تازہ تر ین

افغان جنگ سے سیکھنے کے چند سبق

اکرام سہگل
امریکا پر 11ستمبر 2001کو ہونے والے سفاکانہ حملوں میں طالبان ملوث نہیں تھے۔ ان حملوں کے لیے طیارہ اغوا کرنے والے 19میں سے 15 ہائی جیکرز کا تعلق بھی سعودی عرب سے تھا۔ لیکن افغانستان کی سرزمین پر اسامہ بن لادن کی موجودگی نے طالبان کو دہشت گردی کی اس قیامت خیز کارروائی سے جوڑ دیا۔ تمام ہائی جیکرز کا تعلق بھی القاعدہ سے تھا جب کہ طالبان کو نہ تو اس منصوبے کا علم تھا اور نہ ہی وہ کسی مرحلے پر بھی اس میں ملوث رہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اسامہ بن لادن ان حملوں کا منصوبہ ساز تھا اور طالبان کو اسے امریکا کے حوالے کردینا چاہیے تھا۔ طالبان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے افغان شہریوں کو امریکی انتقام کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان بھی افغانستان پر امریکا کی کارروائی سے پھوٹنے والے تشدد اور قتل و غارت کے اثرات کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ نہیں رہ سکا۔
نائن الیون کمیشن نومبر 2002میں قائم کیا گیا جس نے 22جولائی 2004کو اپنی حتمی رپورٹ جاری کردی تھی۔ لیکن اس رپورٹ کے کئی حصے صیغہ راز میں رکھے گئے جس پر ہر جانب سے تنقید بھی ہوئی۔ حال ہی میں صدر بائیڈن کے حکم پر نائن الیون سے متعلق مزید دستاویزات جاری کی گئی ہیں لیکن ان میں فراہم کی گئی تفصیلات میں کوئی نئی بات شامل نہیں ہے۔
نائن الیون کے سفاکانہ حملے انسانیت کے خلاف گھناؤنی دہشت گردی ہے۔ میرا بیٹا ان حملوں کا شکار ہونے سے بال بال بچا۔ وہ چیز مین ہیٹن پلازا میں ایک لا فرم میں کام کرتا تھا۔ یہ عمارت ورلڈ ٹریڈ ٹاور سے کچھ ہی دور واقع ہے۔ جیسے ہی ٹریڈ سینٹر سے جہاز ٹکرانے کے بعد زوردار دھماکے کی آواز سنائی دی تو میرا بیٹا اپنے دفتر کے کانفرنس روم میں آگیا جو ٹریڈ سینٹر کے سامنے عین سامنے تھا۔ وہاں اس نے دوسرا طیارہ ٹریڈ ٹاور سے ٹکراتے ہوئے دیکھا۔ ٹریڈ ٹاور کی عمارت گرنے سے وہاں ملبے کے پہاڑ اور دھول کے بادل بن گئے تھے۔ جن میں سے کسی نہ کسی طرح راستہ بناتے ہوئے میرا بیٹا چند ہی بلاک دور اپنی بہن کو تلاش کرنے نکل پڑا۔ یہ بھی ایک معجزہ ہی ہے کہ اس دن دونوں بہن بائی ایک دوسرے کو ڈھونڈنے میں کام یاب رہے۔ ملبے پر چلنے کی وجہ سے ان کے جوتے پھٹ چکے تھے اور پیروں پر سوجن آگئی تھی۔ اس حال میں بھی انہوں نے گھر تک طویل سفر پیدل طے کیا۔ نیویارک کے کئی شہریوں نے انہیں راستے میں کھانے پینے اور قیام کی بھی پیش کش کی۔ خدا کے کرم سے میں اس حادثے میں کسی ذاتی صدمے سے محفوظ رہا لیکن میں آج بھی ان ہزاروں بے قصور لوگوں کی مو ت کا درد محسوس کرتا ہوں جن کی جانیں اس حملے میں گئیں۔ امریکا اس دہشت گردی کے بعد انتقام لینے کا پورا جواز رکھتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو تاک تاک کر نشانہ نہ بنانا بھی امریکا ہی کی ناکامی تھی۔
نائن الیون کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ایف بی آئی اور سی آئی اے کی انٹیلی جنس ناکامیوں کی نشان دہی کی ہے۔ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ حملوں سے متعلق پیشگی اطلاعات کے بارے میں پوری تصویر سامنے نہیں لائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ٹھوس حقائق صیغہئ راز میں رکھے گئے ہیں۔ کمیشن میں رائے دی گئی تھی کہ افغانستان میں عوام کو یکسو کرنے کے لیے مضبوط فوج اور حکومت کی تشکیل ضروری ہے اور ملک کے بڑے صوبوں میں حکومتی ڈھانچا بنایا جانا چاہیے تھا۔ دوحہ میں امریکا نے اشرف غنی کو فریق بنائے بغیر طالبان کے ساتھ جو معاہدہ کیا یہ اس بات کا غماز تھا کہ افغانستان میں قائم حکومت کس قدر کمزور تھی۔
افغانستان میں دنیا کی سب سے بڑی قبائلی آبادی رہتی ہے جس کی اپنی طرز زندگی اور روایات ہیں۔ افغان عوام انھیں ترک کرکے مغربی اقدار اختیار نہیں کرسکتیں۔ افغان ہر اس قوت کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں جو انہیں زیر نگیں کرنے کی کوشش کرے یا ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے میدان میں اترا ہو۔ پھر چاہے وہ 1842 میں مقابل آنے والے برطانوی ہوں یا 1980کی دہائی میں افغانستان پر حملہ آور ہونے والا سوویت یونین ہی کیوں نہ ہو۔ اکیسویں صدی کے ابتدائی بیس برس میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادی نیٹو کو بھی اس انجام کا سامنا کرنا پڑا۔ ان ”انتہائی مہذب“ طاقتوں کی اس ’غیر تہذیب یافتہ‘ قوم کو تسخیر کرنے کی کوشش میں افغانوں کی کتنی ہی نسلیں خونریزی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ نسل ہا نسل جاری رہنے والی جنگوں نے انہیں بھوک، افلاس اور ڈرون حملوں کے سوا کیا دیا۔ کتنے ہی افغان ایسے ہیں جنھوں نے امن کا دور ہی نہیں دیکھا اور کتنے ہی نوجوانوں نے جنگ کے دور میں ہوش سنبھالا ہے۔
نائن الیون کمیشن کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد ہی سے تنقید کی زد میں آگئی تھی۔ امریکی مصنف بینجمن ڈیموٹ نے ایک ہارپر میگزین میں اس حوالے سے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ چار دن اس رپورٹ پر سر کھپانے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کے ہیں اس میں بڑی محنت سے فریب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ کمیشن حقائق سامنے لانے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اس کی رپورٹ میں ایسی بھول بھلیاں ہیں جن کی وجہ سے سب کچھ دھندلا جاتا ہے۔
اس کہانی میں امریکا کی تیل کمپنی یونوکال کو کمپنی کے کردار کو بھی فراموش کردیا جاتا ہے۔ یہ کمپنی کٹر نظریات رکھنے والے انہی طالبان کے ساتھ گیس پائپ لائن کے لیے ڈیل کرنا چاہتی تھی۔ جب کہ اس وقت تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔1997میں سینیئر طالبان قیادت کے لوگ ٹیکساس میں یونوکال سے معاہدے کے لیے ملنے گئے تھے۔ یہ ملاقات زلمے خلیل زاد نے ہوسٹن میں کروائی تھی جو اس وقت یونوکال کمپنی کے مشیر تھے۔ پائپ لائن پر ہونے والے مذاکرات کا سلسلہ 1998میں ختم ہوگیا جب القاعدہ نے امریکا کے دو سفارت خانوں کو نشانہ بنایا۔ البتہ بھارت کے بغیر تاپی پائپ لائن کی صورت میں امریکا نے وسطی ایشیا کے تیل اور گیس تک رسائی کی ایک اور کوشش کی۔ اس کے بعد تپ پائپ لائن کے لیے 2002 میں منصوبے پر دستخط ہوئے اور اس وقت تک امریکا کابل میں اپنی چنیدہ حکومت قائم کرچکا تھا۔
افغانستان کے بدلتے حالات میں ہمارے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ جنرل مشرف نے یک جنبش قلم جس طرح امریکا کی جنگ میں اتحادی بننے کا فیصلہ کیا اس کی پاکستان کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔ لیکن اس کی ساری ذمے داری مشرف پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ مشرف نے کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے قبل اپنے معتمد جرنیلوں سے مشورہ کیا تھا۔ جہاں مشرف سے غلطیاں ہوئیں اس کی ذمے داری ان کے مشیروں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنی نااہلی یا بند نیتی کے سبب یا تو مفادات کے لیے یا مشرف کو خوش رکھنے کے لیے ہاں میں ہاں ملائی۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو بے جھجک آج ٹی وی پر بیٹھ کر افغانستان کے حالات پر تبصرے فرماتے ہیں۔ ان میں سے کتنے تو ایسے ہیں جنھوں نے اپنے سپاہیوں اور شہریوں کے خون کے عوض دولت کے ڈھیر سمیٹے ہیں۔
جب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر الزامات کی بھوچھاڑ کی تو وزیر اعظم نے اس کا بہت جامع جواب دیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی شروع کی گئی جنگ میں پاکستان کی ایک لاکھ جانیں گئیں اور معیشت کو 150ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ امریکا نے پاکستان کو صرف 20ارب ڈالر امداد فراہم کی جن میں سے زیادہ تر کولیشن سپورٹ فنڈ کی مدد میں دی گئی جس کی ایک ایک پائی کا امریکا حساب لیتا تھا۔ اس جنگ کی وجہ سے افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقے تباہ و برباد ہوگئے۔ عمران خان نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ اس جنگ میں ہمارے ہزاروں لاکھوں شہری گھر سے بے گھر ہوگئے اور پاکستان بلامعاوضہ زمینی اور فضائی راستے فراہم کرتا رہا۔ کیا جناب ٹرمپ کسی اور ایسے اتحادی کا نام لے سکتے ہیں جس نے اتنا کچھ قربان کیا ہو۔
یہ تمام حقائق تو محض مشتے از خروارے ہے۔ لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کے بعد پاکستان میں جس طرح کلاشنیکوف اور ہیروئین کلچر عام ہوا، ہماری سوسائٹی اور کلچر جس طرح متاثر ہوئے اس کا حساب کتاب ہی کیا۔ طالبنائزیش کی وجہ سے ہمیں شدت پسندی کی ایک نئی لہر کا سامنا کرنا پڑا۔ اب ہمیں ایک نئے مرحلے کا سامنا ہے۔ ہماری قومی سلامتی کے ذمے داروں کو اب باریک بینی سے زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہ وقت زبانی جمع خرچ اور تصویری جھلکیاں جاری کرنے سے بڑھ کر سنجیدہ غور و فکر اور جامع لائحہ عمل کی تیاری کا تقاضا کرتا ہے۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain