تازہ تر ین

دورے کی منسوخی اور ٹیکس چوری!

نعیم ثاقب
سیکورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ ختم کیا تو دنیا بھرکے کرکٹ شائقین سمیت تمام پاکستانیوں کو مایوسی ہوئی۔پی سی بی کے چیئر مین رمیز راجہ نے معاملہ آئی سی سی میں اٹھانے کا اعلان کیا کرکٹرز،سیاسی راہنماؤں،طلباء،سول سوسائٹی،نوجوان الغرض پاکستان کا ہر فرد نیوزی لینڈ کے اس فیصلے پر تلملا اٹھا۔تمام محبت وطن پاکستانیوں نے اس کو اپنی ذاتی تضحیک، توہین اور ہتک سمجھا اور سمجھنا بھی چاہیے کیونکہ اس سے ہر پاکستانی کی خوداری،عزت نفس اور انا کو ٹھیس پہنچی ہے مگرسوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا ہوا کیوں ہے؟یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ غریب کی کوئی عزت نہیں کرتا، مانگنے والے کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا اور کمزور کی چیخوں سے طاقتورکے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔یہیں کچھ ہمارے کرکٹ بورڈ کے واویلے،وزیراعظم کی کال اور وزیر داخلہ شیخ رشید کی حفاظتی یقین دہانی کیساتھ ہوا۔ ہر کوئی سوچ رہا ہے کہ قصوروار کو ن ہے۔ میر ے خیال میں اس دورے کی منسوخی میں جتنا نیوزی لینڈ اورکسی سازشی عنصر کا ہاتھ ہے۔ وہاں تھوڑے بہت قصوروار بطورپاکستانی ہم خود بھی ہیں اور یہ قصور ہم آج سے نہیں بلکہ گزشتہ 74 برسوں سے کر رہے ہیں۔ ہم سب پاکستان سے محبت کے دعوے کرتے ہیں یقیناً محبت کرتے بھی ہیں مگر اس کو مضبوط بنانے میں حقیقی کردار ادا کرنے سے گریزاں ہیں ہر پاکستانی بلا شبہ محب وطن ہے مگرجہاں ریاست کی معیشت کومضبوط کرنے کے لیے ٹیکس دینا پڑتا ہے وہاں ہم حیلے بہانے، جواز اور توجیحات پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔کبھی ٹیکس کے نظام کی خرابی کاعذر تراشتے ہیں تو کبھی سیاستدانوں اور بیوروکریسی پر کرپشن کے الزام لگاتے ہیں اوراکثر تو یہ سوال کرکے خود کو ہر ذمہ داری سے بری الزمہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں ملتا کیا ہے جو ہم ٹیکس دیں؟ تو ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ سرحدوں پہ ہماری حفاظت کے لیے جو جوان کھڑے رہتے ہیں ان کے اخراجات ہوتے ہیں۔ ہم جس سڑک، موٹر وے،انڈر پاس اور اوور ہیڈ برج سے گزرتے ہیں اس کو بنانے میں کچھ لاگت آتی ہے۔تھانے، کچہری، ائر پورٹ،سکول، ہسپتال، کالج، یونیورسٹیاں جن سے ہم فیض یاب ہوتے ہیں یہ سب نظام پیسوں سے چلتا ہے اور ہر وہ حکومت جن کے دیگر ذرائع آمدنی کم ہوں وہ یہ اخراجات ٹیکس سے پورا کرتی ہے۔ اور جب ٹیکس کی چوری ہو اور پیسے پورے نہ ہوں تو غریب حکومت قرضہ لے کر مانگے تانگے سے کام چلاتی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ مقروض، غریب اور مانگنے والے کو خاطر میں کوئی نہیں لاتا۔
برسوں سے ہماری یہ ہی سوچ رہی ہے کہ سیاستدان تو سارے چور ہیں۔ ہمارا پیسہ عیاشیوں، پروٹوکول اور ذاتی جائیدادیں بنانے میں ضائع کر دیتے ہیں ہم ٹیکس کیوں دیں؟۔یقینا اس سے انکار نہیں کہ ہمارے نظام میں موجود خرابیوں کو بہتر ہونے کی ضرورت ہے۔لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ان 74 برسوں میں کتنے سیاستدان آئے اور چلے گئے لیکن ریاست موجود ہے۔حکومتیں آتی جاتی رہتی ہے لیکن ریاست ہمیشہ قائم رہتی ہے اور ریاست کو اس کے افراد مضبوط بناتے ہیں۔اگر عوام سیاستدانوں کو ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں لا سکتے ہیں تو یہی عوام ٹیکس کی طاقت سے ریاست کو مضبوط بھی بناسکتے ہیں۔نیوزی لینڈ کے اپنے ملک میں تاریخی دہشت گردی ہوئی جسے لائیو دیکھا گیا مگروہاں کے میدان تو آباد رہے کھیل ہو رہے ہیں۔ہمیں مان لینا چاہیے کہ انہوں نے یہاں سے واپسی کا فیصلہ اس لیے کیاکہ وہ جانتے ہیں ہم معاشی طور پر کمزور ہیں ان کا کوئی معاشی نقصان نہیں کر سکتے۔اور یہ بھی کہ وہ ہمارے ساتھ کرکٹ نہ بھی کھیلیں تو ان کوکوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔اگر ہم معاشی طور پر طاقتور ہوتے،دنیاکے بہترین سٹیڈیم ہمارے ملک میں ہوتے ہر انٹرنیشنل پلیئر کو اتنا معاوضہ دے سکتے کہ وہ ہر سال پاکستان آ کر کھیلنے کو ترستا۔ توکیا نیوزی لینڈ اتنا بڑا قدم اٹھا سکتا تھا کہ وہ ہمارے امیج کو خراب کرے اور یکطرفہ طور پر دورہ منسوخ کر کے چلا جائے؟؟ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہماری ریاست کے پاس اتنا پیسہ ہو کہ وہ کھیلوں کے لیے جدید سٹیڈیم اور کھلاڑیوں کے لیے بہترین سہولیات مہیا کر سکے۔ کرکٹ ایک کھیل ہونے کیساتھ اکانومی کو مضبوط کرنے کااہم ذریعہ بھی ہے۔اس کھیل کے ذریعے بہت سے طریقوں سے پیسہ آتا ہے جو معیشت کو مضبوط کر تا ہے۔دشمن ہماری کرکٹ کو بدنام، میدانوں کو ویران اور معیشت کونقصان پہچانا چاہتا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہیں ہم بھی ٹیکس چوری کرکے غیراردای طور پر اس دشمن کے ہاتھ تو مضبوط نہیں کر رہے جو پاکستان کی معیشت کا دشمن ہے۔
ٹیکس کسی بھی ملک اور ریاست کے لیے اتنا ہی لازم ہوتا ہے جتنا کسی زندہ انسان کیلئے روح،روح کے بغیر جس طرح انسان کا جسم حرکت نہیں کر سکتا اسی طرح ٹیکس کے بغیر ریاست نہیں چل سکتی۔ٹیکس ریاست کا حق ہوتا ہے جو عوام ریاست کو اداکرتی ہے اور ریاست اسی ٹیکس کو ملک کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کرتی ہے۔ ٹیکس کانظام بہت قدیم ہے لیکن ہر دور میں اس کی اشکال بدلتی رہی ہیں۔ پاکستانی ٹیکس کی دوشکلیں ہیں جو براہ راست اور بالواسطہ ہیں۔ براہ راست ٹیکسوں میں انکم ٹیکس،کارپوریٹ ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، کیپیٹل گین ٹیکس وغیرہ شامل ہیں جبکہ بالواسطہ ٹیکس میں عام سیلز ٹیکس، ویلیو ایڈڈ ٹیکس، ایکسائز ٹیکس وغیرہ شامل ہیں۔ ٹیکس کسی ملک میں معیار زندگی بلند کرنے میں مدد کرتے ہیں۔حکومتیں ٹیکسوں سے پیسہ اکٹھا کرتی ہیں اوراس پیسے کی مدد سے ملک کے ترقیاتی ڈھانچے میں بہتری لے کر آتی ہیں اور پورے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہیں۔ لوگ یہ سوچنا شروع کر دیں کہ ٹیکس ایک بوجھ ہے اور اسے ادا کرنے سے گریز کریں تو یہ براہ راست قوم کی ترقی کو متاثر کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرتی زوال وقوع پذیر ہوتا ہے۔جب تک ہم پاکستانی دل پر ہاتھ رکھ کر یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ہاں ہم نے پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے ٹیکس دیا ہے یقین جانئے تب تک ہماری عزت نفس، خوداری اور انا مجروح ہوتی رہے گئی۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain