ڈومیسٹک سطح تک محدود رہتے ہوئے عالمی سطح کی ٹیم تیار کر سکتے ہیں، رمیز راجا

چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) رمیز راجا نے کہا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ پھر دباؤ میں آ گئی ہے اور اگر ہم اس صورتحال سے باہر نہیں نکل پاتے تو ڈومیسٹک سطح تک محدود رہتے ہوئے عالمی سطح کی ٹیم تیار کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے گزشتہ روز ون ڈے سیریز کے آغاز سے چند گھنٹے قبل دورہ پاکستان منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا اور آج ان کی ٹیم خصوصی طیارے سے وطن واپس لوٹ گئی ہے۔

کیویز کے انکار کے ایک دن بعد پی سی بی کی جانب سے جاری خصوصی ویڈیو پیغام میں رمیز راجا نے کہا کہ آپ کا اور میرا درد ایک جیسا اور مشترک ہے، جو کچھ ہوا وہ پاکستان کرکٹ کے لیے ٹھیک نہیں تھا، آپ کا اندازہ ہے کہ ہم کیا توقع کررہے تھے اور جو ہوا وہ بدقسمت صورتحال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں لیکن ہم آگے بڑھے ہیں، ہم میں مشکل سے نکلنے کی صلاحیت ہے جو شائقین کرکٹ اور قومی ٹیم کی وجہ سے ہے اور ہم اپنی بقا کے لیے لڑنے کے جذبے کے تحت دنیا کو چیلنج کرتے ہیں۔

رمیز راجا نے کہا کہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ پھر دباؤ میں آ گئی ہے تو ہم دوبارہ چیلنج کریں گے، اگر بالفرض باہر نہیں نکلتے ہیں تو ہم میں اتنا دم، اعتماد اور طاقت ہے کہ ہم ڈومیسٹک سطح تک محدود رہتے ہوئے عالمی سطح کی ٹیم تیار کر سکتے ہیں اور کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔

انہوں نے شائقین کرکٹ سے پاکستان کرکٹ کو سپورٹ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آپ ورلڈ کپ میں ان کے بازو بن جائیں اور کرکٹ ٹیم کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنا غصہ پرفارمنس پر نکالیں کیونکہ دنیا کو اپنا کھیل دکھانے کا یہی طریقہ ہے۔

نومنتخب چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ جب آپ دنیا کی سب سے بہترین ٹیم بن جاتے ہیں تو پھر پاکستان میں ٹیموں کی قطاریں لگ سکتی ہیں، تو میں چاہوں گا کہ ہم اس سے سبق سیکھیں اور ہمت رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔

انہوں نے کہا کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کرکٹ پر بہت زیادہ دباؤ بڑھا ہے لیکن ہمارے بس میں جو بھی ہو گا وہ کریں گے، آپ کو آگے چل کر اچھی خبریں اور نتائج بھی ملیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنی پوری طاقت لگا رہے ہیں لیکن ہمیں شائقین کی سپورٹ کی ضرورت ہے، پاکستان کرکٹ کو دنیا کی بہترین ٹیم بن کر سامنے آنا ہے تاکہ وہ ایسے چیلنجز سے باآسانی نجات حاصل کر سکیں۔

واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم تین ون ڈے اور پانچ ٹی20 میچوں کی سیریز کھیلنے پاکستان کے دورے پر آئی تھی۔

جمعہ کو دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ون ڈے میچ شیڈول تھا لیکن میچ کے آغاز سے چند گھنٹے قبل نیوزی لینڈ نے سیکیورٹی خدشات کے باعث دورہ پاکستان منسوخ کردیا تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ نے آگاہ کیا ہے کہ انہیں سیکیورٹی کے حوالے سے الرٹ موصول ہوا ہے اس لیے یکطرفہ طور پر سیریز ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے’۔

دوسری جانب نیوزی لینڈ کرکٹ کے چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ وائٹ نے کہا تھا کہ جو تجاویز ہمیں موصول ہوئیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دورے کو جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں سمجھتا ہوں کہ یہ پی سی بی کے لیے ایک دھچکا ہوگا جو شاندار میزبان رہے ہیں تاہم کھلاڑیوں کی حفاظت سب سے اہم ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ واحد آپشن ہے’۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سیکیورٹی کی یقین دہانی کے باوجود نیوزی لینڈ نے یکطرفہ طور پر دورہ پاکستان منسوخ کردیا اور اس دورے کو ایک سازش کے تحت ختم کیا گیا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نیوزی لینڈ کی جانب سے پاکستان کا دورہ منسوخ کیے جانے کے بعد اب انگلینڈ کی ٹیم کا دورہ پاکستان بھی خطرات سے دوچار ہو گیا ہے۔

انگلش کرکٹ بورڈ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ہم اپنے شیڈول دورہ پاکستان کے بارے میں آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں میں فیصلہ کریں گے کہ ہم منصوبے کے مطابق پاکستان کا دورہ کریں گے یا نہیں۔ ۔

حکومت کا گھی اور تیل کی قیمتوں میں کمی کیلئے ٹیکس میں ریلیف کا فیصلہ

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے غیر رجسٹرڈ صنعتی و کمرشل صارفین کے خلاف شکنجہ مزید سخت کردیا ہے جبکہ گھی و ککنگ آئل کے ساتھ ساتھ اسٹیل مصنوعات کی قیمتوں میں کمی لانے کیلئے ٹیکس میں ریلیف دیدیا ہے ۔

ایف بی آر نے سیلز ٹیکس میں غیر رجسٹرڈ اور ایف بی آر کی ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ میں شامل نہ ہونے والے صنعتی و کمرشل صارفین کے بجلی اور گیس کے استعمال پر پانچ فیصد سے سترہ فیصد اضافی سیلز ٹیکس عائد کردیا ہے ۔ جبکہ اس سے پہلے ان نان رجسٹرڈ صنعتی و کمرشل صارفین پر پانچ فیصد اضافی ٹیکس عائد تھا جسے اب بڑھا دیا گیا ہے ۔

دوسری جانب اسٹیل سیکٹر اور ککنگ آئل و کھانے کے تیل کی سپلائی پر عائد ایک فیصد اضافی ٹیکس کی چھوٹ دیدی ہے ۔ اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے دو نوٹیفکیشن جاری کردیئے ہیں۔

پہلے نوٹیفکیشن1222(I)/2021 میں بتایا گیا ہے کہ 12 جون 2013 کو جاری کئے جانیو الے ایس آر نمبری 509(I)/2013 کی جگہ اب اس نئے ایس آر او کے مطابق ٹیکس لاگو ہونگے ۔

اس حوالے سے ایف بی آر حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ دونوں نوٹیفکیشن کے بنیادی مقاصد ڈاکیومنٹیشن کو فروغ دے کر ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا ہے اور گھی و ککنگ آئل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ اسٹیل مصنوعات کی قیمتوں میں کمی لانا ہے ۔

ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ پہلے نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ غیر رجسٹرڈ صنعتی صارفین کے بجلی و گیس کے استعمال پر سترہ فیصد اضافی سیلز ٹیکس لاگو ہوگا جبکہ کمرشل صارفین پر پانچ فیصد تا سترہ فیصد سیلز ٹیکس لاگو کیا گیا ہے ۔

نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ سیلز ٹیکس میں غیر رجسٹرڈ و ایف بی آر کی ایکٹو ٹیکس پییر لسٹ میں نہ شامل کمرشل صارفین کے دس ہزار روپے ماہانہ تک بجلی و گیس کے بلوں پر پانچ فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوگا،دس ہزار ایک روپے سے 20ہزار روپے ماہانہ بجلی و گیس کے بلوں پر7 فیصد،20 ہزار ایک روپے سے 30ہزار روپے ماہانہ بجلی و گیس کے بلوں پردس فیصد،30 ہزار ایک روپے سے 40ہزار روپے ماہانہ بجلی و گیس کے بلوں پر12 فیصد،40 ہزار ایک روپے سے 50ہزار روپے ماہانہ بجلی و گیس کے بلوں پر15 فیصد، پچاس ہزار ایک روپے ماہانہ سے زائد کے بجلی و گیس کے کمرشل بلوں پر17 فیصد اضافی ٹیکس لاگو ہوگا ۔

اس حوالے سے ایف بی آرحکام کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے صنعتی و کمرشل صارفین کی سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن بڑھے گی اور ایف بی آر کی ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ میں کمرشل و صنعتی صارفین کی تعداد میں اضافہ ہوگاجس سے ٹیکس ریونیو بڑھے گا ۔

ایف بی آر کی طرف سے جاری کردہ دوسرے نوٹیفکیشن نمبری 1223(I)/2013 میں بتایا گیا ہے کہ9 جولائی2013 کو جاری کردہ ایس آر او نمبری 648(I)/2013 میں ترمیم کرتے ہوئے مزید دو شعبوں کو شامل کرلیا گیا ہے جس کے ذریعے اسٹیل سیکٹر کی مصنوعات کی سپلائی پر عائد ایک فیصد ٹیکس کی چھوٹ دیدی گئی ہے ۔

اسی طرح ککنگ آئل اور گھی سمیت کھانے کے تیل کی سپلائیز پر بھی ایک فیصد اضافی ٹیکس کی چھوٹ دیدی گئی ہے ۔ ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے گھی ، کھانے کے تیل سمیت اسٹیل مصنوعات کی قیمتوں میں کمی واقع ہوگی جس سے عوام کو ریلیف ملے گا۔

ایک عظیم باپ کی معصوم سی خواہش

شفقت اللہ مشتاق
ستمبر کا مہینہ آتا ہے تو مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ زندگی میں غم اور خوشی ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور غم اور خوشی کی اس ہمنوائی کو انسانی کوششوں سے نہیں روکا جا سکتا ہے۔ 10ستمبر 1994 کے دن میری شادی ہوئی تھی اور یہ وہ دن تھا جس دن میرے والد محترم خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے وہ اس دن کو اپنی زندگی کا سب سے زیادہ خوشی والا دن سمجھتے تھے۔ ہمارے گھر میں ہر طرف رونقیں ہی رونقیں رقص کناں تھیں۔ مبارک بادوں کی آوازیں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ میرے سر سے ویلیں دے دے کر عزیزواقارب نے مغینان اورخواجہ سراؤں کو مالا مال کردیا تھا اور ان کے دل سے یہی دعائیں نکل رہی تھیں کہ شالا ایسے لمحے روز روز آئیں اور میں ان کی دعاوں سے خوفزدہ ہورہا تھا کہ اگر اللہ نے ان کی سن لی تو مجھے کئی شادیاں کرنا پڑ جائیں گی اور میں کثرت ازدواج کا نہ تو قائل ہوں اور نہ ہی متحمل ہوں۔ ویسے بھی دو بیویوں کے لئے بڑے ہی تحمل اوربرداشت کی ضرورت ہوتی ہے اور میں تو پہلے ہی اعصابی طور پر کمزور تھا پھر کمزور اور طاقتور کا کیا مقابلہ۔ خیر شادی تو پھر شادی ہوتی ہے۔ کوئی خوش ہو نہ ہو والدین کا تو یہ خواب ہوتا ہے اور پھر خواب کا پورا ہونا، توبہ توبہ۔آج ہمیشہ آج نہیں رہتا بالآخر کل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ آج کل میں بڑا فرق ہوتا ہے اور سال کا بیت جانا تو بہت ہی بڑا فرق ہوتا ہے۔ پھر وہ دن آیا جب خوشی غم میں تبدیل گئی خوشی کے گیت وینوں میں بدل گئے ہاسے ہنجوؤں میں تبدیل ہوگئے اور 19ستمبر 1994 کو میرے بارے میں خواب دیکھنے والا میرا باپ ابدی نیند سو گیا۔ خوشیوں کو عملی شکل دینے والا خوشیاں ساتھ لے کر ایسے دیس چلا گیا جہاں سے کوئی اپنے بچوں کو پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ یوں میں یتیم ہو گیا۔ مجھے کیا معلوم یتیمی کیا ہے۔ اس سے پہلے بیٹھے بٹھائے کھانا پینا اور موج مارنا۔ رات کے اندھیرے میں ڈر کے مارے باپ کے ساتھ چمٹ جانا۔ سفر اور حضر میں والدین کی دعاوں کے لحاف میں مکمل طور پر محفوظ ہونا۔ کسی کے ہونے کا احساس تک نہ ہونا اور اس بات کا بھی احساس تک نہ ہونا کہ آج کل میں بدل جائے گا اور سدا ماں پیو حسن جوانی نے نہیں رہنا۔ بابل کی گلیاں باپ کے دم قدم سے آباد ہوتی ہیں اور ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد ان گلیوں کا سُونا پن عذاب بن جائے گا۔ بہن بھائی گلے لگ کے روئیں گے،آہیں بھریں گے اور بالآخر ایک دوسرے کو دلاسہ دیتے ہوئے پھر رو پڑیں گے اور یوں آہوں اور سسکیوں میں ہم بھی بوڑھے ہوجائیں گے لیکن والدین کے ساتھ گذرے شب وروز بھلا نہ پائیں گے۔ یہ ویسے بھول بھی کیسے سکتے ہیں جس والد نے مجھے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا مجھے سیدھی سمت میں دیکھنا سکھایا اور کامیابی کے زینوں پر چڑھنا سکھایا اس کو بھول جانا اگر اتنا آسان ہوتا تو مجھ جیسا بھلکھڑ کب کا بھلا چکا ہوتا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ہمیشہ سے ہی اہم رہا ہے۔ اور ہر باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خود ڈپٹی کمشنر بن جائے اور اگر ایسا نہ ہو سکے تواس کا بیٹا ڈی سی بن جائے۔ اس کے لئے لوگ جب کسی پر بہت ہی خوش ہوتے ہیں تو دعا دیتے ہیں کہ اللہ آپ کو ڈپٹی کمشنر بنائے اور اگر کسی کے خلاف ہوجاتے ہیں تو اس کو اس کی اوقات یاد دلانے کے لئے بھی سہارا اسی عہدے کا لیا جاتا ہے اور یہ کہہ کر اپنا غصہ نکالا جاتا ہے کہ آپ تھوڑا ڈی سی لگے ہوئے ہیں۔ بہرحال ہر باپ اپنے بیٹے کو ڈی سی بنانا چاہتا ہے۔
یہی خواہش میرے والد محترم کی بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مجھے مقابلے کے امتحان کے عمل سے گذارا اور میری پوری رہنمائی کی۔ میرے سامنے کتابوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ اخباروں اور جرائد روزانہ مجھے خرید کر دینا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ خود اخبارات کا اس لئے عمیق مطالعہ کرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ سی ایس پی یا پی سی ایس کے امتحان کا اشتہار آجائے اور مجھے پتہ ہی نہ چلے۔ روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی تیاری کے بارے میں مجھ سے پوچھ گچھ کرکے جائزہ لیتے کہ آج میری تیاری کا معیار کیا رہا ہے۔ گاہے بگاہے ہلکی پھلکی سرزنش بھی کرتے اور اگلے ہی لمحے مورال اپ کردیتے۔ حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کرتے مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کا احاطہ کرتے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے پورا لائحہ عمل تجویز کرتے۔ عزت وقار سے جینے کا درس دیتے۔ اور پھر محنت سے ہر کام کے ہونے کی یقین دہانی کرواتے۔ عبادات سے رب کو منانے کے بارے میں بڑے پر امید ہوتے پچھلی رات کی عبادت کو اکسیر سمجھتے تھے اور جب بھی کسی بزرگ سے دعا کرواتے تو مقصد مجھے ڈی سی بنانا ہوتا۔ خیر امتحان پر امتحان اور پھر ہر تحریری امتحان میں کامیابی اور بالآخر انٹرویو میں ناکامی۔ کوئی بات نہیں ڈسٹرب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بننا ہم نے ڈی سی ہی ہے۔ ایک پی سی ایس امتحان میں ٹرائی مجسٹریٹ، سیکشن افسر، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افسر اور تحصیلدار کی پوسٹوں میں ہوئی۔فوقیت کے لئے رضامندی میں نے دینا تھی اول الّذکر تین سکیل 17 کی آسامیاں اور تحصیل دار سکیل 16 کی پوسٹ تھی۔ والد محترم نے مجسٹریٹ کے بعد اس لئے تحصیلدار کو فوقیت دلوائی کہ دونوں ترقی کرتے کرتے ڈی سی بنتے ہیں خیر مجسٹریٹ تو میں نہ بن سکا البتہ تحصیلدار کے طور پر میری تعیناتی ہوئی اور پھر ان کا سوچنا کہ میں کتنے سالوں بعد ڈی سی بنوں گا۔ ان کی اس سوچ نے مجھے تو بالآخر مورخہ 27 مارچ 2021 کو ڈپٹی کمشنر بہاولنگر بنا دیا اور ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا لیکن افسوس یہ سارا کچھ وہ بچشم خود نہ دیکھ سکے۔
لوگ سچ ہی کہتے ہیں کہ سارے خواب اول تو پورے نہیں ہوتے اور اگر ہو بھی جائیں تو بعینہ نہیں ہوتے۔ میں اکثر سوچوں میں کھو جاتا ہوں اور سوچتا ہوں والد اور بیٹے کا بھی کیا کمال کا رشتہ ہے کہ ایک بیٹے کو کامیاب بنانے کے لئے عمر بھر کی کمائی لگا دی جاتی ہے۔ شاید اولاد ہی والدین کی عمر بھر کی کمائی ہوتی ہے۔ دوران ملازمت جب کبھی کوئی والد اپنے بیٹے کے خلاف یا بیٹا والد کے خلاف میرے سامنے پاس پیش ہوا تو مجھے میرے والد کی عظمت یاد آئی جو اس وقت تک زندہ رہے جب تک میں کسی کام کا نہ بنا اور جب میں برسر روزگار ہوا تو وہ پریتوں اور محبتوں کے سارے وعدے پورے کرکے دُور بہت دُور چلے گئے۔ کاش آج ہوتے تو وہ یہ دیکھ کر بڑے خوش ہوتے کہ اللہ تعالی نے ان کی ہر خواہش پوری کردی ہے۔بقول راقم الحروف
تیرے بن مشتاقؔ مجھے تو
سونا سونا گھر لگتا ہے
(کالم نگار‘ممتاز شاعراورضلع بہاولنگر
میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں)
٭……٭……٭

غربت اور مہنگائی کا خاتمہ ضروری

لقمان اسد
آزاد کشمیر میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات میں ملنے والی بھرپور کامیابی اور پھر وہاں پر با آسانی اپنی حکومت قائم کر لینے کے بعد تحریک انصاف کی قیادت اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے خاصی مطمئن ہے۔بجا طور پر تحریک انصاف کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی ہے لیکن یہ سچ بھی اپنی جگہ واضح ہے کہ سیاسی میدان میں آئندہ کی کامیابیاں سمیٹنے کے لیے حکومت کو غربت اور مہنگائی جیسے عوام دشمن عوامل کے خلاف صف آرا ہونے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔
عام انتخابات 2018ء کی اپنی الیکشن کمپین میں تحریک انصاف نے عام آدمی کو جو سہانے خواب دکھائے تھے اب عوام انہیں ہر صورت شرمندۂ تعبیر ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے تحریک انصاف نے یوں تو بہت سے بڑے، بڑے دعوے کیے تھے مگر چند ایک چیزوں پر زیادہ زور دیا جن میں مہنگائی، غربت اور بے روز گاری کا خاتمہ شامل تھا۔ حکومت کی تین سالہ کارکردگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو مذکورہ چیزوں میں نمایاں کمی ہونے کی بجائے ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو یہ بات کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگی کہ وہ عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل اور دعووں کو سچ ثابت کرنے میں ابھی تک ناکام ہے جس کے باعث عوام کی بے چینی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاست میں رومانس زیادہ دیر نہیں چلتا جس قدر بھی مقبول سے مقبول اور ہر دل عزیز عوامی رہنما ہو جب وہ اقتدار سنبھال لیتا ہے تو تھوڑا سا عرصہ گزرنے کے بعد عوام اپنی توقعات اور امنگوں کے مطابق ہی کام کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔
دیگر حکومتی معاملات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہاں پر صرف گذشتہ تین برسوں میں مہنگائی میں ہونے والے غیر معمولی اضافے کا تذکرہ ہی اگر کیا جائے تو حکومتی دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات سے لیکر بجلی کے نرخوں کھاد اور لوہے کے علاوہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ عام طبقے کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ کم تنخواہ والے ملازمین اور خاص طور پر دیہاڑی دار اور مزدورطبقہ کے لیے تو دو وقت کی روٹی کمانا بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ بلاشبہ حکومت نے عوامی فلاح کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں جن میں صحت کارڈ کا اجراء، احساس پروگرام کے تحت غریب افراد کو ہر دو،تین ماہ بعد ملنے والی مالی امداد، کامیاب جوان کامیاب پاکستان ”لون اسکیم“، میرا پاکستان میرا گھر اسکیم اور کسان کارڈ جیسے احسن اقدامات شامل ہیں لیکن اس سب کے باوجود مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی برق رفتار شرح کا کنٹرول نہ ہونا حکومت کی بڑی ناکامی تصور ہوتا ہے۔
اسی طرح ترقیاتی کاموں کی رفتار اس حد تک سست روی کا شکار ہے کہ یہ امر سمجھ سے بالا تر ہے۔ گذشتہ دو سالوں سے میانوالی تا مظفر گڑھ دو رویہ شاہراہ کی تعمیر کی نوید حکومت سنا رہی ہے اور پچھلے سال پی سی ون کی تیاری اور منظوری کی خوشخبری بھی وزیر مواصلات نے دی تھی لیکن بدقسمتی سے اس منصوبے کا ابھی تک آغاز نہیں کیا جاسکا۔
ضلع لیہ میں بننے والا ”لیہ، تونسہ پُل“ جسے ملکی ترقی کے حوالے سے گیم چینجر منصوبے کا نام دیا گیا کی تعمیر 2019ء سے مکمل ہوچکی ہے لیکن رابطہ سڑک کی تعمیر کا کام دو سال بعد بھی شروع نہیں ہوسکا۔ سال 2021ء اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے اور حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے قریب ہے اگر حکومت نے اب بھی عوام سے کیے گئے وعدوں کو حقیقت کا رنگ نہ دیا تو 2023ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو عوامی سطح پر پذیرائی نہ ملنے کے سبب مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ زیرِ تعمیر ترقیاتی منصوبوں کی رفتار بڑھا کر انہیں جلد پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ غربت اور مہنگائی میں کمی لانے کے لیے عملی اور حتمی اقدامات بروئے کارلائے تاکہ عوامی سطح پر اپنی مقبولیت کے گراف اور سیاسی ساکھ کو بہتر بنا سکے۔
(کالم نگارسیاسی و قومی مسائل پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

نظریاتی سرحدوں کے پاسبان‘ڈاکٹر صفدر محمود

محمد فاروق عزمی
سابق وفاقی سیکرٹری، ممتاز اور نامور بیوروکریٹ ڈاکٹر صفدر محمو 13 ستمبر کی صبح لاہور میں انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
آپ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے مجاہدین کی جماعت میں صفِ اول کے مجاہد تھے، پاکستان کے ایسے عظیم سپوت تھے کہ جہاں کہیں کسی نے قائد اعظمؒ یا پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی آپ نے اپنے قلم کو بندوق کی طرح استعمال کیا۔ آپ تحقیق و جستجو کے میدچان میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ پاکستان کی تاریخ اور تحریک پاکستان سے وابستہ قائدین اور اکابر خصوصاً زندگی بھرقائدا عظمؒ آپ کا خاص موضوع رہے۔ آپ تحقیق کی مشکل گھاٹیاں عبور کرکے سچ کا کھوج لگاتے اور پھر بڑے مدلّل اور ٹھوس انداز میں مخالفین کی باتوں کا تاریخی شواہد کے ساتھ جواب دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے لکھے کو سند کا درجہ حاصل ہوتا اوراسے مستند سمجھا جاتا۔ قائد اعظمؒ سے بے مثال محبت کرتے تھے۔ سول سروس کے افسر ہونے کے باوجود انتہائی منکسر المزاج، سادہ، دیانتدار اور بااصول شخصیت کے مالک تھے۔ یہ ساری خوبیاں بھی شاید اُن کی زندگی میں قائد اعظم علیہ رحمہ سے لازوال محبت کی راہوں پر چلتے ہوئے در آئی تھیں۔ ایک لحاظ سے وہ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی فکر کے صحیح معنوں میں محافظ، ان کے روحانی فرزند اور پاکستان کے بیٹے تھے۔ ان کی ساری زندگی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر دو قومی نظریے کی حفاظت کرتے، بانیانِ پاکستان کے دفاع میں اور پاکستان کی محبت میں گذری۔ مرحوم نے ساری زندگی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر پہرہ دیتے گزار دی۔ انہوں نے پاکستان کے بد خواہوں اور نام نہاد دانشوروں کا اپنے قلم سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اُن کی رحلت سے تحقیق اور جستجو کا ایک عہد تمام ہوا، ان کا خلا مدتوں پُر نہ ہوسکے گا۔
ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی ادبی اور علمی حلقوں میں خاص پہچان ان کی پاکستان سے محبت کے حوالے سے بہت نمایاں رہی۔ پاکستان اور قائد اعظمؒ کے مخالفین اورنام نہاد دانشوروں کو ٹھوس شواہد اور تاریخ کے مستند حوالوں سے مدلل جواب دے کر ان کے منہ بند کرنا، ڈاکٹر صاحب کا خاص موضوع تھا۔ لیکن شاید بہت زیادہ لوگ نہیں جانتے کہ ڈاکٹر صفدرمحمود کو روحانیت اور تصوف سے بھی خاص شغف تھا، بظاہر سوٹ میں ملبوس ٹائی لگائے وہ ایسے کلین شیو صوفی تھے کہ روحانیت اور تصوف کے موضوع پر ان کی تحریریں قلب و نظر کے سکون کا ذریعہ بن جاتی تھیں۔ روحانیت کے موضوع پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ صفحہ قرطاس پر آگاہی اور بصیرت کے ایسے پھول کھلاتے اور ایسی خوشبو بکھیرتے کہ قلب و نگاہ میں نورِ الٰہی کی شمع روشن ہوتی چلی جاتی۔ ڈاکٹر صاحب نے ایسے نام نہاد دانشوروں کو ہمیشہ منہ توڑ جواب دیا جو قائد اعظمؒ پر پاکستان کوسیکولر اسٹیٹ بنانے کا الزام دھرتے اور اس بیان کی نفی کرتے جس میں قائد اعظمؒ نے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب مغرب کے اس مادر پدر آزاد معاشرے سے بیزار تھے۔ جس میں جسم فروشی، ناؤنوش اور نائٹ کلبوں نے نوجوان نسل کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ آپ پاکستان کی نوجوان نسل اور طلباء و طالبات کے معصوم ذہنوں اور اجلے دماغوں کو ”آزاد خیالی“ کے مغربی زہر سے بچا کر رکھنا چاہتے تھے۔
وہ ایسے مغربی معاشرے کی اندھی تقلید کے پُر زور مخالف تھے کہ جس معاشرے میں آزاد خیالی کے نام پر خاندانی نظام کے پرخچے اڑا دیئے جائیں اور جہاں رشتوں کے تقدس کو کوڑے دانوں میں پھینک دیا جائے۔ وہ اس ساری غلاظت سے اپنی نوجوان نسل کو بچا کر رکھنا چاہتے تھے وہ اپنی تحریروں میں قلب و نظر اور باطن کی صفائی کا درس دیتے تھے۔ان کی نظر میں ایک صوفی کے نزدیک بدن اور کپڑوں کی صفائی ہی کا فی نہیں بلکہ طہارت کا اصل مطلب قلب و نگاہ، فکر و نظر اور باطن کی پاکیزگی ہے۔ گو کہ ان کی علمی ادبی حلقوں میں پہچان اور شہرت پاکستان اور بانیانِ پاکستان سے محبت اور اُن کے دفاع کے حوالے سے ہے، لیکن روحانیت، تصوف، بزرگانِ دین اور اللہ کے بندوں سے محبت بھی ان کا موضوع تھا اور وہ گاہے گاہے اپنے قلم سے ایسی تحریریں بھی لکھتے تھے، جس سے ان کے اندر کے ”صوفی“ کا راز فاش ہوجاتا ہے۔ گو کہ وہ خود کو دنیا دار اور اغراض میں ڈوبا شخص ظاہر کرتے، لیکن ان کے باطن میں چھپا صوفی انہیں تصوف، فقر اور روحانیت کے موضوع پر لکھنے پر اکساتا رہتا۔ ان کی تحریروں میں ”غنیۃ الطالبین“ اور ”کشف المحجوب“ کے حوالے بہت کثرت سے ملتے۔ ان کی ایسی ہی تحریروں کے مجموعے ”امانت“، ”درد آگہی“، ”روشنی“، ”حکمت“ اور ”بصیرت“ کے نام سے قارئین میں بہت مقبول ہوئے۔ یہاں بیوروکریٹ ڈاکٹر صفدر محمود صوفی ڈاکٹر صفدر محمود کو پوشیدہ رکھنے میں ناکام ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ اُن کی تُربت پر اپنی کروڑ ہا رحمتیں نازل فرمائے۔
ڈاکٹر صفدر محمود 30 دسمبر 1944 کو گجرات کے ایک گاؤں ڈنگہ میں پیداہوئے، گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات کے مضمون میں ماسٹر کیا۔ 1974 میں آپ نے سیاسیات کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 1976 میں آپ اعلیٰ مرکزی سروسز کے لیے منتخب ہوئے۔ آپ قائد اعظم یونیورسٹی کے پاکستان سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں کئی برس تک وزٹنگ پروفیسر رہے۔ حکومت پنجاب کے علاوہ مرکزی حکومت میں بھی بہت سے اہم عہدوں پر خدمات سر انجام دیں۔ پنجاب اور وفاق کے بہت سے محکموں اور وزارتوں کے سیکرٹری رہے۔ 1997 میں وہ یونیسکوکے ایگزیکٹو بورڈ کے تین سال کے لیے رُکن منتخب ہوئے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم آئی سسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کے رکن بھی رہے۔ انہیں یونیسکو کے عالمی ایجوکیشن کمیشن کے نائب صدر منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ تاریخ کے شعبہ میں ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف کے طور پر 1997 میں آپ کو صدارتی تمغہئ برائے حُسن کارکردگی دیا گیا۔
گذشتہ ایک سال سے آپ شدید علیل تھے۔ علاج کی غرض سے کئی ماہ امریکہ کے ہسپتال میں داخل رہے۔ لیکن مکمل صحت یاب نہ ہوسکے۔
بہرحال ڈاکٹرصفدرمحمود اب اس دنیا میں نہیں رہے تاہم ان کی یادیں باقی رہیں گی۔ بلاشبہ وہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے ”پاسبان“ تھے۔
خدا رحمت کنند، ایں عاشقانِ پاک طینت را
(کالم نگار مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

