تازہ تر ین

امریکہ چین کی نئی سرد جنگ،نتائج کیا ہو نگے؟

ملک منظور احمد
دنیا میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں،دنیا میں طاقت کے مراکز میں تبدیلی آرہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک نئی سرد جنگ دنیا کی منتظر ہے،جنگ عظیم دوئم کے بعد سے حالیہ کچھ برسوں تک مغربی دنیا نے امریکی کی زیر قیادت پوری دنیا پر راج کیا ہے،ایک وقت تھا جب کہ سویت یونین کی شکل میں دنیا جنگ عظیم دوئم کے بعد بھی ایک با ئی پولر دنیا تصور کی جاتی تھی اور سویت یونین اور اس کے اتحادی کسی حد تک مغربی دنیا کے لیے ایک چیلنج تھے لیکن 80ء کی دہائی میں سویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا شرف حاصل ہو ا اور تمام عالمی معاملات بلا شرکت غیرے امریکہ اور اس کے اتحادی بلا روک ٹوک ہی طے کرنے لگے،لیکن اس عرصہ کے دوران امریکہ نے اپنی اس طاقت کا عالمی دنیا میں حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے اپنے آپ کو اتنی غیر ضروری جنگوں میں الجھا لیا کہ دنیا میں امریکہ کے مقابلے میں کچھ نئی قوتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں،جن میں چین سر فہرست ہے۔اس کے علاوہ روس بھی ایک مرتبہ پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہو چکا ہے اور دنیا کے کئی خطوں میں امریکہ کو چیلنج دے رہا ہے۔لیکن اس وقت امریکہ نے اپنا ہدف نمبر 1چین کو قرار دیا ہے اور اپنی تمام توانا ئیاں چین کو روکنے اور اس کو محدود کرنے پر صرف کی جا رہی ہیں۔
امریکہ کے لیے چین کی ابھرتی ہوئی معیشت سب سے بڑا خطرہ ہے اور امریکی کسی صورت نہیں چاہتا ہے کہ چین بطور دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت اس کی جگہ لے،اس وقت اگر دنیا کی دونوں بڑی معاشی طاقتوں امریکہ اور چین کی معیشت پر نظر ڈالی جائے تو امریکہ اس وقت بھی،21کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے جبکہ چین 16کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے۔امریکہ کو اتنا خطرہ روس کی عسکری قوت سے نہیں ہے جتنا خطرہ اسے چین کی ابھرتی ہوئی معا شی قوت سے محسوس ہو رہا ہے،امریکہ کی پوری کوشش ہے کسی بھی طریقے سے چین کی تیزی سے ترقی کرتی ہو ئی معیشت کو بریک لگائی جاسکے اور اس مقصد کے لیے نہ صرف اس نے بلکہ اس کے یورپی اتحادیوں نے چین کی مصنوعات پر ٹیرف لگا رکھے ہیں بلکہ کئی طرح کی پابندیاں بھی عائد کر دی گئی ہیں۔اور اب معاملات صرف معاشی اور تجارتی مقابلے اور پابندیوں سے بڑھ کر عسکری اور دفاعی معاملات تک بھی پہنچ چکے ہیں۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ چین کی تمام تجارت سا ؤتھ چائنہ سی اور سٹریٹ آف مالاکا کے ذریعے ہوتی ہے اور امریکہ اور اس کے دیگر اتحادی اس سمندر میں چین کی تجارت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں،اور اسی خطرے کے پیش نظر چین نے پاکستان اور گوادر کے راستے سے سمندر تک رسائی حاصل کی ہے تاکہ ساؤتھ چائنہ سی کے علاوہ بھی اس کے پاس اپنی تجارت کے لیے کوئی دوسرا آپشن موجود ہو۔اسی لیے گوادر اور سی پیک کی اہمیت چین کے لیے بہت زیادہ ہے اور چین کے دشمنوں کے لیے ایک بڑا ہدف بھی ہے۔
بہر حال اس وقت ہم بات چین کی کررہے ہیں،امریکہ نے کواڈ کے نام سے ایک علاقائی اتحاد تشکیل دیا ہے جس میں امریکہ کے علاوہ،جاپان،آسٹریلیا ار بھارت شامل ہیں اور اس اتحاد کا مقصد صرف اور صرف چین کو نکیل ڈالنا ہے،اور اسی سلسلے کی نئی کڑی میں امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے آسٹریلیا کو جوہری آبدوزیں فراہم کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت آسٹریلیا اب بحر اوقیانوس میں اپنی بحری قوت کو کو بڑھانے جا رہا ہے اور اس معاہدے کا ہدف بالا شبہ چین ہی ہے،امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے چین کے خلاف اقدامات کا سلسلہ مسلسل تیز ہو تا جا رہا ہے او ر دنیا ایک نئی سرد جنگ کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔دنیا واضح طور پر ایک نیا بلاک بھی ابھر رہا ہے جس میں چین،روس،ایران،پاکستان،ترکی اور وسطی ایشیائی ریاستیں ایک طرف جبکہ امریکہ،یور پ،برطانیہ،کینیڈا،ہندوستان،جاپان،آسٹریلیا اور اسرائیل دوسری جانب کھڑے ہیں۔ اس تمام عالمی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے سامنے بھی بڑے چیلنجز موجود ہیں۔افغانستان کی صورتحال میں قربانی کا بکرا پاکستان کو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ پاکستان کو مستقبل قریب میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے قربانی کا بکرا بنایا جائے۔اور شاید افغان صورتحال کی وجہ سے نہیں بلکہ چین کے ساتھ تعلقات اور سی پیک منصوبے کی وجہ سے بنایا جائے۔لیکن ظاہر یہی کیا جائے کہ پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی مدد کی پاداش میں پابندیوں کا سامنا ہے۔پاکستان کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس نئی سرد جنگ میں کسی ایک گروپ کے ساتھ نتھی ہونا پڑے گا بلکہ اگر کہا جائے کہ پاکستان چین کے بلاک میں شامل ہو چکا ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔
امریکہ اور مغربی ممالک نے گزشتہ 3صدیوں تک اس دنیا پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کی ہے اور اپنی مرضی چلائی ہے لیکن اب اس کی طاقت کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے،اور اس بات میں ہمیں کو ئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ امریکہ اور یورپ دنیا میں اپنی موجودہ پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا ئیں گے۔ماہرین کی جانب سے امریکہ اور چین کے سرد جنگ کے ہاٹ وار میں بھی تبدیل ہونے کے خطرات سے خبر دار کیا جا رہا ہے لیکن میرے خیال میں امریکہ اور چین دونوں بڑی قوتیں ہیں وہ براہ راست ایک دوسرے سے ٹکرانے کی بجائے سرد جنگ تک ہی محدود رہیں گی اور ایک دوسرے کے خلاف پراکیسز کا استعمال کیا جائے گا،ایسی صورتحال پاکستان جیسے ممالک کے لیے مزید مشکلا ت کا باعث بنے گی اور ہماری قیادت کو مکمل قومی ہم آہنگی اور اتفاق رائے کے ساتھ نہایت ہی دانش مندی اور برد باری کے ساتھ اس صورتحال سے نمٹنا ہو گا۔نئی سرد جنگ کا آغاز تو ہو چکا ہے پاکستان بھی گزشتہ سرد جنگ کی طرح اس سرد جنگ میں بھی ایک بلاک کا حصہ بن ہی چکا ہے،گزشتہ سرد جنگ میں امریکہ کو فتح حاصل ہوئی تھی،کہا جاتا ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ تاریخ ہمیشہ ہی خود کو دوہرائے امریکہ نے گزشتہ 30برس کے دوران جس بے دریغ انداز میں اپنی اقتصادی اورمعاشی کے ساتھ ساتھ عسکری قو ت کا دنیا بھر میں استعمال کیا ہے،جس کے باعث اس کو کئی ممالک کے جانب سے مخالفت کا سامنا بھی رہا ہے،امریکہ اور چین کی پالیسی میں واضح فرق بھی موجود ہے،امریکہ دھونس اور طاقت کے زور پر مختلف ممالک سے ڈیل کرتا آیا ہے جبکہ چین معاشی تعاون اور سرمایہ کاری کے ذریعے دنیا میں اپنا اثر بڑھا رہا ہے، امریکہ ابھی بھی سپر پاور سہی لیکن اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں اپنی اخلاقی برتری کھو چکا ہے،اسی لیے میرا خیال ہے کہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ اس سرد جنگ کا نتیجہ بھی گزشتہ سرد جنگ والا ہی نکلے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain