تازہ تر ین

کرپشن‘ مرض بڑھتا گیاجوں جوں دوا کی

ملک منظور احمد
تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کے عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے ایک وعدہ ملک سے کرپشن کے خاتمے کا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ انھوں نے 22 سال تک جد و جہد کی ہی ملک کو کرپشن سے پاک کرنے اور کرپٹ لوگوں کے خلاف کی ہے اور جیسے ہی وہ بر سر اقتدار آئیں گے ملک سے بڑی کرپشن کا خاتمہ 3ماہ کے اندر اندر کر دیا جائے گا اور یہی بات انہوں نے حالیہ دنوں میں بھی کی ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ 3ماہ میں کر دیا گیا تھا لیکن وزیراعظم کے دعوے تو اپنی جگہ پر ہیں لیکن اگر زمینی حقائق پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ کرپشن میں کمی نہیں آئی ہے بلکہ سرکاری اداروں کا حال تو پہلے سے بھی برا ہو گیا ہے۔ چاہیے بجلی کا میٹر لگوانا ہو یا پھر گیس کے محکمے سے کوئی کام پڑ جائے یا پھر پولیس سے واسطہ پڑے عوام کے جائز کام بھی کرپشن کے بغیر نہیں ہو تے ہیں اور عوام پہلے سے بھی زیادہ رل رہے ہیں۔
عالمی ادارے ایمنسٹی انٹر نیشنل کی جانب سے حالیہ دنوں میں دنیا میں کرپشن کے تاثر کے حوالے سے ایک فہرست کا اجراء کیا گیا جو کہ ہر سال کیا جاتا ہے اور اس سال بھی کیا گیا لیکن فرق یہ ہو ا کہ اس سال پاکستان کی رینکنگ میں ریکارڈ 16درجے کی تنزلی دیکھی گئی اور اس رپورٹ نے ملک کی سیاست میں ایک بھونچال سا بر پا کر دیا ہے۔اپوزیشن اس رپورٹ کو لے کر حکومت کو ہدف تنقید بنائے ہو ئے ہے تو دوسری طرف حکومت کے وزراء حزب معمول اس حوالے سے عجیب و غریب بیان بازی کرتے ہوئے پائے جارہے ہیں۔ وفاقی وزیر فواد چودھری نے پہلے تو اس رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ کا کوئی سر پیر نہیں ہے اور پھر اس کے بعد یہ مؤقف اپنایا کہ رپورٹ میں مالی کرپشن کی بات نہیں کی گئی ہے بلکہ رول آف لاء کی بات ہوئی ہے۔ بہرحال حکومتی وزراء نے اس رپورٹ کو ہر طرح سے بے معنی قرار دینے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کیا کیا جائے جیسا کہ کہا جاتا ہے یاد ماضی عذاب ہے یا رب میڈیا نے ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی ماضی کی رپورٹس کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے بیانا ت چلا چلا کر ان کو اس حوالے سے ان ہی کا ماضی کا مؤقف یاد دلوایا۔سمجھ نہیں آتا کہ کیا حکومتی اکابرین واقعی اپنی باتوں کو حقیقت مانتے ہیں یا پھر واقعی ان کا زمینی حقائق کے ساتھ کو ئی تعلق نہیں ہے۔کیا وہ اتنے ہی بے خبر ہیں یا پھر ان کو درحقیقت معلوم ہی نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ بہر حال اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس رپورٹ سے وزیر اعظم اور حکومت کے کرپشن کے بیانیہ کو بہت نقصان پہنچا ہے اور پہنچنا بھی تھا کیونکہ اب ان کو حکومت میں آئے ہوئے پونے چار سال کے قریب کا عرصہ گزر چکا ہے اور اتنے عرصے کے بعد بھی کسی سیاست دان سے کوئی ریکوری نہیں کی جاسکی ہے۔
سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر کی سربراہی میں قائم کیے جانے والا ایسٹ ریکوری یونٹ قومی خزانے سے 9کروڑ سے زائد رقم استعمال کرنے کے باوجودکچھ بھی ریکورنہیں کر سکا اور اب اس وقت شہزاد اکبر کا جانا ازخود حکومت کی ناکامی ہے لیکن بہرحال ذرائع بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم پرعزم ہیں، وہ الیکشن سے پہلے پہلے عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اس وعدے پر ڈلیور کیا ہے اور اسی وجہ سے شاید اب نئے مشیر احتساب مصدق عباسی کا تقرر کیا گیا ہے لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ اب شاید اس حوالے سے کافی دیر ہو چکی ہے اور اب وقت حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے جیسا کہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ اور حکومت کے اتحادی چودھری شجاعت حسین نے اس حوالے سے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ حکومت نواز شریف کو واپس لانے کی کوششوں کے بجائے اپنی گورننس پر توجہ دے اسی طرح اس کو عوامی پذیرائی مل سکتی ہے لیکن اس حکومت کے ماضی کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ایسا ہونا مشکل ہی نظر آتا ہے۔
اگر ملک میں گزشتہ ساڑھے تین سال سے ہونے والے احتساب کے عمل کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اپوزیشن کو ہی اس احتسابی عمل کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کچھ حکومتی ارکان بھی اس عمل کے نرغے میں آئیں ہیں لیکن زیادہ تر اپوزیشن کے رہنماؤں کو ہی نشانہ بنایا گیا اب تو حکومت کے چاہنے والے بھی کئی لو گ کہہ رہے ہیں کہ احسن اقبال،شاہد خا قان عباسی اورمفتاح اسماعیل جیسے رہنماؤں کے خلاف کمزور کیسز بنائے گئے اور اس طرح کے کاموں سے احتسابی عمل کو ہی نقصان پہنچا ہے۔ وزیراعظم ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کے نیچے کام کرنے والے سرکاری اداروں کا عوام کے ساتھ ایک استحصالی تعلق ہے جو کہ ان کے دور میں مزید بگڑ گیا ہے اور عوام اور زیادہ رل رہے ہیں،اپنی کمزوریوں کو سدھارنے کے لیے سب پہلا قدم ان کا اعتراف ہوتا ہے اگر تسلیم ہی نہ کیا جائے کہ کوئی مسئلہ موجود ہے تو اس کا حل تو پھر بڑی دور کی بات ہو گی۔موجوہ حکومت جتنی جلد ہی اس بات کو سمجھ لے ان کے لیے بہتر ہو گا اور غلطی کو تسلیم کرکے ہی بہتر انداز میں آگے بڑھنے کے راستے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain