اسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ نے نیب کی اپیل پر شریف برادران کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرلیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اصل ریفرنس ہمارے لیے متعلقہ ہے وہ کہاں ہے؟، تاریخیں ہمارے لیے بہت اہم ہیں نیب پیش کرے ، نیب کسی کو زندگی بھر ریفرنس کے نام پر ٹارچر نہیں کرسکتا، جب وہ اقتدار میں نہیں تھے تو اثر و رسوخ کیسے استعمال ہوا؟ جب یہ ریفرنس بنا تب اور جب نوازشریف ملک واپس آئے تب اقتدار کس کا تھا؟، نواز شریف کے وطن واپس آنے کے بعد یہ ریفرنس دوبارہ کھولنے میں کتنا وقت لگا؟ چیئرمین نیب کس طرح اثرورسوخ لیتا ہے؟ جسٹس مشیر عالم نے اپنے ریمارکس میں کہا ہمیں مطمئن کریں کہ اثرو رسوخ کا معاملہ کس طرح ہوا ؟۔ منگل کو جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور مظہر عالم خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ اصل ریفرنس ہمارے لیے متعلقہ ہے وہ ریفرنس کہاں ہے؟۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت عظمی کو بتایا کہ اصل ریفرنس نہیں مل سکا، وہ ریفرنس متعلقہ نہیں۔ جس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ جب ریفرنس ہی سامنے نہیں تو کیا سنیں؟ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ‘پٹیشن کیا ہے؟ سنائیں پھر دیکھتے ہیں۔ جس کے بعد نیب پراسیکیوٹر نے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کو پٹیشن پڑھ کر سنایا۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ جب کیس چل رہا تھا تو ملزم باہر چلے گئے تھے۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ ملزم خود گئے تھے یا انہیں جبرا بھجوایا گیا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اس وقت کے چیف ایگزیکٹو جنرل مشرف تھے، جنہوں نے ملزمان کو ملک سے باہر بھجوایا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ نیب کا کیس یہ ہے کہ اثرو رسوخ استعمال کرکے کیس ختم کرایا گیا۔ ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ جب یہ ریفرنس بنا تب اقتدار میں کون تھا؟ جب نوازشریف ملک میں واپس آئے تب اقتدار کس کا تھا؟ نواز شریف کے ملک واپس آنے کے بعد یہ ریفرنس دوبارہ کھولنے میں کتنا وقت لگا؟ اور ریفرنس فائل ہونے کے کتنے عرصے بعد اقتدار ملا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ریفرنس کھولنے میں لگ بھگ 9 ماہ لگے۔ جسٹس فائز عیسی نے استفسار کیا کہ جب ریفرنس بنا، جب ملزمان واپس آئے اور جب وہ اقتدار میں نہیں تھے تو اثرو رسوخ کیسے استعمال ہوا؟ ساتھ ہی انہوں نے ریمارکس دیئے کہ بہتر ہے کہ نیب ایک چارٹ بناکر پیش کرے جس میں تاریخیں لکھے، ‘تاریخیں ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت عظمی کو آگاہ کیا کہ 2014 میں اثر و رسوخ استعمال کرکے ریفرنس بند کرایا گیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ ملزمان اقتدار میں نہیں تھے تو اثرو رسوخ استعمال کیسے ہوگیا؟ جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ ‘آپ کسی کو زندگی بھر ریفرنس کے نام پر ٹارچر نہیں کرسکتے، ریفرنس کو طویل عرصہ تک زیر التوا نہیں رکھا جا سکتا، آپ سمجھتے ہیں ہم اپیل پر ابھی حکم جاری کر دیں گے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کتنے دن میں ریفرنس پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ 30 دن میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے حدیبیہ ریفرنس سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ جب سے ریفرنس فائل ہوا، ملزمان باہر گئے تو ٹرائل کورٹ نے کیا کارروائی کی؟ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی بتایا جائے کہ چیئرمین نیب کس طرح اثرو رسوخ لیتا ہے؟ جسٹس مشیر عالم نے اس موقع پر کہا کہ ہمیں مطمئن کریں کہ اثرو رسوخ کا معاملہ کس طرح ہوا؟ ساتھ ہی تاریخ وار کیس کی کارروائی سے متعلق آگاہ کیا جائے۔ جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق ریفرنس کی بات جے آئی ٹی کے کس والیم میں کی گئی، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ والیم 8 میں حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کے بارے سفارشات دی گئی ہیں جس پر عدالت نے رجسٹرار آفس سے والیم 8 اور والیم 8 اے منگوالیا۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ حدیبیہ پیپرز مل کے اصل ریفرنس کی دستاویزات دیکھنا چاہتے ہیں، عمران الحق کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کے لیے اکنامک ریفارمز ایکٹ کا سہارا لیاگیا اور منی لانڈرنگ کے لیے جعلی فارن کرنسی اکانٹ کھولے گئے جب کہ ملزمان کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے کارروائی روک دی گئی تھی۔ جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ حدیبیہ کا ریفرنس کہاں ہے، جس پر وکیل نیب کا کہنا تھا کہ پاناما کے مقدمہ کے بعد اپیل دائر کی۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ حدیبیہ ریفرنس پر دلائل دیں، نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ حدیبیہ ریفرنس پر میری مکمل تیاری نہیں ہے تاہم حدیبیہ پیپر ملز 1999 تک خسارے میں چل رہی تھی، اس وقت کمپنی کے ڈائریکٹرز کے پاس بہت بڑی رقم تھی۔ سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب سے تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے احتساب عدالت کی کورٹ ڈائری اور اس وقت کے چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار بھی طلب کرلیا۔ عدالت نے نیب کی جانب سے دستاویزات پیش کرنے کے لئے 4 ہفتوں کی مہلت کی استدعا مسترد اور کیس کی مزید سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کردی۔