تازہ تر ین

غیر معمولی سکیورٹی تدابیر

اکرام سہگل
ہو سکتا ہے کہ ہماری مغربی سرحدوں پر بگاڑ عارضی طور پررک جائے،لیکن پاکستان کے لیے نقصان دہ مختلف گروہوں کی ابھرتی ہوئی عداوتیں جاری رہیں گی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر غیر فعال ایکٹوسٹس کے ابھرنے کے خطرے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ہمیں مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں کے لیے ان کو روکنے کی اپنی قابل اعتماد صلاحیت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ ان دونوں محاذوں کے درمیان فرق ان کی خطرات کی نوعیت میں ہے۔ اس کے باوجود کہ بھارت نے ایک پلیٹ فارم کے طور پر افغانستان میں مختلف گروہوں کو چار دہائیوں پر مشتمل طویل پراکسی وار کے لیے استعمال کیا۔ جیسا کہ پہلے سوویت یونین 1980-1990 اور پھر امریکا 2000-2021، ہمارا مشرقی محاذ روایتی خطرے کے وسیع اور بھرپور میدان سے نمٹنے کی صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے۔
لہٰذا ہمیں اپنی سکیورٹی کی صلاحیت بڑھانے کے لیے صرف خطرناک اثرات کے سد باب ہی تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ مسلح افواج کی سرعت رفتار اور مستعدی کی از سر نو تنظیم/ اپ گریڈنگ کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امریکی تجربے کی روشنی میں کم از کم سپلائی اور لڑائی کے تناسب کو یقینی بنایا جائے۔ جو ہماری ایف سی اور رینجرز دونوں کی، ہمارے وجود کے لیے چیلنج بننے والے ممکنہ خطرات کو ختم کرنے کی صلاحیت کو کئی گنا بڑھائیں گے۔ ہمیں قانون نافذکرنے والے سویلین اداروں (ایل ای ایز) کی صلاحیت کو بھی لازمی طور پر مضبوط بنانا ہوگا۔ بشمول، جی ایچ کیو میں ملٹری سیکریٹری برانچ کی طرح پولیس کے لیے کیریئر پلاننگ، پوسٹنگز اور پروموشنز وغیرہ۔ اگرچہ یہ بین السطور پر بے معنی لگ رہا ہے، اس سے سیاست دانوں کو جوڑ توڑ کا موقع ملتا ہے اور مجرمانہ جاگیر داری نظام اس کی بدولت قائم رہتا ہے۔
علاقے کے جغرافیے کو دیکھیں تویہ سرحد کے آر پار ایک دوسرے سے بالکل مختلف آبادی کا مرکب بنا ہوا ہے، ایک دوسرے سے مختلف نوعیت کی مذہبی شدت پسندی پھیلی ہوئی ہے، وہ ایک دوسرے کے مخالف قوتوں والی صلاحیت کے حامل ہیں، اور اب افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بھی اس میں شامل ہو گیا ہے، لیکن اس کے باوجود کہ یہ جذباتی طور پر پرکشش ہے لیکن احتیاط بڑھانے کی ضرورت کو ہمیں اور تقویت دینی چاہیے۔ اگرچہ نیشنل ایکشن پلان سے متعلق زبانی کلامی بہت ساری باتیں ہوچکی ہیں لیکن اس کے باوجود اس کا پوری طرح سے اطلاق نہیں کیا گیا ہے۔ کچھ سیاسی ارادے کی کمی کے باعث دہشت گردوں کے سلیپر سیلز کو نظرانداز کیا گیا۔ یہ بہت آسانی کے ساتھ متحرک ہو سکتے ہیں جس کے نتائج ہمارے شہری علاقوں کی آبادی کے لیے الم ناک ہو سکتے ہیں۔ فطری اور فوری تشویش ناک چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں غیر معمولی اقدامات کی اشد ضرورت ہے، ذمہ دار اداروں کی بے عملی کا سبب ان کی فرائض سے مجرمانہ غفلت ہی ہوگی۔
ایف سی کے نئے ونگز کی تشکیل نہ صرف بارڈر سکیورٹی کو بڑھائے گی بلکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ملحقہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کو بھی قائم رکھے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ رینجرز کی انٹیلی جنس کی صلاحیت کو مزید تقویت دینے کی بھی ضرورت ہے، تاکہ پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں میں ممکنہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکا اور ختم کیا جا سکے۔ بدقسمتی سے مطلوبہ صلاحیت کے حصول کے لیے نئی بھرتیوں اور انہیں ٹریننگ دینے کا کوئی وقت نہیں ہے۔ چوں کہ مغربی محاذ پر کمانڈ اسٹرکچر پہلے سے موجود ہے، اس لیے موجودہ قوت کو دوگنا کرنے کے لیے چند اضافی ایف سی ونگز کی تشکیل سے اہم خُلا پر ہوجائے گا۔ جس طرح جنوب میں بلوچستان میں کیا گیا، ویسے ہی سندھ اور فاٹا کے لیے شمال میں ایک اور ایف سی ہیڈکوارٹرز بنانا چاہیے۔ اندرونی سکیورٹی کے لیے لا انفورسمنٹ ایجنسیز کے لیے ضروری تعمیرات ہونی چاہئیں، صرف رینجرز ہی کے لیے نہیں، بلکہ پولیس اور نچلی عدلیہ کے لیے بھی (مثلاً تمام پولیس تھانوں میں چوبیس گھنٹے دستیاب مجسٹریٹس کے لیے)۔
ایک حقیقت جو عام طورپر ڈھکی رہتی ہے، یہ ہے کہ ہمارے فوجی جوان بہت جلدی یعنی تیس سال کے درمیان یا چالیس سال کے شروع میں ریٹائر ہو جاتے ہیں، جب کہ میجر رینک کے افسران چالیس سال کے درمیان میں ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔ سویلین سیکٹر میں تقریباً ہر کسی کو ملازمت درکار ہوتی ہے، اور مارکیٹ اتنی بڑی اور وسیع نہیں ہے کہ اتنی تعداد میں ریٹائرڈ ہونے والوں کو کھپایا جا سکے۔ تربیت یافتہ افرادی قوت کے اتنے بڑے ذخیرے کو، درکار اضافی ایف سی ونگز اور ایل ای ایز کی تشکیل کے لیے نہایت آسانی کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ریٹائر ہونے والوں کو آپشن دیا جا سکتا ہے کہ وہ ایف سی یا ایل ای ایز کے لیے 55 سال کی عمر تک (حتیٰ کہ 58 سال) اپنی ملازمت جاری رکھ سکتے ہیں۔ ان افراد کے لیے یہ آپشن بہت پُرکشش ہوگی کیوں کہ انہیں زندگی کے اہم موڑ پر بے آسرا کیا جاتا ہے، اور انہیں نیا کیریئر شروع کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس اسکیم کے تحت ان افراد کو ان کے اپنے صوبے اور اضلاع میں کھپا دیا جائے تو یہ آپشن ان کے لیے اور بھی پرکشش ہو جائے گا۔ اگلا مرحلہ ان لوگوں کی ٹریننگ کو تمام تین سروسز سے نئی ملازمت میں بدلوانے کا ہوگا۔ اس ملازمت کے لیے نارمل پیادہ فوج یا مشینوں سے لیس انفینٹری کے ایف سی یا رینجرز کو کسی ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انجینئرنگ اور سگنلز وغیرہ کے فوجی دستوں سے ریٹائرڈ اسپیشلسٹ آسانی سے اسپیشلسٹس کی ملازمتیں سنبھال سکتے ہیں۔ انسداد بغاوت اور انسداد دہشت گردی کے تجربے کی وجہ سے مطلوبہ تجربے سے لیس پہلے ہی سے تربیت یافتہ افرادی قوت کی مرکب صلاحیت بلاشبہ انمول ہے۔ مقامی عدالت یا تفتیشی پولیس کی پوسٹوں کے لیے دو سے تین ماہ کے شارٹ کورسز کی ضرورت ہوگی، جو اس تربیت کے حصول کے لیے کافی ہوں گے۔ اس کے لیے کم سے کم اخراجات درکار ہوں گے، اور نئی بھرتیوں اور ان کی ٹریننگ کے لیے درکار وسیع اخراجات کی بچت ہوگی۔
اس سے ایک اور بڑا مسئلہ حل ہو سکے گا۔ پاکستان کے لیے دفاع سے متعلق اخراجات بے انتہا بڑھ چکے ہیں۔ میرے آرٹیکل پنشن بم کی ٹک ٹک (مطبوعہ 16 اکتوبر 2020) میں پنشن کے اخراجات کے بڑے مسئلے کے حل کی طرف اشارے کیے گئے ہیں، جو اس وقت 470 ارب روپے ہو چکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مقاصد کے لیے یہ اخراجات جتنے بھی بتائے جائیں، سوال یہ ہے کہ مستقبل قریب میں ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے آمدن کے ذرائع کیا ہیں؟ پنشن فنڈ کو خود انحصار بنانے کے منصوبوں کے لیے جہاں ایک الگ اور تفصیلی اسٹڈی کی ضرورت ہے، وہاں ہمیں اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا، بالخصوص مغربی محاذ پر۔ ان رکاوٹوں کے باوجود آج کے چیلنجز سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔
اس سیٹ اپ کی آپریشنل صلاحیت کو بڑھانے کے لیے، ہمارے پاس کراسنگ پوائنٹس اور خاردار سرحد (ایک اچھی طرح تیار شدہ آئیڈیا) کی الیکٹرانک کوریج کے ذریعے معلومات فوری جمع کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ الیکٹرانکس کے ذریعے خفیہ معلومات اکٹھا کرنا کم خرچ ہو چکا ہے، جس کے لیے مقامی انڈسٹری کام آ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ انسانی انٹیلی جنس بھی جوڑی جا سکتی ہے، جس کے عملے کی اچھی خاصی تعداد دستیاب ہے، جو سرحدوں اور شہروں دونوں کو گہرائی میں کور کر سکتے ہیں۔ ہیومن انٹیلی جنس کے لیے جدید مہارتوں اور اچھی عمارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
مجوزہ اقدامات اگر بروقت اٹھائے جاتے ہیں تو اس سے سرحدوں کی حفاظت کا ہمارا عزم منعکس ہوگا۔ اس سے پاکستان مخالف قوتوں کی کارروائیاں رک جائیں گی، جو مغربی سرحدوں کے پار سے تاحال اپنے نیٹ ورکس چلا رہی ہیں۔ پہلے ہی سے تربیت یافتہ افرادی قوت نئی قوت کھڑی کرنے کے مقابلے میں باکفایت اور سستی ہوگی، جو کہ وقت اور لاگت دونوں کے حساب سے استطاعت سے باہر کا آپشن ہے۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain