تازہ تر ین

پاک ٹی ہاؤس سے دامن اکیڈمی تک

میم سین بٹ
لاہور کے ادبی ٹھکانوں میں پاک ٹی ہاؤس سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے تقسیم ہند سے قبل اس کانام انڈیا ٹی ہاؤس ہوتا تھا۔آزادی کے ایک سال بعد وائی ایم سی اے کے غیرمسلم کرایہ دارکے شرنارتھی بن کر بھارت چلے جانے پر اس کی جگہ لینے والے مسلمان مہاجر دکاندار نے انڈیا ٹی ہاؤس کو مشرف بہ اسلام کرلیا تھا اس کی اولاد نے دو عشرے قبل پاک ٹی ہاؤس کے دروازے تین مرتبہ ادیبوں،شاعروں، دانشوروں پر بند کئے تھے بلکہ تیسری مرتبہ تو پاک ٹی ہاؤس کا پروپرائٹر اس کے حقوق کرایہ داری کپڑے کے تاجر کو فروخت کرکے خود بیرون ملک منتقل ہو گیا تھا اور کپڑے کے تاجر نے پاک ٹی ہاؤس کو گودام بنا لیا تھا جہاں ادیب،شاعر،دانشوربیٹھ کر چائے کی پیالی پر بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے وہاں برسوں کپڑے کے رنگ برنگے تھان پڑے رہے تھے یہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا آمرانہ دور تھا تیسری بندش پر ادیب،شاعر،دانشور بالکل ہی مایوس ہو گئے تھے لیکن ہمار ادل کہتا تھا کہ پاک ٹی ہاؤس ایک دن ضرور بحال ہو جائے گا۔
استادمحترم عطاء الحق قاسمی کی کوششوں سے بالآخر سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی جماعت کی پنجاب حکومت کے ذریعے نہ صرف پاک ٹی ہاؤس کو تعمیرومرمت اور تزئین و آرائش کے بعد بحال کروادیا تھا بلکہ اس اس کی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک بھی ہوئے تھے۔ اس موقع پر ہم نے نواز شریف کو اپنی تیسری کتاب ”لاہور۔شہر بے مثال“ پیش کی تھی بعدازاں حلقہ ارباب ذوق کے دونوں دھڑے بھی الحمراء ادبی بیٹھک اور ایوان اقبال سے پاک ٹی ہاؤس میں واپس آگئے تھے بلکہ انجمن ترقی پسند مصنفّین سمیت دیگر تنظیمیں بھی پاک ٹی ہاؤس کی گیلری میں ہفتہ وار اجلاس منعقد کرنے لگی تھیں تاہم گزشتہ برس کرونا وبا شروع ہونے کے بعد پاک ٹی ہاؤس میں ادبی سرگرمیاں بھی معطل ہو گئی تھیں اور تقریباََ ڈیڑھ سال سے حلقہ ارباب ذوق اور انجمن ترقی پسند مصنّفین کے ہفتہ واراجلاس واٹس ایپ گروپس میں آن لائن ہو رہے ہیں اور ادیب، شاعر،دانشور ایک دوسرے کی صورت دیکھنے اور پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر گپ شپ کرنے کو ترس گئے ہیں۔
ہم نے حلقہ ارباب ذوق کے سابق سیکرٹری عامر فرازکے ساتھ پاک ٹی ہاؤس میں ملاقات کا پروگرام تشکیل دیااور شہزاد فراموش کے ساتھ جب پاک ٹی ہاؤس پہنچے تو پتا چلا کہ کرونا ایس او پیز کے تحت اندر داخلہ بند ہے البتہ باہر فٹ پاتھ پر شہتوت کے پیڑ تلے تین میزیں اور دس کرسیاں رکھی ہوئی تھیں وہاں عملے کے دوارکان کے سوا کوئی تیسرا فرد موجود نہ تھا کرونا وائرس غالباََ صرف پاک ٹی ہاؤس کے اندر حملہ کرتا تھاہم دونوں بیٹھ کر عامرفراز کا انتظار کرنے لگے جنہیں ڈی ایچ اے سے آنے میں کچھ تاخیر ہو گئی شہزاد فراموش کو علامہ اقبال ٹاؤن پہنچنا تھا وہ تو رخصت ہو گئے اور ہم تنہا بیٹھے ماضی کی یادوں میں کھو گئے۔ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس پاک ٹی ہاؤس کی بالائی گیلری میں ہوا کرتے تھے اور اس زمانے میں عامر فراز،امجد طفیل،احمد فرید،زاہد حسن وغیرہ سیکرٹری رہے تھے،پاک ٹی ہاؤس کے اندر داخل ہوتے ہی پہلی میز کے گرد انتظار حسین، زاہد ڈار،مسعود اشعربیٹھے دکھائی دیتے تھے ان کے دائیں جانب ڈاکٹر انیس ناگی اور عقب میں صوفے پر اسرار زیدی خاموش بیٹھے ہوتے تھے پانچوں بزرگ ادیب دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔
تھوڑی دیربعد عامر فراز بھی آکر ہمارے ساتھ پاک ٹی ہاؤس اور حلقہ ارباب ذوق کی یادوں میں شریک ہو گئے۔جن دنوں پاک ٹی ہاؤس پہلی مرتبہ بند ہوا تھا تو سیکرٹری جاوید آفتاب کے ساتھ عامر فراز حلقے کے جائنٹ سیکرٹری تھے اس زمانے کا ایک گروپ فوٹو ہمارے پاس موجود ہے جس میں جاوید آفتاب اورعامرفراز دیگر دانشوروں کے ساتھ پاک ٹی ہاؤس کی بندش کیخلاف احتجاجی بینر تھامے اسی جگہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں جہاں اس وقت ہم دونوں بیٹھے یادیں تازہ کر رہے تھے۔ ہمیں یاد آیا جب ہفتہ وار تعطیل کے بہانے دوسری مرتبہ پاک ٹی ہاؤس کے دروازے دانشوروں پر بند کئے گئے تو اس وقت عامر فراز حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری تھے انہوں نے قریب ہی وائی ایم سی اے کے کمرے میں اتوار کو حلقے کے ہفتہ وار اجلاس کروانا شروع کردیئے تھے تاہم عامر فراز کے اسی دور میں حلقہ ارباب ذوق پاک ٹی ہاؤس میں واپس پہنچ گیاتھاکیونکہ وائی ایم سی اے کی انتظامیہ نے بھی ایڈوانس بکنگ بند کردی تھی اورایک اتوار کواجلاس میں شرکت کیلئے آنے والوں کوباہر کھڑا رہنا پڑا تھا پاک ٹی ہاؤس کی تیسری بندش کے وقت زاہد حسن سیکرٹری تھے اور سالانہ انتخابات کی پولنگ کے بعد نتائج کا اعلان ہونے پر پاک ٹی ہاؤس طویل عرصہ کیلئے بند کردیا گیاتھا۔
پاک ٹی ہاؤس کی چائے اور کولڈ ڈرنکس پی کردونوں ہم استاد دامن اکیڈمی پر جانے کیلئے ٹکسالی گیٹ چل دیئے،قدیمی مسجد سے ملحقہ چھوٹی اینٹو ں سے بنا استاد دامن کا حجرہ دیکھنے والے خود زمانہ قدیم میں پہنچ جاتے ہیں، روایت کے مطابق شہنشاہ اکبر کے دور میں شاہ حسین بھی اسی حجرے میں رہتے تھے استاد دامن نے بھی اپنی مجرد زندگی کا بیشتر زمانہ اسی حجرے میں بسرکیا تھا وہ اب شاہ حسین کے دربار پر ہی آسودہ خاک ہیں، استاد دامن اکیڈمی کے صدر محمد اقبال محمد ایڈووکیٹ اورچوہدری محمد انور حجرے میں موجود تھے، محمد اقبال محمد ایڈووکیٹ نے گپ شپ کے دوران انکشاف کیا کہ وہ بھی ماضی میں پاک ٹی ہاؤس جایا کرتے تھے حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوا کرتے تھے اس کے ساتھ ہی انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کے سابق سیکرٹری رشید مصباح (مرحوم) اور ان کے دوست یونس علی دلشاد (مرحوم) کا ذکر چھیڑ دیا جو ان کے زمانہ طالب علمی میں جناح اسلامیہ کامرس کالج میں بطور استاد پڑھایا بھی کرتے تھے ہم بھی دو عشرے پہلے پاک ٹی ہاؤس کی گیلری میں حلقے کی ہفتہ وار نشستوں کے دوران جوشیلے نقادوں کی جانب سے دوسروں کی تخلیقات پر تنقیدی گفتگو سنتے رہے تھے ہم نے رشید مصباح کا فیصل آباد جبکہ عامرفراز نے گوجرانوالہ کے حوالے سے ذکرکیانشست کے اختتام پر ہمارے سوال کے جواب میں محمد اقبال محمد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ وہ استاد دامن اکیڈمی کیلئے سرکاری گرانٹ نہیں لیتے حالانکہ سابق ڈی جی پی آر اورسابق سیکرٹری اطلاعات و ثقافت پنجاب شعیب بن عزیز نے انہیں خود پیشکش بھی کی تھی ہمیں خوشی ہوئی کہ محمد اقبال محمد ایڈووکیٹ ٹکسالی دروازے کے تاریخی حجرے والے شاہ حسین اور استاد دامن کی سرکار دربار سے فاصلے پر رہنے کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain