غیر معمولی سکیورٹی تدابیر

اکرام سہگل
ہو سکتا ہے کہ ہماری مغربی سرحدوں پر بگاڑ عارضی طور پررک جائے،لیکن پاکستان کے لیے نقصان دہ مختلف گروہوں کی ابھرتی ہوئی عداوتیں جاری رہیں گی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر غیر فعال ایکٹوسٹس کے ابھرنے کے خطرے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ہمیں مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں کے لیے ان کو روکنے کی اپنی قابل اعتماد صلاحیت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ ان دونوں محاذوں کے درمیان فرق ان کی خطرات کی نوعیت میں ہے۔ اس کے باوجود کہ بھارت نے ایک پلیٹ فارم کے طور پر افغانستان میں مختلف گروہوں کو چار دہائیوں پر مشتمل طویل پراکسی وار کے لیے استعمال کیا۔ جیسا کہ پہلے سوویت یونین 1980-1990 اور پھر امریکا 2000-2021، ہمارا مشرقی محاذ روایتی خطرے کے وسیع اور بھرپور میدان سے نمٹنے کی صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے۔
لہٰذا ہمیں اپنی سکیورٹی کی صلاحیت بڑھانے کے لیے صرف خطرناک اثرات کے سد باب ہی تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ مسلح افواج کی سرعت رفتار اور مستعدی کی از سر نو تنظیم/ اپ گریڈنگ کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امریکی تجربے کی روشنی میں کم از کم سپلائی اور لڑائی کے تناسب کو یقینی بنایا جائے۔ جو ہماری ایف سی اور رینجرز دونوں کی، ہمارے وجود کے لیے چیلنج بننے والے ممکنہ خطرات کو ختم کرنے کی صلاحیت کو کئی گنا بڑھائیں گے۔ ہمیں قانون نافذکرنے والے سویلین اداروں (ایل ای ایز) کی صلاحیت کو بھی لازمی طور پر مضبوط بنانا ہوگا۔ بشمول، جی ایچ کیو میں ملٹری سیکریٹری برانچ کی طرح پولیس کے لیے کیریئر پلاننگ، پوسٹنگز اور پروموشنز وغیرہ۔ اگرچہ یہ بین السطور پر بے معنی لگ رہا ہے، اس سے سیاست دانوں کو جوڑ توڑ کا موقع ملتا ہے اور مجرمانہ جاگیر داری نظام اس کی بدولت قائم رہتا ہے۔
علاقے کے جغرافیے کو دیکھیں تویہ سرحد کے آر پار ایک دوسرے سے بالکل مختلف آبادی کا مرکب بنا ہوا ہے، ایک دوسرے سے مختلف نوعیت کی مذہبی شدت پسندی پھیلی ہوئی ہے، وہ ایک دوسرے کے مخالف قوتوں والی صلاحیت کے حامل ہیں، اور اب افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بھی اس میں شامل ہو گیا ہے، لیکن اس کے باوجود کہ یہ جذباتی طور پر پرکشش ہے لیکن احتیاط بڑھانے کی ضرورت کو ہمیں اور تقویت دینی چاہیے۔ اگرچہ نیشنل ایکشن پلان سے متعلق زبانی کلامی بہت ساری باتیں ہوچکی ہیں لیکن اس کے باوجود اس کا پوری طرح سے اطلاق نہیں کیا گیا ہے۔ کچھ سیاسی ارادے کی کمی کے باعث دہشت گردوں کے سلیپر سیلز کو نظرانداز کیا گیا۔ یہ بہت آسانی کے ساتھ متحرک ہو سکتے ہیں جس کے نتائج ہمارے شہری علاقوں کی آبادی کے لیے الم ناک ہو سکتے ہیں۔ فطری اور فوری تشویش ناک چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں غیر معمولی اقدامات کی اشد ضرورت ہے، ذمہ دار اداروں کی بے عملی کا سبب ان کی فرائض سے مجرمانہ غفلت ہی ہوگی۔
ایف سی کے نئے ونگز کی تشکیل نہ صرف بارڈر سکیورٹی کو بڑھائے گی بلکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ملحقہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کو بھی قائم رکھے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ رینجرز کی انٹیلی جنس کی صلاحیت کو مزید تقویت دینے کی بھی ضرورت ہے، تاکہ پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں میں ممکنہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکا اور ختم کیا جا سکے۔ بدقسمتی سے مطلوبہ صلاحیت کے حصول کے لیے نئی بھرتیوں اور انہیں ٹریننگ دینے کا کوئی وقت نہیں ہے۔ چوں کہ مغربی محاذ پر کمانڈ اسٹرکچر پہلے سے موجود ہے، اس لیے موجودہ قوت کو دوگنا کرنے کے لیے چند اضافی ایف سی ونگز کی تشکیل سے اہم خُلا پر ہوجائے گا۔ جس طرح جنوب میں بلوچستان میں کیا گیا، ویسے ہی سندھ اور فاٹا کے لیے شمال میں ایک اور ایف سی ہیڈکوارٹرز بنانا چاہیے۔ اندرونی سکیورٹی کے لیے لا انفورسمنٹ ایجنسیز کے لیے ضروری تعمیرات ہونی چاہئیں، صرف رینجرز ہی کے لیے نہیں، بلکہ پولیس اور نچلی عدلیہ کے لیے بھی (مثلاً تمام پولیس تھانوں میں چوبیس گھنٹے دستیاب مجسٹریٹس کے لیے)۔
ایک حقیقت جو عام طورپر ڈھکی رہتی ہے، یہ ہے کہ ہمارے فوجی جوان بہت جلدی یعنی تیس سال کے درمیان یا چالیس سال کے شروع میں ریٹائر ہو جاتے ہیں، جب کہ میجر رینک کے افسران چالیس سال کے درمیان میں ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔ سویلین سیکٹر میں تقریباً ہر کسی کو ملازمت درکار ہوتی ہے، اور مارکیٹ اتنی بڑی اور وسیع نہیں ہے کہ اتنی تعداد میں ریٹائرڈ ہونے والوں کو کھپایا جا سکے۔ تربیت یافتہ افرادی قوت کے اتنے بڑے ذخیرے کو، درکار اضافی ایف سی ونگز اور ایل ای ایز کی تشکیل کے لیے نہایت آسانی کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ریٹائر ہونے والوں کو آپشن دیا جا سکتا ہے کہ وہ ایف سی یا ایل ای ایز کے لیے 55 سال کی عمر تک (حتیٰ کہ 58 سال) اپنی ملازمت جاری رکھ سکتے ہیں۔ ان افراد کے لیے یہ آپشن بہت پُرکشش ہوگی کیوں کہ انہیں زندگی کے اہم موڑ پر بے آسرا کیا جاتا ہے، اور انہیں نیا کیریئر شروع کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس اسکیم کے تحت ان افراد کو ان کے اپنے صوبے اور اضلاع میں کھپا دیا جائے تو یہ آپشن ان کے لیے اور بھی پرکشش ہو جائے گا۔ اگلا مرحلہ ان لوگوں کی ٹریننگ کو تمام تین سروسز سے نئی ملازمت میں بدلوانے کا ہوگا۔ اس ملازمت کے لیے نارمل پیادہ فوج یا مشینوں سے لیس انفینٹری کے ایف سی یا رینجرز کو کسی ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انجینئرنگ اور سگنلز وغیرہ کے فوجی دستوں سے ریٹائرڈ اسپیشلسٹ آسانی سے اسپیشلسٹس کی ملازمتیں سنبھال سکتے ہیں۔ انسداد بغاوت اور انسداد دہشت گردی کے تجربے کی وجہ سے مطلوبہ تجربے سے لیس پہلے ہی سے تربیت یافتہ افرادی قوت کی مرکب صلاحیت بلاشبہ انمول ہے۔ مقامی عدالت یا تفتیشی پولیس کی پوسٹوں کے لیے دو سے تین ماہ کے شارٹ کورسز کی ضرورت ہوگی، جو اس تربیت کے حصول کے لیے کافی ہوں گے۔ اس کے لیے کم سے کم اخراجات درکار ہوں گے، اور نئی بھرتیوں اور ان کی ٹریننگ کے لیے درکار وسیع اخراجات کی بچت ہوگی۔
اس سے ایک اور بڑا مسئلہ حل ہو سکے گا۔ پاکستان کے لیے دفاع سے متعلق اخراجات بے انتہا بڑھ چکے ہیں۔ میرے آرٹیکل پنشن بم کی ٹک ٹک (مطبوعہ 16 اکتوبر 2020) میں پنشن کے اخراجات کے بڑے مسئلے کے حل کی طرف اشارے کیے گئے ہیں، جو اس وقت 470 ارب روپے ہو چکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مقاصد کے لیے یہ اخراجات جتنے بھی بتائے جائیں، سوال یہ ہے کہ مستقبل قریب میں ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے آمدن کے ذرائع کیا ہیں؟ پنشن فنڈ کو خود انحصار بنانے کے منصوبوں کے لیے جہاں ایک الگ اور تفصیلی اسٹڈی کی ضرورت ہے، وہاں ہمیں اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا، بالخصوص مغربی محاذ پر۔ ان رکاوٹوں کے باوجود آج کے چیلنجز سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔
اس سیٹ اپ کی آپریشنل صلاحیت کو بڑھانے کے لیے، ہمارے پاس کراسنگ پوائنٹس اور خاردار سرحد (ایک اچھی طرح تیار شدہ آئیڈیا) کی الیکٹرانک کوریج کے ذریعے معلومات فوری جمع کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ الیکٹرانکس کے ذریعے خفیہ معلومات اکٹھا کرنا کم خرچ ہو چکا ہے، جس کے لیے مقامی انڈسٹری کام آ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ انسانی انٹیلی جنس بھی جوڑی جا سکتی ہے، جس کے عملے کی اچھی خاصی تعداد دستیاب ہے، جو سرحدوں اور شہروں دونوں کو گہرائی میں کور کر سکتے ہیں۔ ہیومن انٹیلی جنس کے لیے جدید مہارتوں اور اچھی عمارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
مجوزہ اقدامات اگر بروقت اٹھائے جاتے ہیں تو اس سے سرحدوں کی حفاظت کا ہمارا عزم منعکس ہوگا۔ اس سے پاکستان مخالف قوتوں کی کارروائیاں رک جائیں گی، جو مغربی سرحدوں کے پار سے تاحال اپنے نیٹ ورکس چلا رہی ہیں۔ پہلے ہی سے تربیت یافتہ افرادی قوت نئی قوت کھڑی کرنے کے مقابلے میں باکفایت اور سستی ہوگی، جو کہ وقت اور لاگت دونوں کے حساب سے استطاعت سے باہر کا آپشن ہے۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭

بلاول بھٹو زرداری کا دورہ جنوبی پنجاب

سید سجاد حسین بخاری

آج کل پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری دس روزہ سرائیکی وسیب کے دورے پر ہیں۔ اس دورے میں انہوں نے ملتان کے علاوہ مظفرگڑھ‘ ڈیرہ غازیخان‘ میلسی‘ دنیاپور اور آج وہ تین روزہ دورے پر رحیم یارخان چلے گئے ہیں اور پھر گیارہ ستمبر کو بلاول بھٹو زرداری لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن آئیں گے جہاں پر پاکستان پیپلزپارٹی کے پرانے گھر سیہڑ ہاؤس جائیں گے جہاں پر سردار بہادرخان سیہڑ ان کے اعزاز میں عشائیہ دیں گے اور شمولیت کا اعلان بھی کرینگے۔ سیہڑخاندان کے سربراہ سردار بہرام خان سیہڑ مرحوم پاکستان پیپلزپارٹی کے ایم این اے بھی رہے ہیں اور مرحوم نے 1981ء میں درجنوں رہنماؤں کے ساتھ قیدوبند کی مصیبتیں بھی کاٹی تھیں مجھے بھی بطور صدر سٹوڈنٹس یونین اسلامیہ ڈگری کالج ملتان ان تمام رہنماؤں کے ساتھ ملتان سنٹرل جیل میں تین ماہ نظربندی کے گزارنے کا اعزاز حاصل ہے۔ مرحوم بہرام خان سیہڑ کے بعد ان کے بھائی سردار جہانگیرسیہڑ ہواؤں کے رخ کو اچھی طرح سمجھتے تھے لہٰذا انہوں نے غیرجماعتی الیکشن اور ضیاء الحق کی حکومت کا ساتھ دیا۔ سردار بہادرخان سیہڑ زمانہ طالبعلمی سے ترقی پسند سوچ سے بھی دو ہاتھ آگے کی سوچ رکھتے تھے لہٰذا پاکستان پیپلزپارٹی ہی ذہنی طور پر ان کی پناہ گاہ تھی جہاں پر وہ ذہنی آسودگی حاصل کرسکتے تھے۔ بات دوسری طرف چلی گئی۔مقصد بلاول بھٹو زرداری کے دس روزہ دورے کے اثرات پر کرنی ہے کہ اس دورے سے بلاول بھٹو نے کیا حاصل کیا۔ جی ہاں میری نظر میں بلاول بھٹو کے اس دورے کی اشد ضرورت تھی کیونکہ ایک تو اس خطے میں پاکستان پیپلزپارٹی تقریباً نیم مردہ حالت میں تھی کیونکہ بے نظیر کی شہادت سے ایک خلا پیدا ہوگیا تھا اور پرانے کارکن وجیالے جماعتی پالیسیوں اور ناروا سلوک سے تنگ آکر گھر بیٹھ گئے تھے۔ کچھ نے دیگر سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرلی تھی پھر تحریک انصاف نے جنم لیا تو ن لیگ کا مخالف ووٹ پی ٹی آئی میں چلاگیا لہٰذا پی پی فارغ ہوگئی۔ جوبااثر سیاستدان تھے انہوں نے جب دیکھا کہ مقتدر حلقے تو ن لیگ اور پی ٹی آئی کو اقتدار دینا چاہتے ہیں لہٰذا وہ ان دونوں جماعتوں میں شامل ہوگئے۔پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے بھی سندھ تک اپنے آپ کو محدود کرلیا اس لئے سرائیکی خطہ پی پی کا جوکبھی مرکز ہوتا تھا بدل گیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس دس روزہ دورے میں بنیادی کام یہ کیا کہ وہ پرانے جیالوں کے گھروں میں گئے۔ مرنے والوں کی فاتحہ خوانی کی جس سے پرانے جیالوں کے حوصلے بلندہوئے اور اپنائیت کا انہیں احساس ہوا۔ یہ ایک اچھا قدم تھا جس کی سخت ضرورت تھی۔ دوسرا کام بلاول بھٹو نے چند ایک قدآور شخصیات کو پارٹی میں شامل کرانے کا کیا مثلاً سابق گورنر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اور اس کے بیٹے سابق وزیراعلیٰ پنجاب دوست محمد خان کھوسہ کو پی پی میں شامل کیا یہ خاندان لغاریوں کا متبادل ضرور ہے مگر ان کے مقابلے میں مالی اور سیاسی طور پر کمزور ہے اور اس خاندان نے 2018ء کا الیکشن تحریک انصاف میں لڑا تھا اور شکست کھائی تھی۔ اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کے آبائی شہر تونسہ شریف کی حضرت سلیمان تونسوی کی درگاہ کے سجادہ نشین خواجہ عطا اللہ پی پی میں شامل ہوئے وہ بھی نگران حکومت میں مذہبی امور کے وفاقی وزیر رہے ہیں ان کے خاندان کی ہمیشہ قومی اسمبلی کی ایک نشست ہوتی ہے اور آج کل خواجہ شیراز تحریک انصاف کے ایم این اے ہیں۔ تونسہ کا خواجہ خاندان بھی تقسیم ہے۔ دیکھتے ہیں مستقبل میں خواجہ عطا اللہ قومی اسمبلی کی سیٹ اپنے ہی خاندان کے مقابلے میں نکال سکتے ہیں یا نہیں۔ لیہ‘ تونسہ اور ڈیرہ غازیخان کی تینوں شخصیات اپنے تئیں بااثر اور بھاری بھرکم تو ہیں مگر سیٹیں نکالنا تھوڑا مشکل نظرآرہا ہے۔ ہاں اگر کوئی جماعتی ویو بن گئی تو تینوں کامیاب ہوجائیں گے ورنہ مشکل۔
بلاول بھٹو نے اس دورے کے دوران متعدد وفود سے ملاقاتیں بھی اور مکالمے بھی ہوئے۔ اخبار کے ایڈیٹروں اورکالم نگاروں سے بھی انہوں نے ایک طویل اور خوشگوار ملاقات کی جس میں میں نے بلاول کو اپنی عمر اور تجربے سے زیادہ منجھاہوا پایا۔ بلاول کو ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر مکمل دسترس ہے اور اسے تاریخ کا بھی مکمل علم ہے۔ وہ تمام چیزوں کو بھی خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان پر دسترس بھی انہیں حاصل ہے۔ بلاول کا اپنا مستقبل پاکستان کی سیاست میں روشن ہے مگر پی پی کے مستقبل کیلئے انہیں بہت محنت کرنا پڑے گی۔ بلاول کا ٹارگٹ سرائیکی وسیب یا جنوبی پنجاب ہے مگر ان کا ٹارگٹ جہانگیرترین کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔پارٹی پروگرام میں چند نئی تبدیلیاں ضروری ہیں روٹی‘کپڑا‘ مکان والی نسل مرکھپ گئی یا آخری نسل باقی ہے مگر نوجوانوں کو بلاول بھٹوزرداری کو ایک انقلابی اور جدید پروگرام دینا ہوگا تب جاکر بلاول اس خطے میں کامیاب ہوں گے صرف بڑے قدکاٹھ کے سیاستدانوں کے پارٹی میں آنے سے فتح نہیں ملتی۔ اصل بات پاکستان کی 64فیصد نوجوان نسل کے مسائل ہیں ان کی طرف بلاول بھٹوزیادہ توجہ دیں اور سائنسی بنیادوں پر کام کریں۔ ماشاء اللہ خود آکسفورڈ جیسے تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں وہ اپنی عمر کے نوجوانوں کو بہت کچھ دے سکتے ہیں مگر اس کیلئے ایک نوجوان تھنک ٹینک کی ضرورت ہے اس میں کوئی شک نہیں سید یوسف رضا گیلانی‘ مخدوم احمدمحمود پی پی کاسرمایہ ہیں مگر ان کی اولادوں کو اب بلاول کا ہمسفر ہونا چاہئے۔ اس دورے میں دونوں مخدوموں اور نتاشہ دولتانہ نے دورے کو کامیاب کرانے کیلئے بہت کام کیا مگر ان کے اصل بازو ملتان کے کارکنان اور عہدیدار تھے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اب بلاول نے اپنا میڈیا سیل بھی بنالیا ہے جو دورجدید کے تقاضوں کو پورا کررہا ہے اور اس میں بھی نوجوان شامل ہیں۔ میڈیا سیل کی طرح جماعت میں بھی نوجوانوں کی ضرورت ہے بلاول صاحب!
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

طالبان نے افغانستان میں عبوری حکومت کا اعلان کردیا

طالبان کی جانب سے نئی عبوری حکومت کے ابتدائی اراکین کے ناموں کا اعلان کیا جارہا ہے۔

طالبان کے ترجمان کے ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے نئی حکومت کا اعلان کیا گیا ہے جس کے مطابق محمد حسن اخوند عبوری وزیر اعظم ہوں گے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ طالبان کے سابق بانی امیر ملا عمر کے صاحبزادے اور ملٹری آپریشن کے سربراہ محمد یعقوب مجاہد  کو عبوری وزیر دفاع مقرر کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سراج الدین حقانی وزیر داخلہ، ہدایت اللہ بدری وزیر خزانہ اور شیخ اللہ منیر نئی افغان حکومت میں وزیر تعلیم ہوں گے۔

ایران پر حملے کے پلان پر تیزی سے کام جاری ہے، اسرائیلی آرمی چیف

تل ابیب: اسرائیل آرمی چیف کا کہنا ہے کہ ایران پر حملے کے لیے تیزی سے تیاریاں جاری ہیں۔

اسرائیلی چیف آف جنرل اسٹاف اویو کوہاوی نے ایک انٹریو میں کہا کہ ایران کے خلاف کسی بھی ممکنہ کارروائی کے لیے تیاریوں میں تیزی آرہی ہے اور اسی مقصد کے لیے دفاعی بجٹ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، یہ انتہائی پیچیدہ کام ہے جس کے لیے خفیہ معلومات اور زیادہ سے زیادہ اسلحہ درکار ہے اور ہم اس پر کام کررہے ہیں۔

اسرائیلی فوجی سربراہ نے کہا کہ مشرقی وسطیٰ میں ہم ایران کے اتحادیوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں، ہمارا اصل مقصد خطے میں ایرانی اثرورسوخ کو کم کرنا ہے جب کہ اس طرح کے آپریشن پورے مشرقی وسطیٰ میں کیے جاتے ہیں جس میں حماس اور حزب اللہ بھی شامل ہیں۔

پی سی بی میں عہدیداروں کے آپریشن کلین اپ کا فیصلہ

لاہور: پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) میں عرصہ دراز سے چمٹے عہدیداروں کے آپریشن کلین اپ کا پلان بنالیا گیا۔

ذرائع کے مطابق مصباح الحق اور وقار یونس کے بعد اور بھی لوگوں کی چھٹی ہوگی۔ رمیز راجہ 13دسمبر کو عہدہ سنبھالنے کے بعد ایکشن لیں گے۔ آنے والے دنوں میں استعفوں اور جبری رخصت کا سلسلہ متوقع ہے۔

پی سی بی اور نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر میں نئے چہرے لائے جائیں گے۔ رمیز راجہ نئے آئیڈیاز رکھنے والی ٹیم کی مشاورت سے معاملات چلائیں گے۔ اکیڈمی میں بیٹنگ کوچ محمد یوسف سمیت اسٹاف میں تبدیلیوں کا عندیہ دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سابق ٹیسٹ کرکٹر رمیز راجہ کے چیئرمین پی سی بی کا عہدہ باقاعدہ سنبھالنے سے پہلے ہی بڑی تبدیلیاں سامنے آئی ہیں اور قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ سابق فاسٹ بولر وقار یونس کوچنگ کے عہدوں سے دستبردار ہوگئے ہیں۔

 

پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان عہدوں پر سابق ٹیسٹ کرکٹر ثقلین مشتاق اور سابق آل راؤنڈر عبدالرزاق کو عارضی طور پر تعینات کردیا ہے۔

سطح سمندر میں اضافہ اورگلیشئر

ناظم علی ناظم
آج جو بات میں کرنے جا رہا ہوں یہ صرف پاکستان میں بسنے والے لوگوں کے لئے نہیں ہے بلکہ پوری دنیا پر ہندو مسلم سکھ عیسائی ہر مذہب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں تباہی کی طرف جا رہے ہیں اور ہمیں ہر گز یہ معلوم نہیں ہے کہ ہمارے ہاتھوں سے بنائی ہوئی چیزیں ہمارے استعمال میں لائی جانے والی چیزیں ہمارے روزمرہ کی زندگی میں ہماری ضروریات بن کے جو چیزیں سامنے آئی ہے جن کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہے اور وہ ایسی چیزیں ہیں کہ جس پر ہمیں بڑا ناز بڑا مان اور بڑا ہی پیار بھی ہوتا ہے پیار اور ناز کیوں نہ ہو یہ چیزیں ہمیں روزانہ کی بنیاد پر خوراک مہیا کرنے میں مدد دیتی ہیں یہ چیزیں ہمیں روزانہ کی بنیاد پر سفر کرنے میں مدد دیتی ہیں یہ چیزیں ہمیں روزانہ کی بنیاد پر ہمارے ذریعہ معاش کو بحال رکھنے میں مدد دیتی ہیں اب ذرا غور کیجئے گا کہ وہی چیزیں جو ہمارے استعمال میں ہیں اور جوہماری زندگی ہماری سانسیں چلنے میں مدد کرتی ہیں وہی ہماری زندگی کو ختم کرنے میں کیا کردار ادا کر رہی ہیں۔
سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق بہت جلد سطح سمندر اوپر آنے والی ہے اسی صدی میں یہ سمندر 2 میٹر تک اوپر آنے والا ہے آپ اندازہ لگا لیجئے کہ سمندر 2 میٹر اوپر آتا ہے تو تباہی کہاں سے کہاں تک آئے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ساحل سمندر پر جتنے بھی ملک آباد ہیں یہ ساحل سمندر سے کتنے اوپر ہیں جہاں سمندر کے اوپر آنے کی بات ہوتی ہے تو وہاں گلیشیر کے پگھلنے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا چونکہ چند سالوں میں گلیشئیر بہت زیادہ پگھلنا شروع ہو چکے ہیں اور بہت زیادہ پگھلنا ان کی مجبوری بھی ہے کیوں کہ ان کو اب ماحول ویسا نہیں مل رہا کہ یہ دیر بعد پگھلیں آپ اس چیز پر بھی غور کریں کہ چند سالوں میں ہی زیادہ گرمی آنا شروع ہوگئی ہے 2011 میں گرمی کی شدت بہت کم تھی اب 2011 کے بعد گرمی کی شدت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے انیس سو پچاس کے بعد انتہائی گرمی محسوس کی جانے لگی جبکہ 1950 تک گرمی کی شدت اتنی نہیں ہوا کرتی تھی اب غور کرتے ہیں کہ گرمی کی شدت کیوں پڑ رہی ہے تو اس کی بڑی وجہ ہمارے استعمال میں آنے والی وہ گاڑیاں اور وہ کارخانے جو ہمارے استعمال کی چیزیں بناتے ہیں ان سے اٹھنے والا دھواں ان سے اٹھنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور بے شمار ایسی چیزیں جو گرمی کی شدت کو بڑھانے میں مدد دیتی ہیں گلیشیئر کا پگھلنا زیرِ زمین پانی کا دور چلے جانا اور سطح سمندر کا اوپر آنا اور سردی کا سیزن کم سے کم رہنا کیوں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب ملک پاکستان سمیت بہت سارے ممالک میں سردی کم رہنے لگی ہے اور گرمی کا سیزن زیادہ لمبے عرصے تک رہتا ہے۔
ایک وقت آنے والا ہے کہ سردی بالکل نام کی ہوگی اور سمندر گرم ہو جائیں گے اورلوگ تزابیت کا زیادہ سے زیادہ شکار ہوں گے اور قطبی گلیشیر جلد پگھلنا شروع ہو جائیں گے غور کریں کہ پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے انسانوں کے ناک سے خون نکلنے کی بیماری سامنے آئی تھی اس کی بڑی وجہ بدلتا ہوا موسم اور ہمارے خود ساختہ ماحول کو خراب کرنے والے معاملات تھے سانس لینا مشکل ہو گیا تھا ہوا میں نمی کم ہوتی جارہی ہے جب ہوا تیز اور نمی کم ہوتی ہے تو جنگلات میں آگ بھی لگتی ہے جیسا کہ ترکی میں بہت بڑے پیمانے پر آگ لگ چکی ہے جو کہ ترکی کے بہت بڑے جنگلات کو راکھ کا ڈھیر بنا چکی ہے اور مزید آگ لگی ہوئی ہے جس کو بجھانے میں بہت سارے لوگ لگے ہوئے ہیں مگر ابھی تک وہ بجھا نہیں پائے اب ذرا غور کرتے ہیں کہ ہم کس طرح آنے والی تباہی سے بچ سکتے ہیں یہ زمین ہمارے لئے کس طرح مفید رہ سکتی ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ کنٹرول کریں جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری نے کہا کہ ہمیں اکٹھا ہونا ہوگا اور اس کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اور ہم اس بڑی تباہی سے بچ سکے اب ذرا غور کرتے ہیں کہ سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑنے والے ممالک کون ہیں ان میں سب سے اوپر نام آتا ہے چائنہ کا جو کہ 9.3 پر ہے اس کے بعد امریکہ کا نام آتا ہے جو کہ چار اعشاریہ پلس ہے اور پھر بھارت ہے پھر جاپان ہے پھر ایران ہے اور ممالک بھی ہیں پاکستان کا نام ان میں بہت دور جا کر آتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بات بھی فراموش نہیں کر سکتے کہ یہ تمام ممالک ساری دنیا کے لیے معاشی معاملات میں بھی سازگار ہیں اور تمام دنیا کے لیے انہوں نے ذریعہ معاش اس قدر بحال رکھا ہوا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی مگر اس حد تک نہیں لُبِ لباب یہ ہے کہ ہمیں آج سوچنا ہو گا کہ ہماری آنے والی نسلیں اور ہم کس طرح خوش حال زندگی گزار سکتے ہیں اور صاف ستھرے ماحول میں کیسے رہ سکتے ہیں اور سمندر کی سطح کے بڑھ جانے جیسی آفت سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں میرے خیال میں پاکستان کو یہ کردار ادا کرنا چاہیے کہ آگے بڑھے اور آنے والے تمام خطرات سے بچنے کے لئے اپنی قوم اور تمام انسانیت کو محفوظ بنائے اور اپنا کردار ادا کرے اور اقوام متحدہ کے اندر تمام ممالک کے سامنے ان مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے تجویز پیش کرے اور اپنے دوست ممالک کو بھی ایسی تجویز لانے پر زور دے کہ جس سے ہمارا آنے والا وقت پریشانیوں سے محفوظ ہو سکے۔
(کالم نگارسیاسی ومعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

بھارت کی خوش فہمی اور ہماری بہادر افواج

خدا یار خان چنڑ
ماہ ستمبر کا آغاز ہوتے ہی دل ودماغ پر ایک عجب سرشاری کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اپنا سر فخر سے بلند ہوتا محسوس ہوتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ 1965میں اسی ماہ کے دوران پاکستان کی بہادر فوج نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن بھارت کو ایسی ذلت آمیز شکست دی کہ وہ برسوں اپنے زخم چاٹتا رہا۔ بھارت نے پاکستان کے قیام کوپہلے دن سے ہی قبول نہیں کیا تھا، بھارتی حکمرانوں کا خیال تھا کہ پاکستان چھ ماہ سے زیادہ دیر تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا اور دوبارہ بھارت سے آن ملے گا۔ دراصل لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر بننے والا پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا تھا، تب سے یہ کفر کے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے اور وہ اس کومٹانے کے درپے رہے ہیں۔ انہوں نے جب دیکھا کہ یہ کٹا پھٹا پاکستان جس نے1947میں بے سروسامانی کی کیفیت اور مسائل کے انبار میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ آج یہ بھرپور طاقت بن کر ابھر رہا ہے تو ان کے قلوب و اذہان میں طرح طرح کے منصوبے پنپنے لگے۔ وہ پاکستان کی سلامتی وبقاکو خطرے میں ڈالنے کیلئے مختلف محاذوں پر سازشوں میں مصروف رہنے لگے، لیکن انہیں ہر محاذ پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
بھارتی حکمرانوں اور انتہا پسند ہندؤں کی فرسٹریشن بڑھتی جا رہی تھی اور وہ اس خطہ میں مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ انہیں غلام بنا کر لینے کے خواب کو جلد شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔ 6ستمبر1965کی جنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ بھارتی جنرل چودھری نے اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے یہ بڑھک ماری کہ ہم لاہور کے جم خانہ میں ناشتہ کریں گے، شراب پیئیں گے اورشغل وطرب کی محفل سجائیں گے۔لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ اس کا واسطہ کس بہادر فوج اور قوم سے پڑا ہے۔پاکستانی فوج کے جذبہ جہاد سے سرشار نوجوانوں نے سروں پہ کفن باندھ کر سیسہ پلائی دیوار بنتے ہوئے کچھ اس انداز سے دشمن کامقابلہ کیا کہ پہلے ہی ہلے میں جنگ کاپانسہ پلٹ کر رکھ دیا اور دشمن کو سرپٹ بھاگنے پر مجبور کر دیا اور وہ جنرل چودھری جو جمخانہ کلب میں شراب پینے کی خواہش لے کر آیا تھا، وہ بی آر بی نہر کا پل بھی عبور نہ کر سکا اور اپنی جھنڈے والی جیپ باٹاپور میں چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ ہڈیارہ نالے کے کنارے میجر شفقت بلوچ اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ جنرل چودھری لاہور جمخانہ میں شراب پینا چاہتا تھا، میں نے 3 دن اس کو ہڈیارہ نالے کے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہیں پینے دیا۔
ہماری بری فوج کے جوان آخری جوان اور آخری گولی تک لڑو کے نعرے لگاتے ہوئے دیوانہ وار دشمن کی صفوں پرٹوٹ پڑے اور ان کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس وقت پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان نے قوم سے اپنے ولولہ انگیزخطاب میں کہا میرے عزیزہم وطنو! دس کروڑ پاکستانی شہریوں کے لیے آزمائش کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ آج صبح لاہور کے محاذ پربھارتی فوجوں نے حملہ کر دیا ہے۔ انہوں نے نہایت ہی بزدلانہ طریقے سے وزیرآباد میں کھڑی مسافر ٹرین پرگولیاں برسائی ہیں۔ پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دل لاالہ الااللہ محمدرسولؐ اللہ کی آواز پر دھڑکتے ہیں، اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک بھارت کی توپیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش نہیں ہوجاتیں۔ بھارتی حکمرانوں کو یہ پتہ نہیں کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے۔ تیار ہوجاؤضرب لگانے کے لیے کیونکہ جس بلا نے تمہاری سرحدوں پرسایہ ڈالا ہے، اس کی تباہی یقینی ہے۔ باضابطہ جنگ شروع ہونے پر مردانہ وار آگے بڑھو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو۔ اللہ تمہارا حامی وناصر ہو۔ اس خطاب نے فوجی جوانوں اور قوم میں ایک نیا جذبہ بھر دیااور وہ وطن کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کرنے کو تیار ہو گئے۔ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے بھی اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ کر انبالہ، سرینگر اور پٹھانکوٹ کے ہوائی اڈوں پرحملہ کرکے دشمن کے بیسیوں جہاز تباہ کردیے اور فضائی لڑائی میں بھی برتری حاصل کر لی۔ ایم ایم عالم نے مختصر ترین وقت میں بھارت کے 5جنگی جہاز تباہ کرکے دشمن پر ہیبت طاری کردی۔ بحری فوج بھی کسی سے پیچھے نہیں تھی۔ بحریہ کے جوان اس وقت ناشتے میں مصروف تھے۔ جب ان کو پتا چلا کہ بزدل دشمن نے ایک غیرت مند قوم پر حملہ کرکے اس کی غیرت کو للکارا ہے تو وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر کھلے پانیوں میں اترگئے اور اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جذبہ جہاد اور دینی حمیت سے سرشار ہو کر دوارکا کے قلعے تک جاپہنچے اور اس کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ بقول شاعر:
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
پاک فوج کی انہی صلاحیتوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کے امن مشن میں اسے ہر دلعزیز گردانا جاتا ہے۔ کسی بھی آزمائش میں پاک سرزمین کے سپوت ایک انچ پیچھے نہیں ہٹتے اور جواں مردی کی مثال بن جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی افواج پر فخر ہے۔ یہ پاک فوج ہی ہے جس کے باعث ہم راتوں کو اپنے گھروں میں میٹھی نیند سوتے ہیں اور وطن کے یہ محافظ ہماری سرحدوں کی حفاظت کیلئے جاگتے رہتے ہیں۔ اللہ میرے وطن کے ہر ایک سپاہی کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ آمین
پاکستان زندہ باد
پاک فوج پائندہ باد
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

پاک ٹی ہاؤس سے دامن اکیڈمی تک

میم سین بٹ
لاہور کے ادبی ٹھکانوں میں پاک ٹی ہاؤس سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے تقسیم ہند سے قبل اس کانام انڈیا ٹی ہاؤس ہوتا تھا۔آزادی کے ایک سال بعد وائی ایم سی اے کے غیرمسلم کرایہ دارکے شرنارتھی بن کر بھارت چلے جانے پر اس کی جگہ لینے والے مسلمان مہاجر دکاندار نے انڈیا ٹی ہاؤس کو مشرف بہ اسلام کرلیا تھا اس کی اولاد نے دو عشرے قبل پاک ٹی ہاؤس کے دروازے تین مرتبہ ادیبوں،شاعروں، دانشوروں پر بند کئے تھے بلکہ تیسری مرتبہ تو پاک ٹی ہاؤس کا پروپرائٹر اس کے حقوق کرایہ داری کپڑے کے تاجر کو فروخت کرکے خود بیرون ملک منتقل ہو گیا تھا اور کپڑے کے تاجر نے پاک ٹی ہاؤس کو گودام بنا لیا تھا جہاں ادیب،شاعر،دانشوربیٹھ کر چائے کی پیالی پر بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے وہاں برسوں کپڑے کے رنگ برنگے تھان پڑے رہے تھے یہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا آمرانہ دور تھا تیسری بندش پر ادیب،شاعر،دانشور بالکل ہی مایوس ہو گئے تھے لیکن ہمار ادل کہتا تھا کہ پاک ٹی ہاؤس ایک دن ضرور بحال ہو جائے گا۔
استادمحترم عطاء الحق قاسمی کی کوششوں سے بالآخر سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی جماعت کی پنجاب حکومت کے ذریعے نہ صرف پاک ٹی ہاؤس کو تعمیرومرمت اور تزئین و آرائش کے بعد بحال کروادیا تھا بلکہ اس اس کی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک بھی ہوئے تھے۔ اس موقع پر ہم نے نواز شریف کو اپنی تیسری کتاب ”لاہور۔شہر بے مثال“ پیش کی تھی بعدازاں حلقہ ارباب ذوق کے دونوں دھڑے بھی الحمراء ادبی بیٹھک اور ایوان اقبال سے پاک ٹی ہاؤس میں واپس آگئے تھے بلکہ انجمن ترقی پسند مصنفّین سمیت دیگر تنظیمیں بھی پاک ٹی ہاؤس کی گیلری میں ہفتہ وار اجلاس منعقد کرنے لگی تھیں تاہم گزشتہ برس کرونا وبا شروع ہونے کے بعد پاک ٹی ہاؤس میں ادبی سرگرمیاں بھی معطل ہو گئی تھیں اور تقریباََ ڈیڑھ سال سے حلقہ ارباب ذوق اور انجمن ترقی پسند مصنّفین کے ہفتہ واراجلاس واٹس ایپ گروپس میں آن لائن ہو رہے ہیں اور ادیب، شاعر،دانشور ایک دوسرے کی صورت دیکھنے اور پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر گپ شپ کرنے کو ترس گئے ہیں۔
ہم نے حلقہ ارباب ذوق کے سابق سیکرٹری عامر فرازکے ساتھ پاک ٹی ہاؤس میں ملاقات کا پروگرام تشکیل دیااور شہزاد فراموش کے ساتھ جب پاک ٹی ہاؤس پہنچے تو پتا چلا کہ کرونا ایس او پیز کے تحت اندر داخلہ بند ہے البتہ باہر فٹ پاتھ پر شہتوت کے پیڑ تلے تین میزیں اور دس کرسیاں رکھی ہوئی تھیں وہاں عملے کے دوارکان کے سوا کوئی تیسرا فرد موجود نہ تھا کرونا وائرس غالباََ صرف پاک ٹی ہاؤس کے اندر حملہ کرتا تھاہم دونوں بیٹھ کر عامرفراز کا انتظار کرنے لگے جنہیں ڈی ایچ اے سے آنے میں کچھ تاخیر ہو گئی شہزاد فراموش کو علامہ اقبال ٹاؤن پہنچنا تھا وہ تو رخصت ہو گئے اور ہم تنہا بیٹھے ماضی کی یادوں میں کھو گئے۔ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس پاک ٹی ہاؤس کی بالائی گیلری میں ہوا کرتے تھے اور اس زمانے میں عامر فراز،امجد طفیل،احمد فرید،زاہد حسن وغیرہ سیکرٹری رہے تھے،پاک ٹی ہاؤس کے اندر داخل ہوتے ہی پہلی میز کے گرد انتظار حسین، زاہد ڈار،مسعود اشعربیٹھے دکھائی دیتے تھے ان کے دائیں جانب ڈاکٹر انیس ناگی اور عقب میں صوفے پر اسرار زیدی خاموش بیٹھے ہوتے تھے پانچوں بزرگ ادیب دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔
تھوڑی دیربعد عامر فراز بھی آکر ہمارے ساتھ پاک ٹی ہاؤس اور حلقہ ارباب ذوق کی یادوں میں شریک ہو گئے۔جن دنوں پاک ٹی ہاؤس پہلی مرتبہ بند ہوا تھا تو سیکرٹری جاوید آفتاب کے ساتھ عامر فراز حلقے کے جائنٹ سیکرٹری تھے اس زمانے کا ایک گروپ فوٹو ہمارے پاس موجود ہے جس میں جاوید آفتاب اورعامرفراز دیگر دانشوروں کے ساتھ پاک ٹی ہاؤس کی بندش کیخلاف احتجاجی بینر تھامے اسی جگہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں جہاں اس وقت ہم دونوں بیٹھے یادیں تازہ کر رہے تھے۔ ہمیں یاد آیا جب ہفتہ وار تعطیل کے بہانے دوسری مرتبہ پاک ٹی ہاؤس کے دروازے دانشوروں پر بند کئے گئے تو اس وقت عامر فراز حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری تھے انہوں نے قریب ہی وائی ایم سی اے کے کمرے میں اتوار کو حلقے کے ہفتہ وار اجلاس کروانا شروع کردیئے تھے تاہم عامر فراز کے اسی دور میں حلقہ ارباب ذوق پاک ٹی ہاؤس میں واپس پہنچ گیاتھاکیونکہ وائی ایم سی اے کی انتظامیہ نے بھی ایڈوانس بکنگ بند کردی تھی اورایک اتوار کواجلاس میں شرکت کیلئے آنے والوں کوباہر کھڑا رہنا پڑا تھا پاک ٹی ہاؤس کی تیسری بندش کے وقت زاہد حسن سیکرٹری تھے اور سالانہ انتخابات کی پولنگ کے بعد نتائج کا اعلان ہونے پر پاک ٹی ہاؤس طویل عرصہ کیلئے بند کردیا گیاتھا۔
پاک ٹی ہاؤس کی چائے اور کولڈ ڈرنکس پی کردونوں ہم استاد دامن اکیڈمی پر جانے کیلئے ٹکسالی گیٹ چل دیئے،قدیمی مسجد سے ملحقہ چھوٹی اینٹو ں سے بنا استاد دامن کا حجرہ دیکھنے والے خود زمانہ قدیم میں پہنچ جاتے ہیں، روایت کے مطابق شہنشاہ اکبر کے دور میں شاہ حسین بھی اسی حجرے میں رہتے تھے استاد دامن نے بھی اپنی مجرد زندگی کا بیشتر زمانہ اسی حجرے میں بسرکیا تھا وہ اب شاہ حسین کے دربار پر ہی آسودہ خاک ہیں، استاد دامن اکیڈمی کے صدر محمد اقبال محمد ایڈووکیٹ اورچوہدری محمد انور حجرے میں موجود تھے، محمد اقبال محمد ایڈووکیٹ نے گپ شپ کے دوران انکشاف کیا کہ وہ بھی ماضی میں پاک ٹی ہاؤس جایا کرتے تھے حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوا کرتے تھے اس کے ساتھ ہی انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کے سابق سیکرٹری رشید مصباح (مرحوم) اور ان کے دوست یونس علی دلشاد (مرحوم) کا ذکر چھیڑ دیا جو ان کے زمانہ طالب علمی میں جناح اسلامیہ کامرس کالج میں بطور استاد پڑھایا بھی کرتے تھے ہم بھی دو عشرے پہلے پاک ٹی ہاؤس کی گیلری میں حلقے کی ہفتہ وار نشستوں کے دوران جوشیلے نقادوں کی جانب سے دوسروں کی تخلیقات پر تنقیدی گفتگو سنتے رہے تھے ہم نے رشید مصباح کا فیصل آباد جبکہ عامرفراز نے گوجرانوالہ کے حوالے سے ذکرکیانشست کے اختتام پر ہمارے سوال کے جواب میں محمد اقبال محمد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ وہ استاد دامن اکیڈمی کیلئے سرکاری گرانٹ نہیں لیتے حالانکہ سابق ڈی جی پی آر اورسابق سیکرٹری اطلاعات و ثقافت پنجاب شعیب بن عزیز نے انہیں خود پیشکش بھی کی تھی ہمیں خوشی ہوئی کہ محمد اقبال محمد ایڈووکیٹ ٹکسالی دروازے کے تاریخی حجرے والے شاہ حسین اور استاد دامن کی سرکار دربار سے فاصلے پر رہنے کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

عزت والے ہی عزت دیتے ہیں

ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
میری یہ عادت بن چکی ہے اور میں کوشش کرتا ہوں کہ صبح کے وقت کسی عالم دین کے خیالات سے استفادہ کیا جائے۔ دین کی سوجھ بوجھ پیدا کی جائے۔ کیونکہ اگلے جہان سوال کوشش کا ہونا ہے نتیجے کا نہیں۔ سوال ہو گا کہ دنیا میں خدا کے دین کو سمجھنے کے لئے تو نے کیا کوشش کی۔ اس لئے انسان کو کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ سوشل میڈیا پر جب بھی بات ہوتی ہے تو اس کے نقصانات پر بھرپور تقاریر کی جاتی ہیں۔ اس کا نوجوانوں کو تباہ کرنے میں کیا کردار ہے اس پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ لیکن ہم اس کو دوسرے زاویے سے دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔ زاویہ بدلنے سے چیز کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے۔ نوجوانوں کو اگر منزل ہی نہ دی جائے تو پھر گمراہی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اب منزل کس نے دینی ہے۔ والدین نے اور اساتذہ نے۔ کہتے ہیں کہ آج کے نوجوان والدین کا احترام نہیں کرتے، طلبہ و طالبات اساتذہ کی عزت نہیں کرتے۔ میں نے ایک دوست سے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے۔ اس نے کہا سوشل میڈیا نے اس قوم کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ جب تک اس پر پابندی نہیں لگے گی یہ قوم نہیں سدھر سکتی۔ میں نے سوال کیا کہ کیا پابندی میں ہی عزت ہے؟ اس نے کہا کہ جی بالکل جب تک میڈیا پر پاکستان میں پابندی تھی اس وقت تک سب ٹھیک تھا۔ یہ بیڑا غرق ہو مشرف کا جس نے اس ملک کو تباہ کر دیا۔ بے حیائی اور فحاشی لے کر آیا۔ وہ بولتا چلا گیا اور بہت سے مسائل پر روشنی بھی ڈالتا جا رہا تھا۔ اس دوران ہمارا ایک اور دوست آگیا وہ بھی شریک گفتگو ہوا۔ جب پہلے والے دوست نے کہا کہ میڈیا کی یلغار نے ہمارے کلچر کو تباہ کر دیا ہے تو دوسرے دوست نے اچانک سوال کر دیا کہ آپ کا کلچر اتنا کمزور ہے کہ وہ دشمن کے وار کا مقابلہ ہی نہیں کر سکا اور ریت کی دیوار ثابت ہوا۔
یہ تو حقیقت ہے کہ طاقتور کلچر کمزور کلچر کو کھا جاتا ہے۔ میں نے جسارت کی اور درخواست کی کہ تباہی، مرنا، مارنا، کھانا کی باتیں بہت ہوگئی ہیں۔ ہم اس کو اس طرح سے کیوں نہیں دیکھتے کہ جب دو کلچر ملتے ہیں تو ان کے ملنے سے ایک نیا کلچر وجود میں آتا ہے۔ جو دونوں کلچرز کی خصوصیات اپنے اندر سمو ہوتا ہے۔ مغل حکمران اکبر نے ہندوؤں کو اپنے اقتدار اور اپنی پالیسیوں میں شامل کیا تو ہندووں اور مسلمانوں کے ملاپ سے بر صغیر پاک و ہند میں ایک نئے کلچر نے جنم لیا۔ اسی طرح جن لوگوں کے آباواجداد ہندو تھے اور بعد میں وہ بزرگان دین کی کاوشوں کی بدولت مسلمان ہو گئے ان کے رہن سہن میں آج بھی ہندو مذہب کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان کی شادی اور فوتیدگی کی رسومات کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بہت سی غیر اسلامی چیزیں نظر آئیں گی۔ میرے دوستوں میں سے ایک بولا کہ کیا کلچر مذہب سے زیادہ مضبوط ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے بھی لگتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں صبح جلدی بیدار ہونا معمول ہے۔ سب مذاہب میں صبح جلدی بیدار ہونے کو اچھا شگون بھی قرار دیا گیا ہے۔ صبح جلدی بیدار ہوکر خدا کی عبادت سب کا مشترکہ معمول ہے۔ کوئی قرآن پڑھتا ہے، کوئی مسجد کا رخ کرتا ہے تو کوئی مندر اور گوردوارے کا۔ پھر میرے دوست نے گفتگو کو ایک نیا موضوع دینے کی کوشش کی اور کہا کہ عزت دینا اور لینا بھی ہمارا مشترکہ کلچر ہے؟ پہلے تو میں تھوڑا خاموش ہوا پھر مجھے ایک واقعہ یاد آیا جو یوٹوب پر ایک مولوی صاحب بیان کر رہے تھے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور ان کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق بیٹھے تھے اس دوران حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے تو حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی جگہ حضرت علیؓ کو دے دی اور آپ تھوڑا سا پیچھے ہو گئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب کچھ دیکھا تو فرمایا کہ عزت والے ہی دوسروں کو عزت دیتے ہیں۔ بہت خوبصورت بات تھی میرے نبی کی کہ عزت والے ہی دوسروں کو عزت دیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ عزت کا تصور انسانیت سے جڑا ہے۔
دنیا میں جتنے بھی مذاہب آئے وہ انسانوں کی فلاح اور عزت واحترام کے لئے آئے۔ اس لئے اخلاقیات کا درس ہر مذہب میں موجود ہے۔ لیکن ہمارے نبی نے غلاموں، یتیموں، نادار اور غریب لوگوں کو عزت دی۔ برصغیر پاک و ہند میں بزرگان دین نے شودر لوگوں کو آنکھوں پر بٹھایا۔ ان کو معاشرے میں عزت دی۔ جس سے مذہب اسلام کا پرچار ہوا۔ اس لئے عزت لینے کے لئے عزت دینی پڑتی ہے۔ قربانی دینی پڑتی ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے خدا کے مذہب کے لئے قربانی دی تو خدا نے لوگوں کے دلوں میں ان کے لئے محبت پیدا کر دی۔ دوست بولا کہ اس کا مطلب ہے کہ عزت لینے کے لئے خدا سے دوستی ضروری ہے۔ میں نے کہا کہ بہت ضروری ہے۔ کیونکہ وہ عزت رکھنے والا ہے چاہے یہ فانی دنیا ہو یا اگلا جہان۔ میرے والد گرامی روز تہجد پڑھتے تھے اور بعد میں اپنی دعا میں اکثر یہ الفاظ بولتے تھے کہ اے خدا کر کرم کروا کرم۔۔۔دونوں جہاں میں رکھ شرم۔ خدا ہی شرم رکھنے والا ہے۔ وہ آپ کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے اور گناہوں کو صیغہ راز میں رکھتا ہے وہ اس لئے کہ وہ آپ کو رسوا نہیں کرنا چاہتا۔ وہ آپ کے گناہ دیکھتا ہے پھر بھی خاموش رہتا ہے غصہ میں نہیں آتا۔ بار بار انسان کو موقع دیتا ہے کہ لوٹ آ۔ اس لئے کہتے ہیں کہ سارے مسائل اور مصیبتیں خدا کی طرف سے ہیں اور خدا کی طرف ہی لوٹ کر جانے والی ہیں۔ گفتگو کے دوران ہی دوست نے کہا آپ کے لئے چائے لاؤں۔ میں نے اسے تو کہا کہ ضرور، لیکن خدا کا دل میں شکر ادا بھی کیا کہ تو نے بات کرنے کی توفیق دی، دوستوں میں عزت دی، بہن بھائیوں کا پیار دیا، روزگار دیا، میرے بچوں کے لئے نان ونفقہ کا بندوبست کیا۔ تو بہت رحیم ہے، کریم ہے، غفور ہے۔ ہم جیسے گناہ سے لبریز انسانوں پر اگر تیرا اتنا کرم ہے تو تیرے نیک بندوں پر تیرے کرم کی تو کوئی حد ہی نہیں ہوگی۔ اس لئے خدا کے نیک بندے کبھی مرتے نہیں بلکہ ان کی خانقاہوں اور درگاہوں پر ہمیشہ حق کے چراغ جلتے ہیں، چاہے وہ خواجہ معین الدین چشتی کا مزار ہو یا پیر مہر علی شاہ کا۔
خدا سے محبت کرنے والوں کے لئے خدا اپنی مخلوق کے دلوں میں محبت پیدا کر دیتا ہے۔ جب مخلوق کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے تو انسان کو خود بخود معاشرے میں عزت ملنا شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن ہماری کم عقلی ہے کہ ہم ہمیشہ انسانوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمیں عزت دیں۔ ان انسانوں سے میرا سوال ہے کہ اگر خدا انسانوں کو توفیق ہی نہ دے تو وہ آپ کو کیسے عزت دے سکتے ہیں؟ کیونکہ عزت تو خدا دینے والا ہے۔ وہ انسانوں کے دلوں میں آپ سے محبت پیدا کرنے کے لئے آپ سے ایسے کام کروا جاتا ہے جس سے آپ کی معاشرے میں عزت سے اضافہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کو کہیں بے عزتی کا بھی سامنا کرنا پڑھے تو اس میں بھی خدا کی کوئی حکمت ہوتی ہے ورنہ خدا کبھی اپنے بندوں کو بے عزت نہیں ہونے دیتا۔ خدا ہم سب کو عزت دے اور ہماری عزتوں کو قائم رکھے۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭

7ستمبر یوم ختم نبوتؐ اور جماعت اسلامی کا کردار

محمد جاوید قصوری
قرآن و سنت کے واضح نصوص میں دین اسلام میں عقیدہ توحیدکے بعد دوسرا اہم اور بنیادی عقیدہ ختم نبوتؐ کاہے، پہلی امتوں کے لیے اس بات پر ایمان لانا لازم تھا کہ ان کے انبیا ورسل علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد اور نبی ورسول آئیں گے اور اس امت کے لیے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی اور نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی پیدا ہوگا وہ امتی کہلائے گا لیکن نبی نہیں بن سکتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں اور اس کا ذکر بھی قرآن مجید میں سورہئ ”احزاب“ میں واضح طورپر موجود ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں البتہ اللہ تعالی کے رسول اور آخری نبی ہیں۔در حقیقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوتؐ اس امت پر پروردگار کریم کا احسان عظیم ہے کہ اس عقیدے ختم نبوت نے اس امت کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا ہے۔ پوری دنیا میں آج مسلمان عقائد وعبادات، احکامات اور ارکان دین کے لحاظ سے جو متفق ہیں وہ صرف اسی عقیدہ کی برکت ہے۔ دنیا ئے کفر شروع سے ہی اس عقیدہ میں دراڑیں ڈالنے میں مصروف ہے تاکہ دین اسلام کی عالمگیریت اور مقبولیت میں رکاوٹ کھڑی کی جاسکے اور کسی طرح اس کے ماننے والوں کے ایمان کو متزلزل کیا جاسکے۔ان سازشوں کا سلسلہ دور نبوتؐ میں مسلمہ کذاب اور اسود عنسی سے شروع ہوا اور فتنہ قادیانیت تک آن پہنچا۔فتنہ قادیانیت کا آغاز ہندوستان کے ایک قصبہ قادیان سے ہوا اس کا بانی انگریز کا خود ساختہ ایجنٹ مرزا غلام احمد قادیانی تھا جس نے انگریز رؤسا کو خوش کرنے کیلئے کبھی خدائی کا دعویٰ کیا تو کبھی (نعوذباللہ)نبوت کااعلان کیا، کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے آپ کو افضل کہا اور کبھی سب انبیا ورسل علیہم الصلوۃ والسلام سے افضل ہونے کا دعوی کیا، کبھی مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا تو کبھی تذکرہ نامی کتاب کو قرآن مجید (نعوذباللہ)سے افضل قراردیا، کبھی قادیان حاضری کو حج وعمرہ سے افضل کہا تو کبھی اپنے گھر والوں اور ماننے والوں کو صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے افضل قراردیا، حتی کہ اپنی بیویوں کو امہات المومنین اور ماننے والوں کو صحابہ قرار دیا (نعوذ باللہ)، پہلی تحریک1953 میں امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری رحم اللہ علیہ کی قیادت میں قادیانیت کے خلاف تحریک چلی۔ اس تحریک میں مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودی،مولانامفتی محمود، مولانا خواجہ خان محمد، آغا شورش کشمیری، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستار خان نیازی، علامہ احسان الہی ظہیر، مولانا عبدالقادر روپڑی، نوابزادہ نصراللہ، مظفر علی شمسی اور دیگر اہم راہنما شامل تھے، حکومت تحریک کے آگے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہوگئی۔ قومی اسمبلی میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوتؐ کی نمایندگی مولانا مفتی محمود،مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد، چودھری ظہور الٰہی مرحوم اور دیگر کررہے تھے۔مجاہد ملت جناب قاضی حسین احمد نے اس حوالے سے مجاہدانہ کردار ادا کیا۔
مجاہد ختم نبوت و بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے آسان اور عام فہم انداز میں بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو عقیدہ ختم نبوت کو دل نشین طریقے سے پیش کیا اور مسلمانوں کو اس بات پر تیار کیا کہ حضور اکرمؐ کی ختم نبوتؐ سے بڑھ کر کوئی اور عبادت نہیں ہوسکتی۔ خاص طور پر تعلیمی اداروں کے طلبا کو اپنی تحریروں کے ذریعے تحفظ ختم نبوت کے لیے تیار کیا۔ سید مودودی نے قادیانی مسئلہ نامی کتابچے کو پورے دلائل اور براہین سے تحریر کیا،اس تحریر کے ذریعے قادیانیت،مرزائیت کا زہر بے نقاب ہوا اور اسی جرم کی پاداش میں سید مودودی کو سزائے موت سنائی گئی اورقادیانیوں کے خلاف ایک ایسی ملک گیر تحریک چلی جس نے اقتدار کے ایوانوں کو ہلاکر رکھ دیا۔
اس تحریک کے عینی شاہد مجاہد ختم نبوت جناب لیاقت بلوچ کہتے ہیں کہ ” طلبہ کے جلسے عوامی رنگ پکڑتے گئے، یہ معاملہ رفتہ رفتہ حکومت اور انتظامیہ کے لیے درد سرکا باعث بن گیا۔اس کے بعد اللہ کی خاص مہربانی اور حکمت سے تمام دینی جماعتیں،تمام اکابرعلما اس تحریک میں شامل ہوگئے اوراس تحریک کی قیادت سنبھالی اور معاملہ قومی اسمبلی میں پہنچ گیا۔ مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی،مولانا عبدالحکیم،پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی، صاحبزادہ صفی اللہ اور دیگر ارکان اسمبلی نے مجاہدانہ کردار سے اٹارنی جنرل یحیی بختیاراور ذوالفقار علی بھٹو کو قائل کرلیا۔ قادیانیت پسپا ہوگئی اور بالآخرعلما اور مولانا سید ابوا اعلی مودودی کی علمی کوششوں سے تیار کردہ 1973 کے آئین میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کی شکل میں فتنہ قادیانیت کی آئینی اور قانونی محاذ پر بیخ کنی ہوگئی۔”
وزیر اعظم پہلے ہی فیصلے کے لیے 7ستمبر کی تاریخ طے کرچکے تھے،چنانچہ 7ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں اور آئین میں ترمیمی بل پیش کیاگیا۔ وزیر قانون نے اس پر مختصر روشنی ڈالی، اس کے بعد وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم نے تقریر کی۔ تقریر کے بعد بل کی خواندگی کا مرحلہ شروع ہوا اور وزیر قانون نے بل منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کردیا، تاکہ ہر رکن قومی اسمبلی اس پر تائید یا مخالفت میں رائے دئے۔ رائے شماری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے پانچ بج کر باون منٹ پر اعلان کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کے حق میں ایک سو تیس ووٹ آئے ہیں، جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا، اس طرح قومی اسمبلی میں یہ آئینی ترمیمی اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔
زندہ قومیں اس طرح کے تاریخ ساز اور تابناک ایام و لمحات کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں، بلکہ زندہ بھی رکھتی ہیں،مگر یہ دن آتا ہے اور گز ر جاتا ہے کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کتنا اہم اور عظیم دن گزرگیا اور ہم سے مطالبہ کرگیا۔ یہ ہماری اجتماعی اور قومی بے حسی کی علامت ہے۔7 ستمبر 1974 کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے قادیانیوں کو متفقہ طور پر آئین میں ترمیم کرتے ہوئے غیر مسلم اقلیت قرار دیاگیا۔
امت مسلمہ کا مطالبہ یہی ہے کہ جب قادیانی ہر اعتبار سے مسلمانوں سے علیحدہ ہیں خود انہیں بھی اس کا اعتراف ہے تو وہ اسلام اور مسلمانوں کا نام استعمال کرنا چھوڑدیں اور اسلام و مسلمان کا نام استعمال کرکے نہ مسلمانوں کی شناخت پر ڈاکہ ڈالیں، نہ ان کے حقوق چھینیں، بلکہ جب تمہارا مذہب جدا، تمہاری ہر چیز مسلمانوں سے جدا تو اپنا نام بھی الگ رکھیں۔ حیرت ہوتی ہے اتنے واضح اور صاف معاملے کے باوجود قادیانیوں کو کوئی نہیں کہتا کہ تم اسلام کا نام استعمال کرکے مسلمانوں کے مذہب و حقوق پر کیوں ڈاکہ ڈالتے ہو؟ الٹا مسلمانوں کو ہی موردالزام ٹہرایا جاتا ہے۔یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ مسلمانوں سے تو کہا جاتا ہے کہ تم مرزائیوں کو کافر کیوں کہتے ہو، ان سے یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ اربوں مسلمانوں کوتم کافرکیوں کہتے ہو، صرف کافر ہی نہیں، جہنمی، ولدالحرام اور نہ جانے کیا کیا خرافات بکتے ہو۔قصہ مختصر یہ ہے کہ قادیانی مسلمانوں سے علیحدہ قوم ہیں، ان کے نظریات بھی یہی بتا رہے ہیں۔ان کا اعتراف بھی یہی ہے۔ اسی کے مطابق قومی اسمبلی نے آئین میں ترمیم کرکے انہیں غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا جو عین انصاف ہے۔ جب سے یہ قانون بنا ہے اس وقت سے کوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح یہ قانون یا تو ختم ہوجائے یا اس میں اس طرح ترمیم کردی جائے کہ اس کی افادیت ختم ہوجائے۔ ستمبر کے موقع پر پوری امت مسلمہ خصوصا پاکستانی قوم یہ عہد کرے کہ ہم اس قانون کو تبدیل ہو نا تو دور کی بات ہے،اس میں ادنیٰ سی ترمیم بھی نہیں ہونے دیں گے۔
قادیانیوں کی حیثیت ملک میں بسنے والی دیگر اقلیتوں کی طرح نہیں ہے۔ قادیانیوں نے ختم نبوتؐ کے عقیدے پر شب خون مارا تھا۔ جس کی بنا پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمان نے بالاتفاق قادیانی ٹولے کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔ مشائخ عظام کا یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ قادیانیوں کی خفیہ اور اعلانیہ سرگرمیوں کا قلع قمع کیا جائے۔
حکومت یاد رکھے کہ قادیانیوں کے حوالے اور ختم نبوتؐ کے حوالے سے آئین پاکستان میں موجود متفقہ طے شدہ قوانین میں تبدیلی یا انہیں ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم اس کا راستہ روکیں گے اور اس سلسلہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ حرمت رسول کے حوالے سے بھی ملک کے قانون میں موجودہ دفعات کو کسی بھی طرح چھیڑا گیا تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے، جن کی تمام تر ذمہ داری حکمرانوں پر ہوگی۔
ملک میں ہونے والی قادیانیوں کی سرگرمیوں کا قلع قمع کیا جائے اورقادیانی منکر نبوتؐ ہیں اور ملکی آئین میں ان کو اقلیت تصور کیا گیا ہے۔ حکومت کا قادیانیوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے تاکہ قادیانیوں کے نیچے یہودو نصاری کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکے۔
(کالم نگارجماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر ہیں)
٭……٭……٭