مسٹر جو بائیڈن! اپنے گریبان میں بھی جھانکیں

سردارآصف احمدعلی
افغانستان میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ طالبان حکومت بنا چکے ہیں اور اب ان کا کنٹرول پورے افغانستان پر ہے اور امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہوئی ہے لیکن ابھی طالبان کے سامنے بہت بڑے چیلنجز ہیں جن کا انہیں سامنا ہے اور اس میں سرفہرست یہ ہے کہ ان کی معیشت کے حالات درست نہیں ہیں۔ لاکھوں سرکاری اہلکاروں کو تاحال تنخواہیں نہیں مل سکیں، بینکوں میں کرنسی قریب قریب ختم ہو چکی ہے۔ بازاروں میں ہر چیز کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے اور اناج اور ادویات کی قلت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اناج کے ذخائر بڑی مشکل سے صرف ایک ماہ تک مزید چل سکتے ہیں۔
دوسری طرف یہ کہ طالبان نے سابقہ شمالی اتحاد کے کسی رکن کو نئی حکومت میں شامل نہیں کیا اور نہ ہی خواتین کابینہ میں شامل کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کو ایک بہانہ مل گیا کہ افغانستان کی امداد یا اسے تسلیم نہ کرنے کا اور دوسری طرف امریکہ نے ساری دنیا پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے کہ اس حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے بلکہ پاکستان کو بطور خاص کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان کو تسلیم نہ کرے۔ اس سارے منظرنامے میں محسوس یہی ہو رہا ہے کہ وہ افغانستان کی معیشت کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے اور اس کے 9.5 ارب ڈالرز فریز کر دیئے گئے ہیں جبکہ اس ملک میں بے پناہ انسانی مسائل ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے ایک مثبت فیصلہ سامنے آیا ہے کہ وہ انسانی حوالے سے ایک ارب ڈالر اکٹھا کرے گی جو کہ گرانٹ کی شکل میں ہوگی اور وہ بنی نوع انسان کی امداد کے لئے ہوگی جس میں خوراک، ادویات اور اس قسم کے دیگر وسائل افغانستان کے عوام پر خرچ کئے جائیں گے۔ اس فیصلے کو یقینا سراہا جائے گا اور میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان بھی اس گرانٹ میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو ہر قسم کی مدد بھی افغانستان کو مہیا کرنی چاہئے۔ جس میں، مَیں یہ تجویز پیش کر رہا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان ایک افغان فنڈ قائم کرنے کا فوری اعلان کریں۔ اس میں پبلک اور مخیر حضرات کو دعوت دی جائے کہ وہ افغان بھائیوں کے لئے دل کھول کر مدد کریں۔ یہ مدد اناج کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے اور پارچہ جات کی شکل میں بھی دی جا سکتی ہے۔ ادویات اور خوراک اور انسانی استعمال کیلئے دیگر اشیاء بھی اس میں شامل ہونی چاہئیں اور نقد رقم بھی اس مد میں دی جانی چاہئے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو کم از کم 50 ہزار ٹن اناج کا عطیہ بھی افغانستان کو فوری دینا چاہئے۔ اس اناج میں گندم، چاول، مکئی اور باجرہ وغیرہ کا انتظام بھی فوری کرنا چاہئے۔ باقی رہا افغانستان کی بحالی کا مسئلہ جیسا کہ دنیا انہیں کہہ رہی ہے کہ اپنی حکومت کو آپ وسیع کریں جس میں تاجک، ترکمان، ہزارہ جات، اسماعیلی اور دیگر چھوٹے چھوٹے گروہوں کو بھی حکومت میں شامل کرنا چاہئے اور میں یہ ماننے کو بالکل تیار نہیں کہ افغانستان میں ایسی خواتین نہیں ہیں جو طالبان کے معیار کے مطابق کابینہ میں نہ آ سکیں۔ پھر انہیں کچھ مزید اقدامات کرنے کے حوالے سے مجھے کوئی مشکل نظر نہیں آ رہی۔ اب دنیا میں یہ تو کسی نے نہیں کہا کہ آپ فلاں فلاں پارٹی کے لوگوں کو حکومت میں شامل کریں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ افغان کابینہ میں تمام قومیتوں کی نمائندگی نظر آئے۔ اس صورت میں دنیا مجبور ہو گی کہ افغان حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ باقی یہ کہ افغانستان کی معیشت کا طویل البنیاد مستقبل کیا ہوگا۔ یہ بات عیاں ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ افغانستان کی سرزمین معدنیات سے بھری ہوئی ہے اس کی مالیت آج کے قیمتوں کے مطابق تین کھرب ڈالر ہے لہٰذا طالبان اس کے آئندہ معاہدے کر سکتے ہیں اور ان معاہدوں میں جو ڈاؤن پے منٹس فوری مل سکتی ہیں اور پھر افغانستان ایشیا کا تجارتی مرکز بھی ہے لہٰذا جب تجارت کھل جائے گی تو ان کے ریونیوز بڑھنے شروع ہو جائیں گے۔ خاص طور پر پاکستان کے ذریعے اور پاکستان کی اپنی تجارت وسطی ایشیا اور روس تک پہنچے گی۔ سی پیک کی افغانستان میں ایکسٹینشن بھی ممکن ہے اور مجھے یقین ہے کہ چین اس حوالے سے بڑی گہری دلچسپی رکھتا ہوگا لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کا مستقبل بڑا روشن ہے کیونکہ پہلی بار سارے افغانستان میں ایک ہی حکومت ہے جو کہ 1908ء کے بعد پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے۔ ان کی سنٹرل اتھارٹی یعنی مرکزی حیثیت پہلی بار پورے افغانستان میں موجود ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ سارے پہلو افغانستان کو ایک کامیاب ملک بنانے میں بڑے مفید ثابت ہوں گے۔
مغرب بالخصوص امریکہ کا مسئلہ لمحہ موجود میں یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ انہیں افغانستان میں بہت بڑا دھچکا لگا ہے اور اب واشنگٹن میں پاکستان کا نام لینا شروع کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک ڈبل گیم کھیل رہا تھا۔ ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ اگر پاکستان ڈبل گیم کھیل رہا تھا تو ہمارے اڈے آپ کیسے استعمال کر رہے تھے اور راہداری آپ کو کیسے ملی ہوئی تھی اور پاکستان کی 70 ہزار شہادتیں امریکہ کی افغانستان پر مسلط کردہ جنگ کے باعث ہی ہوئی تھیں اور تقریباً 200 ارب ڈالر کا نقصان اب تک پاکستان کا ہو چکا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) وہ افغانستان میں موجود تھی اور ہم پر حملے کر رہی تھی تو اس وقت ٹی ٹی پی پر وہاں تک تو امریکہ کا کوئی ڈرون نہیں پہنچا۔ نہ ہی بلوچ باغیوں کو پاکستان میں خانہ جنگی کرانے سے روکا گیا اور نہ ہی بھارت کو روکا گیا کہ وہ افغان سرزمین سے پاکستان سے دہشت گردی نہ کرے۔ یہ ہمارے جائز گلے ہیں جن کا جواب آج تک امریکہ نے نہیں دیا اور اب اس شکست کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی جا رہی ہے۔ اس مرحلے پر ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا پاکستان آپ کا ماتحت ملک ہے؟۔ کیا پاکستان ایک خودمختار ملک نہیں ہے؟جبکہ ہم دوستی کا ہاتھ بار بار بڑھا رہے ہیں اور ان کی مدد بھی انخلاکے سلسلے میں، افغانستان کے اندر کر رہے ہیں۔ اس موقع پر بھی آپ کا جواب بڑا غیر مناسب ہوتا ہے لہٰذا میں تو یہ مشورہ دوں گا کہ جناب جوبائیڈن صاحب! اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں۔ اس میں جب آپ کو اپنی عصبیت نظر آئے گی تو پھر آپ اپنی اصلاح بھی کر سکیں گے۔ طاقت کے بل بوتے پر ملکوں پر حکومت نہیں کی جا سکتی، تاریخ کا یہی فیصلہ ہے۔
(کالم نگار سابق وزیرخارجہ اورممتاز ماہرمعیشت ہیں)
٭……٭……٭

سانحہ کار ساز۔تفتیشی افسر کے انکشافات

آغا خالد
کارساز پر بے نظیر بھٹو شہید کے جلوس میں دو بم دھماکوں کے ملزمان کا ہنوز کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا جبکہ کارساز پر یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد180 سے زائد تھی اور حکومت پاکستان کی دعوت پر اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان آنے والی تفتیشی ٹیم کی رپورٹ میں کراچی پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ کو سراہا گیا تھا اور اپنی رپورٹ میں یو این کمیشن نے کہا تھا کہ پنڈی میں محترمہ پر قاتلانہ حملے کی تفتیشی رپورٹ میں بہت زیادہ سقم پائے گئے جبکہ کراچی میں ایسا نہیں ہوا اور ذمہ دارانہ تفتیش کی گئی۔محترمہ کی شہادت کے حوالے سے پنڈی کیس کے فیصلے میں ایک اعلیٰ پولیس افسر کو عبرت ناک سزا سنائی گئی تھی اور اس کے بڑے ملزم پرویز مشرف کو مفرور قرار دیدیا گیاتھاجبکہ اس سلسلہ میں کراچی میں محترمہ پر قاتلانہ حملے کے اہم تفتیشی افسر نیاز کھوسو سے”خبریں“ نے تفصیلی بات چیت کی جوحال ہی میں پولیس سے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں مگر نیاز کھوسو کی اس کیس کے حوالے سے انفرادیت یہ ہے کہ محترمہ پرایک ہی وقت میں ہونے والے دو خودکش دھماکوں کی تفتیش کیلئے بنائی جانے والی چار مختلف ٹیموں میں وہ شامل رہے اور آخر میں وہ اکیلے ہی اس کیس کی تفتیش کرتے رہے۔ محترمہ پر کارساز میں حملے کے فوراً بعد اس وقت کے ڈی آئی جی سعود مرزا کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی تھی جس میں نیاز کھوسو بھی شامل تھے بعد ازاں شبیر شیخ اور ان کے بعداس وقت کے ڈی آئی جی (اور اب ڈی جی ایف آئی اے)ثناء اللہ عباسی کی تفتیشی ٹیم میں بھی وہ شامل رہے۔ نیاز کھوسو کا کہنا ہے کہ محترمہ بے نظیر پنڈ ی میں قاتلانہ حملے کے گرفتار ہونے والے ملزمان سے تفصیلی تفتیش کی گئی تھی جنہوں نے اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ انہیں اتنا معلوم ہے کہ اس وقت کے طالبان سربراہ بیت اللہ محسود نے محترمہ پر قاتلانہ حملے کیلئے دو ٹیمیں تشکیل دی تھیں جن میں سے ایک میں وہ بھی شامل تھے جبکہ دوسری ٹیم کے متعلق وہ زیادہ نہیں جانتے دونوں ٹیموں کو کراچی میں حملے کے لئے ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ملزمان نے تفتیشی ٹیم کو یہ بھی بتایا تھا کہ کراچی میں محترمہ کو شہید کرنے کیلئے جو منصوبہ بندی کی گئی تھی اس کے مطابق پہلے خودکش دھماکے کے بعدمحترمہ بم پروف ٹرک کی وجہ سے بچنے سے ا گرکامیاب ہوجائیں تو انہیں دوسری گاڑی میں سوار کراتے وقت دوسرے خودکش بمبار کوکام دکھانے کابھی حکم تھاتاکہ محترمہ کے بچنے کی کوئی امیدباقی نہ رہے مگر دوسرا خودکش بمبار پہلے دھماکے کے بعد ہر طرف لاشیں دیکھ کر شاید گھبرا گیا اور اس نے محترمہ کے ٹرک سے نکلنے سے پہلے دوسرا دھماکہ بھی کردیا اور اس طرح محترمہ محفوظ رہیں۔کھوسو کا کہنا ہے کہ موقع واردات پر ملنے والے اعضا کا ڈی این اے کرایا گیا سب کے اعضا مل گئے تھے ما سوائے دو انسانی سروں کے جن کا ڈی این اے اور چہرے کی میچنگ نادرا سے کرائی گئی مگر نادرا کو کامیابی نہ ملی۔ اس سے تفتیشی ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مذکورہ دونوں سر خودکش بمباروں کے ہیں اور ان کا تعلق یا تو پاکستان سے نہیں یا علاقہ غیر کے ایسے ملزمان کے گروہ سے ہے جنہوں نے شناختی کارڈ نہیں بنوائے اس لئے نادرا میں ان کا ریکارڈ نہیں تاہم انہوں نے کہا کہ وقتاًفوقتاً ان کا ڈی این اے دیگر ملزمان سے کرایا جانا ضروری تھا مگر اس سلسلے میں ہمیں سندھ حکومت سے زیادہ تعاون نہیں ملا۔ انہوں نے”خبریں“ سے خصوصی بات چیت میں یہ انکشاف بھی کیا کہ ہم نے تفتیش میں مدد کیلئے اس وقت ایوان صدر(جہاں آصف زرداری منصب صدارت پرفائزتھے) اور بلاول ہاؤس کو متعدد خطوط لکھے مگر کسی ایک کا بھی جواب نہیں دیا گیا۔ہم نے ان خطوط میں ان دونوں سے بار بار استدعا کی کہ وہ ہمیں محترمہ بے نظیر کا پرویز مشرف کو لکھا گیا وہ خط یا اس کی کاپی فراہم کریں جس میں محترمہ نے اپنی جان کے دشمن تین لوگوں کی نشاندہی کی تھی اور الزام لگایا تھاکہ مجھے کچھ ہونے کی صورت میں انہیں ذمہ دار سمجھا جائے۔واضح رہے کہ محترمہ نے کارساز بم دھماکے کے فوراً بعد 17اکتوبر2007 کو پولیس کی جانب سے حملے کی درج کی گئی ایف آئی آر کو مسترد کرتے ہوئے صدر پرویز مشرف کو خط لکھا تھا کہ تین لوگ ان کی جان کے درپے ہیں اور اگر مجھے کچھ ہوجائے تو انہیں قاتل نامزد کیا جائے جبکہ کارسازبم دھماکے کا ذمہ دار بھی انہیں ہی ٹھہرایا گیا تھا۔ نیاز کھوسو کا کہنا ہے کہ محترمہ نے اس وقت کے صدر کو خط لکھا تھا اس لئے ہم بار بار ایوان صدر کا ہی دروازہ کھٹ کھٹاتے رہے کیونکہ اس خط کا ریکارڈ وہیں سے مل سکتا تھا مگر کوئی جواب نہیں ملا مجبوراً ہم نے اخباری ریکارڈ سے مدد حاصل کرکے بلاول ہاؤس کو لکھا کہ اخباری تراشوں کے مطابق جس وقت محترمہ نے خط لکھا تو وہ بلاول ہاؤس میں مقیم تھیں ممکن ہے اس خط کی کوئی کاپی محترمہ کے ریکارڈ میں موجود ہوتو انہیں دی جائے تاکہ وہ تفتیش کا سلسلہ آگے بڑھا سکیں کیونکہ محترمہ نے جن لوگوں پراپنے قتل کی ساز ش کا الزام لگایا تھا ان سے تفتیش بہت ضروری ہے اور جرم کا کھرا وہیں سے اٹھنے کا امکان تھامگر ہماری کسی درخواست کو درخورا عتنا نہیں سمجھا گیا ان کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ اور بد قسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ محترمہ کے نام پر اقتدار حاصل کرنے اور ان کے نام پر سیاست چمکانے والوں نے تفتیشی ٹیم کے نوٹسز کا جواب تک نہیں دیا۔ انہوں نے ایک اور دل خراش واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ کے ساتھ ٹرک پر سوار پیپلزپارٹی کے لیڈروں کو ویڈیو کی مدد سے شناخت کرکے متعدد نوٹسز بھیجے گئے کہ وہ تفتیشی ٹیم کو اپنا بیان ریکارڈ کروائیں۔ دس سے پندرہ لوگوں کو نوٹسز جاری کئے گئے مگر صرف مخدوم امین فہیم مرحوم اورآغا سراج درانی نے نوٹسز کا جواب دیا اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا جبکہ رحمان ملک سمیت اورکوئی لیڈر اپنا بیان ریکارڈ کروانے پر تیار نہ ہواان حالات میں ہم مزید تفتیش کیا کرتے البتہ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہر 17اکتوبر کو انہیں محترمہ کا کیس یاد آجاتا تھا اور حکومتی عملداروں میں سے کوئی نہ کوئی فون کرکے تفتیشی رپورٹ کے متعلق پوچھتا تھا اور جب انہیں ان حالات سے آگاہ کیا جاتا تھا جو میں نے آپ کو بتائے ہیں تو دوسری طرف ٹیلی فون کی لائن بے جان ہوجاتی تھی جبکہ اس سلسلے میں سندھ کے سینئر وزیر سید ناصر حسین شاہ نے کہاکہ نیاز کھوسو کو ساری باتیں اب کیوں یاد آرہی ہیں جبکہ وہ ہماری مخالف جماعت میں شامل ہوچکے ہیں پہلے انہوں نے یہ کیوں نہیں بتایا اور نہ ہی میڈیا پر ایسی کوئی بات سنائی دی۔انہوں نے”خبریں“ کے رابطہ کرنے پرکہا کہ ہم توپہلے ہی مظلوم ہیں اس کیس کی پہلی ایف آئی آر پر بھی ہمیں تحفظات تھے اس لئے محترمہ کی درخواست پر ایک سال کے بعددوسرا مقدمہ درج کیا گیا اور اس میں بھی مطلوب ملزمان کوتفتیشی ٹیم کے حوالے نہیں کیا گیا جبکہ جائے وقوعہ کو بھی دھو دیا گیا تو ہم تو ایسے فریادی تھے جنہیں سننے پر کوئی تیار ہی نہ تھا اور جب تمام ثبو ت و شواہد مٹادیئے گئے تو کیس ہمارے حوالے کیا گیا انہوں نے کہا کہ ہمیں پنڈی والے فیصلے پر بھی تحفظات ہیں یہ حیرت کی بات ہے کہ ایسے ملزمان کو عدالت نے چھوڑدیا جو خود اعتراف جرم کرچکے ہیں اور متعدد گواہوں نے انہیں پہچانا اور ان کے خلاف گواہی دی ہم اس کیس کے خلاف بھی اپیل میں گئے ہیں۔
(کالم نگارقومی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

میم سین بٹ
لاہور میں آزادی کے بعدترقی پسنددانشوروں میں فیض احمد فیض اوراحمد ندیم قاسمی بہت کم پاک ٹی ہاؤس جاتے رہے تھے۔ احمد ندیم قاسمی بھی پیراڈائز ریسٹورنٹ کی بندش کے بعد مجلس ترقی ادب اوراپنے ادبی جریدے ”فنون“ کے دفتر میں ہی محفل جما لیتے تھے ان کی محفلوں میں عطاء الحق قاسمی،امجد اسلام امجد،نجیب احمد، خالد احمد، اشرف جاوید،ضیا بٹ وغیرہ مستقل طور پر حاضری دیتے رہے تھے۔ بعدازاں ”فنون“ کے دفتر میں محفل جمانے والوں میں عطاء الحق قاسمی کی زیرادارت ”معاصر“ اورخالد احمد کی زیر ادارت ”بیاض“ کے نام سے نئے ادبی جرائد بھی چھپنے لگے تھے ”فنون“ کے بعد ”بیاض“ میں بھی چھپنے والوں میں ضیا بٹ نمایاں تھے۔ادبی حلقوں میں انہیں خالد احمد نے متعارف کرایا تھا اورحلقہ ارباب غالب کے اجلاس میں پڑھنے کیلئے ان سے پہلا افسانہ ”دوڑ“ لکھوایا تھا جسے بعدازاں خالد احمد نے”فنون“ میں بھی شائع کروادیا تھاریس کورس کے حوالے سے مہارت سے لکھا جانے والا یہ افسانہ ان کے افسانوی مجموعہ ”بھاری پانی“میں بھی شامل ہے۔
افسانہ نگارضیاء بٹ سرکاری افسر تھے ریلوے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹرآڈٹ رہے تھے ریلوے کے علاوہ اوقاف اور سول ایوی ایشن میں بھی ڈیپوٹیشن پر تعینات رہے تھے ان کا آبائی تعلق ہمارے ننھیالی قصبے ظفروال سے تھا جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کرکے لاہور چلے آئے تھے اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخلہ لے لیا تھا جہاں پروفیسر علم الدین سالک جیسی علمی و ادبی شخصیت کے شاگرد خاص رہے تھے۔ضیاء بٹ کے افسانوں کے 3 مجموعے شائع ہوئے جبکہ مضامین کامجموعہ ”دیدہ حیراں“ کے نام سے چھپا۔ جس کا انتساب انہوں نے بڑے صاحبزادے مظہر الحق بٹ کے نام کیا تھا اس کتاب کے مضامین ضیاء بٹ مرحوم کے سوانحی حالات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں انہوں نے افسانوں کے مجموعہ ”سوزدروں“ کا انتساب چھوٹے صاحبزادے اطہر الحق بٹ،دوسرے افسانوی مجموعہ ”بھاری پانی“ کااپنی انتساب صاحبزادی صبیحہ امین اورتیسرے افسانوی مجموعہ ”روشنی“ کا انتساب نواسے خواجہ وقاص کے نام کیا ان کی ایک کتاب ”بیاض“ جبکہ باقی تینوں کتابیں مطبوعات لوح و قلم لاہورکے تحت شائع ہوئی تھیں۔
ضیاء الحق بٹ مرحوم کے بڑے صاحبزادے مظہر الحق بٹ سے گزشتہ دنوں ملاقات ہوئی تو وہ ہمیں اپنے والدمحترم کی چاروں کتابیں دے گئے جنہیں ہم نے چند روز میں پڑھ لیا۔ ضیاء بٹ مرحوم کے افسانوی مجموعہ ”سوزدروں“ میں سے ہمیں ”وجدان“ جبکہ ”بھاری پانی“ سے اسی عنوان کااور”جلتی بھجتی روشنی“ میں سے ”دانشور“ افسانہ سب سے زیادہ پسند آیا تاہم اس کا انجام تشنہ محسوس ہوا۔ ضیاء بٹ نے اپنے افسانوں کے بیشترکردار اردگرد کے ماحول سے لئے۔ انہوں نے چند افسانوں میں کرداروں کے نام بھی اصل لکھے تھے ان کا مشاہدہ تیز تھااورانہیں کہانی کی بنت پر بھی مکمل عبورحاصل تھا،احمد ندیم قاسمی ان کے مشاہدے کی گہرائی اور گیرائی دیکھ کر حیرت زدہ رہتے تھے،خالد احمد نے ان کے بارے میں رائے دی تھی کہ وہ موضوع اور اظہار کے درمیان ہمہ جہت توازن پیدا کر لیتے ہیں اور ہمارے معاشرتی حقیقت پسند افسانہ نگاروں میں اعلیٰ تر مقام رکھتے ہیں،منصورہ احمد نے بھی درست لکھا تھاکہ ان کے افسانے ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگی کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں،”دیدہ حیراں“ میں ضیاء بٹ نے دلچسپ بات بتائی کہ تقسیم ہند سے دوبرس قبل جب وہ آبائی قصبے سے لاہور شہر منتقل ہوئے تھے تو مال روڈ پر دونوں طرف سایہ دار درخت ہوتے تھے لوگ اسے ٹھنڈی سڑک کہتے تھے آدھ پون گھنٹے بعد جب مال روڈ سے کوئی موٹرکارگزرتی تو چوک میں کھڑا سپاہی اپنے سٹینڈ پر پاؤں مارکر گاڑی والے کوسلیوٹ کیا کرتا تھا۔
ضیاء بٹ سرکاری ملازمت کے دوران داتا دربار پر اوقاف افسر تعینات رہے تھے داتا دربار سے انہیں تصوف میں دلچسپی پیدا ہوگئی اورتصوف کی قدیم ترین کتابیں تعرف،کشف المعجوب، فصوص الحکم،انفارس العارفین وغیرہ کا مطالعہ کرتے اورروحانی استادکی تلاش کیلئے مختلف شخصیات کے پاس جاتے رہے تھے لاہور میں مستقل طورپرمنتقل ہونے سے پہلے ضیاء بٹ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے بھی یہاں آیا کرتے تھے۔
اپنے مضامین کی کتاب میں ضیاء بٹ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میرے خیال میں زیادہ سے زیادہ ایک نسل کسی حد تک یاد رکھتی ہے پھر ایسا وقت آتا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ آیا ضیاء بٹ بھی کبھی اس دنیا میں آیا تھا!“ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ضیاء بٹ مرحوم کی تحریریں ادبی دنیا میں ان کا نام تادیر زندہ رکھیں ی ممکن ہے مستقبل قریب میں ایم اے،ایم فل یا پی ایچ ڈی کاکوئی طالبعلم ان کے افسانوں پر تحقیقی مقالہ بھی لکھ دے۔
ضیابٹ اب پاک عرب سوسائٹی کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں، بقول حیدر علی آتش۔۔۔
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
رویئے کس کے لئے،کس کس کا ماتم کیجئے
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

