تازہ تر ین

7ستمبر یوم ختم نبوتؐ اور جماعت اسلامی کا کردار

محمد جاوید قصوری
قرآن و سنت کے واضح نصوص میں دین اسلام میں عقیدہ توحیدکے بعد دوسرا اہم اور بنیادی عقیدہ ختم نبوتؐ کاہے، پہلی امتوں کے لیے اس بات پر ایمان لانا لازم تھا کہ ان کے انبیا ورسل علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد اور نبی ورسول آئیں گے اور اس امت کے لیے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی اور نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی پیدا ہوگا وہ امتی کہلائے گا لیکن نبی نہیں بن سکتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں اور اس کا ذکر بھی قرآن مجید میں سورہئ ”احزاب“ میں واضح طورپر موجود ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں البتہ اللہ تعالی کے رسول اور آخری نبی ہیں۔در حقیقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوتؐ اس امت پر پروردگار کریم کا احسان عظیم ہے کہ اس عقیدے ختم نبوت نے اس امت کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا ہے۔ پوری دنیا میں آج مسلمان عقائد وعبادات، احکامات اور ارکان دین کے لحاظ سے جو متفق ہیں وہ صرف اسی عقیدہ کی برکت ہے۔ دنیا ئے کفر شروع سے ہی اس عقیدہ میں دراڑیں ڈالنے میں مصروف ہے تاکہ دین اسلام کی عالمگیریت اور مقبولیت میں رکاوٹ کھڑی کی جاسکے اور کسی طرح اس کے ماننے والوں کے ایمان کو متزلزل کیا جاسکے۔ان سازشوں کا سلسلہ دور نبوتؐ میں مسلمہ کذاب اور اسود عنسی سے شروع ہوا اور فتنہ قادیانیت تک آن پہنچا۔فتنہ قادیانیت کا آغاز ہندوستان کے ایک قصبہ قادیان سے ہوا اس کا بانی انگریز کا خود ساختہ ایجنٹ مرزا غلام احمد قادیانی تھا جس نے انگریز رؤسا کو خوش کرنے کیلئے کبھی خدائی کا دعویٰ کیا تو کبھی (نعوذباللہ)نبوت کااعلان کیا، کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے آپ کو افضل کہا اور کبھی سب انبیا ورسل علیہم الصلوۃ والسلام سے افضل ہونے کا دعوی کیا، کبھی مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا تو کبھی تذکرہ نامی کتاب کو قرآن مجید (نعوذباللہ)سے افضل قراردیا، کبھی قادیان حاضری کو حج وعمرہ سے افضل کہا تو کبھی اپنے گھر والوں اور ماننے والوں کو صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے افضل قراردیا، حتی کہ اپنی بیویوں کو امہات المومنین اور ماننے والوں کو صحابہ قرار دیا (نعوذ باللہ)، پہلی تحریک1953 میں امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری رحم اللہ علیہ کی قیادت میں قادیانیت کے خلاف تحریک چلی۔ اس تحریک میں مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودی،مولانامفتی محمود، مولانا خواجہ خان محمد، آغا شورش کشمیری، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستار خان نیازی، علامہ احسان الہی ظہیر، مولانا عبدالقادر روپڑی، نوابزادہ نصراللہ، مظفر علی شمسی اور دیگر اہم راہنما شامل تھے، حکومت تحریک کے آگے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہوگئی۔ قومی اسمبلی میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوتؐ کی نمایندگی مولانا مفتی محمود،مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد، چودھری ظہور الٰہی مرحوم اور دیگر کررہے تھے۔مجاہد ملت جناب قاضی حسین احمد نے اس حوالے سے مجاہدانہ کردار ادا کیا۔
مجاہد ختم نبوت و بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے آسان اور عام فہم انداز میں بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو عقیدہ ختم نبوت کو دل نشین طریقے سے پیش کیا اور مسلمانوں کو اس بات پر تیار کیا کہ حضور اکرمؐ کی ختم نبوتؐ سے بڑھ کر کوئی اور عبادت نہیں ہوسکتی۔ خاص طور پر تعلیمی اداروں کے طلبا کو اپنی تحریروں کے ذریعے تحفظ ختم نبوت کے لیے تیار کیا۔ سید مودودی نے قادیانی مسئلہ نامی کتابچے کو پورے دلائل اور براہین سے تحریر کیا،اس تحریر کے ذریعے قادیانیت،مرزائیت کا زہر بے نقاب ہوا اور اسی جرم کی پاداش میں سید مودودی کو سزائے موت سنائی گئی اورقادیانیوں کے خلاف ایک ایسی ملک گیر تحریک چلی جس نے اقتدار کے ایوانوں کو ہلاکر رکھ دیا۔
اس تحریک کے عینی شاہد مجاہد ختم نبوت جناب لیاقت بلوچ کہتے ہیں کہ ” طلبہ کے جلسے عوامی رنگ پکڑتے گئے، یہ معاملہ رفتہ رفتہ حکومت اور انتظامیہ کے لیے درد سرکا باعث بن گیا۔اس کے بعد اللہ کی خاص مہربانی اور حکمت سے تمام دینی جماعتیں،تمام اکابرعلما اس تحریک میں شامل ہوگئے اوراس تحریک کی قیادت سنبھالی اور معاملہ قومی اسمبلی میں پہنچ گیا۔ مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی،مولانا عبدالحکیم،پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی، صاحبزادہ صفی اللہ اور دیگر ارکان اسمبلی نے مجاہدانہ کردار سے اٹارنی جنرل یحیی بختیاراور ذوالفقار علی بھٹو کو قائل کرلیا۔ قادیانیت پسپا ہوگئی اور بالآخرعلما اور مولانا سید ابوا اعلی مودودی کی علمی کوششوں سے تیار کردہ 1973 کے آئین میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کی شکل میں فتنہ قادیانیت کی آئینی اور قانونی محاذ پر بیخ کنی ہوگئی۔”
وزیر اعظم پہلے ہی فیصلے کے لیے 7ستمبر کی تاریخ طے کرچکے تھے،چنانچہ 7ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں اور آئین میں ترمیمی بل پیش کیاگیا۔ وزیر قانون نے اس پر مختصر روشنی ڈالی، اس کے بعد وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم نے تقریر کی۔ تقریر کے بعد بل کی خواندگی کا مرحلہ شروع ہوا اور وزیر قانون نے بل منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کردیا، تاکہ ہر رکن قومی اسمبلی اس پر تائید یا مخالفت میں رائے دئے۔ رائے شماری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے پانچ بج کر باون منٹ پر اعلان کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کے حق میں ایک سو تیس ووٹ آئے ہیں، جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا، اس طرح قومی اسمبلی میں یہ آئینی ترمیمی اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔
زندہ قومیں اس طرح کے تاریخ ساز اور تابناک ایام و لمحات کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں، بلکہ زندہ بھی رکھتی ہیں،مگر یہ دن آتا ہے اور گز ر جاتا ہے کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کتنا اہم اور عظیم دن گزرگیا اور ہم سے مطالبہ کرگیا۔ یہ ہماری اجتماعی اور قومی بے حسی کی علامت ہے۔7 ستمبر 1974 کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے قادیانیوں کو متفقہ طور پر آئین میں ترمیم کرتے ہوئے غیر مسلم اقلیت قرار دیاگیا۔
امت مسلمہ کا مطالبہ یہی ہے کہ جب قادیانی ہر اعتبار سے مسلمانوں سے علیحدہ ہیں خود انہیں بھی اس کا اعتراف ہے تو وہ اسلام اور مسلمانوں کا نام استعمال کرنا چھوڑدیں اور اسلام و مسلمان کا نام استعمال کرکے نہ مسلمانوں کی شناخت پر ڈاکہ ڈالیں، نہ ان کے حقوق چھینیں، بلکہ جب تمہارا مذہب جدا، تمہاری ہر چیز مسلمانوں سے جدا تو اپنا نام بھی الگ رکھیں۔ حیرت ہوتی ہے اتنے واضح اور صاف معاملے کے باوجود قادیانیوں کو کوئی نہیں کہتا کہ تم اسلام کا نام استعمال کرکے مسلمانوں کے مذہب و حقوق پر کیوں ڈاکہ ڈالتے ہو؟ الٹا مسلمانوں کو ہی موردالزام ٹہرایا جاتا ہے۔یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ مسلمانوں سے تو کہا جاتا ہے کہ تم مرزائیوں کو کافر کیوں کہتے ہو، ان سے یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ اربوں مسلمانوں کوتم کافرکیوں کہتے ہو، صرف کافر ہی نہیں، جہنمی، ولدالحرام اور نہ جانے کیا کیا خرافات بکتے ہو۔قصہ مختصر یہ ہے کہ قادیانی مسلمانوں سے علیحدہ قوم ہیں، ان کے نظریات بھی یہی بتا رہے ہیں۔ان کا اعتراف بھی یہی ہے۔ اسی کے مطابق قومی اسمبلی نے آئین میں ترمیم کرکے انہیں غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا جو عین انصاف ہے۔ جب سے یہ قانون بنا ہے اس وقت سے کوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح یہ قانون یا تو ختم ہوجائے یا اس میں اس طرح ترمیم کردی جائے کہ اس کی افادیت ختم ہوجائے۔ ستمبر کے موقع پر پوری امت مسلمہ خصوصا پاکستانی قوم یہ عہد کرے کہ ہم اس قانون کو تبدیل ہو نا تو دور کی بات ہے،اس میں ادنیٰ سی ترمیم بھی نہیں ہونے دیں گے۔
قادیانیوں کی حیثیت ملک میں بسنے والی دیگر اقلیتوں کی طرح نہیں ہے۔ قادیانیوں نے ختم نبوتؐ کے عقیدے پر شب خون مارا تھا۔ جس کی بنا پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمان نے بالاتفاق قادیانی ٹولے کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔ مشائخ عظام کا یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ قادیانیوں کی خفیہ اور اعلانیہ سرگرمیوں کا قلع قمع کیا جائے۔
حکومت یاد رکھے کہ قادیانیوں کے حوالے اور ختم نبوتؐ کے حوالے سے آئین پاکستان میں موجود متفقہ طے شدہ قوانین میں تبدیلی یا انہیں ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم اس کا راستہ روکیں گے اور اس سلسلہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ حرمت رسول کے حوالے سے بھی ملک کے قانون میں موجودہ دفعات کو کسی بھی طرح چھیڑا گیا تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے، جن کی تمام تر ذمہ داری حکمرانوں پر ہوگی۔
ملک میں ہونے والی قادیانیوں کی سرگرمیوں کا قلع قمع کیا جائے اورقادیانی منکر نبوتؐ ہیں اور ملکی آئین میں ان کو اقلیت تصور کیا گیا ہے۔ حکومت کا قادیانیوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے تاکہ قادیانیوں کے نیچے یہودو نصاری کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکے۔
(کالم نگارجماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain