتھ معاشی جنگ کو پسندیدہ قرار دیتے ہوئے حریف ملک پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں جواب میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو دگنا کردیا تھا اور یہ معاشی جنگ ٹرمپ کے دور کے خاتمے کے باوجود تاحال جاری ہے۔

ملنگوں نے خوش کر دیا

ڈاکٹر عمرانہ مشتا ق
قرونِ اولی کے مسلمانوں کی صدائے بازگشت افغانستان کے کہساروں، بازاروں اور سبزہ زاروں سے سنی جا رہی ہے کہ طالبان نے غیر ملکی قوتوں کے پسینے چھڑا دیئے ہیں اور وہ اپنے جدید عہد کے عسکری ویپنز چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں، اس فتح نے فتح مکہ کی یاد تازہ کر دی ہے، یہ وہی طالبان ہیں جن کو بیس سال پہلے امریکہ نے دہشت گرد قرار دے کر ان کی حکومت ختم کر دی تھی اور بیس سال ان کے خلاف امریکہ کی ریاست نے بجٹ کا کثیر حصہ افغانستان میں خانہ جنگی پر جھونک دیا تھا اور امن و امان کی صورتحال پیدا نہ ہونے دی، بھارت کو کثیر مالی امداد فراہم کر کے افغانستان میں امن و سلامتی کا راستہ روکنے کے لیے اپنی ساری منفی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے افغانستان کے شہروں کابل، جلال آباد اور دیگر مقامات پر جھونک دیا، مگر اللہ تعالی کی نصرت طالبان کو میسر تھی وہ بالکل نہتے اور بے سر و سامان طالبان کے وجود کو ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
15 اگست 2021 کا دن دنیا کی تاریخ میں تا ابد یاد رکھا جائے گا اور اس وقت طالبان کی حکومت کی خارجہ پالیسی اقوام عالم کے ساتھ چلنے اور تعلیم، صحت اور روزگار کے علاہ افغانستان کی تعمیر نو پر پوری توجہ مرکوز ہے، اس وقت مغربی جمہوریت کے علمبرداروں کے لئے بھی بہت بڑا سبق ہے جو مقامی حکومتوں میں کونسلر منتخب ہونے کے لئے لاکھوں روپے نچھاور کر دیتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ہم ایم پی اے، ایم این اے، سینٹرز اور وزیر اعلیٰ،وزیراعظم بنیں، مگر افغانستان کی صورتحال مغربی جمہوریت کے علمبرداروں کے لئے باعث تقلید ہے، یہاں وزیر اعظم کی خواہش کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ افغانستان کے وزیراعظم کی نامزدگی میں کتنی تاخیر ہوئی اور کس طرح موجودہ وزیراعظم افغانستان کو مائل کیا گیا اور بڑی مشکل سے قائل کیا گیا اس کے بارے میں اب کوئی بات پوشیدہ نہیں رہ گئی ہے کہ افغانستان کے حالیہ وزیر اعظم کیسے منتخب ہوئے، افغانستان کے حالیہ وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند نے معذرت کر لی تھی کہ میں اس عہدے کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا کیونکہ آخرت میں بھی باز پرس ہو گی اس لئے جو صاحب اس بھاری پتھر کو اٹھا سکتا ہو اس کا انتخاب کر لیں مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالیں، مغربی جمہوری حکومتوں کے لئے یہ انتخاب تاریخ میں عجوبہ کی حیثیت رکھتا ہے، طالبان کے اراکین جب قائل نہ کر سکے تو انہوں نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا، وہ وزیراعظم بننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے، طالبان کے کتنے وفد جاتے اور ناکام واپس آتے، انہوں نے یہاں تک کہہ دیا وزیراعظم تو بہت بڑا عہدہ ہے میں کوئی بھی عہدہ نہیں چاہتا، مگر منتخب وزیر اعظم فدائیوں اور شہدا کے لواحقین کے سامنے بے بس ہو گئے اور گریہ زاری سے اپنی ریش مبارک بھی تر کر لی، شہدائے افغانستان کے لواحقین کی منت سماجت کے سامنے بے بس ہو گئے، جمہوری نظام میں عہدہ لینے کے لیے منت سماجت کی جاتی ہے، سبز باغ دکھانے والے کرپٹ لوگ یہ باور کراتے ہیں کہ سب سے بڑے خیر خواہ ہم ہیں، اسلامی نظام میں عہدہ لینے سے علما اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں ان کا یوم حساب پر یقین ہے اس وجہ سے وہ عہدے قبول نہیں کرتے وہ رضاکارانہ طور پر حکومت کی مدد کرتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور باطل دم دبا کر بھاگ گیا، 46 ممالک کو عبرت ناک شکست سے دو چار کرنے والے بے غرض طالبان نے فتح مکہ کی یاد تازہ کر دی ہے، دشمنوں کو معاف کر دیا اور انہیں اپنے ساتھ ملا کر کام شروع کر دیا۔ پاکستان کے مفتی تقی عثمانی نے بجا کہا ہے کہ ملنگوں نے دل خوش کر دیا ہے اور اللہ کرے اس خطے میں امن و سلامتی کی باد بہاری چلے اور ان لوگوں کو سکون آشتی نصیب ہو جنہوں نے اس خطے میں بارود کی بو اور کلاشنکوفوں کی ہیبت ناک گونج میں اپنی زندگیاں ہتھیلی پر رکھی ہوئی تھی، ریاست مدینہ کے حقیقی خد و خال ہمیں طالبان کے طرز و اسلوب سے ملیں گے جو شہریت پر عمل پیرا ہو کر پوری دنیا کے لیے مثال بننے جا رہے ہیں، پاکستان کی سرزمین سے کوئی بیرونی قوتوں کو جگہ نہیں مل سکتی، افغانستان کی تعمیر نو کے لئے چین دوستی وقت کی ضرورت ہے اور دونوں ممالک کے مفادات یکساں ہیں، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں یہ خطہ خاطر خواہ کامیابی حاصل کرئے گا اور دنیا جان لے گی کہ اللہ کے بندوں کو ستانے اور ان کو دھمکانے کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں، پوری دنیا میں ذلت ورسوائی کے ہار گلے پڑتے ہیں اور شکوے اور گلے الگ باب کھول دیتے ہیں، میں ایک بار افغانستان کی ملنگ قیادت کی ریاضت و مجاہدہ کوسلیوٹ پیش کرتی ہوں اللہ کریم اسے خطے میں اطمینان افروز ماحول پیدا فرما دیں۔
(کالم نگار معروف شاعرہ، سیاسی
وسماجی موضوعات پر لکھتی ہیں)
٭……٭……٭

نئے صوبے کیلئے سیاسی مکالمے کی ضرورت

اکستان کے مختلف سیاسی مسائل کی ایک بڑی وجہ صوبوں کی آبادی میں توازن نہ ہونا بھی ہے۔ 22 کروڑ آبادی پر مشتمل ملک کے صرف ایک صوبے پنجاب کی آبادی 12 کروڑ کے قریب ہے۔ قومی اسمبلی کی 272 براہ راست نشستوں میں 141 صرف پنجاب کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت دیگر صوبوں میں قابلِ ذکر ووٹ حاصل نہ کرنے کے باوجود ملک میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجاتی ہے جس سے دیگر صوبے حق تلفی اور اپنی اہمیت میں کمی محسوس کرتے ہیں۔دوسری جانب پنجاب کے اندر بھی اتنے بڑے صوبے کا انتظامی کنٹرول مشکل ہو جاتا ہے۔ ماضی میں صوبے کے حکمرانوں کی توجہ اپر پنجاب پر رہی جس سے سرائیکی بیلٹ کے لوگ پیچھے رہ گئے۔ ان کو صحت کی سہولتیں ملیں نہ تعلیم کی۔ نتیجتاً وہ ناصرف بڑی سرکاری نوکریوں بلکہ وسائل کی تقسیم میں بھی پیچھے رہ گئے۔ان مسائل کا حل نئے صوبے کے قیام میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے منشور میں حکومت کے قیام کے پہلے سو دنوں میں نئے صوبے کے قیام کے لئے بنیادی عملی اقدامات اٹھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج تقریبا پونے بارہ سو دنوں بعد بھی اس طرف کوئی یقینی پیش رفت سامنے نظر نہیں آ رہی۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پنجاب حکومت کے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں صوبائی سیکرٹریٹ کے لئے رولز آف بزنس کی منظوری کو بڑی پیش رفت قرار دیا ہے جن کے تحت ملتان اور بہاولپور میں موجود 16 محکموں کے سیکرٹریز یہاں کے گریڈ 17 تک کے افسروں کے تبادلے، تعیناتیاں اور بھرتیاں کر سکیں گے۔ نیز جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے حدود اربعہ بارے بھی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس میں مجوزہ نئے صوبے کو ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور ڈویژن کے 11 اضلاع پر مشتمل قرار دیا گیا ہے۔
صوبہ پنجاب کی تقسیم اور نئے صوبے کا قیام سرائیکی خطے کا اہم ترین لیکن گنجلک مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لئے کبھی کسی نے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ تمام پارٹیوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے تو علیحدہ صوبے کا خوب ڈھنڈورا پیٹا لیکن جب عملی پیش رفت کا وقت آیا تو تمام پارٹیوں کو سیاسی مجبوریوں نے گھیر لیا۔ نتیجہ یہ کہ گزشتہ کئی عشروں سے اس خطے کے حقوق کا استحصال جاری ہے، نیز یہاں کے عوام اپنی سیاسی شناخت کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ خطے کی چاروں بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق نئے صوبے کے قیام پر تو متفق ہیں لیکن ہر پارٹی کا نئے صوبے بارے نقطہ نظر مختلف ہے۔ ان میں اختلافات صوبے کے نام، حدود اربعہ، صدر مقام اور نئے صوبے کے قیام کے دیگر صوبوں پر اثرات سے متعلق ہیں۔ پیپلز پارٹی گوجرانوالہ ڈویژن کے ضلع بھکر اور میانوالی کو ساتھ ملا کر 13 اضلاع پر مشتمل سرائیکی صوبے کا قیام اس شرط کے ساتھ چاہتی ہے کہ اس کے بعد سندھ کی تقسیم کا کوئی مطالبہ سامنے نہ آئے۔ مسلم لیگ ن کا خیال ہے کہ سرائیکی صوبہ بن گیا تو پورا خطہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا ایسے میں مرکز میں اس کے لئے حکومت بنانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا۔ اس کے تدارک کے لئے وہ سرائیکی صوبہ کے نام کی مخالف ہے، ساتھ ہی اپنے سیاسی نقصان کو کم کرنے کے لئے اس نے بہاولپور صوبہ بحالی کا بھی شوشہ چھوڑا ہوا ہے۔مسلم لیگ ن نے ہزارہ صوبے کا قیام بھی اپنے منشور میں شامل کیا ہے۔ مسلم لیگ ق کی بھی دلچسپی بہاولپور صوبہ کے قیام میں ہے تاکہ پارٹی کے اہم رہنما طارق بشیر چیمہ کا بہاولپور میں ذاتی ووٹ بینک محفوظ رہ سکے۔ اس حوالے سے وہ ن لیگ کی ہاں میں ہاں ملانے کو بھی تیار ہے۔ تحریک انصاف جس کی حکومت خالصتا ًسرائیکی خطے کے ووٹ کی مرہون منت ہے۔ نئے صوبے کے لئے فوری قدم بڑھانے کو تیار نہیں کیونکہ وہ وسطی پنجاب کی نئی اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھے گی اور حکومت مسلم لیگ ن کے حوالے کر نا پڑ جائے گی۔لہٰذا پی ٹی آئی نئے صوبے بارے کوشش کرنے کو تو تیار ہے لیکن یہ فیصلہ کن کوشش اقتدار کے آخری چھ ماہ میں جا کر ہوسکتی ہے۔ اس سے قبل وہ ن لیگ کو اپر پنجاب کی حکمرانی دینے کا رسک لینے کو ہرگز تیار نہیں۔یہی وجہ ہے کہ سیکرٹریٹ اور اس کے رولز آف بزنس کی تیاری پر 3 سال سے زائد کا عرصہ لگا دیا گیا۔ نئے صوبے کے قیام کے لئے اہم سٹیک ہولڈر اس خطے کے دانشور، شعرا اور سرائیکی قوم پرست رہنما اور پارٹیاں بھی ہیں جو اپنی سرائیکی شناخت کے ساتھ ساتھ 23 اضلاع پر مشتمل صوبے کے خواہاں ہیں۔تحریک انصاف دو تہائی اکثریت نہ ہونے کا کہہ کر اپنی مجبوری تو بیان کرتی ہے لیکن دوسری پارٹیوں سے مل کر مسئلے کے حل کی طرف ابھی تک نہیں آرہی۔
ضروری ہے کہ ایک با اختیار کمیشن کے ذریعے نہ صرف ان رہنماؤں بلکہ دیگر تمام مقامی اور قومی پارٹیوں سے سیاسی مکالمے اور مثبت بات چیت کا سلسلہ فوری شروع کیا جائے تاکہ نئے صوبے کا قیام یقینی بناتے ہوئے ایک متوازن پاکستان کی طرف بڑھا جا سکے۔ تحریک انصاف کو برسر اقتدار پارٹی ہونے کے ناطے یاد رکھنا چاہئے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے نئے صوبے کا وعدہ نہیں نبھایا تو عوام نے دونوں پارٹیوں کو اس خطے سے تقریبا فارغ ہی کر دیا۔ اور تحریک انصاف کو 100 دنوں میں الگ صوبے کے قیام کے وعدے پر ووٹوں سے لاد دیا۔ لیکن اگر پی ٹی آئی بھی اس مسئلے کو غیر اہم سمجھ کر آنکھیں چرا لیتی ہے تو آئندہ الیکشن میں اس کا انجام بھی پہلی پارٹیوں سے مختلف نہیں ہوگا۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

دورے کی منسوخی اور ٹیکس چوری!

نعیم ثاقب
سیکورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ ختم کیا تو دنیا بھرکے کرکٹ شائقین سمیت تمام پاکستانیوں کو مایوسی ہوئی۔پی سی بی کے چیئر مین رمیز راجہ نے معاملہ آئی سی سی میں اٹھانے کا اعلان کیا کرکٹرز،سیاسی راہنماؤں،طلباء،سول سوسائٹی،نوجوان الغرض پاکستان کا ہر فرد نیوزی لینڈ کے اس فیصلے پر تلملا اٹھا۔تمام محبت وطن پاکستانیوں نے اس کو اپنی ذاتی تضحیک، توہین اور ہتک سمجھا اور سمجھنا بھی چاہیے کیونکہ اس سے ہر پاکستانی کی خوداری،عزت نفس اور انا کو ٹھیس پہنچی ہے مگرسوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا ہوا کیوں ہے؟یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ غریب کی کوئی عزت نہیں کرتا، مانگنے والے کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا اور کمزور کی چیخوں سے طاقتورکے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔یہیں کچھ ہمارے کرکٹ بورڈ کے واویلے،وزیراعظم کی کال اور وزیر داخلہ شیخ رشید کی حفاظتی یقین دہانی کیساتھ ہوا۔ ہر کوئی سوچ رہا ہے کہ قصوروار کو ن ہے۔ میر ے خیال میں اس دورے کی منسوخی میں جتنا نیوزی لینڈ اورکسی سازشی عنصر کا ہاتھ ہے۔ وہاں تھوڑے بہت قصوروار بطورپاکستانی ہم خود بھی ہیں اور یہ قصور ہم آج سے نہیں بلکہ گزشتہ 74 برسوں سے کر رہے ہیں۔ ہم سب پاکستان سے محبت کے دعوے کرتے ہیں یقیناً محبت کرتے بھی ہیں مگر اس کو مضبوط بنانے میں حقیقی کردار ادا کرنے سے گریزاں ہیں ہر پاکستانی بلا شبہ محب وطن ہے مگرجہاں ریاست کی معیشت کومضبوط کرنے کے لیے ٹیکس دینا پڑتا ہے وہاں ہم حیلے بہانے، جواز اور توجیحات پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔کبھی ٹیکس کے نظام کی خرابی کاعذر تراشتے ہیں تو کبھی سیاستدانوں اور بیوروکریسی پر کرپشن کے الزام لگاتے ہیں اوراکثر تو یہ سوال کرکے خود کو ہر ذمہ داری سے بری الزمہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں ملتا کیا ہے جو ہم ٹیکس دیں؟ تو ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ سرحدوں پہ ہماری حفاظت کے لیے جو جوان کھڑے رہتے ہیں ان کے اخراجات ہوتے ہیں۔ ہم جس سڑک، موٹر وے،انڈر پاس اور اوور ہیڈ برج سے گزرتے ہیں اس کو بنانے میں کچھ لاگت آتی ہے۔تھانے، کچہری، ائر پورٹ،سکول، ہسپتال، کالج، یونیورسٹیاں جن سے ہم فیض یاب ہوتے ہیں یہ سب نظام پیسوں سے چلتا ہے اور ہر وہ حکومت جن کے دیگر ذرائع آمدنی کم ہوں وہ یہ اخراجات ٹیکس سے پورا کرتی ہے۔ اور جب ٹیکس کی چوری ہو اور پیسے پورے نہ ہوں تو غریب حکومت قرضہ لے کر مانگے تانگے سے کام چلاتی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ مقروض، غریب اور مانگنے والے کو خاطر میں کوئی نہیں لاتا۔
برسوں سے ہماری یہ ہی سوچ رہی ہے کہ سیاستدان تو سارے چور ہیں۔ ہمارا پیسہ عیاشیوں، پروٹوکول اور ذاتی جائیدادیں بنانے میں ضائع کر دیتے ہیں ہم ٹیکس کیوں دیں؟۔یقینا اس سے انکار نہیں کہ ہمارے نظام میں موجود خرابیوں کو بہتر ہونے کی ضرورت ہے۔لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ان 74 برسوں میں کتنے سیاستدان آئے اور چلے گئے لیکن ریاست موجود ہے۔حکومتیں آتی جاتی رہتی ہے لیکن ریاست ہمیشہ قائم رہتی ہے اور ریاست کو اس کے افراد مضبوط بناتے ہیں۔اگر عوام سیاستدانوں کو ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں لا سکتے ہیں تو یہی عوام ٹیکس کی طاقت سے ریاست کو مضبوط بھی بناسکتے ہیں۔نیوزی لینڈ کے اپنے ملک میں تاریخی دہشت گردی ہوئی جسے لائیو دیکھا گیا مگروہاں کے میدان تو آباد رہے کھیل ہو رہے ہیں۔ہمیں مان لینا چاہیے کہ انہوں نے یہاں سے واپسی کا فیصلہ اس لیے کیاکہ وہ جانتے ہیں ہم معاشی طور پر کمزور ہیں ان کا کوئی معاشی نقصان نہیں کر سکتے۔اور یہ بھی کہ وہ ہمارے ساتھ کرکٹ نہ بھی کھیلیں تو ان کوکوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔اگر ہم معاشی طور پر طاقتور ہوتے،دنیاکے بہترین سٹیڈیم ہمارے ملک میں ہوتے ہر انٹرنیشنل پلیئر کو اتنا معاوضہ دے سکتے کہ وہ ہر سال پاکستان آ کر کھیلنے کو ترستا۔ توکیا نیوزی لینڈ اتنا بڑا قدم اٹھا سکتا تھا کہ وہ ہمارے امیج کو خراب کرے اور یکطرفہ طور پر دورہ منسوخ کر کے چلا جائے؟؟ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہماری ریاست کے پاس اتنا پیسہ ہو کہ وہ کھیلوں کے لیے جدید سٹیڈیم اور کھلاڑیوں کے لیے بہترین سہولیات مہیا کر سکے۔ کرکٹ ایک کھیل ہونے کیساتھ اکانومی کو مضبوط کرنے کااہم ذریعہ بھی ہے۔اس کھیل کے ذریعے بہت سے طریقوں سے پیسہ آتا ہے جو معیشت کو مضبوط کر تا ہے۔دشمن ہماری کرکٹ کو بدنام، میدانوں کو ویران اور معیشت کونقصان پہچانا چاہتا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہیں ہم بھی ٹیکس چوری کرکے غیراردای طور پر اس دشمن کے ہاتھ تو مضبوط نہیں کر رہے جو پاکستان کی معیشت کا دشمن ہے۔
ٹیکس کسی بھی ملک اور ریاست کے لیے اتنا ہی لازم ہوتا ہے جتنا کسی زندہ انسان کیلئے روح،روح کے بغیر جس طرح انسان کا جسم حرکت نہیں کر سکتا اسی طرح ٹیکس کے بغیر ریاست نہیں چل سکتی۔ٹیکس ریاست کا حق ہوتا ہے جو عوام ریاست کو اداکرتی ہے اور ریاست اسی ٹیکس کو ملک کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کرتی ہے۔ ٹیکس کانظام بہت قدیم ہے لیکن ہر دور میں اس کی اشکال بدلتی رہی ہیں۔ پاکستانی ٹیکس کی دوشکلیں ہیں جو براہ راست اور بالواسطہ ہیں۔ براہ راست ٹیکسوں میں انکم ٹیکس،کارپوریٹ ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، کیپیٹل گین ٹیکس وغیرہ شامل ہیں جبکہ بالواسطہ ٹیکس میں عام سیلز ٹیکس، ویلیو ایڈڈ ٹیکس، ایکسائز ٹیکس وغیرہ شامل ہیں۔ ٹیکس کسی ملک میں معیار زندگی بلند کرنے میں مدد کرتے ہیں۔حکومتیں ٹیکسوں سے پیسہ اکٹھا کرتی ہیں اوراس پیسے کی مدد سے ملک کے ترقیاتی ڈھانچے میں بہتری لے کر آتی ہیں اور پورے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہیں۔ لوگ یہ سوچنا شروع کر دیں کہ ٹیکس ایک بوجھ ہے اور اسے ادا کرنے سے گریز کریں تو یہ براہ راست قوم کی ترقی کو متاثر کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرتی زوال وقوع پذیر ہوتا ہے۔جب تک ہم پاکستانی دل پر ہاتھ رکھ کر یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ہاں ہم نے پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے ٹیکس دیا ہے یقین جانئے تب تک ہماری عزت نفس، خوداری اور انا مجروح ہوتی رہے گئی۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

افغان جنگ سے سیکھنے کے چند سبق

اکرام سہگل
امریکا پر 11ستمبر 2001کو ہونے والے سفاکانہ حملوں میں طالبان ملوث نہیں تھے۔ ان حملوں کے لیے طیارہ اغوا کرنے والے 19میں سے 15 ہائی جیکرز کا تعلق بھی سعودی عرب سے تھا۔ لیکن افغانستان کی سرزمین پر اسامہ بن لادن کی موجودگی نے طالبان کو دہشت گردی کی اس قیامت خیز کارروائی سے جوڑ دیا۔ تمام ہائی جیکرز کا تعلق بھی القاعدہ سے تھا جب کہ طالبان کو نہ تو اس منصوبے کا علم تھا اور نہ ہی وہ کسی مرحلے پر بھی اس میں ملوث رہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اسامہ بن لادن ان حملوں کا منصوبہ ساز تھا اور طالبان کو اسے امریکا کے حوالے کردینا چاہیے تھا۔ طالبان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے افغان شہریوں کو امریکی انتقام کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان بھی افغانستان پر امریکا کی کارروائی سے پھوٹنے والے تشدد اور قتل و غارت کے اثرات کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ نہیں رہ سکا۔
نائن الیون کمیشن نومبر 2002میں قائم کیا گیا جس نے 22جولائی 2004کو اپنی حتمی رپورٹ جاری کردی تھی۔ لیکن اس رپورٹ کے کئی حصے صیغہ راز میں رکھے گئے جس پر ہر جانب سے تنقید بھی ہوئی۔ حال ہی میں صدر بائیڈن کے حکم پر نائن الیون سے متعلق مزید دستاویزات جاری کی گئی ہیں لیکن ان میں فراہم کی گئی تفصیلات میں کوئی نئی بات شامل نہیں ہے۔
نائن الیون کے سفاکانہ حملے انسانیت کے خلاف گھناؤنی دہشت گردی ہے۔ میرا بیٹا ان حملوں کا شکار ہونے سے بال بال بچا۔ وہ چیز مین ہیٹن پلازا میں ایک لا فرم میں کام کرتا تھا۔ یہ عمارت ورلڈ ٹریڈ ٹاور سے کچھ ہی دور واقع ہے۔ جیسے ہی ٹریڈ سینٹر سے جہاز ٹکرانے کے بعد زوردار دھماکے کی آواز سنائی دی تو میرا بیٹا اپنے دفتر کے کانفرنس روم میں آگیا جو ٹریڈ سینٹر کے سامنے عین سامنے تھا۔ وہاں اس نے دوسرا طیارہ ٹریڈ ٹاور سے ٹکراتے ہوئے دیکھا۔ ٹریڈ ٹاور کی عمارت گرنے سے وہاں ملبے کے پہاڑ اور دھول کے بادل بن گئے تھے۔ جن میں سے کسی نہ کسی طرح راستہ بناتے ہوئے میرا بیٹا چند ہی بلاک دور اپنی بہن کو تلاش کرنے نکل پڑا۔ یہ بھی ایک معجزہ ہی ہے کہ اس دن دونوں بہن بائی ایک دوسرے کو ڈھونڈنے میں کام یاب رہے۔ ملبے پر چلنے کی وجہ سے ان کے جوتے پھٹ چکے تھے اور پیروں پر سوجن آگئی تھی۔ اس حال میں بھی انہوں نے گھر تک طویل سفر پیدل طے کیا۔ نیویارک کے کئی شہریوں نے انہیں راستے میں کھانے پینے اور قیام کی بھی پیش کش کی۔ خدا کے کرم سے میں اس حادثے میں کسی ذاتی صدمے سے محفوظ رہا لیکن میں آج بھی ان ہزاروں بے قصور لوگوں کی مو ت کا درد محسوس کرتا ہوں جن کی جانیں اس حملے میں گئیں۔ امریکا اس دہشت گردی کے بعد انتقام لینے کا پورا جواز رکھتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو تاک تاک کر نشانہ نہ بنانا بھی امریکا ہی کی ناکامی تھی۔
نائن الیون کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ایف بی آئی اور سی آئی اے کی انٹیلی جنس ناکامیوں کی نشان دہی کی ہے۔ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ حملوں سے متعلق پیشگی اطلاعات کے بارے میں پوری تصویر سامنے نہیں لائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ٹھوس حقائق صیغہئ راز میں رکھے گئے ہیں۔ کمیشن میں رائے دی گئی تھی کہ افغانستان میں عوام کو یکسو کرنے کے لیے مضبوط فوج اور حکومت کی تشکیل ضروری ہے اور ملک کے بڑے صوبوں میں حکومتی ڈھانچا بنایا جانا چاہیے تھا۔ دوحہ میں امریکا نے اشرف غنی کو فریق بنائے بغیر طالبان کے ساتھ جو معاہدہ کیا یہ اس بات کا غماز تھا کہ افغانستان میں قائم حکومت کس قدر کمزور تھی۔
افغانستان میں دنیا کی سب سے بڑی قبائلی آبادی رہتی ہے جس کی اپنی طرز زندگی اور روایات ہیں۔ افغان عوام انھیں ترک کرکے مغربی اقدار اختیار نہیں کرسکتیں۔ افغان ہر اس قوت کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں جو انہیں زیر نگیں کرنے کی کوشش کرے یا ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے میدان میں اترا ہو۔ پھر چاہے وہ 1842 میں مقابل آنے والے برطانوی ہوں یا 1980کی دہائی میں افغانستان پر حملہ آور ہونے والا سوویت یونین ہی کیوں نہ ہو۔ اکیسویں صدی کے ابتدائی بیس برس میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادی نیٹو کو بھی اس انجام کا سامنا کرنا پڑا۔ ان ”انتہائی مہذب“ طاقتوں کی اس ’غیر تہذیب یافتہ‘ قوم کو تسخیر کرنے کی کوشش میں افغانوں کی کتنی ہی نسلیں خونریزی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ نسل ہا نسل جاری رہنے والی جنگوں نے انہیں بھوک، افلاس اور ڈرون حملوں کے سوا کیا دیا۔ کتنے ہی افغان ایسے ہیں جنھوں نے امن کا دور ہی نہیں دیکھا اور کتنے ہی نوجوانوں نے جنگ کے دور میں ہوش سنبھالا ہے۔
نائن الیون کمیشن کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد ہی سے تنقید کی زد میں آگئی تھی۔ امریکی مصنف بینجمن ڈیموٹ نے ایک ہارپر میگزین میں اس حوالے سے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ چار دن اس رپورٹ پر سر کھپانے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کے ہیں اس میں بڑی محنت سے فریب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ کمیشن حقائق سامنے لانے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اس کی رپورٹ میں ایسی بھول بھلیاں ہیں جن کی وجہ سے سب کچھ دھندلا جاتا ہے۔
اس کہانی میں امریکا کی تیل کمپنی یونوکال کو کمپنی کے کردار کو بھی فراموش کردیا جاتا ہے۔ یہ کمپنی کٹر نظریات رکھنے والے انہی طالبان کے ساتھ گیس پائپ لائن کے لیے ڈیل کرنا چاہتی تھی۔ جب کہ اس وقت تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔1997میں سینیئر طالبان قیادت کے لوگ ٹیکساس میں یونوکال سے معاہدے کے لیے ملنے گئے تھے۔ یہ ملاقات زلمے خلیل زاد نے ہوسٹن میں کروائی تھی جو اس وقت یونوکال کمپنی کے مشیر تھے۔ پائپ لائن پر ہونے والے مذاکرات کا سلسلہ 1998میں ختم ہوگیا جب القاعدہ نے امریکا کے دو سفارت خانوں کو نشانہ بنایا۔ البتہ بھارت کے بغیر تاپی پائپ لائن کی صورت میں امریکا نے وسطی ایشیا کے تیل اور گیس تک رسائی کی ایک اور کوشش کی۔ اس کے بعد تپ پائپ لائن کے لیے 2002 میں منصوبے پر دستخط ہوئے اور اس وقت تک امریکا کابل میں اپنی چنیدہ حکومت قائم کرچکا تھا۔
افغانستان کے بدلتے حالات میں ہمارے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ جنرل مشرف نے یک جنبش قلم جس طرح امریکا کی جنگ میں اتحادی بننے کا فیصلہ کیا اس کی پاکستان کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔ لیکن اس کی ساری ذمے داری مشرف پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ مشرف نے کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے قبل اپنے معتمد جرنیلوں سے مشورہ کیا تھا۔ جہاں مشرف سے غلطیاں ہوئیں اس کی ذمے داری ان کے مشیروں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنی نااہلی یا بند نیتی کے سبب یا تو مفادات کے لیے یا مشرف کو خوش رکھنے کے لیے ہاں میں ہاں ملائی۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو بے جھجک آج ٹی وی پر بیٹھ کر افغانستان کے حالات پر تبصرے فرماتے ہیں۔ ان میں سے کتنے تو ایسے ہیں جنھوں نے اپنے سپاہیوں اور شہریوں کے خون کے عوض دولت کے ڈھیر سمیٹے ہیں۔
جب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر الزامات کی بھوچھاڑ کی تو وزیر اعظم نے اس کا بہت جامع جواب دیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی شروع کی گئی جنگ میں پاکستان کی ایک لاکھ جانیں گئیں اور معیشت کو 150ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ امریکا نے پاکستان کو صرف 20ارب ڈالر امداد فراہم کی جن میں سے زیادہ تر کولیشن سپورٹ فنڈ کی مدد میں دی گئی جس کی ایک ایک پائی کا امریکا حساب لیتا تھا۔ اس جنگ کی وجہ سے افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقے تباہ و برباد ہوگئے۔ عمران خان نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ اس جنگ میں ہمارے ہزاروں لاکھوں شہری گھر سے بے گھر ہوگئے اور پاکستان بلامعاوضہ زمینی اور فضائی راستے فراہم کرتا رہا۔ کیا جناب ٹرمپ کسی اور ایسے اتحادی کا نام لے سکتے ہیں جس نے اتنا کچھ قربان کیا ہو۔
یہ تمام حقائق تو محض مشتے از خروارے ہے۔ لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کے بعد پاکستان میں جس طرح کلاشنیکوف اور ہیروئین کلچر عام ہوا، ہماری سوسائٹی اور کلچر جس طرح متاثر ہوئے اس کا حساب کتاب ہی کیا۔ طالبنائزیش کی وجہ سے ہمیں شدت پسندی کی ایک نئی لہر کا سامنا کرنا پڑا۔ اب ہمیں ایک نئے مرحلے کا سامنا ہے۔ ہماری قومی سلامتی کے ذمے داروں کو اب باریک بینی سے زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہ وقت زبانی جمع خرچ اور تصویری جھلکیاں جاری کرنے سے بڑھ کر سنجیدہ غور و فکر اور جامع لائحہ عمل کی تیاری کا تقاضا کرتا ہے۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭

امریکہ چین کی نئی سرد جنگ،نتائج کیا ہو نگے؟

ملک منظور احمد
دنیا میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں،دنیا میں طاقت کے مراکز میں تبدیلی آرہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک نئی سرد جنگ دنیا کی منتظر ہے،جنگ عظیم دوئم کے بعد سے حالیہ کچھ برسوں تک مغربی دنیا نے امریکی کی زیر قیادت پوری دنیا پر راج کیا ہے،ایک وقت تھا جب کہ سویت یونین کی شکل میں دنیا جنگ عظیم دوئم کے بعد بھی ایک با ئی پولر دنیا تصور کی جاتی تھی اور سویت یونین اور اس کے اتحادی کسی حد تک مغربی دنیا کے لیے ایک چیلنج تھے لیکن 80ء کی دہائی میں سویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا شرف حاصل ہو ا اور تمام عالمی معاملات بلا شرکت غیرے امریکہ اور اس کے اتحادی بلا روک ٹوک ہی طے کرنے لگے،لیکن اس عرصہ کے دوران امریکہ نے اپنی اس طاقت کا عالمی دنیا میں حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے اپنے آپ کو اتنی غیر ضروری جنگوں میں الجھا لیا کہ دنیا میں امریکہ کے مقابلے میں کچھ نئی قوتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں،جن میں چین سر فہرست ہے۔اس کے علاوہ روس بھی ایک مرتبہ پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہو چکا ہے اور دنیا کے کئی خطوں میں امریکہ کو چیلنج دے رہا ہے۔لیکن اس وقت امریکہ نے اپنا ہدف نمبر 1چین کو قرار دیا ہے اور اپنی تمام توانا ئیاں چین کو روکنے اور اس کو محدود کرنے پر صرف کی جا رہی ہیں۔
امریکہ کے لیے چین کی ابھرتی ہوئی معیشت سب سے بڑا خطرہ ہے اور امریکی کسی صورت نہیں چاہتا ہے کہ چین بطور دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت اس کی جگہ لے،اس وقت اگر دنیا کی دونوں بڑی معاشی طاقتوں امریکہ اور چین کی معیشت پر نظر ڈالی جائے تو امریکہ اس وقت بھی،21کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے جبکہ چین 16کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے۔امریکہ کو اتنا خطرہ روس کی عسکری قوت سے نہیں ہے جتنا خطرہ اسے چین کی ابھرتی ہوئی معا شی قوت سے محسوس ہو رہا ہے،امریکہ کی پوری کوشش ہے کسی بھی طریقے سے چین کی تیزی سے ترقی کرتی ہو ئی معیشت کو بریک لگائی جاسکے اور اس مقصد کے لیے نہ صرف اس نے بلکہ اس کے یورپی اتحادیوں نے چین کی مصنوعات پر ٹیرف لگا رکھے ہیں بلکہ کئی طرح کی پابندیاں بھی عائد کر دی گئی ہیں۔اور اب معاملات صرف معاشی اور تجارتی مقابلے اور پابندیوں سے بڑھ کر عسکری اور دفاعی معاملات تک بھی پہنچ چکے ہیں۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ چین کی تمام تجارت سا ؤتھ چائنہ سی اور سٹریٹ آف مالاکا کے ذریعے ہوتی ہے اور امریکہ اور اس کے دیگر اتحادی اس سمندر میں چین کی تجارت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں،اور اسی خطرے کے پیش نظر چین نے پاکستان اور گوادر کے راستے سے سمندر تک رسائی حاصل کی ہے تاکہ ساؤتھ چائنہ سی کے علاوہ بھی اس کے پاس اپنی تجارت کے لیے کوئی دوسرا آپشن موجود ہو۔اسی لیے گوادر اور سی پیک کی اہمیت چین کے لیے بہت زیادہ ہے اور چین کے دشمنوں کے لیے ایک بڑا ہدف بھی ہے۔
بہر حال اس وقت ہم بات چین کی کررہے ہیں،امریکہ نے کواڈ کے نام سے ایک علاقائی اتحاد تشکیل دیا ہے جس میں امریکہ کے علاوہ،جاپان،آسٹریلیا ار بھارت شامل ہیں اور اس اتحاد کا مقصد صرف اور صرف چین کو نکیل ڈالنا ہے،اور اسی سلسلے کی نئی کڑی میں امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے آسٹریلیا کو جوہری آبدوزیں فراہم کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت آسٹریلیا اب بحر اوقیانوس میں اپنی بحری قوت کو کو بڑھانے جا رہا ہے اور اس معاہدے کا ہدف بالا شبہ چین ہی ہے،امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے چین کے خلاف اقدامات کا سلسلہ مسلسل تیز ہو تا جا رہا ہے او ر دنیا ایک نئی سرد جنگ کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔دنیا واضح طور پر ایک نیا بلاک بھی ابھر رہا ہے جس میں چین،روس،ایران،پاکستان،ترکی اور وسطی ایشیائی ریاستیں ایک طرف جبکہ امریکہ،یور پ،برطانیہ،کینیڈا،ہندوستان،جاپان،آسٹریلیا اور اسرائیل دوسری جانب کھڑے ہیں۔ اس تمام عالمی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے سامنے بھی بڑے چیلنجز موجود ہیں۔افغانستان کی صورتحال میں قربانی کا بکرا پاکستان کو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ پاکستان کو مستقبل قریب میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے قربانی کا بکرا بنایا جائے۔اور شاید افغان صورتحال کی وجہ سے نہیں بلکہ چین کے ساتھ تعلقات اور سی پیک منصوبے کی وجہ سے بنایا جائے۔لیکن ظاہر یہی کیا جائے کہ پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی مدد کی پاداش میں پابندیوں کا سامنا ہے۔پاکستان کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس نئی سرد جنگ میں کسی ایک گروپ کے ساتھ نتھی ہونا پڑے گا بلکہ اگر کہا جائے کہ پاکستان چین کے بلاک میں شامل ہو چکا ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔
امریکہ اور مغربی ممالک نے گزشتہ 3صدیوں تک اس دنیا پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کی ہے اور اپنی مرضی چلائی ہے لیکن اب اس کی طاقت کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے،اور اس بات میں ہمیں کو ئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ امریکہ اور یورپ دنیا میں اپنی موجودہ پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا ئیں گے۔ماہرین کی جانب سے امریکہ اور چین کے سرد جنگ کے ہاٹ وار میں بھی تبدیل ہونے کے خطرات سے خبر دار کیا جا رہا ہے لیکن میرے خیال میں امریکہ اور چین دونوں بڑی قوتیں ہیں وہ براہ راست ایک دوسرے سے ٹکرانے کی بجائے سرد جنگ تک ہی محدود رہیں گی اور ایک دوسرے کے خلاف پراکیسز کا استعمال کیا جائے گا،ایسی صورتحال پاکستان جیسے ممالک کے لیے مزید مشکلا ت کا باعث بنے گی اور ہماری قیادت کو مکمل قومی ہم آہنگی اور اتفاق رائے کے ساتھ نہایت ہی دانش مندی اور برد باری کے ساتھ اس صورتحال سے نمٹنا ہو گا۔نئی سرد جنگ کا آغاز تو ہو چکا ہے پاکستان بھی گزشتہ سرد جنگ کی طرح اس سرد جنگ میں بھی ایک بلاک کا حصہ بن ہی چکا ہے،گزشتہ سرد جنگ میں امریکہ کو فتح حاصل ہوئی تھی،کہا جاتا ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ تاریخ ہمیشہ ہی خود کو دوہرائے امریکہ نے گزشتہ 30برس کے دوران جس بے دریغ انداز میں اپنی اقتصادی اورمعاشی کے ساتھ ساتھ عسکری قو ت کا دنیا بھر میں استعمال کیا ہے،جس کے باعث اس کو کئی ممالک کے جانب سے مخالفت کا سامنا بھی رہا ہے،امریکہ اور چین کی پالیسی میں واضح فرق بھی موجود ہے،امریکہ دھونس اور طاقت کے زور پر مختلف ممالک سے ڈیل کرتا آیا ہے جبکہ چین معاشی تعاون اور سرمایہ کاری کے ذریعے دنیا میں اپنا اثر بڑھا رہا ہے، امریکہ ابھی بھی سپر پاور سہی لیکن اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں اپنی اخلاقی برتری کھو چکا ہے،اسی لیے میرا خیال ہے کہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ اس سرد جنگ کا نتیجہ بھی گزشتہ سرد جنگ والا ہی نکلے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

فیس ماسک پابندی کی ‘خلاف ورزی’ پر باکسر عامر خان کو پرواز سے نکال دیا گیا

پاکستانی نژاد باکسر عامر خان کو مبینہ طور پر فیس ماسک نہ پہننے پر ایک ساتھی سمیت امریکی فضائی کمپنی کی پرواز سے نکال دیا گیا۔

سابق عالمی لائٹ ویلٹر ویٹ چیمپئن عامر خان نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ وہ نیویارک سے ایک تربیتی کیمپ میں شرکت کے لیے کولوراڈو جانا چاہتے تھے۔

مگر پرواز کے دوران عامر خان اور ان کے ساتھی نے فیس ماسک اس وقت اتار دیئے جب کسی مسافر نے شکایت کی کہ باکسر کے ساتھی کا ماسک صحیح طرح ایڈجسٹ نہیں۔

عامر خان نے دعویٰ کیا کہ انہیں ان کے ساتھی سمیت بغیر کسی وجہ کے پولیس نے پرواز سے نکال دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے آج طیارے سے پولیس نے اس وقت نکالا جب میں کولوراڈو کے ٹریننگ کیمپ میں جارہا تھا’۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ‘امریکی ایئرلائنز کے عملے کو شکایت کی گئی تھی کہ میرے ساتھی کا ماسک ٹھیک طرح سے اوپر نہیں، جس کے بعد طیارے کو روک کر مجھے اور میرے دوست کو لے جایا گیا’۔

کراچی میں‌ آئندہ ہفتے بارشوں‌ کی پیش گوئی

کراچی : محکمہ موسمیات نے شہر قائد میں آئندہ ہفتے میں دو دن تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی کہ مون سون ہوائیں بیس ستمبر کی شام یا رات ملک کے بالائی علاقوں میں داخل ہوجائیں گی۔

محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں 23 سے 25 ستمبر تک مون سون بارشوں کا امکان ہے۔

ترجمان محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی کہ 23 سے 24 ستمبر کے دوران کشمیر، اسلام آباد، راولپنڈی، اٹک، چکوال، جہلم، لاہور اور دیگر علاقوں میں تیز ہواؤں اور گرچ چمک کے ساتھ بارش ہوسکتی ہے۔

ان دنوں میں جنوبی پنجاب، بلوچستان کے مشرقی علاقوں اور صوبہ سندھ میں بھی تیز بارشوں کا امکان ہے۔

محکمہ موسمیات نے بتایا کہ کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص، تھر پارکر، عمر کوٹ، سانگھڑ، ٹھٹہ، بدین، دادو، شہید بینظیرآباد، سکھر ، لاڑکانہ میں بھی تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ جبکہ چند علاقوں میں موسلا دھار بارش کا بھی امکان ہے۔

محکمہ موسمیات نے بتایا کہ 25 ستمبر کے بعد گرمی کی شدت میں کمی آجائے گی۔

مفتی تقی عثمانی وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ منتخب

                                                                                                                                

ممتازعالم دین مفتی تقی عثمانی کو وفاق المدارس العربیہ کا سربراہ منتخب کرلیا گیا ہے   

وفاق المدارس العربیہ کی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس جامعہ اشرفیہ لاہور میں منعقد ہوا جس میں جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی شریک ہوئے۔

مولانا فضل الرحمان نے وفاق المدارس کے سربراہ کے لیے مفتی تقی عثمانی کا نام تجویز کیا تو اجلاس میں شریک علمائے کرام نے ان کی حمایت کی جس کے بعد مفتی تقی عثمانی کو بلامقابلہ وفاق المدارس العربیہ کا سربراہ منتخب کرلیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان نے مفتی تقی عثمانی کو مبارک باد دی اور ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

مفتی تقی عثمانی معروف عالم اور جید فقیہ ہیں۔ ان کا شمارملک کی نامور علمی اور مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ وہ بین الاقوامی اسلامی فقہ اکادمی جدہ کے نائب صدر اور دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم ہیں۔ اس کے علاوہ آپ 7 اسلامی بینکوں میں بحیثیت شرعی مشیر کام کر رہے ہیں اور البلاغ جریدے کے مدیر اعلی بھی ہیں۔

واضح رہے کہ مولاناعبدالرزاق سکندرکی وفات کے بعد وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ کا عہدہ خالی تھا۔