پاکستان اور تاجکستان پنج شیر کشیدگی ختم کرانے کو تیار

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام نہ صرف پاکستان اور تاجکستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے، افغانستان میں ایسی جامع حکومت کے قیا م کی ضرورت ہے جس میں تمام گروپوں کی نمائندگی موجود ہو، افغانستان کے دوست کی حیثیت سے ہم پنج شیر کے معاملہ کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے خواہاں ہیں، پاکستان اس سلسلے میں پشتون گروپوں جبکہ تاجکستان تاجکوں پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو یہاں پاکستان اور تاجکستان کے مابین مختلف شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخطوں کے بعد تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے کامیاب انعقاد پر تاجکستان کے صدر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے تاجکستان میں اپنی اور اپنے وفد کی بہترین میزبانی پر تاجکستان کے صدر کا شکریہ بھی ادا کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ملکوں کے مابین تجارت، سیاحت، اطلاعات، ادویہ سازی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین افغانستان کی صورتحال پر بھی اہم بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام نہ صرف پاکستان اور تاجکستان بلکہ پورے خطے کیلئے ضروری ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغان عوام 40 سال سے مشکلات کا شکار ہیں، انہیں امن کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پنج شیر میں طالبان اور تاجکوں کے مابین تنازعہ کے پرامن حل کیلئے ثالثی پر بھی بات چیت ہوئی، ہم کوشش کریں گے کہ اس معاملہ کو بات چیت سے حل کیا جائے، اس سلسلہ میں پاکستان پشتون گروپوں جبکہ تاجکستان تاجکوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کی تاریخ میں یہ فیصلہ کن گھڑی ہے، افغانستان میں پشتون 45 فیصد ہیں، اس کے علاوہ تاجک اور ہزارہ سمیت کئی اور گروپ بھی موجود ہیں، افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کے ذریعے ہی پائیدار امن ممکن ہے، اس سلسلہ میں ہم اپنی پوری کوششیں کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں امن سے پاکستان کا امن بھی وابستہ ہے، تین دہشت گرد گروپ اب بھی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، افغانستان میں قیام امن جامع حکومت کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ قبل ازیں دونوں ملکوں کے مابین وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ اس سلسلہ میں تقریب دوشنبے کے صدارتی محل ”قصر ملت” میں ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان نے مذاکرات میں پاکستانی جبکہ تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف نے اپنے ملک کے وفد کی قیادت کی۔ بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے پاکستان جبکہ صدر امام علی رحمان نے تاجکستان کی طرف سے مختلف شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے اور دستاویزات کا تبادلہ کیا۔ دونوں ملکوں کے مابین خارجہ امور ، صنعتی تعاون ، دوہرے ٹیکسوں کے بچا ،منی لانڈرنگ ، دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے، فنانشل انٹیلی جنس، سیاحت اور کھیل، اطلاعات سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لئے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ تاجک خبر رساں ایجنسی اور پاکستان کے قومی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی )کے مابین بھی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے گئے۔ مختلف شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخطوں سے دونوں ملکوں کے مابین تعاون کو فروغ حاصل ہو گا۔

نیب کو ٹیکس گزاروں کے ڈیٹا تک رسائی مل گئی

ٹیکس سے متعلق غلط معلومات فراہم کرنے پر5 لاکھ جرمانہ، ایک سال قید سزا مقرر
نان فائلر پروفیشنلز کیلئے بجلی بل کی مختلف سلیب پر 35 فیصد ٹیکس عائد

پروفیشنلز میں وکلائ، ڈاکٹر، انجینئرز، آئی ٹی ماہرین اور اکاﺅنٹنٹ شامل
ایف بی آر کو نادرا ڈیٹا تک رسائی حاصل، انکم ٹیکس آرڈیننس سیکشن 198 ختم

نیب20 سال پرانی بند فائلیں بھی کھول سکے گا، آرڈیننس جاری
نان فائلرز کے فون، یوٹیلیٹی کنکشن کاٹنے کا اختیار بھی حاصل
اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی)